یوم مئی2024ء۔۔۔سماج کو بدل ڈالو!

|تحریر: آفتاب اشرف|

 

یوم مئی 2024ء دنیا بھر میں ایک ایسے وقت میں منایا جائے گا جب عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے سب سے گہرے اور تباہ کن بحران کا آغاز ہوئے ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش سے شروع ہونے والا یہ بحران جہاں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت کی عکاسی کرتا ہے تو وہیں پچھلی ڈیڑھ دہائی میں دنیا کے ہر خطے میں ابھرنے والی محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی تحریکیں اور انقلابی بغاوتیں واضح طور پر یہ اعلان کر رہی ہیں کہ دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہو چکی ہے۔ ایک ایسا عہد جس میں ماضی کے تعصبات اور روایات تیزی کے ساتھ دم توڑ رہے ہیں اور ہر آنے والا دن عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے جبر کے خلاف سلگتی ہوئی بغاوت کو مزید ہوا دے رہا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی بربریت کیخلاف اس ابلتے ہوئے لاوے کی حدت اس سال کرۂ ارض پر منعقد ہونے والی یوم مئی کی ہر تقریب میں محسوس کی جائے گی اور لاکھوں کروڑوں محنت کش ہاتھوں میں سرخ جھنڈے اٹھائے رنگ، نسل، قوم، زبان، مذہب اور فرقے کی ہر تفریق سے بالاتر ہو کر اپنی عالمگیر جڑت اور طاقت کا اظہار کریں گے۔

یہ دن امریکہ کے شہر شگاگو کے ان بہادر محنت کشوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے مئی 1886ء میں کام کے اوقات کار کو کم کر کے 8 گھنٹے یومیہ تک محدود کرنے کے مطالبے کے گرد چلنے والی تحریک میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے۔ انہوں نے اپنے سینوں پر پولیس کی گولیاں کھائیں، جھوٹے مقدموں اور سرمایہ داروں کی دلال عدالتوں کا مقابلہ کیا، پھانسی اور عمر قید کی سزائیں بھگتیں مگر اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے۔ انہی کی اس جرات مندانہ لڑائی کے کارن بعد ازاں نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں کام کے اوقات کار کو کم کر کے 8 گھنٹے یومیہ مقرر کرنے کے متعلق قانون سازی ہوئی۔ جولائی 1889ء میں پیرس میں منعقد ہونے والی مزدوروں اور سوشلسٹ انقلابیوں کی عالمی تنظیم دوسری انٹر نیشنل کی پہلی کانگریس میں یہ قرار داد منظور ہوئی کہ شگاگو کے شہدا ء کو خراج تحسین پیش کرنے اور ایک بہتر زندگی کے حصول کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی خاطر آئندہ سے ہر سال یکم مئی کا دن پوری دنیا میں محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا۔

آج شگاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کے 138 سال بعدسرمایہ دارانہ نظام پیداواری قوتوں کو کوئی معنی خیز ترقی دینے کی صلاحیت مکمل طور پر کھو چکا ہے۔ یہ تاریخی طور پر اتنا گل سڑ چکا ہے، اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں کی ایک وسیع ترین اکثریت کی زندگی میں کسی قسم کی کوئی بہتری نہیں لا سکتا۔ جیسے جیسے اس نظام کا بحران شدید ہوتا جا رہا ہے ویسے ہی اس کی سفاکی، استحصال اور بربریت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔سرمایہ دار طبقہ اپنی نجی ملکیت، منافعوں اور طبقاتی حکمرانی کو برقرار رکھنے کی خاطر دنیا بھر کے ہر سماج میں محنت کش طبقے پر شدید ترین معاشی، سماجی اور سیاسی حملے کر رہا ہے۔ اور جب امریکہ، برطانیہ، جاپان، چین، فرانس جیسے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک بھی پوری طرح سے اس بحران کی گرفت میں ہیں تو پھر پاکستان جیسی ایک پسماندہ سرمایہ دارانہ معیشت کی اوقات ہی کیا ہے۔

