|تحریر: زلمی پاسون|
ابھی تک سانحۂ پشاور کے داغ دھلے نہیں تھے کہ 13 جولائی کو بنوں اور پھر مستونگ میں دل دہلا دینے والی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔ ان سب واقعات سے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
ان واقعات میں جہاں اہم سیاسی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا اور ان کی ہلاکت کومیڈیا پر کوریج دی گئی وہاں پر بہت بڑی تعداد میں عام محنت کش بھی دہشت گردوں کا نشانہ بنتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے۔ زخمی ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد اس کے علاوہ ہے۔گزشتہ ایک لمبے عرصے جاری دہشت گردی کی ان کاروائیوں نے اس ملک کے محنت کشوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو نشانہ بنایا ہے۔یہ محنت کش جہاں حکمران طبقے کی معاشی دہشت گردی کا شکار ہیں اور ہر روز غربت ،مہنگائی، لاعلاجی، گرمی، بارش، سیلاب اور دیگر مشکلات کے باعث سسک سسک کر لاکھوں کی تعدادمیں مر رہے ہیں وہاں دہشت گردبھی ان محنت کشوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ ایک ویب سائٹ رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے اس ناسور نے 2000ء سے لے کر 8جولائی 2018ء تک 26,063 سے زیادہ معصوم انسانوں کی جان لی ہے۔ 13جولائی کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں انتخابی ریلی پر خودکش دھماکے نے اب تک ہسپتالوں کی رپورٹوں کے مطابق دو سو کے قریب معصوم انسانوں کو ابدی نیند سلا دیا ہے جبکہ اتنی ہی تعداد میں مزید زخمی کوئٹہ کے مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں، جن میں کئی کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
سانحہ مستونگ نہ کوئی پہلا اور نہ ہی کوئی آخری واقعہ ہے۔اس سے پہلے بھی ایسے بھی بہت سے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن سے بالخصوص پشتونخوا اور بلوچستان زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔مگر یہاں پر دہشت گردی کے حوالے سے ریاست جو پالیسی اپناتی رہی ہے وہ بدستور ناکام ہوچکی ہے کیونکہ دہشت گردی کے ایسے واقعات کے پیچھے آپس میں برسرپیکار اور دست و گریباں مختلف ریاستی دھڑوں کی پشت پناہی واضح طور پر موجود ہے،جس کے واضح ثبوت ہیں۔ سکیورٹی کے بے پناہ اقدامات اور اخراجات کے بعد ان واقعات کا رونما ہونا ریاستی حساس اداروں کے کسی حصے کی آشیرباد کے بغیر ناممکن ہے جبکہ دوسری طرف ریاستی اداروں کے ریٹائرڈ اور موجودہ افسران خود انکشافات کرتے آرہے ہیں کہ ماضی میں ان دہشت گرد عناصر کی سرپرستی قومی مفاد سے ہم آہنگ تھی۔ ریاست پاکستان گزشتہ 30 سالوں سے سٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کی بنیاد پر ان دہشت گردوں کو اپنے اثاثے قرار دیتی رہی ہے۔صوبہ خیبرپختونخوا کے اندر سابق حکومت دہشت گردوں کے ساتھ کھلم کھلا ملی ہوئی تھی اور ان ریاستی اثاثہ جات کو فنڈز مہیا کرتی تھی۔ جس پر ریاست نے کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا، جبکہ سانحہ پشاور کی ذمہ داری قبول کرنے والے یہی اثاثہ جات ہیں۔ جبکہ دوسری جانب کچھ ریاستی دھڑے اس دہشت گردی کے ذریعے جس کا لقمہ اجل مظلوم اور معصوم عوام ہی ہوتے ہیں ان کے بدلے مختلف سامراجی ممالک سے مالی معاونت کی مد میں ڈالر بٹورتے رہتے ہیں۔ مگر عوام ان دہشت گردی کے واقعات سے بہت تلخ نتائج اخذ کر چکے ہیں،تقریباً عوام کی ہر پرت جانتی ہے کہ اس دہشت گردی کے پیچھے کونسے عوامل کار فرما ہیں۔ ہم پہلے بھی یہ واضح کرچکے ہیں کہ ریاست اپنے معاشی سیاسی بحران کو چھپانے کے لیے اور امریکہ یا دوسرے سامراجی ممالک کے ساتھ جاری تنازعات میں زیادہ سے زیادہ مال کے حصول کے لیے اپنی ہی معصوم عوام کی بلی چڑھا دیتی ہے۔ خطے میں دوسرے ممالک کے ساتھ سامراجی عزائم کے نتیجے کا نشانہ بھی معصوم عوام ہی بنتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے ریاست عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے دہشت گردی کے ان واقعات کو بیرونی سازش قرار دیتی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بیرونی ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرتی ہیں تب بھی اس منصوبہ بندی پر عملدرآمد’’اندر کے لوگوں‘‘ کی معاونت کے بغیر سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہاں یہ امر بھی توجہ کا مستحق ہے کہ ہمسایہ ممالک اپنے ہاں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار پاکستانی حساس اداروں کو قرار دیتے آئے ہیں۔ یوں یہ ساری دنیا کی ریاستوں کا عمومی طرزعمل دکھائی دیتا ہے کہ اپنی پالیسیوں کے بیک فائر کا ملبہ مبینہ بیرونی عناصر پر ڈال دیا جاتا ہے۔
یہ صورتحال اتنی گھمبیر ہو چکی تھی اور عوام کی نفرت اتنی بڑھ چکی تھی کہ پشتون سماج میں وار آن ٹیرر اور آرمی آپریشنز کے اندوہناک نتائج کے خلاف ایک خود روتحریک کا آغاز ہوا ۔ اس تحریک نے پوری دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حقیقت کیا ہے۔ ابھی تک ریاست کے ذمہ داران کی جانب سے پشتون عوام کے جذبات اور نعروں کی تشفی کرنے والا کوئی مؤثر اور سنجیدہ جواب نہیں دیا جا سکا۔ رمضان کے مہینے سے وزیرستان میں نام نہاد امن کمیٹی کی آڑ میں طالبان پھر سے اپنی کارروائیوں کے آغاز کا عندیہ دے چکے تھے جس کے بعد دہشت گردی کے حالیہ واقعات کسی کے لئے بھی حیران کن نہیں ہیں۔
دوسری جانب ریاست دہشت گردی کے خلاف بیشمار آپریشنز کرچکی ہے اور ان آپریشنز میں اربوں روپے اور ہزاروں سپاہیوں کی قربانی دینے کے باوجود آئے روز دہشت گردی کا ایک نیا واقعہ سامنے آتا ہے جو کہ ریاست کے اس سفید جھوٹ کے منہ پر طمانچہ ہے کہ ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے۔دراصل دہشت گردی کی کمر توڑنے کے بجائے مظلوم اور معصوم عوام کی کمر توڑ دی گئی ہے، جن کے گھر بار، کاروبارِ زندگی اور دیگر بنیادی انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر نیست ونابود کردیا گیا ہے۔ اس وقت ریاست کی معیشت شدید گراوٹ کا شکار ہے جس کے باعث بلیک منی اور دہشت گردی کے منافع بخش کاروبار پر انحصار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ دہشت گردوں کے کھلم کھلا حمایتی ملاؤں نے ملک بھر میں ہزاروں سے زیادہ کی تعداد میں مدارس بنائے ہوئے ہیں جو دہشت گردی کے لئے خام مال مہیا کرنے کے کارخانے ہیں لیکن ان کے خلاف کبھی کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا بلکہ وہ سب کالعدم ہونے کے باوجود انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جس سے ریاستی پالیسی واضح ہو جاتی ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ریاست پاکستان کے اندر بسنے والے معصوم اور مظلوم عوام نے جتنا زیادہ نقصان اٹھایا ہے اس سے کہیں زیادہ بیرون ملک اثاثہ جات بنانے کا عمل تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور ملک کے اندر بھی ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹیوں سمیت پراپرٹی کا کاروبار بھی اسی کالے دھن کے مرہونِمنت ہے۔
