تحریر: |جیروم میٹیلس|
ترجمہ: |ولید خان|
سینیٹ سے حتمی منظوری کے بعد نیا فرانسیسی لیبر قانون 22 جولائی 2016ء کو قومی اسمبلی میں منظور کر لیا گیا۔ ’’سوشلسٹ‘‘ حکومت یہ لڑائی جیت گئی ہے۔ اس جیت کیلئے ریاست نے ایسی پولیس گردی کروائی جس کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ساتھ ہی CGT کے سرگرم کارکنان کے خلاف بدتمیزی، بے عزتی اور رسوا کرنے کی شدید مہم چلائی گئی۔ ’’بدمعاشوں‘‘ (بلوائیوں) کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے حکومت نے تحریک کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی۔ تمام حالیہ احتجاج پولیس کی بھاری نفری کے سائے تلے ہوئے جن میں بے پناہ سیکورٹی چیک رکھے گئے جس کی وجہ سے عملی طور پر احتجاج کرنے کے حق کو غاصب کر لیا گیا۔
To read this article in English, Click here
8جولائی کی پریس ریلیز میں انٹر یونین ایسوسی ایشن (CGT, FO, FSU, Solidaires, UNEF, UNF, LDIFs) نے ’’15 ستمبر کو لیبر قانون کی منسوخی اور نئی ضمانتوں اور تحفظات کے حصول کے لئے ڈے آف ایکشن ‘‘ کا اعلان کیا ہے۔ لیکن پچھلے چار مہینوں میں اب تک بارہ ڈے آف ایکشن گزر چکے ہیں۔ اس لئے یہ بات تو واضح ہے کہ 15 ستمبر کو کوئی بھی قدم حکومت کو لیبر قانون کی ’’منسوخی‘‘ پر مجبور نہیں کر سکے گا اور نہ ہی ’’نئی ضمانتیں اور تحفظات‘‘ حاصل ہوں گے۔ کیا اس اعلامیے کے مصنفین کو خود اپنے کہے پر یقین ہے؟ شاید نہیں۔ وہ شکست کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ ہماری رائے ہے کہ اس شکست کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے ہمیں مستقبل کیلئے اسباق حاصل کرنے چاہئیں۔
جیسا کہ ہم مارچ 2016ء سے نشاندہی کر رہے ہیں، حکومت صرف اسی صورت میں پسپائی اختیار کرے گی جب اسے بڑھتے ہوئی تعداد میں صنعتی اداروں کی لامتناہی ہڑتالوں کاسامنا کرنا پڑے گاجبکہ لامتناہی ہڑتالیں اور تالہ بندیاں جو مئی کے وسط میں متعدد صنعتی اداروں میں شروع ہوئیں ان کا پھیلاؤ کچھ زیادہ قابلِ ذکر نہیں۔ مثال کے طور پر ریلوے کی ہڑتال اتنی مضبوط نہیں تھی کہ وہ مکمل طور پر آمد و رفت بند کر دیتی۔RATP(پیرس کی نقل و حمل کی اتھارٹی)کی ہڑتال وسیع پیمانے پر نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کا کوئی اثر ہوا۔ اس پیرائے میں تیل کی ریفائنریوں اور بندرگاہوں کے محنت کشوں، جو 2010ء کی طرح اس مرتبہ بھی تحریک کا ہراول دستہ تھے، سے یہ امید نہیں کی جا سکتی تھی کہ محنت کشوں کی دیگر پرتوں کی مدد کے بغیر وہ لا متناہی ہڑتال جاری رکھتے۔ لامتناہی ہڑتالوں کے تیز ترین پھیلاؤ کی عدم موجودگی میں تحریک کا پسپا ہونا ناگزیر تھا۔ جون کے دوسرے ہفتے تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ پسپائی کا راستہ اختیار کیا جا چکا ہے۔ اسی وجہ سے حکومت بڑی مضبوط پوزیشن میں تھی اور ان کا ایک ہی مقصد تھا: جتنی جلدی ہو سکے اس تحریک کو ختم کریں اور خاص طور پر احتجاج کے حق کومحدود کر دیں۔