پاکستان کے محنت کش طبقے پر تو اس سے برا وقت شاید پہلے کبھی نہیں آیا ہے۔مہنگائی، غربت، بیروزگاری، لاعلاجی، ناخواندگی، بے گھری اور ذلت پہلے کبھی نہ دیکھی گئی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ محنت کش عوام کی زندگی ایک جیتی جاگتی جہنم بن چکی ہے اور ہر گزرتا دن اس کی حدت میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ ملک کے سرمایہ دار حکمران طبقے، ان کے سیاسی نمائندوں اور ریاستی اشرافیہ نے ملکی تاریخ کے بد ترین معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ڈالا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کے احکامات پر آئے روز محنت کشوں پر نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کے تابڑ توڑ حملے کئے جا رہے ہیں، عوامی سہولیات کے بجٹ میں شدید ترین کٹوتی کی جا رہی ہے، عوام کی پیٹھ پر بالواسطہ ٹیکسوں کا ایک پہاڑ لاد دیا گیا ہے اور اس میں آئے روز اضافہ کیا جا رہا ہے۔بجلی، گیس، ایندھن، اشیائے خوردونوش، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے انہیں محنت کش عوام کی ایک وسیع اکثریت کی پہنچ سے بالکل باہر کر دیا ہے۔ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً اس وقت محنت کش گھرانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو رات کو یا تو بھوکے سوتے ہیں یا پھر سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر پیٹ بھرتے ہیں۔ مزید برآں محنت کش طبقے کے اس معاشی قتل عام میں کمی آنے کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں ہیں کیونکہ جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا کہ موجودہ معاشی بحران صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی نامیاتی بحران ہے۔

موجودہ معاشی بحران صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی نامیاتی بحران ہے۔

حال ہی میں ”منتخب“ ہونے والی حکومت پہلے ہی یہ عندیہ دے چکی ہے کہ آئی ایم ایف کے موجودہ قرض پروگرام کی مدت ختم ہونے کے بعد پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے فوری طور پر آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینا پڑے گا۔ اور ظاہر ہے کہ نئے قرضے کے ساتھ منسلک عوام دشمن اور مزدور کش شرائط موجودہ قرض پروگرام سے بھی کہیں زیادہ سخت اور سفاک ہوں گی۔ اس حوالے سے پی آئی اے، پاکستان پوسٹ، بجلی کی مختلف تقسیم کار کمپنیوں، سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سمیت کئی دیگر عوامی اداروں کی فاسٹ ٹریک نجکاری اور بڑے پیمانے پر ڈاؤن سائزنگ کا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح روپے کی قیمت کو مستحکم رکھنے کی خاطر ملکی کرنسی مارکیٹ پر پچھلے کچھ عرصے سے لگائے گئے انتظامی کنٹرول کا خاتمہ کر کے اسے مکمل طور پر منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا جس کارن اس کی قدر میں ایک بڑی کمی متوقع ہے جو مہنگائی کا ایک نیا طوفان کھڑا کرے گی۔ بلند افراطِ زر ناگزیر طور پر بلند شرح سود کو برقرار رکھنے یا بڑھانے کا سبب بنے گا جس کے باعث ملک کے داخلی قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کے حجم میں ہوش ربا اضافہ ہو گا جبکہ دوسری طرف کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے اور پچھلے بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لئے تابڑ توڑ نئے بیرونی قرضے حاصل کئے جائیں گے۔

