رپورٹ: | انعم پتافی |
1886ء میں ، کام کے اوقات کار کو بارہ تا سولہ گھنٹوں سے کم کر کے آٹھ گھنٹے کرنے کی جدوجہد میں شکاگو کے مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذارانہ پیش کیا تھا۔آج 2016ء تک آتے آتے عالمی حکمران طبقے نے اپنے ظالمانہ جبر اور لوٹ کھسوٹ کی حوس کو ناقابل یقین بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔آج بھی اپنی محنت کی طاقت سے دنیا کو بنانے اور چلانے والا مزدور طبقہ دنیا کے ہر خطے میں کم سے کم اجرت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور ہے۔لیکن دوسری طرف سرمایہ دار طبقے نے اپنی اس منافع کی وحشت کو مزید ’’مہذب‘‘ انداز میں ڈھالتے ہوئے لوٹ مار کے نت نئے طریقے بھی دریافت کئے ہیں۔ مثلاََ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک سمیت تمام تیسری دنیا کے ممالک اور اب تو ترقی یافتہ دنیا میں حکمرانوں کی یہی روش ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کرنے کی بجائے یہ پہلے سے موجود تنخواہوں کو کم کرتے ہوئے اپنے بحرانوں کا بوجھ مزدور طبقے پر ڈالتے ہیں، اس سے وہ لڑائی جو کہ تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافے کرنے لئے ہونی تھی، کہ جس سے گزر بسر چلتی رہے، اس لڑائی کا رخ موجودہ تنخواہوں کے تحفظ کی طرف ہو جاتا ہے اور اضافہ کا سوال گم ہو جاتاہے۔ 1886ء میں شکاگو کے مزدوروں پر براہ راست گولی چلوا کر انہیں قتل کرنے کی بجائے آج کل کا سرمایہ دار ،مزدوروں کے لیے ہر دن اور ہر لمحہ معاشی پھندے کو تنگ کرتے ہوئے ان کی جان لے رہا ہے۔یہ کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں کہ آج پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں اور محنت مزدوری سے گزر بسر کرنے والے ’’مزدوروں‘‘ کی تعداد ایک ہی ہے ، چھ کروڑ۔لیکن آج بھی مزدور طبقہ 1886 ء کی طرح ہی جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے حکمران طبقے کے ہر حملے کے خلاف لڑ رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس لڑائی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ملتان میں یوم مئی کی تقریبات کے سلسلے میں ہونے والے احتجاج بھی اسی لڑائی کا تسلسل ہیں۔جہاں دن بھر چوک ڈیرہ اڈا سے لے کر پریس کلب تک مختلف اداروں ،فیکٹریوں اور یونینز کی جانب سے ریلیوں کاسلسلہ جاری رہا۔ اس کے علاوہ اپنے اداروں کے اندر بھی مزدوروں نے احتجاجی مظاہرے کئے، جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
1۔ ریلوے
ملتان ریلوے سٹیشن سے ریلوے چوک تک ریلوے ورکرز یونین کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں بڑی تعداد میں ریلوے کے مختلف شعبوں کے مزدوروں نے شرکت کی۔ ریلی سے ریاض غالب، شیخ محمد رفیق، چوہدری محمد اجمل، مشتاق احمد، ایوب، نیامت علی اور انعام بیگ نے خطاب کرتے ہوئے شکاگو کے مزدوروں کی عظیم جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔ مقررین نے کہا شہیدوں کی خون کی وجہ سے ان کا سفید جھنڈا سرخ ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی مزدوروں کا خون سرمایہ داروں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا اور امن کی بات حکمرانوں کے لیے محض مفادات کی بات ہی ہے۔ مزدور رہنماؤں نے کہا کہ ہر ماہ ان کی تنخواہ سے رہائشی کوارٹرز کی مرمت کی مد میں پانچ فیصد کٹوتی کی جا تی ہے لیکن آج تک ایک بھی کوارٹر کی مرمت کا کام نہیں کروایا گیا۔ اب کواٹرز کی حالت کھنڈرات سے مماثلت رکھتی ہے اور ان میں رہنے والوں کی زندگیاں داؤ پہ لگی ہوئی ہیں۔ مزدوروں نے مطاابہ کیاکہ فوری طور ریلوے مزدوروں کے کوارٹرز کی مرمت کا کام شروع کیا جائے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندوں کی موجودگی سے مزدور ساتھیوں نے خوشی کا اظہار کیا اور کامریڈز نے مزدوروں کو ’’ورکر نامہ‘‘ فروخت کیا اور نعرے لگوائے۔یہ طے ہوا کہ ریلوے مزدوروں کے مسائل پر الگ سے مزدوروں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
