|تحریر: صبغت وائیں|
میں واقعی اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن ارد گرد کے غل غپاڑے نے مجبور کر دیا کہ کچھ کہا جائے۔ آج جب کہ سرمایہ داری کی لہر ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ لے کر عورت کو میدان میں لائی ہے، تو اس کے ساتھ ہی اس کے مقابلے میں’’متقابل بیانیہ‘‘ اتارا گیا ہے کہ اگر ایک فریق اپنے جسم پر اپنی مرضی کی بات کر رہا ہے، تو دوسرے فریق کو گویا یہ حق حاصل ہو گیا کہ وہ اپنے جسم کو آزادانہ استعمال کر سکتا ہے، وہ بھی دوسرے کے جسم پر۔
یقیناً یہ موضوع ایسا نہیں ہے کہ اس پر گہرا سوچ بچار کیے بغیر بات کی جائے۔ جو بھی ایسا کرے گا، وہ انہی دو فرقوں میں تقسیم ہو جائے گا جن کے مابین بے کار اور لاحاصل بحث چل رہی ہے۔ لیکن چوں کہ دوسرے مؤقف کا غلط ہونا خود اسی کے اپنے اندر ہے، کہ جب ایک کو اپنے جسم پر اس کی مرضی حاصل ہو جائے تو دوسرے کو پہلے کی مرضی کے بغیر دوسرے پر اپنی مرضی ٹھونسنے کا اختیار مل جانا اس کا مطلب کیسے ہو سکتا ہے؟ اس لیے اس پر بات کرنے کی کوئی خاص ضرورت ہی نہیں ہے۔ تو ہم اس لیے صرف پہلے مؤقف پر بات کریں گے۔
ہم دیکھ رہے ہیں ہی کہ بہت سے سوشلسٹ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے کو غلط کہ رہے ہیں۔ تو کیا وہ خواتین کے ان حقوق کی مخالفت کر رہے ہیں جن حقوق کی بات اس نعرے کی وضاحت میں کی جا رہی ہے، یہ سوال بہرحال حل کیا جانا چاہیئے۔
میں خود بھی اس نعرے کو غلط سمجھتا ہوں۔ لیکن ہمارے اس نعرے کو غلط کہنے کی وہی وجہ ہے، جو رجعتیوں کی ہے، ایسا نہیں ہے۔ ہمیں پدرسری معاشرے کے ظلم، جبر اور استحصال سے بھی آگاہی ہے اور ہمیں نظر آ رہا ہے کہ واقعی عورت کثیر پہلو جبر اور استحصال کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں اگر عورت اپنے حقوق کے حصول کی خاطر آواز اٹھاتی ہے تو ہمیں اس کا ساتھ دینے میں کیا مسئلہ ہے؟ ہم عورت کی اپنے حقوق کے حصول کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کو سراہتے ہیں۔ لیکن غلط کہنے سے مراد یہ ہے کہ یہ غلط سمت میں ہے۔
ہمیں نظر آ رہا ہے کہ یہ نعرہ سرمایہ دارانہ ’’انفرادیت‘‘ کا مظہر ہے جو صرف انسانوں کو تقسیم کرنے کے لیے، ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے اور ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے ہے۔ سرمایہ داری کی حاکمیت کو زیادہ سے زیادہ دیر تک قائم رکھنے کے لیے دولت پر قابض طبقے کے مختلف ہتھکنڈوں میں سے سب سے بڑا اور کامیاب ہتھکنڈہ ہی یہ ہے کہ جن انسانوں کی اکثریت کو دبا کر رکھنا ہے (محنت کش) میں طبقاتی شعور نہ آنے دیا جائے اور ان کو گروہوں میں تقسیم رکھا جائے۔ ان کو قوم، مذہب، رنگ، نسل اور اب جنس کو بنیاد بنا کر لڑوا دیا جائے۔ یعنی ہر ممکن وہ طریقہ استعمال کیا جائے ان کو آپس میں دور کرنے کا جس سے یہ محنت کرنے والے انسان ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھیں تاکہ یہ اپنے اصلی دشمن کو نہ پہچان سکیں جو کہ ان کی محنت کرنے سے منافع بٹورتے ہوئے، انہی کی ملکیتیں اور ان کے بھائی بندوں کو خریدتا چلا جا رہا ہے۔
