|تحریر: زلمی پاسون|
29 ستمبر کو کوئٹہ شہر سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ مستنگ میں ایک مذہبی جلوس کو ریاستی اداروں کے مطابق نامعلوم افراد نے خودکش حملے کا نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں اب تک کہ اطلاعات کے مطابق 60 کے قریب افراد ہلاک اور 140 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ واضح رہے یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو کہ ہسپتالوں میں ریکارڈ کرائے گئے ہیں جبکہ اب تک کئی لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں یا ان کے اعضاء کو ڈھونڈنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس واقعے کی ذمہ داری کسی بھی دہشت گرد جھتے نے تسلیم نہیں کی ہے، اور ریاستی ادارے کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ گو کہ مستونگ میں ستمبر کے مہینے میں ایک مذہبی جماعت پر حملہ ہو،ا جس میں 11 افراد زخمی ہوئے اور اس حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی جبکہ مستونگ واقعے کی ذمہ داری لینے سے اب تک ٹی ٹی پی نے انکار کیا ہے۔
اس کے ساتھ جمعہ کے دن ہی خیبر پختونخواہ کے علاقے ہنگو میں جمعہ نماز کے دوران مسجد میں دھماکے سے سات افراد کی ہلاکتوں کی رپورٹ منظر عام پر آئی۔ ان واقعات سے کچھ دن قبل سندھ کے ضلع نواب شاہ کے علاقے سکرنڈ میں رینجرز اور پولیس کی ڈائریکٹ فائرنگ سے پانچ سے سات خواتین اور مردوں کی ہلاکتوں کا دردناک واقعہ سامنے آیا۔
ان واقعات کے خلاف حسب معمول پاکستانی میڈیا پر مخصوص خبریں چلیں۔ جبکہ نام نہاد سیاسی اشرافیہ اور ریاستی دلالوں کی جانب سے روایتی مذمتی بیانات سامنے آئے۔ ان واقعات کی آڑ میں سوشل میڈیا پر جو بحث مباحثے چل رہے ہیں ان میں سب سے زیادہ اہم سوالات پنجاب کے محنت کش طبقے کے حوالے سے اٹھائے گئے ہیں، جن پر سیر حاصل بحث کرنا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ جبکہ دیگر اہم سوالات میں ایک اہم سوال سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ میں دہشت گردی کے واقعات کو قومی جبر کے تسلسل کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، جوکہ درحقیقت درست بھی ہے۔ دوسری طرف ریاست ان حملوں کو محنت کش طبقے کی ممکنہ اٹھان کو کاؤنٹر کرنے یا پھر محنت کش طبقے کی ملک گیر ممکنہ جڑت کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں اور ملک کی موجودہ مالیاتی بحرانی کیفیت سے توجہ ہٹانے کے لیے بھی استعمال کرتی ہے۔
پاکستان میں بالعموم دہشت گردی کی ایک نئی لہر شروع ہو چکی ہے۔ لیکن یہاں پر یہ بھی واضح ہے کہ کس طرح دہشت گردی کی حالیہ لہر ڈالر خوری اور سامراجی عزائم پر مبنی پاکستانی ریاست کی پچھلی 45 سالہ پالیسیوں کا ہی منطقی نتیجہ ہے۔ ان اژدھوں کو ریاست نے ہی دودھ پلا پلا کر بڑا کیا ہے۔ یہ ریاست کالے دھن میں اتنی غرق ہے اور مذہبی انتہاپسندی کا سیاسی و سماجی استعمال کرنے کی اتنی عادی ہے کہ یہ کبھی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کر سکتی اور نہ کرنا چاہتی ہے۔ مگر جہاں تک پاکستان میں مظلوم اقوام کی دگرگوں حالت کا سوال ہے تو اس طرح کے دہشت گردی کے واقعات اس زبوں حالی اور جبر میں مزید اضافہ کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ بالخصوص اگر پختونخواہ اور بلوچستان کے تناظر میں بات کی جائے تو افغانستان میں طالبان کی سامراجی پشت پناہی میں واپسی نے ٹی ٹی پی کو تقویت دیتے ہوئے ان کے دہشت گردانہ کاروائیوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں قائم آزاد مرکز برائے ریسرچ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) نے یہ رپورٹ بلوچستان کے جنوب مغربی اور خیبر پختونخواہ کے شمال مغربی علاقوں میں ہونے والے خودکش بم دھماکوں اور دہشت گردوں کے حملوں میں کم از کم 69 افراد کی ہلاکت کے ایک دن بعد شائع کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022ء کے مقابلے میں اس سال دہشت گردی کے حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں 19 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان کی سرحد سے متصل دو پاکستانی صوبوں (بلوچستان و پختونخواہ) میں ہونے والی ہلاکتیں کل ہلاکتوں کا 92 فیصد ہیں۔
