|تحریر: صدیق جان|
گزشتہ ہفتے ملاکنڈ یونیورسٹی انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ملاکنڈ یونیورسٹی کے طالبعلم موسیٰ خان کی روڈ حادثے میں موت واقع ہوئی تھی۔ جس کے خلاف یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک بھرپور تحریک چلائی اور امتحانات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے یونیورسٹی کو بند کر دیا۔ علاقے کے عوام اور وکلاء نے بھی اس تحریک میں طلبہ کا بھر پور ساتھ دیا۔ طلبہ کے مطالبات میں پروسٹ، چیف پراکٹر اور وائس چانسلر کی برطرفی کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں اظہار رائے کی آزادی، طلبہ یونین کی بحالی، طلبہ کی منتخب شدہ نمائندگی پر مشتمل اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کی تشکیل کے ساتھ مزید 48 مطالبات شامل تھے۔ یہ تمام تر مطالبات انتہائی اہم ہیں۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان نے بھی پہلے دن سے ہی اس طلبہ تحریک میں طلبہ کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے ان کے ہر احتجاج اور اجلاس میں شرکت کی۔
یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے ایک سٹوڈنٹ جرگہ بنایا گیا تھا جو کہ سیاسی پارٹیوں کے طلبہ ونگ پر مشتمل تھا۔ اس سٹوڈنٹ جرگہ میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن، اسلامی جمعیت طلبہ، انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن، پختونخو اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پیپل سٹوڈنٹس فیڈریشن سمیت کچھ اور طلبہ فیڈریشنز بھی شامل تھیں۔ چونکہ موسیٰ خان پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کا جنرل سیکرٹری تھا اس لیے مین سٹیک ہولڈر بھی پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن تھا۔ اسی طرح ایک علاقائی جرگہ بھی بنایا گیا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور علاقے کے نام نہاد مقدس لوگ شامل تھے۔
طلبہ کی یہ تحریک ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی تھی جو کہ اپنے تمام تر مطالبات منوا سکتی تھی لیکن عین اسی وقت مختلف طلبہ فیڈریشنز پر مشتمل جرگہ اور علاقائی جرگہ نے مذاکرات کیے اور اس تحریک کے پیٹ میں چھرا گھونپتے ہوئے بدترین غداری کی اور کسی بھی مطالبے کی منظوری کے بغیر یونیورسٹی کے طلبہ کی رائے اور مرضی کے برعکس اس تحریک کو ختم کر دیا۔
جنرل ضیاء الحق نے طلبہ یونین پر پابندی لگائی تھی جبکہ اس سے پہلے طلبہ یونینز کے باقاعدہ الیکشن ہوتے تھے اور طلبہ کی جو یونین الیکشن جیت جاتی وہ یونیورسٹی کے تمام تر فیصلوں میں طلبہ کی نمائندگی کرتی تھی۔ اس طرح طلبہ کی منتخب شدہ یونین طلبہ کے حقوق کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ باقی طلبہ کے آگے جوابدہ بھی ہوتی تھی۔ لیکن طلبہ یونین پر پابندی کے بعد تعلیمی اداروں پر سیاسی پارٹیوں سے وابستہ طلبہ فیڈریشنز مسلط کی گئیں۔
یہ فیڈریشنز یونیورسٹیوں کے اندر غنڈی گردی، منشیات کے فروغ، قبضہ گیری اور دوسرے جرائم میں ملوث رہی ہیں اور جب بھی کسی تعلیمی ادارے میں مختلف مسائل کے گرد طلبہ تحریک ابھرتی ہے تو سیاسی پارٹیوں کی پیدا کردہ انہیں فیڈریشنز نے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی پشت پناہی میں طلبہ دشمن کردار ادا کرتے ہوئے ان تحریکوں کو ناکام کر دیا اور اس کی آڑ میں اپنے شوکاز، شاٹ اٹنڈنس اور اسی قسم کے اپنے ذاتی مفادات حاصل کیے اور اپنے ذاتی مسائل حل کروائے۔
ان فیڈریشنز نے ہمیشہ سے طلبہ کے ساتھ غداریاں کی ہیں۔ اس لیے ان فیڈریشنز کے غلیظ طلبہ دشمن کردار کی وجہ سے عام طلبہ سیاست سے بدظن ہو گئے اور ان کی نظر میں طلبہ سیاست غنڈہ گردی، قبضہ گری، اسلحہ گردی، منشیات اور دوسرے جرائم کا سمبل بن گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ طلبہ سیاست کو جتنا نقصان ضیاء الحق نے پہنچایا ہے اس سے کہیں زیادہ حکمران طبقے کی سیاسی پارٹیوں اور ان کی پیدا کردہ طلبہ فیڈریشنز نے پہنچایاہے۔
ملاکنڈ یونیورسٹی کی طلبہ کی تحریک کی حاصلات