لا متناہی ہڑتالیں کیوں نہیں پھیل سکیں؟ یہ سوال پہلے بھی 2010ء کی خزاں میں پینشن میں کٹوتیوں کے خلاف تحریک کی ناکامی پر ابھرا تھا۔ عام طور پر جواب یہ دیا جاتا ہے کہ’’کیونکہ محنت کش ایسا کرنا نہیں چاہتے تھے، وہ اس کیلئے تیار نہیں تھے‘‘۔ لیکن یہ وضاحت حقیقت بیان نہیں کرتی۔ یہ ورکروں کے ’’لڑاکا پن‘‘ کو محدود کر کے تجریدی بنا دیتی ہے جس سے تحریک کی عمومی صورتحال کا کوئی واسطہ نہیں۔ اس عمومی صورتحال میں مرکزی کردار تحریک کی قیادت، اس کے نعرے اور پروگرام ہیں۔ یہ ’’وضاحت‘‘ یونین قیادت کی محبوب ترین ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ ہر ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
یہ واضح ہے کہ محنت کش ہر وقت لڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔’’ ایک عام ہڑتال کا حکم نہیں دیا جا سکتا‘‘، جیسا کہ یونین قیادت کو باربار کہنے کا شوق ہے۔ یہ سچ ہے کہ اگر ایسا واقعی ہو سکتا تو سرمایہ داری سے عرصہ دراز پہلے چھٹکارا حاصل ہو چکا ہوتا۔ لیکن ہم صرف ان تبصروں پر تکیہ نہیں کر سکتے۔ حتمی طور پر محنت کشوں کے لڑاکے پن کی انتہا کا اظہار جدوجہد میں ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ تحریک کی صحیح طریقے سے قیادت کی جائے، لائحہ عمل اور نعرے ایسے ہوں کہ تحریک کے ہر مرحلے پر محنت کشوں کے لڑاکے پن کا بھرپور ترین اظہار ہو۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک کی قیادت محنت کشوں کو طاقت کے توازن کی حقیقی تصویر دکھائے۔ لیکن شروع سے ہی قیادت نے اپنا سارا لائحہ عمل ’’ڈے آف ایکشن‘‘ پر بنایا تھا جبکہ یہ واضح تھا کہ اس طرح سے حکومت پیچھے نہیں ہٹنے والی۔ یہ ’’رات بھرکھڑے رہو‘‘(Nuit Debout) تحریک اور CGT کے مندوبین کا اپریل کے وسط میں اپنی کانگریس میں شدید دباؤ تھا جس کے نتیجے میں ’’لا متناہی ہڑتالیں‘‘ مرکزی نعرہ بنا۔ عام ممبران کے بڑھتے دباؤ اور خود رو لا متناہی ہڑتالوں کے سامنے فیلیپ مارٹینیز (Philippe Martinez) کو ہڑتالوں کی حمایت کرنی پڑی ، یہاں تک کہ اس نے ہڑتالوں کو پھیلانے کی بھی حمایت کی۔
لیکن ٹریڈ یونین کنفیڈریشن کی قیادت کی طرف سے لا متناہی ہڑتالوں کے پھیلاؤ کی حمایت کیلئے کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ مارٹینیز نے لا متناہی ہڑتالوں کو ’’جدوجہد کی ایک قسم‘‘ کے طور پر پیش کیا، جبکہ یہی وہ طریقہ کار تھا جس سے کامیابی حاصل ہوتی۔ تحریک کے اصل محرک کے برخلاف، یعنی تیزی سے لا متناہی ہڑتالوں کو پھیلانے کے برخلاف، یونین کنفیڈریشن کے 20 مئی کے اعلامیے میں صرف یہ اعلان کیا گیا کہ دو دن، 26 مئی اور14 جون، ڈے آف ایکشن ہوں گے۔ 26مئی کے ڈے آف ایکشن کو لا متناہی ہڑتالوں میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن 14جون بہت دورتھا۔ جیسا کہ ہم نے 23 مئی کو لکھا تھا:
’’14 جون تک، یا تو لا متناہی ہڑتال باقی شعبوں میں پھیل جائے گی یا پھر تحریک ٹھنڈی پڑ جائے گی۔ فی الحال ابھی تک تو یہی نظر آ رہا ہے جو کہ 2010ء کے تجربے سے بہت زیادہ مشابہ ہے‘‘۔
