|تحریر: آفتاب اشرف|
یومِ مئی 2021ء ایک ایسی صورتحال میں منایا جائے گا جب سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر اپنی تاریخ کے سب سے گہرے اور بدترین نامیاتی بحران سے گزر رہا ہے۔ مزید برآں، کرونا وبا نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے اس بحران کو اور بھی خوفناک بنا دیا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ ممالک کی معیشت بھی گراوٹ اور سکڑاؤ کا شکار ہے۔ عالمی تجارت میں بڑے پیمانے پر کمی ہو رہی ہے۔ امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور چین میں بھی صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ بے روزگاری کا عفریت کرہئ ارض کے ہر سماج میں جبڑے کھولے کھڑا ہے۔ عوام کامعیارِ زندگی روز بروز گر رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سمیت پوری دنیا کے سرمایہ دار حکمران طبقات اس بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر لادنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی ہڈیاں نچوڑ کر اپنی منافع خوری کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود سرمایہ داری ریاستی بیساکھیوں کا سہارا لینے پر مجبور ہے اور پچھلے کم وبیش ایک سال میں خاص کر ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ دار طبقے کو ریاست کی طرف سے تاریخ کے سب سے بڑے معاشی پیکج دیے گئے ہیں جن کی وجہ سے ریاستی قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جن کی واپسی محنت کش طبقے کے استحصال میں زبردست اضافہ کر کے ہی کی جائے گی۔ عالمی معیشت اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی ایسی دگرگوں صورتحال میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ بحران پسماندہ ممالک کے سماج، معیشت اور محنت کش طبقے پر کتنے تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے۔ یہ تو وہ ممالک ہیں جہاں ”اچھے وقتوں“ میں بھی محنت کش عوام کو کبھی سُکھ کا سانس میسر نہیں ہوا اور اب توعالمی بحران کی شدت نے ان کی معیشتوں کو بالکل برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ یہاں کا سرمایہ دار طبقہ اور ریاست جتنے پسماندہ ہیں اتنے ہی زیادہ رجعتی، غلیظ اور کھلے عوام دشمن ہیں۔ نتیجتاً ان سماجوں میں سرمایہ دار طبقہ اور ریاستی اشرافیہ بحران کا تما م تر بوجھ اندھا دھند محنت کش عوام کی کمر پر لاد رہے ہیں اور اس کے لئے ننگے ریاستی جبر کا بھی بلا دریغ استعمال کر رہے ہیں۔
اگر ہم اس سارے عالمی پس منظر میں پاکستان کی صورتحال پر ایک طائرانہ نگا ہ ڈالیں تو یہ جاننا مشکل نہیں کہ حالیہ عرصے میں یہاں کے محنت کش طبقے پر کیے جانے والے معاشی، سماجی و سیاسی حملوں کی مثال اس ملک کی 74 سالہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ملتی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کے احکامات کے تحت یہاں کا سرمایہ دار حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ یہاں کے محنت کشوں کو زندہ درگور کرنے کے درپے ہیں۔ ایک طرف افراطِ زر اور مہنگائی آسمان کو چھو رہے ہیں تو دوسری طرف عوام کی کمر بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ سے ٹوٹنے کے قریب ہے۔ بے روز گاری اور غربت کے سمندر میں پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ نجکاری اور جبری بر طرفیوں کے بدترین وار کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف تنخواہیں منجمد ہیں بلکہ حقیقی اجرتوں میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ مستقل روز گار اور پنشن کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں جو تھوڑی بہت پبلک سیکٹر سہولیات عوام کو میسر تھیں، اب ان کا بھی خاتمہ کیا جا رہا ہے اور عوام کو حاصل سبسڈیوں اور عوامی سہولیات پر حکومتی اخراجات میں بدترین کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف سرمایہ داروں کو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی ریلیف پیکجز سے نوازا جا رہا ہے۔ ریاستی اشرافیہ کی عیاشیاں پہلے کبھی نہ دیکھی گئی حدوں کو چھو رہی ہیں۔ کالے دھن کو رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے ذریعے وائیٹ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ ذخیرہ اندوز مافیانے الگ اندھیر نگری مچا رکھی ہے اور آئے دن اشیائے صرف کی مصنوعی قلت پیدا کر کے ہوش ربا منافعے کمائے جا رہے ہیں۔ بجلی، ڈیزل سے لے کر چینی اور آٹے تک کی قیمتوں میں آئے روزاضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ کرونا وبا جیسی آفت کو بھی منافع خوری کے ایک ذریعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور نجی شعبہ صحت ٹیسٹوں سے لے کر ویکسین کے معاملے تک اربوں کھربوں روپے کے منافعے کما رہا ہے جبکہ غریب اس موذی مرض کے ہاتھوں سسک سسک کر جان دے رہے ہیں۔ مستقبل میں یہ حملے کم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کریں گے۔ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کے لئے نئے ٹیکسوں کے نفاذ، گردشی قرضوں کا بوجھ عوام پر لادنے، نجکاری پروگرام میں آنے والی شدت اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری جیسے اقدامات اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں۔ ان تمام مزدور و عوام دشمن اقدامات کے خلاف مزاحمت کا راستہ روکنے کے لئے حکمرانوں نے آزادی تحریر و تقریر پر ہر ممکن قد غن لگائی ہے۔ نجی شعبے میں تو ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر عملاً پابندی ہی ہے لیکن اب پبلک سیکٹر میں بھی مختلف حیلے بہانوں سے ٹریڈ یونینز کا دائرہ کار محدود سے محدود تر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اسی طرح اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے محنت کشوں کے خلاف جھوٹی عدالتی کاروائیوں سے لے کر برہنہ ریاستی جبر کا بلا دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ اقتدار اور لوٹ مار کے مال کی بند ر بانٹ پر ہر وقت آپس میں نورا کشتی میں مصروف حکومت اور اپوزیشن مزدور دشمن اقدامات اور عالمی مالیاتی اداروں کی چاکری میں بالکل ایک پیج پر ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ فوج، عدالت، بیوروکریسی اور پارلیمنٹ سمیت اس ریاست کا ہر ادارہ مزدور دشمنی میں اپنی مثال آپ ہے۔
مگر پوری دنیا کی طرح پاکستان کا محنت کش طبقہ بھی حکمران طبقے کی اس یلغار کا نہایت جرات اور بہادری کیساتھ مقابلہ کر رہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں ملک کی مزدور تحریک نے ایک نئی اٹھان لی ہے اور ماضی کے برعکس آج مختلف سرکاری محکموں، اداروں اور صنعتوں کے محنت کش مزدور اتحادوں اور الائنسز میں متحد ہو کر مشترکہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں ہمیں ملک کے بے شمار بڑے شہروں اور خصوصاً اسلام آباد میں تنخواہوں میں اضافے، نجکاری اور جبری برطرفیوں کے خاتمے، نام نہاد پنشن اصلاحات کے خاتمے اور مستقل روزگار کے حصول کے لئے چھوٹے سرکاری ملازمین اور محنت کشوں کی مختلف ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز پر مشتمل ان الائنسز کی طرف سے کئی ایک جرأت مندانہ احتجاج دیکھنے کو ملے ہیں جنہیں جزوی کامیابی بھی ملی ہے۔ لیکن یہ ابھی ایک طویل اور پُر پیچ سفر کا آغاز ہے جس میں ناگزیر طور پر بہت سے اتار چڑھاؤ آئیں گے۔ ان الائنسز کا دائر ہ کار مزید وسیع کرتے ہوئے ان میں نجی شعبے کے محنت کشوں کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ان اتحادوں میں رجعتی اور مزدور دشمن یونین قیادتوں کی بھی کمی نہیں ہے اور جدوجہد کے عمل میں ان کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کا صفایا ہونا بھی مزدور تحریک کی بڑھوتری کے لئے لازمی ہے۔ فی الحال ان الائنسز کا پروگرام معاشی مطالبات پر مبنی ہے مگر اب اس آگے بڑھ کر سیاسی مطالبات کو بھی مزدور تحریک کے پروگرام میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح احتجاجی دھرنوں پر مبنی جدوجہد کا طریقہ کار اپنی معیاد پوری کر چکا ہے اور مزدور تحریک کو آگے بڑھنے کے لئے اس سے زیادہ ریڈیکل اور کارگر طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا جو کہ مزدور تحریک کے پچھلی ایک دہائی کے ارتقا اور موجودہ معروضی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ایک ملک گیر عام ہڑتال پر ہی مبنی ہو سکتا ہے۔
مگر سب سے اہم بات یہ ہے مزدور تحریک کو واپس اپنے نظریے یعنی سائنسی سوشلزم کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ مزدور تحریک کی آج جتنی بھی کمزوریاں اور خامیاں ہیں، ان سب کی جڑیں حتمی تجزئیے میں تحریک کی سوشلزم کے مزدور نظریات سے دوری میں ہی پیوست ہیں۔ آج سرمایہ داری کے اس نامیاتی بحران کے عہد میں مزدور تحریک میں سوشلسٹ نظریات کی ترویج اتنی اہم ہو چکی ہے کہ ان کے بغیر اس دھرتی پر ایک مزدور انقلاب برپا کرنا تو دور کی بات، چھوٹی چھوٹی حاصلات کے لئے ثابت قدمی کے ساتھ جدوجہد کرنا بھی انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ صرف سوشلسٹ نظریات اختیار کر کے ہی نہ صرف مزدور اتحاد کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہے بلکہ موقع پرست قیادتوں سے نجات حاصل کرتے ہوئے محنت کشوں کی ایک لڑاکا انقلابی پارٹی کی بنیاد بھی ڈالی جا سکتی ہے جو مزدور تحریک کو آنے ٹکے کی لڑائی سے آگے بڑھاتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کے راستے پر گامزن کرے گی۔
پوری دنیا کی طرح اس دھرتی پر بھی اب سرمایہ داری کا کھلواڑ ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ظلم و استحصال پر مبنی اس طبقاتی نظام کو ایک مزدور انقلاب کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور اس کی جگہ تمام نجی صنعتوں، بینکوں، کمپنیوں، جاگیروں اور قدرتی وسائل پر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی ایک سوشلسٹ نظام قائم کیا جائے جس کا مقصد مٹھی بھر سرمایہ داروں، عالمی مالیاتی اداروں اور ریاستی اشرافیہ کی تجوریاں بھرنا نہیں بلکہ انسانی ضرورتوں کو پورا کرنا ہو گا۔ صرف ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت کے تحت قائم ہونے والا سوشلسٹ نظام ہی بھوک و ننگ، غربت، لاعلاجی، بے گھری، ناخواندگی، بے روزگاری اور صنفی و قومی جبر کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ایک ایسا غیر طبقاتی سماج تعمیر کر سکتا ہے جس میں نوع انسان صحیح معنوں میں اپنے شایان شان زندگی جی سکے گی۔
یہی یومِ مئی 2021 ء کا پیغام ہے اور یہی شگاگو کے شہیدوں کے لہو کا ہم پر قرض ہے۔