|تحریر: پارس جان|
رواں سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے مختلف شہروں میں منعقد کی جانے والی تقریبات اور ان کے گرد جنم لینے والی بحثیں بھی سماجی کل کے اندر وقوع پذیر ہونے والی بہت سی مقداری اور معیاری تبدیلیوں کا ہی اظہار ہیں۔ جہاں ایک طرف مزدور تحریک میں سرگرم این جی اوز نے خواتین محنت کشوں کی بڑی تعداد کو متحرک کیا وہیں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم فیمینسٹ این جی اوز اور لبرل خواتین و حضرات بھی قابلِ قدر تعداد میں خواتین کو متحرک کرنے میں کامیاب رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی پارٹیوں نے بھی اس سال ’ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ‘ کے نام سے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کا الگ محاذ تشکیل دیا۔ لیکن اس محاذ کی تشکیل سے قبل اس محاذ کی نظریاتی ساخت اور سیاسی مقاصد پر سیر حاصل بحث دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ مارکسی فیمینزم کو ہی بغیر مباحثے کے اپنا لیا گیا۔ جہاں ایک طرف یہ سارا تحرک بحیثیتِ مجموعی ایک دلچسپ اور توجہ طلب پیش رفت ہے وہیں اس نئے عمل کو آغاز سے ہی درست نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنا بھی اشد ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر کھوکھلی بنیادوں پر تعمیر اگر کامیاب ہو بھی جائے تو پائیدار نہیں ہو سکتی۔ کچھ لوگوں کے خیال میں پاکستان جیسے معاشروں میں نظریاتی درستگی ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور محض اس سمت میں’کچھ بھی ہوجانا‘ بذاتِ خود قابلِ ستائش ہے۔ ہمارے خیال میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے اور ان معاشروں میں درست نظریاتی بنیادوں کی اہمیت اور ضرورت شاید ترقی یافتہ دنیا سے بھی بڑھ کر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دیگرکئی معاملات کی طرح ہی یہاں کے بائیں بازو کی روش خواتین کے معاملے میں بھی عملیت پسندانہ (pragmatic) ہے۔
اس حوالے سے ان تقریبات کے دوران ہی مختلف جگہ پر ان بحثوں کی ضرورت محسوس کی گئی جس پر بعد ازاں کامریڈ ایاز ملک کی طرف سے ایک مضمون ’’مارکسزم، فیمینزم اور مارکسسٹ فیمینزم، چند سیاسی و نظریاتی نکات‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا گیا جو ’ہم سب‘ ویب سائٹ پر شائع ہوا۔ اس مضمون کی ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں شاید پہلی مرتبہ فلسفیانہ اور نظریاتی اعتبار سے اس اہم مسئلے کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ رجحان بلاشبہ حوصلہ افزائی کا مستحق ہے اور اس سے بائیں بازو کی عمومی تحریک پر اہم اثرات مرتب ہوں گے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ انقلابی کارکنوں کی یہ نسل ان نظریاتی بحثوں کا حصہ بنے اوراگر مقصد ذاتی تشہیر اور دانشوری کی ٹھرک کی بجائے واقعی بائیں بازو کے کیڈرز کا سیاسی معیار بلند کرنا ہے تولازم ہے کہ ان بحثوں میں تنقید اور مکالمے کی روایت کو بھی کشادہ دلی سے قبول کیا جائے۔ مذکورہ مضمون میں بہت سے نکات زیرِ بحث لائے گئے ہیں، جن کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بعض جگہ پر درست دلائل سے بھی غلط نتیجہ برآمد کیا گیا ہے۔ تمام تر بحث کا چونکہ نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ ’مارکسزم کے بغیر فیمینزم وسیع تر استحصالی نظام کے ساتھ محض ایک سمجھوتہ ہے۔ لیکن فیمینزم کے بغیر مارکسزم بھی محض ایک خیالی مارکسزم ہی ہے‘، ہم چونکہ مارکسی فیمینزم کی اصطلاح اور ا س کے اندر پنہاں معانی و مفاہیم کو مارکسی نظریات سے متصادم سمجھتے ہیں اس لیے ان اخذ کردہ نتائج کے مہلک اثرات کی نشاندہی کرنا ضروری ہے۔
