|تحریر: عمیر حسین|
عمومی طور پر انسانی فطرت کو ایک مطلق خصوصیات کا حامل سمجھا جاتا ہے جس میں چند عناصر دراصل انسان کی فطرت میں ابتدا سے ہی اس کی بناوٹ کی اصل روح سمجھے جاتے ہیں۔ انسانی سماج میں مختلف واقعات کی توضیح میں انسانی فطرت کو ضرور کہیں نہ کہیں قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایک عام دعویٰ جو انسانی فطرت کے بارے میں کیا جاتا ہے وہ اس میں لالچ کی ہمیشہ سے موجودگی ہے۔ اب جو چیز ہمیشہ سے موجود ہے اس چیز کے خاتمے کی بات کرنا بھی ظاہر سی بات ہے سراسر بے وقوفی معلوم ہوتی ہے۔ مگر کیا واقعتاً ایسا ہے؟ یا اس جھوٹے اور عام دعوے کے پیچھے کچھ اور ہی اغراض و مقاصد ہیں جو کہ طبقاتی اساس رکھتے ہیں؟ عینیت پرستی کے برعکس مادیت پسندی اور بالخصوص جدلیاتی مادیت ان تمام باتوں کا جواب دیتی ہے اور دیوار کے اس پار دیکھنا سکھاتی ہے۔ انسانی ارتقا کے اس مرحلے میں جب انسان ابھی تہذیب سے متعارف نہ تھا اس کی زندگی کا مقصد مجموعی طور پر زندہ رہنا ہی تھا۔ وہ جنگلی پیڑ پودوں اور بوٹیوں کو خوراک بنا کر اس پر گزارا کیا کرتا تھا۔ اب اس وقت کی انسانی فطرت اپنی ترکیب میں عین ویسی ہی کیسے ہوسکتی ہے جیسی ایک طبقاتی نظام میں عموماً رائج ہوتی ہے جہاں ’’کامن سینس‘‘ کو یہ بات بالکل مدلل اور منطقی معلوم ہوتی ہے کہ لالچ اور مسابقت ہی انسان کو انفرادی طور پر آگے لے جانے اور اپنی بقا قائم رکھنے کیلئے وہ محرکات فراہم کرتے ہیں جو ضروری ہیں۔ اور ہاں یہ بالکل ہے بھی درست ( طبقاتی نظام میں رہتے ہوئے) ۔
اوزار میں بہتری کیساتھ اور معروضی حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خود کو ظالم فطرت سے بچائے رکھنے کیلئے انسان نے ارتقا کے مراحل سے گزرتے ہوئے جب شکار کی طرف دھیان موڑا تو اس کے ساتھ ساتھ ہی سماج کی بناوٹ میں اور اس کے توازن میں بھی مرحلہ وار تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ یہ وقت ابھی بھی اپنی نوعیت میں غیر طبقاتی تھا۔ شکار ایک انفرادی نہیں بلکہ اشتراکی سرگرمی تھی۔ اس دور میں انسان چھوٹے چھوٹے قبائل کی صورت میں رہتے تھے اور خوراک کی تلاش میں ہر روز وہ شکار پر نکل پڑا کرتے تھے۔ زیادہ شکار کی صورت میں بچ جانے والی خوراک کو تمام انسانوں میں ضرورت کی بنیاد پر تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ اس وقت انسان کے پاس ایسی خوراک کے ذخیرہ کیلئے ڈیپ فریزر موجود نہیں تھا اور اگر خوراک ذخیرہ نہ کی جاتی تو اس کاضائع ہو جانا بہر حال واضح تھا۔ لہٰذا ضرورت سے زیادہ نہ کسی فرد کے پاس خوراک موجود ہوا کرتی تھی نہ ہی ایسے حالات موجود تھے جو ایسی سوچ کو جنم دیتے۔ انسانی ارتقا میں اگلا مرحلہ جس میں اوزار، تکنیک اور اجتماعی طور پر شعور اس مرحلہ پر آگیا کہ اب انسان نے زمین سے ایسے خوراک پیدا کرنی شروع کی جس کا ذخیرہ کیا جا سکتا تھاتو کام اور بھی آسان ہو گیا۔ اب شکار نہ ملنے اور زراعت کیلئے نامساعد حالات کی صورت میں بھی انسان کی بقا ممکن تھی کہ وہ ذخیرہ شدہ خوراک استعمال کر سکتا تھا۔ اور ایسی خوراک سے مراد جو، چنا، چاول اور گندم وغیرہ ہیں۔ اس وقت جو اہم سوال پیدا ہواوہ یہ تھا کہ اضافی ذخیرہ شدہ خوراک کس کی ملکیت ہو گی۔ اس نجی ملکیت کی بنیاد پر ظاہری بات ہے افراد خود کو نامساعد حالات کیلئے بھی تیار رکھ سکتا تھا۔ سماجی برتری بھی ممکن تھی اور بہر حال یہ استحصال کی وجہ بھی تھا۔