فیلیپ مارٹینیز نے ورکروں کی جنرل اسمبلی میں جدوجہد کے مختلف طریقوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ لیکن جیسا کہ ہم نے 23 مئی کو لکھا تھا: یہ سچ ہے کہ کسی بھی کمپنی میں ورکروں کی اکثریت کے بغیر ایک سنجیدہ متواتر ہڑتال کرنا ناممکن ہے۔ جنرل اسمبلیوں کو منظم کرنے کی ضرورت بھی واضح ہے۔ ٹریڈ یونین کی لڑاکا پرت اس سے بخوبی واقف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی قیادت کا ٹھوس، جارحانہ اور مضبوط رویہ ہو۔ جب وہ اپنی کمپنی میں جنرل اسمبلی بلانے کی بات کرتے ہیں تو انہیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ CGT، بشمول قومی قیادت کے، انہیں تنہا نہیں چھوڑے گی اور CGT ایک منظم، بھرپور اور وسیع تر کمپئین کے ذریعے جتنے زیادہ ممکن ہو سکے محکموں کو تحریک کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرے گی۔
مارٹینیز کے مطابق لیبر قوانین کا مقابلہ کرنے کیلئے لا متناہی ہڑتال ہی ’’جدوجہد کا واحد‘‘ ذریعہ نہیں ہے؛ اب یہی جدوجہد کا وہ واحد ذریعہ ہے جس سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جو CGT کی قیادت کو ہر ایک ورکر کو باور کرانا چاہئے۔ اس کے بغیر، جنرل اسمبلی کے ورکرCGT کی قیات کی طرف دیکھیں گے اور ان کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں یہ بات ابھرے گی:’’اگر ہم ہڑتال کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں تنہا رہ جانے کا نقصان اٹھانا پڑے‘‘۔
تحریک کی ایک اور بڑی کمزوری اس کا پروگرام رہا ہے۔ لیبر قانون کی منسوخی، ظاہری بات ہے مرکزی مطالبہ رہا ہے۔ لیکن بہت سارے ملازمین، بشمول سرکاری ملازمین اس مزدور دشمن اقدام سے فوری طور پر خطرہ محسوس نہیں کرتے(حالانکہ ان کو اس بات کا ادراک ہے کہ جو قدم نجی سیکٹر میں اٹھایا جاتا ہے، بعد میں اس کو قومی سیکٹر میں بھی لاگو کیا جاتا ہے)۔ اس حوالے سے نجی سیکٹر میں محنت کشوں کی اکثریت لیبر قانون میں موجود شقوں کا سامنا کر رہی ہے، جس میں وہ پہلے ہی اوور ٹائم کی اجرت کی عدم ادائیگی کے جہنم اور مالکان کی کئی زیادتیوں کو برداشت کر رہے ہیں۔تحریک کا کردار ضرورت سے زیادہ مدافعانہ ہے۔ محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں کو تحریک کے ساتھ جوڑنے کیلئے مثبت اور جارحانہ ڈیمانڈز پلیٹ فارم پر لانی پڑیں گی۔۔مثلاً اجرت اور کام کرنے کے اوقات کار۔ اس کے بجائے لیبر لیڈر ایک ہی بات بار بار دہرا رہے ہیں کہ جدوجہد کا مقصد لیبر قانون کی منسوخی کے ساتھ ساتھ ’’ اکیسویں صدی کیلئے نئے حقوق کے ساتھ نئے لیبر قواعد و ضوابط وضع کرنے ہوں گے‘‘۔ ٹھوس سوال یہ ہے کہ کون سے ’’ نئے حقوق؟‘‘ اور یہ اکیسویں صدی کیلئے نئے قواعد و ضوابط سے کیا مراد ہے؟ یہ بتایا نہیں گیا ہے۔ یہ رسمی فارمولہ ہے جس میں کوئی ٹھوس مواد موجود نہیں۔
یہاں پھر یہ بات دہرانے کی ضرورت ہے کہ تحریک کی پہلے سے کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں؛ محنت کشوں کی جنگجو ہمت کا اصل اظہار جدوجہد میں ہی ظاہر ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یونین قیادت کاغلط لائحہ عمل لڑنے کی اس توانائی کو بروئے کار لانے کے بجائے اس کے بھرپور اظہار میں رکاوٹ ہے۔ بہرحال بہت سارے ایسے عوامل ہیں جو واضح طور پر اس تحریک کے بھرپور امکانات کی وضاحت کرتے ہیں: لیبر قانون کے خلاف عوامی جذبات(70%)، وسیع تر پرتوں میں لا متناہی ہڑتال کی حمایت(میڈیا میں CGT کے خلاف کمپئین کے باوجود)، رائے شماریوں میں حکومت کی بے نظیر تنہائی، ’’رات بھر کھڑے رہو‘‘ (Night Debout) تحریک کا مظہر اور یونین کے عام ممبران اور نوجوانوں کی جانب سے نعروں میں ریڈیکلائزیشن، جیسے ’’عام ہڑتال‘‘ کا نعرہ۔
