|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
کراچی شہر میں مختلف صنعتوں کے محنت کشوں نے ’مزدور یکجہتی کمیٹی‘ نامی پلیٹ فارم پر متحد ہو کر مشترکہ جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد مختلف اداروں کے محنت کشوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے مشترکہ مفادات بالخصوص سندھ حکومت کی جانب سے حالیہ بجٹ میں کم از کم اجرت کو 25 ہزار روپے مختص کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے لیے ایک مشترکہ جدوجہد کرنا ہے۔
اس سلسلے میں اب تک ’مزدور یکجہتی کمیٹی‘ کے تین اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔
پہلا اجلاس 10 اگست 2021ء کو لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں باقائدہ ’مزدور یکجہتی کمیٹی‘ کا اعلان کیا گیا۔ پہلے اجلاس میں جنرل ٹائرز ورکرز یونین (سی بی اے)، پورٹ قاسم ڈاک ورکرز یونین، پاکستان مشین ٹول فیکٹری، ڈیموکریٹک یونین آئی آئی ایل، جی ٹی آر (سی بی اے)، ورکرز یونین سوزوکی موٹرز، یونین اختر ٹیکسٹائیل، فوڈ پانڈا، میریٹ پیکجنگ، آدم جی انجینئرنگ، ٹیکسٹائیل اینڈ گارمنٹس یونین، سلفی ٹیکسٹائیل، انڈس موٹرز، انٹرنیشنل انڈسٹریز لمیٹڈ، اٹلس آٹوز، پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندگان نے شرکت کی۔ پہلا اجلاس منعقد کروانے میں ریڈ ورکرز فرنٹ کا انتہائی کلیدی کردار رہا۔
پہلے اجلاس کی باقاعدہ صدارت جنرل ٹائرز ورکرز یونین CBA کے صدر عزیز خان نے کی۔ عزیز خان نے محنت کشوں کو درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 70 سال سے پاکستان کے سیاست دان اور سرمایہ دار محنت کشوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ محنت کش طبقے کے لیے قوانین برائے نام ہیں اور لیبر ڈیپارٹمنٹ تک مزدوروں کی نہ رسائی ہے اور نہ ہی شنوائی ہوتی ہے، کم از کم اجرت کی ادائیگی، گرجیوئٹی پلان اور دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے محنت کش طبقے کو مشترکہ جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔
اس کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ کے رہنما پارس جان نے اپنی گفتگو میں پبلک سیکٹر کے محنت کشوں کی حالیہ کامیاب جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مزدور تحریک میں مایوس عناصر کے لیے یہ ایک پیغام اور سبق ہے کہ اگر متحد ہو کر جرات کے ساتھ لڑا جائے تو ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ پارس جان کا مزید کہنا تھا کہ کرونا کے دوران حکمران طبقے نے ایک طرف محنت کشوں پر مختلف ٹیکس لگا کر اور تین کروڑ لوگوں کو بے روزگار کر کے محبت کش طبقے پر تاریخی حملے کیے اور دوسری طرف سرمایہ داروں کو اربوں روپے کے بیل آوٹ پیکج سے نوازا ہے۔ موجودہ سال میں حکومت کو 14 ارب ڈالر کا قرضہ واپس ادا کرنا ہے جو پھر محنت کش طبقے سے ہی وصول کیا جائے گا، اس صورتحال میں مہنگائی کا ایک اور بڑا طوفان ہمارے سامنے کھڑا ہے جو موجودہ حالات کو مزید بد تر کر دے گا۔ محنت کشوں کے پاس مشترکہ لڑائی کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا ہے اور یہ اجلاس اور اس میں ہونے والے فیصلہ جات اس جدو جہد میں انتہائی اہم کردار رکھتے ہیں۔
آدم جی انجینئرنگ (سی بی اے) کے جنرل سیکرٹری عادل نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم اجرت کے ساتھ ساتھ ٹھیکیداری نظام کے خلاف بھی جدو جہد کی ضرورت ہے۔ سرمایہ دار طبقے نے پلاننگ کے تحت تمام اداروں سے مستقل ملازمین کی تعداد میں کمی کرتے ہوئے ٹھیکیداری نظام کے تحت کنٹریکٹ ملازمین کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ عادل کا کہنا تھا کہ موجودہ اجلاس کے دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئے کورنگی اور لانڈھی کے مختلف مقامات پر میٹنگز منعقد کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ بہتر انداز میں عملی جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔
پورٹ قاسم ڈاک ورکرز یونین سے عبدالواحد کا کہنا تھا کہ محنت کشوں کے اتنے مسائل ہیں کہ اگر ان پر بات شروع کی جائے تو دن ختم ہو جائے گا مسائل ختم نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے کہ ہم احتجاج کی طرف جائیں ہمیں ایک سے زیادہ میٹنگز کر کے محنت کشوں کی وسیع پرتوں تک یہ پیغام پہنچانا ہوگا تاکہ اس حتجاجی تحریک میں زیادہ سے زیادہ محنت کشوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
آن لائن فوڈ ڈیلوری سروس فوڈ پانڈا کی نمائندگی کرتے ہوئے جواد نے فوڈ پانڈا ورکرز کی جدوجہد کے تجربے کو شرکاء کے سامنے رکھا۔ جواد کا کہنا تھا کہ فوڈ پانڈا کے مزدور کا بد ترین استحصال ہوتا ہے، نہ ان کی کم از کم اجرت ہے اور نہ ہی کوئی سوشل سیکیورٹی، لیکن پچھلے عرصے میں فوڈ پانڈا کے مزدوروں نے منظم ہو کر جد وجہد کی ہے اور اس جدوجہد کے نتیجے میں تنخواہوں میں بھی اضافہ کروایا ہے اور انشورنس بھی حاصل کی ہے۔ جواد نے مزید کہا کہ اس تجربے کی بنیاد پر میں اس اجلاس میں موجود تمام مزدور نمائندگان کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ مایوسی کی بجائے جدوجہد ہمارا راستہ ہونا چاہیے اور جب مزدور دن رات کام کر کے سرمایہ داروں کی دولت پیدا کرتے ہیں تو جدوجہد کے ذریعے اپنے مطالبات بھی منوا سکتے ہیں۔
اس میٹنگ میں موجود دیگر ٹریڈ یونین نمائندگان نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ آخر میں تمام شرکاء کی مشاورت سے طے کیا گیا کہ پہلے مرحلے میں 28 اگست 2021ء کو ہسپتال چورنگی سے گودام چورنگی تک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا جائے گا۔ ریلی کے چار بنیادی مطالبات ہوں گے۔
1) کم از کم اجرت 25 ہزار روپے کے فیصلے پر عمل در آمد
2) ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ
3) لیبر کورٹ بلڈنگ کی ڈیفنس سے کورنگی میں منتقلی
4) سوشل سیکیورٹی ہسپتالوں میں پرائیویٹ علاج کا خاتمہ
مزدور یکجہتی کمیٹی کا دوسرا اجلاس 13 اگست 2021ء کو کورنگی انڈسٹریل ایریا میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں گزشتہ اداروں کے محنت کش نمائندوں کے ساتھ ساتھ مزید اداروں کے ساتھیوں نے بھی شرکت کی جس میں فروز ٹیکسٹائل، اوپل لیبارٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ، اٹلس ہنڈا انجنئیرنگ انڈسٹریز، اسپین فارما ورک مین یونین، آرٹسٹک ملینئرز اور فونیکس آرمرز شامل ہیں۔ اس اجلاس میں 28 اگست 2021ء کو منعقد ہونے والی احتجاجی ریلی کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا اور اس جدوجہد میں خواتین محنت کشوں کی شرکت کے حوالے سے خصوصی توجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
مزدور یکجہتی کمیٹی کا تیسرا اجلاس 17 اگست 2021ء کو ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کے دفتر میں منعقد ہوا۔ تیسرے اجلاس میں احتجاجی ریلی کی تیاریوں کا جا ئزہ لیا گیا اور ذمہ داریوں کی تقسیم کی گئی۔
مزدور یکجہتی کمیٹی کی جانب سے مختلف صنعتوں کے محنت کشوں سے چندہ اپیل کی گئی اور فوراً پیسے اکٹھے کر کے 20 ہزار کی تعداد میں لیفلیٹ شائع کیے گئے۔ ورکرز کی جانب سے دل کھول کر چندہ دیا گیا اور مشترکہ جدوجہد کی کاوش کو خوب سراہا گیا۔ تا حال بیسیوں صنعتوں کے ہزاروں محنت کشوں تک نیا شائع کردہ لیفلیٹ پہنچایا جا چکا ہے۔ اس کمپئین میں محنت کش اور نوجوان شانہ بشانہ شامل ہیں جو ہر ایک صنعت کے دروازے پر ایک ایک مزدور تک یہ لیفلیٹ لے کر جا رہے ہیں۔ یہ احتجاجی ریلی یقینا کراچی شہر میں بالخصوص اور ملک بھر میں بالعموم مزدور تحریک میں ایک شاندار اضافہ ہو گا جو ملک بھر کے محنت کشوں کو حوصلہ فراہم کرے گا۔
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!
جینا ہے تو لڑنا ہوگا!
مزدور راج زندہ باد!