پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اگر ہم کسی بھی سرمایہ دارانہ اخبار کا مطالعہ کریں یا میڈیا چینل دیکھیں تو اس میں تواتر کے ساتھ ایک بات کہی جاتی کہ عوام میں شعور کی کمی ہے اور یہ شعور جدید تعلیم کے ذریعے ہی آ سکتا ہے۔ سائنسی و تکنیکی علم کے حوالے سے تو یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ جدید نظام تعلیم اس کی ترویج میں ایک اہم اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے کیونکہ سرمایہ دار طبقے کو بہتر پیداوار اور شرح منافع میں اضافے کے لیے سائنسی تعلیم یافتہ اور ہنر مند مزدور، انجینئرز اور تکنیک کار چاہیے ہوتے ہیں۔
لیکن اگر ہم سماجی، معاشی، سیاسی، تاریخی علوم اور فلسفے و آرٹ کی بات کریں، یہاں یاد رہے کہ یہی علوم سماج کے عمومی شعور کی بڑھوتری میں بنیادی کردار رکھتے ہیں نہ کہ سائنسی و تکنیکی تعلیم، تو ان علوم کے معاملے میں سرمایہ دارانہ نظام تعلیم شعور کی آبیاری کی بجائے اس کو پراگندہ کرنے اور اسے مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔
سب سے پہلے تو ان تمام علوم کو یہ کہہ کر ویسے ہی طلبہ اور ان کے والدین کی نظروں میں گرا دیا جاتا ہے کہ ان میں ڈگری کر کے کوئی نوکری نہیں ملنے والی حالانکہ سرمایہ دارنہ نظام کے زبردست بحران کے کارن نوکریاں تو اب ڈاکٹرز اور انجینئرز کو بھی نہیں مل رہی ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر تمام علوم کا نصاب سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دار طبقے کے معاشی، سیاسی اور سماجی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جاتا ہے۔
اس نصاب میں سرمایہ داری اور طبقاتی تقسیم کو ازلی و ابدی حقیقت بنا کر پیش کیا جاتا ہے، سرمایہ دارانہ یعنی روپے پیسے کی طبقاتی اخلاقیات کو طلبہ پر زبردستی مسلط کیا جاتا ہے، انہیں سرمایہ داری کے خلاف دی جانے والی کسی بھی دلیل یا مؤقف کو بغیر کسی گہری تحقیق کے محض گھٹیا عملیت پسندانہ بنیادوں پر رد کرنا سکھایا جاتا ہے غرضیکہ پوری کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی ایسی ذہن سازی ہو جائے کہ وہ کبھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت نہ کریں۔
اسی سب کا نتیجہ ہے کہ کالج اور یونیورسٹیاں ہمیں شعوری بلندی کا گہوراہ ہونے کی بجائے سماجی و سیاسی جہالت کا گڑھ نظر آتی ہیں جہاں ہر قسم کے عوام دشمن نظریات کی آبیاری کی جاتی ہے جبکہ اس کے برعکس زندگی کے تلخ تجربات سے سماجی، معاشی و سیاسی اسباق سیکھنے والا ایک ’ان پڑھ‘ مزدور شعوری طور پر یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی پروفیسر حضرات سے زیادہ دانا اور شعور یافتہ ملتا ہے۔
ایسے میں ہم تمام طلبہ اور محنت کشوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بنیں اور کمیونزم کے نظریات سے آگہی حاصل کریں کیونکہ صرف یہی نظریات ہی نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کی عوام دشمن حقیقت اور اس کے استحصال کے متعلق مکمل جانکاری دیتے بلکہ ایک مزدور ریاست اور سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی صورت میں اس واحد قابل عمل، سائنسی اور انسان و عوام دوست متبادل بھی پیش کرتے ہیں۔