|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|
11اپریل کو پشتون تحفظ تحریک(PTM) کے راہنما منظور پشتین نے سوشل میڈیا پر اپنا تازہ بیان جاری کیا جس نے ایک دفعہ پھر حکمرانوں پر لرزہ طاری کر دیا۔ اپنے ویڈیو پیغام میں اس نے نہ صرف اپنے اوپر لگائے جانے والے تمام الزامات کا جواب دیا بلکہ فوج کے تازہ مظالم کی روداد بھی بیان کی۔ اپنے بیان میں منظور پشتین نے کہا کہ،
’’ہمارا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے۔ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ لاپتہ افراد کو عدالت کے حوالے کیا جائے۔ اگر کوئی بے گناہ ہے تو اسے رہا کیا جائے اور کوئی گناہ گار ہے تو اسے سزا دی جائے‘‘
’’ماورائے عدالت قتل کے لئے عدالتی کمیشن بنایا جائے، اگر لاکھوں پشتون جھوٹے ہیں تو وہ عدالت میں پتہ چل جائے گا‘‘۔
یہاں واضح ہوتا ہے کہ پشتون تحفظ تحریک طالبان اور دہشت گردی کی حمایت نہیں کر رہی جیسا کہ جھوٹا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے بلکہ وہ بے گناہوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے جنہیں بغیر کسی جرم اور عدالتی کاروائی کے عتاب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عدالتوں میں پیشی کے بغیر کسی کو حبس بے جا میں رکھنا خود اس ریاست کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جس ریاست کو اپنی بنائی ہوئی عدالتوں اور قانون پر بھی اعتماد نہیں وہ کتنی کمزور اور کھوکھلی ہے یہ بتانا مشکل نہیں۔ حکمران طبقہ عدالتی کاروائیوں اور ججوں کے فیصلے کو کتنا سنجیدہ لیتا ہے وہ اس عمل سے پتہ چلتا ہے جہاں ہزاروں بے گناہوں کو عدالت میں پیش کرنا خود فوجی جرنیلوں کو غیر ضروری لگتا ہے۔
منظور پشتین نے مزید کہا کہ،
’’جب بھی ہم حق کی، انصاف کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کو توڑنے کی سازش ہے۔ جن لوگوں نے یہ بات کی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرپشتون حق مانگ رہے ہیں، پشتون انصاف مانگ رہے ہیں تو اس سے ملک ٹوٹ جائے گا۔۔یہ تو پشتونوں کو واضح پیغام ہے کہ آپ کو حق اور انصاف دینے میں ملک ٹوٹ جائے گا۔۔آپ کے ساتھ ظلم کرنے میں،آپ کے ساتھ بے انصافی کرنے میں اور آپ کے ماورائے عدالت قتل کی بنیاد پر یہ ملک بنا ہے اور یہ ملک قائم ہے۔ اگر یہ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے تو پھر یہ ملک ٹوٹ جائے گا۔اس کا مطلب واضح ہے کہ یہ ملک پھر کس بنیاد پر کھڑا ہے۔ کیا انصاف دینے سے ملک ٹوٹتا ہے؟ نہیں ۔انصاف دینے سے ظلم کا نظام ٹوٹتا ہے۔‘‘
’’اور یہاں ظالم کا ایک ٹولہ ہے جو اس ملک پر قابض ہے۔ وہ طاقت کے لحاظ سے بھی بہت طاقتور ہے، عہدے کے لحاظ سے بھی طاقتور ہے، اپنی دولت کے لحاظ سے بھی طاقتور ہے۔۔وہ زور لگائیں گے کہ انہوں نے جو آئینی طریقے سے رٹ قائم کیا ہوا ہے وہ قائم رہے‘‘۔
’’پشاور میں جو مائیں ، بہنیں اور جو بزرگ آئے تھے ان کی آواز کو خاموش کرنے کے لئے ، اس کی آواز کودبانے کے لئے اس کے مقابلے میں پاکستان زندہ باد یا اس قسم کے جلسے کئے گئے۔ یہ کس بنیاد پر یہ کرتے ہیں؟‘‘
