|تحریر: جارج مارٹن: ترجمہ اختر منیر| 21مئی 2018ء
نکولس مادورو ایک مرتبہ پھر اتوار کے روز 20 مئی کو وینزویلا کے صدارتی انتخابات میں اگلی مدت کے لیے صدر منتخب ہو گیا ہے۔ رجعتی اپوزیشن کی اکثریت، جن کو واشنگٹن اور برسلز کی بھرپور حمایت حاصل تھی، نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جس کے وجہ سے بڑے شہروں کے درمیانے اور امیر طبقے کے علاقوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح بہت کم رہی۔ اُن کا الیکشن منسوخ کرنے کا مطالبہ خطے کے دائیں بازو کے حکمرانوں کی جانب سے بار بار دہرایا جاتا رہا۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ محنت کشوں اور غریبوں کے علاقوں میں بہت سے لوگ اس ہٹ دھرمی پر مبنی سامراجی مداخلت کو مسترد کرنے کی غرض سے ووٹ دینے گھروں سے نکلے۔ لیکن ان کی بھی ووٹ ڈالنے کی شرح پچھلے انتخابات کے مقابلے میں خاصی کم تھی۔ شدید معاشی بحران لوگوں کے ذہنوں پر حاوی ہے اور بہت سے لوگ حکومت کی اس پر قابو پانے کی صلاحیت کو لے کر شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
to read this article in English, click here
پولنگ ختم ہونے کے کچھ گھنٹے بعد نیشنل الیکٹورل کونسل نے صدارتی انتخابات کے ابتدائی سرکاری نتائج کا اعلان کر دیا۔ 92 فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد تک 8603336 ووٹ گنے گئے (46.01 فیصد جو گنتی مکمل ہونے تک 48 فیصد ہونے کی امید ہے) جن میں سے 5823728 لوگوں نے مادورو کوووٹ دیا (67 فیصد)، 1820552 نے اپوزیشن کے امیدوار ہنری فالکن کو ووٹ دیا (21 فیصد)، 925042 نے ایونجیلیکل (عیسائی) پادری برٹوکی کو ووٹ دیا (10 فیصد) اور 34614 لوگوں نے قئیجاڈا کو ووٹ دیا جو اتنا مشہور نہیں ہے اور خود کو ایک اختلاف رکھنے والے شاویزی امیدوار کے طور ہر پیش کرتا ہے۔
عالمی میڈیا نے دعوے کیے کہ انتخابات میں ’’بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں‘‘ (BBC) تھیں، مادورو نے ’’اپنے آپ کو دوبارہ چن لیا‘‘ (Elpais) اور ’’یہ انتخابات ڈھونگ پر مبنی تھے‘‘ (فنانشل ٹائمز)۔ مگر ان دعووں کے برعکس انتخابات ساز گار حالات میں ہوئے، کسی قسم کا کوئی حادثہ نہیں ہوا اور سپین کے سابق صدر زپاتیرو سمیت دوسرے عالمی مبصرین کی موجودگی میں ہوئے۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ بھی اپنے مبصرین بھیجیں مگر انہوں نے یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اب وہ یہ دعوے کریں گے کہ ’’ان گنت بے ضابطگیاں‘‘ موجود تھیں، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ وہاں پر موجود ہی نہیں تھے۔
دائیں بازو کی منافقت
انتخابات روکنے کی رجعتی اپوزیشن اور سامراج کی سر توڑ کوشش کے باوجود انتخابات منعقد ہوئے۔ جس دن انتخابات کا اعلان ہوا اسی دن امریکہ اور یورپی یونین نے ان کی قانونی حیثیت ماننے سے انکار کر دیا اور انہیں معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس میں لیما گروپ کے ممالک نے ان کا بھرپور ساتھ دیا(لاطینی امریکہ کی دائیں بازو کی حکومتوں کا ایک عارضی سا گروہ جو اس حالت میں امریکی سامراج کی پالیسوں کے حق میں بیان دینے کے لیے بنایا گیا ہے کہ جب امریکہ کو خطے کے ملکوں کی دوسری تنظیموں اور اداروں میں اکثریت حاصل نہ ہو پائے)۔ ارجنٹینا، برازیل، کولمبیا، میکسیکو اور ہونڈورس کے جمہوریت کو لے کر تحفظات صریحاً منافقت پر مبنی ہیں۔ یہ سب حکومتیں، ارجنٹینا میں مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکن مالڈوناڈو کے ماورائے عدالت قتل پر، کولمبیا میں لاکھوں لوگوں کی گمشدگی اور جبری ہجرت پر، میکسیکو میں ایٹزناپا کے 43 طالبعلموں کی گمشدگی میں ریاست کے کردار پر اور کچھ ماہ پہلے ہونڈورس میں ہونے والے کھلے الیکشن فراڈ پر آنکھیں بند کیے رہی تھیں۔
