|تحریر: آفتاب اشرف|
یوم مئی 2023ء ایک ایسے وقت میں منایا جائے گا جب پاکستان اپنی تاریخ کے بد ترین معاشی، ریاستی، سماجی و سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ محنت کش طبقے پر آئے روز مہنگائی، بیروزگاری، بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار، نجکاری، جبری برطرفیوں اور دیگر ہر ممکنہ طریقے سے ایک خونی وار کیا جاتا ہے۔ مگر یہ بحران صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ عالمی سرمایہ داری کا تاریخی نامیاتی بحران ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پوری دنیا میں سرمایہ دار حکمران طبقات اس بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر منتقل کر رہے ہیں اور ان پر دن رات نت نئے سماجی، سیاسی اور خصوصاً معاشی حملے کر رہے ہیں۔
مگر دنیا کے کم و بیش ہر سماج کا محنت کش طبقہ بھی حکمرانوں کے ان حملوں کے جواب میں منظم ہو رہا ہے اور اپنے حقوق کے دفاع کے لئے حرکت میں آ رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور سپین جیسے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے محنت کشوں نے شدید مہنگائی کے پیش نظر اجرتوں میں اضافے، صحت پر ریاستی اخراجات میں اضافے وغیرہ کے حق میں اور ریٹائرمنٹ ایج میں اضافے اور پنشن کٹوتی جیسے مزدور دشمن اقدامات کے خلاف ملک گیر احتجاج اور عام ہڑتالیں کی ہیں جن میں عوامی اداروں، نجی صنعتوں اور دیگر شعبہ جات کے کئی ملین ورکرز نے حصہ لیا ہے۔ فرانس میں تو یہ احتجاجی تحریک صدر میکرون کی سرمایہ نواز حکومت کے خلاف ایک کھلی بغاوت کا روپ دھار گئی ہے جس میں مارچ میں ایک وقت میں 35 لاکھ افراد نے احتجاج کیا۔
دنیا کے بہت سے دیگر سماجوں میں بھی پچھلے عرصے میں محنت کش عوام کی ایسی ہی بغاوتیں دیکھنے کو ملی ہیں جس میں پچھلے سال ایران اور سری لنکا میں برپا ہونے والی انتہائی جرات مندانہ عوامی تحریکیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مگر ان تمام احتجاجوں، عام ہڑتالوں اور عوامی بغاوتوں میں ایک مشترکہ کمی واضح طور پر نظر آ رہی ہے اور وہ ہے تاریخی متروکیت کے شکار سرمایہ دارانہ نظام کے واحد قابل عمل معاشی، سماجی و سیاسی متبادل یعنی سائنسی سوشلزم کے نظریات و پروگرام سے لیس اور محنت کش طبقے میں مضبوط جڑیں رکھنے والی ایک انقلابی پارٹی کا فقدان۔ محنت کش عوام کی تمام تر جرات و ہمت کے باوجود 2011ء کے عرب انقلابات سے لے کر سری لنکا کی حالیہ عوامی بغاوت تک ان تمام انقلابی تحریکوں کی وقتی پسپائی کا واحد کارن ایک سوشلسٹ انقلابی قیادت کا فقدان ہی ہے۔
اگر ہم اس تمام تر عالمی صورتحال کے پس منظر میں پاکستان میں مزدور تحریک پر بات کریں تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ 1989ء میں دیوار برلن کے انہدام کے بعد تقریباً دو دہائیوں پر مشتمل زوال پذیری کا ایک طویل دور گزرا جس میں دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح یہاں کی مزدور تحریک بھی سیاسی، نظریاتی اور عملی لحاظ سے کوسوں پیچھے دھکیلی گئی۔ لیکن پھر 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد سے لے کر اب تک پچھلی کم و بیش ڈیڑھ دہائی میں اگرچہ یہاں مزدور تحریک کی ایک نئی اٹھان سامنے آئی ہے مگر یہ واضح ہے کہ محنت کش طبقہ سوویت یونین کے انہدام اور اس کے ساتھ منسلک سٹالنسٹ بائیں بازو اور ٹریڈ یونین قیادتوں کی کھلی غداریوں سے ابھی تک مکمل طور پر سنبھل نہیں سکا۔
