مارکسی تعلیم (قسط نمبر 5)

پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
دوسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
تیسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
چوتھی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

سوال۔ مارکسزم کیا ہے؟

جواب۔ کارل مارکس (1883ء-1818ء) کے نظریات کے مجموعے کو مارکس ازم کہا جاتا ہے۔ مارکس نے انیسویں صدی کے تین بڑے نظریاتی رجحانات کو آگے بڑھاتے ہوئے نقطہ عروج تک پہنچایا۔ کلاسیکی جرمن فلسفہ‘ برطانوی سیاسی معاشیات اورتاریخی مادیت۔ اس کے مخالفین بھی اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ مارکس کے انتہائی ہم آہنگ اور جامع نظریات ہی بحیثیت مجموعی جدلیاتی مادیت اور سائنسی سوشلزم کی تشکیل کرتے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک میں محنت کشوں کی تحریک کے نظریات اور پروگرام ہیں۔ یہی سوشلسٹ انقلاب اور کمیونسٹ معاشرے کے حصول کی نظریاتی بنیادوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

سوال۔ مارکس ازم، لینن ازم اور ٹراٹسکی ازم کیا ہیں؟

جواب۔ یہ اصطلاح عام طور پر انقلابی مارکسسٹوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے (ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ موجودہ نظام کی جگہ ایک نیا نظام نافذ کرنا ضروری ہے) اس کے برعکس اصلاح پسند یہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام کو رحم دل اور شریف النفس بنایا جا سکتا ہے جو ظاہر ہے کہ ناممکن ہے۔ لینن ازم حقیقتاً مارکس کے تصورات کے سامراجی عہد (یعنی مالیاتی سرمائے اور اجارہ داریوں کے غلبے اور نو آبادیاتی دنیا پر بڑی طاقتوں کے مکمل تسلط کا دور) تک توسیع کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

لیکن مارکس ازم یا لینن ازم کے حوالے سے ابھی تک کچھ پراگندگی پائی جاتی ہے۔ کچھ لوگ سٹالن اور ماؤ کے جبکہ دوسرے لوگ ٹراٹسکی کے پیروکار ہیں۔ سٹالن اور ماؤ مارکسسٹ نہیں تھے بلکہ درحقیقت وہ مارکس ازم کے نظریات کے مسخ شدہ اور زوال پذیر رجحانات کی نمائندگی کرتے تھے کیونکہ ان کے نظام میں ریاست مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کی بنیاد پر قائم نہیں تھی بلکہ بیورو کریٹوں کے آمرانہ غلبے کی بنیادپر قائم تھی۔ جو مزدور ریاست کے بدن سے طفیل خوروں کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔

ٹراٹسکی ازم (جس نے 1924ء میں لینن کی وفات کے بعد سٹالن کی رجعتی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والوں کی راہنمائی کی تھی) درحقیقت مارکس ازم اور لینن ازم کا ہی تسلسل ہے لیکن بہت سے لوگ ٹراٹسکی ازم کی اصطلاح خود کو سٹالنسٹوں سے الگ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے مارکسسٹ، ٹراٹسکی ازم کو مارکس ازم اور لینن ازم کا تسلسل سمجھنے کے باوجود خود کو مارکسسٹ لینن اسٹ کہلوانے پر اکتفاء کرتے ہیں کیونکہ اس کے پیروکاروں میں سے بہت سوں نے ایسی جنونی اور الٹرالیفٹ پالیسیاں اپنائی ہیں کہ ان سے ٹراٹسکی ازم کا نام بدنام ہوا ہے۔ ٹراٹسکی نے مارکسسٹ نظریے کے لیے جو خدمات سر انجام دی ہیں ان میں سے دو انتہائی اہم ہیں۔ اول‘ سٹالن ازم اور افسر شاہانہ مزدور ریاست کی نوعیت کا سائنسی تجزیہ اور دوئم‘ انقلاب مسلسل کا نظریہ جو نوآبادیاتی دنیا کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

