سرمایہ دارانہ میڈیا کے سفید جھوٹ! (قسط نمبر 4)

تیسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

حال ہی میں حکومت نے ”اڑان پاکستان“ کے نام سے ایک پانچ سالہ معاشی منصوبے کا اجرا کیا ہے اور حسب روایت تمام تر سرمایہ دارانہ میڈیا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے دن رات اس ’جادوئی‘ منصوبے کے قصیدے پڑھ رہا ہے تاکہ عوام کو ایک اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا سکے۔

اس حوالے سے میڈیا پر بولا جانے والا پہلا جھوٹ تو یہ ہے کہ یہ منصوبہ ”ہوم گرون“ یعنی حکومت و ریاست پاکستان کا اپنا تخلیق کردہ ہے حالانکہ اس کے برآمدات بڑھانے پر فوکس سے لیکر نجکاری اور نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی تک تمام نکات وہی ہیں جو آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی شرائط ہوتی ہیں۔ مزید برآں اگر اس ’پلان‘ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اس میں بلند وبانگ غیر حقیقی دعوؤں کی بھرمار کے سوا اور کچھ نہیں، یعنی یہ ترقی کا نہیں بلکہ عوام کو سبز باغ دکھانے کا منصوبہ ہے تا کہ’اچھے دنوں‘ کی جھوٹی امید دلا کر انہیں انقلابی بغاوت سے باز رکھا جا سکے۔

ہمیشہ کی طرح اس نام نہاد منصوبے میں برآمدات بڑھانے پر بہت زور دیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ عالمی معاشی بحران کے اس عہد میں پاکستان کی سائنسی، تکنیکی اور ثقافتی طور پر پسماندہ سرمایہ داری کس طرح اپنے مدمقابلوں سے مسابقت میں بازی جیتتے ہوئے برآمدات کو بڑھائے گی۔ وہ ملک جو کہ ایک ڈھنگ کی سائیکل تک خود نہیں بنا سکتا وہ عالمی منڈی میں امریکہ، یورپ، چین تو ایک طرف انڈیا، ویت نام اور تھائی لینڈ جیسے مدمقابلوں کی صنعت کا بھی سامنا کیسے کرے گا۔ یہاں یہ یاد دہانی کرانا لازمی ہے تکنیکی پسماندگی کے کارن جب بھی پاکستان برآمدات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا درآمدی بل بھی بڑھنے لگتا ہے کیونکہ صنعتی پیداوار کے لئے درکار مشینری،خام مال، ریفائنڈ ایندھن سب کچھ باہر سے درآمد کیا جاتا ہے۔

جس ملک کی واحد اسٹیل مل بھی کب کی بند ہو چکی ہو اور جو سبزی کاٹنے والی چھری بنانے کے لئے اسٹیل باہر سے امپورٹ کرتا ہو، اس کے حکمرانوں کو برآمدات بڑھانے کی بڑھکیں نہیں مارنی چاہیے۔ کہنے کو یہ ایک نام نہاد زرعی ملک ہے لیکن یہاں گندم سے لیکر کپاس تک درآمد کی جاتی ہے، لہٰذا زرعی برآمدات بڑھانا ایک گپ کے سوا کچھ نہیں اور نہ ہی یہاں کی بحران زدہ پسماندہ سرمایہ داری میں اتنی سکت ہے کہ وہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے نہری نظام سمیت پورے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کر سکے۔ ایسے ہی ایک طرف آئی ٹی برآمدات بڑھانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹنے کے لئے انٹرنیٹ پر فائر وال لگا دی گئی ہے جس کی وجہ سے پہلے سے ہی سست انٹرنیٹ بالکل زمین بوس ہو گیا ہے اور نتیجتاً آئی ٹی سیکٹر کو زبردست مشکلات کا سامنا ہے۔

لیکن اگر ایسا نہ بھی کیا گیا ہوتا تب بھی ملک کے پسماندہ آئی ٹی سیکٹر سے کسی چمتکار کی امید رکھنا عبث تھی۔ اگر ہم پڑوسی ملک انڈیا کی ہی مثال لیں تو اس کی آئی ٹی برآمدات کے پیچھے تین دہائیوں طویل حکومتی منصوبہ بندی اور اس شعبے سمیت دیگر تکینکی شعبہ جات کی تعلیم میں بڑے پیمانے کی ریاستی سرمایہ کاری جیسے عوامل کارفرما ہیں۔ کیا اپنی پوری کی پوری سالانہ ٹیکس آمدن بیرونی و داخلی قرضوں کے اصل زر اور سود کی ادائیگیوں میں خرچ کرنے والی ریاست پاکستان یہ سب کر سکتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ پسماندہ پاکستانی سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے صنعت،زراعت،آئی ٹی غرضیکہ کسی بھی شعبے میں صرف مزید تنزلی کی ہی امید رکھی جا سکتی ہے نا کہ کسی بہتری اور برآمدات میں اضافے کی۔