اس کے ساتھ ساتھ ماضی میں پاکستان کے محنت کش طبقے کی روایتی پارٹی یعنی پیپلز پارٹی کی قیادت کی بار بار کی غداریوں، مزدور دشمنی اور دھوکے بازی نے جہاں اس پارٹی کا بطور روایت خاتمہ کر دیا ہے وہیں اس قیادت کے ہاتھوں محنت کش طبقے کو لگنے والے زخم ابھی بھی رس رہے ہیں۔ اِکا دُکا مثالوں کو چھوڑ کر مزدور تحریک پر ابھی تک براجمان پرلے درجے کی مزدور دشمن اور دھوکے باز ٹریڈ یونین قیادتوں اور تحریک کی نظریاتی بے راہ روی اور بے سمتی کی جڑیں بھی انہی تمام وجوہات میں پیوست ہیں۔ انہی مسائل کے کارن پچھلی ڈیڑھ دہائی میں عوامی اداروں، نجی صنعتوں اور دیگر شعبہ جات کے محنت کشوں کی بے شمار احتجاجی تحریکوں، جزوی یا مکمل ہڑتالوں اور جرات مندانہ جدوجہد کے باوجود چند ایک مثالوں کو چھوڑ کر نہ تو محنت کش طبقہ کوئی بڑی کامیابیاں حاصل کر سکا ہے اور کچھ مشترکہ پلیٹ فارمز بننے کے باوجود نہ ہی ابھی تک بحیثیت مجموعی مزدور تحریک ملک کے سیاسی و سماجی اُفق پر ایک متحد طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آسکی ہے۔ یہاں تک کہ ٹریڈ یونین اشرافیہ کی سیاہ کاریوں سے شدید نفرت کرنے اور ان سے نجات کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود چند ایک مثالوں کو چھوڑ کر محنت کش طبقہ ان کے خلاف ایک متبادل لڑاکا قیادت سامنے لانے کے لئے کوئی منظم کوشش بھی نہیں کر پایا ہے۔
لیکن یہ صورتحال ایسے ہی جاری نہیں رہے گی اور آنے والے عرصے میں اس ملک کا محنت کش طبقہ بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح نہ صرف لڑائی کے میدان میں اترے گا بلکہ ماضی کی مسلط کردہ تمام تر غلاظتوں کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے پوری جرات، دلیری اور انقلابی ولولے کے ساتھ حکمران طبقے کے تمام تر حملوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرے گا۔ موجودہ صورتحال اور سطح پر نظر آنے والی خاموشی طوفان سے پہلے کے سکوت کا دور ہے جبکہ سطح سے نیچے ابلنے والا غم و غصہ کسی بھی وقت آتش فشاں کی طرح پھٹ کر سطح پر اپنا اظہار کرسکتا ہے اور اس وقت ہر شہرمیں لاکھوں محنت کش سڑکوں پر اپنے حقوق چھیننے کے لیے احتجاج کرتے نظر آئیں گے۔
اس حوالے سے موجودہ عرصے میں مہنگائی اور بیروزگاری کے حملوں کے خلاف تحریکوں کے نہ ابھرنے کا تمام الزام محنت کش طبقے کو ہی دے دینا غالباً دنیا کا آسان ترین کام ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ مارکسی نقطہ نظر سے انتہائی غلط بھی ہے۔ مزدور تحریک کوئی مجرد فارمولائی شے نہیں جو اچانک ہی آسمان سے ٹپک پڑتی ہے بلکہ یہ کسی بھی عہد کے مخصوص عالمی و ملکی تاریخی، معروضی اور مو ضوعی عوامل کے جدلیاتی تال میل میں ایک زندہ حقیقت کے طور پر پروان چڑھتی ہے۔ سماج میں موجود طبقاتی تضادات ایک طویل عرصے تک پنپتے رہتے ہیں اور کسی ایک مخصوص نکتے پر جا کر پھٹتے ہیں جہاں پورے سماج میں ایک طبقاتی جنگ کھل کر لڑی جاتی ہے جس کا فیصلہ اس سماج کے مستقبل کا تعین کرتا ہے۔ ایسے ہی حالات میں نظریاتی سیاست تاریخی اہمیت اختیار کر لیتی ہے اور انقلابی نظریات مزدوروں کی وسیع پرتوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل ان نظریات کے گرد ایک منظم کیڈرز کی تنظیم کی موجودگی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔
اب یہ ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ پاکستان کی مزدور تحریک کو پچھلی تین دہائیوں میں کن حالات سے گزرنا پڑا اور ان کے اس پر کیا اثرات ہوئے ہیں۔ اصل سوال مسئلے کو اس کی جڑ سے پکڑنے اور اس کا تدارک کرنے کا ہے۔ جب اس موضوع پر محنت کش طبقے کی ہر اول شعور یافتہ پرتوں یا حتیٰ کہ مزدور تحریک میں سرگرم مارکس وادیوں سے بھی تبادلہ خیال کیا جاتا ہے تو وہ اکثر ٹریڈ یونین قیادتوں کی غداریوں، طبقاتی اتحاد کی کمی اور ایک لڑاکا مزدور قیادت کے فقدان کی بات کرتے ہیں۔