سب سے پہلے تو یہ واضح کرنا بے حد ضروری ہے کہ یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ فیمینزم کے ساتھ مارکسزم کے تعلق کا سوال ہم مارکس وادیوں کے لیے محض حکمتِ عملی اور لائحہ عمل کا سوال ہے بلکہ یہ سوال اپنی بنیاد میں نظریاتی سوال ہے جو ظاہر ہے کہ لائحہ عمل کی درستگی اور فعالیت پر بھی اثرانداز ہو تا ہے۔ اس مضمون کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ ہمیں پرولتاریہ کی تشریح کو محض صنعتی مزدوروں تک محدود کر کے دیکھنے کی بجائے مارکس کے اس تصور سے منسلک کرنا چاہیے کہ ایسا طبقہ جو اپنی بقا کے لیے اپنی قوتِ محنت بیچنے پر مجبور ہو، یہ بات اپنی جگہ درست ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ پیداواری رشتوں کی وسیع تر تشریح یہ دکھاتی ہے کہ قدرِ زائد کی پیداوار کا عمل جدلیاتی طور پر محنت کش طبقے کی اپنی پیداوار سے جڑا ہوا ہے۔ جب ان دونوں باتوں کو خواتین کے سوال کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو فاش غلطی کا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے جیسا کہ اس کے بعد اس مضمون میں یہ نتیجہ نکالا گیا کہ ’پرولتا ریہ اور پیداواری نظام کو اس وسیع تر تشریح کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ محنت کش طبقے کا ایک بہت بڑا حصہ بلکہ ایک عمومی اکثریت ہی عورتوں پر مشتمل ہے‘۔ یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پرولتاریہ کی تشریح سے مصنف کی مراد یہ ہے کہ چونکہ خواتین بھی ایک پدرسری معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے اپنی قوتِ محنت کے استحصال کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں لہٰذا انہیں محنت کش طبقہ ہی تصور کیا جانا چاہیے۔ یعنی صنف اور طبقے کا فرق معدوم ہو جاتا ہے، گویا مرد اور سرمایہ داربھی ایک ہی معنی کے لیے استعمال کیے جانے والے دو الگ الگ لفظ ہیں۔ جہاں تک پیداواری نظام کا تعلق ہے تو قدرِ زائد کی پیداوار کے ساتھ محنت کش طبقے کی یا قوتِ محنت کی پیداوار کی لازمیت کو خواتین پر منطبق کرنا سراسر بے معنویت ہے۔ جیسا کہ مصنف نے اس نکتہ نظر کی مارکسی تشریح کے لیے مائیکل لائبوٹوز کی ’مارکس کی قوتِ محنت پر غیر موجود کتاب ‘ کا حوالہ دیا ہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ ’مارکس (جو ہمیشہ ہی سے پیداواری رشتوں کی وسیع تر تشریح کرتے تھے )یقیناً قوتِ محنت کی پیداوار کے محرکات اور اس میں تاریخی طور پر عورتوں کے کلیدی کردار پر تفصیلی روشنی ڈالتے ‘۔ یہ طریقہ کار بذاتِ خود قدرے مابعد الطبیعاتی معلوم ہوتا ہے۔ اگر ہم اس بے معنویت کو کسی معنی کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش بھی کریں تومطلب یہ ہوگا کہ شاید خواتین کو بھی پیداوار کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہاں دائیں بازو کے رجعتی دھڑوں کی نفسیات کی ہی عکاسی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایسی قیاس آرائیوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مارکس کے ’غیر تحریر شدہ ‘ خیالات سے زیادہ ’تحریر شدہ ‘ مواد پر ہی اکتفا کریں اور اس طرح کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مارکس کے جدلیاتی طریقہ کار کو بروئے کار لائیں۔