اس سب کے نتیجے میں ملکی قرضوں کے موجودہ پہاڑ میں مزید اضافہ ہو گا اور یہ تمام اضافہ بھی نئے بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں محنت کش عوام کی پیٹھ پر لاد دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال کی 90 فیصد ٹیکس آمدن صرف سابقہ قرضوں اور سود کی ادائیگی کی مد میں خرچ ہو رہی ہے۔ یہ وہ قرضے ہیں جو نہ پاکستان کے محنت کش عوام نے لئے اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے لیکن ان کی واپسی عوام کی ہڈیوں سے گودا نچوڑ کر کی جا رہی ہے۔ رہی سہی کسر فوجی اخراجات کی مد میں ہونے والی جرنیلی اشرافیہ کی عیاشیوں، سول افسرشاہی، عدالتی اشرافیہ اور سیاسی حکمرانوں کی لوٹ مار نے پوری کر رکھی ہے اور اس تمام لوٹ کھسوٹ کا سارا بوجھ محنت کش عوام نے اٹھا رکھا ہے۔ واضح رہے کہ معاشی بحران کی کیفیت میں بربادی اور تباہی صرف محنت کشوں کا ہی مقدر بنی ہوئی ہے جبکہ سرمایہ دار طبقہ موجودہ صورتحال میں بھی ہوش ربا منافعے نچوڑ رہا ہے۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والے اعداد و شمار کے مطابق سال 2023ء میں ملک کے نجی بنکوں سمیت 83 بڑی کمپنیوں نے عوام کی ہڈیوں سے 1660 ارب روپے کا منافع نچوڑا ہے اور یہ ابھی ان کے خود کے دیے گئے اعداد و شمار ہیں، لہٰذا حقیقی منافع خوری تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہو گی۔

بظاہر پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیوں، حکومت اور اپوزیشن وغیرہ میں بہت سے اختلافات کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔لیکن ان کے یہ تمام نام نہاد اختلافات صرف اور صرف اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لئے ہیں تا کہ لوٹ کے مال میں زیادہ سے زیادہ حصہ بٹورا جا سکے۔ آئی ایم ایف و دیگر سامراجی طاقتوں اور عالمی و ملکی سرمایہ دار طبقے کی چاکری، ریاستی اور خاص کر فوجی اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کی بوٹ پالش، سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی نگہبانی اور محنت کش طبقے پر ظلم و جبر کرنے اور ان کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرنے کے حوالے سے ن لیگ سے لے کر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سے لے کر ایم کیو ایم تک تمام سیاسی پارٹیاں ایک پیج پر ہیں۔ یہاں اگر کسی کو عمران خان اور پی ٹی آئی کے متعلق کچھ خوش فہمیاں ہیں تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اسی عمران خان کے دور میں اس وقت تک کی ملکی تاریخ کی بد ترین مہنگائی ہوئی تھی اور آئی ایم ایف کے ساتھ ایک بدترین عوام دشمن قرض معاہدہ کیا گیا تھا۔ مزید برآں ابھی حال ہی میں عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو الیکشن دھاندلی کے متعلق لکھے گئے خط میں بھی اس عالمی سامراجی ادارے کی مزدور کش پالیسیوں پر کوئی تنقید نہیں ہے بلکہ صرف یہ منت سماجت کی گئی ہے کہ جب تک پی ٹی آئی اقتدار میں نہ آئے، اس وقت تک آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ نہ دے۔

اسی طرح ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ، عدالتی اسٹیبلشمنٹ اور سول افسر شاہی بھی کھلی ننگی مزدور اور عوام دشمن ہے اور ان کا یہ کردار اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہ گیا۔ اسی طرح اگر مزدور تحریک کی گردن سے کسی اژدھے کی طرح لپٹی روایتی ٹریڈ یونین قیادتوں کی بات کی جائے تو وہ محنت کش طبقے میں سرمایہ دار حکمران طبقے، مالکان، انتظامیہ اور ریاستی اشرافیہ کے دلال ہیں۔ ان کا واحد کام مزدور تحریک میں سرمایہ دار حکمران اشرافیہ کے مفادات کی حفاظت کرنا ہے اور اس مقصد کے لئے وہ محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے، اسے بد دل اور مایوس کرنے، اسے مزاحمتی سیاست سے دور رکھنے اور اس کی اپنے حقوق کی خاطر لڑائی لڑنے کی تمنا کو مانند کرنے کے لئے کوئی بھی ہتھکنڈا استعمال کرنے سے نہیں چوکتے۔ اگر کبھی محنت کشوں کے شدید دباؤ کے تحت انہیں کسی جدوجہد کی قیادت کرنی بھی پڑ جائے تو وہ موقع ملتے ہی تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اس کا خاتمہ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ روایتی مزدور قیادتوں کے ساتھ ساتھ پچھلے کچھ عرصے میں ابھرنے والی چند ایک نئی قیادتیں بھی اپنی نظریاتی بے راہ روی کے کارن اب اسی ڈگر پر چل رہی ہیں جس کی ایک واضح مثال اگیگا اتحاد کی مرکزی قیادت ہے۔مزدور قیادتوں کی انہی پے در پے غداریوں کا نتیجہ ہے کہ فی الوقت محنت کش طبقے پر ایک مایوسی کی کیفیت طاری ہے اور وہ خواہش رکھنے کے باوجود حکمران طبقے کے تابڑ توڑ حملوں کا مناسب جواب نہیں دے پا رہا ہے۔ مزدور تحریک کی اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر حکمرانوں نے ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر آمرانہ پابندیاں لگانے سے لے کر محنت کش طبقے کو رنگ، نسل، مذہب، قوم کی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوششوں کو بھی تیز تر کر دیا ہے۔

