تعلیم کی مارکیٹ ویلیو

[تحریر: صبغت وائیں]
آج مورخہ 15 اکتوبر کو ایک ایسے نجی چینل پر جو کہ ’’پاکستان کا مطلب‘‘ پھر سے بدلنے کے درپے ہے، ایک پروگرام ’’لیکن!‘‘ دیکھنے کو ملا جس کا موضوع’’تعلیم‘‘ تھایا کم از کم ناظرین کو یہی بتایا گیا تھا۔ یہ وہی نجی ٹی وی چینل ہے جو بجٹ کے دنوں میں خطِ غربت سے نیچے سسک سسک کر زندگی گزارنے والے 80فیصد پاکستانی عوام کو ’’خدائی آواز‘‘ تنبیہ کرتا ہے کہ اگر انہوں نے مزید ٹیکس ادا نہ کیا تو حالت مزید ’’پتلی‘‘ ہو جائے گی۔
سب سے پہلے ایک ’’ایجوکیشنسٹ‘‘ قیصر عباس (جن کو پروگرام کی میزبان نے Success Storyکے نام سے بھی پکارا)سے پاکستان کی موجودہ تعلیمی صورتحال پر بات چیت کاآغاز کیا گیا۔ جنہوں نے آتے ہی ’’الف، بے ، پے‘‘ پر یقین رکھنے کا سبق الاپتے ہوئے اپنے آقاؤں کے مفاد میں بات شروع کی جس میں خاص نکات درج ذیل ہیں:
’’لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشی حالات ہمیں آگے بڑھنے میں مانع ہیں۔ لیکن ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘
’’یہ حالات کچھ نہیں ہوتے‘‘
’’ہم نے دراصل مناسب فیصلے نہیں کئے ہوتے، مثلاً ہمارے بچے کالج میں جا کر پنجابی، فارسی اورایجوکیشن جیسے’’بے کار‘‘ مضمون رکھ لیتے ہیں اور ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھ رہے ہیں۔ ان مضمونوں کی تو ’مارکیٹ ویلیو‘ ہی نہیں ہے۔‘‘
اس کے بعد جناب امیر العظیم صاحب کو دعوتِ کلام ملی تو جناب نے فرمایا ’’جماعت اسلامی نے انتہائی اعلیٰ معیار کے سکول بنائے ہیں جو کہ قربانی کی کھالوں سے چل رہے ہیں(یاد رہے عید نزدیک ہے)، ان میں نہایت شاندار تعلیم دی جا رہی ہے۔ ان کا رزلٹ80فی صد سے اوپر ہے۔ کئی بچے A+اور Aگریڈ میں پاس ہوتے ہیں۔‘‘
’’ہم قربانی کی کھالوں سے اتنا کام کر رہے ہیں تو اگر تمام حکومت کا خزانہ ہمارے ہاتھ لگ جائے تو کیا نتائج ہوں گے!‘‘
حکومت کی تعلیم کے معاملے میں کارکردگی پر بات کرتے ہوئے موصوف نے کچھ ایسے کلمات ادا کئے جو ’’جماعت‘‘ کی تایخ اور فلسفے کے بارے میں معمولی سا علم رکھنے والے شخص کے لئے حیران کن ہونگے ، مثلاً ’’حکومت تعلیم بہت مہنگی، پراویٹائز اور ڈی نیشنلائز کر رہی ہے جو کہ غلط اور عوام دشمن قدم ہے‘‘۔
پھر اُنہوں نے بتایا کہ’’ میں نے ایک عدد ایم اے( سیاسیات) اور ایک ایم بی اے پنجاب یونیورسٹی سے ریگولر کر رکھا ہے‘‘اور’’ جتنی ر قم میں نے اپنی اس تعلیم کے حاصل کرنے میں لگائی اس سے کہیں زیادہ میرے بچوں کی فیس کی مد میں ماہانہ جاتی ہے‘‘ جو کہ شاید آپ نے بتایا کسی Cresent سکول میں پڑھتے ہیں۔
اس کے بعد خواجہ سعد رفیق صاحب آئے جنہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے 200 ارب روپے کا بجٹ تعلیم پر لگا دیا۔جس میں پتا نہیں کتنا صرف اس تندور مالک کے بیٹے کو دیاگیا ہوگا جسے یہ میڈیاپچھلے عرصے میں ہیرو بنا کر پیش کرتا رہا ہے۔14کروڑ صرف تقریروں پرلگا دیا۔ساڑھے چھ ارب کسی ایجوکیشن فاؤنڈیشن پر ہی لگا دیا۔لیپ ٹاپ اس کے علاوہ ہیں۔باقی ڈھیر ساری تفاصیل محض لاہور میں کئے گئے ’’ایجوکیشن کے کاموں‘‘ کی بتا ئی۔ پنجاب میں 6200سکول بند کر کے250000غریب طلباء کو تعلیم کے حق سے محروم کرنے کا کارنامہ خواجہ صاحب نے بہر حال نہیں بیان کیا۔