یہاں پر منظور پشتین خود اس ریاست کے جابرانہ اور ظالمانہ کردار کی نہ صرف وضاحت کر رہا ہے بلکہ اس کے طبقاتی کردار کا بھی اظہار ہور ہا ہے جس میں نظر آتا ہے کہ یہ ریاست صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنی ہے اور اگر کوئی مظلوم آواز اٹھائے تو انہیں لگتا ہے کہ یہ ریاست ٹوٹ جائے گی۔یہاں پر محنت کشوں کو ان کے حقوق دینے کے لیے اس ریاست کو ختم کرنا ہو گا اور اس کی جگہ ایک مزدور ریاست قائم کرنی ہو گی جو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب سے ممکن ہے۔ اس کے بعد پشتین نے جنوبی وزیرستان میں جاری ریاستی مظالم کی تفصیلات بیان کیں اور فوجی آپریشنوں کی منافقت کو بے نقاب کیا۔انہوں نے کہا،
’’چند دن پہلے جنوبی وزیرستان کی تحصیل سرویکائی چک ملائی گاؤں میں ایک واقعہ ہوا۔۔یہاں پر بیت اللہ محسود گروپ کے ایک سابق کمانڈر ایوب کو کسی نے مارا ہے۔ بندوق سے۔ پھر اس کے بعد آج تک آرمی والے روزانہ ان کے گھروں میں آتے ہیں ، ان کے گھروں میں چھاپے مارتے ہیں، پورے گاؤں کو اپنے گھروں سے نکال لیااور آج ان کے سارے بچے جوان آئے ہیں اور ٹانک میں پڑے ہیں۔ اور ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آرمی والے بہت غصے میں ہیں۔ اس (ایوب)کو کس نے مارا ہے، آپ بتائیں، اس کے قاتل کو لے آئیں۔چک ملائی میں عام عوام رہتے ہیں جو چار سال IDP بننے کے بعد اپنے گھر گئے ہیں۔ ان کے پاس اسلحہ نہیں ہے، ان کے پاس چاقو تک نہیں ہے۔ میں چیلنج سے کہتا ہوں کوئی یہ ثابت کرے کہ وہاں عام عوام کے پاس اسلحہ ہے۔ وہاں لائسنس والے اسلحے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ چک ملائی میں تین قلعے ہیں، ایک قلعہ چک ملائی کے اوپر موڑ پر ہے، دوسرا دوسری چیک پوسٹ کے ساتھ ہے اور تیسرا چند سو میٹر کے فاصلے پر ہے اور اس کے علاوہ آس پاس کے پہاڑوں پر بھی ساری فوج ہے۔بیچ میں دو چیک پوسٹ بھی ہیں جہاں سے آتے جاتے چیکنگ ہوتی ہے۔ یہاں اسلحہ کس کے پاس ہے؟ آرمی کے پاس، FC کے پاس اور لیویز کے پاس ہے۔ لیویز وہاں نہیں ہے لیکن جب آتے جاتے ہیں تو ان کے پاس اسلحہ ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ وہاں عبداللہ محسود گروپ ہے اس کے پاس اسلحہ ہے۔ یہاں پر خود عبداللہ محسود کا سابق کمانڈر تھا جو فوج کے ساتھ رہتا ہے اور دوسرا یہ عبداللہ گروپ ہے۔ اسلحہ تو صرف ان کے پاس ہے۔ پھر عام عوام کو کیوں تنگ کیا جا رہا ہے؟ آج وہ بچے، بوڑھے اور نوجوان اس وقت ٹانک میں پڑے ہیں، وہ کیا کریں؟‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان اور فوج کا آپس میں کیا تعلق ہے اور عام لوگوں پر کس طرح مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔اس کے بعد پشتین نے بکاؤمیڈیا کے کردار پر روشنی ڈالی۔
