فرانز فینن کی تصنیف ”افتادگانِ خاک“ پر مارکسی تنقید

|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: انعم خان|

فرانز فینن کی تحریر کردہ ’افتادگانِ خاک‘ خاص کر یونیورسٹیوں میں ایک مشہور اور مؤثر تصنیف ہے۔ یہ بار ہا دیکھا گیا ہے کہ فینن اور اس کے نظریات کو نو آبادیاتی جدوجہد کے سوال پر مارکسزم کی ”تصحیح“ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات تو ایسے لوگوں کی جانب سے جنہوں نے کبھی مارکس کو پڑھا ہے نہ ہی فینن کو۔

لیکن اگر ہم صحیح معنوں میں فینن کے نظریات اور مارکسزم سے ان کا تعلق سمجھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں لازماً سمجھنا ہو گا کہ افتادگانِ خاک، کن حالات میں لکھی گئی تھی اور فینن کی تصنیف میں بیان کردہ تناظر کا موازنہ بعد میں جنم لینے والے حالات و واقعات سے کرنا ہو گا اور اس طریقہ کار پر مبنی مطالعے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ افتادگانِ خاک میں چند ایک بہت دلچسپ بصیرتیں اور تنبیہات موجود ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انقلابی حکمتِ عملی کے حوالے سے کئی ایسے نکات شامل ہیں جو کہ غلط ہیں اور یہ انقلابیوں کے لیے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ فراہم نہیں کرتے۔

ابتدائی اثرات

فرانز فینن کا جنم 1925ء میں مارٹینیک میں ہوا جو کہ آج بھی فرانس کی ایک ماتحت کالونی ہے۔ فینن کا جنم ایک مڈل کلاس گھرانے میں ہوا جس کے سبب اسے مناسب تعلیم حاصل کرنے کا موقع میسر آیا۔ اس نے ایک نجی سیکینڈری اسکول سے تعلیم حاصل کی جہاں اسے فرانسیسی ریپبلک کے آزادی، برابری، بھائی چارے پر مشتمل اقدار کی تربیت دی گئی، اس نے کلاسیکل فرانسیسی ادب، فرانس کی روشن خیال تحریک کے مصنفین اور فرانسیسی انقلاب کو پڑھا۔ اسی مواد نے اس کے ابتدائی خیالات کو ترتیب دیا۔ فینن اپنے ہائی اسکول کے استاد ایمے سیزائر سے بھی متاثر تھا جو اپنے عہد کے دیگر سیاہ فام دانشوروں کی طرح کیمونسٹ پارٹی کا حصہ بن گیا تھا۔

نازی جرمنی 1940ء میں فرانس پر قابض ہو گیا اور اس کے ماتحت موجود نو آبادیات دو حصوں میں تقسیم ہو گئیں، ایک طرف تو وہ علاقے تھے جو نازیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ’ویچی‘ حکومت کی حمایت کر رہے تھے جس کی سربراہی مارشل پٹین کر رہا تھا اور دوسری جانب وہ علاقے تھے جو ’آزاد فرانس‘ کی حمایت کر رہے تھے، جس کی قیادت ڈی گال کر رہا تھا۔ 1943ء میں سترہ سال کی عمر میں فینن ’آزاد فرانس‘ کی فوجی قوت کا حصہ بننے کی ناکام کوشش کے طور پر ڈومینیکا فرار ہو گیا، 1944ء میں بحر اوقیانوس پار کر کے وہ مراکش پہنچا اور بعد میں ڈی گال کی فوج کا حصہ بننے کے لیے الجیریا چلا گیا۔

فوج میں اپنے تجربات کی روشنی میں جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ فرانسیسی ریپبلک کے متعلق بطور ایک روشن خیال، جمہوریت اور برابری کے اقدار پر مبنی ملک کے اس کا مثالی تصور حقیقت سے میل نہیں کھاتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ کس طرح خود فرانسیسی فوج کی صفوں میں نسل پرستی، تفریق اور تعصبات موجود تھے۔ فوجیوں کو نسلی بنیادوں پر مختلف زمروں اور یونٹس میں تقسیم کیا جاتا تھا۔

جنگ کے بعد وہ مارٹینیک واپس آ گیا۔ 1945ء میں اس نے ایمے سیزائر کو فرانسیسی پارلیمان کا ایک کیمونسٹ رکن بنانے کی مہم میں حصہ لیا۔

نفسیات کی تعلیم

فینن، نفسیات کی تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے 1946ء میں فرانس چلا گیا۔ اس کی کتاب ’سیاہ جلد، سفید مکھوٹے‘ در اصل اس کی ڈگری کے تھیسس کے طور پیش کی گئی تھی۔ جہاں بطور تھیسس یہ رد کر دی گئی اور پھر الگ سے اسے ایک کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا۔ بہت سے لوگوں کی جانب سے اسے ایسے پڑھا جاتا ہے جیسے یہ کتاب کسی سیاسی نظریے پر مبنی کام ہو۔ در حقیقت، یہ نو آبادیاتی غلامی کا شکار لوگوں اور ان کے نوآبادکار حکمرانوں کے اذہان پر نسل پرستی کے نفسیاتی اثرات کا تجزیہ کرنے کی ایک کاوش ہے۔ اسی وجہ یہ پوسٹ ماڈرن علماء کے حلقوں میں بڑی پسندیدہ ہے، جنہیں ہر وہ چیز اچھی لگتی ہے جو مشکل اور ذہن سے متعلق ہو۔

یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ فینن کا نقطہ نظر ”ذہن کو نو آبادیاتی ’سوچ‘ سے آزاد کرنے“ (decolonise the mind) کی ضرورت سے جڑا ہے۔ در حقیقت، اگر آپ وہ پڑھیں جو فینن نے واقعی لکھا ہے، جس میں وہ دلیل دیتا ہے کہ لوگ براہ راست انقلابی عمل کے ذریعے ہی تبدیل ہوتے ہیں اور نو آبادیاتی نظام کے خلاف ایک پرُتشدد انقلابی تحریک ہی نو آبادیاتی غلامی کے شکار لوگوں کو تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ بات بالکل اس کے برعکس ہے جو آج کے مابعد الجدیت یا ’مابعد نو آبادیات‘ پسند فرما رہے ہیں۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے فرانس کے شہر سینٹ اوبان کے نفسیات کے اسپتال میں کام کیا۔ وہاں یہ ادارے کے ڈائریکٹر فرانسسک ٹسکولس کا قریبی دوست اور معاون بن گیا جو ہسپانوی انقلاب کے دوران کیمونسٹ پارٹی POUM کا ممبر رہ چکا تھا اور فرانس میں جلا وطن کر دیا گیا تھا۔

ٹسکولس نے دلیل دی کہ نفسیات کے مرض کے شکار کسی فرد کو [سماج سے] الگ تھگ یا محض اسے ذہن کے کیمیائی یا نفسیاتی عوامل کی بنیاد پر ہی نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اسے ایک سماجی فرد کی حیثیت سے بھی دیکھا جانا چاہیے، نہ صرف مرض کی تشخیص بلکہ علاج کے لیے بھی مریض کے ماحول اور اس کے ماضی کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جانا چاہیے۔ اس نقطہِ نظر نے فینن پر گہرے اثرات مرتب کیے، جس نے علمِ نفسیات کے میدان میں حاوی اس نسل پرستانہ نقطہ نظر کو چیلنج کر دیا جو کہ وہاں موجود نام نہاد ”نارتھ افریقن سنڈروم“ (سیاہ فام افراد سے تعصب پر مبنی ایک نام نہاد ذہنی مرض) کی صورت میں پایا جاتا تھا۔

فینن نے 1953ء میں الجیریا کے شہر بلیدہ جوآنویلی کے امراض ِنفسیات کے اسپتال کے ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالا۔ یہ کوئی سیاسی فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس کی بنیاد یہ حقیقت تھی کہ اسے ڈائریکٹر کا یہ عہدہ فرانس کے کسی شہر کی نسبت الجیریا میں آسانی سے مل سکتا تھا جو کہ اس وقت تک قانونی طور پر فرانس کی کوئی ماتحت کالونی نہیں بلکہ اس کا باقاعدہ حصہ تصورکیا جاتا تھا۔

الجیریا کی جنگ

1945ء میں فرانس کی آزادی کے ساتھ ہی قومی و جمہوری حقوق کے حصول کے لیے پورے الجیریا میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ ان مظاہروں پر بدترین تشدد ہوا، خاص کر سطیف، قالمہ اور خراطہ میں جہاں ہزاروں بلکہ لاکھوں الجیرین باسیوں کا فرانسیسی فوج اور مسلح آباد کاروں نے قتل عام کیا۔