کرپشن کے سوال پر آپ نے پاکستان کے گناہ گار عوام پر یہ راز افشاں کیا کہ ’’میں یہ نہیں کہتا کہ نہیں ہوگی، نچلا عملہ(غریب عوام) کرپٹ ہو سکتا ہے اور اس سے میرا کوئی تعلق نہیں جبکہ DCO ،EDO اور محکمہ تعلیم کے دیگر اعلیٰ افسران میں کوئی کرپشن موجود نہیں!‘‘
ایک اور ’’Success Story‘‘ صدف نقوی صاحبہ آئیں جو کہ غالباً سپر وومین ہیں، آپ دس گھنٹے یونی ورسٹی میں پڑھتی تھیں، چھ گھنٹے کام کرتی اور تین گھنٹے کپڑے سیتی تھیں۔ باقی آنے جانے، کھانے پینے اور سونے کی محترمہ کو شائد ضرورت نہیں تھی کہ یہ تو کام چور لوگوں کے کام ہیں۔
اب ہم اس تمام صورتحال کا نہایت مختصر طور پر جائزہ لیتے ہیں۔
یہ لوگ پاکستانی سماج اور اس میں تعلیم کے مسئلے کی صرف ایسی تشریح کرنا چاہتے ہیں جو کہ نہ صرف ان کے آقاؤں کے مفاد میں ہے بلکہ حکمران طبقے جس سے کہ اس چینل کے مالکان کا تعلق ہے، کے بھی مفاد میں ہے۔ اس بات کو کہ اقتدار پر ہمیشہ وہی قابض ہوتا ہے جس کے پاس دولت پیدا کرنے کے ذرائع کا قبضہ ہے، نہ صرف یہ کہ ہم نظریاتی طور پرجانتے ہیں بلکہ عملی طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ الیکشن لڑنا اور حکمرانی میں آنا کروڑوں اربوں روپے کا کھیل ہے جس کے نتیجے میں ایک فرد اس جگہ پہنچ سکتا ہے جہاں کہ وہ خود اپنے اور اپنے طبقے کے لئے ایسے قوانین بنا سکے جن کی مدد سے عوام الناس کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ اس کی دولت کے انباروں میں اضافے کے لئے بغیر تھکے اور بغیر رُکے کام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سیاستدانوں اور دولتمند اشرافیہ کا اس ایک بات پر مکمل اتفاق ہے کہ’ ’سرمایہ دارانہ جمہوریت بہترین نظام ہے، اس میں عوام کی حکومت ہوتی ہے، اور اسے ڈی ریل نہیں ہونے دینا چاہیے، اور کسی انقلاب کے نتیجے میں اس نظام کے تباہ ہوجانے کا ڈر ہمیشہ انہیں ستائے رکھتا ہے۔
اس دولتمند طبقے جسے ہم حکمران طبقہ کہتے ہیں میں تمام وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کادولت پیدا کرنے والی مشینری پر قبضہ ہے۔ دوسری طرف عوام ہیں کہ زندہ رہنے کی جدوجہد میں حکمران طبقے کی دولت میں اضافے کا باعث بنے رہنا جن کا مقدر ہے۔ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں یہاں سرمایہ داری نظام رائج ہے۔ طرزِ حکومت خواہ کوئی بھی کیوں نہ ہو،مثلاً امریکہ میں صدارتی جمہوریت، برطانیہ میں پارلیمانی جمہوریت اور کراؤن ساتھ ساتھ، سکینڈے نیویا میں فلاحی ریاست ہو یا چین کی ایک پارٹی کی حکومت،سعودی عرب کی مطلق العنان بادشاہت ہو یا پاکستان جیسی جمہوریت، سرمایہ داری ہر جگہ جلوہ افروز ہے۔ اب کوئی بھی یہ کہ سکتا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ داری۔۔۔تو عرض یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ یہاں سرمایہ داری پوری طرح سے نہیں آئی یا یوں کہہ لیجیے کہ یہاں سرمایہ داری کی ہر برائی تو بدرجہء اتم موجود ہے مگر سرمایہ داری کے ثمرات ابھی ہمیں موصول نہیں ہوئے اور نہ ہی کبھی موصول ہو سکتے ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر متروک ہو گیا ہے۔