مارکس نے طرزِ پیداوار کے حوالے سے سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار اور عمومی طرزِ پیداوار پیداوار میں فرق کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن اس سے مذکورہ بالا نتائج اخذ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مارکس کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر وہ محنت پیداواری ہو گی جو سرمایہ دار کے لیے قدرِ زائد پیدا کرے۔ یعنی تمام تر پیداوار کو قدرِ زائد کے حوالے سے پرکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مارکس ایک ایسی متبادل صورتحال (غیر طبقاتی)کی بات کرتا ہے جہاں پیداوار کو قدرِ صرف کی بنیاد پر دیکھا جائے نہ کہ قدرِ زائد کی بنیاد پر۔ یعنی ہر وہ شے جو انسانی زندگی میں آسانی پیدا کرتی ہے اس میں لگائی جانے والی محنت پیداواری محنت ہو گی۔ یوں سرمایہ دارانہ نظام میں خواتین کی طرف سے کی جانے والی ’غیر پیداواری ‘محنت کی حقیقی قدر کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ عورتیں بحیثیت عورت ایک طبقہ ہیں جن کی محنت کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ ایسی خواتین بھی موجود ہیں جو اس قسم کی گھریلو مشقت سے کوسوں دور رہتی ہیں اور اس کے لیے دیگر مجبور و لاچار خواتین کی محنت کو خرید لیتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ مصنف اس بات سے سو فیصد متفق ہے مگر اس کے استعمال کیے گئے الفاظ مبہم اور متضاد خیالات کو جنم دے رہے ہیں۔ اس سے آگے جو رسمی لیبر فورس کی صنفی تبدیلی کی بات کی گئی ہے وہ سو فیصد درست ہے کہ ٹیکنالوجی اور ذرائع پیداوار کی ترقی کے باعث محنت کش طبقے کے اندر خواتین محنت کشوں کی تعداد کا تناسب بہت بڑھ گیا ہے اور ساتھ ہی کام کی جگہوں اور دفاتر وغیرہ میں جنسی طور پر ہراساں کیا جانا اور ریپ وغیرہ بھی معمول کی بات بنتے جا رہے ہیں۔ یہاں ہمیں سرمایہ دارانہ طرزِ ارتقا کا دوہرا کردار نظر آتا ہے جس نے ایک طرف تو خواتین کی آزادی اور نجات کے لیے معروضی امکانات کو وسعت دی ہے مگر ساتھ ہی موضوعی جبر کو کئی گنا بڑھا دیا ہے جس کی اصل وجہ ’ملکیت ‘کے حصول کی دوڑ اور اس سے جنم لینے والی بیگانگی ہے۔
جہاں تک صنفی سوال اور طبقاتی سوال کے باہمی تعلق کا سوال ہے تو اسے فیمینزم اور مارکسزم کے آپسی تعلق کے ساتھ نتھی کرکے نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ تاریخی طور پر صنفی جبر سماج کے طبقات میں بٹ جانے سے ہی ممکن ہوا تھا اور آج بھی محنت کش طبقے کی خواتین پر صنفی جبر حکمران طبقے کی خواتین کی نسبت کہیں زیادہ ہے لیکن اس سے دونوں مذکورہ نظریات ایک ہی نہیں ہو جاتے یا ’مارکسی فیمینزم ‘ ایک درمیانی راستے کے طور پر قابلِ قبول نہیں بن جاتا۔ پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مارکسزم ہے کیا؟ کیا مارکسزم محض سماج کی طبقاتی بنتر کو سمجھنے اور بدلنے کا ایک نظریاتی ہتھیار ہے ؟ ایسا نہیں ہے بلکہ مارکسزم فطرت، سماج اور شعور کے اور ان کے باہمی تعلق کے ادراک اور تغیر کو سمجھنے کی سائنس ہے۔ اس لیے کسی بھی سماجی مظہر میں سے محض طبقاتی جبر تک مارکسزم کو مخصوص یا محدود کر دینا مارکسی نظریات کے ساتھ نا انصافی ہے۔ مارکسزم بحیثیتِ مجموعی انسانی معاشرے کے معاشی، سیاسی، سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی مسائل اور ان کے باہمی تعلق کو سمجھنے اور حل کرنے کا جدید ترین نظریہ ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ کسی ثقافتی جبر کے خلاف لڑنے کے لیے مارکسزم کو کسی اضافی نظریے یا فکر کی ضرورت ہے یعنی خواتین کے حقوق کی جدوجہد کرنے کے لیے مارکسزم کو فیمینزم کی ضرورت ہے، احمقانہ بات ہو گی۔ اگر خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے مارکس وادی خواتین و حضرات کو مارکسی فیمینسٹ کہنا جائز ہے تو مظلوم قوموں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے مارکس وادی کو ’قوم پرست مارکسسٹ‘ کہنا پڑے گا۔ حالانکہ یہ دونوں متصادم افکار ہیں۔ ایسے ہی نسل پرستی اور لسانی تعصبات، چائلڈ لیبر، اقلیتوں کے مسائل وغیرہ کے لیے کام کرنے والے مارکس وادیوں کے لیے تو اتنے سابقوں، لاحقوں کی ضرورت پڑے گی کہ جن پر کسی نامور ڈاکٹر کے کلینک کے باہر لگی تختی بھی شرما جائے۔
