مستونگ: بلوچ راجی مچی کے قافلے کے شرکاء پر ریاستی جبر اور فائرنگ، 14 زخمی، شدید مذمت کرتے ہیں

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، بلوچستان|

بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں پاکستان کے ریاستی اداروں کے جبر کے خلاف آج بروز اتوار ”بلوچ راجی مچی/ بلوچ قومی اجتماع“ منعقد ہونے والا تھا اور اس اجتماع میں شرکت کے لیے کوئٹہ سے جانے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ایک قافلے پر ریاستی اداروں کی جانب سے مستونگ میں فائرنگ کی گئی جس میں 14 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ مستونگ میں موجود ہسپتال انتظامیہ کے مطابق 14 افراد کو طبی امداد دی گئی ہے، ان میں پانچ زخمیوں کی حالت تشویشناک تھی جنہیں مزید علاج کی فراہمی کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر شہروں سے آج گوادر پہنچنے والے مختلف عوامی قافلوں کو سیکیورٹی فورسز نے مختلف مقامات پر نہ صرف روکا بلکہ شرکاء پر شدید فائرنگ کی جبکہ بعض مقامات پر مختلف سیاسی کارکنان کو سیکیورٹی فورسز نے جبری گمشدگی کا بھی نشانہ بنایا۔

اس کے علاوہ گوادر جانے والے تمام راستے اس وقت بند کر دیے گئے ہیں جبکہ گوادر سمیت قریبی اضلاع پنجگور اور کیچ میں انٹرنیٹ سروسز کو مکمل طور پر بند کیا گیا ہے۔ مختلف اطلاعات کے مطابق گوادر میں اس وقت سیکیورٹی اداروں کی مکمل ریل پیل ہے جو کہ گوادر میں پرامن جلسہ کو روکنے کے لیے موجود ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے فوری اپیل جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں سے پورا بلوچستان پاکستانی ریاست کی بربریت اور شدید جبر کا شکار ہے۔ بلوچ قومی اجتماع میں شریک تمام قافلوں کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں روک دیا گیا ہے۔ مستونگ، تلار اور تربت میں ان قافلوں پر براہ راست فائرنگ کی گئی، تشدد کیا گیا اور آنسو گیس کے گولوں کا نشانہ بنایا گیا۔ مستونگ میں ریاستی اداروں کی براہ راست فائرنگ سے 14 افراد شدید زخمی ہو چکے ہیں جن میں سے 5 کی حالت تشویشناک ہے۔ تلار، جو کہ گوادر کے قریب ایک علاقہ ہے، میں بھی صورتحال تشویشناک ہے، جہاں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں تاہم انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے مکمل تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔

مزید کہا گیا کہ صرف گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران بلوچستان بھر سے سینکڑوں افراد کو ریاستی اداروں کی جانب سے گرفتار کر کے جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، متعدد گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور خواتین اور بچوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ گوادر اور تربت دونوں اضلاع دو روز سے مکمل بلیک آؤٹ ہیں اور وہاں کرفیو نافذ کیا گیا ہے اور ان شہروں پر ریاستی فورسز کے ہیلی کاپٹر مسلسل پرواز کر رہے ہیں۔ موبائل انٹرنیٹ اور پی ٹی سی ایل انٹرنیٹ سروسز دو روز سے بند ہیں، آج موبائل نیٹ ورک بھی بند کر دیا گیا ہے۔

 

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا کہ ہم انسانی حقوق کی تمام تنظیموں، صحافیوں اور دنیا بھر کے مہذب ممالک کے اراکین پارلیمنٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کی سنگین صورتحال کا فوری نوٹس لیں اور عالمی فورمز پر پاکستانی ریاست کو اس کی بربریت اور جبر کا محاسبہ کریں۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان کی جبری گمشدگی، قافلوں پر ریاستی جبر، انٹرنیٹ کی بندش اور دیگر ریاستی جابرانہ اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پرامن سیاسی کارکنوں کو نہ صرف باعزت طریقے سے گوادر پہنچنے دیا جائے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کو احتجاجی جلسہ عام کرنے کی مکمل اجازت دی جائے۔