’’اور یہ جو ٹی وی اینکر پرسن نے کہا ہے کہ اس وقت منظور پشتین کہاں تھا۔ میرا سوال ہے کہ اس وقت آپ کہاں ہو اور کیوں کوریج نہیں دیتے؟ کیا آپ میں اتنی جرات ہے کہ آپ وہاں پر جائیں اور وہاں پر کوریج دیں کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟کہ طالبان کا ایک سابق کمانڈر مارا جاتا ہے تو آرمی اتنی غصے میں آجاتی ہے کہ وہاں کے لوگوں کو گھروں سے نکال دیتے ہیں؟۔۔لیکن آپ نہیں کوریج دیں گے۔ آپ نے پشاور میں روتی ماؤں اور بہنوں کو کوریج نہیں دی تو ان کو کیا دیں گے۔ کون امتیازی سلوک نہیں کر رہا ہے؟ پارلیمان سے لے کر فوج اور میڈیا تک، سب دشمن بنے بیٹھے ہیں۔سب مخالف بنے بیٹھے ہیں۔ ہم نے مخالفت نہیں کی ہے، صرف اپنا حق مانگا ہے۔ پشاورمیں جو باتیں ہوئیں ان میں سے بعض جذباتی تھیں لیکن ہم اس کو ثابت کر سکتے ہیں۔ یہ واقعہ (چک ملائی)خود اس کا ثبوت ہے جو میں نے نعرے لگائے‘‘۔
’’جب آپ کے سامنے ہزاروں مائیں اور بہنیں رو رہی ہوں اور جب حق اور انصاف تلاش کر رہی ہوں اور دوسری طرف مخالف کھڑے ہوں تو آپ کے منہ سے جذباتی باتیں نکلیں گی۔جس دن سے شروع ہوئے ہیں اس دن سے کتنی نرم باتیں کر رہے ہیں لیکن کسی نے بات نہیں مانی، کسی نے بات نہیں سنی‘‘۔
منظور پشتین یہاں ’’یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے‘‘، کے نعرے کی بات کر رہا ہے جو پشاور جلسے میں اس نے اپنی تقریر کے دوران لگایا۔اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ منظور پشتین کا نعرہ حقیقت پر مبنی ہے اور کسی بھی میڈیا یا ریاستی اہلکار نے اس واقعے کی تردید نہیں کی۔ پشتین نے فوج کے طبقاتی کردار پر بھی بات کی اور عام سپاہیوں اور جرنیلوں کے درمیان حائل امارت اور غربت کی وسیع و عریض خلیج کو بھی سادہ الفاظ میں بیان کیا۔ان فوجی آپریشنوں کے بدلے میں ملنے والے ڈالر اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کی پراپرٹی تو اوپر ہی ڈکار لی جاتی ہے جبکہ عام سپاہیوں کو مرنے کے لیے خود ساختہ جنگوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔ اس نے کہا،
’’یہاں جتنے بھی لوگ ہیں خود ان جرنیلی فیصلوں کے وکٹم ہیں،خود جو عام آرمی ہے۔میں چیک پوسٹ پر آ رہا تھا تو فوجی مجھے گلے لگا رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں تو اوپر سے آرڈر آتے ہیں،آپ کوشش کریں کہ ہماری جان چھوٹ جائے۔اور ایک نے تو کہا کہ آپ نے تو ایسا کام کیا کہ وہ ہم کبھی نہیں کر سکتے۔ میں نے کہا کہ ایسا کیا کام کیا؟ اس نے کہا کہ اس سے پہلے جب کوئی آفیسر مر جاتا تھا بم دھماکے میں تو اس کو کوریج ملتی تھی، اس کی بات ہوتی تھی۔ پہلی بار ہمارا بھی آپ کی وجہ سے کوئی ذکر کر رہا ہے کہ ہمارے بھی چھ ہزار نوجوان شہید ہوئے ہیں ورنہ اتنا ہمیں کوئی کور نہیں کر رہا تھا۔تو یہ خود ان کے غلط فیصلوں کے وکٹم ہیں۔ عام لوگ ان لوگوں کے وکٹم ہیں جو ان کے وکٹم بنے ہوئے ہیں۔‘‘
اس کے بعد منظور پشتین نے اپنے دشمنوں کا پتہ بتایا اور ریاست کو واضح کیا کہ کھلے عام دھمکیاں لگانے والے افراد کو گرفتار کر کے سزا دی جائے ورنہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ دھمکیاں مکمل ریاستی پشت پناہی سے لگائی جا رہی ہیں:
