|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|
پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) کے زیر اہتمام دو روزہ مارکسی سکول سرما 18 اور 19 فروری 2017ء کو ملتان میں منعقد ہوا۔ دو روز جاری رہنے والا یہ سکول بالشویک انقلاب کی 100ویں سالگرہ سے منسوب کیا گیا تھا۔ سکول میں شرکت ملک بھر سے نوجوانوں کے قافلے 16 فروری کو ملتان پہنچنا شروع ہوئے۔ کشمیر سے لے کر کراچی تک ملک بھر سے نوجوان سخت معاشی مسائل کو شکست دیتے ہوئے انقلابی عزم کے ساتھ ملتان پہنچے۔ سکول میں فاٹا سے آئے ہوئے نوجوان بھی موجود تھے۔ پہلے روز یعنی 17 فروری کو ملک بھر سے آئے ان نوجوانوں نے پروگریسو یوتھ الائنس ملتان سٹی کنونشن میں بھرپور شرکت کی اور اس کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 70سے زائد نوجوانوں نے اس دو روزہ سکول میں شرکت کی۔ فنڈز کی شدید کمی کے باوجود میزبان ریجن ملتان نے سکول کے کامیاب انعقاد کو یقینی بنایا۔ سکول کل 4سیشنز پر مشتمل تھا۔ دونوں دن(ہفتہ، اتوار) دو دو سیشنز منعقد ہوئے۔
پہلے دن کا پہلا سیشن ’’عالمی و ملکی تناظر‘‘ پر تھا جسے کراچی سے فارس راج چیئر کیا جبکہ اس پر لیڈ آف آصف لاشاری نے دی۔ عالمی صورتحال پر بات کرتے ہوئے آصف لاشاری نے کہا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے نامیاتی تضاد کی وجہ سے زائد پیداواریت کے بحران کی زد میں ہے۔ ویسے تو یہ بحرانات سرمایہ دارانہ نظام کی پوری تاریخ کا حصہ رہے ہیں مگر پہلے کسی نا کسی طریقے سے سرمایہ دارانہ نظام بحرانات سے نکل آتا تھا، کبھی عالمی جنگوں میں انسانیت کا قتل عام کرنے کے بعد تو کبھی محنت کش طبقے پر معاشی ظلم (تنخواہوں میں کٹوتیاں اورٹیکسوں کی بھرمار وغیرہ)کرنے سے، کبھی سرمائے کی ایک ملک سے دوسرے ملک منتقلی سے تو کبھی سستی لیبر کے ملنے سے اور ان کی قوت محنت کا شدید ترین استحصال کرنے سے(جیسے چین وغیرہ)۔ الغرض سرمایہ دارانہ نظام کو بحران سے نکالنے کیلئے کوئی نا کوئی رستہ ہمیشہ مل ہی جاتا تھا جس میں محنت کش طبقے پر شدید ظلم اور استحصال کر کے زائد پیداوار کے بحران سے سرمایہ دارانہ نظام کو بحران سے نکال لیا جاتا تھا۔ مگر آج کا بحران کوئی عام بحران نہیں ہے کیونکہ آج جس عہد میں یہ رونما ہو رہا ہے وہ گلوبلائزیشن کا عہد ہے۔ آج پوری دنیا ایک اکائی بن چکی ہے۔ عالمی منڈی کی جکڑ بندی سے کوئی بھی ملک خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، بچ نہیں سکتا۔ ایسے بحران کا سامنا پہلے اپنی پوری تاریخ میں سرمایہ دارانہ نظام نے کبھی نہیں کیا۔ اس بحران کی وجہ سے آج سامراجی طاقتوں کے توازن میں بھی شدید تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ آج ان خطوں میں جہاں پہلے امریکہ کا سامراجی تسلط تھا وہاں چین اور روس اس کی جگہ لے رہے ہیں۔ مثلاً مشرق وسطیٰ میں جو کی روایتی طور پر امریکی سامراج کے زیر اثر تھا، اب اس کی جگہ روس اور ایران کے سامراجی اتحاد نے لے لی ہے۔ اسی طرح جنوبی ایشیا میں جہاں پہلے امریکہ کا واضح سامراجی تسلط تھا(کہیں براہ راست جیسے افغانستان تو کہیں بالواسطہ یعنی قرضوں کے ذریعے جیسے پاکستان وغیرہ) وہاں اب آہستہ آہستہ اس کی جگہ چین لیتا جا رہا ہے۔ ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کے تحت چین قریباً 64ممالک پر مشتمل ایک سڑک بنا رہا ہے جس پر 900ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ سی پیک بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔
اس بحران نے پوری دنیا کی سیاست میں شدید ہلچل پیدا کر دی ہے۔ آج سیاست میں ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کے بارے میں آج سے چند سال پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا آدمی صدارت کی کرسی سنبھالے گا۔ یا امریکہ جیسے ملک میں برنی سینڈرز سوشلسٹ پروگرام کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی الیکشن کمپین کرے گااور محنت کشوں اور نوجوانوں کی بھرپور حمایت حاصل کرے گا۔ یا برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائیگا۔ یا ہندوستان میں مودی کی رجعتی حکومت آئے گی۔ آج عالمی سیاست میں انتہائی دائیں اور انتہائی بائیں بازو کی سیاست کا ابھار نظر آتا ہے جو ایک ایسے عہد کی واضح نشانی ہے جس میں حالات اور واقعات کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے اور محنت کش طبقہ اپنے حالات زندگی کو بہتر بنانے کیلئے انتہائی ریڈیکل نعروں اور پروگرام کا پیچھا کرتا ہے۔ پوری دنیا میں سماجی پولرائزیشن بڑھتی جا رہی ہے۔ روایتی پارٹیاں ایسے عہد میں کوئی کردار ادا نہ کرسکنے کے باعث قصۂ ماضی بنتی جا رہی ہیں اور نئے اور ریڈیکل پروگرام کی بنیاد پر نئی پارٹیوں کا جنم ہو رہا ہے اور وہ پارٹیاں جن کو کچھ عرصہ قبل تک کوئی نہیں جانتا تھا عوامی مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ ایسے عہد میں صرف بائیں بازو کی سیاست ہی نہیں ہوتی بلکہ دائیں اور بائیں دونوں ضدین اکٹھے کار فرما ہوتی ہیں۔ عالمی پیمانے پر ہونے والا یہ عمل پاکستان میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں سماج کی مختلف پرتیں مسلسل متحرک ہیں۔ یہ تحریکیں بکھری ہوئی ہیں مگر پورے پاکستان میں یہ تحریکیں دیکھیں جا سکتی ہیں۔ محنت کشوں پر نجکاری کے شدید حملے کئے جا رہے ہیں جن کیخلاف جدوجہد بھی چل رہی ہے۔ مگر روایتی ٹریڈ یونین قیادتوں کی غداریوں کے باعث یہ تحریکیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ آج پاکستان میں دائیں اور بائیں دونوں جانب ایک بہت بڑا خلا موجود ہے۔ کوئی بھی پارٹی ان تحریکوں کو سیاسی اظہار دینے سے قاصر ہے۔ ان پرانی سیاسی پارٹیوں کی جگہ جلد یا بدیر نئی سیاسی پارٹیاں لیں گی اور یہ نئی سیاسی پارٹیاں سماج میں جاری اسی ہلچل سے جنم لیں گی۔ سی پیک نے پاکستان کو سامراجی قوتوں کا اکھاڑہ بنا دیا ہے جس کا اظہار ہمیں دہشت گردی کے واقعات میں ہوتا نظر آرہا ہے۔ ریاست کے مختلف دھڑوں کے تضا دات گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور ان میں کشمکش بڑھتی جا رہی ہے جس کا اظہار ہمیں سیاسی افق پر بھی ہوتا نظر آرہا ہے۔ 2فروری کی پی آئی اے کی نجکاری مخالف ہڑتال نے جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی اور ایک عام ہڑتال کا سوال ابھارا تھا۔ ان تحریکوں کی کامیابی کے لئے ان کا اکٹھا ہونا ناگزیر ہے۔ وہ لوگ جن کا پاکستانی محنت کش طبقے پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے وہ ماضی کا قصہ ہیں، بہت جلد پاکستانی محنت کش طبقہ تاریخ کے میدا ن میں جدوجہد کے نئے باب رقم کرتا نظر آئے گا اور یہ طفیلیے حکمران محنت کش طبقے کے ایک وار بھی نہیں سہہ سکتے۔ آج انقلابی قوت کی تعمیر کیلئے لگے بندھے فارمولوں کے بجائے مادی حالات کا درست تجزیہ کرتے ہوئے نئے طریقے اخذ کرنا ہونگے جو مادی حالات سے مطابقت رکھتے ہوں اور ان طریقوں کے تحت جرات کیساتھ میدان عمل میں اتر کر اس گھٹیا سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔
آصف لاشاری کی مفصل لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہواجس میں پاکستان اور دنیا کے سیاسی، سماجی اور معاشی پہلوؤں کے حوالے سے بہت سے سوالات آئے۔ سوالات کے بعد کنٹریبیوشنز کا سلسلہ شروع ہوا جس دوران چنگیز بلوچ (بلوچستان)، مجی پاشا (فیصل آباد)، کریم پرہر (بلوچستان)، پارس جان (کراچی)، رزاق غورزنگ (بلوچستان)، اور آفتاب اشرف (لاہور) نے بحث کو آگے بڑھایا۔ کنٹریبیوشنز کے بعد آصف لاشاری نے سوالات کا جواب دیا اور بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ آج پوری دنیا میں ابھرتی ہوئی تحریکیں ہم سے اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہم انقلابی پارٹی کی تعمیر کی اپنی جدوجہد کو اور تیز کریں۔ ہمارے پاس کھونے کو وقت نہیں ہے۔ ایسے عہد بار بار نہیں آتے۔ ایک نیا سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ انسانیت کو اس بربریت سے ہمیشہ کے لئے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ تاریخ نے یہ ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ڈالی ہے کہ ہم اس انسانیت دشمن سماج کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے مارکسزم کے درست نظریات سے لیس انقلابی پارٹی تعمیر کریں ٹھیک ویسے ہی جیسا کہ آج سے سو سال پہلے روس میں بالشویک پارٹی کو تعمیر کیا گیا تھا۔ ہم بالشویک پارٹی کی انقلابی روایات کے امین ہیں اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم محنت کش طبقے کے لئے وہ اوزار تخلیق کریں جو ایک نئے سماج کی تعمیر کے عمل کو آسان بنا سکے۔
پہلے سیشن کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا اور کھانے کے وقفے کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ دوسرے سیشن کا موضوعِ بحث ٹراٹسکی کا’’نظریۂ انقلابِ مسلسل ‘‘ تھا۔ اس سیشن کو کشمیر سے آمنہ فاروق نے چیئر کیا اور اس پر لیڈ آف ولید خان نے دی۔ ٹراٹسکی کے نظریۂ انقلاب مسلسل پر بات کرتے ہوئے ولید خان نے کہا کہ انسانی سماج نے پوری تاریخ میں ذرائع پیداوار کو بڑھاوا دیتے ہوئے ہی ترقی کی اور قدیم اشتراکی نظام سے آج کے سرمایہ دارانہ نظام تک کا سفر طے کیا۔ مگر یہ سفر کبھی بھی ایک سیدھی لکیر میں نہیں رہا بلکہ مختلف خطوں میں مختلف رفتار اور نوعیت کیساتھ یہ سفر آگے بڑھا۔ جہاں جہاں انقلابات ہوئے وہاں ترقی کی رفتار تیز ہوگئی اوران مخصوص خطوں میں معاشرے کا نظم تبدیل ہو ااورمعاشرتی رشتے تبدیل ہوگئے۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ انقلابات نے یورپ اور امریکہ جیسے خطوں میں ترقی کی رفتار بہت تیز کی اور وہاں ایک نیا اور جدید نظم پیدا کیا جس کی بنیاد پر دو واضح طبقات کا جنم ہوا۔ جن میں ایک بورژوا طبقہ اور دوسرا پرولتاریہ طبقہ شامل تھا۔ اس نظم نے جہاں ان خطوں میں ترقی کی رفتار تیز کی وہیں نامیاتی تضاد کی وجہ سے ان طبقات میں طبقاتی جنگ کی بھی بنیاد رکھی اور طبقاتی لڑائی کو جنم دیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے جدید نظم کی بدولت پرولتاریہ ایک نہایت ہی منظم طبقے کی صورت میں رونما ہوا جو پورے سماج کو چلاتا ہے۔ پرولتاریہ کے اسی جدید نظم کی بدولت وہ جہاں اس سماج کو چلاتا ہے وہیں اسے روک بھی سکتا ہے۔ اسی خاصیت کی بدولت انقلاب میں اس کا کردار کلیدی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ مگر سرمایہ دارانہ نظام میں بھی پرولتاریہ اکیلا نہیں ہوتا بلکہ اسکے ساتھ دیگر سماجی پرتیں بھی موجود ہوتی ہیں جیسے کسان وغیرہ۔ ترقی اور ارتقا کا یہ سفر کرۂ ارض کے مختلف حصوں میں یکساں نہیں ہوا اور دنیا کے ایک بڑے حصے میں سرمایہ دارانہ انقلابات برپا نہیں ہوئے۔ 1904ء میں جب ٹراٹسکی نے نظریۂ انقلاب مسلسل دیا تو اس وقت روس میں سرمایہ دارانہ پیداواری رشتے حاوی تھے مگر جاگیرداری کی باقیات بھی موجود تھیں جس کی بنیادی وجہ وہاں سرمایہ داری کا انقلاب کی صورت میں آنے کے بجائے بیرونی سرمائے کی بدولت آنا تھا۔ اسی وجہ سے وہاں پرولتاریہ کی تعدادکسانوں کی نسبت بہت کم تھی۔ اس صور تحال کی وجہ سے ان تمام پارٹیوں میں جو روس میں انقلاب کی جدوجہد کر رہی تھیں، یہ بحث موجود تھی کہ روس کے انقلاب کی نوعیت کیا ہوگی اور اس کی قیادت کون کرے گا۔ روس میں انقلاب کے حوالے سے منشویکوں، بالشویکوں اور لیون ٹراٹسکی کا تناظر مختلف تھا۔ منشویکوں کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ روس میں ابھی جاگیرداری موجود ہے اس لئے انقلاب کی نوعیت بورژوا جمہوری ہو گی اور اس کی قیادت بورژوازی کرے گی۔ بالشویکوں کا (فروری1917ء تک) کا تناظر یہ تھاکہ روسی بورژوا طبقہ اپنی تاریخی نااہلی کی بدولت اس انقلاب کی قیادت نہیں کر سکتا اور انقلاب کے دوران رد انقلابی کردار ادا کرے گا اور اس بنا پر روس کے انقلاب کی قیادت پرولتاریہ اور کسانوں کا اتحاد کرے گا اور یہ بورژوا جمہوری انقلاب ہوگا۔ جو بعد میں یورپ کے محنت کش طبقے کو متحرک کرے گا اور یورپ میں سوشلسٹ انقلابات کو جنم دیگا جس کے بعد یورپ کی محنت کش حکومت واپس روس میں پیداواری قوتوں کو ترقی دیتے ہوئے روس میں سوشلسٹ تبدیلی کو جنم دے گی۔ جبکہ یہاں ٹراٹسکی کا تناظر یہ تھا کہ روس کا انقلاب جمہوری نعروں سے شروع تو ضرور ہوگا مگر یہ صرف جمہوری مطالبات منوانے کے حد تک ہی نہیں رہے گا بلکہ آگے بڑھتے ہوئے سوشلسٹ مطالبات تک جائیگا اوریہ انقلاب اکیلا روس میں زندہ نہیں رہ سکتا اسے زندہ رہنے کیلئے روس کی سرحدوں کو پھلانگتے ہوئے یورپ میں جانا ہوگا اوراس طرح یہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کا آغاز ہوگالہٰذا انقلاب کا جمہوری مطالبات سے سوشلسٹ مطالبات کی طرف جانا اور ایک ملک سے نکل کر عالمی ہوجانا یہ دو پہلو اس کے مسلسل ہونے کی وجہ ہیں۔ بالآخر 1917ء میں ٹراٹسکی کا یہ تناظر درست ثابت ہوا۔ مگر انقلاب کے انتہائی پسماندگی کے حالات میں تنہا رہ جانے اور یورپ میں انقلابات نہ ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی کا ابھار ہوا اور دنیا کی پہلی مزدور ریاست وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسخ ہوتی گئی۔ سٹالنسٹ بیوروکریسی کے ایک ملک میں سوشلزم کی انتہائی غلط اور غیر سائنسی تھیوری کی وجہ سے جہاں روس کا انقلاب ضائع ہوا وہیں دنیا میں اور بھی بہت سارے انقلابات ضائع ہوئے۔ آج کے عہد میں جب گلوبلائزیشن نے پوری دنیا کو ایک اکائی بنا دیا ہے، ہمیں کچھ نام نہاد انقلابی آج بھی ایک ملک میں سوشلزم کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں جن کے خلاف آج ہمیں ایک نظریاتی لڑائی لڑنا ہوگی اور اور آج کے انقلاب کو ان بے وقوفوں کی بے وقوفی اور کم علمی سے بچاتے ہوئے درست تناظر اور حکمت عملی کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا۔ سوویت کا انہدام اس بات کا ثبوت تھا کہ قومی حدود کے اندر انقلاب زندہ نہیں رہ سکتا۔ سامراجی تسلط میں جکڑے کرۂ ارض کے ایک بڑے حصے کو ٹراٹسکی کے نظریہ مسلسل انقلاب کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ہی اس سامراجی چنگل سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔
