|تحریر: رزاق غورزنگ|
گوادر میں اپنے بنیادی حقوق کے حصول کیلئے پچھلے ایک مہینے سے پورٹ روڈ پر جاری دھرنا گذشتہ روز وزیر اعلیٰ بلوچستان بمع کابینہ اور دھرنے کے قائدین کے درمیان دھرنے کی سٹیج پر مظاہرین کے سامنے اور مظاہرین کی اجازت سے بقیہ مطالبات پر عمل درآمد کے حوالے سے ایک تحریری معاہدے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا۔ معاہدے کے مطابق:
1۔ مکران کی سمندری حدود میں غیر قانونی ٹرالرز (جس میں حالیہ عرصے میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے) کو مانیٹر کرنے کیلئے ماہی گیر اور فشریز کے حکام مشترکہ پٹرولنگ کریں گے۔
2۔ ماہی گیروں کے مسائل کے حل کیلئے فشریز کے تمام دفاتر میں ماہی گیروں کے نمائندگان کا ڈیسک قائم کیا جائے گا۔
3۔ ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کی بلا روک ٹوک اجازت ہوگی۔
4۔ وی آئی پیز کے آنے سے عوام الناس کی نقل وحرکت پر پابندی ہٹا دی جائے گی۔
5۔ ایکسپریس ہائی وے سے متاثرہ لوگوں کیلئے دوبارہ سروے کرکے معاوضہ دیا جائے گا۔
6۔ سمندری حدود میں 12 ناٹیکل میل سے 30 ناٹیکل میل تبدیلی کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔
7۔ بارڈر تجارت کے متعلق مسائل کے حل کیلئے ضمانت دے کر ایک مہینے کا وقت دیا گیا ہے۔
8۔ بیشتر چیک پوسٹوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ مکران ڈویژن سے باقی غیرضروری چیک پوسٹوں کا سروے کرکے خاتمہ کیا جائے گا۔
9۔ احتجاجی رہنماؤں کا نام فورتھ شیڈول سے ہٹایا جائیگا اور مظاہرین میں سے کسی پر بھی مقدمہ نہیں بنایا جائے گا۔
10۔ کوسٹ گارڈ اور کسٹم کے پاس جتنی بھی کشتیاں، بوٹس، لانچ اور گاڑیاں ہیں ان کو ریلیز کروانے کے لیے صوبائی حکومت ہر قسم کا تعاون کرے گی۔
دھرنے کی اختتامی تقاریر میں رہنماؤں نے کہا کہ ہم ایک مہینے کا وقت دے رہے ہیں کہ اگر ایک مہینے کے اندر ان باقی ماندہ مطالبات کو حل نہیں کیا گیا تو لاکھوں کی شکل میں کوئٹہ اور اسلام آباد کا رُخ کریں گے اور آخر میں تمام شرکاء کی مشاورت سے اس دھرنے اور عوامی تحریک کو ختم کر دیا گیا۔
لمبے عرصے سے جاری محنت کش عوام کی یہ عظیم الشان تحریک حجم، شرکت اور وسعت کے حوالے سے معیاری شکل اختیار کرچکی تھی۔ پانی، بجلی، روزگار، ایران بارڈر پر بندشوں، مکران کوسٹ لائن میں ٹرالر مافیا اور عمومی ریاستی جبر و لوٹ کھسوٹ کے خلاف پچھلے عرصے میں چلنے والی منتشر تحریکیں گوادر، اورماڑہ، پسنی، تربت، پنجگور اور آواران تک پھیل کر آپس میں جڑتے ہوئے منظم اظہار اختیار کرگئی تھیں۔ اس تمام تر تحریک کا قائدانہ کردار گوادر میں گوادر پورٹ کے قریب چلنے والے دھرنے کے پاس تھا جس نے اپنی تحریک کا نام پہلے ”گوادر کو حق دو تحریک“ رکھا تھا مگر مکران کے عوام کی اس تحریک میں وسیع شراکت اور بلوچستان کے عوام کی یکجہتی کے نتیجے میں اس تحریک کا نام بدل کر ”بلوچستان کو حق دو تحریک“ رکھ دیا گیا۔