2۔ اللہ وسایا ٹیکسٹائل مل
ملتان کے نواحی علاقے میں قائم اس مل پر1968-69ء کی انقلابی تحریک کے دوران مزدوروں نے قبضہ کر لیا تھا اور اس عرصے میں مل کو مزدوروں نے اجتماعی کنٹرول کے تحت ہی چلایا گیا۔یہ ماضی اس بات کا غماز ہے کہ مزدوروں کی محنت سے چلنے والی فیکٹریوں کو مزدور کنٹرول کے تحت ہی سب سے بہتر چلایا جا سکتا ہے۔یکم مئی کے موقع پر اللہ وسایا ٹیکسٹائل مل سے یونین کے جنرل سیکرٹری عبدالقادرشاہ اور صدر حاجی عبدالغفور کی قیادت میں بڑی تعداد میں مزدوروں نے شرکت کی۔شکاگو کے مزدوروں کو خراج تحسین پیش کرنے ساتھ مزدوروں نے آج ان کے ساتھ روا ستم کے خلاف احتجاج کیا۔ مزدوروں کا کہنا تھا کہ مل مالکان کئی کئی مہینوں تک ان کی تنخواہیں روک لیتے ہیں، لیکن اپنے منافعے کبھی نہیں رکنے دیتے۔مزدوروں کا مطالبہ تھا کہ ان کی تنخواہیں فی الفور ادا کی جائیں۔مل مزدوروں نے ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندوں کو مل آنے کی دعوت دیتے ہوئے رابطہ نمبرز کا تبادلہ کیا۔ کامریڈز نے مزدوروں کی لڑائی میں مکمل ساتھ دینے کا یقین دلایااور ورکر نامہ فروخت کیا۔
3۔ کالونی ٹیکسٹائل مل
ملتان کے علاقے مظفرآباد میں واقع اس تاریخی مل کی داستان شکاگو کے مزدوروں سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اس مل کا مالک ضیاء الباطل کا قریبی دوست تھا۔ اپنی بیٹی کی شادی کا بہانہ بنا کر اس نے کئی ماہ سے مزدوروں کی تنخواہیں روک رکھی تھیں اوریہاں تک کہ مزدوروں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی تھی۔ صدرضیا الباطل بھی شادی میں شریک ہونے کے لیے ملتان پہنچ چکا تھا۔یہ سن کرمزدوروں نے 2 جنوری 1978ء کے دن صدرِ مملکت کے سامنے اپنی تنخواہوں کے اجراء کے لئے پُر امن احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا۔ضیاء الباطل نے خوفزدہ ہو کر ’’سمجھا‘‘ کہ مزدور اس پر حملے کرنے آرہے ہیں اور اس لیے اس نے فوج کو ان نہتے مزدوروں پر گولی چلانے کا حکم دے دیا، جس کی نتیجے میں 14 مزدور شہید ہوگئے اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔ مل کے گیٹ کے پاس موجود پارکنگ ایریا جہاں مزدور وں کی سائیکلیں کھڑی ہوا کرتی تھیں، خون سے لہو لہان ہو گیا۔یکم مئی 2016 ء کے دن اس مل سے بہت بڑی تعداد میں مزدورں نے احتجاجی ریلی کی صورت میں شرکت کی۔مزدوروں کے ساتھ مزدور رہنما ء ،کامریڈ یامین اور شہنشاہ بخاری بھی تھے جو اس دن ضیاء الباطل کی قتل و غارت سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔کالونی ٹیکسٹائل مل کے مزدوروں نے بتایا کہ انہیں پچھلے چار مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملیں، جس کے خلاف آج وہ احتجاج کر رہے ہیں۔’’ورکر نامہ‘‘ فروخت کرتے ہوئے بھی مزدوروں نے بتایا کہ تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے ان کے پاس بیس روپے تک نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود بھی نوجوان مزدوروں نے ایک دوسرے سے سکے جمع کرتے ہوئے بیس بیس یا دس دس روپے اکٹھا کرکے ’’ورکر نامہ ‘‘ خریدا۔