ہم ریاستی اداروں کے اس رویے کی شدید الفاظ میں نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ ہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تمام کارکنان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پرامن رہیں۔ کیونکہ ریاست بلوچ عوام الناس کو پرامن عوامی جدوجہد سے روکنے کی مذموم کوشش کر رہی ہے اور ریاستی اداروں کی یہ کوشش ہے کہ بلوچ نوجوان صرف بندوق کے ذریعے سیاست کریں، تاکہ ریاست کو انہیں کچلنے میں کوئی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یاد رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی عوامی مزاحمت نے ریاستی ایوانوں میں جو کھلبلی مچائی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور ریاست اور اس کے تمام تر ادارے بلوچ عوامی جدوجہد سے مکمل پریشانی اور ہیجان کی کیفیت میں ہیں۔

اس کے علاوہ ہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سیاسی کارکنان سمیت بالخصوص بلوچستان کے محنت کش عوام اور بالعموم پاکستان بھر کے محنت کشوں سے اس ضمن میں اپیل کریں کہ وہ ریاست اور ان کے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے پرامن جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے خلاف بلوچ عوام کا ساتھ دیں۔

بلوچستان میں کان کنی، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، حب صنعتی زون، واپڈا، ریلوے، ٹیلی کمیونیکیشن، بینکنگ وغیرہ میں محنت کشوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جسے نظام کو جام کرنے کے لیے کوئی مارچ کرنے کی ضرورت بھی نہیں، وہ جہاں ہیں وہیں کام سے اپنے ہاتھ روک کر سماج کو جام اور ریاستی اداروں اور حکمران طبقے کی لوٹ مار کو بند کر سکتے ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت، جو بدقسمتی سے بلوچستان میں محنت کش طبقے کے وجود سے ہی انکاری ہے، اسے ان تلخ تجربات سے سیکھنا ہو گا اور بلوچستان کے محنت کشوں سے اپیل کرنی ہو گی کہ وہ مارچ کے شرکاء سے یکجہتی کرتے ہوئے بلوچستان میں عام ہڑتال کریں۔

بلوچستان کو بند کرنے کی مجرد کال سے بہتر ہے ٹھوس اقدامات کی کال دی جائے۔ اب دھرنوں اور مارچوں سے آگے بڑھ کر ریاست اور حکمران طبقے کی معاشی ریڑھ کی ہڈی پر وار کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ عام ہڑتال کے لیے گنجائش، ہمدردی اور سوچ موجود ہے۔ مزید یہ کہ اس اپیل کو صرف بلوچستان تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ پاکستان اور دنیا بھر کے محنت کشوں، ٹریڈ یونینوں اور طلبہ تنظیموں سے بھی یکجہتی کی اپیل کی جائے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی ادارے سوائے تماشا دیکھنے اور پاکستانی ریاست سے سامراجی معاملات طے کرنے کے لیے ان معاملات کو سودے بازی کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی کرنے کے اہل نہیں۔ غزہ میں جاری قتلِ عام پر بھی وہ محض تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اصل یکجہتی کی تحریک دنیا بھر کے عام طلبہ اور ٹریڈ یونین وغیرہ کی طرف سے چلائی جا رہی ہے۔ یہی عالمی طبقاتی یکجہتی ہی مظلوم اقوام کی تحریکوں کو منزل مقصود تک پہنچا سکتی ہے۔

بلوچ عوام اور بالخصوص خواتین کی شاندار جدوجہد واقعی قابل تحسین و تقلید ہے، پشتون عوام کی شاندار تحریک بھی ریاستی جبر کا شکار ہے، پشتون عوام کو بھی اس کڑے وقت میں اپنے بلوچ بہن بھائیوں کا ساتھ دینا چاہیے، اسی طرح سندھ، پنجاب اور دیگر علاقوں کے محنت کشوں، نوجوانوں ترقی پسندوں اور انقلابیوں کا بھی فرض ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں بلوچ عوام کی جمہوری تحریک کا ساتھ دیں اور عملی یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔

پاکستانی ریاست مردہ باد!
سرمایہ داری مردہ باد!
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!

Comments are closed.