ولید خان کی لیڈ آف کے بعد سوالات اور کنٹریبیوشنز کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کریم جمالی (دادو)، عمر ریاض (اسلام آباد)، عبید زبیر (کشمیر)، عدیل زیدی (لاہور)، ظریف رند (کراچی)، یاسر ارشاد (کشمیر)، رزاق غورزنگ( بلوچستان)، فضیل اصغر (ملتان) اور آفتاب اشرف (لاہور) نے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ افریقہ اور ایشیا مشترکہ اور ناہموار ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر یہاں ایک جدید صنعتی سماج تشکیل نہیں دیا جا سکتا اور یہ ٹراٹسکی کا یہ نظریہ اس حوالے سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ کیا ان پسماندہ سرمایہ د ارانہ ممالک میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کیا جا سکتا ہے۔ سامراجی جبر ہو یا قومی سوال ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ان کا حل دے سکتا ہے۔ انقلاب روس کے سو سال مکمل ہونے پر ٹراٹسکی کے ان نظریات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب پوری دنیا میں پھر سے تحریکیں سر اٹھا رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اس لڑائی کو مارکسی بین الاقوامیت کے نظریات پر منظم کیا جائے۔ اس کے بعد ولید خان نے سوالات کی روشنی میں بحث کو سمیٹا۔
پہلے دن کے دوسرے سیشن کے اختتام کے بعد یوتھ کمیشن منعقد ہوا تھا جس میں نوجوانوں میں کام کو زیر بحث لایا گیا۔ اس حوالے سے اس سال میں تمام ریجنز میں پروگریسو یوتھ الائنس کے سٹی کنونشنز کے انعقاد اور بھگت سنگھ کی برسی کی تقریبات پورے پاکستان میں منعقد کرنے کے ٹارگٹس لئے گئے۔ ان تمام پروگرامز کو انقلاب روس کی صد سالہ تقریبات کے بطور منعقد کیا جائے گا۔
دوسرا دن:
دوسرے دن بھی دو سیشنز ہوئے۔ دوسرے دن کے پہلے اور مجموعی طور پر سکول کے تیسرے سیشن کا موضوع ’’مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس ‘‘ تھا۔ اس سیشن کو اسلام آباد سے عمر ریاض نے چیئر کیا اور اس پر لیڈ آف زین العابدین نے دی۔ اس عنوان پر بات کرتے ہوئے زین نے کہا کہ آج سائنس اس حد درجہ ترقی کے باعث یوں نظر آتا ہے کہ فلسفے کی ضرورت ختم ہو کر رہ گئی ہے اور محض سائنس کی مدد سے ہی کائنات اور فطرت کی ساری گتھیاں سلجھائی جا سکتی ہیں۔ فلسفہ اپنا تاریخی کردار ادا کر کے ختم ہو چکا ہے۔ مگر حقیقت میں سائنس کی بنیادوں میںآج بھی فلسفہ ہی کارفرما ہے۔ اس بحث کا مقصد فلسفے بالخصوص مارکسی فلسفے کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالنا ہے۔ آج سائنس جن بنیادوں پر کھڑی ہے اس پر سائنس کو مزید ترقی نہیں دی جا سکتی اور سائنس بھی بحرانوں میں گھری دکھائی دے رہی ہے۔ آج ایک بار پھر سے سائنس میں مذہبی اور تصوف کا رجحان در آیا ہے اور مارکس کے بقول ماضی کی گندگی لوٹ کر واپس آرہی ہے۔ جن اصول و قوانین کو آج کے سائنسدان مطلق سمجھتے ہیں ان کو خود سائنس کے ارتقا کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو کہ جدلیاتی بنیادوں پر ہوا ہے۔ ایک وقت پر جو نظریات اور قوانین درست سمجھے جاتے تھے مگر جیسے جیسے مزید تحقیق کی گئی اور تکنیک اور علم میں ترقی ہوئی تو وہ اپنے الٹ میں تبدیل ہوگئے۔ آج رسمی منطق کی بنیاد پر پیچیدہ مظاہر فطرت کی تشریح سائنس کو مابعدالطبیعاتی دنیا میں لے کر جا رہی ہے۔ ایک لمبے عرصے سے سائنسی میدان میں کوئی نئی ایجادات دیکھنے کو نہیں مل رہیں جس کی ایک وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ سائنس کی بنیاد میں کار فرما رسمی منطق ہے۔ آج تکنیک اور سائنس جتنی ترقی کر چکی ہے رسمی منطق کی بنیاد پر ان پیچیدہ مظاہر کی درست وضاحت نہیں کی جاسکتی۔ اور یہاں ایک نئی منطق کی ضرورت کا سوال پیدا ہوتا ہے اور مارکسسٹوں کی نظر میں یہ کام صرف اور صرف جدلیاتی منطق ہی سر انجام دے سکتی ہے۔ غیر نامیاتی مادے سے نامیاتی مادے کا ارتقا ہو یا کوانٹم مکینکس رسمی منطق کی بنیاد پر ان کی درست تشریح نہیں کی جاسکتی اور جدلیاتی منطق کی بنیاد پر ہی یہ پیچیدہ مظاہر سمجھے جا سکتے ہیں اور سائنس میں ہونے والے نئی تحقیقات اور تجربات مارکسسٹوں کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں۔ انسانی سماج ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا جیسا کہ آج ہمیں نظر آتا ہے اور ذرائع پیداوار کی ترقی کے ساتھ سماج نے ترقی کی ہے۔ انسانی شعور نے بھی سماج کی ترقی کیساتھ ہی ترقی حاصل کی جس میں ہاتھ سے کی جانے والی محنت کا بنیادی کردار تھا۔ مختلف ادوار میں تکنیک اور سائنس کی ترقی کی سطح کے مطابق انسانوں نے مادی دنیا کی تشریح کی۔ مادی ضروریات کی بدولت جیسے جیسے سائنس اور تکنیک نے ترقی کی انسانی شعور نے بھی ساتھ ساتھ ترقی کی اور وقت کیساتھ ساتھ مادی دنیا کی تشریح بھی بدلی۔ سماج کے اسی ارتقا کے دوران ارسطو نے دنیا کی تشریح کرنے کیلئے رسمی منطق کا طریقہ اخذ کیا۔ رسمی منطق نے فلسفے کو بہت ترقی دی اور اس کی بنیاد پر سائنس کو بھی۔ مگر جیسے کہ جدلیات کے مطابق ایک وقت کے بعد تعقلی، غیر تعقلی بن جاتا ہے۔ سائنس کی بے شمار ترقی کی وجہ سے جب معاملات دو جمع دو چار سے آگے بڑھ کر سب اٹامک لیول پر پہنچے تو رسمی منطق وہاں کار فرما عمل کو سمجھنے میں بالکل ناکام ہو گئی کیونکہ رسمی منطق کے مطابق تو ایک چیز یا تو ہے یا پھر نہیں، ایک چیز بیک وقت ہو بھی اور نہ بھی ہو ایسا رسمی منطق کے مطابق ممکن نہیں لہٰذا جب سب اٹامک لیول پر پارٹیکلز کا بیک وقت دو جگہوں پر ہونا دیکھا گیا تو اسے کسی تیسری قوت کا عمل دخل قرار دیا گیا۔ یا تو پھر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ سب کچھ خیال ہی ہے مادہ وجود ہی نہیں رکھتا۔ جو کچھ بھی ہم سوچتے ہیں وہی ہوتا ہے اور کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ اس سوچ کے تحت سائنسی ریسرچز کی گئیں اور غلط نتائج اخذ کیے گئے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ سائنسدان صرف اور صرف حقائق کی بنیاد پر بات کرتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ حقائق اپنا انتخاب خود نہیں کرتے۔ سائنسدان بھی اسی سماج کا حصہ ہیں اور سماج میں رائج الوقت نظریات ان پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح تکنیک کی ترقی کی ضرورت کی بنیاد پر سائنس کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا جیسے جیولوجی، بائیولوجی، کیمسٹری اور فزکس وغیرہ تاکہ دنیا کو اچھی طرح سمجھا جا سکے۔ اسی کے نتیجے میں مخصوص شعبوں جیسے فزکس، کیمسٹری وغیرہ میں بے بہا ریسرچ ہوئی مگر وہ ریسرچ محض اسی شعبے کی حد تک ہی کی گئی اور اسی شعبے کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ہی کی گئی جس کے نتیجے میں اس کا دیگر سائنسز سے تعلق کٹ گیا۔ اور کل کے بجائے جزوی طور پر تمام سائنسز علیحدہ علیحدہ ریسرچ کرتی ہیں اور انکو کل کی صورت میں نہ دیکھنے کی وجہ سے غلط نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج سائنس ایک بحران کی زد میں ہے جو سائنس کو دوبارہ ان پرانی بحثوں میں دھکیل رہا ہے جو عہد قدیم میں ہوا کرتی تھیں جن کا آج کے عہد میں کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ جدلیاتی مادیت ہی وہ فلسفہ ہے جو سائنس کو اس دلدل سے نکال سکتا ہے اور سائنس کو درست سمت عطا کر سکتا ہے۔