سرمایہ داری میں پیداوار کا مقصد منافع اور شرح منافع ہوتا ہے اور آج کے دور میں بڑے پیمانے پر پیداوار مشین ہی کے ذریعے ممکن ہے۔لہٰذا ’سائنس میں ترقی‘ کا ’پیداوار میں اضافے‘ سے تعلق ایک لازمیت کا ہے اور تعلیم کے بغیر یہ ناممکن ہے۔ اس لئے یہ بات جاننا چنداں مشکل نہیں کہ حکمران طبقے عوام کی تعلیم کے لئے اتنے پریشان کیوں ہیں۔ان کو اپنے کام کاج چلانے کے لئے تعلیم یافتہ مزدوروں کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے جو کم سے کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ پیداوار دے سکیں۔سرمایہ داری کی یہی اساس انسان اور انسان کے بیچ میں مقابلہ بازی کی گھٹیا نفسیات کو جنم دیتی ہے جسے طریقہ تعلیم اور نصاب کے ذریعے پورے معاشرے پر تھونپا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ قدرِ زائد پیدا کرنے والے سپر مین قسم کے انسان ہر وقت مزدوروں کی منڈی میں موجود رہیں۔
اگر اسی نجی چینل پر چلنے والے تمام ’’الف بے پے‘‘ کے اشتہاروں پر غور کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ ہمیں ایک خاص سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔ یعنی بزنس ایڈمنسٹریشن، اکاؤنٹینسی اوراسی طرح کے دولت کو گننے اور اس کا حساب کتاب رکھنے کے شعبے۔
اگر ہم پہلی Success Story یعنی قیصر عباس سے بات شروع کریں تو سب سے پہلے آپ نے مادی حالات کا انکار کیا یعنی جو غریب ہیں محض اپنی ’’ہڈحرامی‘‘کی وجہ سے ہیں اور اس میں نہ تو مادی حالات کا قصور ہے، نہ ان کا کہ جو پورے ملک کی قومی آمدنی کو باپ کا مال سمجھ کر گھر لے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کا جوان ’’ہڈ حراموں‘‘ سے جانوروں کی طرح کام کروا کے بھی اتنا ہی دیتے ہیں جس سے کہ یہ محض زندہ رہ سکیں اوراگلے دن کام پر آسکیں۔لوگ بھوک کے ہاتھوں بچے کوٹھیوں میں گروی رکھتے ہیں اور یہ فرما رہے ہیں کہ ’’یہ حالات کُچھ نہیں ہوتے‘‘۔ کوٹھیوں والے آٹھ آٹھ سال کے بچوں سے سولہ سولہ گھنٹے گھر کے کام کرواتے ہیں اور یہ قیصر عباس جو کہ ایک Upstart Bourgiousie کا حصہ ہیں ان کی چوکیداری کرتے نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف ان کی احمقانہ سادگی تو دیکھیے، کہہ رہے ہیں کہ غریب لوگ بچوں کو تعلیم دلوائیں تو سب اچھا ہو جائے گا۔کیا ان صاحب نے کبھی گورنمنٹ کا سکول دیکھا ہے جس میں غریب کا بچہ پڑھتا ہے؟ اشرافیہ کے سکولوں کو تو چھوڑئے وہ بچہ زندگی میں کسی ’دکان سکول‘ کے بچے کا بھی مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہو گا۔ان سکولوں میں بچہ ’’کسٹمر‘‘ نہیں بلکہ رعایا ہے۔ سارے کی ساری Self Esteem اور Self Actualization ڈنڈا کرواتا ہے۔ ایک تدریسی مزدور یعنی ماسٹر اور ساٹھ بچے، Dropout جتنا زیادہ دردِ سر اتنا کم! سرکاری سکولوں کا ماحول اور نصاب بھگوڑے اور ذہنی طور پر غلام انسان ہی پیدا کرسکتا ہے۔ قیصر صاحب ایک دن وہ ڈنڈا کھا کر تو دیکھیں، صرف 5منٹ مرغا بن کے دیکھیں سب لن ترانی بھول کے باقی زندگی اللہ توبہ کریں گے۔