شرمناک امر یہ ہے کہ الجیریا کے احتجاجی مظاہرین کو ”غنڈے، بدمعاش“ اور ”فاشسٹ“ گردانتے ہوئے فرانس اور الجیریا دونوں ممالک کی کیمونسٹ پارٹیاں فرانسیسی ریاست کے ساتھ کھڑیں تھیں۔ فرانس کی کیمونسٹ پارٹی کا ممبر ہوا بازی کا وزیر تھا جو کہ قومی احتجاجوں پر فضائی بمباری کرنے کا ذمہ دار تھا اور 1956ء تک فرانس کی کیمونسٹ پارٹی نے فرانسیسی حکومت کو الجیریا کے معاملے پر ”خصوصی اختیارات“ فراہم کر رکھے تھے۔ اس امر کے سبب سٹالنسٹ نظریات کی حامل ’کیمونسٹ پارٹیوں‘ اور الجیریا کی تحریکِ آزادی کے مابین کسی بھی نوعیت کا تعلق مستقل طور پر کٹ گیا۔

نو آبادیاتی حکومت کے تھپیڑوں کے سبب خود آزادی کی تحریک ہی تشدد کے سوال پر تقسیم ہو گئی اور آخر کار زیادہ لڑاکا پرتیں ’محاذ برائے قومی آزادی‘ (FLN) کا حصہ بن گئیں۔ یکم نومبر 1954ء کو FLN نے فرانسیسی نو آبادیاتی انفراسٹرکچر پر حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جو کہ الجیریا کی جنگ کے آغاز کا سبب بنا۔

1955ء میں فینن اپنے کچھ دوستوں اور اسپتال میں جان پہچان کے لوگوں کے ذریعے FLN کا حصہ بنا۔ ابتداء میں اس کا کردار FLN کے گوریلوں کو طبی سہولت اور اسپتال میں محفوظ پناہ فراہم کرنے کا تھا، لیکن جلد ہی صورتحال تبدیل ہو گئی۔ 1956ء میں اس نے بطور ڈاکٹر اور اسپتال ڈائریکٹر کے استعفیٰ دیا، فرانس واپس گیا اور پھر وہاں سے تیونس چلا گیا جو کہ FLN کی ایک غیر ملکی آماجگاہ تھا۔

پہلے سے ہی ایک نامور دانشور ہونے کے سبب وہ تیونس میں FLN کے اخبار ’المجاہد‘ کے مدیرین میں شامل ہو گیا جہاں اس نے انفرادی اور مشترکہ طور پر کئی اہم مضامین تحریر کیے جو کہ بے نام شائع ہوتے تھے۔ اسے گھانا میں جمہوری الجیریا کی عبوری حکومت GPRA [ملک سے باہر اعلان کردہ] کا سفیر بھی مقرر کیا گیا۔ اس عہدے کے سبب اسے کئی افریقی ممالک کی کانفرنسوں میں جانے کا موقع ملا جہاں اسے ان نئے آزاد ہوئے ممالک کی صورتحال کا براہ راست جائزہ لینے کا موقع میسر آیا۔

1960ء کے اواخر میں اس میں خون کے کینسر کی تشخیص ہوئی اور اسے بتایا گیا کہ اس کے پاس زندگی کے چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں۔ 1961ء میں 36 سال کی عمر میں علاج کی ناکام کوششوں کے بعد وہ امریکہ میں وفات پا گیا۔

1961ء کے موسمِ بہار اور گرما کے درمیان ان حالات میں افتادگانِ خاک لکھی گئی تھی۔ فینن جانتا تھا کہ وہ مرنے والا ہے اور اس سے پہلے ہی وہ افریقہ میں مشاہدہ کیے گئے حالات، الجیریا کے انقلاب میں اس کا تجربہ اور اس سے ملتی جلتی تحریکوں کے لیے اِس تحریک سے اخذ کردہ نتائج پر مبنی اپنے حتمی خیالات کو تحریری شکل دینا چاہتا تھا۔

در حقیقت یہ کتاب خود لکھی نہیں گئی تھی، بلکہ بول کر تحریر کروائی گئی تھی اور یہ بات اس کتاب کی بنت کے انداز میں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ اس میں زیادہ حوالہ جات یا اقتباسات موجود نہیں ہیں۔ یہ ایک مرتے ہوئے انسان کی خام انداز میں کی گئی آخری تقریر ہے جو اس وقت بے چین اور غصے میں ہے اور جو چیزیں اسے بہت پریشان کرتی ہیں وہ ان کے بارے میں لکھت میں کچھ چھوڑ کر جانا چاہتا ہے۔ کتاب کے اسی خام انداز اور طاقتور زبان نے ہی اُس وقت کے دیگر انقلابیوں کو بہت متاثر کیا تھا اور یہ آج تک دنیا بھر کی تحریکوں کو متاثر کر رہی ہے۔ لیکن کسی بھی انقلابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ فینن کی کتاب میں موجود درست چیزوں کو غلط سے الگ کرے۔

عالمگیریت

کتاب کا عنوان اصل میں فرانسیسی زبان میں تحریر کردہ گیت ’انٹرنیشل‘ [مزدورں کا عالمی ترانہ] کے مصرے سے مستعار لیا گیا ہے (Debout les damnés de la terre)۔ فینن نے بہرحال یہ عنوان براہ راست انٹرنیشنل (گیت) سے نہیں بلکہ ہیٹی کے ایک شاعر جکوس رومان کی نظم ’Sales nègres‘ [بد حال سیاہ فام] سے مستعار لیا تھا جو کہ ہیٹی کی کیمونسٹ پارٹی کا بانی بھی تھا۔ 1945ء میں لکھی گئی نظم ’بدحال سیاہ فام‘ ترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ نو آبادیاتی ممالک کے لوگوں کی بغاوت کے متعلق ہے اور اس میں انٹرنیشنل کے بول عوام کو انقلاب کے لیے پکارنے کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں تاکہ وہ بنکاروں اور سرمایہ داروں کی دنیا کا خاتمہ کریں؛

بہت دیر ہو جائے گی
کیونکہ ڈھول کی تھاپ بھی مزدورں کے عالمی ترانے کی دُھن سیکھ لے گی
کیونکہ ہم اپنے دن کا بھی انتخاب کر چکے ہوں گے
ناپاک سیاہ فاموں کا دن
ناپاک امریکی سیاہ فاموں
ناپاک ہندوستانیوں
ناپاک انڈو چائنیز
ناپاک عربوں
ناپاک ملائی
ناپاک محنت کش
ناپاک یہودی
اور ہم یہاں کھڑے ہیں
دھرتی کے سبھی دھتکارے ہوئے لوگ
تمہاری بیرکوں پر حملہ کرنے کو آگے بڑھتے ہوئے
تمہارے بینکوں پر
جنگل کی آگ کی طرح مرگ کی مشعلیں لیے
خاتمہ کرنے کے لیے
ایک ہی دفعہ میں
اور
سبھی کے لیے
اس دنیا کے ساتھ
جوکہ سیاہ فاموں کی دنیا ہے
ناپاک سیاہ فاموں کی دنیا

فینن نے نو آبادیاتی جبر کا شکار عوام اور سامراجی ممالک کے محنت کشوں کی جدوجہد کے تعلق کو بھی اپنا موضوع بنایا تھا۔ فینن نے، بیشتر مابعد نو آبادیات پسند نظریہ دانوں کی دلیل کے برعکس، یہ نہیں کہا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کا محنت کش طبقہ انقلابی کردار ادا نہیں کرے گا۔ اس نے شدید گلہ کیا ہے فرانس کا بایاں بازو، جمہوریت پسند اور خاص کر سوشلسٹ و کیمونسٹ پارٹیاں، الجیریا کی آزادی کی تحریک کی حمایت کرنے کی اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہیں، مثال کے طور پر اس کے ”فرانسیسی دانشور، جمہوریت پسند اور الجیریا کا انقلاب“ کے عنوان سے تحریر کردہ مشہورِ زمانہ خط (جو کہ تین مضامین کی صورت میں المجاہد جریدے میں 1، 15، 30 دسمبر 1957ء کو شائع ہوئے تھے) میں وہ لکھتا ہے؛

”سامراجی ممالک کے دانشوروں اور جمہوری عناصر کا یہ سب سے پہلا فرض بنتا ہے کہ وہ سامراجی تسلط کے شکار نو آبادیاتی ممالک کے لوگوں کی امنگوں کی غیر مشروط حمایت کریں۔ یہ رویہ انتہائی اہم نظریاتی نکات پر انحصارکرتا ہے: سامراجی ملک کے محنت کش طبقے اور سامراجی طور پر تاراج و مفتوح کیے گئے ملک کی مجموعی آبادی کے مابین اجتماعی مفادات کا جوڑ۔“

اس کھلے خط کا اختتام فرانسیسی بائیں بازو سے ایک واضح التجا کے طور پر ہوتا ہے جو فرانسیسی عوام کے حالات ِ زندگی اور جمہوری حقوق کی جدوجہد کو الجیریا کی عوام کی قومی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ جوڑتا ہے؛