اسی طرح اگر ’پلان‘ کے دیگر نکات کی بات کی جائے تو وہی آئی ایم ایف کا تجویز کردہ تین دہائیوں پرانا عوامی اداروں کی نجکاری کا نسخہ ہے جس نے آج تک سماج کو مزید بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔پچھلے تیس سالوں کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ نجکاری کا نشانہ بننے والے زیادہ تر عوامی ادارے یا تو بند کر دیے گئے یا پھر ان کی کارکردگی پہلے سے بھی کہیں زیادہ خراب ہو گئی۔ اور اگر چند ایک ادارے (جیسے کہ بنک) پرائیویٹائز ہونے کے بعد منافعے میں گئے تو یہ منافع عوام کی ہڈیوں سے گودا نچوڑ کر حاصل کیا گیا۔ مزید برآں نجکاری کے کارن ایک طرف تو بیروزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوا جبکہ دوسری طرف عوام کو میسر تھوڑی بہت سہولیات بھی مہنگی ہو کر عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئیں۔ حکمرانوں کا دوغلا پن تو ذرا ملاحظہ کیجیے کہ ایک طرف ’منصوبے‘ میں صحت اور تعلیم کو فروغ دینے کے دعوے کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی زور و شور کیساتھ نجکاری اور آؤٹ سورسنگ کی جا رہی ہے۔

اسی طرح بجلی کے شعبے کے بحران کے خاتمے کی بات کی گئی ہے اور اس کے لیے حل پھر نجی سرمایہ کاری کو ہی بتایا گیا ہے حالانکہ یہ بجلی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری اور آئی پی پیز کی آمد ہی تھی جس نے عوام کو ایک طرف مہنگی ترین بجلی جبکہ دوسری طرف بارہ گھنٹے یومیہ لوڈ شیڈنگ کا تحفہ دیا ہے۔عمومی طور پر بھی پورے ’پلان‘ میں بیرونی سرمایہ کاری کو نسخہ کیمیا بنا کر پیش کیا گیا ہے جس پر پہلا سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان جیسی ڈیفالٹ کے کنارے لڑکھڑاتی معیشت میں کون بڑی سرمایہ کاری کرے گا اور کرے گا بھی تو حکومت سے ایک زبردست شرح منافع کی گارنٹی لیکر کرے گا(بیرونی آئی پی پیز کی طرح) یعنی انویسٹ ہونے والا ہر ڈالر یہاں سے دس ڈالر منافع بٹور کر باہر جائے گا۔ سی پیک میں ہونے والی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد بھی معیشت دیوالیہ پن کا ہی شکار ہے۔

اسی طرح ماحولیات کے بارے میں بہت بلند بانگ دعوے کیے گئے ہیں لیکن ان کی اوقات بھی سابقہ حکومت کے نام نہاد بلین ٹری سونامی منصوبے سے مختلف نہیں ہے۔ نجی ٹرانسپورٹ،نجی صنعت اور ٹمبر مافیا کے منافعوں کی ہوس کے سامنے یہ تمام حکومتی منصوبے محض کاغذوں پر بکھری سیاہی ہیں اور حکومت انہی سرمایہ داروں کے مفادات کی نمائندہ و محافظ ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام اس وقت عالمی سطح پر اپنی تاریخ کے سب سے گہرے نامیاتی بحران کا شکار ہے۔ ایسی صورتحال میں سامراجی مالیاتی اداروں کی بیساکھیوں پر لڑکھڑاتی پاکستان کی پسماندہ سرمایہ داری سے کسی بہتری کی امید رکھنا بیکار ہے۔ اس تمام جبر و استحصال اور لوٹ مار سے نجات کے لیے پاکستان کے محنت کش عوام کو ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے اس گلی سڑی عوام دشمن سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا اور اس کی جگہ ایک مزدور ریاست اور ذرائع پیداوار پر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی منصوبہ بند معیشت کو تعمیر کرنا ہو گا جس میں پیداوار کا مقصد مٹھی بھر سرمایہ داروں کے لئے منافع خوری نہیں بلکہ انسانی و سماجی ضروریات کی تکمیل ہو گا۔ یہی واحد راہ نجات ہے۔

Comments are closed.