|تحریر: آفتاب اشرف|
سال 2020ء کا یوم مئی ایک ایسی صورتحال میں منایا جائے گا جہاں ایک طرف کرونا وبا پوری دنیا میں موت بانٹ رہی ہے اور دوسری طرف عالمی معاشی بحران کرۂ ارض کے ہر سماج میں غربت، بھوک وننگ اور بیروزگاری میں بد ترین اضافہ کر رہا ہے۔ یہ تمام تر بحرانی کیفیت سرمایہ دارانہ نظام کی عوام دشمنی اور تاریخی متروکیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ نظام امریکہ، برطانیہ، اٹلی اور سپین جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی عوام کو کرونا کے قہر سے نہ بچا سکا۔ آج ان ممالک میں ہونے والے بے شمار اموات اور وبا کے بوجھ تلے ٹوٹتا ہوا شعبہ صحت طمانچہ ہے سرمایہ داری کے ان وظیفہ خوار دانشوروں کے منہ پر جو دن رات لہک لہک کر منڈی کے ”جادوئی ہاتھ“ کے گن گایا کرتے تھے۔ اسی طرح معاشی بحران کی شدت بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے اور محنت کش طبقہ اس کے ہاتھوں بری طرح برباد ہو رہا ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں اب تک اس بحران کے باعث دو کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد افراد بیروزگار ہو چکے ہیں اور اگر اس میں پہلے سے موجود تقریباً ستر لاکھ بیروزگار افراد بھی شامل کر لئے جائیں تو یہ تعداد سوا تین کروڑ سے تجاوز کر جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح اس وقت لگ بھگ 21 فیصد ہے۔ جبکہ خدشہ ہے کہ اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بے شمار لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر بیروزگاری رجسٹر میں اپنے کوائف کا اندراج نہیں کروا پا رہے ہیں۔ اسی طرح، برطانیہ میں بھی ماہرین معیشت جون کے آغاز تک تقریباًساٹھ لاکھ لوگوں کے بیروزگار ہونے کا تخمینہ لگا رہے ہیں جو کہ کل لیبر فورس کا 21 فیصد بنتے ہیں۔ چین سمیت دیگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک اور برازیل، انڈیااور جنوبی افریقہ جیسی نام نہاد ”ابھرتی ہوئی منڈیوں“ کی صورتحال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ لیکن مین سٹریم میڈیا پر چلنے والی ”ہم سب اس میں اکٹھے ہیں“ کی عمومی بکواس کے برعکس یہ تمام تر بحران محنت کش طبقے کو سرمایہ داروں کی نسبت کہیں زیادہ متاثر کر رہا ہے۔ اب تک کرونا کی وجہ سے ہونے والی اموات میں ایک بھاری ترین اکثریت محنت کشوں کی ہے جبکہ شہزادہ چارلس اور بورس جانسن جیسے لوگ اگر کرونا کا شکار ہو بھی جائیں تو بہترین طبی سہولیات کی بدولت چند ہی روز میں ٹھیک ہو کر دانت نکوستے واپس ٹی وی سکرین پر نمودار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح، معاشی بحران جہاں ایک طرف محنت کش طبقے کو فاقے کاٹنے پر مجبور کر رہا ہے وہیں دوسری طرف سرمایہ داروں کونہ صرف اس سے ”ریلیف“ دینے کے لئے کئی ٹریلین ڈالرز کے ریاستی بیل آؤٹ پیکج مل رہے ہیں بلکہ وہ اس کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار کی نت نئی وار داتیں بھی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے اخبار ’دی گارڈین‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 18 مارچ سے 10 اپریل کے تین ہفتوں میں امریکی ارب پتیوں کی دولت میں 282 ارب ڈالر یعنی دس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
