|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان |
گزشتہ ہفتے کے دوران چار ڈرائیوروں نے پاک ایران سرحد پر فاقہ کشی کی وجہ سے اپنی جان گنوا دی۔ یہ ڈرائیور پاک ایران سرحد سے ایندھن کی آمدورفت کرنے والوں میں شامل تھے۔ یہ ڈرائیور دس روز سے زیادہ عرصے سے بغیر خوراک اور پانی کے بارڈر پر پھنسے ہوئے تھے۔ اس وقت قریب 12 ہزار زمباد، ایرانی گاڑی جو ایرانی ایندھن کو پاکستان منتقل کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے، اپنے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں سمیت بلوچستان کے مکران ڈویژن میں مختلف کراسنگ پوائنٹس پر پھنسے ہوئے ہیں۔ علاقے سے آنے والی تصاویر میں ڈرائیوروں کو پانی کی تلاش میں کنویں کھودتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اوپر سے اس علاقے میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو یقینا خوراک اور پانی کی عدم دستیابی کے ساتھ اذیت ناک ہے۔
پریشانی اس وقت شروع ہوئی جب زمباد کی ایک مخصوص تعداد میں ہر روز ایندھن کی آمدورفت کے لیے ٹوکن دینے شروع ہوگئے، اور مزید سیکورٹی چوکیوں کی تعمیر کی وجہ سے ایک ہی زمباد گاڑی کے سفر میں 5 سے 10 دنوں کا اضافہ ہوا۔ گزشتہ ماہ ٹوکن سسٹم کے آغاز کے ساتھ ہی راستے میں چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں اور پنکچر مینڈنگ پوائنٹس کو بھی حکام کے ذریعے بند کردیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر ہر کراسنگ پوائنٹ پر 2 ہزار زمباد کو ایک دن میں ایک ٹوکن مل سکتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعداد نصف رہ گئی اور اب صرف 400 زمباد روزانہ گزر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں دوسروں کو کافی دیر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ٹوکن صرف ایک بار استعمال ہوسکتے ہیں اور اگلے ٹرپ کے لئے نئی درخواست دینی پڑتی ہے۔ ہوٹلوں اور پنکچر مینڈنگ پوائنٹس کے بند ہونے پر ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کے لیے کھانے پینے کی اشیاء ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔
ٹوکن نظام، چوکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، ہوٹلوں و پنکچر مینڈنگ پوائنٹس کی بندش اور اب ڈرائیوروں کی ہلاکت کے خلاف ضلع کیچ میں مظاہرے ہوئے۔ ڈان میڈیا سے بات کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے میں تربت شہر کا ایک ڈرائیور فضل بلوچ بھی شامل تھا، جس کی تنخواہ 18 ہزار روپے ہے۔ فضل بلوچ کے مطابق انہوں نے 30 مارچ کو ضلع کیچ میں ایک سرحدی گزرگاہ کے لئے اپنا گھر چھوڑ دیا۔ اس کا کھانا اور پانی صرف کچھ دن تک جاری رہا اور 15 اپریل کو اس کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ چھوٹے ریستوران بند ہونے کی وجہ سے اس کے کنڈیکٹر اسے کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں دے سکے۔
شہید فدا چوک تربت میں ہونے والے مظاہروں کے دوران مظاہرین نے ریاست کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ کسی سیاسی ایجنڈے کے تحت جمع نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ اپنے معاشی حقوق کے مطالبے کر رہے ہیں جن میں اپنے اہل خانہ کے لئے زندگی گزارنے کے ذرائع بھی شامل ہیں۔ یقینا یہ ایک بنیادی جمہوری مطالبہ ہے۔ اس کی بجائے ریاست نے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کی حالت زار کو نظرانداز کیا ہے اور اب انہیں سرحد پار سے گزرنے والے مقامات پر فاقہ کشی سے موت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مظاہرین نے حکام کو یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ غیر رسمی شعبے سے منسلک لاکھوں کی تعداد میں بلوچستان کے بے روزگار نوجوان پاک ایران سرحد کے ساتھ تجارت ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے، اور وہ کئی دہائیوں سے اس کا حصہ رہے ہیں۔ پاکستان کا مین سٹریم میڈیا ان مظاہروں پر بالکل خاموشی سادھے ہوئے ہے۔ یہاں تک کہ فاقہ کشی بھی میڈیا کی توجہ ان غریب محنت کشوں کی حالت کی طرف مبذول نہیں کر سکتی!
دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبہ بلوچستان میں پاک ایران سرحدں کے مابین سرحدی تجارت کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ بلوچستان میں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ معاشی طور پر ایران کے ساتھ تجارت پر منحصر ہے۔ لیکن ایران کے ساتھ بارڈر پر باڑ لگنے سے ان سے ان کا واحد ذریعہ معاش بھی چھینا جا چکا ہے۔
ڈان اخبار سے بات کرتے ہوئے ضلع کیچ میں مقیم گلزار دوست بلوچ (بارڈر ٹریڈ یونین کے جنرل سکریٹری) کا کہنا تھا کہ اس دفعہ وہ تابوتوں کے ہمراہ ضلع کیچ میں سرحد سے اپنے آبائی علاقوں میں گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان بدترین حالات میں بھی محنت کشوں کو اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیے بارڈر پر جانا پڑ رہا ہے۔ ”تیل ڈیزل ٹرانسپورٹرز کی صورتحال مختلف چوکیوں پر پابندیوں کے نتیجے میں اب مزید ابتر ہوگئی ہے۔“بارڈر ایریا پر زمباد گاڑیوں کو سوکھی ندیوں، خشک علاقوں، پہاڑی مقامات اور ویران علاقوں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے کیونکہ قومی شاہراہوں پر ان کی آمدورفت پر پابندی ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ اس تمام تر صورتحال میں پاک ایران بارڈر پر پھنسے ہوئے تمام تر محنت کشوں کے ساتھ نہ صرف اظہار یکجہتی کرتا ہے بلکہ حکومت وقت سے پرزور الفاظ میں مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جلد از جلد ان محنت کشوں کے مسائل کا حل نکالے تاکہ مزید انسانوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔اس وقت بلوچستان حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق سالانہ پچیس سے تیس ہزار کے قریب نوجوان مختلف جامعات سے گریجوایشن کرکے محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں، جن میں بمشکل ایک ہزار سے لے کر دو ہزار تک بے روزگار نوجوانوں کو روزگار مل پاتا ہے جس میں بھی حق داروں کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ملازمین کے بارہ روزہ احتجاجی دھرنے کے دوران سوشل میڈیا پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ بجائے اس کے کہ ہم ان ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کریں، ہم ان سے تیس ہزار کے قریب نئے روزگار پیدا کر سکتے ہیں، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ کتنا جھوٹا، مکار منافق ہے۔
بلوچستان میں غیر رسمی معیشت بالخصوص پاک ایران بارڈر اور پاک افغان بارڈر پر لاکھوں کی تعداد میں صوبے بھر کے محنت کش عوام اپنی گزر بسر کر رہے ہیں جبکہ ایک طرف اگر پاک افغان بارڈر پر سختی ہے تو دوسری طرف پاک ایران بارڈر پر بھی حالیہ سختیوں کی وجہ سے محنت کشوں کو مجبورا خود کشیاں کرنا پڑ رہی ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ روزگار دینا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے مگر عالمی مالیاتی سامراجی اداروں کے دلال حکمرانوں نے نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ صوبائی سطح پر بھی محکموں کے اندر خالی آسامیوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے جن کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔ اور اب نئی بھرتیاں صرف اور صرف کنٹریکٹ یا ٹھیکیداری کی بنیاد پر ہوتی ہیں جو کہ قابل مذمت ہے۔
اس سلسلے میں ہم بلوچستان بھر کی ٹریڈ یونین و ملازمین ایسوسی ایشنز سے پرزور الفاظ میں اپیل کرتے ہیں کہ وہ صوبے بھر میں غیر رسمی معیشت سے منسلک محنت کشوں کے لئے اپنے اپنے فورم پر آواز اٹھائیں۔ بالخصوص بلوچستان ورکرز اینڈ ایمپلائز گرینڈ الائنس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی توانائیاں خرچ کریں تاکہ صوبے میں جاری استحصال، جبر اور بربریت کے خلاف جدوجہد کو جوڑتے ہوئے ان محنت کشوں کے مسائل سمیت روزگار یا بے روزگاری الاؤنس کو اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل کریں۔
آج سرمایہ دارانہ نظام عالمی طور پر اتنا مفلوج ہو چکا ہے کہ وہ عالمی طور پر محنت کش طبقے کو روزگار دینے کی بجائے ان کو دیا ہوا روزگار ان سے چھین رہا ہے جبکہ دوسری جانب چند سرمایہ داروں کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ کرونا وباء کے دوران نہ صرف عالمی طور پر بلکہ پاکستان میں بھی بے روزگاروں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے۔ جب کہ اس کے علاوہ صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی محنت کش طبقے کے لیے عیاشی بن چکی ہے۔لہٰذا محنت کش طبقے کو اب فیصلہ کن لڑائی میں اترنا ہوگا۔ ان کے پاس اب محض دو ہی راستے ہیں ”سوشلزم یا بربریت“۔