پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سوال۔ وہ کیا حالات تھے کہ صنعتی انقلاب رونما ہونے کے باعث معاشرہ سرمایہ دار اور محنت کش طبقات میں بٹ گیا؟
جواب: اول، مشینوں نے جب صنعت میں پیداواری عمل کی جگہ لی تو اشیاء کی قیمتیں کم سے کم ہونا شروع ہوئیں۔ جس کے باعث دستکار یا ہاتھ سے بنائی جانے والی اشیاء کا نظام مٹ گیا۔ اس طرح نیم بربریت والے ممالک جو تاریخی ارتقاء سے بیگانہ تھے اور جن کا معاشی دارومدار اس وقت مینوفیکچرنگ پر تھا اپنی تنہائی سے جبراً باہر نکالے گئے۔ انہوں نے انگریزوں کی تیار شدہ اشیاء جو نسبتاً سستی تھیں، کو مارکیٹ میں آنے دیا اور اپنے دستکاروں کو تباہ کر دیا۔ وہ ممالک جن میں ہزاروں سال سے کوئی ترقی نہیں ہوئی تھی نئے انقلاب اور تبدیلی کے عمل کی زد میں آگئے۔ انڈیا اور چین میں بھی یہ تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انگلینڈ میں تیار ہونے والی ایک ایک مشین نے ہزاروں دستکاروں اور مینوفیکچرر کی جگہ لے لی اور ان کی مارکیٹ چھین لی۔ صنعت کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ سے کرہ ارض پر آباد تمام لوگوں کے ایک دوسرے سے روابط استوار ہوئے اور بتدریج تمام چھوٹی اور بڑی منڈیاں ایک بین الاقوامی منڈی میں بدل گئیں۔ صنعتی انقلاب کی بدولت ترقی اور تہذیب کے نئے دروازے کھل گئے۔ ترقی یافتہ اور قدرے بلند تہذیب یافتہ ممالک سے بہت کچھ کم ترقی یافتہ اور پسماندہ تہذیب کے حامل ممالک میں منتقل ہوا۔ اس سے یہ بات یقینی ہو گئی کہ ترقی یافتہ ممالک میں جو کچھ بھی ہوگا اس کے اثرات تمام ممالک پر مرتب ہونگے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر انگلینڈ یا فرانس کے محنت کش انقلاب برپا کرتے ہیں تو اس کا براہ راست اثر دنیا کے دوسرے ممالک پر بھی پڑے گا۔
دوئم، وسیع پیمانے پر صنعتی نظام نے مینوفیکچرنگ کی جگہ لی تو صنعتی انقلاب نے سرمایہ داروں کو جنم دیا اور ان کی دولت اور طاقت کو انتہا تک پہنچا دیا۔ یہاں تک کہ انہیں ملک کے اولین مراعات یافتہ طبقے میں بدل دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرمایہ دار طبقے نے سیاسی طاقت اور اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اشرافیہ اور جاگیر داروں کو حکمرانی سے محروم کردیا اور ان کی تمام طاقت اور اداروں کو مسمار کر دیا۔ ان سے زمینوں سمیت دیگر مراعات چھین لیں۔ گھریلو صنعت اور دستکار کو ان کے استحقاق سے محروم کر کے انہیں تباہ کر دیا۔ اور ان کی جگہ وسیع و عریض صنعتی نظام کو بروئے کار لاتے ہوئے آزادانہ مقابلے کی فضا کو پروان چڑھایا۔ یہ ایک ایسی کیفیت تھی کہ سماج کے ہر فرد کو کسی نہ کسی طرح اس نظام یا صنعتی عمل کا حصہ بننا پڑا اور ایسے عوامل کو جو سرمائے کے نئے نظام میں رکاوٹ کا باعث تھے نیست و نابود کر دیا گیا۔ آزاد مقابلے کے رجحان میں اس بات کا سرعام اعلان کیا گیا کہ سماج کے تمام افراد اس لئے برابر نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس سرمایہ برابر نہیں ہے اور یوں زیادہ سرمائے کے حامل افراد سرمایہ دارانہ سماج کا اعلیٰ طبقہ بن گئے۔ سرمایہ داری نظام میں صنعت کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ اور مقابلے کا رجحان اس لئے ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ وہ واحد سماجی کیفیت یا حالت ہوتی ہے جس میں صنعت سازی کا وسیع تر عمل اپنی جگہ بناتا ہے۔ گلڈ ماسٹر اور جاگیری امراء کی سماجی طاقت و حیثیت کو معدوم کرنے کے بعد سرمایہ دار طبقے نے ان کی سیاسی طاقت کو ختم کر دیا۔ سماج میں اولین مقام حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سیاست میں بھی اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ صنعت اور آزادانہ مقابلے کی شکل کو قانونی حیثیت دے دی اور بعد ازاں تمام ملکوں اور ریاستوں کے آئین کا جزو لاینفک بنا دیا گیا۔ سیاسی عمل میں انتخابات اور نمائندگی کا طریقہ کار متعارف کرایا گیا۔ جو سرمایہ دارانہ مساوات پر مبنی تھا۔ یورپ میں اس نے آئینی بادشاہت کی شکل اختیار کی جس میں ووٹ ڈالنے کا حق صرف اس کو تھا جس کے پاس سرمایہ ہوتا۔ گویا سرمایہ دار ہی ووٹ ڈالنے اور انتخابات میں حصہ لینے کا اہل تھا۔ یہ سرمایہ دار مقابرین کو منتخب کرتے ہو ئے قانون سازی اور ٹیکس کے عمل کی تشکیل کرتے ہوئے ایک سرمایہ دارانہ حکومت کا قیام عمل میں لاتے تھے۔