اگرچہ سٹوڈنٹس جرگہ اور علاقائی جرگہ کی غداری کی وجہ سے طلبہ کے فوری مطالبات تو پورے نہیں ہو سکے لیکن طلبہ کو اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ اصل طاقت طلبہ کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اپنی طاقت کو پہچاننا بھی طلبہ کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگر طلبہ متحد ہو کر اپنے حق کے لیے لڑیں تو اپنے حقوق جیتنے میں دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ اس لیے طلبہ کو کسی سیاسی پارٹی یا جرگے کے بجائے خود اپنی طاقت اور محنت کشوں کی طاقت پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ اپنی طاقت کا ادراک حاصل کرنا طلبہ کی کامیابی کا ابھی پہلا قدم ہے، طلبہ حقیقی طور پر تبھی کامیاب ہو سکیں گے جب وہ اپنے مسائل کے خاتمے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اپنی طاقت کو بروئے کار لائیں گے اور اپنی اس لڑائی میں محنت کشوں کی بھی حمایت حاصل کرنے میں کا میاب ہو سکیں گے۔
ملاکنڈ یونیورسٹی کی طلبہ تحریک کے اسباق
اس وقت تعلیمی ادارے صرف پیسے بنانے والی فیکٹریاں بن چکے ہیں جو بیروزگاروں کی ایک فوج تیار کر رہے ہیں۔ تعلیم پاکستان میں سب سے بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ آئے روز فیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح طلبہ کو ہراسمنٹ، رہائش سمیت دیگر کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ہر یونیورسٹی کے طلبہ میں انتظامیہ کے خلاف غم و غصہ موجود ہے جو کوئی پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے اپنا اظہار نہیں کر پا رہا۔
طلبہ میں پنپتے اس غصے کے خوف سے اور اپنی کرپشن اور لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لیے ہر یونیورسٹی کی انتظامیہ طلبہ کو ڈسپلن اور سیکیورٹی کے نام پر ڈرا دھمکا کے رکھتی ہے۔ اس کے جواب میں طلبہ کو بھی منظم ہو کر
جدوجہد کرنا ہو گی۔ اس کے لیے طلبہ کو چاہیے کہ یونیورسٹی میں باقاعدہ الیکشن منعقد کر کے یونیورسٹی کے ہر ایک ڈیپارٹمنٹ میں طلبہ کی ایکشن کمیٹیاں بنانی ہوں گی اور ان ایکشن کمیٹیوں میں طلبہ کی جمہوری طریقے سے منتخب شدہ نمائندگی موجود ہو گی۔طلبہ کے منتخب شدہ نمائندگان میں اگر کوئی طلبہ کے اجتماعی مفادات سے غداری کرتا نظر آئے تو طلبہ فوراً اسے اپنی نمائندگی سے دستبردار کر دیں۔
یونیورسٹیوں میں سخت ڈسپلن قائم رکھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت طلبہ کی اکثریت سیاسی بحثوں میں شامل ہو رہی ہے اور حکمرانوں کو خوف ہے کہ کہیں ان تعلیمی اداروں سے ان کے ظلم و جبر اور لوٹ مار کے خلاف طلبہ کی کوئی بغاوت نہ جنم لے لے۔ ابھی حال ہی میں ’آزاد‘ کشمیر کے نوجوانوں کی عظیم الشان اور کامیاب جدوجہد نے حکمرانوں کو اور بھی خوفزدہ کر دیا ہے۔
ہم کمیونسٹ، ملاکنڈ یونیورسٹی سمیت ملک میں موجود تمام یونیورسٹیوں کے طلبہ سے اپیل کرتے ہیں کہ محض سوشل میڈیا پر اپنا غصہ نکالنا چھوڑیں اور عملی انقلابی سیاسی جدوجہد میں شامل ہوں۔ ملکی معاشی بحران مستقبل میں مزید شدت اختیار کرے گا جس کے نتیجے میں فیسوں میں اضافے سمیت بیروزگاری میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس لیے آج اگر جینا ہے تو پھر لڑنا ہو گا! تمام مسائل کا مستقل حل سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
لہٰذا آج ہمیں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کرنی ہو گی۔ مگر یہ لڑائی محض حکمرانوں کے خلاف نفرت کے جذبے تک محدود رہ کر کامیابی سے نہیں لڑی جا سکتی۔ آج ہمیں سائنسی اور انقلابی نظریات کی ضرورت ہے جو ہمیں موجودہ نظام کو سمجھنے اور اسے تبدیل کرنے کی جدوجہد میں مدد فراہم کریں۔ یہ نظریات صرف ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی ہی فراہم کر سکتی ہے۔ ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی ہی آج طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں کو آپس میں متحد کر سکتی ہے اور مزدوروں کی قیادت میں ایک سوشلسٹ انقلاب کو کامیاب بنا سکتی ہے۔
جینا ہے تو، لڑنا ہو گا!