’’ابھی آپ نے دیکھا ہو گا میرے ایک دوست نے شئیر کیا ہے کہ ایک بندہ ہے۔ اس کا نام ہاشم ہے کہ پتا نہیں کیا ہے، اس نے کہا ہے کہ میرے سر کی قیمت ایک کروڑ روپیہ ہے۔ اور ضمانت بھی کہ میں اس کو پناہ دوں گا(جو قتل کرے گا) ۔ اسی طرح جب سلیم جعفر نے ایک فیس بک پر پوسٹ کیا تھا تو اس کو تو پکڑ لیا لیکن ہم دیکھیں گے کہ اس کے انصاف کو وہ کیا کرتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد پشتین نے میڈیا کے کردارپر بات کی اور اپنے پرامن احتجاجی طریقہ کار کو واضح کیا۔اسی طرح بیرونی فنڈنگ کے بیہودہ الزام کو بھی مسترد کیا۔ساتھ ہی بتایا کہ جو یہ الزامات لگا رہے ہیں وہ خود بیرونی فنڈنگ پر پلنے والے آستین کے سانپ ہیں۔
’’پاکستان کی میڈیا نے ماشاللہ ثابت کر دیا کہ آپ کس کے ساتھ ہیں۔ آپ عوام کے لئے کوریج دیتے ہو، آپ عوامی میڈیا ہو، آپ کا یہ کام ہے کہ آپ عوام کے جلسوں اور عوام کے مسئلوں کو کوریج دیں،یا نہیں، آپ لوگ انصاف لینے والوں کے ساتھ ہو یا انصاف اور حق کی آواز دبانے والوں کے ساتھ ہو۔آپ نے ان ماؤں بہنوں کو تو کوریج نہیں دیا ، میری تقریر کے وقت تو 3G اور 4G بھی بند کر دیا تھا، آپ لوگ یہ روایات دیکھو ریاست کی طرف سے، مخالفانہ روایات، دشمن جیسا رروایات۔ اور ہماری طرف سے تو روڈ بھی بند نہیں کرتے، روڈ کے ایک بہت سائیڈ پر بیٹھ جاتے ہیں اور وہ بھی پرامن طریقے سے بیٹھ جاتے ہیں، ان کی مخالفت ہو رہی ہے۔ تشدد کے ذریعے بھی ہوا۔ ہمارے جوانوں کو اٹھایا گیا، اس پر تشدد بھی ہوا۔عارف وزیر کو، صادق کو اور دوسروں کو۔ شرم نہیں آتی ان لوگوں کو جو کہہ رہے تھے کہ فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے۔ ۔یہ لوگ خود جب جلسہ کرتے ہیں تو فنڈنگ کے ذریعے کرتے ہیں، مطلب جب کسی سے فنڈ ملتا ہے تو تب جلسہ کرتے ہیں تو اسلئے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ لوگ بھی اسی طرح سے کر رہے ہیں۔ مطلب وہ اپنے لیول کے مطابق، اپنی سوچ کے مطابق ہمارے بارے میں سوچتے ہیں۔وہ جو کہہ رہے ہیں کہ فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے اس کا مطلب کہ انہوں نے جتنے بھی کام کئے ہیں اس کا انہیں کہیں فنڈ ملا ہے اس لئے کئے ہیں تو وہ حیران ہیں کہ مطلب ہم فنڈنگ سے کرتے ہیں تو یہ بھی کر رہے ہوں گے۔ مطلب اپنا جو سوچ ہے ، اپنا جو کردار ہے اس کے مطابق ہمارے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔اور یہ نہیں دیکھتے کہ چھوٹے بچوں کو بھی جگہ نہیں ملتی کہ وہاں پر باکسوں میں اپنا چندہ ڈالیں۔ یار لوگ یہاں زندگی سے تنگ ہیں وہ اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہیں اور آپ پیسوں کی بات کر رہے ہیں۔ یہاں یہ لوگ حقوق کو نہیں دیکھتے کہ لوگ کیا مانگتے ہیں ، وہ بس کیڑے نکالتے ہیں مطلب کونسی وہ غلطی ہے یہ غلطی ہے۔ اور اس چیز کو نہیں کہ وہ مانگتے کیا ہیں، ان کا مسئلہ کیا ہے۔ جو ظلم ہوا ہے اس کی مخالفت نہیں کریں گے، وہ خود ظالم کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ہم پر بہت ظلم کیا جا رہا ہے، سچ میں ہمیں بہت تنگ کیا جا رہا ہے لیکن ہم پھر بھی خاموش ہیں۔ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے خود ہمیں روکنے کی کون کون سی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ہم پھر بھی پرامن طریقے سے اپنا حق مانگ رہے ہیں اور مانگ رہے ہیں۔ اور مانگیں گے انشااللہ۔‘‘
