|تحریر: راشد خالد|
یکم مئی محنت کشوں کے عالمی دن کے بطور منایا جاتا ہے۔ آج سے 131سال قبل 1886ء میں یکم مئی کے دن امریکہ میں ایک عام ہڑتال کا آغاز ہوا، جس کا بنیادی مطالبہ 8گھنٹے کے اوقات کار تھا۔ ہڑتال دیکھتے ہی دیکھتے پھیلتی گئی، پہلے ہزاروں اور پھر لاکھوں محنت کش سڑکوں پر آ گئے۔ شکاگو اس ہڑتال کا مرکز تھا، جہاں سب سے زیادہ محنت کش سڑکوں پر نکلے۔ 3مئی کو جب شکاگو کی سڑکوں پر ایک لاکھ سے زائد محنت کش مارچ کر رہے تھے، خوفزدہ ریاست نے سرمایہ داروں کے ایما پر محنت کشوں پر بندوقوں کے دہانے کھول دیئے، جس کے نتیجے میں 6مزدور شہید اور بے شمار زخمی ہوئے۔ اس واقعے نے پورے امریکہ کے محنت کشوں میں ایک ہیجان کو جنم دیا، اگلے دن اس سے بھی بڑے احتجاج، جلسے اور جلوس منعقد کیے گئے لیکن اسی دن ’’ہے مارکیٹ‘‘ کا بدترین سانحہ ہوا جس میں پولیس پر دستی بم پھینکا گیا جس کو جواز بنا کر ایک بار پھر رجعتی پولیس نے محنت کشوں پر فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں 8 مزدور شہید اور بیسیوں زخمی ہو گئے۔ محنت کشوں کے خلاف غلیظ پروپیگنڈے کا آغاز کر دیا گیا اور مزدور رہنماؤں کو ہی اس سانحے کا ذمہ دار قرار دے کر پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا گیا۔
1889ء میں دوسری انٹرنیشنل کی تاسیسی کانگریس میں یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد سے اب تک تقریباً پوری دنیا میں یہ دن شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کی یاد اور محنت کشوں کی عالمی جڑت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دنیا مختلف سیاسی و معاشی اتار چڑھاؤ سے گزری لیکن یکم مئی کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔
یہ دن آج بھی ہمیں ماضی میں محنت کشوں کی مختلف جدوجہدوں کی یاد دلاتا ہے۔ عالمی سطح پر محنت کشوں نے جو بھی مراعات حاصل کیں وہ سرمایہ داروں یا سرمایہ دار حکمرانوں کی نیک نیتی یا محنت کشوں کی طرف ہمدردانہ رویے کی بدولت نہیں حاصل ہوئیں بلکہ ان کے پیچھے محنت کشوں کی طویل جدوجہد اور قربانیاں موجود ہیں۔ ان ہی حاصلات میں سے ایک 8گھنٹے کے اوقات کار تھے۔ ایسا حق جس کے بعد محنت کش مشین کے ایک بے جان پرزے کی بجائے ایک انسان کے طور پر زندگی بسر کر سکیں، ’’آٹھ گھنٹے کام کریں، آٹھ گھنٹے کا آرام اور آٹھ گھنٹے جہاں چاہیں گزاریں‘‘۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد محنت کشوں کوحاصل ہونے والا یہ حق آج ایک مرتبہ پھران سے چھیناجا رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ سماج میں حاکم طبقات محنت کشوں کو یہ باور کروانے میں مصروف رہتے ہیں کے سماج کے اصل پالن ہار یہ دھن دولت والے سرمایہ دار ہی ہیں، جو صنعت لگاتے ہیں اور محنت کشوں کو اجرت دیتے ہیں۔ اگر یہ صنعتیں نہ لگائیں اور محنت کشوں کو روزگار نہ دیں تو یہ سماج چل نہیں سکتا۔ بظاہر یہ بات درست نظر آتی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ جو دِکھتا ہے وہ حقیقت نہیں ہے اور جو حقیقت ہے وہ دِکھتا نہیں۔ پس حقیقت اس سے قطعاً مختلف ہے جو دکھائی دیتا یا بتایا جاتا ہے۔ اگر ہم پوری انسانی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں انسان کا باقی جانوروں سے جو بنیادی فرق نظر آتا ہے وہ اس کی تخلیق کرنے کی صلاحیت ہے۔ اوزار بنانے اور ان اوزاروں کی بدولت خوراک حاصل کرنے اور دیگر اشیائے ضرورت کی تخلیق۔ اور ایک ابتدائی سماج میں بھی پیداوار کا ایک نظام موجود تھا، چاہے وہ کتنا سادہ ہی کیوں نہ تھا۔ پھر سماج کی ترقی کے ساتھ یہ عمل بھی پیچیدہ ہوتا گیا۔ لیکن ان تمام تر سماجوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ پیداوار کے لئے انسان فطرت سے خام مال حاصل کرتا ہے، اس پر محنت صرف کرتا ہے اور اس سے اشیا کی تخلیق کرتا ہے۔ قدیمی سماجوں میں یہ عمل بہت سادہ اور واضح تھا۔ لیکن جوں جوں سماج طبقات میں بٹتا گیا، اس عمل میں پیچیدگیاں آتی گئیں۔ اگر آج کے سرمایہ دارانہ سماج پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں بھی پیداوار کا عمل اسی طریقہ کار پر چلتا ہے؛ خام مال کا حصول اور اس پر انسانی محنت سے نئی اشیا کی پیداوار اور اس پیداوار کی منڈی میں فروخت۔ لیکن منڈی کے رشتوں نے اس عمل کو پیچیدہ بنا کر محنت کشوں کی محنت کے استحصال کو جو اس سے قبل کے سماجوں میں زیادہ واضح تھا اسے مبہم اور پوشیدہ کر دیا۔ لیکن آج بھی انسانی سماج کی تمام تر ترقی اور دولت کے پیچھے انسانی محنت ہی موجود ہے۔
دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ جو محنت کے ساتھ وابستہ ہے، وہ دن رات اپنی محنت سے اشیا کی تخلیق میں مصروف ہے لیکن اس کے باوجود اس کی زندگی انتہائی کٹھن اور مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف مٹھی بھر سرمایہ دار حکمران طبقے کی دولت میں بے انتہا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آکسفیم کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 8 امیر ترین انسانوں کے پاس دنیا کی آدھی آبادی سے زیادہ دولت ہے، جبکہ ایک سال قبل یہ تعداد 62تھی۔ مارکس کے الفاظ میں ’’جوں جوں ایک طرف دولت کا ارتکاز بڑھتا جاتا ہے دوسری طرف مصائب، بیگار محنت کا جبر، جہالت، ظلم، ذہنی پسماندگی کا بھی ارتکاز ہوتا جاتا ہے۔‘‘ یعنی سرمایہ دار امرا کی دولت میں یہ اضافہ آبادی کی اکثریت کے مسائل میں لگاتار اضافہ کرتا ہے اور ان کی زندگیوں کو جہنم بنا دیتا ہے۔ اپنی دولت میں اضافے کے لئے بالادست طبقہ محنت کشوں پر اپنے جبر کو مزید بڑھاتا جاتا ہے، ماضی میں جیتی گئی حاصلات واپس چھینی جاتی ہیں، ٹیکسوں کی بھرمار کی جاتی ہے اور اجرتوں میں کٹوتیاں کی جاتی ہیں۔ یہی وہ عمل ہے جو اس وقت پوری دنیا میں جاری و ساری ہے۔ 2008ء میں شروع ہونے والے بحران کی قیمت کو محنت کشوں پر مسلط کیا جا رہاہے۔
پاکستان، جہاں تاریخ میں محنت کشوں نے کبھی اچھے دن دیکھے ہی نہیں ان پربھی یہاں کا حکمران طبقہ آئے روز نئے سے نئے حملے کرتا جا رہا ہے۔ 8گھنٹے کے اوقات کار پاکستان میں خواب بنتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر نجی شعبے میں تو محنت کشوں کے لئے کام کے اوقات کار مخصوص ہی نہیں ہیں، ایک تو بارہ بارہ، سولہ سولہ گھنٹے کام کروایا جاتا اور اوورٹائم بھی نہیں دیا جاتا۔ حال ہی میں کراچی کی ایک انڈسٹری یونائیٹڈ ٹیوبز پرائیویٹ لمیٹڈ کی منظرعام پر آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح محنت کشوں پر جسمانی تشدد کیا جاتا ہے۔ یہ کہانی محض ایک فیکٹری کی نہیں بلکہ پاکستان کی اکثریتی فیکٹریاں محنت کشوں کے لئے جیل خانہ بن چکی ہیں جہاں محنت کشوں سے جبری مشقت تک کروائی جاتی ہے۔ منظر عام پر آنے والی ویڈیو میں دکھایا گیا تشدد بالکل ہی معمولی نوعیت کا ہے۔اکثریتی صنعتی اداروں میں ہونے والا تشدد انتہائی بھیانک اور گھناؤناہے جسے منظر عام پر لانا اس گماشتہ میڈیا کے بس میں ہی نہیں۔لیکن اس ظلم سے بھی زیادہ بھیانک حقیقت محنت کشوں کا استحصال ہے جو میڈیا اور دیگر تمام ریاستی و سیاسی اہلکاروں کے لیے نو گو ایریا ہے۔
نجی شعبے میں نہ تو روزگار کی کوئی ضمانت دی جاتی ہے بلکہ روزگار سے قبل مزدوروں سے اسٹامپ پیپر پر لکھوایا جاتا ہے کہ مالک جب چاہے نوکری سے برخاست کر سکتا ہے اور آپ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کریں گے، بصورت دیگر انہیں روزگار نہیں دیا جاتا۔ مزدوروں سے متعلق موجود قوانین کی دھجیاں سرعام بکھیری جاتی ہیں لیکن ان فیکٹری مالکان یا سرمایہ داروں سے کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ ریاستی ادارے ان سرمایہ داروں کی لونڈی بن چکے ہیں۔ محنت کشوں کو کسی قسم کی سوشل سیکیورٹی یا ای او بی آئی کی سہولت تک نہیں دی جاتی۔ ٹھیکیداری کے تحت جن غیر موزوں حالات میں محنت کشوں سے کام لیا جاتا ہے، ان میں محنت کشوں کے لئے کوئی سیفٹی نہیں ہوتی، اور کسی بھی حادثے کی صورت میں سرمایہ دارپر کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی جاتی۔ اس کی واضح مثالیں بلدیہ ٹاؤن میں علی انٹرپرائز میں لگنے والی آگ اور چند ماہ قبلگڈانی سانحے میں ہونے والی ہلاکتوں کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ سرمایہ داروں کے بے لگام ظلم اور استحصال کے باعث فیکٹریوں میں بوائلر پھٹنے اور دیگر حادثات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس میں مرنے والے اور زخمی ہونے والے محنت کشوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود آج تک کسی سرمایہ دار کو ان جرائم پر سزا نہیں دی گئی۔ علی انٹر پرائزاور گڈانی میں مالکان یا ٹھیکیداروں کے پاس محنت کشوں کا کوئی ریکارڈ تک موجود نہیں تھا، جس کی وجہ سے ان واقعات میں ان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کی درست تعداد کا اندازہ تک نہیں لگایا جا سکتا۔ بہت سے ہلاک ہونے والے محنت کشوں کی تو لاشیں تک پگھل گئی تھیں اور دور دراز کے پسماندہ ترین علاقوں میں رہنے والے ان کے عزیز و اقارب تک خبر بھی شاید نہیں پہنچی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس مملکت خداداد میں سرمایہ داروں کے لیے یہ مزدور کوئلے اور لکڑی کی طرح خام مال بن چکے ہیں۔
مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے قوانین ہونے کے باوجود فیکٹری مالکان ان قوانین کو ماننے سے سرعام انکار کرتے ہیں۔ ان لاغر قوانین کا اطلاق کروانے کے لئے ایک ریاستی ادارہ ’’محکمہ محنت‘‘ بھی موجود ہے لیکن عمومی طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ’’محکمہ محنت‘‘ محنت کشوں کا ساتھ دینے کی بجائے ہمیشہ سرمایہ داروں کے ٹٹ پونجئے کا کردار ہی ادا کرتا ہے اور حقیقت میں یہ ’’محکمۂ سرمایہ دار‘‘ بن چکا ہے۔ کسی فیکٹری میں یونین کا مسئلہ ہو، مزدوروں کی اجرتوں کی بندش ہو، جبری برطرفیاں ہوں یا کوئی بھی دیگر معاملہ، یہ ادارہ ان مسائل کا شکار محنت کشوں کو ڈرانے دھمکانے اور کسی اقدام سے گریز کروانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے اور اگر محنت کشوں کا ردعمل شدید ہو تو یہ ادارہ سرمایہ داروں کی دلالی کرتے ہوئے محنت کشوں کو چپ اور ٹھنڈا کرنے میں سرمایہ داروں کو معاونت فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ ادارہ محنت کشوں کے سامنے بالکل ننگا ہو چکا ہے۔ اس ادارے کے ملازمین ان تمام خدمات کا خاطر خواہ ’’معاوضہ‘‘بھی وصول کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ مزدوروں کی یونین رجسٹر کروانے سے لے کر معمولی ترین کام کے لیے بھی رشوت لے کر اپنا منہ کالا کرتے ہیں۔
پاکستانی حکمران طبقہ بھی اس عمل میں کسی سے کم نہیں اور اس کی تمام تر پالیسیاں مزدور دشمنی پر ہی مبنی ہوتی ہیں اور آج پاکستان کی تمام تر پارٹیوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے۔ ماہانہ پندرہ ہزا روپے کم از کم اجرت کا ڈرامہ محنت کشوں کے ساتھ ایک بھونڈے مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ۔ محنت کشوں کی کم از کم اجرت طے کرنے والے ادارے اور یہ حکمران اس کم از کم اجرت میں ایک گھنٹہ بھی نہیں گزار سکتے گو کہ محنت کشوں کی اکثریت کو ملنے والی کم از کم اجرت اس کا نصف ہے، حکمرانوں کے ایک وقت کے کھانے پر بھی اس سے کئی گنا زیادہ اخراجات اٹھتے ہیں۔ IMFاور ورلڈ بینک سے قرضوں کے حصول میں یہ حکمران نجکاری کی پالیسی کو ہر صورت محنت کشوں پر مسلط کئے جا رہے ہیں اور اب سرکاری ملازمین سے بھی اسی اجرت اور اوقات کار پر کام کروانے کی پالیسی پر گامزن ہیں ۔ پبلک سیکٹر اداروں کی ایک بڑی تعداد تو یہ پہلے ہی سرمایہ داروں کو اونے پونے داموں فروخت کر چکے ہیں، لیکن اب یہ باقی ماندہ اداروں کی بھی تیز ترین نجکاری کے خواہاں ہیں جس میں صحت، تعلیم، بجلی و پانی، ہوا بازی، ریلوے اور اسی طرح کے دیگر ادارے شامل ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ پندرہ سالوں میں ہونے والی نجکاری کے’ ثمرات‘ ہمارے سامنے ہیں، جس کی بدولت لاکھوں محنت کشوں سے روزگار چھین لیا گیا، باقی ماندہ محنت کشوں کے روزگار کی ضمانت ختم ہو گئی اور ان اداروں کی بدترین کارکردگی اور بد عنوانی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ لیکن اس کے باوجود یہ حکمران اور ان کے گماشتے نجکاری کے فضائل کے گن گاتے پھرتے ہیں کیونکہ اس میں ان کے لیے کمیشن اور لوٹ مار کے وسیع مواقع ہیں۔
