|رپورٹ: صبغت وائیں|
ماسٹر ٹائلز فیکٹری، ماسٹر گروپ کا ایک حصہ ہے جس کے مالکان نے انہی فیکٹریوں سے کھربہا روپیہ کمایا ہے۔ گوجرانوالہ کے گردونواح میں ایکٹروں پر محیط وہ زرعی اراضی جس پر دنیا کا بہترین چاول اگتا تھا، وہاں کے کسانوں سے زبردستی اونے پونے خرید کر ’لے پیرس سٹی‘ بنانے کا جھانسا دے کر گوجرانوالہ کے شہریوں سے اربوں روپے کا فراڈ بھی اسی کاروباری گروپ کا ’کارنامہ‘ ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور سابقہ وزیر اعظم نواز شریف ان لوگوں کے ذاتی دوست ہیں۔ عمران خان اور جنرل باجوہ کے لیے خصوصی دعائیں کروانے والا مولوی ان کے بیٹے کی مشہور شادی، جس کو انہوں نے انڈیا کے امبانی گروپ کی ایک شادی کی نقل مار کر پاکستان کی مہنگی ترین شادی بنا ڈالا تھا، اس میں نکاح پڑھا کر بیس لاکھ روپیا وصول کرتا ہے۔
آج سے پانچ روز قبل مجھے فیس بُک پر گوجرانوالہ گروپ میں ایک مقامی لڑکے نے ایک پوسٹ میں مینشن کیا کہ ماسٹر ٹائلز کے محنت کش سڑک پر احتجاج کر رہے ہیں۔ خبر دیکھ کر پتہ چلا کہ چار ماہ کی تنخواہ نہیں دی گئی۔ دوسرے دن میں ”ریڈ ورکرز فرنٹ“ اور ”ورکرنامہ“ کی جانب سے تفصیلات جاننے اور ورکرز سے ملاقات کرنے کامونکی گیا۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ خبر بالکل درست تھی اور کئی مزدور تو ایسے بھی ہیں جن کی تنخواہ پانچ ماہ سے نہیں دی جا رہی۔ وہاں ان مزدوروں سے وعدہ کر کے آیا کہ کل ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے آپ کے ساتھ احتجاج میں بھر پور شرکت کریں گے۔ ہم مزدوروں کو ان کا جائز حق دلوانے کی خاطر جو کچھ ہوا کریں گے۔ اگر احتجاج کے دائرے کو وسیع کرنا پڑا تو وہ بھی کریں گے اور انتظامیہ اور پولیس کی غنڈہ گردی کا بھی مقابلہ کریں گے۔
مزدور کسی پر بہت مشکل سے اعتبار کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو ساری زندگی میں صرف دھوکے ہی ملے ہوتے ہیں۔ نہ صرف مخالف سرمایہ دار طبقے سے بلکہ خود ان کی اپنی صفوں میں سے بھی کچھ لوگ ان کی آنکھوں کے سامنے بِک جاتے ہیں۔ اس تحفظ کا اظہار انہوں نے جاتے ہی کر دیا تھا کہ میڈیا والے آتے ہیں، ہمارا ساتھ دینے کا کہہ کر اندرجاتے ہیں، دیہاڑی لے کر نکل جاتے ہیں۔ لیکن ہم نے ان کو یاد کروایا کہ ہم کوئی ’میڈیا والے‘ نہیں ہیں بلکہ محنت کشوں کی ایک لڑاکا انقلابی تنظیم ہیں اور آج سے دس سال پہلے بھی ہم آپ کے ساتھ آخر وقت تک کھڑے تھے جب سات دن تک ماسٹر ٹائلز میں ہڑتال کی گئی تھی۔ یونین بن چکی تھی، لیکن مالکان نے دھوکے سے مزدوروں کی قیادت ہی کو منا لیا تھا کہ ہڑتال توڑ کر ”اندر“ آ جائیں۔ اور وہ ہم ہی تھے جو آخر تک کھڑے تھے اور مالکان کی اس دھوکہ دہی کی نشاندہی کر رہے تھے۔ بہت سے پرانے مزدوروں نے ہمیں پہچان لیا اور یوں اعتماد کا پہلا قدم طے ہوا۔