اس کے بعد پشتین نے چیک پوسٹ ختم کرنے والے مطالبات کی تفصیل بیان کی۔اس نے بتایا کہ ان چیک پوسٹوں کی موجودگی میں ہی آرمی پبلک سکول سے لے کر دیگر تمام دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں اور ان چیک پوسٹوں کا حقیقی مقصد ایک طرف عوام کو غلام بنانا ہے اور دوسری جانب دہشت گردوں کو محفوظ رستہ فراہم کرنا۔اس وقت عوامی غم و غصہ ان چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے یا پھر ان چیک پوسٹوں پر ہی ریاست کیخلاف بغاوت کا آغاز ہو جائے گا۔ پشتین نے کہاکہ،
’’یہاں ایک بات ہو رہی ہے چیک پوسٹ ختم کرنے کا مطالبہ اس چیز کا مترادف ہے کہ یہاں دہشت گرد آئیں جائیں ۔ بھائی جان! ہم نے کب کہا ہے کہ چیک پوسٹ ختم کرو۔ چیک پوسٹ پر مطلب گالی کسی کو مت دو، دھکے مت دو، لات مت مارو، خواہ مخواہ میں۔ کوئی لائن سے تھوڑا ادھر ادھر ہوا ہے مطلب اس پر آپ ظلم کرو۔ ہم نے اس چیز کی مخالفت کی ہے۔ باقی آپ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ چیک پوسٹ کا ختم کرنا اس چیز کا مترادف ہے۔تو ہم کیا سمجھیں کہ یہ چیک پوسٹ ہوتے ہوئے کوئٹہ پر دھماکے ہوئے ہیں۔ اسی چیک پوسٹ کے ہوتے ہوئے پشاور پر دھماکے ہوئے ہیں۔ یہی چیک پوسٹ تھے تو APS پر حملہ ہوا ہے۔یہی چیک پوسٹ تھے تو پشاور ایگریکلچر یونیورسٹی پر حملہ ہوا ہے۔ یہی چیک پوسٹ تھے کہ مردان یونیورسٹی پر حملہ ہوا ہے۔ ان چیک پوسٹوں کے ہوتے ہوئے پھر بھی ہم نے گلہ نہیں کیا ہے ۔ صرف یہ کہا ہے کہ آپ یہاں پر جو غلط روایت ہے وہ نہ اپناؤ۔ یہی چیک پوسٹ تھے اور سینکڑوں کی تعداد میں گاڑی آتے ہیں اور بنوں میں جیل توڑتے ہیں اور 450 لوگوں کو واپس لے کر جاتے ہیں ۔ ان چیک پوسٹوں کے ہوتے ہوئے بھی نہ آپ کا کوئی ہیلی کاپٹر اس کے پیچھے اڑتا ہے نہ آپ کا فوج اس کے پیچھے جاتا ہے۔ یہی چیک پوسٹ کے ہوتے ہوئے ڈی آئی خان جیل سے لوگ اپنے لوگوں کو جیل سے سات گاڑی میں آ جاتے ہیں اور وہ جیل سے لے جا سکتے ہیں۔ ان چیک پوسٹ کو ہم کیا سمجھیں؟ لیکن پھر بھی ہم نے یہ کہا کہ آپ چیک پوسٹ پر غلط روایت نہ اپناؤ۔ یہ باتیں جو آپ اپنی طرف سے بنا رہے ہو، وہ اپنی طرف سے سوچ لو کہ کیا کیا ہوا ہے اور کیا کیا ہو رہا ہے۔ آپ لوگ اگر حقائق کو واقعی دیکھ سکتے ہیں تو شائد آپ لوگ سوالات اٹھاتے بھی نہیں۔ لیکن پھر بھی ہم بے بس لوگ، ہم لاچار لوگ، ہم آنسو ؤں والے لوگ، ہم جس کا خون بہا ہے وہ لوگ، وہی یہ مطالبہ کر کے تھوڑا مطلب، اس خون کا حساب ہو جائے جو بہا ہے۔ اور یہ جو کہہ رہے ہیں 62ہزار سویلین مارے گئے، وہ 62 ہزار سویلین جو مارے گئے ہیں وہ تو PTM کے جلسے میں ہوتے ہیں۔ کیوں آپ کے جلسے میں وہ نہیں ہیں؟ کیونکہ وہ، وہ اپنے خون کا حساب جانتے ہیں، وہ اپنے خون کو اب بہنے نہیں دیں گے،۔ اس کے خون کا تھوڑا بھی قدر نہیں ہے کہ اس کا تفتیش ہو جائے؟ تو انشااللہ یہ جدوجہد جاری رکھیں گے ہم۔ لیکن یہ جو binary پوزیشن خود جو پیدا کر رہے ہیں، یہ شاید ہمارے لئے ، ویسے بھی ہمارے لئے اتنے مشکل حالات ہیں کوئی ایسی زندگی تو نہیں ہے کہ اور خراب ہو جائیں تو ہم ختم ہو جائیں گے ۔ لیکن شاید ان کے لئے یہ نقصان دہ ثابت ہو جائے۔‘‘