آگے جا کر آپ نے نہایت ہی حقارت سے پنجابی، ایجوکیشن اور فارسی کا ذکر کیا اور ان مضمونوں کی قدرِصرف کی بجائے قدرِ مبادلہ کی بات کی کہ ان کی ’’مارکیٹ ویلیو‘‘ ہی نہیں ہے۔ پنجابی سے جناب قیصر عباس کی نفرت کی وجہ تو آسانی سے سمجھ آتی ہے کہ اس کا تعلق اُن لوگوں کے ساتھ جڑا ہے جن سے یہ تعلق توڑ کر طبقہ بدلنے آئے ہیں، فارسی کا کوئی تعلق بنتا نہ تھا بس آپ نے جلد بازی میں منہ میں جو آیا کہہ دیا لیکن یہ ایجوکیشن کیوں کہا؟
جناب قیصر عباس کی باتیں سُن کر واقعی لگتا تو یہی تھا کہ آپ تعلیم کے قریب سے بھی نہیں گذرے۔ لیکن ایک طرف توآپ کو اس ’’سب سے بڑے‘‘نجی چینل نے اپنی نمائندگی کے لئے بلایا ہوا تھا اس پر طُرہ یہ کہ جناب خواجہ سعد رفیق صاحب جو کہ عام طور پر جو کم از کم سرمایہ دارانہ سیاست کے نقطہ نظر سے سمجھ داروں والی بات کرتے ہیں، نے دعوت دی کہ ہمارے پنجاب میں ساٹھ ہزار کے لگ بھگ سکول ہیں ان میں سے آپ جن کا چاہو کنٹرول سنبھال لو!
ٹھیک ہے لے لیں کنٹرول، حکومت ذرا آرام کر لے، مگر بحیثیت ایک عام شہری کے میرا یہ سوال بنتا ہے کہ یہ شخص جو کہ ایجوکیشن پڑھنے کی مخالفت کرتا ہے اس کو آپ سکول کس چکر میں دے رہے ہیں، اور دوسرا سوال اس چینل والوں سے اور جناب قیصر سے۔ جناب ! ایک منطقی سوال کا جواب دے دیں کہ اگر آپ نے ایجوکیشن جیسا گھٹیا مضمون نہیں پڑھا تو آپ ایجوکیشنسٹ کیسے ہو گئے؟ اور اس گھٹیا چھاپ کا فخریہ استعمال کیسا؟ اور اگر آپ نے ایجوکیشن پڑھا ہے اور اسی میں کام کر رہے ہیں تو پھر آپ تو Success Story ہیں،آپ نے یہ کیوں کہا کہ اس مضمون کی مارکیٹ ویلیو نہیں؟ اس کے بعد آپ کورضاکار درکار ہیں یقیناًایجوکیشن کے مضمون والے تو آپ کی نظر میں بے کار ہیں تو کیا اکاؤنٹنٹ ہی بچوں کو پڑھائیں گے؟
پڑھائی کے مضمونوں میں آپ کوکوئی اچھائی، کسی انسانی جذبے کی تسکین، تعلیم، علم یا جمالیات نظر نہیں آئی بلکہ آپ نے ان کی محض مارکیٹ ویلیوہی کو مدِ نظر رکھا لیکن اپنے منافعے کے ساتھ جڑے کام میں آپ کو رضا کار چاہیئیں۔ اس رضا کاری کی ساری کی ساری ’’مارکیٹ ویلیو‘‘ آپ اور آپ کا آقا چینل اکیلے ہی ہڑپ کرنا چاہتے ہیں؟
کچھ سوال اور بھی پیدا ہو جاتے ہیں کہ وہ بچے جن کی طرف کوئی دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا ان کی کاؤنسلنگ کون کرے گا کہ یہ مضمون رکھیں۔۔۔۔اوہ۔۔۔مگر آپ تو یہ مانتے ہی نہیں، آپ کے نزدیک تو انسان ایک روبوٹ ایک مشین ہے۔ اس کا اپنا آپ تو کچھ بھی نہیں اسے تو بس وہ پڑھنا چاہیے جس کی ’’مارکیٹ ویلیو‘‘ ہو۔ تو یہ بتا دیں آیا کہ یہ’’ مارکیٹ ویلیو‘‘ مستقل خاصیت ہے یا متغیّر؟اس کا تعیین کون کرتا ہے؟ کیا یہ اپنے مضمون کے اندر ہوتی ہے یا اس کا فیصلہ ’’کوئی اور‘‘ کرتا ہے؟ کیا اس کے کچھ اصول ہیں یا محض صوابدیدی ہے؟
