1886ء میں شکاگو کے مزدور کام کے اوقات کار اور ہفتہ وار چھٹی جیسے بنیادی مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے تھے جب سرمایہ داروں کے ایما پر پولیس نے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے انہیں شہید کر دیا۔ محنت کشوں اور سرمایہ دار طبقے کی یہ جنگ اس کے بعد سے مسلسل جا ری ہے۔ ایک لمبے عرصے کی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد محنت کشوں نے اپنے لیے بہت سے بنیادی حقوق چھین کر حاصل کیے۔ جن میں آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کار، ہفتہ وار چھٹی، کم از کم اجرت کا تعین، روزگار کا تحفظ، سوشل سکیورٹی، علاج کی سہولت، پنشن اور دیگر ضروریات شامل ہیں۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں یہ حقوق حاصل کرنے کے لیے لاکھوں محنت کشوں نے قربانیاں دیں اور سرمایہ دار طبقے کے مظالم اور استحصال کے خلاف تحریکیں اور انقلابات برپا کیے۔ اس میں سب سے اہم 1917ء میں روس میں بالشویک پارٹی کی قیادت میں برپا ہونے والا سوشلسٹ انقلاب تھا۔ جس کے اب سو سال گزر چکے ہیں۔ اس انقلاب کے ذریعے محنت کش طبقے نے سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کیا اور دولت مند افراد کی عوام پر حاکمیت کے صدیوں پرانے طبقاتی نظام کو اکھاڑ کر غیر طبقاتی نظام کی بنیاد رکھی۔ اس انقلاب کے بعد روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم سمیت تمام بنیادی سہولیات ہر شخص کو فراہم کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری قرار پایا۔ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے منڈی کی معیشت کا خاتمہ کیا گیا اور تمام صنعت و تجارت اور بینکوں پر مزدور ریاست کا مکمل کنٹرول قائم کیا گیا۔ غربت، محرومی اور استحصال کا مکمل خاتمہ کیا گیااور انسان کی انسان سے لڑائی کے نظام کودفن کر کے تسخیر کائنات کے عمل کا آغاز کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے خلا میں پہلا شخص بھی اسی سوویت یونین سے بھیجا گیا جو ایک پسماندہ ملک کی سائنس اور تکنیک کے میدان میں تیزی ترین بڑھوتری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایسا صرف منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ محنت کش طبقے کی اس کامیابی سے متاثر ہو کر پوری دنیا میں تحریکیں اور انقلابات ابھرے جس میں مزدوروں نے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے کی کوشش کی۔ اس لازوال جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود درست قیادت نہ ہونے کے باعث دنیا بھر سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ تو نہ کیا جا سکا لیکن محنت کش کام کے بہتر حالات اور روزگار کے بہتر مواقع حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث روس کی مزدور ریاست کو مسخ کیا گیا اور وہاں مزدور جمہوریت کی بجائے بیوروکریٹک طرز حکمرانی مسلط کر دیا گیا۔ انقلاب کے قائدین لینن اور ٹراٹسکی نے اس مہلک خطرے کی نشاندہی کی تھی اور اسے مزدور ریاست کے لیے زہر قاتل قرار دیا تھا۔ سٹالنسٹ پالیسیوں کے تسلسل کا انجام سوویت یونین کے انہدام کی شکل میں نکلا۔ اس کے بعد سرمایہ داروں نے پوری دنیا میں محنت کش طبقے پر دوبارہ بد ترین حملوں کا آغاز کر دیا اور وہ حقوق جو ایک لمبے عرصے کی جدوجہد کے ذریعے حاصل کیے گئے تھے انہیں واپس سلب کرنا شروع کیا گیا۔ پاکستان میں بھی اس عرصے میں نجکاری، چھانٹیوں اور برطرفیوں کے عمل کا آغاز کیا گیا۔ مزدور یونینوں پر بد ترین حملے کیے گئے اورصنعتوں میں ٹھیکیداری نظام رائج کیا گیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں آج تین دہائیوں بعد مزدور تحریک بد ترین بحران کا شکار ہے۔ لاکھوں محنت کشوں کو نوکریوں سے برطرف کیا جا چکا ہے جو آج انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کار ماضی کا قصہ بن چکے ہیں اور نجی صنعتوں سے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیوں تک بارہ سے سولہ گھنٹے تک روزانہ کام لیا جاتا ہے۔ ہفتہ وار چھٹی کا حق بھی بڑے پیمانے پر ختم کیا جا چکا ہے۔ روزگار کا تحفظ ختم ہو چکا ہے اور کسی بھی وقت کسی مزدور کو نوکری سے نکالا جا سکتا ہے۔ کسی بھی ادارے میں یونین بنانا گناہ کبیرہ بنا دیا گیا ہے اور ایسی کسی کوشش کو سرمایہ داروں، ریاستی اداروں بشمول لیبر ڈیپارٹمنٹ اور غنڈوں کے ذریعے خون میں ڈبونے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ محنت کشوں کی آواز کو اس حد تک دبایا گیا ہے کہ وہ انتہائی جان لیوا حالات میں بھی انتہائی کم اجرت پر بھی کام کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اسی باعث صنعتی حادثات کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ فیکٹریوں میں بوائلر پھٹنے یا دیگر وجوہات کی بنا پر آگ لگنے سے جل کر ہلاک یا زخمی ہونے والے مزدوروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح دیگر حادثات کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے جن کی سرمایہ داروں کے بکاؤ میڈیا میں رپورٹنگ شجر ممنوعہ ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ داروں اور ریاستی اداروں کا بھی مزدوروں پر بد ترین جبر اور استحصال بڑھتا جا رہا ہے جبکہ حکمران آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کے ایما پر نجکاری اور ٹھیکیداری جیسی پالیسیوں کو زیادہ شدت سے مسلط کرتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سال جب پی آئی اے کے محنت کشوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی تو ان پر ریاستی اداروں نے گولی چلا دی جس سے دو محنت کش شہید ہو گئے۔ اس ساری صورتحال میں کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو محنت کشوں کے حقوق کی آواز بلند کر رہی ہو یا ان کے مفادات کی ترجمانی کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ تمام سیاسی پارٹیاں سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی لونڈیاں بن چکی ہیں اور ریاستی وسامراجی طاقتوں کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔ مختلف نجی اور سرکاری اداروں کے محنت کشوں کی تحریکیں آج ملک بھر میں بکھری ہوئی ہیں لیکن نظریاتی بنیادوں کے فقدان اور سیاسی پلیٹ فارم نہ ہونے کے باعث وہ یکجا نہیں ہو پارہی۔ آنے والا وقت انہیں مزید شدت سے ابھارنے اور جوڑنے کی طرف جائے گا۔
ایسے میں یہ یوم مئی محنت کش طبقے سے سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کے لیے تجدید عہد کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ سفر جس کا آغاز شکاگو کے شہیدوں نے کیا تھا وہ ابھی تک ادھورا ہے۔ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ صدی کے تجربات نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو یہی سکھایا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ان کی نجات ممکن نہیں۔ اگر وہ بہت بڑی قربانیوں کے بعد کچھ حاصلات لینے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو بھی سرمایہ دار موقع ملتے ہیں انہیں واپس سلب کر لیں گے۔ اس تمام ظلم و استحصال سے نجات کا واحد رستہ اس طبقاتی نظام کا خاتمہ ہے۔ جس میں محنت کشوں کے خون اور پسینے سے پیدا کی گئی دولت کو سرمایہ دار لوٹ لیتے ہیں اور ساری زندگی دن رات محنت کرنے کے بعد بھی محنت کش دو وقت کی روٹی پوری نہیں کر پاتا۔ آج ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہماری منزل اس لوٹ مار کے نظام کا مکمل خاتمہ ہے۔ اس کی جگہ ہم نے ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں کوئی کسی کی محنت کو لوٹ نہ سکے، کسی پر ظلم نہ کر سکے، کسی کا استحصال نہ کر سکے، امیر اور غریب کی تفریق ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ ایسا صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے جو تمام محنت کشوں کی نجات کا واحد ذریعہ ہے۔