انسانی فطرت منجمد حقیقت نہیں بلکہ یہ تغیرات کا سلسلہ ہے جو کہ نظام اور سماجی حالات کے تابع ہے۔ قدیم اشتراکی نظام میں جہاں سب کے پاس برابر وسائل، خوراک اور آزادی تھی یہ اپنی نوعیت میں خود غرضی کی نفسیات سے آزاد تھی۔ طاقت کے حصول ، وسائل اور اجناس کے زیادہ حصول سے انسانی فطرت میں رفتہ رفتہ خود غرضی اور لالچ جیسی تبدیلیوں کا ظہور ہونے لگا۔ اسی طرح انسانی اقدار و اخلاقیات رائج الوقت معاشی نظام اور اس کے انسانی فطرت پر اثرات کا اظہار ہیں۔ ہم اس بات کو جھٹلاتے ہیں کہ انسان ابدی لالچی ہے بلکہ یہ تو بدبو دار نظام کی غلاظت کا پیمانہ ہے۔ آپ فرض کر لیں کہ کوئی آپ کا ایک گلاس پانی پی لیتا ہے یہ بات آپ کو اس قدر اضطراب میں ہر گز مبتلا نہیں کرے گی(اگر آپ تھر جیسے کسی صحرامیں مقیم نہیں ہیں) جتنا ایک گلاس کوکا کولاکسی اور کا پینا ناساز معلوم ہوگا۔ اگر کوکا کولا پانی کی طرح مفت اور آسانی سے میسر ہو اور پانی کوکا کولا کی طرح زر کی بنیاد پر خریدا جائے تو آپ کا پانی اور کوکا کولا کے بارے میں رویہ بھی الٹ ہو جائے گا۔
طبقاتی نظام کی ابتدا ذاتی ملکیت سے ہوئی جب انسان نے زائد پیداوار کو اپنی ذاتی ملکیت بنا لیا اور دوسرے انسانوں کا استحصال شروع کر دیا۔ ایسی فضا نے ’’ایک کا مقابلہ سب سے‘‘ جیسی نفسیات کو جنم دیا۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اس کی بدترین صورت ہے۔ اسی طرح اخلاقیات اور فطرت سماجی و معاشی نظام کے زیر اثر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جنگی قیدیوں کو کھا جانا غیر اخلاقی نہ تھا۔ آگے چل کر یہ غیر انسانی رویہ قرار پایا۔ مگر انسانی غلامی کو جائز سمجھا جانے لگا اور عورتوں کو جنسی درندگی کے نتیجے میں لونڈیاں بنا لیا جاتا تھا۔ اس دور کے فلسفوں یا مذاہب میں یہ تمام نفسیاتی عوامل ان کی بناوٹ اور مواد میں بھی موجود تھے۔ مثلاً ارسطو کے نزدیک غلام انسان اور عورتوں میں روح نہیں ہوتی لہٰذا وہ برابر کے انسان نہیں ہیں اور ان پر ظلم غیر اخلاقی نہیں تھا۔ اس کے بعد جاگیر داروں کا ایسے مزارع رکھنا غیر اخلاقی نہیں تھا جو اپنی شادی کی رات اپنی بیوی جاگیرداروں کو پیش کر دیتے تھے مگر جاگیرداری کی یہ اخلاقیات آج ہمیں اخلاقیات کے قریب تر بھی نہیں لگتیں۔ اپنی اساس میں یہ طبقاتی عمل ہے۔ امیر کیلئے گندے کپڑوں میں پل کے نیچے سونا، چوری کرنا ناشائستہ اور غیر اخلاقی ہے مگر بھوکے اور بے گھر غریب شخص کیلئے یہ ضروری ہے۔ اس کی واضح مثال حال ہی میں ہمیں احمد پور شرقیہ میں پیش آنے والے ہولناک واقع میں ملتی ہے جس میں سینکڑوں غریب لوگ مفت تیل ’’چوری‘‘ کرنے کی پاداش میں لقمۂ اجل بن گئے۔ اس عمل کو جہاں زرق برق لباس میں ملبوس اشرافیہ اور ان کے دلالوں (مڈل کلاس) نے محض ان ’’چوروں‘‘ کی غیر اخلاقی اور پسماندہ سوچ پر مبنی غلطی قرار دیا اور اسے انسانی لالچ سے منسوب کیا جو ایک سطحی اور سراسر جاہلانہ تشریح ہے۔ وہیں پر اگر اس واقعے کو ان جاہل نام نہاد دانشوروں کی ذہنی قے کے بجائے اس کی مادی اساس کو سمجھتے ہوئے اس واقعے کی تشریح کی جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ 3،4 لیٹر تیل سے نہ تو محلات تعمیر کیے جا سکتے تھے اور نہ ہی بحریہ ٹاؤن میں کروڑوں کی زمینیں خریدی جا سکتی تھیں بلکہ اتنے تیل کو اگر بیچا بھی جائے تو ایک جوڑا جوتا (وہ بھی سستا سا) ہی خریدا جا سکتا تھا یا پھر شاید ایک دن کیلئے گھر کا کچھ سودا سلف ہی خریدا جا سکتا تھا۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ چوری نہیں بلکہ ضرورت اور اس نظام کا جبر ہی تھا جس نے ان زندہ انسانوں کو ایک ’’کموڈیٹی‘‘ کی خاطر اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پر مجبور کر دیا۔ یہ انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ اپنی جانوں پر سمجھوتے کرتے ہوئے وہ اپنی زندگیوں کا سامان کریں۔
مالی تعلقات کی گہرائی یہ ہے کہ کسی شخص کی اہمیت کیلئے بھی ’’اس کی قیمت ملین ڈالر ہے‘‘ کا فقرہ استعمال ہوتا ہے۔ مزدوروں اور محنت کشوں کی بنائی ہوئی چیزیں انسان سے اوپر کا درجہ رکھتی ہیں۔ سرمایہ دار کو اپنی قوت محنت بیچنے کے بعد محنت کش اس برانڈ کا کپڑا نہیں لے سکتا جسے بنانے کیلئے وہ فیکٹری میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہے۔ ایک طبقاتی معاشرے میں اچھا کام دوسرے طبقے کیلئے انتہائی گھٹیا تصور کیا جاسکتا ہے۔ اچھے برے کا تصور ایک منتخب اور خاص کلاس کے مفادات کا دلال بھی ہوتا ہے۔ ’’تم چوری نہیں کرو گے‘‘ کیلئے ایسا معاشرہ ضروری ہے جس میں استحصال اور بے روزگاری موجود ہو اور خوف ہو کہ استحصال زدہ فرد چوری جیسا کام کرے گا۔’’انسان کا قتل بری روش ہے‘‘ ایسی شرط سے جڑا ہے جو اس کے معنی بدل دے۔ مثلاً ’’سوائے جب جان کا خطرہ ہو‘‘، ’دوسرا شخص بھارتی ہو، غیر مسلم ہو، شیعہ ہو، سنی ہو، یہودی ہو وغیرہ وغیرہ‘۔ ’’دھوکا دینا اچھی بات نہیں‘‘ مگر ISI کے کارندے کیلئے نہیں جو دشمن کو اپنی چال سے بے خبر رکھنے کیلئے سارا زور لگا دیتا ہے۔
رومن کیتھولک چرچ سود خوری کو حرام کہتا رہا اب ویٹیکن کا اپنا بینک ہے۔ اسلامی بینکاری بھی سب کے سامنے ہے۔ ایک امیر شخص بننے کیلئے بہت سے انسانوں کو غریب کرنا ضروری ہے جس کی واضح مثال آج کے دور میں یہ ہے کہ جتنی دولت ساڑھے 3ارب انسانوں کے پاس ہے اتنی ہی دولت صرف 8 لوگوں کے پاس ہے اور یہی امیر حضرات ہمیں انسانیت کا درس دیتے رہتے ہیں۔ خیراتی این جی اوز چلاتے ہیں اور دوسری طرف اپنی دولت بڑھانے کیلئے کسی بھی غیر انسانی کام سے نہیں گھبراتے۔ تیل کی صنعت ہو یا اسلحہ کی صنعت شام، عراق، فلسطین، افغانستان یا پاکستان میں ان کے مفادات کے تحفظ میں انسانیت کب سے سسک رہی ہے مگر جب تک جنگ منافع دے گی امن کبھی نہیں ہو سکتا اور وہ دنیا کے سامنے اپنی بربریت کا جواز اپنی ہی پیدا کردہ دہشت گردی بتاتے ہیں۔ اس منافع کے کھیل میں مذہب کا بھی ہمیشہ کی طرح خوب استعمال ہوا ہے۔ مذہب محنت کشو ں کو بغاوت سے روکنے کیلئے ضروری ہتھیار ثابت ہوا ہے۔ سرمایہ دار حج کرنے بھی اسی نیت سے جاتا ہے جس نیت سے کلب میں (مرعوب کرنے کی غرض سے اپنا سماجی و معاشی رتبہ واضح کرنے کی غرض سے)۔ ہر اس بات کو غیر اخلاقی بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو ان سرمایہ داروں کے مفادات کے منافی ہو اور پرولتاریہ میں جڑت اور شعور کی راہ ہموار کر سکے۔