سوئم، تمام جگہوں پر برپا ہونے والے صنعتی انقلابات نے محنت کش طبقے کو ایک ہی طرح پروان چڑھایا۔ بالکل اسی طرح جیسے اس نے سرمایہ دار طبقے کو ارتقائی عمل کے دوران پروان چڑھایا تھا۔ مزدور طبقہ بھی اپنی تعداد کے اعتبار سے اسی نسبت سے بڑھتا گیا۔ کیونکہ سرمایہ کاری ہی محنت کشوں کی تعداد میں اضافہ کر سکتی تھی۔ لہٰذا جوں جوں سرمایہ اور صنعت کا عمل بڑھتا گیا محنت کش طبقے کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اسی طرح سرمایہ دار اور محنت کش بڑے شہروں میں منتقل ہوتے گئے جہاں صنعتیں زیادہ سے زیادہ منافع بخش ہوتی ہیں اور یوں عوام کی بہت بڑی تعداد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہے۔ اسی عرصے میں ایک ہی صنعت، ایک ہی جگہ رہنے سے محنت کشوں کو اپنی اجتماعی طاقت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ مزید برآں یہ طریقہ جہاں زیادہ ترقی کرتا ہے وہاں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی جگہ مشینوں سے کام لینے کا عمل تیز تر ہوتا ہے۔ وسیع پیمانے پر صنعتی پھیلاؤ وقوع پذیر تو ہوتا ہے لیکن محنت کشوں کی اجرتیں کم سے کم ہوتی جاتی ہیں۔ ان کے شب و روز کٹھن اور بیروزگاری پھیل جاتی ہے اور حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں جوکہ محنت کش طبقے کیلئے ناقابل برداشت بن جاتے ہیں۔ تب ایک طرف مزدور طبقے کی بے اطمینانی اور دوسری طرف اس کی بڑھتی ہوئی طاقت اسے اپنے حالات بدلنے پر مجبور اور آمادہ کرتی ہے اور وہ مزدور انقلاب کیلئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
سوال۔ صنعتی انقلاب کے مزید کیا اثرات رونما ہوئے؟
جواب: بھاپ کے انجن کی ایجاد اور دوسری مشینیں وسیع پیمانے پر جنم لینے والے صنعتی نظام کا باعث آغاز بنیں اور محدود وقت میں کم لاگت پر صنعتی پیداوار میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور اس پیداوار کے باعث وسیع پیمانے پر صنعتی نظام اور آزادانہ مقابلہ کی روش نے انتہائی حدوں کو چھوا۔ سرمایہ داروں کی بہت بڑی تعداد صنعت سازی کے عمل میں کود آئی۔ پیداواری عمل میں تیزی کے باعث ضرورت سے زیادہ اشیاء مارکیٹ میں آگئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تیار شدہ چیزیں مارکیٹ میں بک نہیں سکیں۔ ایک نام نہاد تجارتی بحران پھوٹ پڑا۔ جس کی بدولت فیکٹریاں بند ہو گئیں ان کے مالک دیوالیہ ہوگئے اور محنت کشوں سے روٹی کا نوالہ چھن گیا۔ ہر طرف کساد بازاری اور بدحالی چھا گئی۔
کچھ عرصے بعد فاضل پیداوار فروخت کے قابل ہوگئی۔ کارخانے دوبارہ چلنا شروع ہو گئے۔ اجرتوں میں اضافہ ہوا اور پھر بتدریج کاروبار پہلے کی نسبت بہتر ہو گیا۔ تاہم یہ صورتحال زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہی اور پھر اشیا ضرورت فاضل پیداوار کی شکل میں مارکیٹ میں آگئیں اور ایک نیا بحران شروع ہو گیا جس طرح پہلے آیا تھا۔ 19 ویں صدی کے آغاز سے لے کر آج تک سرمایہ داری اپنے عروج و زوال یعنی بحرانی کیفیت سے گزرتی رہی اور تقریباً ہر 5 سے7 سال کے وقفے کے بعد یہ بحران تواتر کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں جس کے باعث محنت کشوں کی زندگیاں اجیرن بنتی رہیں۔ اس صورتحال میں پورے نظام کی بقاء کو انقلابات کے عمومی رجحانات سے خطرات لاحق رہتے ہیں۔