4۔ رکشہ یونین
یکم مئی کے دن شکاگو کے مزدوروں کو خراج تحسین پیش کرنے اور اپنے مسائل کے حل کی خاطر پاسبان رکشہ یونین نے ڈیرہ اڈاچوک سے نواں شہر چوک تک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا اور دو گھنٹے تک چوک پر دھرنا دیا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ وہ دہاڑی دار مزدور ہیں، جنہیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ آج رات وہ گھر کا چولہا جلا پائیں گے کہ نہیں۔ لمبے عرصے تک پیسے جوڑ کر، ادھار یا قرض سے وہ ایک رکشہ خرید پاتے ہیں تاکہ کچھ نہ کچھ روزی روٹی کما سکیں۔ اس صورتحال میں شہر کی انتظامیہ نے ان پر جبر کی انتہاء کر رکھی ہے۔ جن کی رات کی روٹی کا کچھ انتظام نہیں ہوتا ان پر ٹریفک پولیس ہزار ،ہزار روپے کے چلان کر رہی ہے، جنہیں بھرنا کی اسطاعت سے باہر ہے۔ رکشہ ڈرائیورز نے شہری انتظامیہ ، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف نعرے لگائے۔رکشہ ڈرائیورز نے بڑی تعداد میں ’’ ورکر نامہ‘‘ خریدا اور نمائندوں سے رابطہ نمبرز کا تبادلہ کرتے ہوئے ملاقات کرکے انٹرویو دینے اور جدوجہد کو مزید آگے بڑھانے کا لائحہ عمل بنانے کا کہا۔
5۔ محمود ٹیکسٹائل مل
ملتان مظفر گڑھ روڈ پر واقع محمود ٹیکسٹائل مل سے بھی ماسٹر فیاض کی قیادت میں مزدوروں نے یکم مئی کے موقع پر شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے اور تنخوہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے نواں شہر سے پریس کلب تک احتجاجی ریلی کی صورت میں مارچ کیا۔مزدور بسیں بھر کر اتنی دور سے یکم مئی کی تقریب کے لیے آئے تھے۔ مل ورکرز نے مزدوروں کے اخبار’’ ورکر نامہ ‘‘ کی کاوش کو خوب سراہا اور کامریڈز کو فیکٹری وزٹ کرنے کی دعوت دی۔
6۔ پاکستان نیشنل ٹیکسٹائل، لیدر، گارمنٹس اینڈ جنرل ورکرز فیڈریشن
یکم مئی کے موقع پرخواتین ورکرز سمیت سب سے بڑی ریلی پاکستان نیشنل ٹیکسٹائل،لیدر ،گارمنٹس اینڈ جنرل ورکر ز فیڈریشن کی تھی جنہوں نے شکاگو کے مزدوروں کو سرخ سلام پیش کیا۔جس میں مختلف اداروں اور فیکٹریوں کے ورکرز کی بڑی تعداد شامل تھی۔شرکاء نے نجکاری کے خلاف، صنعتی ورکرزسمیت تمام محنت کشوں کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافے ،EOBI کے مزدوروں کی بڑھاپے کی پینشن میں اضافے،لیبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروانے کے حوالے سے شدید نعرے بازی کی۔
7۔ بھٹہ مزدور
یکم مئی کے موقع پر آئے بھٹہ مزدوروں نے کہا آج ہم شکاگو کے مزدوروں کی یاد تازہ کرنے آئے ہیں جنہوں نے پوری دنیا کے مزدوروں کو لڑائی لڑ کر اپنے حقوق حاصل کرنے کا سبق دیا تھا۔ آج بھی مزدور طبقہ بغیر لڑائی کے اپنے لیے کوئی آسائش حاصل نہیں کر سکتا۔ شرکاء نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھٹہ مزدوروں کی بنائی گئی اینٹوں سے لوگوں کے خوبصورت گھر تعمیر ہوتے ہیں، جبکہ ہمیں یہ اینٹیں بنانے کی پاداش میں غلاموں سے بھی بد تر زندگی گزارنی پڑتی ہے۔جبری قید اور مشقت ہماری زندگیوں کا معمول بن چکا ہے ، جبکہ دوسری طرف اجرتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، اس صورتحال میں تمام سرکاری انتظامیہ بھی مالکان کی جیب میں رہتی ہے اور کوئی بھی ان کی صدائیں سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود بھی ہم اپنی لڑائی کو جاری رکھیں اور اپنے حقوق لے کر رہیں گے۔ریلی کی قیادت بابو نفیس انصاری، پیٹر، اشرف انصاری نعیم ہارون،فیاض امین اور رضیہ ایرک نے کی۔