”ایف ایل این (FLN) بذات ِخود فرانسیسی بائیں بازو اور فرانسیسی جمہوریت پسندوں سے مخاطب ہے اور ان سے فرانسیسی عوام کی جانب سے بنیادی ضروریاتِ زندگی کے دام، نئے عائد ہونے والے ٹیکسوں، فرانس میں جمہوری آزادیوں پر عائد ہونی والی پابندیوں کے خلاف ہونے والی ہر ہڑتال کی حوصلہ افزائی کرنے کا مطالبہ کرتی ہے، جو کہ براہ راست الجیریا کی جنگ کا نتیجہ ہیں۔ FLN فرانسیسی بائیں بازو سے اپیل کرتی ہے کہ وہ معلومات کو پھیلانے کے عمل کو مضبوط کرے اور فرانسیسی عوام کو الجیریا کے عوام کی جدوجہد کی خصوصیات، اس جدوجہد کو زندگی بخشنے والے اصولوں اور اس انقلاب کے مقاصد کی وضاحت کا عمل جاری رکھے۔ FLN ان فرانسیسیوں کو خراج ِ تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے الجیریا کی عوام کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے انکار کر دیا اور اب وہ جیلوں میں قید ہیں۔ ایسی مثالوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔“

”افتادگانِ خاک“ میں وہ اضافہ کرتا ہے کہ انسانیت کی آزادی کا فریضہ ”تمام تر انسانیت کی آزادی کافریضہ یورپی عوام کی ناگزیر مدد سے ہی پورا ہو گا“، لیکن یہ تب ہی ممکن ہو پائے گا جب وہ خود کو ”جگانے اور جھنجھوڑنے کا تہیہ کریں گے“۔

بورژوازی کا کردار

تمام تر کتاب میں فینن نو آبادیاتی ممالک کی قومی بورژوازی کے کردار کے گرد جوجھتا رہتا ہے۔ یہ مدعا کتاب کے سب سے مضبوط نکات میں سے ایک ہے۔ وہ قومی بورژوازی کو دھوکے باز قرار دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ اسے کبھی اقتدار میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ اگر یہ طاقت میں آ گئی تو یہ سامراج کے دلال کا کردار ادا کرے گی۔ اس کا واحد مقصد سامراج کے اقتدار کی جگہ اپنا اقتدار قائم کرنا ہے۔ فینن دلیل دیتا ہے کہ اس بورژوازی کا کوئی انقلابی کردار نہیں جیسا کہ تاریخی طور پر مغرب میں رہا تھا (جو کہ اب نہیں ہے)۔ اس معاملے پر اس کا مؤقف بالکل درست ہے۔

فینن اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ رہا تھا۔ بطور GPRA (بیرونِ ملک سے اعلان کردہ) جمہوری الجیریا کی عارضی حکومت کے نمائندے کے، اس کا حال ہی میں آزادی پانے والے کئی افریقی ممالک میں جانا ہوا جہاں اس نے یہی عمل ہوتے ہوئے دیکھا اور نتیجہ اخذ کیا کہ ”زیادہ تر ممالک میں یہ مشترکہ مظہر دیکھنے کو ملا کہ غیر ترقی یاقتہ ممالک کی عوام کے پچانوے فیصد حصے کے لیے آزادی کوئی فوری تبدیلی نہیں لے کر آئی۔“

فینن وضاحت کرتا ہے:

”مغربی بورژوازی کے کاروباری دلال کے طور پر قومی بورژوازی کافی مطمئن رہے گی اور بغیر پیچیدگیوں کے انتہائی پرُوقار انداز میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ لیکن یہی پرُکشش نظر آنے والا، سستے ریڑھی بان والا کام، یہ دکھاوے کی لالچ اور یہی کسی بھی طرح کی امنگوں کی عدم موجودگی، اس بات کی علامت ہے کہ یہاں کی قوم کا درمیانہ طبقہ کسی طور بھی بورژوازی کے تاریخی فرائض سر انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اپنے آغاز میں ہی نو آبادیاتی ممالک کی قومی بورژوازی کو مغربی بورژوازی کی گراوٹ دیکھنے کو ملتی ہے، ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ یہ آگے نکل رہی ہے؛ در حقیقت، یہ اپنا آغاز ہی آخر میں کر رہی ہے۔ اس سے قبل کہ یہ اپنی شوخی، بے باکی یا جوانی کی امنگ کو جان سکے، اس کا زوال ہو چکا ہوتا ہے۔“

فینن نے ان عوامل کی بنیاد پر بڑے اہم نتائج اخذ کیے کہ ”ترقی پذیر ممالک میں ایسے حالات ہی نہیں بننے دینے چاہییں کہ جن میں بورژوازی پنپ سکے اور ترقی کر سکے۔“ اور وہ مزید کہتا ہے کہ ”گزشتہ پچاس سالوں سے جب بھی ترقی پذیر ممالک کی تاریخ کا موضوع زیر بحث آتا ہے تو یہ نظریاتی سوال سر اٹھاتا ہے کہ (تاریخی عمل میں) بورژوازی کے عہد کے مرحلے کو پھلانگ کر آگے بڑھا جا سکتا ہے یا نہیں۔۔ اس سوال کا جواب دلیل سے نہیں بلکہ انقلاب کے میدان ِعمل سے دیا جانا چاہیے۔“

بہرحال فینن یہاں نظریے کی اہمیت کو مسترد کرتا محسوس ہوتا ہے لیکن اس سے وہ بہت واضح نتیجہ اخذ کرتا ہے؛ ”ترقی پذیر ممالک کی تاریخ میں بورژوا مرحلہ بالکل غیر ضروری ہے۔“ وہ زور دیتا ہے؛ ”کہ ہمیں دہرانا چاہیے کہ ہم لازمی طور پر قومی بورژوازی کی پیدائش کی شدید اور واضح مخالفت کریں گے۔“

اس مدعے پروہ بالکل درست ہے۔ وہ ان نتائج پر کسی نظریاتی تحقیق کے ذریعے نہیں بلکہ اپنے عملی تجربے کی بنیاد پر پہنچا۔ قومی بورژوازی، درمیانے طبقے اور قومی آزادی کی تحریکوں کی قیادت پر یہ الزامات 1961ء میں الجیریا کی آزادی سے کچھ عرصہ قبل ہی تحریر کیے گئے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جن امورکی جانب وہ اشارہ کر رہا تھا وہ اس نے محض افریقی ممالک میں ہی نہیں بلکہ FLN کے اندر بھی دیکھے تھے جیسا کہ پیٹی بورژوا عناصر کا تحریک کی قیادت میں آنا جو کہ پہلے ہی تمام حاصل کی گئی آسائشوں کو آپس میں ہی تقسیم کر رہے تھے اور ان ٹھکرائے ہوئے لوگوں کی پرواہ ہی نہیں کر رہے تھے جنہوں نے جدوجہد کی تھی۔

در حقیقت، (پسماندہ ممالک کی قومی بورژوازی کے کردار) کے سوال پر فینن کا موقف ٹراٹسکی کے انقلاب ِمسلسل اور 1920ء اور 1922ء میں اختیار کردہ کیمونسٹ انٹرنیشنل کے نو آبادیاتی اور مشرقی (ممالک) کے سوال پر موجود تھیسس میں واضح کردہ پوزیشن کے کافی قریب ہے۔

لینن اور ٹراٹسکی دونوں نے زور دیا تھا کہ سامراج کے خلاف جدوجہد کے عمل میں پسماندہ اور محکوم ممالک کی بورژوازی کسی بھی طرح کا ترقی پسندانہ کردار نہ ادا کر سکتی ہے اور نہ ہی کرے گی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اس کے برعکس محکوم ممالک کے عوام کو محنت کش طبقے کی قیادت میں خود طاقت پر قبضہ اور سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا چاہیے۔

جیسا کہ لینن کہتا ہے کہ، ”کیمونسٹ انٹرنیشنل کو ضروری نظریاتی بنیادوں کے ساتھ اس رائے کو آگے بڑھانا چاہیے کہ ترقی یافتہ ممالک کے محنت کش طبقے کی مدد کے ساتھ پسماندہ ممالک سویت نظام کی جانب آ سکتے ہیں اور پھر ترقی کے مخصوص مراحل کے ذریعے سرمایہ دارانہ مرحلے سے گزرے بغیر کیمونزم کی جانب آ سکتے ہیں۔“

لیکن فینن کے نو آبادیاتی انقلاب کے تصور اور لینن و ٹراٹسکی کے پیش کردہ مؤقف کے مابین بہت اہم اختلافات موجود ہیں۔ یہاں پر افتادگانِ خاک کی کمزوریاں سب سے زیادہ نمایاں ہو جاتی ہیں۔

محنت کش طبقہ

فینن کی اس کتاب کی ایک اہم کمزوری ہے کہ یہ الجیریا کے معاشرے اور اس کی تاریخ کے تفصیلی سائنسی جائزے سے اپنا آغاز نہیں کرتی۔ فینن، مارکس اور اینگلز کے کچھ کاموں کے حوالے تو دیتا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ وہ کبھی بھی مارکسسٹ نہیں رہا۔ افتادگانِ خاک میں وہ کہتا ہے کہ، ”نوآبادیاتی سوال کے مسئلے پر مارکسی تجزیے سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ہمیں ہر مرتبہ اسے تھوڑا سا پھیلا لینا چاہیے۔“