زین کی لیڈ آف کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سوالات کے بعد فیصل آباد سے علی شہباز، لاہور سے آفتاب اشرف، کراچی سے پارس جان، فیصل آباد سے مجی پاشا، لاہور سے عدیل زیدی اور کشمیر سے یاسر ارشاد نے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
دوسرے دن کے دوسرے سیشن اور سکول کے مجموعی طور پر چوتھے اور آخری سیشن کا عنوان’’سامراجیت‘‘ تھا۔ اس سیشن کو چیئر فیصل آباد سے مجی پاشا نے کیا جبکہ لیڈ آف رزاق غورزنگ نے دی۔ موضوع پر بات کرتے ہوئے رزاق غورزنگ نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں شرح منافع کے حصول کیلئے پیداوار کی جاتی ہے۔ اور آزاد منڈی ہونے کی وجہ سے اس نظام میں بے شمار پیداوار کی جاتی ہے اور ہر سرمایہ دار کو یہ آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ کھل کر سرمائے کے بل پر انسانی محنت کا استحصال کرے اور اپنے منافع میں اضا فہ کرے۔ اس آزادی کی بدولت بے تحاشا اشیا پیدا ہو جاتی ہیں اور ایک وقت آنے پر انکے لیے ملکی منڈی کم پڑ جاتی ہے۔ نتیجتاً سرمایہ دار نئی منڈیوں کی تلاش شروع کر دیتے ہیں جہاں اس زائد پیداوار کو کھپایا جا سکے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے آغازمیں انسانی سماج کو بہت ترقی ملی۔ نئی صنعتیں لگیں، سائنس اور تکنیک میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، قومی ریاستیں وجود میں آئیں، جمہوریت کا آغاز ہوا، مذہب کو ریاست سے علیحدہ کیا گیااور یہ تمام کام کاروبار کی آزادی کیلئے اور اسکی وجہ سے کیے گئے۔ قومی ریاستوں کے وجود اور نیشنلزم کی بنیادی وجہ ہی سرمایہ داروں کو منڈیوں کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔ اوراس طرح منڈیوں کی تقسیم نے سرمایہ داروں کو اپنی اپنی منڈیوں میں کھل کر مال بیچنے کی سہولت فراہم کی اور بیرونی طاقتوں سے محفوظ کیا۔ یہ آغاز میں ایک ترقی پسندانہ قدم تھا اسکی وجہ سے سرمایہ دار ملکوں میں بہت زیادہ ترقی ہوئی۔ مگر ایک وقت آنے پر جیسے ہی زائد پیداوا ر کے بحران نے جنم لیا تو سرمایہ داروں کو ملکی منڈی سے باہر نکل کر دوسرے ملکوں کی منڈیوں کی ضرورت پڑی جہاں وہ اپنا مال بیچ سکیں۔ لہٰذا برطانیہ کے سرمایہ دار برصغیر، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کا رخ کرنا شروع کرتے ہیں اور ان ممالک کو اپنی کالونیاں بناتے ہیں۔ اسی طرح یورپ کے دیگر ممالک جن میں فرانس اور جرمنی وغیرہ شامل ہیں اور امریکہ وغیرہ میں بھی سرمایہ دارانہ انقلابات کی بدولت بے شمار پیداوار ہو چکی تھی اور زائد پیداوار کے بحران کی وجہ سے ان ممالک کے سرمایہ داروں کو بھی منڈیوں کی شدید ضرورت تھی لہٰذا منڈیوں کی از سر نو تقسیم کے لئے دنیا کو عالمی جنگ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اور سرمایہ داری لینن کے بقول اپنی انتہائی منزل یعنی سامراجیت میں داخل ہوجاتی ہے۔