میں صرف دو مزید سوالات اور ایک درخواست کے ساتھ جناب قیصر عباس سے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ پہلاسوال یہ کہ اگر ایک فرد آپ کے کہنے کے مطابق مارکیٹ ویلیو کے مطابق ایک مضمون کے BS میں داخلہ لے لیتا ہے لیکن ساڑھے تین سال گذرنے کے بعد اس کی مارکیٹ ویلیو ختم ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا مضمون لے لیتا ہے تو وہ بیچارہ کیا کرے گا؟دوسرا یہ کہ ان لاکھوں نوجوانوں کا کیا جائے جو ایسے مضامین میں گریجویٹ اور ماسٹر کئے نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر ہے ہیں جن کی مارکیٹ ویلیو نہیں ہے یا جن کی Expiry Dateگزر گئی ہے؟ اور درخواست یہ کہ موصوف اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے حکومت سے کہیں کہ فارسی، پنجابی اور ایجوکیشن سمیت دوسرے 90فیصد مضامین جن کا منڈی میں مناسب بھاؤ نہیں مل رہا، انہیں نہ صرف نصاب سے نکال دیا جائے بلکہ پڑھنے والے کو قرار واقعی سزا بھی سنائی جائے!
جناب امیرالعظیم صاحب سے بھی صرف دو سوال:
1) کیا بھٹو دور سے لیکر آج تک نیشنلائزیشن کے سب سے بڑی مخالف جماعت اسلامی نہ تھی؟ میرا مطلب ہے کہ آپ کو تو ڈی نیشنلائزیشن پر بغلیں بجانی چاہیئیں کہ حکومت پاکستان ’’راہِ راست‘‘ پر آرہی ہے۔
2) آپ کے بچوں کی اتنی فیس؟ آپ نے جماعت اسلامی کے قائم کردہ سکولوں کی اتنی تعریف کی، بجا ہے۔ لیکن آپ اپنے خود کے بچوں کو وہاں کیوں نہیں پڑھاتے؟ اعتماد نہیں کیا؟یا ڈر ہے کہ بچے اپنے ہی گھر میں کسی روز خود کش دھماکا نہ کر دیں!
آخر میں صدف نقوی Success Story کا کیا کہوں؟یہ بھی سرمایہ دار کا ایک چارہ ہے جو کہ وہ عوام کو پھانسنے کے لئے لگائے بیٹھا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ مزدور جتنی محنت سے کام کرے گا، جتنا زیادہ کام کرے گا، انتھک کام کرے گا ، لہو کے ساتھ ساتھ اپنا تو محض چولہا ہی جلا پائے گا مگر جس کے لئے وہ کام کرے گا اس کی دولت میں اسی قدر اضافے کا باعث ہو گا۔بس یہی دھوکا یہ میڈیا غریب عوام کو انہی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے ذریعے دے رہا ہے کہ 19 سے 20گھنٹے دن میں کام کرو ’’کامیابی‘‘ ملے گی۔ درحقیقت کامیابی تو ملے گی مگر صرف اس کو جو مالک ہے۔ اپنی قوت محنت بیچنے والے محنت کش کو ملے گی تو ایک درد بھری اذیت ناک اور وقت سے پہلے موت۔
کولہو کا بیل اسی آس پر تمام تر زندگی کاٹ دیتا ہے کہ وہ فاصلہ طے کر رہا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں کیرئربنانے اورپر آسائش زندگی ڈھونڈنے والوں کی کیفیت بھی زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔100میں سے 99جو سرمائے کے اس کنویں کے گرد چکر لگا لگا کر بے نام موت مر جاتے ہیں ان کا ذکر ’’الف، بے، پے‘‘ کاڈھنڈورا پیٹنے والے ان چینلوں پر نہیں ملتا۔کوئی ایک، جو دوسرے کئی لوگوں کو اس چکر میں پھنسا کے باہر نکل آتا ہے، وہ بن جاتا ہے Success Story!

متعلقہ:

سرمایہ دارانہ نظامِ تعلیم؛ جو علم پڑھایا جاتا ہے، وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے!

طبقاتی نظام تعلیم

Comments are closed.