در حقیقت، یہ تھوڑا سا پھیلاؤ جسے ہم آگے چل کر دیکھیں گے، اسے مارکسی تجزیے کی بنیاد سے ہی بہت پرے لے جاتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ، ”جب آپ نو آبادیاتی مواد کا قریب سے جائزہ لیں گے تویہ واضح ہو جاتا ہے کہ دنیا کی تقسیم کا آغاز اس حقیقت سے ہوتا کہ آپ ایک مخصوص نسل یا انواع سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے۔ نو آبادیات میں معیشت کا ذیلی ڈھانچہ ہی بالائی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ سبب ہی نتیجہ بن جاتا ہے، آپ امیر ہیں کیونکہ آپ سفید فام ہیں، آپ سفید فام ہیں کیونکہ آپ امیر ہیں۔“

نو آبادیاتی معاشروں میں طبقے کو نسل کی جگہ رکھنے کا یہ تجزیہ اسے مزید نتائج اخذ کرنے کی جانب لے جاتا ہے کہ ”یہ واضح ہے کہ نو آبادیاتی ممالک میں واحد کسان ہی انقلابی طبقہ ہیں، کیونکہ ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں اور پانے کو سب کچھ ہے۔“ اس میں وہ یہ بھی اضافہ کرتا ہے کہ لمپن پرولتاریہ بھی انقلابی ہیں؛ ”دلال، موالی، بیروزگار اور چھوٹے موٹے جرائم کرنے والے، سب کچھ پیچھے چھوڑتے ہوئے خود کو آزادی کی جدوجہد میں مضبوط آدمی کی طرح جھونک دیتے ہیں۔“ لیکن بعد میں اس نے خود بھی تسلیم کیا کہ لمپن عناصر نو آبادیاتی حکمرانوں کے ردعمل میں استعمال ہو سکتے ہیں:

”لمپن پرولتاریہ میں بھی کالونیل ازم ساز باز کے لیے اچھی خاصی جگہ بنا لے گا۔ اسی وجہ سے کسی بھی تحریک کو اِن لمپن پرولتاریہ کے عناصر پر خاص توجہ رکھنی چاہیے۔ کسان ہمیشہ ہی بغاوت کے بلاوے پر لبیک کہیں گے، لیکن اگر بغاوت کرنے والی قیادت کو محسوس ہوا کہ وہ عوام کو خاطر میں لائے بغیر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں، تب لمپن پرولتاریہ خود کو میدان میں لے آئے گا اور جابروں کی جانب سے اس بغاوت کا حصہ بنے گا۔ اور جابر حکمران جو کہ کبھی بھی سیاہ فاموں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، وہ لمپن پرولتاریہ کی اس جہالت اور ناسمجھی پر مبنی کمزوریوں کا انتہائی ہوشیاری سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اگر انسانی صلاحیتوں کی میسر کردہ اس بڑی قوت کو بغاوت کرنے والی قوتوں کی جانب سے فوری طور پر منظم نہ کیا گیا تو یہ نو آبادیاتی حکمرانوں کے فوجی دستوں کے شانہ بشانہ کرائے کے سپاہیوں کی طرح لڑتے ہوئے نظر آئیں گے۔“

لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں کیمونسٹ انٹر نیشنل نے ترقی پذیر نو آبادیاتی ممالک میں محنت کش طبقے کے قائدانہ کردار پر زور دیا جو کہ آغاز سے ہی قومی آزادی کی عمومی تحریک میں شریک ہوتے ہوئے بھی خود کو آزادنہ طور پر منظم کرے۔

فینن کہتا ہے کہ الجیریا جیسے ملک میں در حقیقت محنت کش طبقہ ’بورژوازی زدہ‘ ہے، یہ ایک ایسی مراعات یافتہ پرت ہے جس کے بغیر نو آبادیاتی معاشرہ قائم ہی نہیں رہ سکتا۔ اس سے وہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ محنت کشوں کا مفاد نو آبادیاتی نظام کے برقرار رہنے میں ہی ہے اور اس لیے قومی آزادی کی جدوجہد کے لیے ان پر اعتماد یا انحصار نہیں کیا جا سکتا:

”اس بات پر بہت زیادہ زور نہیں دیا جا سکتا کہ نو آبادیاتی خطوں میں نو آبادیاتی غلامی کا شکار آبادی کا مرکزہ (نیوکلئیس) محنت کش ہوتے ہیں، جنہیں نو آبادیاتی حکمرانوں کی جانب سے بہت لاڈ پیار ملتا ہے۔ چھوٹے شہروں کا نیا ابھرتا ہوا محنت کش طبقہ نسبتاََ مراعت یافتہ پوزیشن میں ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ممالک میں محنت کش طبقے کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، یہی ہوتے ہیں جنہیں آگے چل کر حاصلات ملنا ہوتی ہیں۔ نو آبادیاتی ممالک میں محنت کش طبقے کے پاس کھونے کو سب کچھ ہوتا ہے، در حقیقت یہ نو آبادیاتی طور پر غلام بنائی گئی قوم کے اس حصے کی نمائندگی کرتے ہیں جو کہ نو آبادیات کی (ریاستی) مشینری کو آرام سے چلانے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، ان میں ٹرام کے کنڈکٹر، ٹیکسی ڈرائیور، کان کن، ڈاک ورکر، مترجم، نرسیں اور مزید کئی لوگ شامل ہیں۔ قوم پرست پارٹیوں کا سب سے زیادہ قابلِ اعتماد حصہ انہی پر مشتمل ہوتا ہے اور نو آبادیاتی نظام میں اپنے مراعت یافتہ مقام کے سبب یہ نو آبادیاتی تسلط کا شکار لوگوں میں سے ہی بورژوا دھڑا بن جاتے ہیں۔“

بشمول خود الجیریا کے، پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک کی انقلابی تحریکوں میں مختلف طبقات کے متعلق فینن کا نقطہ نظر کئی بار اور کئی جگہوں پر غلط ثابت ہو چکا ہے۔ ہاں، الجیریا کا محنت کش طبقہ اس وقت تعداد میں بہت کم تھا۔ لیکن رو سی انقلاب کے وقت روسی محنت کش طبقہ بھی آبادی کی مجموعی شرح کے حساب سے تعداد میں بہت ہی کم تھا، اس کے باوجود بالشویکوں نے انقلاب کو کامیاب کرنے کے لیے محنت کشوں پر ہی انحصار کیا تھا۔

الجیریا کے محنت کش طبقے کی قدیم انقلابی روایات رہی ہیں، جنگجو اور کیمونسٹ روایات۔ صرف ایک مثال دیں تو سال 1950ء میں، جب فینن یہ سب لکھ رہا تھا تو اس سے محض دس سال قبل فرانس کے ڈاک مزدورں نے انڈو چائینہ خطے میں فرانسیسی نو آبادیاتی جنگ کے لیے ہتھیاروں کی کھیپ لے جانے کے خلاف ہڑتال کر دی تھی، سی جی ٹی کی جانب سے کال کی گئی، ہڑتال کا آغاز فرانس کی شہری بندرگاہوں سے پہلے الجیریا کی ’اوران‘ بندرگاہ سے ہوا تھا۔ جنگ کے لیے ہتھیاروں کی کسی بھی ترسیل کو روکتے ہوئے پچیس سو ڈاک مزدوروں نے بندرگاہ کو مکمل جام کر دیا تھا۔ بہیمانہ پولیس تشدد کے جواب میں تحریک ایک مکمل پہیہ جام ہڑتال کی صورت میں پورے شہر میں پھیل گئی تھی، یہ ایک ایسی جدوجہد تھی جو کہ ہفتوں تک جاری رہی اور جسے نو آبادیاتی ادارے توڑنے سے قاصر تھے۔

یہاں ہمارے پاس ایک پسماندہ اور نو آبادیاتی سرمایہ دارانہ ملک کے محنت کش طبقے کے کردار کی ایک شاندار مثال موجود ہے۔ محنت کشوں کا ایک چھوٹا سا گروہ اپنی طاقت کے بلبوتے پر معیشت کا ایک اہم حصہ منجمد کر کے رکھ دیتا ہے اور عوام بھی اس کے پیچھے ایک سیاسی سامراج مخالف تحریک میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اور پھر یہ وہی پرت ہے جسے فینن ”نو آبادیاتی غلام لوگوں کا بورژوا دھڑا“ گردانتا ہے۔

یہاں تک کہ قومی آزادی کے لیے ہونے والی الجیریا کی جنگ کے دوران بھی کئی اہم عام ہڑتالیں ہوئی تھیں۔ 1956ء میں FLN نے نہ صرف الجیریا بلکہ فرانس میں موجود الجیرین محنت کشوں کو بھی ملک گیر عام ہڑتال کی کال دی تھی۔ ہڑتال بہت بڑے پیمانے پر پھیل گئی تھی، نہ صرف مزدورں بلکہ آبادی کی وسیع پرتوں میں بھی، دکانوں اور چھوٹے کاروباروں کی بندش، درمیانے طبقے کے دانشور اور طلبہ بھی اس میں شریک ہو گئے تھے۔

1957ء میں الجیریا کی جنگ (گیلو پونٹیکورو کی اسی نام سے بنائی گئی فلم میں جسے خوبصورتی سے فلمایا گیا ہے) کے خاتمے کے بعد FLN نے آٹھ روزہ ملک گیر عام ہڑتال کی کال دی جس نے پورے ملک کو منجمد کر دیا۔ ہڑتال کی قیادت تو ابتدائی طور پر محنت کش طبقے کے عناصر کر رہے تھے لیکن پوری الجیرین عوام اس میں شامل تھی، جو کہ محنت کش طبقے کی شاندار قوت اور آزادی کی تحریک کو میسر بے پناہ عوامی حمایت کا اظہار تھا۔