یہ بھی درست ہے کہ سرمایہ داری کا ارتقا نا ہموار طور پر ہوتا ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے مشترکہ اور ناہموار ترقی کے قانون میں اس کی بھرپور وضاحت کی ہے۔ کامریڈ ایاز ملک اس ناہمواری کے اہم پہلو کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں کہ ’سرمایہ دارانہ نظام میں ناہمواری صرف علاقائی سطح پر نہیں بلکہ سماجی رشتوں میں بھی نا ہمواری کا پہلو حاوی رہتا ہے ‘۔ یہ بات بالکل درست ہے مگر آگے چل کر وہ مزید کہتے ہیں کہ’ اسی ناہمواری کے تحت مخصوص شناخت (صنف، زبان یا مذہب ) پر ابھرنے والی تحریکوں کو محض ایک خیالی طور پر یکجا مزدور طبقے کو تقسیم کرنے کی سازش نہیں سمجھا جا سکتا‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی تحریک اس وقت تک وجود نہیں پا سکتی جب تک اس کے لیے سماج کے اندر موافق حالات موجود نہ ہوں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے دنوں میں بیروزگاری، غربت اور محرومی سماجی معمول بن جاتے ہیں اور سماج میں ہر طرح کے تعصبات پروان چڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف محنت کش طبقے کی تحریکیں ابھرتی ہیں، وہیں ساتھ ہی جمہوریت کے لبادے میں لپٹے قومی، صنفی اور نسلی جبر کے برہنہ ہو جانے کے سبب ان مسائل کے گرد مزاحمتی تحریکوں کے وجود پذیر ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اس بات کے بھی قومی امکانات موجود ہوتے ہیں کہ حکمران ان مسائل پر ابھرنے والی حقیقی مزاحمتوں کو بھی ان کے متوازی ابھرنے والی مزدور تحریک کو کچلنے یا تقسیم کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان مسائل پر ابھرنے والی کوئی بھی تحریک ان کے نظام کے لیے بقا کا مسئلہ بننے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اس لیے ان مخصوص شنا ختوں کے حوالے سے مارکس وادیوں کو ایک واضح لائحہ عمل دینا ہوتا ہے اور ہر طرح کے جبر کی مخالفت کرتے ہوئے طبقاتی یکجہتی کی فضا سازگار بنانی ہوتی ہے۔ اس طرح کے مطالبات سے یکسر انکار یا غیر مشروط حمایت دونوں ہی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ وقتی مصلحتوں کے لیے ’نظریاتی لچک اور فرا خدلی ‘ کا مظاہرہ کسی فیصلہ کن مرحلے پر مزدور تحریک کو شکست و ریخت سے دوچار کر سکتا ہے۔ مزدور طبقے کی سیاسی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
آگے چل کر اس مضمون میں خالصتاً فلسفیانہ بحث کی گئی ہے۔ معروض اور موضوع، مظہر اور جوہر(حقیقت)، یکسوئی بمع امتیاز وغیرہ کو ایک دوسرے سے الگ کرنا واقعی نا ممکن ہے۔ لیکن یہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان سب باتوں کا زیرِ نظر مسئلے سے کوئی تعلق بھی ہے یا نہیں اور اگر ہے بھی تو کیا اسے درست برتا گیا ہے۔ مذکورہ مضمون کا بیانیہ یہ ہے کہ صنفی جبر مظہر ہے طبقاتی جبر کا۔ ہم پہلے بھی وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ درست ہے کہ پدر سری معاشرے کی تشکیل سماج کی طبقاتی بنتر کا ہی شاخسانہ ہے مگر یہاں پر یہ بات سمجھنا بھی بے حد ضروری ہے کہ یہ صنفی جبر ہزاروں سالوں کے ارتقا کے بعد سرمایہ دارانہ نظام تک پہنچنے تک قدرے آزادانہ حرکت اور تشخص بھی حاصل کر چکا ہے۔ جدلیات کا ہر طالبِ علم یہ سمجھتا ہے کہ ایک عمل کے محرکات کچھ بھی ہوں، اس کی اپنی حرکیات بھی ہوتی ہیں جو مکمل طور پر سماج پر منحصرہونے کے باوجود اپنی الگ شناخت بھی رکھتی ہیں۔ اسی مضمون میں آگے چل کر اس کی یکسوئی بمع امتیازکی کیٹیگری کے ذریعے درست طور پر وضاحت بھی کی گئی ہے۔ جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ معیشت سماجی ارتقا کا بنیادی محرک ہے اور اس کے اوپر سیاسی، سماجی، ثقافتی ڈھانچہ استوار ہوتا ہے، مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ معیشت ہی سب کچھ ہے بلکہ سیاست اور ثقافت وغیرہ کا معیشت کے ساتھ اور آپس میں میکانکی نہیں بلکہ جدلیاتی تعلق ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی بھی ثقافتی مظہر کو محض معاشی ڈھانچے کا اظہار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے یہ کہنا کہ صنفی جبر محض طبقاتی یعنی معاشی جبر کا مظہر ہے سراسر غلط ہو گا۔ اس کا مطلب تو یہ ہو گا کہ معاشی جبر کے خاتمے کے ذریعے باقی ہر طرح کا جبر خودبخود ختم ہو جائے گا اور ان کے خاتمے کے لیے الگ سے مخصوص اقدامات کی ضرورت نہیں پڑے گی، ظاہر ہے کہ جب حقیقت یا جوہر ہی ختم ہو جائے تو مظہر کیسے برقرار رہ سکتا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ ممکن ہے کہ معاشی جبر کے خاتمے کے باوجود قومی یا صنفی جبرموجود رہے بلکہ وہ واپس معاشی جبر کی مراجعت کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے، خود سوویت یونین کی سیاسی تاریخ اس کی بہترین مثال ہے۔
ٹراٹسکی نے بارہا وضاحت کی تھی کہ سوویت بیوروکریسی نے وہ سارے اقدامات الٹانے شروع کر دیئے تھے جو بالشویک انقلاب نے خواتین کی آزادی کو ممکن بنانے کے لیے اٹھائے تھے۔ اسی طرح ہم لینن کی پولینڈ اور دیگر مظلوم قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مارکس وادیوں کے ساتھ حقِ خود ارادیت کے سوال پر ہونے والی بحثوں کی مثال بھی لے سکتے ہیں۔ معاشی جبر کا خاتمہ یعنی پیداواری اور ملکیتی رشتوں کی تبدیلی باقی ہر طرح کے جبر کے خاتمے کی مادی بنیادیں ضروراستوار کر دیتی ہے مگر ان بنیادوں پر ہر طرح کے استحصال اور جبر سے پاک ایک حقیقی معاشرے کے قیام کے لیے مسلسل کاوشیں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح معاشی جبر کے خاتمے کے بغیر بھی خواتین کے لیے چند ایک سیاسی حقوق جیتے جا سکتے ہیں جیسا کہ طلاق یا اسقاطِ حمل وغیرہ کا حق، اسی لیے مارکس وادی اصلاحات کی نہیں بلکہ اصلاح پسندی کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان جیسی تھیو کریٹک ریاست میں اس طرح کی اصلاحات بھی مکمل نظام کی تبدیلی کے بغیر ناممکن کی حد تک مشکل دکھائی دیتی ہیں۔ مصنف کی موضوعی تجربے کے حوالے سے کی گئی یہ بات درست ہے کہ کسی بھی مخصوص جبر اور اس کے خلاف مزاحمت کو جھوٹا شعور (False Consciousness) قرار نہیں دیا جا سکتا مگر اس ضمن میں دی گئی مثال جس میں کسی مزدور کی اپنے مخصوص مالک یا انتظامیہ کے جبر کے خلاف تحریک اور کسی عورت کی کسی مخصوص مرد کے خلاف مزاحمت کو یکساں قرار دیا گیا ہے، غلط ہے کیونکہ اس میں دونوں صورتوں کے مخصوص معروضی حالات جن میں یکسانیت نہ ہونے کے برابر ہی ہے، ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔ مزید یہ کہ یہاں کسی ایک مزدورکے انفرادی اور کسی مخصوص ادارے کے مزدوروں کے اجتماعی شعور اور اسی طرح کسی ایک عورت یا عورتوں کے اجتماعی شعور کے باہمی تعلق کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ اور جہا ں تک اصل فریب نظری (Real Illusion) کی بات کی گئی ہے وہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جتنا بھی ’اصل ‘ ہو فریب نظری آخری تجزیئے میں فریب نظری (Illusion)ہی ہوتی ہے اور مارکس وادیوں کا کام فریب نظری کو تقویت دینا نہیں بلکہ عمومی شعور کے راستے سے اس فریب نظری کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے۔ یعنی ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ کسی شے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اس کے ظاہر کا ہی مشاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ اور اس کے ظاہر کے مختلف پہلو ہو سکتے ہیں جیسا کہ یہاں فٹبال کو دیکھنے کے مختلف زاویوں کی بات کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مشاہدے میں بہت سے Illusions جنم لے سکتے ہیں۔ مگر یہ سب کسی بھی شے کو جاننے کے عمل کے مخصوص مراحل ہوں گے۔ اور وہی لوگ اس فریب نظری کا شکار ہوں گے جو کسی مخصوص حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ جبکہ نظریہ جیسا کہ مارکسزم اشیا کی حقیقت کو جان چکنے کے بعد ہی اپنایا جاتا ہے اور یوں جو لوگ حقیقت کو جان چکے ہوں، ان کا فرض ہے کہ وہ ظاہریت میں الجھے ہوئے شعور کی رہنمائی کریں بجائے اس کے کہ وہ اس فریب نظری کی حوصلہ افزائی کرتے پھریں۔ یہاں حقیقت کو جان چکنے سے مراد سب کچھ جان لینا قطعاً نہیں ہے مگر زیرِ نظر معاملے کے جوہر تک رسائی ہے۔ اسی لیے فیمینزم ایک سنجیدہ فریبِ نظر ہے، اور اس فریب نظری کا شکار لوگوں سے حقیقی ہمدردی یہی ہو گی کہ ان کو جلد از جلد اس فریب نظری سے نکال باہر کیا جائے۔
آخر میں ہم اس مخصوص عملیت پسندانہ رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیں گے جس کی رو سے ’جو ہمارے ساتھ جہاں تک چل سکتا ہے چلے ‘ والے فارمولے سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ اسی فارمولے کے تحت عدلیہ آزادی تحریک میں کمیونسٹ پارٹی اور جماعتِ اسلامی اتحادی بن کر سامنے آئے تھے۔ اسی طرح فیمینسٹوں کی طرف لچک پیدا کرنے کا لازمی نتیجہ ایک کے بعد دوسرے سمجھوتے کی شکل میں ہی نکلتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے مارکس وادی مثبت امتیاز (Positive Discrimination) کی حمایت کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ یعنی تنظیمی ڈھانچوں میں خواتین کی نمائندگی کی وکالت۔ لینن نے وضاحت کی تھی کہ ایک انقلابی پارٹی سب سے پہلے نظریہ ہوتی ہے۔ اس اصول کے تحت تنظیمی ڈھانچوں میں نظریاتی معیار کی بنیاد پر ہی جمہوری مرکزیت کے اصول کا اطلاق ہونا چاہیے نہ کہ صنف یا قومیت وغیرہ کی بنیاد پر۔ اسی طرح ٹریڈ یونینز اور طلبہ یونینز میں بھی یہ رویہ تحریکوں کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بن جاتا ہے۔ البتہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں ثقافتی جبر اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہو زیادہ سے زیادہ خواتین تک رسائی کے لیے خواتین کا الگ محاذتشکیل دینا غلط نہیں ہے مگر اس صورت میں اس محاذ میں نظریاتی لچک کی گنجائش کم سے کم ہی رہ جاتی ہے اور یہ اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس محاذ میں سرگرم کارکنان طبقاتی یکجہتی پر غیر متزلزل یقین رکھتی ہوں تاکہ مزدور تحریک سے نامیاتی تعلق برقرار رکھا جا سکے اور مختلف قوموں، صنفوں اور مذاہب وغیرہ کے انقلابی کارکنوں کی مشترکہ تربیتی نشستیں باقاعدگی سے منعقد کی جاتی رہنی چاہئیں۔ کامریڈ ایاز ملک نے اپنی تمام تر بحث کا نتیجہ یہ نکالا ہے کہ ’مارکسزم کے بغیر فیمینزم وسیع تر استحصالی نظام کے ساتھ محض ایک سمجھوتہ ہے۔ لیکن فیمینزم کے بغیر مارکسزم بھی محض ایک خیالی مارکسزم ہی ہے‘۔ ہم اپنی مذکورہ بالا بحث کو ان الفاظ میں اختتام پذیر کریں گے کہ ہر مارکس وادی کا فرض ہے کہ وہ طبقاتی استحصال کی ہر شکل کے خلاف مزاحمت کے ساتھ ساتھ قومی، صنفی اور جبر کی دیگر ہر ممکنہ اشکال کے خلاف مزاحمتی تحریکوں میں بھی ہراول کا کردار ادا کرے اور اس کام کے لیے اسے قوم پرستی یا فیمینزم کی طرز کی اضافی ڈگریوں کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