وینزویلا کی رجعتی اپوزیشن جماعتیں جو آج کل نام نہاد ’آزاد وینزویلا وسیع محاذ (FAVL)‘ کے نام سے اکٹھی ہیں، انہوں نے پچھلے سال چھ ماہ انتخابات کروانے کے مطالبے کو لے کر پر تشدد اور دہشت گردی پر مبنی فسادات کیے اور جب انتخابات کا اعلان ہوا تو انہوں نے بائیکاٹ کر دیا۔ یہ انتخابات ٹھیک اس واقعے کے ایک سال بعد ہوئے جس میں ان خواتین و حضرات کے حمایتی پر تشدد مجمعے نے ایک گہری رنگت کے شاویزی اورلینڈو فگویرا کو آگے لگا دی جس سے وہ بعد میں چل بسا۔ اس واقعے سے ہی ہمیں وہ سب پتہ چلتا ہے جو ہمیں جاننے کی ضرورت ہے کہ وینزویلا کی اپوزیشن رجعتی، اشرافیہ نواز، سامراجی اور نسل پرست کردار کی حامل ہے۔
انتخابات کا ہونا ان تمام قوتوں کے لیے واضح جواب ہے۔ پچھلے سال وینزویلا کی اپوزیشن نے شدید حملہ کیا تھا مگر اب وہ ٹوٹ پھوٹ اور مایوسی کا شکار ہیں۔ 20 مئی کو انتخابات کے دوران ان کی لوگوں کا اشتعال دلا کر سڑکوں پر لانے کے تمام کوششیں بری طرح ناکام ہو گئیں۔ انتخابات کا دن قریب آتے ہی اپوزیشن لیڈروں کی ایک بڑی تعداد FAVL سے علیحدگی اختیار کر کے ہنری فیلکن کو ووٹ دینے کی حمایت کرنے لگی، جسے اس کی اپنی پارٹی کے علاوہ MAS اور COPEI کی بھی حمایت حاصل تھی۔
یہ سب کسی کام نہ آ سکا۔ بڑے شہروں کے امیر علاقوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح انتہائی کم تھی اور یہ علاقے دائیں بازو کی اپوزیشن کے روایتی گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ ان علاقوں کے پولنگ سٹیشنز پر لوگوں کی قطاریں نہیں تھیں اور بہت سے تو سارا دن ویران پڑے رہے۔
ہینری فیلکن نے وینزویلا کی اپوزیشن کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے دھاندلی کا رونا رویا اور بے ضابطگی کے 900 واقعات کی بات کی اور کہا کہ وہ نتائج کو تسلیم نہیں کرتا۔ ساتھ ہی اس نے اکتوبر میں نئے انتخابات کا مطالبہ بھی سامنے رکھ دیا۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے۔ یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ وہ اپوزیشن کے حمایتیوں کو اپنے حق میں باہر نہیں لا سکا جن کی وسیع اکثریت واشنگٹن سے ہدایت کے مطابق دی گئی FAVL کی بائیکاٹ کی کال کی پیروی کر رہی تھی۔
محنت کشوں اور غریبوں کا سامراج مخالف ووٹ
محنت کشوں اور غریبوں کے علاقوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح زیادہ تھی جو بولیوارین انقلاب کے روایتی گڑھ ہیں۔ بہت سوں نے سامراج اور اپوزیشن کی طرف سے الیکشن معطل کرنے کی بدنام مہم کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ووٹ دیا۔ بہت سوں نے انقلاب کی بچی کھچی حاصلات کی حفاظت کے لیے بھی ووٹ دیا۔ لوگوں کو اس بات کا واضح ادراک ہے کہ اگر اپوزیشن الیکشن جیت جاتی تو محنت کشوں اور غریبوں کو IMF سے متاثر ’’درستگی‘‘ پروگرام کے تحت بحران کی پوری قیمت چکانا پڑتی۔ پھر بھی وہ علاقے جو شاویزیوں کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں ان میں ووٹ ڈالنے کی شرح معمول سے کم تھی، انتخابات کی مکمل تفصیل ابھی جاری نہیں کی گئی مگر پھر بھی کافی شواہد موجود ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بہت سے پولنگ سٹیشنز پر لوگ قطاروں میں موجود تھے مگر مغربی میڈیا نے جان بوجھ کر انہیں نظر انداز کیا، مگر یہ قطاریں پچھلے انتخابات کی طرح طویل اور مستقل نہیں تھیں۔ یہ سب PSUV اور ریاست کی شاویزی ووٹرز کو باہر نکالنے سر توڑ کوششوں کے باوجود ہوا۔ ماڈورو کو کل ووٹوں کا 30.5 فیصد ملا جو کہ اسے 2013ء میں پہلی بار منتخب ہونے پر ملنے والے 40 فیصد ووٹوں سے کم ہے۔ یہ 15 لاکھ ووٹوں کا نقصان ہے جبکہ رائے شماری میں 20 لاکھ ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے۔
ابھی بھی کٹر شاویزی ووٹر موجود ہیں جو ہر الیکشن میں بولیوارین انقلاب کے ساتھ وفاداری اور شاویز کے پیش کردہ سوشلزم کی خاطر جدوجہد کی غرض سے ووٹ ڈالتے ہیں۔ مگر ان لوگوں کے لیے دوسری پرتوں کو تحرک دینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ شاویزی تحریک کے بائیں بازو کی جانب سے قیادت اور بیوروکریسی پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ وہ معاشی حالات سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں اور عوام کے انقلابی اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بھی بنے ہوئے ہیں۔
اختلاف کی سب سے بڑی وجہ دیہی علاقوں کے کمیونز (عوامی پنچائیتیں) ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں بہت سے ایسے واقعات پیش آئے جن میں کسانوں کے گروہوں نے سرکاری طور پر ملنے والی زمینوں پر اپنے کمیونز بنائے تو انھیں وہاں سے بے دخل کر دیا گیا۔ یہ بے دخلی مقامی پولیس، نیشنل گارڈز، مقامی ججوں اور قومی ادارہ برائے زمین کے اہلکاروں کی جانب سے زمینداروں کے حق میں عمل میں لائی گئی اور بہت سے موقعوں پر ان کے ریاستی اہلکاروں کے ساتھ سیاسی اور کاروباری تعلقات بھی تھے۔
انتخابی مہم کے دوران اعلیٰ سرکاری حکام نے اس رجحان کو رد کرنے کے لئے مداخلت کی اور یہاں تک کہ مادورو نے وعدہ کیا کہ اس طرح کی اور کوئی بے دخلی عمل میں نہیں لائی جائے گی۔ اہم انقلابی کسان تنظیموں میں سے ایک، CRBZ نے مادورو کو ووٹ دینے کا اعلان کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ بیوروکریسی اور ریاستی مشینری کے متعلق اپنی تمام تنقید کو برقرار رکھا۔ ایسا ہی ایل میزل کمیون لارا میں ہوا (تصویر دیکھیں)، جہاں ریاست نے اب تک دسمبر میں ہونے والے مقامی کونسل کے انتخاب میں سرکاری PSUV کے امیدوار کے خلاف کمیون کے ترجمان اینجل پراڈو کی کامیابی کو تسلیم نہیں کیا۔
بی بی سی منڈو کی ویب سائٹ پر ایک مختصر انٹرویو میں بہت سے شاویزی حامیوں کے خیالات کی ترجمانی موجود ہے:
’’ہم اسے (مادورو کو) اعتماد کا ایک ووٹ دینے جا رہے ہیں۔ اگر یہ کار آمد ثابت نہ ہوا تو پھر سب ختم ہے۔ میں (انتخابات میں) پر امید ہو کر جا رہا ہوں، لیکن اگر ملک کے حالات بہتر نہ ہوئے تو لوگ سڑکوں کا رخ کریں گے۔ میں مادورو کو ووٹ دوں گا کیونکہ اس نے زبان دی ہے کہ حالات بہتر ہوں گے، اگر وہ سمجھتا ہے کہ زبان کی کوئی اہمیت ہے، تو اسے اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے۔‘‘
انقلابی متبادل۔۔۔ بحران کا واحد حل
مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ماضی کو دیکھا جائے تو مادورو اور بولیوار قیادت اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لئے ضروری اقدامات کو لاگو کرنے کے قابل ہی نہیں ہے یا وہ یہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ بحران کا سامنے سے مقابلہ کرتے ہوئے سرمایہ داروں، بینکاروں اور زمینداروں کے اثاثے ضبط کرنے کے بجائے حکومت مسلسل ان سے سرمایہ کاری کی اپیل کر رہی ہے۔ ’’معاشی جنگ‘‘ میں ان کے کردار پر تنقید کرنے کے ساتھ حکومت انہیں قرضے اور ڈالروں تک رسائی بھی دے رہی ہے۔ انتخابی کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں مادورو نے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن سے اپیل کی کہ وہ مذاکرات کے میز پر واپس آئیں، یہی اپیل اس نے امریکی سامراج سے بھی کی۔
آنے والے کچھ ہفتوں میں وینزویلا کی حکومت کے خلاف سامراجی مہم میں شدت آئے گی جو پابندیوں میں اضافے کی شکل میں نظر آئے گی۔ امریکہ کے نائب وزیر خارجہ جان سلیون نے ارجنٹینا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ تیل پر پابندیوں کا سوچ رہا ہے جس سے معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ انہیں امید ہے کہ وہ بحران میں اضافہ کر کے ملک کی معیشت کا گلہ گھونٹ دیں گے جس سے حکومت گر جائے گی۔
بولیوارین عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ گہرا معاشی بحران ہو گا جو شدید افراط زر کی شکل میں اپنا اظہار کر رہا ہے جس سے قوت خرید میں کمی آرہی ہے اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ مادورو نے انتخابات میں کامیابی کے بعد ان مسائل سے نمٹنے اور ’’معاشی خوشحالی‘‘ لانے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ وعدے وفا نہیں ہو پائیں گے اور محنت کش اور غریب عوام حقیقی متبادل کی تلاش پر مجبور ہوں گے جو سامراج سے ٹکرانے کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل بھی حل کر سکے۔
درحقیقت صرف دو ہی ممکنہ حل ہیں۔ ایک جس کی وکالت اپوزیشن کے تمام دھڑے کرتے ہیں (اور جسے سامراج کا آشیرباد بھی حاصل ہے)، وہ ایک ظالمانہ ایڈجسٹمنٹ منصوبہ ہے جس میں حکومتی اور سماجی اخراجات پر کٹوتی، سبسیڈیز کا خاتمہ، سبسڈائزڈ کھانے کے پارسلز کا خاتمہ، حکومتی ملکیت میں موجود کمپنیوں اور قدرتی وسائل کی نجکاری اور سرکاری اور نجی شعبے کی کمپنیوں میں بڑے پیمانے پر ملازمین کو کام سے نکالنا شامل ہے۔ یہ محنت کش عوام کے لیے کسی آفت سے کم نہ ہو گا اور ساتھ ہی ان کے جمہوری حقوق بھی غصب کر لیے جائیں گے۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ معیشت کے تمام بنیادی ستونوں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے عوامی ملکیت میں لے لیا جائے اور انہیں لوگوں کے فائدے کے کیے استعمال کیا جائے نہ کہ مٹھی بھر طفیلیوں کے لیے جو اشرافیہ کہلاتے ہیں۔
مادورو حکومت کی حکمران طبقے کو خوش کرنے کی پالیسی، جس میں حکمران طبقے کے لیے رعایتیں بڑھتی جا رہی ہیں، صرف مایوسی، شکوک و شبہات، بحران میں اضافے اور حتمی طور پر ایک ظالمانہ ایڈجسٹمنٹ پلان کی طرف لے جانے کا باعث بن رہی ہے جو محنت کشوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔
ان حالات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے انقلابی دستے کو حتمی منزل کی طرف بڑھنا ہو گا، ایک انقلابی سوشلسٹ متبادل کی جانب، جو محنت کش عوام کے مسائل کا حل کرے گا اور انہی کے فائدے کے لیے ہوگا۔ یہی وقت کی ضرورت ہے