اس طرح کی سرگرمیوں کے ساتھ مسئلہ صرف یہ تھا کہ FLN کی پیٹی بورژوا قیادت محنت کش طبقے کی ان اہم سرگرمیوں کو محض اقوامِ متحدہ کے ساتھ مذاکرات میں دباؤ کے ہتھیار کے سوا کچھ دیکھتی ہی نہیں تھی اور وہ خود کو نام نہاد ’عالمی برادری‘ کی نظروں میں واحد قانونی نمائندے کے طور پر پیش کرتی تھی۔ کسی بھی مرحلے پر FLN کی قیادت نے اس ہڑتالی تحریک کو محنت کش طبقے کی قوتوں کو منظم اور تیارکرتے ہوئے عوامی و انقلابی تحریک کے ابھار کے طور پر نہیں دیکھا۔

محنت کش طبقے نے الجیریا کی قومی آزادی کی جنگ میں نہایت کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ لیکن یہاں ایک اور عنصر بھی کار فرما ہے۔ فرانس میں لگ بھگ تین لاکھ کے قریب الجیرین محنت کش رہتے تھے اور وہ بڑی فیکٹریوں میں کام کرتے تھے۔ گاڑیاں بنانے والی رنالٹ بلانکورٹ فیکٹری میں دو ہزار الجیرین ورکر نچلے درجوں کی کم اجرتوں پر کام کرتے تھے، مثال کے طور پر یہ فیکٹری کے لوہا پگھلانے والے حصے کے محنت کشوں کا ساٹھ فیصد بنتے تھے۔ ہڑتال اور مالی معاونت کے ذریعے انہوں نے قومی آزادی کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا اور 17 اکتوبر 1960ء کے دن پیرس میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا جس پر ہونے والے پولیس تشدد میں سینکڑوں لوگ مارے گئے تھے۔ 1950ء کی دہائی میں، یہاں تک کے الجیریا جیسے ملک میں بھی آبادی کے تناسب میں محنت کش طبقہ قلیل تعداد میں تھا، لیکن دو وجوہات کی بنیاد پر یہ انقلابی جدوجہد میں قائدانہ کردار ادا کر لیتا اور اسے کرنا بھی چاہیے تھا۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جس طرح سے ایک ہی مالک کے ہاتھوں ایک جیسے استحصال کا شکار ہونے کے سبب محنت کش طبقہ اجتماعی شعور کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی بھی سرمایہ دارانہ ملک میں محنت کش طبقے کے پا س یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ پیداوار روک کر معاشرے کو جام کر سکتا ہے، یہ طاقت نہ کسانوں، نہ ہی لمپن پرولتاریہ کے پاس ہوتی ہے۔ کسی بھی سرمایہ دارانہ معاشرے کی بنیاد محنت کشوں اور سرمایہ داروں کے مابین تضاد، محنت کش طبقے سے شرح منافع کے نچوڑ کے ذریعے سرمائے کا ارتکاز ہوتی ہے۔

معاشرے کی دیگر پرتیں بھی انقلابی تحریک میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں خاص کر الجیریا جیسے ملک میں جہاں آبادی کی اکثریت کسانوں پر مشتمل ہو، لیکن اس کے باوجود بھی صرف محنت کش طبقہ ہی آزادانہ قیادت فراہم کرتے ہوئے سامراج اور اس کی بورژوا نو آبادیاتی کٹھ پتلیوں دونوں میں ان کا تختہ اکھاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تمام تر تاریخ یہ واضح کرتی دکھائی دیتی ہے کہ کسان انقلابی جدوجہد میں آزادانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کی تین اہم وجوہات ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ کسان بطور طبقہ متنوع ہوتا ہے، یہ مختلف پرتوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں بے زمین کسان، چھوٹے کاشتکار، درمیانے اور امیر کسان جو اجرتی مزدوروں کو کام پر رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ چند کسان حقیقت میں دوسرے کسانوں کا استحصال کرتے ہیں۔ دوسری وجہ، کسانوں کی بود و باش میں اس کی زمین کی ملکیت خواہش ہوتی ہے، جس کا احاطہ ’زمین کسان کی‘ کے نعرے میں بھی کیا گیا ہے۔ چند ایک مستثنیات کے علاوہ، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسانوں میں انفرادیت پر مبنی طرز عمل پیدا ہوتا ہے، ایک ایسا طرز عمل جو کہ اس کی اپنی ذاتی ملکیت کے سوال کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ایک انقلابی تحریک کسانوں کی فوجوں کے ہمراہ شہروں میں طاقت پر قبضہ کرتی ہے تو اس کے بعد کسانوں کو خود ہی اپنی زمینوں کی جانب لوٹ جانا چاہیے۔ اسی وجہ سے بطور طبقہ کسان طاقت پر قابض نہیں ہو سکتے۔

تشدد

کتاب کے آغاز میں فینن تشدد کے متعلق بات کرتا ہے اور وہ اس حد تک درست ہے کہ مظلوموں کی جانب سے کیے گئے تشدد کا موازنہ کسی بھی صورت میں ظالموں کی جانب سے کیے گئے تشدد کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ اس کے برابر ہوتا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ مظلوموں کی جانب سے کیا گیا تشدد دہائیوں سے جاری جبر، زخموں، قومی جذبات کے دبائے جانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بالکل درست ہے۔

لیکن وہ دو طریقوں سے تشدد کے متعلق غلط ہے۔ پہلا، جب وہ تشدد کی وضاحت، انفرادی اور اجتماعی نقطہ نظر سے بھی لازمی جذباتی بھڑاس (کتھارسس) نکالنے کے تجربے کے طور پر کرتا ہے؛ ”نو آبادیاتی غلامی کے شکار لوگوں کے لیے تشدد، ان کے مثبت اور تخلیقی صلاحیتوں پر مشتمل کرداروں کی تشکیل کرتا ہے کیونکہ ان کے پاس صرف یہی کام ہوتا ہے۔ تشدد کا عمل انہیں اجتماعی طور پر آپس میں جوڑے رکھتا ہے۔ انفرادی سطح پر تشدد، اندرون (ذات) کی صفائی کی قوت کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ مقامی شخص کو احساس محرومی، مایوسی اور بے عملی سے آزاد کرتا ہے، تشدد اسے نڈر بناتا ہے اور اس کی عزت ِ نفس کو بحال کرتا ہے۔‘

تشدد کے کردار کی یہ مبالغہ آرائی اس کے تجزیے کی سنجیدہ کمزوری کے طور پر اس کے ساتھ دغا کرتی ہے، جو شاید اس کی تربیت بطور نفسیات دان ہونے کی وجہ سے تھی۔ یہ سچ ہے کہ جبر کے شکار لوگوں کی ذہنیت انقلاب کے دوران تبدیل ہو جاتی ہے اور اجتماعی عمل، عوامی تحریک کی طاقت کو آشکار کرتا ہے اور اپنی قوتوں میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ ہر فرد سامراجی طاقت کے کسی ایجنٹ کا قتل کرے یا بم پھوڑے۔

طبقاتی تجزیے کا متزلزل اطلاق بھی فینن کو مکمل طور پر غلط نتائج اخذ کرنے کی جانب لے جاتا ہے۔ نو آبادیاتی ممالک کی قومی بورژوازی کے کردار پر درست تنقید کرنے کے بعد وہ دلیل دیتا ہے کہ مسئلہ سینیگال جیسے ممالک میں آزادی حاصل کرنے کے طریقوں میں موجود ہے۔ فینن کہتا ہے کہ وہاں آزادی پرُامن ذرائع، مذاکرات اور سمجھوتوں کے ذریعے حاصل کی گئی۔ آزادی سابقہ سامراجی قوت سے منظور کروائی گئی تھی اور اسی وجہ سے یہ غلط ہو گیا۔

سامراجیوں کا تختہ الٹنے اور انہیں باہر نکالنے کے لیے اگر انقلابی تشدد کا استعمال کیا جاتا، اگر ’لوگ‘ مسلح جدوجہد کرتے تو طاقت حاصل کرنے کے بعد بھی ان کا تحریک پر کنٹرول ہوتا اور وہ بورژوازی کو دوبارہ طاقت میں آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ”مسلح جدوجہد اگر علامتی ہی ہوتی اور ایک مسلسل تحریک ِآزادی کے سبب اگر قوم سست پڑ جائے، تو اس وقت میں انہیں یہ دیکھنے کا موقع مل جاتا کہ آزادی سب کا کام اور معاملہ ہے اور لیڈر کا کوئی خاص میرٹ نہیں ہے۔“ وہ کہتا ہے کہ، ”جب لوگ قومی آزادی کی تحریک کا متشدد حصہ بنیں گے تو وہ کسی کو بھی اپنا نجات دہندہ نہیں بنائیں گے۔ تشدد سے منور ہونے کے بعد لوگوں کا شعورکسی بھی سرد مہری کے خلاف بغاوت کرے گا۔“

