|رپورٹ: نمائندہ ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
26 مارچ 2022ء کو ہفتہ کے روز محنت کشوں کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مزدور یکجہتی کمیٹی کے تعاون کے ساتھ ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیر اہتمام ”مزدور راج“ لیبر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ لیبر کانفرنس کے انعقاد کا مقصد 1968-69ء میں پاکستان بھر کے محنت کشوں کی اپنے عذابوں سے نجات اور ایوب آمریت کے خلاف ہونے والی عظیم جدوجہد اور کامیاب ملک گیر ہڑتال کو خراج تحسین پیش کرنا تھا، جس کے سبب ملک کا سب بڑا آمر حکمران سرنگوں ہوکر مستعفی ہوگیا تھا اور اس عظیم جدوجہد کی روشنی میں عہد حاضر کے لیے موجود اسباق اور آئندہ کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالنا مقصود تھا۔ کانفرنس کی تیاری کے لیے دس ہزار دعوتی لیفلیٹ شائع کرائے گئے۔ جسے خاص کر لانڈھی، کورنگی اور ملیر کے صنعتی علاقوں میں تقسیم کرکے محنت کشوں کو دعوت عام دی گئی۔ اس کے علاوہ سرکاری محکموں کے محنت کشوں اور قائدین میں دعوتی مہم چلائی گئی۔ لیبر کانفرنس شہر کے صنعتی علاقے لانڈھی میں رکھی گئی جسے شہر کی دانشور اشرافیہ ”غیر سیاسی“ قرار دے کر دھتکارتی رہتی ہے۔ لیکن ان علاقوں میں وسیع دعوتی مہم کے سبب محنت کشوں کا اس کانفرنس کی جانب رویہ بہت شاندار رہا۔ جس کے سبب کانفرنس میں صنعتی محنت کشوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں کے محنت کشوں نے بھی شرکت کی۔
کانفرنس میں سب سے پہلے عزیز خان صاحب کی قیادت میں جنرل ٹائرز فیکٹری کے محنت کشوں کا بڑے وفد مزدور اتحاد زندہ باد کے نعروں کی گونج میں پنڈال میں شامل ہوا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
کراچی میں ایوب آمریت کے خلاف ہونے والی محنت کشوں کی جدوجہد جناب عثمان بلوچ کی قیادت میں ہوئی تھی۔ اس لیے انہیں کانفرنس کے مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا۔ شدید علالت کے باوجود انہوں نے اپنی بروقت موجودگی کو یقینی بنا کر محنت کشوں کے حوصلے بڑھائے۔
اس کے علاوہ نیو کراچی جیسے دور دراز علاقے کے صنعتی محنت کش بڑے وفد کی صورت کانفرنس میں شریک ہوئے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی قائد کامریڈ آدم پال نے لاہور سے خصوصی طور پر کانفرنس میں شرکت کی۔
ان کے علاوہ پاکستان ٹول فیکٹری کے ریٹائرڈ ملازمین، یونس ٹیکسٹائل، ڈی ایم سی کورنگی، کے ایم سی، اوپل لیبارٹریز، پورٹ قاسم اور آئی آئی ایل سمیت کئی اداروں کے محنت کش شریک ہوئے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کی جنرل سیکرٹری کامریڈ انعم خان نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض ادا کرتے ہوئے کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کیے اور تمام محنت کشوں کو خوش آمدید کہا۔
کانفرنس سے ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی نائب صدر کامریڈ صفدر جبار، کے ایم سی سجن یونین سی بی اے لانڈھی کنوینئر عمران علی، آئی آئی ایل پیپلز لیبر یونین کے صدر احمد علی پنہور، ورکرز یونین آف پورٹ قاسم اور ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کے نائب صدر عبدالواحد، نیو کراچی گارمنٹس ورکرز کے رہنما وشنو مل، ڈی ایم سی مزدور اتحاد کے رہنما شہزاد سہونترا، پاکستان مشین ٹول ریٹائرڈ ورکرز پینشنرز تحریک کے رہنما خالقداد نیازی، پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کے رہنما آنند پرکاش، ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی رہنما کامریڈ پارس جان، ایوب آمریت مخالف مزدور تحریک کے رہنما جناب عثمان بلوچ، جنرل ٹائرز ورکرز یونین سی بی اے، کے پی ٹی بائی روڈ یونین سی بی اے اور ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کے صدر جناب عزیز خان صاحب اور عالمی مارکسی رجحان کے رہنما آدم پال نے خطاب کیا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ آج محنت کشوں کے حالات ایک بار پھر ملک گیر عام ہڑتال کے متقاضی ہیں۔ لیکن 1968-69ء سے اب تک کے تجربات نے ہمیں سبق دیا ہے کہ محض حکمرانوں کی تبدیلی ہماری زندگی کے حالات نہیں بدل سکتی، اس مقصد کے لئے محنت کشوں کی اجتماعی قوت کو اس نظام کی یکسر تبدیلی کے خلاف بروئے کار لانا ہوگا۔
رائج الوقت حکمرانوں کی سیاست محض لوٹ مار میں حصہ داری کی لڑائی ہے جس سے ہم محنت کشوں کے حالات بدلنا تو درکنار بلکہ بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ تمام ریاستی ادارے اور میڈیا اس نظام اور حکمرانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ محنت کشوں کی جدوجہد کی عظیم تاریخ کو جان بوجھ کر چھپایا جاتا ہے تاکہ محنت کش اس اذیت ناک زندگی کو ہی اپنا مقدر سمجھیں اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کریں۔ لیکن ان کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود بھی سرکاری و صنعتی محنت کشوں کی جدوجہد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ لیکن یہ دلال میڈیا ہمیں کبھی نہیں بتائے گا کہ 15 مارچ 2022ء کو سرکاری اداروں کے محنت کشوں کے احتجاجی دھرنے میں موجود محنت کشوں کی تعداد بلاول، پی ڈی ایم اور عمران خان کے مارچز سے کہیں زیادہ تھی۔
مقررین کا کہنا تھا کہ محنت کش تحریک کے موجودہ مرحلے میں سرکاری و صنعتی اداروں کے مابین موجود تفریق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ دونوں کے مشترکہ مسائل اور ان کا دشمن سانجھا ہے۔ 68-69ء کی ملک گیر عام ہڑتال نے بتایا تھا کہ اس معاشرے کو چلانے والی حقیقی قوت محنت کش طبقہ ہے جس کے متحرک ہونے سے نہ صرف حکمرانوں کا تختہ الٹا جا سکتا ہے بلکہ اس نظام کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے جو ہمارے لیے زندگی کو ناپید کرتا جارہا ہے۔ اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدور نظریات سے لیس جرات مند قیادت کی تربیت کی جائے۔ یہی عہد حاضر کا سب سے اہم تقاضا ہے۔