دھرنے پر بیٹھے عوام نے اپنے حقوق کیلئے بچوں کی کفن پوش ریلی نکالی جس میں ہزاروں بچوں نے شرکت کی۔ اس دوران خواتین کی ایک ریلی بھی نکالی گئی جس میں ہزاروں خواتین نے شرکت کی اور کہا جارہا ہے کہ خواتین کی یہ ریلی بلوچستان کی تاریخ میں اب تک سب سے بڑی ریلی ہے۔ اسی طرح 10 دسمبر کو انہوں نے اپنے مطالبات کیلئے ریلی نکالی جس میں دو لاکھ کے قریب لوگوں نے شرکت کی جس میں تربت، اورماڑہ، پسنی، جیوانی اور آواران سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ اس ریلی کو روکنے اور مکران کے دوسرے علاقوں سے عوام کی شرکت روکنے کیلئے صوبائی حکومت نے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر صوبے کے مختلف اضلاع سے پانچ ہزار کی پولیس نفری بھیجی۔ اسی طرح گوادر کو جانے والی مختلف شاہراہوں پر دھرنے میں جانے والے لوگوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی لیکن صوبائی حکومت اس دھرنے اور اس میں عوام کی شرکت روکنے میں مکمل ناکام ہوگئی۔ اس احتجاجی تحریک کے کل 19 مطالبات ہیں جس میں مرکزی مطالبات درج ذیل ہیں:
1۔ مکران کوسٹ لائن میں غیر قانونی ٹرالر پر مکمل پابندی۔
2۔ ایران بارڈر پر تجارت میں نرمی، ٹوکن سسٹم کا خاتمہ اور بارڈر تجارت کا انتظام فرنٹیر کور سے واپس لینا۔
3۔ سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تذلیل کا خاتمہ، ماہی گیروں کو سمندر پر جانے کیلئے فرنٹیر کور سے اجازت اور ٹوکن کا خاتمہ، غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ اور دفاع کے نام پر مقامی افراد سے ہرجگہ پوچھ گچھ اور جامہ تلاشی کا خاتمہ۔
4۔ مکران میں جاری منشیات کے اڈوں کا خاتمہ اور ڈرگ مافیا کے خلاف کاروائی۔
اسی طرح صاف پانی، بجلی، روزگار، تعلیمی اداروں میں سٹاف کی کمی دور کرنا، گوادر یونیورسٹی کی فعالیت اور سی پیک کے نام پر گوادر میں نام نہاد ترقیاتی کاموں میں مقامی افراد کو روزگار اور گوادر شہر کو اولیت دینا شامل ہیں۔
دھرنے کے اختتام سے قبل ان مطالبات کے اوپر دھرنے کی قیادت اور صوبائی حکومت کے درمیان مذاکرات کے کئی راؤنڈ ہوچکے تھے جس میں صوبائی حکومت کا کہنا تھا کہ ہم نے دھرنے کے اکثر مطالبات کو پورا کیا ہے اور اس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا جا چکا ہے۔ عمران خان نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں ان مسائل کا نوٹس لیا تھا اور صوبائی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ دھرنے کے بنیادی مطالبات پر جلد از جلد عملدر آمد کیا جائے تاہم دھرنے کے شرکاء کا کہنا تھا کہ ہمارے مطالبات پر جزوی عمل ہوچکا ہے جب تک تمام مطالبات کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا تب تک ہم دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ ان کا بجا طور پر کہنا تھا کہ صرف نوٹیفیکیشن اور کاغذی کاروائی سے ہم احتجاجی دھرنا ختم نہیں کریں گے۔
گوادر، تربت اور پنجگور کی اکثریتی غریب عوام کا اپنے گھروں کا چولہا جلانے، روزی اور روزگار کا تعلق سمندر میں ماہی گیری اور ایران سے پٹرول، ڈیزل اور اشیائے خورد ونوش کی رسد سے وابستہ ہے۔ یہی دو وہ مرکزی ذرائع ہیں جن سے مکران کے زیادہ تر غریب عوام رزق کماکر اپنے بچوں کو پالتے ہیں لیکن پچھلے عرصے میں مکران کی سمندری حدود میں سندھ اور مقامی طور پر غیر قانونی ٹرالر اور سرحد پر ایران سے تجارت میں پابندیاں، فرنٹیر کور کی چوکیاں اور ان چوکیوں سے ٹوکن سسٹم کے اجراء نے ان کے روزگار کو شدید متاثر کیا ہے اور ان کی روزی پر حملہ کرتے ہوئے ان غریب عوام کو فاقوں پر مجبور کر دیا ہے۔ مکران کی سمندری حدود میں اس وقت تین ہزار غیرقانونی ٹرالر مچھلی کا شکار کرتے ہیں اور یہ ٹرالر مافیا شکار اور سمندری حیات کے تمام قوانین کو روندتے ہوئے بڑی بے دردی سے سمندری حیاتیات کی نسل کشی اور سمندری ماحولیات کو تباہ کررہے ہیں جس سے سمندری حیاتیات کی بہت سی نسلیں معدوم ہو چکی ہیں۔ گوادر، پسنی، اورماڑہ جیوانی اور ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیر جب شکار کیلئے سمندر میں جاتے ہیں تو ان ٹرالر مافیا کی مچائی ہوئی تباہی سے یہ غریب ماہی گیر مچھلیاں پکڑے بغیر مایوس گھروں کو لوٹتے ہیں۔ سمندری حیاتیات پرٹرالر مافیا کے ہاتھوں یرغمال ہونے کی وجہ سے ان ماہی گیروں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ ان ٹرالر مافیا کو وزارت فشریز اور صوبائی و وفاقی حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ ٹرالر مافیا بلوچستان کی وزارت فشریز اور صوبائی حکومت کو ماہانہ 45 کروڑ روپے رشوت اور بھتے کے طور پر دیتے ہیں جس کے بدلے میں یہ کرپٹ حکومت ماہی گیروں کے معاشی قتل عام پر ان کی پشت پناہی کررہی ہے۔ ان ماہی گیروں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کیلئے سی پیک کی سیکورٹی کے نام پر ماہی گیروں سے مسلسل پوچھ گچھ اور سمندر پر جانے کیلئے سیکورٹی چیک پوسٹوں سے اجازت اورہر روز ٹوکن لینا پڑتا ہے۔ گوادراور مکران میں ہر جگہ پر سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹیں، ماہی گیروں اور مقامی آبادی سے مسلسل پوچھ گچھ اور ان کی جامہ تلاشی اور ان کے گھروں کی چھتوں پر آنے سے یہاں کے مسلسل اذیت کا شکار ہیں اور وہ اپنے شہر اور وطن میں دیارِغیر کے اجنبی بن گئے ہیں۔
سی پیک کے نام پر 62 ارب ڈالر کے منصوبے سے گوادر کے مقامی لوگ صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ نے جینا محال کردیا ہے۔ گوادر کو سی پیک کا دل کہا جارہا ہے اور یہاں کے حکمران دن رات سی پیک کو پاکستان کیلئے گیم چینجر قرار دیتے نہیں تھکتے۔ یہ بھی سن سن کر کان پک چکے ہیں کہ اس سے بڑے پیمانے پر روزگار پیدا ہوگا۔ گوادر میں پاکستان کے تمام پراپرٹی مافیا نے بڑی زمینیں خریدی ہوئی ہیں۔ زرداری اور نواز شریف سے لے کر جرنیلوں اور بلوچستان کی مقامی اشرافیہ کے بھی گوادر میں پلاٹس ہیں لیکن گوادر اور مکران کے نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے منشیات کا رُخ کررہے ہیں۔ اسی طرح ایران کے ساتھ سرحدی تجارت پر پابندیاں لگاتے ہوئے وہاں فرنٹیر کور کی چیک پوسٹیں قائم کرتے ہوئے ٹوکن سسٹم کا اجراء کیا گیا جس میں غریب لوگوں کی باری بڑی مشکل سے آتی تھی جبکہ ایک اقلیتی مافیا ان چیک پوسٹوں پر بھاری رقم کی رشوت دے کر ہر وقت ٹوکن حاصل کرکے روز تجارتی اشیاء لاتے تھے۔ اس عمل سے بارڈر پر تجارت سے روٹی کمانے والے غریب لوگوں کو فاقہ کشی کرنے پر مجبور کیا گیا جس کے خلاف کافی عرصے سے وہ تحرک میں تھے۔ غریب عوام کے ساتھ ان نا انصافیوں، ظلم، جبر و استحصال کے خلاف غصہ، نفرت اور بے چینی لمبے عرصے سے پنپ رہی تھی اور جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور جب ان سے اپنی بقاء کے سارے ذرائع چھین لیے گئے تو اس پنپتی ہوئی نفرت نے مقداری حدود کو چیرتے ہوئے معیاری شکل میں لاوے کی طرح پھٹ کر حکمرانوں کے استحصال اور ریاستی جبر کے خلاف کھل کر اپنا اظہار کیا۔ یہ وہ ٹھوس معاشی بنیادیں اور ان بنیادوں سے جنم لینے والا قومی احساسِ محرومی اور ریاست کا امتیازی سلوک تھا جس نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا اور قومی احساس محرومی کو ٹھوس طبقاتی مسائل سے جوڑ دیا۔
گوادر میں جاری اس دھرنے اور احتجاجی تحریک کی سربراہی جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمان کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور سیاسی تجزیوں میں اس وقت اس تحریک اور اس کے رہنما مولانا کے حوالے سے بڑے دلچسپ تبصرے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ لبرل ڈیمویٹک دانش بڑی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بہت میکانکی طریقے سے مولانا ہدایت کو بنیاد بناکر اس تحریک کو پنجاب کے مقتدر طبقات کی بنائی مصنوئی رجعتی تحریک لبیک اور چارسدہ و سیالکوٹ میں حکمران اشرافیہ کی شعوری طور پر تخلیق کیے ہوئے ناموس رسالت کے واقعات سے جوڑ رہے ہیں اور ملک میں جاری محنت کشوں و مظلوموں کی تحریکوں و پوٹینشل کو نظرانداز کرتے ہوئے سیاسی اُفق پر رجعت اور شدید مایوسی کا تجزیہ اور مستقبل کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ سب سے دلچسپ صورتحال قوم پرست سیاست سے جڑے پیٹی بورژوا دانشوروں کی ہے جو اس تحریک کے حوالے سے اپنے موقف میں ایک انتہا سے دوسری انتہا پر جارہے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے مولانا کو جماعت اسلامی کا جنرل سیکرٹری ہونے کے باوجود اس کو بلوچ ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس کو دوسرے مذہبی رہنماؤں سے اس لیے ممتاز کیا کیونکہ وہ بلوچ ہے اور دوسرے مذہبی رہنما غیر بلوچ ہیں لیکن جب مولانا ان کی تعریف کے مطابق بلوچ نہیں بن پایا اور دھرنے کے سٹیج سے سراج الحق اور لیاقت بلوچ نے تقریریں کیں تو ان قوم پرست دانشوروں نے دوسری انتہا پر جاکر اس پوری تحریک کو نظامِ مصطفی کا احیاء قرار دیا اور یہ سازشی تھیوری تخلیق کی کہ ریاست مولانا کے ذریعے بلوچ سیاست کو مین سٹریم کرنا چاہتی ہے۔ ایک دانشور نے تو اسے مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر کسی قوم پرست پارٹی میں شمولیت اختیار کریں اور پھر اس تحریک کو چلائیں حالانکہ وہ ان کے مشورے سے قبل تحریک کا لیڈر بن چکا تھا۔ ہم لبرل اور قوم پرست دانش کی طرف سے گوادر اور مکران کی عوامی تحریک کے متعلق یاس سے بھرپور اور غیر سائنسی نقطہ نظر کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ہمارا شروع دن سے یہ موقف رہا ہے کہ گوادر میں اُٹھنے والی تحریک اس جاری عمل کا نامیاتی حصہ ہے جس میں پوری دنیا میں عوامی تحریکیں اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ پارٹیوں اور روایتی قیادتوں کو مسترد کررہی ہیں اور انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں کوئی بھی حادثاتی کردار دائیں بازو یا اصلاح پسند لیفٹ سے سٹیٹس کو اور اسٹیلشمنٹ کے خلاف ریڈیکل موقف لیتے ہوئے قائد بن سکتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنے محدود پروگرام کی بناء پر ناکام ہوجاتا ہے تو تحریک آگے جاتے ہوئے اس کو مسترد کردیتی ہے اور نئی قیادت تخلیق کرتی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو گزشتہ عرصے میں ہمیں کم و بیش پوری دنیا کے اندر نظر آرہا ہے۔ گوادر میں جاری اس تحریک کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ انقلابی بائیں بازو کی قیادت کی عدم موجودگی اور قوم پرست سیاست کی ناکامی اور اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں ان کے مسلسل سمجھوتوں اور موقع پرستی نے اس خلاء کو جنم دیا جس کے نتیجے میں ایک طرف عوام نے خودرو طور پر تمام پرانی روایتی قیادتوں کو مسترد کیا جو کہ ان کی بلند شعور کی غماز ہے اور اس تحریک کی توانا خصوصیت ہے، جبکہ دوسری طرف وہ اپنی تمام تر جرات اور توانائی کے ہوتے ہوئے اپنی قیادت تعمیر نہیں کرسکے جو کہ اس تحریک کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ یہ وہ تضاد اور خلا تھا جس کو کسی نے پُر کرنا تھا اور اس خلاء کو سور بندر سے تعلق رکھنے والے ایک ماہی گیر کے بیٹے مولانا ہدایت الرحمان نے اپنے جماعتی نظریات اور رجعتی پس منظر کی وقتی طور پر نفی کرتے ہوئے ریڈیکل موقف اپناکر اور میدان میں ڈٹ کر اس تحریک کی قیادت کا مینڈیٹ حاصل کر لیا۔ لیکن ہم خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ اگر اس نے جماعتی نظریات کو تحریک پر نافذ کرنے کوشش کی تو وہ مسترد ہوجائے گا اور تحریک اپنا راستہ خود نکالے گی۔ ہمارا واضح اور دوٹوک موقف ہے کہ ہم مولانا کی طرف تنقیدی حمایت کا رویہ رکھتے ہیں اور تحریک اور اس کے مطالبات کی طرف غیرمشروط حمایت کرتے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کی کامیابی کا راز اس میں ہے کہ یہ تحریک پورے مکران میں منتخب تنظیمی ڈھانچے تعمیر کرتے ہوئے اجتماعی قیادت تخلیق کرتے ہوئے بلوچستان اور پورے پاکستان میں محنت کشوں اور مظلوم قومیتوں کے ساتھ اپنا رشتہ استوار کرے لیکن اس سے بھی اہم فریضہ اور کامیابی کا راز انقلابیوں کیلئے یہ ہے کہ انقلابی قیادت اور انقلابی پارٹی تعمیر کریں تاکہ اُبھرتی ہوئی عوامی بغاوتوں، ناہموار شعور اور معروضی صورتحال کے درمیان فاصلوں کو کم سے کم کرتے ہوئے ان تحریکوں کو ایک مرکز پر جمع کرکے جابر سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔
مکران کا علاقہ تاریخی طور پر غیر قبائلی رہا ہے۔ 2006ء میں ریاست کے سامراجی قبضے کو ختم کرنے اور آزادی حاصل کرنے کیلئے سب سی بڑی اور طویل پانچویں مسلح سرکشی کا گڑھ اور مرکز مکران کے علاقے تھے۔ تاریخ میں پہلی بار قومی آزادی کی قیادت اور گڑھ شمال کی قبائلی اشرافیہ سے منتقل ہوکر جنوب کے علاقوں میں نئے ابھرتے ہوئے پروفیشنلز، انٹیلی جنشیا اور طلبہ کے پاس آگئی۔ مڈل کلاس کی مختلف پرتوں کی فعال شمولیت ہمیں بلوچستان کی اس طویل اور بڑی سرکشی میں نظر آتی ہے۔ یہ پروفیشنلز، طلبہ، انٹیلی جنشیا اور پیٹی بورژوا دانشور جب بلوچستان میں بے پناہ قدرتی وسائل، اس کی لوٹ مار دیکھتے ہیں تو دوسری طرف اپنے وطن اور اس میں رہنے والی مخلوق کی بربادی دیکھتے تو ان کے دل خون کے آنسو روتے ہیں۔ ایسے میں ان کی فوجی اشرافیہ اور پنجاب کی بالادست رجعتی اشرافیہ اور ان کے مقامی دلالوں سے شدید نفرت برحق تھی۔ اس مسلح سرکشی کو کچلنے کیلئے ریاست نے بڑے پیمانے پر جبر کیا۔ فوجی آپریشن کرتے ہوئے پوری آبادیوں کو یرغمال بنایا۔ ہزاروں نوجوانوں کو قتل کرتے ہوئے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکیں۔ ہزاروں نوجوانوں کو لاپتہ کرکے ٹارچر سیلوں میں پھینکا گیا اور فوجی جرنیلوں نے ان لاپتہ افراد پر کاروبار کرتے ہوئے ان خاندانوں سے خوب پیسے بٹورتے ہوئے اپنی عیاشیاں جاری رکھیں اور یہ جابرانہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس مسلح سرکشی کی قیادت نے مڈل کلاس کی سماجی حمایت کو ہی اپنا بنیاد بنایا اور وہ اس کو محنت کشوں اور ان کی ٹھوس معاشی و طبقاتی جدوجہد کے ساتھ رشتہ استوار نہیں کرسکے۔ اس لئے اس سرکشی میں حصہ لینے والے نوجوانوں کی بے پناہ جرات اور قربانیوں کے باجود اپنے سماجی مواد کی بنیاد پر اس تحریک نے ایک مہم جو اور ایڈونچرسٹ شکل اختیار کی اور اس تحریک نے اسی بنیاد پر اپنی محدودیت کا اظہار اپنے سیاسی و نظریاتی پروگرام میں بھی کیا۔ اس مسلح سرکشی نے اپنے سیاسی پروگرام کو ریاست کا سامراجی قبضہ ختم کرنے اور بلوچستان کوسیاسی طور پر آزاد کرنے تک محدود کردیا۔ وہ محنت کشوں کے روزمرہ کے معاشی مسائل اور جدوجہد کو مسترد کرتے ہوئے طبقاتی آزادی کا واضح پروگرام اور لائحہ عمل دینے میں ناکام رہے۔ اس سماجی بنیاد پر اس سرکشی نے جو سیاسی پروگرام اور لائحہ عمل دیا اس میں وہ بلوچ محنت کش عوام کی وسیع تر شراکت کرانے میں مکمل ناکام رہے۔ یہ وہ محدودیت تھی جس کی بنیاد پر اس سامراجی ریاست نے اس سرکشی کو کچل دیا اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کرکے لمبے عرصے تک سیاسی بیگانگی کو جنم دیا۔ لیکن آج پھر مکران کے عوام اس بیگانگی اور ریاست کے خوف کا حصار توڑ کر مزاحمتی عمل میں ہیں لیکن اس بار دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ وہ ٹھوس معاشی مطالبات کے اوپر جنم لیتی ہوئی اور ان سے پنپتی اور جڑی ہوئی ریاستی جبر اور سامراجی لوٹ مار کے خلاف محنت کش عوام کی وسیع شراکت اور قائدانہ کردار کے ساتھ میدانِ عمل میں ہے جو ماضی کے تمام تاریخی اسباق سموئے ہوئے ہے۔ حکمران اشرافیہ کے لیے مشکل ہے کہ اس عمل کو کسی غلط راستے پر ڈالے۔ مکران کا یہ علاقہ قومی آزادی اور طبقاتی شعور سے مزین انقلابی کارکنان اور کیڈرز پیدا کرنے میں بڑا زرخیز رہا ہے۔ حمید بلوچ اور فدا شہید مکران سے تعلق رکھنے والے قومی آزادی کی وہ ترقی پسند میراث ہیں جس کو انقلابی مارکسزم کی توانا تعلیمات کی روشنی میں مزید نشونما کی ضرورت ہے اور انقلابی قوت تعمیر کرکے اس دھرتی پر سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ اسی صورت ہی سامراجی لوٹ مار، ریاست کا جبری قبضہ اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کرکے محنت کشوں کی سربراہی میں تمام قومیتوں کی رضاکارانہ فیڈریشن تشکیل دیتے ہوئے قومی جبر اور استحصال کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