ہم سوشلسٹوں نے بہت کم یہ سوچا ہو گا کہ یہ سوشلسٹ کامریڈ خواتین ہیں اور یہ سوشلسٹ کامریڈ مرد ہیں۔ ہم تو عورتوں اور مردوں کو علیحدہ کرتے ہی نہیں۔ ہمارے نزدیک ان دونوں کا اکٹھے ہونا اور اکٹھے رہنا ہی فطرتی ہے۔
لیکن ہم لوگ جن معاشروں میں ہم رہتے ہیں ان میں واقعتاً بہت سے مسائل موجود ہیں۔ بندشوں کے مسائل الگ ہیں، اور ’’آزادیوں‘‘ کے الگ۔ ایک بات تو ہم سب کو سیدھے سے نظر آتی ہے، کہ یہاں آزاد کوئی نہیں ہے۔ ہر کوئی بندشوں میں بندھا ہوا ہے۔ طبقاتی معاشروں میں آزاد مرضی یا آزاد ارادہ اسی قدر آزاد ہو سکتا ہے جیسے ’’کولہو کا بیل کہے کہ وہ اپنی مرضی سے گول گول گھوم رہا ہے‘‘۔ ہمارے ارد گرد بے شمار بندشیں موجود ہیں، جیسے کہ قدرت کی بندشیں، سماج کی بندشیں، اخلاقیات کی اور نظام کی بندشیں وغیرہ۔
ہم اپنی سہولت کے لیے چند سوال بنا سکتے ہیں۔
کون سی بندشوں سے آزاد ہونا ہے، اور کن بندشوں کو قائم رکھنا ہے، اس کا فیصلہ کون کرے گا؟
ان کا فیصلہ انفرادی طور پر فرد کرے گا؟ یا اجتماعی طور پر بنی نوعِ انسان کرے گا؟
ان کا فیصلہ مختلف سماجوں میں اور مختلف مذاہب میں مختلف ہو گا، یا مل جل کر کوئی ایک فیصلہ کیا جائے گا؟
عورتیں آزاد نہیں ہیں لیکن کیا مرد آزاد ہیں؟
یہاں تک کہ انتہائی طاقت ور اور دولت مند مرد آزاد ہیں؟
وغیرہ
اگر سرمایہ داری انفرادیت کی بات کرتی ہے، اور انفرادیت ہی آنے والے دور کا سب سے حسین خاصہ ہے، تو پھر اس انفرادیت کے حصول کے لیے ’’دوسروں‘‘ کو ’’اپنے ساتھ ملا کر‘‘ مارچ کرنا کیوں ضروری ٹھہرتا ہے؟ کیوں نہ فرداً فرداً یہ مارچ کی جائے؟
ہمیں معلوم ہے کہ سرمایہ داری کا یہ انفرادیت کا نعرہ محض ایک ڈھونگ ہے۔ انسان کو دوسروں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ خود کی۔
کیا کوئی انسان اکیلا رہ سکتا ہے، اس طرح اکیلا کہ اس کو دوسرے کسی کی ضرورت نہ ہو؟
یقیناً نہیں، کیوں کہ میں، بطور فرد جو جو چیزیں استعمال کرتا ہوں ان کو دوسرے لکھوکھا انسان مل کر بناتے ہیں۔ مجھے تعلیم حاصل کرنے کے لیے سماج کی اور دوسرے انسانوں کی ضرورت ہے، علاج معالجے کے لیے دوسرے کی ضرورت ہے اور یہاں تک کہ میں اپنے درد کو اس لیے حقیقی محسوس کرنے کا اہل ہوں کیوں کہ میں دیکھتا ہوں کہ دوسرے کو بھی درد ہوتا ہے، اور وہ ڈاکٹر جو میرے درد کا علاج کرتا ہے، اس لیے اس درد کو درد کے طور پر سمجھ پاتا ہے، کیوں کہ وہ خود بھی ایک انسان ہے، جس نے خود کو ہونے والا درد محسوس کر رکھا ہے۔ اس طرح انسانوں کی دنیا میں انفرادیت ایک دھوکے، فریب، سراب اور ایک لایعنی جھمیلے میں انسانیت کو پھنسانے کی ایک چال کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