روایتی مزدور قیادتوں کے ساتھ ساتھ پچھلے کچھ عرصے میں ابھرنے والی چند ایک نئی قیادتیں بھی اپنی نظریاتی بے راہ روی کے کارن اب اسی ڈگر پر چل رہی ہیں جس کی ایک واضح مثال اگیگا اتحاد کی مرکزی قیادت ہے۔

مگر انہی تمام وجوہات کے کارن محنت کش طبقے اور عوام کی ایک بھاری ترین اکثریت عالمی سامراجی طاقتوں اور مالیاتی اداروں، پاکستان کی سرمایہ دارانہ ریاست، اس کے سرمایہ دار حکمران طبقے، اس کے تمام عوام دشمن ریاستی اداروں، ریاستی افسرشاہی، سیاسی پارٹیوں اور ٹریڈ یونین قیادتوں سے شدید نفرت کرتی ہے اور ان کے دل ودماغ میں ان سب کے خلاف بغاوت کا ایک آتش فشاں پک کر تیار ہو رہا ہے جو کہ جلد یا بدیر ایک طوفان خیز انقلابی دھماکے کی صورت میں اپنا اظہار کرے گا۔ لیکن کیا سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی متبادل موجود ہے جو کہ ملک کے چوبیس کروڑ محنت کش عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم علاج، روزگار، رہائش، تفریح سمیت زندگی کی تمام بنیادی ضروریات فراہم کر سکے اور انہیں ایک ایسی خوشحال زندگی دے سکے جو کہ واقعی نوع انسان کے شایان شان ہو۔

جی ہاں، صرف ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت ہی محنت کش طبقے کو یہ سب کچھ مہیا کر سکتی ہے، جس میں صنعتوں، بنکوں، جاگیروں، معدنی وسائل سمیت دولت پیدا کرنے کے تمام ذرائع پر مٹھی بھر سرمایہ داروں کی نجی ملکیت کا خاتمہ کر کے انہیں محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیا جائے گا۔ اسی طرح تمام داخلی و سامراجی قرضوں کو بھی ضبط کر لیا جائے گا اور سامراج کے ساتھ کئے گئے تمام مالیاتی، سیاسی، سفارتی اور فوجی معاہدوں کو منسوخ کرتے ہوئے ملک میں موجود تمام سامراجی اثاثہ جات کو بھی اجتماعی ملکیت میں لے لیا جائے گا۔ سوشلسٹ معیشت میں تمام پیداوار کا مقصد سماجی و انسانی ضروریات کی تکمیل ہو گا نہ کہ منافع خوری۔ یوں چوبیس کروڑ محنت کش عوام کی پیدا کردہ دولت سامراجی مالیاتی اداروں، چند ملکی سرمایہ داروں اور ریاستی اشرافیہ کی تجوریوں میں جانے کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر ہی لگے گی اور انہیں ایک خوشحال زندگی میسر ہو سکے گی۔ امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے گا۔