سوال۔ سوشلزم کے تحت پیداوار کو سماجی کیسے بنایا جائے گا اور دولت کی تقسیم کس طرح کی جائے گی؟

جواب۔ جدید پیداوار کی نوعیت پہلے ہی سماجی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی بھی تنہا آدمی تمام کی تمام کار یا سارا کمپیوٹر نہیں بنا سکتا۔ جدید معیشت اس قدر پیچیدہ ہے کہ کمپیوٹر جیسی چیز بنانے کے لیے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی کاوشوں کی ضرورت ہوتی ہے، خام مال مہیا کرنے والوں سے لے کر ہارڈویئر ڈیزائن کرنے والوں تک اور اسے اسمبل کرنے والوں سے لے کر آپ کے گھر کے دروازے تک پہنچانے والوں تک۔ یہ ایک اجتماعی عمل ہے۔ تاہم ان تمام محنت کشوں کی تخلیق کردہ دولت منصفانہ طور پر تقسیم نہیں ہوتی۔ ارب پتی سرمایہ دار اور بڑی بڑی کارپوریشنیں اس کا بہت بڑا حصہ خود ہضم کر جاتی ہیں۔ یہ جدیدمحنت کش طبقہ ہی ہے جو روزمرہ بنیادوں پر فیکٹریاں اور کاروبار چلاتا ہے۔

محنت کش ہی اجتماعی طور پر سماج کی دولت کی تخلیق کرتے ہیں۔ تاہم انہیں اپنی کاوشوں کا حقیقی صلہ نہیں ملتا۔ یہ درست ہے کہ انہیں اجرتوں میں اضافے اور بونسوں کی شکل میں کچھ بچے کھچے ٹکڑے مل جاتے ہیں لیکن سرمایہ دار خود جو ”بونس“ کھاتے ہیں اور منافعے بٹورتے ہیں اس کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دولت کو ان لوگوں میں تقسیم کیا جائے جو درحقیقت اس دولت کو تخلیق کرتے ہیں۔

سوال۔ بیگانگی کیا ہے؟

جواب۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بیگانگی کی بنیادی وجہ محنت کش اور اس کی محنت سے تخلیق ہونے والی پیداوار کے درمیان لاتعلقی اور سرمایہ دارانہ استحصال پر پڑا ہوا پردہ ہے جو اجرتی محنت اور سرمائے کے درمیان حقیقی رشتوں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ محنت کش جو پیداوار اور اس کی قدر تخلیق کرنے میں محنت صرف کرتا ہے اس کا صلہ اس کو نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہی ہاتھ سے بنائی ہوئی بہت سی چیزوں سے محروم رہتا ہے۔ اس سے محنت اور پیداوار کے درمیان بیگانگی جنم لیتی ہے، جس کا شکار محنت کش طبقہ اور پورا معاشرہ شکار بنتا ہے۔

اس پوشیدہ استحصال سے اشیاء سے بے جا لگاؤ کا مرض جنم لیتا ہے جس کے باعث اشیاء جانداروں کی خصوصیات اپنا لیتی ہیں اور انسان کمتر ہو کر ’چیزوں‘ کی سطح تک آ جاتے ہیں۔ یہ مسخ شدہ اور پراسرار (بیگانہ) رشتے انسانی شعور کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور پھر یہ فطری اور ناگزیر سمجھے جانے لگتے ہیں۔ اس طرح انگریزی زبان میں محنت کشوں کو ’ہاتھ‘ کہا جاتا ہے اور ہم اکثر حوالہ دیتے ہیں کہ فلاں آدمی کی ’قدر و قیمت ایک ارب ڈالر ہے‘۔ لیکن اس بیگانگی کی بنیاد پیداواری رشتوں یا قانونی زبان میں کہا جائے تو ملکیتی رشتوں پر قائم ہے۔

Comments are closed.