|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بہاولپور|
اتوار 21 اکتوبر 2018ء کو بورے والا میں ’’پاکستان کے معاشی مسائل اور ان کا حل‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ ابتداء یاسر ارشاد کی لیڈ آف سے ہوئی۔ انہوں نے غلام داری سے جاگیرداری اور پھر سرمایہ داری کی جانب معاشی نظاموں کے ارتقاء سے بحث کا آغاز کیا۔ ان کا کہنا تھا ہر ایک نظام نے اپنے عہد میں پیداواری قوتوں میں ایک حد تک اضافہ کیا اور جہاں ایک نظام پیداواری قوتوں کی راہ میں رکاوٹ بنا وہاں اگلے نظام نے اس کو ری پلیس کیا۔ سرمایہ داری نے جاگیرداری کو ری پلیس کر کے انسانی ذرائع پیداوار کو ایک بلند سطح پر پہنچا دیا ہے۔ مگر آج کے عہد میں سرمایہ داری پیداواری قوتوں کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہے اور یہ اپنا وقت پورا کر چکی ہے۔ مگر سرمایہ داری اپنی متروکیت کے باوجود قائم ہے جس کی وجہ انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی ہے۔ لوگوں کو یہ علم ہے کہ ان کو کیا نہیں چاہیے مگر وہ اس کا ادراک نہیں رکھتے کہ ان کو کیا چاہیے اور وہ کیا حاصل کرسکتے ہیں۔
انہوں نے موجودہ عہد پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا کہ آج 2008ء کے عالمی بحران کو بیتے دس برس بیت چکے ہیں مگر ساری سرمایہ داری نہ صرف اس بحران میں جکڑی ہوئی ہے بلکہ اب مزید دھنستی جارہی ہے۔ سارے سنجیدہ حلقے ایک نئے عالمی بحران کا عندیہ دے رہے ہیں۔ وہیں 2008ء کے عالمی بحران میں عوامی دولت کے سرمایہ داروں کے مفادات کے لیے استعمال کا اظہار ملتا ہے۔ اور عام محنت کشوں پر کٹوتیوں کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ اور عوام کو کفایت شعاری کی تبلیغ شروع کی گئی ان سب حالات کا مظاہرہ ہمیں ترقی یافتہ دنیا کے ممالک میں ملتا ہے وہیں پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بحرانات کا اظہار بڑے پیمانے پر بیروزگاری، مہنگائی اور عدم استحکام کی صورت میں ہورہا ہے۔ گو ریاست پاکستان قیام سے ہی بحرانات میں گھری ہے مگر آج یہ بحران اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے اور زندگی کے ہر شعبے سیاست، تعلیم، معیشت، اخلاقیات اور سماجی تعلقات میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ اس کے بعد کامریڈ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کی زراعت کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا جہاں ایک طرف کسان کے لیے بیج کھاد اور دیگر اشیا بیحد مہنگی ہیں وہیں ان کی پیداوار کے دام بہت حد تک کم ہیں۔ یہی حالت صنعت کے ہر شعبہ کی ہے، پاکستانی صنعتی مشینری جہاں بہت پرانی ہے وہیں اس کی پیداوار چینی صنعتی پیداوار کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ دار کے لیے منافع کمانے کے دو طریقے ہوتے ہیں یا تو مشینری جدید تر کرے یا محنت کشوں کا استحصال زیادہ سے زیادہ کرے اور پاکستان کے سرمایہ داروں نے دوسرے طریقے یعنی محنت کشوں کا استحصال کرکے منافع خوری پر توجہ دی ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج صنعت کمزور سے کمزور تر ہوچکی ہے۔ اور چینی مصنوعات کی منڈی میں دستیابی نے اس کو ہرجگہ پچھاڑ کے رکھ دیا ہے۔
اس کے بعد فرحان رشید نے کنٹری بیوشن کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت جو عوام کو سبز باغ دکھا کر آئی ہے اب عوام کے سامنے مکمل ننگی ہورہی ہے۔ موجودہ دور میں جہاں ترقی یافتہ دنیا میں اصلاح پسندانہ پالیسیاں ناکام ہورہی ہیں اس عہد میں پاکستان میں اصلاح پسندی سوائے فریب کے کچھ نہیں ہے اور یہ تبدیلی دراصل بے پناہ مہنگائی اور بیروزگاری لے کر آئی ہے۔ ملکی معیشت جو دگر گوں صورت حال میں ہے اس کا سارا بوجھ عام عوام پر ہی ڈالا جائے گا۔
اس کے بعد ماجد اقبال نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا سرمایہ داری نظام کی بنیاد منافع پر ہے۔ یہ بھوک سے، دکھ و درد سے منافع کماتی ہے۔ اس میں سبھی رشتوں کی بنیاد بھی پیسہ ہے۔ تعلقات کی بنیاد پیسہ، عزت و ذلت کا معیار پیسہ ہے۔ موجودہ نظام میں ہر ایک چیز ضرورت کے تحت نہیں بلکہ منافع کے حصول کے لیے پیدا ہوتی ہے۔ اور ہر ایک چیز کا معیار پیسہ ہے۔ اس نظام میں محنت کش طبقہ جو ساری پیداوار کا خالق ہے خود بے سروسامانی کی حالت میں فاقوں پہ مجبور ہے۔ اور ضرورت ہے کہ محنت کش طبقہ جو وسیع اکثریت میں موجود ہے اپنا راج قائم کرے۔
اس کے بعد جلیل منگلا نے تنظیم کا تعارف کرایا۔ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا موجودہ نظام میں سرمایہ دار بذاتِ خود جونکوں کی مانند ہیں جو محنت کشوں کا لہو پی رہے ہیں۔ ہم ایک ایسی تنظیم کی تعمیر کر رہے ہیں جو محنت کش طبقے کو جوڑے اور اس کو نظریات سے لیس کرتے ہوئے موجودہ نظام کو اکھاڑ ڈالے چونکہ موجودہ نظام اب مزید ترقی دینے سے قاصر ہے اور اس وقت ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں سوشلزم یا پھر بربریت۔ اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یاسر ارشاد نے سم آپ کیا۔ یاسر کا کہنا تھا سرمایہ داری کی ابتدا ہی دو نمبری اور دوسروں کا حق ہتھیانے سے ہوئی جب سرمایہ دار نے قدرِ زائد کی صورت میں محنت کش کی محنت کو ہتھیایا۔ آج کے عہد میں سرمایہ داری عالمگیریت حاصل کر چکی ہے اور کسی ملک کو کاٹ کر دوسرے ملک سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اور ہر ملک دوسرے پر اثرانداز ہورہا ہے۔ وہیں محنت کش طبقے کو منظم ہونے سے روکنے کے لیے اس کو تقسیم در تقسیم میں الجھایا جاتا ہے۔ اور طبقاتی شعور کو کچلنے کے لیے ذات پات، قوم، مذہب اور نسل کی بنیاد پر تقسیم کیا ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ سوائے امیر غریب، جاگیردار مزارع اور سرمایہ دار مزدور کے علاوہ ہر قسم کی تقسیم جھوٹ ہے اور ہم اس کو رد کرتے ہیں۔ سوائے طبقاتی تفریق کے ہم سب تفریقوں کو رد کرتے ہیں ہر سطح پر طبقاتی شعور کے لیے ناصرف سرگرم ہیں بلکہ اس طبقاتی سماج کو اکھاڑ کر اس کی جگہ غیر طبقاتی سماج کے قیام تک ہماری جدوجہد جارہی رہے گی۔