یہاں پر پشتین نے واضح کیا ہے کہ اس کے جلسوں میں لوگ کیوں آ رہے ہیں اور دوسری سیاسی پارٹیوں کے جلسوں میں کیوں نہیں جاتے۔اسی طرح مختلف تعلیمی اداروں میں ہونے والی دہشت گردی کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ تمام حقائق ریاست کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس کی دہشت گردوں کی پشت پناہی کو ثابت کرتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ان حملوں سے مقابلہ کرنے کے لیے طلبہ اور مزدور و کسان خود منظم ہوں اور ریاستی اداروں پر اعتماد نہ کیا جائے۔یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ یونین پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے یونین کے انتخابات کروائے جائیں۔ ان میں منتخب ہونے والی یونین ادارے کی تمام تر سکیورٹی کی ذمہ دار ہو اور تمام اہم فیصلے جن میں فیسوں کا اضافہ بھی شامل ہو منتخب یونین کی مرضی سے طے کیے جائیں۔اس کے علاوہ دیہاتوں اور شہروں میں منتخب عوامی کمیٹیاں قائم کی جائیں جو اپنی سکیورٹی کی ذمہ داری خود اپنے ہاتھوں میں لیں اور ریاستی اداروں اور ان کے اہلکاروں کیخلاف منظم ہوں۔ ان کمیٹیوں میں مزدوروں اور کسانوں کو بھرپور نمائندگی دی جائے جبکہ خان، ملک، وڈیرے ، سرمایہ داروں اور ریاستی اداروں کے دیگر گماشتوں پر پابندی لگائی جائے۔پشتون تحفظ تحریک کو ان عملی اقدامات کی جانب بڑھتے ہوئے اس عوامی غم و غصے کو منظم کرنا پڑے گا کیونکہ اس ریاست سے کسی بھی بہتری کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے اور نہ ہی ان کے وعدوں پریقین کرنا چاہیے۔
آخر میں پشتین نے مزید الزامات کا جواب دیا اور کہا،
’’افغانستان اور انڈیا سے کتنے پیسے ملے ہیں حالات کو خراب کرنے کے لئے؟ ہمیں کوئی پیسہ نہیں ملا ہے۔ ہم، ہمیں تو یہاں تنگ کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ساتھ تو نہ توپ ہے نہ کوئی اور چیز ہے۔ہم تو صرف پر امن طریقے سے حق مانگ رہے ہیں۔ اور یہ جو حالات خراب ہیں اس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ، تو یہ حالات خراب کر رہے ہیں ہم؟ ۔۔۔۔بہت عجیب قسم کا مذاق ہو رہا ہے۔ اور یہ جو 33 ارب ڈالر نقد لئے ہیں، وہ کوئی بات نہیں‘‘۔
یہ واضح کرتا ہے کہ یہ تحریک پر امن طریقے سے اپنے مطالبات حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن اگر یہ منظور نہیں ہوتے تو اسے لازمی طور پر عملی اقدامات کرتے ہوئے خود کو منظم کرنا ہوگا اور اپنے ساتھ جڑے محنت کش عوام کو بھی منظم کرنا ہوگا تا کہ وہ ایک سیاسی لڑائی لڑتے ہوئے اس ریاست کا مقابلہ کر سکیں۔یہ سب اسی وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب تحریک کی نظریاتی بنیادوں کو واضح کیا جائے گا اور اسے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد سے جوڑتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کی جانب بڑھا جائے گا۔اس کے لیے ملک کے دیگر محنت کش بھی اس تحریک کا ساتھ دیں گے اور یہاں سے سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے یہاں مزدور ریاست قائم کر سکیں گے۔