لیکن یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہو جائے گا۔ ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کو تعمیر کرنے کے لئے پاکستان کے محنت کش طبقے کو عوام کی دیگر تمام مظلوم پرتوں کی قیادت کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی نمائندہ ریاست کا بزور طاقت خاتمہ کرنا ہو گا۔ تمام پرانے مزدور و عوام دشمن ریاستی ڈھانچے کو مسمار کر کے ایک مزدور ریاست تعمیر کرنا ہو گی۔ سرمایہ دارانہ عدالتوں، پولیس اور سول افسر شاہی کے نظام کا بھی مکمل طور خاتمہ کر دیا جائے گا اور معیشت و سماج کی انتظام کاری محنت کش عوام کی منتخب کردہ پنچائیتوں کے سپرد ہو گی جس میں ووٹ لینے اور دینے کا حق صرف محنت کش عوام کے پاس ہو گا اور ووٹرز کو نامناسب کارکردگی پر اپنے منتخب نمائندے کو کسی بھی وقت واپس بلانے کا اختیار حاصل ہو گا۔ سرمایہ دارانہ فوجی ڈھانچے کا بھی مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ایک مزدور فوج تخلیق کی جائے گی جس میں افسروں اور سپاہیوں کی تنخواہیں اور مراعات برابر ہوں گی اور افسروں کا انتخاب سپاہیوں کی کمیٹیوں کے ذریعے ہو گا۔ مزدور ریاست کے تمام ریاستی اہلکاروں کی تقرری محنت کش عوام کی منتخب پنچائیتوں کے ذریعے ہو گی اور ان کے پاس ان اہلکاروں کو کسی بھی وقت عہدے سے ہٹانے کا اختیار بھی ہو گا۔ کسی بھی ریاستی اہلکار کی تنخواہ اور مراعات کسی بھی صورت ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہوں گی۔ مزدور ریاست کی خارجہ پالیسی کی بنیاد عالمی سوشلسٹ انقلاب کی بڑھوتری اور ایک عالمی سوشلسٹ سماج کا قیام ہو گی اور اس حوالے سے دنیا بھر کے محنت کشوں اور کمیونسٹ انقلابیوں کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ یہ مزدور ریاست اور سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت نہ صرف طبقاتی جبر و استحصال کا خاتمہ کرے گی بلکہ قومی، صنفی، مذہبی، ثقافتی غرض یہ کہ ہر قسم کے ظلم و جبر کا خاتمہ کرے گی۔

صرف اور صرف مندرجہ بالا سوشلسٹ پروگرام پر مبنی ایک انقلابی تبدیلی ہی آج پاکستان کے محنت کش طبقے کے لئے واحد راہ نجات ہے۔ اور یہاں کے محنت کش عوام بھی اپنے تلخ تجربات سے سیکھتے اور لازمی نتائج اخذ کرتے ہوئے اسی سمت میں گامزن ہیں۔ لیکن کمیونسٹوں کا فریضہ ہے کہ وہ محنت کش طبقے کے سیکھنے کے اس عمل کو تیز و سہل بنانے میں اپنی منظم شعوری جدوجہد کا حصہ ڈالیں۔ یہ بات ایک طے شدہ امر ہے کہ پاکستان کے محنت کش طبقے کو اپنی بقا کی خاطر ناگزیر طور پر ایک انقلابی جدوجہد میں اترنا پڑے گا۔ مگر محنت کش طبقے اور عوام کی یہ انقلابی جرات مندی ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب پر تبھی منتج ہو سکتی ہے اگر اسے سائنسی سوشلزم، مارکس ازم لینن ازم یعنی کمیونزم کے نظریات و پروگرام، روایات اور درست طریقہ کار سے مسلح تجربہ کار اور جرات مند کیڈرز پر مشتمل ایک کمیونسٹ انقلابی پارٹی کی قیادت میسر آئے۔ آج محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی ہراول لڑاکا پرتوں کو ان نظریات سے متعارف کرواتے اور ایک آہنی انقلابی ڈسپلن میں منظم کرتے ہوئے انقلاب روس کی قیادت کرنے والی بالشویک پارٹی کی طرز کی ایک انقلابی قوت کی تعمیر ہی کمیونسٹوں اور محنت کشوں کی با شعور ہراول پرتوں کا اہم ترین تاریخی فریضہ ہے۔ یہی 1886ء کے شگاگو کے شہدا کے خون کا ہم پر قرض ہے۔۔۔یہی یوم مئی 2024ء کا پیغام ہے۔

Comments are closed.