|تحریر: علی عیسیٰ|
عرصہ دراز سے مملکت خداد میں آئے روز انتہائی ناخوشگوار اور انسانیت سوز سانحات کی خبریں ہی سننے کو مل رہی ہیں۔ رواں ماہ جہاں ایک طرف مین سٹریم میڈیا حکمران طبقے کی آپسی لڑائی کا سرکس دکھانے میں مشغول تھا، جس میں سٹیج پر آئے روز کوئی نیا ناٹک دیکھنے کو ملتا رہا جو جھوٹ، فریب اور مکر سے بھرپور تھے، وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر دیگر بحثیں بھی جاری تھیں، جن میں بلوچستان میں پاک افغان بارڈر پر غیر رسمی روزگار سے منسلک ڈرائیوروں کا ریاستی قتل، ان کو صحرا میں بے یارو مددگار مرنے کیلئے چھوڑ دینے جیسا غیر انسانی سلوک، اور احتجاج کرنے پر فائرنگ؛ ساگر گوپانگ نامی نوجوان آرٹسٹ کی بیروزگاری کے سبب خودکشی؛ ساحل نامی نوجوان کا قتل شامل تھے۔
یہ زخم ابھی تر و تازہ ہی تھے کہ سندھ کے شہر میھڑ کے قریب ایک گاؤں فیض محمد چانڈیو میں خوفناک آتش زدگی کا سانحہ پیش آیا۔ گاؤں میں لگنے والی یہ آگ تقریباً 18 سے 20 گھنٹے تک جاری رہی اور آٹھ فائر فائٹنگ گاڑیاں موجود ہونے کے باوجود آگ بجھانا تو درکنار موقع پر کوئی بھی سرکاری اہلکار بھی نہ پہنچا۔ جس کے سبب 8 ننھے بچوں سمیت 9 افراد ہلاک ہوئے، 100 سے زائد گھر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے، ہزاروں من گندم و اناج کی بربادی سمیت سینکڑوں بے زبان جانور جل گئے۔ آگ میں جھلس کر معصوم جانوں کا راکھ میں بدل جانے کا درد تو ناقابل بیان ہے پر بے زبان جانوروں کے جلنے کا تصور بھی خوفناک حد تک کسی دوزخ کی تصویر سے مختلف نہیں ہے۔ کم از کم اس سانحے کے چار دن بعد علاقائی وزراء جائے وقوعہ پر پہنچے اور روایتی بیان بازی کے سوا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ چند چار پائیوں اور روپوں کا اعلان کر کے چلے گئے۔
حکمرانوں کی عمومی انسان دشمن سوچ اور سرمایہ دارانہ نظام کی انسان دشمن اخلاقیات ان اعلانات سے واضح ہو جاتی ہے۔ یہ اعلانات حکمران طبقے کی ذہنیت کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک محنت کشوں کی زندگیوں کی قیمت چند ٹکوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس واقعے نے پیپلز پارٹی کا عوام دشمن چہرہ ایک بار پھر عیاں کیا ہے اور اس کے خلاف موجود عوامی نفرت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اگرچہ بروقت سہولیاتفراہم کر کے تمام تر نقصانات سے بچا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اگ ایسا کوئی حادثہ ڈی ایچ اے یا بحریہ ٹاؤن میں رونما ہوتا تو چند منٹوں میں اس پر قابو پا لیا جاتا، لیکن چونکہ یہ غریب کسانوں اور محنت کشوں کا گاؤں تھا جہاں جھلسنے والے بھی محنت کشوں کے بچے تھے جس کا غم یہ حکمران کبھی محسوس کر ہی نہیں سکتے، لہٰذا کچھ نہ کیا گیا۔
اسی طرح بھاگ چند کا قتل ہو یا ناظم جوکھیو کا، ان کے قاتلوں کو مکمل تحفظ پیپلز پارٹی ہی فراہم کرتی ہے۔ حالیہ دنوں میں جہاں یہ واقعات پیپلز پارٹی کی عوام دشمنی کا کھل کر اظہار کررہے ہیں، وہیں نام نہاد لبرل اور گلابی لیفٹ کی جانب سے پیپلز پارٹی کی ثنا خوانی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ واقعات ان تمام نام نہاد ”انقلابیوں“ کے منہ پر طمانچہ ہیں جو پیپلز پارٹی کو جمہوریت کی چیمپئین بنا کر پیش کرتے ہیں۔ تو لبرلوں، قوم پرستوں، نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں اور گلابی انقلابیوں کا اس سے بڑھ کر اور کیا احمقانہ عمل ہوگا کہ اس پیپلز پارٹی سے امید لگائے بیٹھے ہیں جو عوام کو فائر بریگیڈ تک دینے سے قاصر ہے۔ جن کی بے حسی و نااہلی کے سبب سندھ کے ہسپتالوں میں ایمبولنس اور دیگر بنیادی طبی سہولیات میسر نہیں۔ یہ جعلی لیفٹ، موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی اسمبلی میں پہلی تقریر اور نام نہاد جمہوریت کے فاتحین کے بیانات کا حوالہ دیتے نہیں تھکتے اور سندھ میں مولانا راشد محمود سومرو کو ایک انقلابی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ آج یہ سب کے سامنے عیاں ہو چکا ہے کہ سندھ میں جب انسان جل کر راکھ ہو رہے تھے تو اسی وقت مولانا فضل رحمان صدارت نہ ملنے کی دکھ میں آنسو بہا رہا تھا۔