الجیریا نے فینن کو غلط ثابت کر دیا۔ 1962ء میں آزادی حاصل کرنے کے بعد الجیریا کا انقلاب ابتدائی طور پر زمینوں اور فیکٹریوں پر قبضے، مزدورں کی جانب سے خود کی مینجمنٹ اور صنعتوں کے قومیائے جانے جیسے انتہائی ریڈکل مرحلے سے گزرا۔ لیکن بہت جلد 1965ء میں ہی بومیڈین کی جانب سے کیے گئے فوجی کُو نے سب کچھ واپس کرتے ہوئے بیورو کریٹک اور سرمایہ دارانہ آمریت قائم کی۔ یہی چیز تو تھی جس سے بچنے کے لیے فینن تنبیہ کر رہا تھا اور جسے وہ روکنا چاہتا تھا۔

الجیریا کا انقلاب مسلح جدوجہد اور تشدد کے ذریعے ہوا تھا، یہ حقیقت بھی اُس زوال پذیری کو روکنے میں ناکام رہی۔ فیصلہ کن سوال یہ نہیں تھا کہ آزادی کی جدوجہد میں کس درجے کا تشدد استعمال ہوا تھا بلکہ یہ تھا کہ قیادت کا طبقاتی کردار کیا ہے۔ اس کی ذمہ داری واضح طور پر فرانس اور الجیریا کی کیمونسٹ پارٹیوں پر عائد ہوتی ہے جو واضح لینن اسٹ نقطہ نظر ترک کر چکی تھیں۔

ایک ناقص نظریہ عمل میں بھی غلط نتائج کی جانب لے جاتا ہے، بطور الجیریا کی عبوری حکومت کے سفارتکار کے فینن نے بھی ایک ایسی ہی غلطی کی۔ اس وقت فینن پورے براعظم کے مختلف گروپس کے ساتھ ڈیل کر رہا تھا جو الجیریا سے اپنی جدوجہد کے لیے مدد مانگ رہے تھے۔ انگولا میں موجود ایسے دو گروپس نے FLN سے رابطہ کیا۔ ایک ہولڈن روبرٹو کا UPA (یونین آف پیپلز آف انگولا) اور دوسرا MPLA (موومنٹ فار پیپلز لیبریشن آف انگلولا) گروپ تھا۔

ان کی سیاست، طبقاتی مواد یا اس طرح کے دیگر اہم عناصر کو دیکھنے کی بجائے فینن نے بس ایک ہی چیز پر غور کیا کہ کون سا گروپ جلد از جلد مسلح جدوجہد شروع کرنا چاہتا ہے۔ MPLA، مسلح جدوجہد شروع کرنے سے پہلے کچھ تیاریاں اور شہروں میں اپنی بنیادیں بنانا چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے فینن نے دونوں میں سے بدترین گروپ کا انتخاب کیا؛ ہولڈن روبرٹو کا UPA گروپ۔

قبائلی بنیادوں والی یہ تنظیم جو بعد میں FLNA بن گئی اور آزادی کے بعد انگولا کی خانہ جنگی میں انتہائی رجعتی قوتوں میں سے ایک تھی اور یہ پہلے ہی امریکہ کے ساتھ ساز باز کر چکی تھی۔ اس تنظیم کو چین، امریکہ اور زائر (انگولا) کے رجعتی آمر مبوٹوسیس سیکو کی حمایت حاصل تھی اور یہ UNITA (The National Union for the Total Independence of Angola) جیسی رجعتی و ظالمانہ پارٹی اور جنوبی افریقہ کی نسلی عصبیت پر مبنی حکومت کے ساتھ مل کر MPLA کے خلاف لڑے تھے۔ اور یہ کیوبا کے لوگوں کے خلاف مشہور کویٹو کوانوال کی جنگ بھی لڑے تھے۔ 1961ء میں UPA نے کانگو سے فینن کی اجازت اور الجیریا کی FLN کی حمایت کے ساتھ انگولا پر ایک خراب اور عدم تیاری پر مبنی مسلح حملہ کر دیا جس نے تباہی مچا دی تھی۔

اگر آپ تشدد کو ہی اپنا پیمانہ بنائیں گے تو آپ ہر طرح کی غلطیاں کرنے کے مرتکب ہوں گے۔ ایسی تنظیمیں بھی ہوں گی جو کہ غلط وجوہات، غلط تناظر اور غلط سیاست کی وجہ سے تشدد کے حق میں ہوں گی۔ اس کیس میں فینن ایک ایسے گروپ کی حمایت کر رہا تھا جس کی حمایت CIA بھی کر رہی تھی اور کچھ سالوں بعد یہ گروپ اسی جانب کھڑا تھا جہاں جنوبی افریقہ کی نسلی عصبیت پر مبنی حکومت کھڑی تھی۔

سرمایہ داری یا سوشلزم؟

فینن اس مدعے پر بھی شدید کشمکش کا شکار تھا کہ الجیریا کے انقلاب کے بعد وہاں کیسا معاشرہ تخلیق ہو گا۔ سوشلزم ہو گا؟ سرمایہ داری ہو گی؟ وہ مسلسل اپنی کتاب میں اس سوال پر مختلف آراء کا اظہارکرتے ہوئے خود ہی اپنی نفی کرتا رہتا ہے۔ ایک جگہ پر وہ کہتا ہے؛ ”ایک سوشلسٹ حکومت کا انتخاب، ایسی حکومت جس کا جھکاؤ مکمل طور پر لوگوں کی اجتماعی فلاح کی جانب ہو گا اور اس کی بنیاد اس اصول پر ہو گی کہ انسان تمام تر اشیا سے زیادہ قیمتی ہے، اور ہمیں زیادہ تیزی اور ہم آہنگی سے آگے بڑھنے کے راستے فراہم کرے گا۔“ لیکن پھر ایک اور پیراگراف میں وہ کہتا ہے کہ، ”نو آبادیات اور نو آبادیات مخالف کے مابین جو بنیادی لڑائی ہے اور جو سرمایہ داری اور سوشلزم کے مابین بھی ہے، اس نے پہلے ہی کچھ اپنی اہمیت کھونا شروع کر دی ہے۔ آج جو امر معنی رکھتا ہے اور جو ہر طرف حاوی ہوتا دکھائی دے رہا ہے، وہ دولت کی تقسیمِ نو کی ضرورت کا سوال ہے۔“ سوشلزم یا سرمایہ داری کے سوال کا جواب دیے بغیر آپ کس طرح سے دولت کی تقسیمِ نو کریں گے؟

اور پھر وہ مزید کہتا ہے کہ؛ ”ترقی پذیر ممالک کو بھرپور کوشش کر کے اپنے مخصوص اقدار، طریقے اور انداز تلاش کرنے چاہیں جو محض انہی کے لیے مختص ہوں۔ ہمارے لیے درپیش ٹھوس مسئلہ سوشلزم یا سرمایہ داری کے مابین چناؤ، اس کی قیمت ادا کرنے کا نہیں ہے کیونکہ قیمت تو دوسرے براعظموں کے مختلف لوگ، دیگر پرانے وقتوں میں ادا کر چکے تھے۔“

وہ کہہ رہا ہے کہ سوشلزم اور سرمایہ داری کے مابین تضاد اس وقت کے بیسویں صدی کے وسط کے الجیریا کے لیے غیر اہم مدعا ہے، ایسے جیسے یہ محض انیسوں صدی کے یورپ کا ہی معاملہ تھا۔ اس کے اس ’غلط انتخاب‘ کا متبادل کیا تھا؟ 1955ء میں بندوگ کانفرنس میں تشکیل پانے والی ’غیر جانبداری کی تحریک (Non-Aligned Movement)‘۔ یہ سٹالنسٹ سوویت یونین اور امریکہ کی سربراہی میں مغربی سامراج کے سفارتی بلاک میں موجود جنگ کے مابین توازن بنانے اور اپنے لیے زیادہ خود مختاری حاصل کرنے کی کاوش کرنے والے تیسری دنیا کے چند ممالک پر مشتمل تھے۔

اس کے کچھ تصورات آج کل پائے جانے والے ایک ’کثیر الجہتی دنیا‘ کے ترقی پسندانہ کردار کے خیالات سے ملتے جلتے تھے۔ لیکن ہمیں اس پر زور دینا چاہیے کہ یہ غیر جانبداری کی تحریک اور بندوگ میں ہونے والی اس کانفرنس کا قومی آزادی کی جدوجہد سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور اس کا کسی طور بھی کوئی ترقی پسندانہ کردار نہیں تھا۔ اس میں ہر طرح کے ممالک شامل تھے۔ ان میں چند جیسے کہ یوگو سلاویا نے سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا تھا، لیکن دیگر ممالک میں رجعتی نیم جاگیردارانہ بادشاہتیں جن میں سعودی عرب، کویت اور مراکش شامل تھے، ان میں سے کچھ تو امریکی سامراج کے قریبی اتحادی تھے۔ اور یہ ’سوشلزم اور سرمایہ داری کے مابین غلط انتخاب‘ کا متبادل سمجھا جا رہا تھا!