لیون ٹراٹسکی کے الفاظ میں:
’’حکمران طبقہ اپنے مقاصد کو معاشرے پر لاگو کرتا ہے اور ان تمام ذرائع کو غیر اخلاقی تصور کرنے کا عادی بنا دیتا ہے جو اس کے مفاد کے متصادم ہو۔ ایسی حکمرانی جو محض طاقت کے زور پر ایک ہفتہ بھی قائم نہیں رہ سکتی اسے اخلاقیات کی ضرورت ہے۔‘‘
اخلاقیات کی اہمیت سے ہم مارکس وادی بھی انکاری نہیں ہیں مگر اس کی تاریخ ساز واقعات اور انقلابات پر فوقیت دراصل اہم سوال ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں جو اپنی آخری سسکیاں لے رہا ہے ہر اس ترقی پسند تنظیم اور سوچ کے خلاف سامراجی پروپیگنڈا شروع کر دیا جاتا ہے، کہیں مذاہب کا سہارا لے کر تو کہیں بورژوا میڈیا پر ایسے پروگرام نشر کر کے اور کہیں ایسی چیزیں یا ایسے تاثرات پیدا کر کے جو عوام کی آرا میں ہر اس عمل کو انسانی فطرت کے خلاف بنا کر پیش کرتے ہیں جو پرولتاریہ میں جڑت پیدا کرے اور ان کے اندراحساس محرومی کی حقیقی مادی وجوہات کی تشریح کرے ، اسے منظر عام پر لائے اور اس نظام کے خلاف بغاوت پر مجبور کرے جن بنیادوں پر ان کا نسلوں سے استحصال کیا جا رہا ہے اور ایک غیر طبقاتی سماج کی نوید بنے۔
جب انسان ہی ایک نہیں ہے، حالات ہی ایک سے نہیں ہیں، انسانی فطرت کس طرح سے ایک جامد مظہر ہو سکتی ہے۔ جہاں ایک طبقے کا مفاد دوسرے طبقے کا نقصان ہے، ایک طبقے کے پاس باقی ننانوے فیصد کی مشترکہ دولت سے زیادہ دھن موجود ہے تو کس طرح سے یہ بات منطقی سمجھی جا سکتی ہے کہ ہر وہ عمل غیر اخلاقی ہے جس سے باقی ننانوے فیصد بھی اس قابل ہو سکیں کہ ایک فیصد کے برابر کا معیار زندگی حاصل کر سکیں۔ اگر ہم اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے ہیں اور اس قاتل نظام کی متروکیت کو ننگا کرتے ہوئے ایک سرخ سویرے کی نوید دیتے ہیں تو یہ حکمران طبقہ ہمارے اوپر اخلاقیات پرستوں کواور اپنے پالتو دانشوروں کو چھوڑ دیتا ہے، جن کو صرف ایسی تحریک، جو کہ ان کے مالکان کے خلاف استحصال شدہ طبقے کو منظم کرنے اور اپنے حقوق کیلئے بڑے پیمانے پر جدوجہد کرنے کیلئے جگائے، کو طرح طرح کے بھدے الزام لگانے اور اس کی طاقت کو کمزور کرنے کیلئے مختلف جواز پیش کرنے کے معاوضے ملتے ہیں۔
اپنے حقوق کی جنگ لڑنا تو ان کٹھ پتلی دانشوروں اور مذہبی ٹھیکیداروں کے نزدیک اخلاقیات کے منافی ہے۔ مگر ان سے پوچھا جائے کہ اپنے منافعوں کو برقرار رکھنے کیلئے ہر سال کروڑوں ٹن خوراک کو سمندروں میں ضائع کرنا اور کروڑوں انسانوں کو بھوک سے مرنے دینا کہاں کی اخلاقیات ہے۔ مگر حکمران طبقے کی اس مروجہ جھوٹی اخلاقیات سے ہمیشہ کیلئے محنت کش طبقے کو بیوقوف نہیں رکھا جا سکتا ۔
عظیم انقلابی قائد لیون ٹراٹسکی کے الفاظ میں:
’’ہمارے سروں پر ایک نیلا آسمان ہے لیکن ہماری نفسیات پر ایک پیلا آسمان چھایا ہوا ہے۔ اس پیلے آسمان پر حکمرانوں کے مختلف کردار ناٹک کرتے رہتے ہیں۔ عوام ان میں محو رہتے ہیں۔ لیکن جب محنت کش اس پیلے آسمان کو نیچے کے بجائے اوپر سے دیکھتے ہیں تو پھر ان پر حکمرانوں کا اصل غلیظ کردار عیاں ہوتا ہے تو ان کے خلاف ایسی بغاوت پھوٹتی ہے کہ انقلاب سے یہ نظام ہی اکھاڑ دیا جاتا ہے۔‘‘