انہی دہشت گردی کی کاروائیوں میں محنت کشوں پر سرمایہ داروں کی جانب سے بد ترین حملے بھی کیے گئے ہیں اورا ن کی حقیقی اجرتوں میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے۔ اگر پاکستان میں آج مزدور کو ملنے والی کم از کم اجرت کا موازنہ بیسسال قبل ملنے والی اجرت ایک تولہ سونے کے پیمانے پر کریں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اجرتوں میں کتنے بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے۔اسی طرح ٹھیکیداری نظام میں وسعت آئی ہے جبکہ مستقل روزگار کم ہوئے ہیں۔ نجکاری ، ڈاؤن سائزنگ کے علاوہ نجی اداروں اور صنعتوں میں کام کے اوقات کار دگنے ہو چکے ہیں۔مزدوریونینیں کمزور ہوئی ہیں اور ان کی تعداد میں بھی بڑے پیمانے پر گراوٹ آئی ہے۔اس تمام صورتحال کو دہشت گردی میں مسلسل اضافے سے منسلک کریں تو نظر آتا ہے کہ دہشت گردی کے حملوں سے پیدا ہونے والے خوف ہراس اور سکیورٹی اداروں اور عدلیہ سمیت دیگر ریاستی اداروں کی مزدور دشمن کاروائیوں کا سب سے زیادہ فائدہ یہاں کے سرمایہ دار طبقے کو ہوا ہے جس کے منافعوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ مزدوروں کے کسی بھی احتجاج یا جلسے جلوس کو سکیورٹی کے خطرات کا بہانہ بنا کر کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ مزدور قیادتوں پر بھی اپنے حقوق کی جدوجہد کو ملتوی کرنے کے لیے دباؤ ڈال جاتا ہے۔اس دوران مہنگائی کے حملوں سے لے کر سرمایہ داروں کے اجرتوں پر حملوں تک سب کاروائیاں جاری رہتی ہیں۔
طلبہ کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں جہاں یونیورسٹیوں کو جیلیں بنا دیا گیا ہے اور طلبہ کی تحریکوں کو ابھرنے سے پہلے ہی کچل دیا جاتا ہے جبکہ اس دوران فیسوں میں کئی گنا اضافہ روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے۔ اس دوران مختلف تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کے واقعات بھی تسلسل سے جاری ہیں جنہیں طلبہ کو مزید خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں اس تمام تر کرفیو کے باوجود مذہبی بنیاد پرست تنظیموں کی انتظامیہ کی جانب سے سرپرستی کی جاتی ہے جبکہ طلبہ کی حقیقی آواز بلند کرنے والوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے یا پھر ادارے سے ہی نکال دیا جاتا ہے۔ اس تمام تر عمل میں محنت کشوں سے تعلیم کا حق چھینا جا چکا ہے۔ اس سے واضح نظر آتا ہے کہ دہشت گردی کی کاروائیوں کا فائدہ کس طبقے کو پہنچا ہے اور کس طبقے نے ان کاروائیوں کا خمیازہ بھگتا ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں نے بھی یہاں کی مزدور اور طلبہ تحریک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے۔اسی طرح یہاں سیاست کو بھی پراگندہ کیا ہے اور قومی آزادی کی تحریک کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو جہاں مسلح جدوجہد کے انتہائی غلط طریقہ کار نے نقصان پہنچایا وہاں قیادت کی غداریوں نے بھی تحریک کی پیٹھ میں چھرے گھونپے ہیں۔ قومی حق خود ارادیت ہر مظلوم قومیت کا بنیادی حق ہے اور ہر خطے کا محنت کش طبقہ اس کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن بلوچستان کی قومی آزادی کی اس تحریک کو جہاں محنت کش طبقے سے دور کر دیا گیا وہاں اسے دہشت گردی کے ذریعے بھی نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ بلوچ اور پشتون عوام کو ایک دوسرے سے لڑانے کا حربہ بھی استعمال کیا گیا جبکہ فرقہ واریت کی نفرت کو بھی استعمال کیا گیا جو رجعتی قوتوں کا سب سے قیمتی ہتھیار ہے۔ان سب حملوں کا جواب صرف محنت کشوں کی طبقاتی جڑت کے ساتھ ہی دیا جا سکتا ہے جو تمام تر تعصبات کو چیرتے ہوئے امیر اور غریب کی اصل لڑائی کو منظر عام پر لاتی ہے اور ریاستی اداروں کی تمام گھناؤنی سازشوں کو بے نقاب کرتی ہے۔یہی طبقاتی جڑت قومی آزادی کے حصول کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ ان کالعدم تنظیموں اور ان کے سرپرستوں کو فیصلہ کن شکست بھی دے سکتی ہے جو آج بھی کھل کر اپنی کاروائیاں کر رہے ہیں ۔
سانحہ مستونگ جوکہ ریاستی پارٹی BAP کے انتخابی ریلی کے دوران پیش آیا اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ داعش کے اندر کون لوگ ہیں اور طالبان کے بعد اب اس تنظیم کا اثر و رسوخ کیوں بڑھتا جا رہا ہے۔ پہلے اس ملک میں داعش کے وجود سے ہی انکار کیا جاتا رہا ہے اور فوجی آپریشنوں کی کامیابی پر داد وصول کی جاتی رہی ہے۔ لیکن آج یہ واضح ہو چکا ہے کہ نہ صرف داعش اس ملک میں موجود ہے بلکہ اس کی کاروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس سے واضح نظر آتا ہے کہ کوئی بھی فوجی آپریشن آج تک کامیاب نہیں ہو سکا اور عوام سے جھوٹ بولا جاتا رہا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں امن کا قیام اور دہشت گردی کا خاتمہ صرف ’’بیانیہ‘‘ ہی ہے جس کا زمین پر موجود صورتحال سے کوئی تعلق نہیں۔
اس خونخوار واقعے کے بعد دلال گٹر میڈیا کا کردار ایک بار پھر واضح ہوگیا جنہوں نے حکمران طبقے کے ایک پیشہ ور چور کی گرفتاری کے نان ایشو کے سامنے اس واقعے کو انتہائی نامناسب کوریج دی جس نے لوگوں کے زخموں پر مزید نمک پاشی کی۔ اس کے علاوہ اس ریاستی میڈیا کا کردار صرف اور صرف حکمران طبقے کے مفادات تک محدود ہے۔ اور ہم نے دیکھا کہ نواز شریف اور اس کی بیٹی کے اسلام آباد میں سہالہ ریسٹ ہاؤس منتقلی تک براہ راست کوریج دی جارہی تھی جبکہ یہی میڈیا ملک بھر میں محنت کش عوام کے کسی بھی مسئلے کے حوالے سے ان کو کوریج دینا گوارا نہیں کرتا۔
لیکن عوام کب تک ظلم و وحشت اور خوف کے ماحول میں رہیں گے؟ کیا ان کی زندگی کا مقصد یہی ہے کہ اپنی موت کا باری باری انتظار کریں؟ ایسا بالکل نہیں ہے۔ایسے وقت میں جب دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام سکیورٹی ادارے اور ان کے مختلف ناٹک مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں تو محنت کش عوام کو یہ معاملات خود اپنے کنٹرول میں لینے ہوں گے۔دہشت گردی کی کاروائیاں چونکہ ملک کے اندر ہر شعبے اور ہر ان عوامی مقامات پر ہوں چکی ہیں خواہ وہ عبادات کے مراکز ہوں، تعلیمی ادارے ہوں یا صحت کے مراکز ہوں اس لیے اس عذاب کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو مختلف طریقوں سے جدوجہد کرنی ہوگی۔