بلاشبہ، فینن کے سیاسی خیالات کی محدودیت کا جنم سٹالنزم کی غداریوں کے سبب ہوا تھا۔ فرانس کی سٹالنزم زدہ کیمونسٹ پارٹی نے الجیریا کے انقلاب سے غداری کی تھی، سوویت یونین انقلاب کو دنیا بھر میں نہیں پھیلا رہا تھا، بلکہ یہ ’پرُامن مشترک موجودگی‘ کی پالیسی اختیار کیے ہوئے تھا۔ یہ اس کے لیے کوئی پرکشش صورتحال نہ تھی اور وہ اس کا متبادل کوئی تیسرا راستہ تلاش کر رہا تھا۔

فینن نے بدقسمتی سے اس سب سے انتہائی بچگانہ نتائج اخذ کیے۔ اپنی کتاب میں وہ دلیل دیتا ہے کہ نوآبادیاتی ممالک کو قومی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کرنا ہو گی اور پھر سامراجی ممالک کو ’آمادہ‘ کرنا ہو گا کہ، ”ان نئے آزاد ہوئے ممالک کو قومی ترقی کی جازت دینا اور ان کی مدد کرنا، ان کے بہترین مفاد میں ہے۔“

”جہاں تک مغرب کی اقوام کی لالچ اور بداعمالی کا تعلق ہے، جس کے باعث تیسری دنیا کے ممالک کو بے یار و مددگار یا پسماندگی یا کم سے کم جمود کی جانب دھکیل دیا جاتا ہے، تو ایسی کیفیت میں ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کو طے کرنا ہو گا کہ ان کا ارتقاء ایک اجتماعی خود انحصاری کے حصار کے درمیان ہی ہو۔ اس عمل سے جلد ہی مغربی صنعتیں اپنی غیر ملکی منڈیوں سے محروم ہو جائیں گی۔ گوداموں میں مشینوں کی پیدا کردہ اجناس کے انبار لگ جائیں گے اور یورپی منڈیوں کے ٹرسٹ اور فنانشل گروپس کے مابین ایک بے رحم لڑائی شروع ہو جائے گی۔ فیکٹریوں کی بندش، محنت کشوں کی ادائیگیاں اور بے روزگاری کے سبب یورپ کا محنت کش طبقہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کھلی جدوجہد کرنے پر مجبور ہو گا۔ تب ’اجارہ داروں کو احساس ہو گا کہ ان کے اصل مفادات ترقی پذیر ممالک کو امداد فراہم کرنے میں ہی پنہاں ہیں، بہت زیادہ شرائط کے بغیر کھلی امداد“۔

”ہم سرمایہ دارانہ ممالک پر زور دیں گے اور انہیں وضاحت کریں گے کہ ہمارے عہد کا بنیادی مسئلہ ان کے اور سوشلسٹ حکومتوں کے مابین جدوجہد کا نہیں ہے۔ سرد جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ دنیا کو نیوکلیئر ہتھیاروں سے آراستہ کرنے کے عمل کا خاتمہ ہونا چاہیے اور ترقی پذیر خطوں کو بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری اور تکنیکی امداد فراہم کی جانی چاہیے۔“

بگاڑ/ غلط بیانیاں

افتادگان خاک کا خلاصہ کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس میں کم از کم دو مضبوط اور بہت اہم نکات ہیں۔ پہلا، اس کتاب میں ترقی پذیر ممالک کی قومی بورژوازی پر شدید تنقید اور اس کے خلاف انتباہ موجود ہے۔ دوسرا، خود عوام ہی انقلاب کے ذریعے نو آبادیاتی غلامی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس حقیقت کی عکاسی اس سے ہوتی ہے کہ کریبین سمندر کے پاس موجود مارٹینیک سے تعلق رکھنے والا درمیانے طبقے کا ایک پڑھا لکھا فرد ہونے کی حیثیت سے فینن نے خود کو اُس ملک کی جدوجہد کے ساتھ جوڑا جہاں وہ تب مقیم تھا اور اس نے جابروں کے ظلم کے خلاف الجیریا کے عوام کی مزاحمت کے حق کا دفاع کیا۔

لیکن جہاں تک اس کتاب کی سامراج کے زیر تسلط ممالک میں انقلابی حکمت ِعملی کے متعلق مؤثر حصہ ڈالنے اور اس کی ہوبہو نقالی کرنے کا تعلق ہے، تو اس میں کئی مبہم بیانات موجود ہیں اور کئی ایک تو ایسے بھی ہیں جو سراسر غلط اور نقصان دہ ہیں۔

یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے فینن کو ناقابلِ فہم حد تک توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ فینن ان حلقوں میں بڑا مقبول ہے، جہاں وہ فینن کے سب سے مبہم پہلوؤں کو اٹھاتے ہیں، اس کے خیالات کو توڑ مروڑ کر، انہیں اوپر نیچے گھما کر ایسا بنا دیتے ہیں جو کہ صریحاً سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں اور اس کا فینن نے جو کہا یا کیا، اس سے لگ بھگ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

صرف ایک مثال پیش کر رہے ہیں، 2022ء میں کینیڈا کی یونیورسٹی کے اساتذہ کے ایک گروہ نے فینن سیمینار کروایا اور ”فینن کے جغرافیوں“ کے متعلق لکھا کہ، ”اس کی تمام تر تحریروں میں، فینن کا جغرافیائی علم مختیارِ کل ہے اور یہ حیثیت اسے نقشہ نگار کے درجے کی ایسی درستی عطا کرتی ہے جس کے ذریعے وہ نو آبادیت پر ٹھہرتا اور اسے گراتا ہے۔ فینن کے جغرافیوں کو نظریاتی احاطوں میں مقید یا روکا نہیں جا سکتا۔ اس کی تحریروں کو مشترکہ طور پر پھیلایا، زیرِ بحث اور زیرِ عمل لایا جا سکتا ہے اور اس طرز کی یہ وسعت ہمیں ایک بین مضامین اور جگہ کے کھلے شعور کی جانب لے جاتی ہے۔“

یہاں لکھے گئے ایک بھی لفظ کا معنی سمجھنا تقریباً نا ممکن ہے اور ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ یہ کوئی حادثاتی امر نہیں کہ یہ مابعد الجدید رد نو آبادیات کے عالم فینن پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، وہ اس کے کام کے سب سے مبہم اور متذبذب عناصر کو اٹھاتے ہیں اور خاص کر اس کے نفسیات کے مضمون پر تحریر کردہ مواد پر بہت زور دیتے ہیں۔ انہیں صرف ’ذہنی نو آبادیاتی غلامی کی آزادی‘ سے سروکار ہے۔ یہ وقت کا زیاں کرنے والے لوگ ہیں جن کا سارا دھیان اپنے ہی اندرونی خیال کے عوامل کے گرد گھومتا رہتا ہے۔

ان کی پیش کردہ عکاسی کے برخلاف، فینن ایک انقلابی تھا۔ وہ تحریک میں لڑاکا کردار نبھانے کی استدا پر زور دیتا رہا، لیکن FLN کی قیادت نے اسے یہ سوچ کر رد کیا تاکہ اس کی دیگر صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ لیا جا سکے۔ بطور انقلابی ہی اس کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کی انقلابی حکمت عملی کے طرز فکر کی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ مضبوط نکات کو بھی اجاگر کریں۔

آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟

آج سابقہ نو آبادیاتی ممالک کی اکثریت نے باقاعدہ آزادی تو حاصل کر لی ہے لیکن جیسا کہ فینن نے واضح طور پر تنبیہ کی تھی کہ وہ ’اپنی قومی‘ بورژوازی کی حکمرانی کے تحت سامراج کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور محنت کشوں و کسانوں پر مشتمل عوام ابھی بھی جبر کا شکار ہیں۔

حالیہ سالوں میں ہم نے ایک کے بعد دوسرے ملک میں جراتمند عوامی ابھار دیکھے ہیں، مصر، تیونس، سوڈان، لبنان، عراق، چلی، ایکواڈور سمیت اور کئی ممالک میں بھی۔ حقیقی آزادی کی جدوجہد کے لیے بہادری، دلیری کر گزرنے کی چاہ سمیت کسی چیز کی کمی نہیں۔ جو درکار ہے وہ ان ممالک کے انقلابی محافظوں کو انقلاب میں برسر پیکار مختلف طبقات کی قوتوں اور اس کے کردار کے متعلق واضح نظریاتی سمجھ بوجھ کے ساتھ آگے بڑھنے کے مواد سے لیس کرنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں لینن اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے ابتدائی دنوں کی جانب واپس جانا ہو گا۔

زیرِ تسلط ممالک، سامراجیت کا خاتمہ کر کے ہی حقیقی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ کام قومی بورژوازی سے نہیں کروایا جا سکتا جو کہ کوئی بھی ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے کے لیے نااہل ہے اور نہ ہی ایسی کوئی نیت رکھتی ہے (جیسا کہ فینن نے درست طور پر واضح کیا تھا) اور جو غیر ملکی سامراجیت کے ساتھ ہزار ہا مختلف طریقوں سے بندھی ہوئی ہے۔