لینن نے سامراج کے بارے میں کہا تھا کہ سامراجیت سرمایہ داری کی انتہائی منزل ہے۔ یعنی کہ جب سرمایہ ملکی سرحدوں کو توڑ کر عالمی سطح پر پھیلنا شروع کر دیتا ہے تو یہ سرمایہ داری کی آخری منزل ہوتی ہے کیونکہ اب زائد پیداوار کا بحران ملکی نہیں بلکہ عالمی ہو گا کیونکہ سرمایہ اب ملکی سرحدوں کو توڑ کر عالمی کردار اختیار کر چکا ہے۔ اور اب کمپنیاں ایک ملک میں ہی نہیں رہیں بلکہ اب ایک کمپنی کئی ممالک میں موجود ہے اور ایک آج کمپنیاں ملکوں کی معیشتوں سے بڑی ہو گئی ہیں، جنہیں ملٹی نیشنل کمپنیاں کہا جاتا ہے اور سامراجیت کی ایک اہم خاصیت سرمائے کی برآمد بھی ہے۔
اسی طرح سامراج کا کردار بھی مختلف ادوار میں مختلف رہا ہے۔ یعنی کہ آغاز میں سامراج سے مراد دوسرے ممالک پر براہ راست قبضہ ہوتا تھااوراسکے ذریعے لوٹ کھسوٹ کی جاتی تھی۔ جو بعد میں تبدیل ہو کر دوسرے ممالک کی منڈی حاصل کرنا ہو گیا اور دوسرے ممالک میں اپنا مال بیچنے کے لیے قبضہ یا تسلط کیا جانے لگا۔ اسکے بعد سامراج کی جو جدید شکل آج موجود ہے وہ سرمائے کے ذریعے مالیاتی تسلط ہے۔ یعنی کہ دوسرے ممالک کو قرضے دے کر یا تجارت میں برتری حاصل کر کے نا ہموار تجارت کے ذریعے سامراجی تسلط قائم کرنا۔
سرمائے کے اس ارتکاز نے جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں تخلیق کیں اور دنیا کو ایک اکائی بنا دیا وہیں آج زائد پیداوار کے بحران نے سرمایہ دارانہ نظام کے لیے تمام رستے بند کر دیے ہیں۔ لینن نے سامراجیت کے بارے میں کہا تھا کہ یہ سرمایہ داری کی آخری منزل ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسی گلی میں پھنس چکا ہے جہاں سے نکلنے کیلئے پوری دنیا کو تباہ و برباد کرنا ہوگا تاکہ دوبارہ نئی سڑکیں اور عمارتیں بنائی جا سکیں جسکی بدولت دوبارہ طلب پیدا ہو اور معاشی دائرہ چلے یا پھر شعوری طور پرہمیں سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگااور منصوبہ بند معیشت قائم کرنا ہوگی۔
رزاق غورزنگ کی مفصل لیڈ آف کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کراچی سے فارس راج، اسلام آباد سے عمر ریاض، کراچی سے ظریف رند اور لاہور سے راشد خالد نے ابھرتے ہوئے چینی سامراج، امریکی سامراج کی کمزوری، بڑھتے اور پیچیدہ ہوتے سامراجی تضادات، ماضی میں سامراج کے کردار اور شکلیں اور آج ان کی از سر نو تشریح پر بات کی۔ سولات کی روشنی میں رزاق غورزنگ نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ سامراجیت کے بغیر سرمایہ داری کا تصور ہی محال ہے۔ سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینک کر ہی سامراجیت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
سکول کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے پارس جان نے کہا کہ مشکل حالات کے باوجود ایک کامیاب سکول اور کنونشن منعقد کرنا ہماری بڑی کامیابی ہے مگر آنے والے دنوں میں ہمیں اس سے بھی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ہمیں اس کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اس سکول میں جس بلند معیار کی بحثیں کی گئیں ہیں اگر یہ ہمارے عملی کام میں نظر نہ آئیں تو یہ بیکار ہوں گی۔ ہمیں پہلے سے بڑھ کر انقلاب کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انقلابی پارٹی کی تعمیر کوئی آسان کام نہیں ہے مگر تاریخ نے یہ بھاری ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ڈالی ہے اور ہمیں ہر قیمت پر اس سے عہدہ برآ ہونا ہے۔
سکول کا اختتام انٹرنیشنل گا کر کیا گیا۔