سب سے پہلے تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ یونینز کو بحال کر وانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔طلبہ کی منتخب یونین کے ذریعے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کے فرائض طلبہ خود سر انجام دیں گے کیونکہ تعلیمی اداروں کے اندر سکیورٹی فورسز طلبہ کو دہشت گردی سے بچانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ اس کی واضح مثالیں آرمی پبلک سکول،باچاخان یونیورسٹی،خان عبدالولی خان یونیورسٹی اور ایگریکلچر یونیورسٹی پشاور میں ہونے والے واقعات ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب میں جمعیت کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے واقعات اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سکیورٹی فورسز کی موجودگی طلبہ کو دبانے اور ان کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے عمل کو ختم کرانے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ سکیورٹی فراہم کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے۔اس سارے عمل میں تعلیمی ادارے جیل جیسے مناظر پیش کرتے ہیں جو کہ طلبہ کو ذہنی کوفت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ مزدوریونینز اپنے اداروں کے اندر خود اپنی سکیورٹی کر سکتی ہیں،اگر ان کو یہ موقع فراہم کیا جائے تو! تاکہ ہسپتالوں ائرپورٹس،ریلوے، ڈاکخانہ اور دیگر کارخانوں اور دفاتر میں دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔
طلبہ یونینز اور مزدور یونینز کے علاوہ دہشت گردی کیخلاف عوامی کمیٹیوں کا قیام بھی اس مسئلے کا تدارک کر سکتا ہے۔ یہ عوامی کمیٹیاں جمہوری انداز میں منتخب کی جانی چاہیے جو کہ محلے کی سطح پر منتخب ہو کر دہشت گردی کے واقعات کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔کیونکہ ہم کئی بار ایسی جگہوں کو دیکھ چکے ہیں جہاں پر دہشت گردی کی وجہ سے معصوم جانیں چلی گئیں ہیں،جن میں عبادت گاہیں، نجی محفلیں اور دوسرے معاملات زندگی شامل ہیں۔ ان کمیٹیوں کے منتخب افراد کو کسی بھی وقت عوام کی جانب سے واپس بلائے جانے کا اختیار ہونا چاہیے۔ ان کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہونے چاہئیں جس میں تمام سیاسی اور علاقائی صورتحال پر گفتگو ہونی چاہیے اور محلے کے تمام افراد کو شرکت کی دعوت ہونی چاہیے تاکہ کوئی بھی فیصلہ یا کاروائی خفیہ طور پر نہ کی جا سکے۔
دہشت گردی کی آڑ میں سرمایہ دار طبقے کی جانب سے کیے جانے والے بد ترین استحصال کیخلاف بھی جدوجہد کی ضرورت ہے جس کے لیے محنت کشوں کو اپنے حقوق کے لیے منظم ہونا پڑے گا۔کسی جاگیر دار، سردار، وڈیرے یا سرمایہ دار کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کی بجائے خود اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ اگر محنت کش طبقہ منظم ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔ یہ طبقہ جب متحرک ہو گا تو صرف دہشت گردی اور ریاستی جبر کا خاتمہ نہیں کرے گا بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو بھی اکھاڑ پھینکے گا۔
اس دہشت گردی اور دیگر کالے کاروبار کی جڑیں سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں جن کے ذریعے دہشت گرد اپنے مفادات کے لیے عام عوام کے قتل عام کو ایک چیونٹی مارنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ نے کی جدوجہد بھی کی جائے جو محنت کش طبقے کی حتمی نجات کا واحد رستہ ہے ۔ اس کے لیے ایک عوامی بغاوت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس عوامی بغاوت کو اپنی منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے ایک انقلابی پارٹی کی حتمی طور پر ضرورت ہوتی ہے جوکہ اس ظالم نظام کا خاتمہ کرکے ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کو ممکن بنا سکے۔