چمن: عوام نے ریاستی جبر اور مطالبات کی عدم منظوری کے خلاف عید کو بطور یوم سیاہ منایا

|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ، بلوچستان|

افغانستان سے ملحقہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں گزشتہ تقریباً آٹھ ماہ سے دھرنے پر بیٹھے مظاہرین نے اس عید الاضحٰی کی نماز بھی دھرنے کے مقام پر ادا کی۔ ہزاروں شہریوں نے مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ چمن میں پاک افغان سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے اطلاق کے خلاف 21 اکتوبر 2023 سے بارڈر پر کام کرنے والے مزدوروں اور چھوٹے تاجروں کی جانب سے دھرنا دیا جا رہا ہے۔

دھرنے کے 240 ویں دن اور عید الاضحٰی کے موقع پر مظاہرین کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں شہریوں نے بھی احتجاج میں شرکت کی اور عید کی نماز بھی وہیں ادا کی۔ احتجاج کے شرکا میں سے ایک بڑی تعداد نے احتجاجاً عید کے موقع پر نئے کپڑے نہیں پہنے اور انہوں نے بازؤوں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔

دھرنے کے منتظمین میں شامل عبدالحلیم پہلوان کا کہنا ہے کہ، ”ہمارے لوگ ہسپتالوں میں زخمی پڑے ہیں، قائدین جیلوں میں ہیں اس لیے ہم عید کو یوم سیاہ کے طور منا کر حکومت کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ دھرنے کے قائم مقام سربراہ فیض محمد نے کہا کہ، ”ہم سے تمام خوشیاں چھین لی گئی ہیں۔ کئی بار نہتے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر گولیاں برسائی گئیں۔“

انہوں نے مزید کہا کہ، ”آٹھ ماہ سے جاری احتجاج میں اب تک کئی مظاہرین کو قتل اور درجنوں کو زخمی کیا جا چکا ہے۔ بڑی تعداد میں مظاہرین جیلوں میں بند ہیں۔ باقیوں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے طاقت کے بے دریغ استعمال اور تمام احتجاج کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے تمام حربوں کے باوجود ہمارا احتجاج بغیر کسی وقفے کے جاری ہے۔“

”ہم اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ عید کے دن بھی احتجاج ریکارڈ کروا کے ہم حکومتی مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت گرفتار افراد کو فوری رہا کرے اور چمن سمیت سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کے لیے پاک افغان سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط ختم کرے۔“

دھرنے میں شریک عبداللہ اچکزئی نے کہا کہ، ”اس سرحد سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ چمن میں کوئی فیکٹری اور صنعت نہیں، روزگار کا یہی واحد ذریعہ تھا جو حکومت نے چھین لیا۔ پہلے روزانہ ہزاروں افراد سرحد پار جا کر دو وقت کی روٹی کماتے تھے اب آٹھ ماہ سے وہ بیروزگار بیٹھے ہیں اور ان کے گھروں میں فاقے پڑ رہے ہیں۔“

ان کا کہنا ہے کہ، ”ہمارے گھروں میں فاقے پڑ رہے ہیں، عید پر بچوں کے لیے کپڑے خرید سکتے ہیں اور نہ ہی جوتے، اس لیے عید ہمارے کوئی خوشیاں نہیں لاتی بلکہ ہمارے دکھ مزید بڑھ جاتے ہیں۔“

یاد رہے دو ہفتے قبل دھرنے کے شرکا اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان احتجاج کے دوران جھڑپوں کے نتیجے میں 40 سے زائد مظاہرین اور 18 فورسز اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔ فورسز نے دھرنے کی قیادت کرنے والے غوث اللہ، صادق اچکزئی سمیت متعدد افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔

حکومت نے مصالحتی کمیٹی کی کوششوں سے 40 کے لگ بھگ گرفتار مظاہرین کو رہا کر دیا ہے۔ تاہم دھرنے کے قائدین سمیت متعدد مظاہرین تاحال قید میں ہیں۔ شہر میں کئی دنوں کے بعد صورتحال معمول پر آ گئی ہے۔ تاہم دو ہفتوں سے اب تک انٹرنیٹ کی سروس معطل ہے۔

دھرنے کے شرکا نے تقریباً آٹھ ماہ سے جاری احتجاج کے دوران چار ماہ تک دونوں ممالک (بلوچستان اور افغانستان) کے درمیان ہر قسم کی تجارت کو بند رکھا۔ مئی کے شروع میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مبینہ جھڑپوں میں دو مظاہرین کی ہلاکت کے خلاف مظاہرین نے کوئٹہ چمن شاہراہ پر بھی دھرنا دیا جس کی وجہ سے ایک ماہ تک دونوں ممالک (بلوچستان اور افغانستان) کے درمیان تجارت معطل رہی۔ مظاہرین نے 37 دنوں تک شہر کے تمام سرکاری و نجی بینکوں، پاسپورٹ اور نادرا سمیت کئی دیگر سرکاری دفاتر کو بھی بند رکھا۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی چمن کے پرامن احتجاجی دھرنے کے شرکا پر ریاستی جبر کی نہ صرف شدید مذمت کرتی ہے بلکہ ہم شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے اس واقعہ میں ملوث تمام سیکیورٹی اہلکاروں کو فی الفور معطل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، جبکہ دھرنے کی قیادت کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم چمن کے پرامن احتجاجی دھرنے کے شرکا کے تمام تر مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور اس ضمن میں ہم ان کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔

ہم بلوچستان بھر کے ملازمین اور محنت کشوں سمیت پورے پاکستان کی ٹریڈ یونینز اور محنت کشوں سے اس احتجاجی دھرنے کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کی اپیل کرتے ہیں اور مشکل کی اس گھڑی میں چمن کے محنت کشوں کا ساتھ دینے کی اپیل کرتے ہیں۔ تاکہ مسئلے کی سنجیدگی کی نوعیت کا پتہ چلاتے ہوئے ہم ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کریں۔

اس وقت چمن میں موجود تمام محنت کش عوام اس احتجاجی دھرنے کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ ہیں مگر ان کے پاس کوئی منظم لائحہ عمل نہیں ہے اور دھرنے کی قیادت بلوچستان بھر کی ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز کی قیادت کے ساتھ مل کر منظم لائحہ عمل دے سکتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر کسی اور سے خیر کی توقع رکھنا محض وقت کا ضیاع ہے۔

 

Comments are closed.