مجموعی طور پر ٹی ٹی پی کے ماہانہ اوسط حملے 2020ء میں 14.5 فیصد سے بڑھ کر 2022ء میں 45.8 فیصد ہو گئے اور جغرافیائی دائرہ کار میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ یہ افغان حکومت کے خاتمے کے بعد حاصل کیے گئے آپریشنل اور بہتر ہتھیاروں کی عکاسی کرتے ہیں۔ مزید برآں، طالبان کی کابل میں حکومت کے باعث ان کے حملے زیادہ منظم ہو چکے ہیں اور وہ اپنے اہداف زیادہ موثر انداز میں حاصل کر رہے ہیں۔
جنوری 2023ء میں ایک خودکش بمبار نے پشاور کی ایک مسجد پر حملہ کیا۔ اس میں کم از کم 100 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے۔ ٹی ٹی پی کے جماعت الاحرار دھڑے نے ابتدائی طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی تاکہ اس گروپ کے سابق رہنما عمر خالد خراسانی کا بدلہ لیا جا سکے، جو اگست 2022ء میں سڑک کے کنارے ایک بم دھماکے میں مارا گیا تھا، لیکن ٹی ٹی پی کے ترجمان نے اس کے بعد سے ان کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ قیادت کا ذمہ داری سے انکار ممکنہ اندرونی اختلاف کی نشاندہی کرتا ہے اور دہشت گرد دھڑوں کی طرف سے شہریوں کے خلاف تشدد کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔ ٹی ٹی پی نے جنوب کی طرف بلوچستان میں بھی توسیع کی ہے، اور دعویٰ کیا ہے کہ اس نے وہاں دو عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔ پاکستانی سیکورٹی فورسز پر مسلسل حملوں کے ساتھ توسیع نے اپریل 2023ء میں پاکستان کو عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے ملک گیر کارروائی کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ اس پیمانے کا آپریشن 2014ء کے بعد سے نہیں ہوا ہے۔ لیکن ایسے بہت سے آپریشنوں سے نہ پہلے دہشت گردی ختم ہو سکی ہے اور نہ ہی اب کوئی امید ہے۔ بلکہ جیسے جیسے الیکشن قریب آئیں گے اور ملک میں سیاسی سرگرمی تیز ہو گی ویسے ہی عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی تیزی آئے گی۔ پہلے بھی دیکھا گیا ہے کہ مخالف سیاسی قوتوں کے جلسوں میں دہشت گردی کروائی جاتی ہے جبکہ حامی سیاسی قوتیں کھل کر جلسے جلوس کرتی ہیں۔
مزید برآں پاکستان اب دیوالیہ پن کے خطرے سے دوچار ہے اور محنت کش عوام ریکارڈ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے دوچار ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے ساتھ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پر انحصار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے کے رجحان میں شدید اضافہ ہونے لگا ہے۔ حتیٰ کہ بڑی تعداد میں لوگ نام نہاد غیر قانونی رستوں تک کو اپنانے پر مجبور ہیں، جو کہ درحقیقت خود کشی کا دوسرا نام ہے۔ یونان کے ساحل پر کشتی ڈوبنے کا سانحہ اسی عمل کی نشانی ہے۔ اس سنگین معاشی صورتحال میں پاکستانی حکمران بجٹ میں عوام دشمن کٹوتیاں کر رہے ہیں اور آئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس بڑھارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوامی بے چینی پھیل سکتی ہے جبکہ حکمران طبقہ اور سامراجی طاقتیں دہشت گردی کو عوام کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔
اس تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی ایک ایسا ناسور بن چکا ہے کہ جس کا مقابلہ اب ریاستی اداروں کے بس کی بات نہیں رہی۔ بلکہ بعض اوقات ان دہشت گرد جتھوں کو کہیں نہ کہیں سے مکمل حمایت ملتی ہے۔ دہشت گردی کے ناسور کے خلاف ہم اپنے موقف کو پھر دہراتے ہیں کہ اس ناسور کے خلاف جمہوری طور پر مقامی سطح پر منتخب عوامی کمیٹیوں کے ذریعے ہی لڑا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں عوام کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود منظم ہونا ہو گا اور محلے کی سطح پر ایسی کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گی جو مختلف جرائم اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مقامی کونسلروں یا نام نہاد نمائندوں پر انحصار کرنے کی بجائے ان کمیٹیوں کو جمہوری انداز میں چلانے کی ضرورت ہے۔ تحریکوں کی عدم موجودگی کی کیفیت میں خود جرائم پیشہ افراد ان کمیٹیوں کے سربراہ بن کر انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس لیے ان کمیٹیوں میں جمہوری اندازمیں سب کے سامنے اور فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ان میں محنت کشوں کی بڑی تعداد کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جن کی رائے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں جرگے، پنچایتیں یا ایسے ہی رجعتی ادارے موجود ہیں جو علاقے کے مختلف امور پر فیصلے صادر کرتے ہیں۔ ان جرگوں میں دولت مند اور حکمران طبقے کے افراد ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ جرگے اور پنچایتیں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ اکثر دہشت گردی کے معاون رہے ہیں۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں حکمران طبقے کے افراد اور ریاستی اہلکاروں کی شمولیت پر پابندی لگانی ہو گی۔ اسی طرح ایسے تمام افراد، بالخصوص تاجر اور کاروباری، جو دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کرتے رہے ہیں، پر بھی سخت پابندی لگانی ہوگی۔
ریاست اور یہاں موجود حکمران طبقات ان تمام اقدامات کی مخالفت کریں گے اور اس کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔ اس کے علاوہ ان کوششوں کو مسخ کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان اداروں کو بدنام کروانے کی سازش بھی کی جا ئے گی۔ اس کے علاو ہ آغاز میں دیگر ساتھیوں کا اعتماد جیتنے اور خوف توڑنے میں بھی دقت ہو گی لیکن اگر یہ سار اعمل ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ ادارے زیادہ فعال اور واضح شکل میں ابھر کر سامنے آئیں گے۔ طلبہ اور مزدوروں کی بڑھتی ہوئی تحریکیں ان اداروں کے کردار کو وسعت دیتے ہوئے انہیں ریاستی اداروں کی جگہ لینے کی طرف بھی دھکیل سکتی ہیں۔ ایک ملک گیر عوامی تحریک جہاں اس بوسیدہ ریاست کو دفن کرنے کی جانب بڑھے گی وہاں اس کی جگہ ایک نئی ریاست کا خلا بھی پیدا کرے گی۔ اس موقع پر اگر ایک انقلابی پارٹی موجود ہوتی ہے تو وہ مزدور ریاست کی تعمیر کا آغاز انہی ادارو ں کو بنیاد بناتے ہوئے کر سکتی ہے۔ لیکن اس پورے عمل میں عوام کی براہ راست شمولیت کلیدی کردار ادا کرے گی اور انقلابی پارٹی کو اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا نادر موقع فراہم کرے گی۔ آخری تجزیے میں دہشت گردی کی تمام تر جڑیں اسی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں اس لیے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے تمام افراد اور تنظیموں کو اپنی حتمی منزل سوشلسٹ انقلاب کو بنانا ہو گا۔ اس کے بعد ہی دہشت گردی کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