اس چال کے ذریعے وہ طبقہ جو کہ پہلے سے تمام آزادیوں کے مزے لے رہا ہے کئی طرح کے فریب محنت کش عوام کو دینے کے چکر میں ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ نہ تو ایک عام عورت ایک دولت مند طبقے کی عورت کے برابر ہے اور نہ ہی ایک عام مرد ایک دولت مند خاتون کی برابری کا سوچ سکتا ہے۔ عورت، عورت ہے اور مرد، مرد کی بنا پر یہ تقسیم کہ یہ متحارب اور متخالف طبقات ہیں، انتہائی غلط سوچ ہے۔ ظالم اور جابر حکمران طبقے کی عورت محکوم اور مجبور محنت کش مرد اور عورت پر اسی طرح ظلم اور استحصال کے پہاڑ توڑتی نظر آتی ہے، جس طرح سے ظالم اور جابر حکمران طبقے کا مرد محکوم اور مجبور محنت کش مرد اور عورت پر۔ ان میں کوئی فرق نہیں ہے، کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ کیا مریم نواز، علیمہ خان، بختاور اور شیریں مزاری وغیرہ سے برابری کی بات کوئی عام پاکستانی مرد(یا عورت) سوچ بھی سکتا ہے؟
دوسرے یہ کہ یہ سوچ بھی حماقت پر ہی مبنی ہے کہ اس گھٹیا سماج میں چند اصلاحات یا تبدیلیاں کر کے ہم اس کی گندگی سے نجات حاصل کر لیں گے۔ موضوع کے اعتبار سے ہم تفصیلی بحث کسی اور جگہ کے لیے اٹھا رکھتے ہوئے صرف پدرسری پر بات کیے لیتے ہیں۔ پدرسری معاشرے کی پیدائش کا مطالعہ ہمیں طبقاتی سماج کی ابتدا پر ہی لے جاتا ہے۔ قدیمی کمیونزم جس میں لوگ مل بانٹ کر کھاتے تھے، مادرسری نظام کے حامل سماج تھے۔ یہاں تک کہ جدید ترین تحقیقات میں بھی جن سماجوں کو ماہرین مثلاً مالی ناؤسکی وغیرہ نے دیکھا ہے، جہاں جہاں مادر سری نظام تھا وہاں کمیونزم جیسا نظام ہی رائج تھا، جہاں لوگ جو کما کر لاتے اس کو تقسیم کرتے تھے۔ مختصر بات یہ ہے کہ یہ سوچ کہ سرمایہ داری تو رہے لیکن اصل مسئلہ یعنی پدرسری سے چھٹکارا مل جائے ایک خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پدرسری سے چھٹکارا اس سماج کو بدلے بنا حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ ہمارا وژن ہے کہ ایسا صرف ایک سوشلسٹ یا کمیونسٹ معاشرے میں ممکن ہے۔ ورنہ سرمایہ داری میں جسم پر اختیار زیادہ سے زیادہ اس کو فروخت کرنے کی حد تک ملے گا۔ اور یقیناً جسم فروشی ایک ایسی لعنت ہے، جس میں زندگی کے حسین ترین اور آخری درجات جو کہ صرف اپنی محبوب ترین ہستی کے لیے انسان کے پاس مختص ہوتے ہیں اس کو دینا پڑتے ہیں جو چند سکے دے رہا ہے۔ انسانیت کی اس سے بڑی تذلیل اور کوئی نہیں ہے۔ اس لعنت سے چھٹکارا ایک سوشلسٹ سماج کے سوا کچھ نہیں ہے۔