دراصل یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان وظیفہ خوار دانشوروں کی اپوزیشن لیڈران کی ثنا خوانی درحقیقت حکمران طبقے کے ایک گروہ کی حمایت کرنا ہے، جن کی پوری تاریخ مزدور دشمن پالیسیاں لاگو کرنے سے بھری پڑی ہے۔ حقیقت میں حالیہ تقریریں حکمران طبقے کے آپسی تضادات میں شدت آنے کی وجہ سے منظر عام پر آ رہی ہیں۔ لہٰذا نام نہاد جمہوریت کی بحالی کے پیچھے درحقیقت حکمران طبقے کے ہی مفادات چھپے ہوئے ہیں۔ عظیم مارکسی استاد لینن کے مطابق ”سرمایہ داری میں حقیقی جمہوریت کسی لبرل کے مکارانہ نعرے کے سوا کچھ نہیں“۔ اس کی بہترین مثال پاکستان کی مزدور دشمن جماعتوں کی موجودہ پوزیشن ہے۔ جہاں جمہوریت کی فتح کا نعرہ لگاتے ہوئے پھر سے آئی ایم ایف کی مزدور دشمن شرائط کو پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ لاگو کیے جانے کا عمل جاری ہے۔
ان تمام تر واقعات سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ لبرلوں کے ”چی گویرا“ بلاول بھٹو کی جماعت اور دیگر روایتی قیادت کا کردار قطعی طور پر محنت کشوں کی طرف دوستانہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ جمہوریت میں عوام کو فقط یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکمران طبقے کے کسی ایک دھڑے کو ظلم و جبر جاری رکھنے کیلئے منتخب کریں۔ لہٰذا ان روایتی قیادتوں سے امیدیں وابستہ کرنا ایک احمقانہ عمل کے سوا کچھ نہیں۔ مختصراً مختلف پارٹیوں کا نام نہاد اتحاد ہو یا سابقہ تبدیلی سرکار، فوجی جرنیلوں کی مسلط کردہ آمریت ہو یا سرمایہ داروں کی جمہوریت، تمام محنت کشوں پر جبر قائم رکھ کر اپنی تجوریاں بھرنے کی تگ و دو میں ہی ہیں۔ دوسری طرف یہ تمام تر عوامل اس نظام کے بحران کی عکاسی کرتے ہیں جس کے سبب اس نظام کے محافظ حکمران ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور پرانے طریقے سے حکمرانی برقرار رکھنے سے قاصر ہیں۔
آج سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر مکمل کرکے آخری سانسیں لے رہا ہے جس کے سبب روز منافع کی ہوس پر مبنی یہ اژدھا نما سماج انسانی جانوں کو نگلتا جارہا ہے۔ حکمران طبقہ جب عوام کو بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہے تو اپنی عیاشیوں کو جاری رکھنے کیلئے بنیادی سہولیات چھین رہا ہے۔ آنے والے وقت میں اس مزدور دشمن عمل میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ لہٰذا اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس نظام کا بحران جتنا گہرا ہوتا جائے گا ایسے واقعات میں اتنا ہی اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ اسی طرح حکمران طبقے کی آپسی لڑائی کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ اس تمام تر جبر و استحصال سے چھٹکارا صرف سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ ایک منصوبہ بند معیشت جو مزدور ریاست کے کنٹرول میں ہو، ہی حقیقی جمہوریت فراہم کر سکتی ہے، جس میں گاؤں اور محلوں کی سطح پر انتظامی امور محنت کشوں کے کنٹرول میں ہوں گے۔ اس سوشلسٹ انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جو محنت کشوں اور سماج کی مظلوم پرتوں کو منظم کرتے ہوئے جدوجہد کو کارآمد سمت عطا کرے۔ آج اگر پاکستان میں ایسی انقلابی پارٹی تعمیر ہو گئی جو سوشلزم کے انقلابی نظریات سے لیس ہو تو مستقبل میں جنم لینے والی تحریکوں کو سوشلزم کی سمت عطا کی جا سکتی ہے۔ ہم پاکستان اور پوری دنیا میں ایک ایسی انقلابی پارٹی تعمیر کر رہے ہیں، اور تمام نوجوانوں اور باشعور سیاسی کارکنان کو اس کا حصہ بننے کی دعوت دیتے ہیں۔