محنت کشوں پر ہونے والے ان حملوں کے جواب میں وقتاً فوقتاً ہم نے محنت کشوں کا ردعمل مختلف تحریکوں، ہڑتالوں اور احتجاجوں کی صورت بھی دیکھا ہے گو کہ بہت سی تحریکیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ان وجوہات کو تلاش کیا جائے جن کے باعث یہ تحریکیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں۔ جن میں سے سب سے پہلی اور بنیادی وجہ محنت کشوں کی یونینوں، ایسوسی ایشنز اور انجمنوں کی قیادت کی مزدور نظریات سے دوری اور سیاسی عمل سے بیگانگی ہے، اس کے علاوہ ایک اہم وجہ پاکستان میں اکثریتی ٹریڈ یونین لیڈران کی کرپشن بھی ہے۔ کئی تحریکیں طویل وقت تک جاری رہیں لیکن اس کے باوجود ان کا صرف اپنے ادارے تک محدود رہ جانا ان کے لئے مہلک ثابت ہوا۔ گزشتہ سال پی آئی اے کے محنت کشوں پر ریاستی جبر کے نتیجے میں دو محنت کشوں کی شہادت کے بعد معروضی طور پر ایک ملک گیر تحریک کی ضرورت نے جنم لیا لیکن کرپٹ اور اصلاح پسند ٹریڈ یونین قیادتوں نے اپنی تمام تر قوت اس تحریک کو پی آئی اے تک محدود کرنے میں صرف کر دی۔ جس کی وجہ سے یہ تحریک ان امکانات کو حقیقت کا روپ نہیں دے سکی اورمطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ لیکن وقتی طور پر ریاست کو اپنی نجکاری کی پالیسی کو معطل کرنا پڑا۔ لیکن یہ کوئی حتمی اور آخری تحریک نہیں تھی بلکہ مستقبل میں ابھرنے والی محنت کشوں کی دیو ہیکل تحریکوں کی ایک ہلکی سی جھلک تھی۔
آج پاکستان میں محنت کشوں کو درپیش مسائل اتنے زیادہ اور شدید ہیں کہ ان پر تفصیل سے بات کی جائے تو شاید ایک کتاب میں بھی انہیں سمویا نہ جا سکے۔ لیکن اگر ان تمام تر مسائل کی بنیاد کو دیکھا جائے تو وہ آج کا سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کی بنیاد ہی منافع اور شرح منافع ہے۔ اور اس منافع کے حصول کی ہوس میں یہ سرمایہ دار اور حکمران طبقہ محنت کشوں کا خون تک نچوڑ رہا ہے۔ لیکن جہاں حکمران پے در پے حملوں میں ملوث ہیں، وہیں محنت کش بھی بار بار اس کا جواب دے رہے ہیں۔ لیکن یہ چھوٹی چھوٹی اور بکھری ہوئی تحریکیں اب وہ نتائج حاصل نہیں کر سکتیں جو ماضی میں حاصل کیا کرتی تھیں۔ جوں جوں پاکستان کا معاشی بحران بڑھے گا، حکمران طبقے کی پالیسیاں بھی مزید وحشت ناک ہوتی جائیں گی۔ ایسے میں پورے پاکستان کے محنت کشوں کی جڑت وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ ہمیں ناصرف یہ کہ اپنے اپنے اداروں اور فیکٹریوں میں ان سرمایہ دار حکمرانوں کے خلاف تحریک کو منظم کرنا ہو گا بلکہ اس کے ساتھ ہی اپنے اداروں میں موجود کرپٹ اور حکمرانوں کی دلال ٹریڈ یونین اشرافیہ کے خلاف بھی جدوجہد کرنا ہو گی۔ ایسی تمام تر لیڈرشپ کو اکھاڑ پھینکا جائے جو محنت کشوں کے مقصد سے غداری کر رہی ہے اور اپنے اپنے اداروں اور فیکٹریوں میں فعال اور جواں عزم محنت کشوں کی کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی اور پھر ان پر مشتمل تحصیل، ضلع ، صوبائی اور ملکی سطح کی کمیٹیاں۔ تاکہ ان حکمرانوں اور ان کے نظام کے خلاف ایک نئی تحریک کو منظم کیا جا سکے۔ اس جدوجہد میں اگر کوئی ہمارا کوئی ساتھ دے سکتا ہے تو وہ ہمارے ہی طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ، نوجوان اور کسان دے سکتے ہیں۔ محنت کش ساتھیو! اب وقت آ چکا ہے کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، اب یہ نظام نسل انسانی کو کوئی بھی سکون دینے سے قاصر ہو چکا ہے اور اس لڑائی میں شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