دوسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
یکم نومبر 2024ء کو ڈان، ایکسپریس ٹریبیون اور دیگر سرمایہ دارانہ میڈیا پر ایک خبر شائع ہوئی جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی معیشت نے رواں مالی سال 2025ء کی پہلی سہ ماہی میں پچھلے 24 سالوں میں پہلی دفعہ خسارے کی بجائے 1700 ارب روپے کا سرپلس حاصل کیا ہے۔
اس خبر پر پورا سرمایہ دارانہ میڈیا خوشی کے شادیانے بجا رہا تھا اور اسے موجودہ حکومت، وزیر خزانہ اور آرمی چیف کی معاشی فہم و فراست کا عملی ثبوت بتا رہا تھا۔ مزید برآں عوام کو یہ خوشخبری بھی سنائی جا رہی تھی کہ ان کی مشکلات کے دن اب تھوڑے ہی رہ گئے ہیں۔
لیکن ہمیشہ کی طرح سرمایہ دارانہ میڈیا اس مرتبہ بھی ”ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ“ پر ہی عمل پیرا تھا۔ درحقیقت یہ سرپلس آئی ایم ایف کے احکامات اور قرض شرائط کے مطابق عوام کی ہڈیوں سے گودا نچوڑ کر حاصل کیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد میں عوام کی خوشحالی نہیں بلکہ ان کا معاشی قتل عام ہے۔
یہ سرپلس محنت کش عوام کی پیٹھ پر لادے گئے بالواسطہ ٹیکسوں اور تنخواہ دار درمیانے طبقے پر مسلط براہ راست ٹیکسوں میں بے تحاشہ اضافے، پیٹرولیم لیوی کی صورت میں جاری لوٹ مار، عوامی اداروں کی ڈاؤن سائزنگ و نجکاری، عوامی سہولیات کے بجٹ، عوامی سبسڈیوں اور ترقیاتی بجٹ میں بڑی کٹوتی اور بلند شرح سود، جس نے ایک طرف چھوٹے اور درمیانے کاروبار کو تباہ کر دیا ہے جبکہ دوسری طرف لانگ ٹرم میں داخلی قرضوں کو نہایت مہنگا کر دیا ہے، کے کارن اسٹیٹ بینک کے منافعوں میں اضافے جیسے انتہائی عوام دشمن عوامل کے باعث ہی ممکن ہوا نہ کہ کسی حقیقی پیداواری سرگرمی کے بلبوتے پر۔
مزید برآں اس نام نہاد سرپلس کے باوجود بھی ملک کے سرمایہ دار حکمران طبقے اور آئی ایم ایف کی لوٹ مار کی ہوس کم نہیں ہو رہی اور عنقریب 500 ارب روپے سالانہ کے ٹیکس اضافے پر مشتمل ایک منی بجٹ کی خبریں گردش میں ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام اس وقت عالمی سطح پر اپنی تاریخ کے سب سے گہرے نامیاتی بحران کا شکار ہے۔ ایسی صورتحال میں سامراجی مالیاتی اداروں کی بیساکھیوں پر لڑکھڑاتی پاکستان کی پسماندہ سرمایہ داری میں کسی بہتری کی امید رکھنا بیکار ہے۔
اس تمام جبر و استحصال اور لوٹ مار سے نجات کے لیے پاکستان کے محنت کش عوام کو ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے اس گلی سڑی عوام دشمن سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا اور اس کی جگہ ایک مزدور ریاست اور ذرائع پیداوار پر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت و جمہوری کنٹرول پر مبنی منصوبہ بند معیشت کو تعمیر کرنا ہو گا، جس میں پیداوار کا مقصد مٹھی بھر سرمایہ داروں کے لیے منافع خوری نہیں بلکہ انسانی و سماجی ضروریات کی تکمیل ہو گا۔ یہی واحد راہ نجات ہے۔