دوسرے دن ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے کچھ کارکنان گوجرانوالہ سے ماسٹر ٹائلز چلے گئے اور کچھ دوستوں نے کامونکی سے ہمیں جوائن کیا۔ ہم نے وہ سارا دن بھرپور احتجاج کیا۔ جس کا کوئی نتیجہ نہ نکلتا دیکھ کر اور انتظامیہ کی دھمکیوں سے تنگ آکر مزدوروں نے جی ٹی روڈ کو بلاک کر دیا۔ سڑک کو بلاک کرتے ہی مقامی ایس ایچ او وہاں آ گیا۔ پولیس کی گاڑیاں جو پہلے سے وہیں بطور خاموش تماشائی موجود تھیں، حرکت میں آ گئیں اور مزدوروں کو ڈرانے دھمکانے لگیں۔ وہاں مزدوروں نے طیش میں آ کر ماسٹر ٹائلز مردہ باد، شیخ محمود مردہ باد سے آگے جا کر شہباز شریف مردہ باد اور نواز شریف مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔
ایس ایچ او نے مزدوروں کو’یقین‘ دلایا کہ وہ ان کو تنخواہ دلانے کی کوشش کرتا ہے، وہ سڑک کھول دیں۔ اور اس طرح سڑک کھلوا ئی گئی۔
اس کے بعد فیکٹری انتظامیہ سے طویل مذاکرات شروع ہو گئے۔ جس میں ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے پانچ مزدوروں کے ہمراہ میں نے شرکت کی۔ انتظامیہ اور ایس ایچ او ایسا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن مزدوروں کے آگے ان کی پیش نہیں چلی۔ مزدور کہتے تھے کہ اندر لے جا کر یہ ہمیں دھمکاتے ہیں، اور انہوں نے ایک روپیا بھی نہیں دینا۔
اندر بیٹھے مالکان کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ فیکٹری پانچ ماہ سے بند پڑی ہے، اور پیسا نہیں ہے۔ چودہ کروڑ درکار ہے ان کو ایک ماہ کی تنخواہ دینے کے لیے لیکن ہمارے پاس صرف تین کروڑ ہے۔ ایس ایچ او بھی کہنے لگا بہت بڑی رقم ہے۔ ہمارے ساتھ گیا ایک بوڑھا مزدور کہنے لگا، صاحب میں ڈرائیور ہوں۔ روز گودام جاتا ہوں۔ گودام بھرے پڑے ہیں۔ ہر روز ٹرک لوڈ ہو کر جاتے ہیں۔ یہ تو ہمیں بھی پتا ہے، کہ ایک ٹرک کتنے کا ہوتا ہے۔ لیکن اس مزدور کو خاموش کروا دیا گیا۔ جس پر میں نے احتجاج بھی کیا اور کہا کہ جو بندہ(مالک) چودہ کروڑ مہینے کا دیتا ہے وہ چودہ کروڑ ہفتے کا کماتا بھی ہے۔ یہ مزدور مٹی کو سونا بنا کر دیتے ہیں۔ اور یہ کیا بات ہوئی کہ مال بکے گا تو پیسے دیں گے؟ فیکٹری مزدور سے مال تیار کروا کر اس کو مزدوری دے۔ مال بیچنا ان کی اپنی سر درد ہے۔ اس پر جنرل مینجر بدتمیزی کرنے لگا کہ تم کو کاروبار کا نہیں پتا۔ میں نے بھی کہا کہ تم کو جتنا پتا ہے، وہ بھی نظر آ رہا ہے۔ لیکن کام کی بات وہ بزرگ مزدور بتا چکا تھا۔ اعصاب شکن بحث مباحثے اور بڑی تلخ کلامی کے بعد وہ تیار ہو گئے کہ دو ماہ کی تنخواہ دے دیں گے دسمبر اور جنوری کی۔ مزدوروں میں سے جو بولتا اس کو خاموش کروا نے کی پوری کوشش کی جاتی۔ ہم اپنی طرف یہ خوشی کی خبر لے کر مزدوروں میں آئے تو انہوں نے بتایا کہ دسمبر اور جنوری میں کام ہی چند دن ہوا ہے، اور یہ سارے احتجاج کرنے والے مزدور دیہاڑی دار ہیں۔ جن سے فروری، مارچ اور اپریل میں احتجاج شروع ہونے تک کام کروایا جا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دو چھوڑیں ایک ماہ فروری کی تنخواہ ہمیں آج لے دیں دسمبر، جنوری، مارچ اور اپریل کی عید کے بعد سہی۔