یہ تمام حقائق اپنی جگہ درست اور نہایت اہم ہیں مگر یہ مسئلے کی جڑ نہیں۔ اگر ہم مرض کی تشخیص میں مزید ایک قدم آگے بڑھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ محنت کش طبقے کی ہر اول پرتوں میں مضبوط جڑیں رکھنے والی ایک منظم سوشلسٹ انقلابی کیڈر پارٹی کے بغیر ان تمام مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہ انقلابی پارٹی خود بخود آسمان سے تو نہیں ٹپکے گی۔ اسے منظم و مسلسل نظریاتی، سیاسی و عملی جدوجہد کے ذریعے تعمیر کرنا پڑے گا۔ اس مقصد کے لئے جہاں محنت کشوں کی ہر ایک لڑائی میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا لازمی ہے وہیں اتنا ہی ضروری ہے کہ مزدور تحریک کی سوشلسٹ نظریات کے ساتھ آبیاری کی جائے۔ درحقیقت آج مزدور تحریک کی نظریاتی بے سمتی اور بے راہ روی ہی اس میں موجود تمام تر مسائل کی بنیادی ترین وجہ ہے۔ اسی لئے ہمارا ماننا ہے کہ اگر کوئی مارکس وادی مزدور تحریک کے ساتھ جڑتے ہوئے محض اپنے آپ کو تحریک کی فوری معاشی مانگوں تک ہی محدود کرلیتا ہے تو وہ اپنی تمام تر قربانیوں کے باوجود محض ریڈیکل ٹریڈ یونین ازم کر رہا ہے نہ کہ انقلابی سیاسی جدوجہد۔
حقیقت تو یہ ہے بائیں بازو کی نظریاتی خامیوں اور انہی سے منسلک پیٹی بورژوا رویوں اور تعصبات کے کارن پاکستان میں آج تک سوشلسٹ نظریات کو محنت کش طبقے تک لے جانے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ پچھلی سات دہائیوں میں ٹریڈ یونین کی سطح پر بائیں بازو نے کام تو بہت کیا اور ماضی میں عالمی افق پر سوویت یونین اور چین کی منصوبہ بند معیشت کی موجودگی کے باعث سوشلزم کی بحث سیاست اور سماج میں عمومی طور پر موجود بھی تھی لیکن عملی طور پر مزدور تحریک میں دانستہ طور پر اس مداخلت کو صرف فوری معاشی مطالبات اور یونین قیادتوں کی طرف سے مقرر کردہ حدود و قیود تک ہی محدود رکھا گیا اور کبھی محنت کشوں کو سوشلسٹ نظریات سے روشناس کراتے ہوئے ان میں ایک انقلابی کیڈر تعمیر کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ سٹڈی سرکل کو بھی باقاعد گی سے منظم نہیں کیا گیا اور نہ ہی مزدوروں کو قدر زائد، کموڈیٹی اورجدلیاتی فلسفے جیسے موضوعات اور داس کیپیٹل جیسی شہرۂ آفاق کتاب سے روشناس کروایا گیا۔ سٹالنسٹ اور ماؤ اسٹ بائیں بازو کی اس انتہائی غلط پالیسی کی وضاحت تو ان کے مرحلہ وار انقلاب جیسے انتہائی غلط نظریات کے تحت کی جا سکتی ہے کہ ان کی نظر میں تو پاکستان ابھی سوشلسٹ انقلاب کے لئے معروضی اعتبار سے ہی تیار نہیں تھا۔ لیکن ستم ظریفی تو یہ ہے کہ نظریہ انقلاب مسلسل جیسے درست اور سائنسی نقطہ نظر سے مسلح ہونے کے باوجود بہت سے مارکس وادی کارکنان نے بھی ابھی چند سال پہلے تک اس ضمن میں کوئی خاص کوشش نہیں کی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سوویت یونین کے انہدام کے تین دہائیوں بعد محنت کش طبقے کی ہر اول لڑاکا پرتیں بھی سوشلزم کے نام تک سے نا آشنا ہیں۔ جبکہ دوسری طرف آج سرمایہ دارانہ معاشی بحران کی شدت اور حکمران طبقے کی پھیلائی ہوئی نظریاتی و سیاسی پراگندگی نے فوری معاشی مطالبات کے لئے کسی قابل ذکر پیمانے پر لڑنے اور بنیادی مشترکہ مطالبات کے گرد دیرپا مزدور اتحاد کو پروان چڑھانے کے لئے بھی کم ازکم محنت کشوں کی ہر اول پرتوں میں سوشلسٹ نظریات کی جانکاری کو لازمی بنا دیا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک متبادل قیادت یا ایک متبادل ٹریڈ یونین یا سیاسی پلیٹ فارم کا سوال حتمی تجزئیے میں ایک متبادل نظریے کا سوال ہوتا ہے۔ اور آج جب بحران کی شدت اتنی خوفناک ہے اور معمولی سے معمولی حاصلات کے لئے بھی اتنی کٹھن جدوجہد درکار ہے تو یہ سوچنا بیوقوفی ہو گی کہ مزدور تحریک کی سوشلسٹ نظریات سے آبیاری کئے بغیر ایک متبادل لڑاکا قیادت تعمیر کی جا سکتی ہے اور تحریک کو کسی قابل ذکر انداز میں آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کو بلاشبہ یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اس حوالے سے چند ابتدائی قدم اٹھائے ہیں اور مزدور تحریک میں سوشلسٹ نظریات کے بیج بونے کا آغاز کیا ہے۔ مگر واضح رہے کہ یہ ابھی آغاز کا بھی آغاز ہے۔ ایک طویل اور کٹھن سفر ابھی باقی ہے جس میں کامیابی کی کنجی انقلابی استقامت اور لینن کی”صبر کے ساتھ وضاحت کرو!“ جیسی نصیحت کو پلے سے باندھ لیناہے۔ ہمیں اس حوالے سے جہاں اپنے کام اور کوششوں کی رفتار بڑھانے کی ضرورت ہے وہیں دوسری طرف بے صبری کا شکار ہو کر محنت کش طبقے کی شعوری صلاحیتوں اور انقلابی پوٹینشل کے متعلق جلد بازی میں کوئی غلط نتائج اخذ کرنے سے بچنا بھی اشد ضروری ہے۔ مزید برآں محنت کشوں کی نظریاتی تعلیم و تربیت کا کام مزدور تحریک میں عملی شمولیت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لئے لازمی ہے کہ ہم چھوٹے بڑے احتجاجوں اور ہڑتالوں سے لے کر ورکرز کی روز مرہ کی جدوجہد تک کا حصہ بنیں۔
اس مقصد کے لئے ہمارا اولین ٹارگٹ ہونا چاہئے کہ ہم ملک کے تمام بڑے شہروں میں عوامی اداروں،بڑی نجی صنعتوں اور جہاں کہیں بھی ہمیں موقع ملے محنت کشوں کے باقاعدہ سٹڈی سرکلز منعقد کرنے کا آغاز کریں جن میں آسان الفاظ میں روز مرہ کی ٹھوس مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں سوشلزم کے انقلابی نظریات، منصوبہ بند معیشت، مزدور تحریک کی تاریخ،ماضی کے مزدور انقلابات، عبوری پروگرام اور دیگر موضوعات کے ساتھ روشناس کرایا جائے۔ مزید برآں ان سرکلز میں محنت کشوں کے فوری مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کو آگے بڑھانے کے متعلق مختلف طریقہ ہائے کار اور مشترکہ مطالباتی پروگرام پر بھی بحث ہونی چاہئے اور فوری مطالبات کے گرد ہونے والی جدوجہد میں انقلابی مداخلت کے متعلق فیصلہ جات بھی لئے جانے چاہئیں۔ مستقبل میں انہی سرکلز میں تربیت پانے والے مزدور نہ صرف ایک لڑاکا مزدور قیادت کی تعمیر میں ایک اہم عنصر ثابت ہوں گے بلکہ ایک سوشلسٹ انقلابی پارٹی کو محنت کش طبقے میں مضبوط بنیادیں بھی فراہم کریں گے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یوم مئی کا دن 1886ء میں 8 گھنٹے کام کی جدوجہد کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شکاگو کے مزدور شہداء کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ان محنت کشوں کی قربانیوں کی یاد میں اس دن کو عالمی سطح پر ہر سال منانے کی تجویز 1889ء میں دوسری انٹر نیشنل کی پہلی کانگریس میں منظور ہوئی تھی اور اس دوسری انٹر نیشنل کا نظریہ و پروگرام سائنسی سوشلزم پر مبنی تھا۔ یعنی یہ سوشلزم یا مارکسزم کے نظریات ہی تھے جنہوں نے محنت کشوں کے اس عالمی دن کی بنیاد رکھی تھی۔ آج یوم مئی 2023ء کے موقع پر ہمیں یہ تجدید عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم مزدور تحریک کو اس کی اصل نظریاتی وراثت یعنی مارکسزم لینن ازم کے نظریات سے مسلح کرتے ہوئے اسے انقلابی بنیادوں پر منظم کرنے میں اپنے رگ و ریشے کی تمام تر قوتوں کو صرف کریں گے تا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی غلاظت کا انقلابی خاتمہ کرتے ہوئے ذرائع پیداوار پر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت اور مزدور ریاست تعمیر کی جاسکے جہاں تمام فیصلے محنت کش عوام کے جمہوری طور پر منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل کمیٹیاں کریں گی اور جہاں پیداوار کا مقصد منافع نہیں بلکہ انسانی ضروریات کی تکمیل ہوگا۔ یہی شکاگو کے شہدا کے خون کا ہم پر قرض ہے اور یہی آج ہمارا اہم ترین تاریخی فریضہ ہے۔