قوم کی قیادت کرتے ہوئے صرف محنت کش طبقہ ہی سامراجی تسلط کی زنجیریں توڑ سکتا ہے۔ ملٹی نیشنل اور مقامی سرمایہ داروں کی جائیدادوں کو ضبط کرتے ہوئے انقلاب کے قومی جمہوری اور سوشلسٹ تقاضوں کو جوڑنا ہو گا۔ اور آخر ی بات کہ انقلاب کو قومی حدود میں مقید کر کے مکمل نہیں کیا جا سکتا، اسے اپنے آغاز سے ہی عالمی ہونا پڑے گا۔ صرف عالمی انقلاب کے ذریعے ہی پسماندہ زیرِ تسلط ممالک معاشی ترقی اور حقیقی آزادی پر مبنی مستقبل حاصل کر سکتے ہیں۔

(نوٹ: () یہ بریکٹس تحریر کا حصہ ہیں، جبکہ [] یہ بریکٹس مترجم نے وضاحت کے لیے استعمال کی ہیں۔)

الجیریا کی تحریکِ آزادی سے فرانس کے سٹالنسٹوں کی غداری

فرانس اور الجیریا کی سٹالنسٹ کیمونسٹ پارٹیوں کے افسوس ناک کردار نے فرانز فینن اور الجیریا کے انقلاب پر بہت زیادہ اثرات مرتب کیے ہوں گے۔

1941ء میں دوسری عالمی جنگ میں جب سویت یونین اپنے اتحادیوں کی جانب سے جنگ میں شامل ہوا تو فرانس اور الجیریا کی کیمونسٹ پارٹیوں نے الجیریا کی آزادی کا اپنا روایتی مطالبہ کرنا چھوڑ دیا۔ وجہ یہ تھی کہ ’فاشزم کے خلاف جمہوریت‘ کی جدوجہد میں فرانس کے سامراجی سویت یونین کے اتحادی تھے اور دلیل دے رہے تھے کہ الجیریا کی آزادی انہیں پریشان کرے گی تو اس لیے آپ کو یہ بات نہیں کرنی چاہیے۔

اُس وقت پوری دنیا کمیونسٹ پارٹیوں کی غداری پر مبنی یہی سٹالنسٹ پالیسی تھی۔ اس کے الجیریا کے انقلاب پر خوفناک اثرات مرتب ہوئے اور اس کا مطلب تھا کہ کمیونسٹ پارٹی اور زیادہ عمومی طور پر کمیونسٹ نظریات کے الجیریا کی تحریک پر تقریباً کوئی اثرات مرتب نہیں ہونے تھے۔

8 مئی 1945ء کے دن جرمن فوجوں نے اتحادیوں کی فوج کے سامنے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے۔ کئی دیگر مقامات کی طرح الجیریا میں بھی فرانس کی آزادی اور نازیوں کی شکست کا جشن منانے کی غرض سے عوامی مظاہرے ہوئے۔ ان میں سے کچھ مظاہروں میں فاشزم کے خلاف لڑنے والے الجیریا کے لوگ اپنے ہمراہ الجیریا کا قومی پرچم لے کر آئے اور نازی جرمنی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ نو آبادیات مخالف نعرے اور الجیریا کی قومی آزادی کی تحریک کے تاریخی لیڈر اور بین کردہ الجیرین پیپلز پارٹی کے لیڈر مصالی الحاج کی رہائی کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔

سطیف (Sétif) شہر میں رونما ہونے والے واقعے میں پولیس نے ایسے ہی ایک مظاہرے کو روکا اور الجیریا کا جھنڈا لے جانے کوشش کی اور مزاحمت پر گولی چلا دی جس سے چند مظاہرین مارے گئے اور یہ ایسے واقعات کو جنم دینے کا باعث بنا جن میں خوفناک قتل و غارت ہوئی۔ چند ہفتوں کے اندر اندر سطیف، قالمہ اور خراطہ کے علاقوں میں سفید فام آباد کاروں نے فرانسیسی حکومت کی مدد سے مسلح ملیشیائیں تشکیل دیں اور الجیریا کے عرب نژاد باشندوں کا قتلِ عام شروع کر دیا۔ فرانسیسی فوج نے ’معمولات بحال‘ کرنے کے نام پر مداخلت کرتے ہوئے بغیر تحقیقات کے لوگوں کو مارنا شروع کر دیا۔ الجیریا کے ان شہروں اور دیہاتوں پر فضائی بمباری کی گئی جہاں زمینی طور پر پہنچنا مشکل تھا اور بحری فوج کے ذریعے خراطہ کا گھیراؤ کر لیا۔

یہ آج تک واضح نہیں ہو سکا کہ فرانس کے بدترین نو آبادیاتی جبر میں کتنے لوگ مارے گئے لیکن فرانس کی سرکاری تاریخ میں بیان کردہ ’واقعات‘ کے اندازوں کے مطابق تین سے چھ ہزار الجیرین لوگ اس قتل و غارت میں مارے گئے تھے۔

یہ بہت ہی برا تھا۔ الجیریا کے زیادہ تر لوگوں کو لگا تھا کہ نازی جرمنی سے آزادی کا مطلب الجیریا کی جمہوریت و آزادی اور نو آبادیاتی غلامی کا خاتمہ بھی ہے۔ انہیں جلد ہی احساس ہو گیا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔

فرانس کی کمیونسٹ پارٹی کا قتل و غارت گری میں اس سے بھی بدترین کردار تھا۔ یہ یاد رکھیں کہ فرانس کی کمیونسٹ پارٹی اس وقت فرانس کی قومی اتحاد پر مشتمل حکومت کا حصہ تھی اور کمیونسٹ پارٹی کا ایک ممبر چارلس ٹلون وزیرِ ہوا بازی تھا اور اسی وجہ سے وہ الجیریا کے دیہی علاقوں پر ہونے والی فضائی بمباری کا براہ راست ذمہ دار بھی تھا۔

فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کے جریدے L’Humanité نے واقعات کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ”ہٹلر کے حامیوں کے اکسانے“ کی وجہ سے ہوئے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے لیڈران کے مطابق الجیریا کے جو لوگ نازیوں کے خلاف فتح کا جشن منا رہے تھے اور الجیریا کی آزادی کا پرچم لہرا رہے تھے وہ دراصل ہٹلر کے حق میں اشتعال انگیزی کا حصہ تھے۔

11مئی کے دن پارٹی کے جریدے میں ایک مختصر نوٹ شائع ہوا جس میں لکھا تھا کہ، ”فتح کے دن فاشسٹوں نے سطیف میں حملہ کر دیا۔“ اس سرکاری نوٹ کو بغیر کسی تبصرے کے ویسے کا ویسا ہی (لیکن اس کی سرخی بڑی واضح تھی) شائع کر دیا گیا؛ ”سطیف میں ہٹلر کے ہتھیار ڈالنے کی خوشی میں جشن مناتے عوام پر ہٹلر سے متاثر عناصر، مسلح جبر میں ملوث تھے۔ پولیس نے فوج کی مدد سے امن بحال کیا۔“

12مئی کو کمیونسٹ پارٹی نے الجیریا کے شہروں میں تنبیہ پر مبنی ایک لیفلٹ تقسیم کیا۔ سنٹرل کمیٹی کے پانچ ممبران کا دستخط کردہ یہ لیفلٹ مطالبہ کر رہا تھا کہ ”بغاوت پر اکسانے اور دنگے بھڑکانے والے غنڈوں کو موت کے گھاٹ اتارا جائے۔ یہ بدلے یا جوابی وار کا سوال نہیں ہے۔ یہ انصاف کے اقدامات کا سوال ہے۔ یہ ملک کے تحفظ کے اقدامات ہیں۔“

الجیریا کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنے اخبار میں مطالبہ کیا کہ؛ ”ہمیں فوری طور پر ان فسادات کو منظم کرنے والوں کو فوری اور بے رحمانہ سزا دینی چاہیے اور بغاوت پر اکسانے اور دنگے بھڑکانے والوں کو سزائے موت دینی چاہیے۔“

چند متاثرہ شہروں میں الجیریا کی کمیونسٹ پارٹی کے کچھ لوکل قائدین نے تو فرانسیسی آباد کاروں کے مسلح جتھوں کا حصہ بن کر قتل و غارت کی، جبکہ دوسری جانب الجیریا کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں بھی کمیونسٹ پارٹی کے چند ممبران شامل تھے۔ اس سے فرانس کی کمیونسٹ پارٹی اور الجیریا کی آزادی کی تحریک کے درمیان ایک مکمل دراڑ پیدا ہو گئی۔

1956ء میں ایک اور فیصلہ کن واقعہ ہوا۔ اس وقت فرانس کی پارلیمنٹ میں 1954ء میں شروع ہونے والے الجیریا کے انقلاب سے نمٹنے کے لیے فرانسیسی حکومت کو خاص اختیارات دینے کے لیے رائے شماری ہوئی اور فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ اور یہ الجیریا کی جدوجہد کے متعلق فرانس کی سٹالنسٹ کمیونسٹ پارٹی کا بھیانک ریکارڈ ہے۔

Comments are closed.