انتظامیہ سے دوبارہ بات کی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ انکار کی بات میں نے باہر ریڈ ورکرز فرنٹ کے باقی ساتھیوں کو بتائی اور جب انہوں نے مزدوروں کو یہ بتایا تو انہوں نے دوبارہ جی ٹی روڈ بلاک کر دی۔ ریڈ ورکرز فرنٹ نے مزدوروں کو حوصلہ دے رکھا تھا کہ احتجاج ان کا حق ہے، اور کوئی آپ کے ساتھ زیادتی نہیں کر سکتا۔ آپ اپنے حق کی مانگ بلند آواز سے اور ہمت سے کریں۔ ایسے میں مجھے فیکٹری کے وکیل کی جانب سے، ایس ایچ او کی جانب سے اور ان کی انتظامیہ کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہاں تک کہ ”شرپسند عناصر“ بھی کہا گیا۔ میں نے کہا کہ شرپسند میں ہوں یا شیخ محمود ہے؟ باہر جی ٹی روڈ ہماری وجہ سے بند ہے، یا شیخ محمود کے کام کروا کر تنخواہ نہ دینے کی وجہ سے؟
اس کے بعد مزدوروں نے ”شیخ محمود کو گرفتار کرو اور اس سے تنخواہ لے کر دو“ کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ جس پر انتظامیہ نے دوبارہ’نرمی‘ دکھا کر مزدوروں کو ایس ایچ او کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ وہ کل ان کو فروری کی تنخواہ میں سے ”کچھ“ دے دیں گے۔ ہم نے تو ورکرز کو کہا تھا کہ ان کی بات نہ مانیں لیکن ان کا فاقہ کشی اور معاشی بدحالی سے برا حال تھا،اور اوپر سے عید بھی آ رہی تھی۔ لیکن پھر بھی ہم نے ڈیمانڈ رکھ دی کہ کم از کم فروری کے پورے مہینے کی تنخواہ فی الفور دیں۔
اس سے اگلے دن بعد از دوپہر ایس ایچ او نے تو کوئی کاروائی نہیں کی، لیکن گوجرانوالہ کا کمشنر فیکٹری کے گیٹ پر آ گیا۔ اس نے فاقہ کشی کا شکار مزدوروں کو’منا‘ لیا کہ سب دس دس ہزار روپیا لے لیں اور عید تو منائیں، عید کے تیسرے دن ان کو باقی ساری تنخواہ مل جائے گی۔ ہمیں تو ان جھوٹے بیوروکریٹک وعدوں کا بخوبی علم تھا ہی، لیکن مزدوروں کو بھی اس بات کا پتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ریڈ ورکرز فرنٹ ان کے ساتھ نہ ہوتا تو انہوں نے ایک روپیا بھی نہیں دینا تھا، وہ ان”افسروں“ کو بہت اچھے سے جانتے ہیں۔
کل پانچواں دن تھا۔ تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے انہوں نے رات گیارہ بجے تک بھی سارے مزدوروں کو پیسے(فی کس دس ہزار روپیہ) نہیں دیے تھے۔ اگلے دن بھی ساٹھ ستر مزدور گیٹ پر کھڑے تھے اور انتظامیہ پچھلے دن کے وعدے سے مکرتے ہوئے انہیں دس ہزار روپیہ دینے سے بھی انکاری ہو گئی تھی۔ ان ورکرز نے ہمیں فون کیا کہ ان کی تنخواہ باقی ہے۔ ہم نے کامونکی سے اپنے ساتھی وہاں بھیجے کہ ہم بھی آ رہے ہیں۔ لیکن ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی پولیس اور ایس ایچ او وہاں پہنچ گئے اور مزدوروں کی کم تعداد کا فائدہ اٹھا کر انہیں خوب دھمکا کر منتشر کر دیا کہ بصورت دیگر ان کو پکڑ کر اندر کر دیا جائے گا اور وہ عید بھی اندر ہی گزاریں گے۔ لیکن ہم ورکرز کیساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور ہم نے عید کے فوراً بعد ان کی ایک میٹنگ کال کی ہے جس میں بقایا تنخواہ کی وصولی کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