ایسی صورتحال میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان جیسے ایک پسماندہ سرمایہ دارانہ ملک کے محنت کش طبقے پر کیا بیت رہی ہے۔ عالمی معاشی بحران کے آغاز سے قبل بھی ملک کی معاشی صورتحال دگر گوں تھی لیکن اب تو اس گراوٹ کو ایک معیاری جست لگ چکی ہے۔ سرمایہ دار طبقے کے نمائندہ حکمران اور ریاستی اشرافیہ اس تمام تر بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر منتقل کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف سرمایہ داروں کو نہ صرف دسیوں کھرب روپے کے بیل آؤٹ پیکجز، ٹیکس چھوٹ، سبسڈیاں دی جا رہی ہیں بلکہ انہیں اپنا کالا دھن سفید کرنے کی میگا اسکیموں سے بھی نوازا جا رہا ہے۔ سرمایہ داروں کو دیے جانے والے اس تمام تر ”ریلیف“ کی قیمت برباد حال اور پہلے ہی سے بالواسطہ ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے محنت کش طبقے سے وصول کی جائے گی۔ مگر حکومت و ریاست سے اتنے بڑے بیل آؤٹس ملنے کے باوجود سرمایہ دار نجی صنعتوں، کمپنیوں اور کاروباری اداروں میں دھڑا دھڑ ڈاؤن سائزنگ کر رہے ہیں۔ در حقیقت، ایک لمبے عرصے سے چلی آنے والی ملکی و عالمی معاشی سست روی کے باعث یہ لوگ اس سارے بحران کے آغاز سے قبل ہی ایسا کرنا چاہ رہے تھے کہ نام نہاد قسم کے جزوی لاک ڈاؤن نے انہیں اس کے لئے ایک زبردست بہانہ فراہم کر دیا۔
سرمایہ داروں کے اس شب خون کے نتیجے میں اب تک ملک کے طول وعرض میں لاکھوں محنت کش بیروزگار ہو چکے ہیں۔ ایک نیم سرکاری رپورٹ کے مطابق اس تمام تر صورتحال کے نتیجے میں تقریباً 1.5 کروڑ افراد بیروزگار ہوں گے جو کہ پاکستان کی کل لیبر فورس (6 کروڑ) کا 25 فیصد بنتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان اعداد و شمار میں ابھی بحران کے آغاز سے قبل موجود بیروزگار افراد کو شامل نہیں کیا گیا ہے جن کی تعداد سرکاری رپورٹس کے مطابق تقریباً 40 لاکھ تھی۔ ملک کے سنجیدہ بورژوا معیشت دانوں کے مطابق اس بحران کے آغاز سے قبل بھی ملک کی تقریباً 40 فیصد آبادی غربت کی انتہائی لکیر (ایک ڈالر یومیہ فی کس) سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی۔ ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مستقبل قریب میں اس انتہائی غریب آبادی میں کتنا بڑا اضافہ ہو گا۔ لیکن بیروزگاری کا یہ حملہ صرف نجی شعبے تک ہی محدود نہیں بلکہ سرکاری اداروں میں بھی بڑے پیمانے پر ڈیلی ویجز اور ایڈہاک ملازمین کی چھانٹی کی جا رہی ہے۔ مزید برآں، آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی شرائط کے مطابق نجکاری کا حملہ پہلے سے بھی زیادہ شدومد کے ساتھ جاری ہے جو کہ بیروزگاری کے اس طوفان میں مزید اضافے کا موجب بنے گا۔ سرمایہ داروں کو دن رات نوازنے والے حکمرانوں کی جانب سے ابھی تک بیروزگار ہو کر فاقوں پر مجبور ہونے والے محنت کشوں کی امداد کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی سرمایہ دار طبقے کے نمائندہ و آلہ کار حکمرانوں اور ریاست ایسی کوئی امید رکھنا درست ہوگا۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ حکومت کے نام نہاد احساس پروگرام (سابقہ BISP) کے تحت اس سارے بحران میں غریب خاندانوں کی امداد کے لئے مختص کردہ رقم وہی ہے جو بجٹ میں تھی اور اس میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف ملک میں بیروزگاری کے سیلاب کا فائدہ اٹھا کر سرمایہ دار طبقہ کام پر موجود محنت کشوں پر اجرتوں میں کٹوتیوں، اوقات کار میں اضافے اوربونس و اوور ٹائم کے خاتمے جیسے حملے کر رہا ہے۔ زیادہ تر نجی شعبے میں تو پہلے ہی ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر عملاً پابندی تھی لیکن اب تو صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ اگر محنت کش اپنی واجب الادا تنخواہ بھی مانگیں تو انہیں نکال باہر کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور انہیں ہر وقت یہ یا ددلایا جاتا ہے کہ ان کی جگہ لینے کے لئے بہت بیروزگار موجود ہیں۔ سرکاری اداروں میں بھی اس وقت ملتی جلتی صورتحال ہی ہے اور محنت کشوں پرہر گزرتے دن کے ساتھ انتظامیہ کی جانب سے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ لیکن محنت کش طبقے کی مشکلات صرف معاشی مسائل پر ہی ختم نہیں ہو جاتیں کیونکہ اگر ایک طرف بھوک اور بیروزگاری ہیں تو دوسری طرف کرونا وبا منہ کھولے کھڑی ہے۔ ملک کے طول عرض میں موجود نجی صنعتوں، کمپنیوں اورکاروباری اداروں کے لاکھوں محنت کش اس وقت اپنے مالکان کی منافع خوری کی ہوس پوری کرنے کے لئے بغیر کسی حفاظتی لباس کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح، سرکاری اداروں کے محنت کش بھی سرمایہ نواز بے حس حکومت و ریاست کی نظر میں ”انسانی خام مال“ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اور حفاظتی سامان کے بغیر ہی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ طبی محنت کش جو کرونا وبا کیخلاف لڑائی میں فرنٹ لائن پر موجود ہیں، انہیں بھی مناسب مقدار میں معیاری حفاظتی کٹس مہیا نہیں کی گئی ہیں اور وہ آئے روز کٹس کی فراہمی کے لئے سراپا احتجاج ہو کر ریاستی جبر سہتے نظر آتے ہیں۔ حفاظتی کٹس کی فراہمی کے مطالبے پر محنت کشوں کو فوراً سے برخاست کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور اکثر اوقات ایسا کر بھی دیا جاتا ہے۔ مزید برآں، اس معاملے میں پورا حکمران طبقہ اور ریاستی ادارے ایک پیج پر ہیں جس کی ایک واضح مثال حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے گھٹیا مزدور اور عوام دشمن ریمارکس سے ملتی ہے جو اس نے حفاظتی سامان کی عدم فراہمی کے خلاف ڈاکٹروں کی طرف سے دائر کردہ ایک رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہے۔اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ، حکمران اور ریاستی اشرافیہ آرام سے اپنے محل نما گھروں میں محفوظ بیٹھے ہیں جبکہ محنت کشوں کو ایک طرف بھوک و بیروزگاری مار رہی ہے تو دوسری طرف کرونا وبا۔
ایسے میں جہاں ایک طرف سیاسی افق پر نظر آنے والی تمام پارٹیوں کی اصلیت بالکل واضح ہو گئی ہے کہ لوٹ مار کے مال کی بندر بانٹ اور اقتدار کے حصول کے لئے باہمی چپقلش سے قطع نظر یہ سب سرمایہ داروں کو نوازنے اور مزدور دشمنی میں بالکل ایک پیج پر ہیں وہیں دوسری طرف ٹریڈ یونین قیادتوں کی ایک بھاری ترین اکثریت کی موقع پرستی اور غداری بھی محنت کشوں پر بالکل عیاں ہو چکی ہے۔ یہ نام نہاد مزدور قیادتیں مزدوروں کی بجائے سرمایہ داروں، حکومت اور ریاستی اشرافیہ کے مفادات کی نمائندہ و محافظ ہیں اور مزدور تحریک میں ان کی دلالی کر تی ہیں۔ ایسے شدید بحران میں جب محنت کش اپنے اوپر ہونے والے تابڑ توڑ حملوں سے سخت پریشان ہیں اور ان میں اس ظلم واستحصال کے خلاف شدید غصہ پنپ رہا ہے، یہ قیادتیں مزدور تحریک کو آگے بڑھانے کی بجائے اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کی قیادت ہے جس نے حفاظتی کٹس کی عدم فراہمی کیخلاف طبی محنت کشوں کے بڑھتے غم وغصے کو زائل کرنے کے لئے بھوک ہڑتال جیسے بیکار اورشکست خوردہ طریقہ کار کا سہارا لیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر ڈاؤن سائزنگ، جبری برطرفیوں اور اجرتوں میں کٹوتیوں کے خلاف بھی کسی نام نہاد ٹریڈ یونین فیڈریشن یا کنفیڈریشن کی قیادت کی طرف سے کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ اسی طرح، اتنے شدید بحران میں بھی یہ قیادتیں اپنے آنے ٹکے کی روایتی مانگوں سے آگے بڑھ کر کوئی بھی ایسا مطالبہ کرنے پر تیار نہیں ہیں جو کہیں سے بھی سرمایہ دار طبقے کے منافعوں کے خلاف جاتا ہو۔ واضح رہے کہ یہ سب کچھ اچانک سے نہیں ہوا بلکہ یہ ان نام نہاد قیادتوں کی ایک لمبے عرصے سے چلی آنے والے زوال پذیری میں لگنے والی ایک معیاری جست کا اظہار ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں پاکستان کے محنت کش طبقے کے پاس زندہ رہنے کے لئے صرف ایک آپشن بچا ہے کہ وہ طبقاتی جڑت قائم کرتے ہوئے ایک ملک گیر سطح کی احتجاجی تحریک کا آغاز کرے۔ مگر اس مقصد کے لئے لازمی ہے کہ محنت کش نجی فیکٹریوں، کارخانوں، سرکاری اداروں، گلیوں اور محلوں کی سطح پر خود کوہنگامی ایکشن کمیٹیوں کی شکل میں منظم کریں اور یہ کمیٹیاں طبقاتی جڑت کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ منسلک بھی ہوں تاکہ شہروں، ضلعوں، صوبوں اور پھر ملکی سطح پر ڈھانچے تشکیل دیے جا سکیں۔ صرف اسی صورت میں نہ صرف ملک کے طول وعرض میں ایک دوسرے سے الگ تھلگ چلنے والی مزدور جدوجہدوں کوایک لڑی میں پروتے ہوئے ایک متحد مزدور تحریک کی تشکیل ہو سکتی ہے بلکہ مستقبل میں اپنے مطالبات کی خاطر ایک ملک گیر عام ہڑتال کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔ مارکس وادیوں کا بھی یہ فریضہ ہے کہ وہ محنت کشوں کو منظم ہونے میں بھرپور مدد کریں اور مختلف اداروں اور صنعتوں کے محنت کشوں کے بیچ رابطہ کاری کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے ایک پل کا کردار ادا کریں۔ اسی طرح ہر مارکس وادی پر یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ ایک اولین ترجیح کے طور پر محنت کشوں اور خصوصاً ان کی لڑاکا پرتوں تک دو ٹوک الفاظ میں سوشلزم یا مارکسزم لینن ازم کے نظریات پہنچانا اب ایک فوری معروضی تقاضا بن چکا ہے۔ واضح رہے کہ سرمایہ دارانہ پراپیگنڈے کے برعکس کرونا وبا کے خاتمے کے بعد بھی عالمی و ملکی معاشی بحران نہ صرف جاری رہے گا بلکہ اس کی شدت میں بھی کوئی قابل ذکر کمی نہیں ہو گی۔ ایسی صورتحال میں اصلاحات جیتنے کے امکانات انتہائی کم ہو چکے ہیں اور فوری مسائل کے حل کے لئے بھی واحد آپشن ایک سوشلسٹ انقلاب ہی بن چکا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم محنت کشوں کی طرف سے اصلاحات کے لئے ہونے والی کسی جدوجہد سے لاتعلق ہو جائیں لیکن مارکس وادیوں پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ مزدور تحریک میں ان کی مداخلت کا بنیادی مقصدٹریڈ یونین ازم کرنا نہیں بلکہ محنت کشوں کے فوری مطالبات اور سوشلسٹ انقلاب کے مابین تعلق کو عبوری مطالبات اور نظریاتی ترویج کے ذریعے ایک ٹھوس انداز میں ان پر واضح کرنا اور انہیں انقلابیوں کے منظم دھارے میں شامل کرنا ہے۔ صرف اسی طرح مزدور کیڈروں کی اکثریت پر مبنی وہ انقلابی پارٹی تعمیر کی جا سکتی ہے جو کہ ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کا اوزار ثابت ہوگی۔
پوری دنیا کی طرح اس دھرتی پر بھی اب سرمایہ داری کا کھلواڑ ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ظلم و استحصال پر مبنی اس طبقاتی نظام کو ایک مزدور انقلاب کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور اس کی جگہ تمام نجی صنعتوں، بینکوں، کمپنیوں، جاگیروں اور قدرتی وسائل پر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی ایک سوشلسٹ نظام قائم کیا جائے جس کا مقصد مٹھی بھر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنا نہیں بلکہ انسانی ضرورتوں کو پورا کرنا ہو گا۔ صرف ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت کے تحت قائم ہونے والا سوشلسٹ نظام ہی بھوک وننگ، غربت، لاعلاجی، ناخواندگی، بیروزگاری، بے گھری اور صنفی و قومی جبر کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ایک ایسا غیر طبقاتی سماج تعمیر کر سکتا ہے جس میں انسان صحیح معنوں میں اپنے شایان شان زندگی جی سکے گا۔
یہی یوم مئی2020 ء کا پیغام ہے اور یہی شکاگو کے شہیدوں کے لہو کا ہم پر قرض ہے۔۔۔