سیاسی ریڈیکلائزیشن
عمومی طور پر یہ واضح ہے کہ کئی سالوں کی معاشی افراتفری، بے تحاشہ بڑھتی بے روزگاری اور کٹوتیاں، شدید غم و غصہ اور مایوسی فرانسیسی سماج کی گہرائیوں میں اکٹھی ہو رہی ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ طبقاتی جنگ آنے والے سالوں میں اور شدید ہو گی۔ اس تناظر کے ساتھ حکومت اور حکمران طبقے کو گھناؤنے لیبر قانون کے اطلاق کی قیمت چکانا پڑے گی۔ اس لڑائی میں بورژوا جمہوریت اور میڈیا پہلے سے کہیں زیادہ اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔ اس سے بھی زیادہ، پولیس گردی لوگوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے نوجوانوں اور محنت کشوں کا شعور اور زیادہ ریڈیکلائز ہو گا۔ اس ضمن میں حکمران طبقہ اور سیاست دان اگر کوئی کامیابی حاصل کریں گے تو وہ کھوکھلی اور عارضی ہو گی۔ ان کے پاس سرمایہ داری کے بحران کا کوئی حل موجود نہیں، جس کی وجہ سے آنے والے وقت میں اور زیادہ قوی سماجی دھماکے ہوں گے۔
فوری طور پر، طبقاتی جدوجد سیاسی میدان میں داخل ہو گی کیونکہ اگلے سال اپریل میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ بہت سارے نوجوان اور محنت کش کہیں گے’’ہمیں ایک ایسی حکومت چاہئے جو لیبر قانون کو منسوخ کرے اور کٹوتیوں کی سیاست کے خاتمے کا اعلان کرے‘‘۔ اس نقطہِ نظر سے، لیبر قانون کے خلاف تحریک اور تمام جدوجہد کے دوران مختلف پارٹیوں کے رویوں نے چند ایک اہم اسباق سکھائے ہیں۔ ایسے اسباق جو کوئی نہیں بھولے گا۔
سوشلسٹ پارٹی جو لیبر قانون کے اطلاق سے پہلے ہی اپنی ساکھ کھو چکی ہے اور ڈھٹائی سے کم ترین مقبولیت کی جانب رواں دواں ہے۔ پارٹی نے اپنا موسمِ سرما کا سکول بھی منسوخ کر دیا ہے کیونکہ وہ پوری طرح قائل ہیں(اس کی بڑی اچھی وجوہات ہیں!) کہ سکول میں وہ تمام لوگ اپنا اظہار کرنے کی کوشش کریں گے جو لیبر قانون کے خلاف ہیں۔ 2017ء کے انتخابات کیلئے سوشلسٹ پارٹی کی امید یہ ہے کہ جس طرح ان کی ساکھ برباد ہو چکی ہے اسی طرح سے ریپبلیکنز(Republicans) کی ساکھ بھی برباد ہو جائے گی۔
سوشلسٹ پارٹی کے بدقسمتی سے مشہور بائیں بازو کے ’’باغی‘‘ صرف اتنی ہی ہمت رکھتے تھے کہ وہ لیبر قانون کے خلاف زبانی جمع خرچ کرتے رہیں۔ وہ ریپبلیکن اور UDI پارٹیوں کی طرف سے پارلیمان میں پیش کی گئی لیبر قانون کے خلاف تحریک کی حمایت میں ووٹ بھی نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔اس کے بجائے وہ یہ چاہتے تھے کہ ’’دائیں بازو‘‘ کی جانب سے ایک قانون پاس کیا جائے لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس کیلئے درکار دستخطوں کی شرح اتنی اونچی رکھی جائے کہ وہ کبھی پوری ہی نہ ہو۔ دو موقعوں پر بڑی احتیاط سے وہ ’’ناکام‘‘ ہو گئے جب 58 ضروری دستخطوں میں سے دو کم رہ گئے۔ وہ لوگ جنہوں نے دستخط کئے وہ اس دھوکے میں اتنے ہی ملوث تھے جتنے دستخط نہ کرنے والے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے آنے والے پارلیمانی انتخابات میں اپنی نامزدگی کا تحفظ کیا۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ انہوں نے یہ کام اس لئے کیا کیونکہ وہ حکومت کی سیاست کے علاوہ اور کسی سنجیدہ متبادل کا دفاع نہیں کر رہے۔ ہولاندے (Hollande) کی حکومت کے شروع ہونے سے لے کر اب تک ’’باغیوں‘‘ نے صرف ذرا کم کٹوتی کے موقف کا دفاع کیا ہے۔ انہوں نے کٹوتیوں کے خلاف کبھی جدوجہد اس لئے نہیں کی کیونکہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ اس کا متبادل کیا ہے۔ مثال کے طور پر، انہوں نے تواتر سے بجٹ میں کٹوتیوں کی حمایت میں ووٹ دیا ہے۔
ریپبلیکن لیبر قانون کے مسودے سے متفق ہیں۔ اس یقین دہانی پر کہ ان کی تحریک پارلیمان میں کامیابی سے ناکام ہوگی، ریپبلیکن تحریک صرف ایک سیاسی شعبدہ بازی تھی کیونکہ وہ حکومت گرانا نہیں چاہتے تھے۔ سینیٹ کے اندر تو انہوں نے قانون کو اور بھی سخت کر دیا ہے، اس لئے نہیں کہ ان کو کوئی امید تھی کہ سخت تبدیلیوں کی وجہ سے بل نامنظور ہو جائے گا بلکہ وہ اگلے الیکشن سے پہلے حکمران طبقے کو اپنے سیاسی مقاصد سے باور کرا رہے ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد ان کے کیا ارادے ہیں۔ ریپبلیکن پرائمری انتخابات میں جس قسم کے امیدوار کھڑے ہوئے ہیں اس سے بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ موقع ملنے پر ریپبلیکن مستقبل میں کیا گل کھلائیں گے۔ اس وقت سب سے مضبوط امیدوار کے طور پر جو بندہ ابھر کر سامنے آیا ہے اس نے عوامی فلاح کے بجٹ پر سب سے بڑی کٹوتیاں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جوپے (Juppe) نے 85-100 ارب یورو ، سرکوزی (Sarkozy) نے100ارب ، فلون(Fillon)110 ارب اور لی ماری (Le marie)نے 150ارب یورو کی کٹوتیوں کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ سرمائے اور بڑے تجارتی اداروں پر ’’بوجھ‘‘ کو بے پناہ حد تک کم کرنے کا بھی مشورہ دے رہے ہیں۔ پیغام صاف ظاہر ہے: یہ محنت کشوں ، بے روزگاروں اور بحران کے شکار تمام لوگوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔
پچھلے چار مہینوں کی لیبر قانون کے خلاف جدوجہد کے دوران فرنٹ نیشنل (Front National) مکمل طور پر غائب رہی ہے۔ یہ جھوٹے ، فریبی اور دوغلے ’’فرانسیسی عوام‘‘ کی ترجمانی کرنے کے دعوے کرنے والے خاموشی سے دبکے بیٹھے ہیں جبکہ محنت کش دیو ہیکل طبقاتی جدوجہد میں جتے ہوئے ہیں۔ وہ لیبر قانون سے متفق ہیں اور اس سے بھی آگے بڑھنا پسند کریں گے۔ لیکن انہوں نے پورا حساب لگا کر رکھا ہوا ہے کہ الخمری لیبر قانون (El Khomri Labor Law) کے خلاف 74 فیصد لوگوں میں ماضی اور مستقبل کے کافی سارے FN حمایتی موجود ہوں گے۔ اس کی وجہ سے وہ اندھیروں میں چھپے بیٹھے ہیں، میڈیا سے اجتناب کر رہے ہیں اور اپنے متضاد بیانات کی اور زیادہ چھانٹی میں مصروف ہیں جس کا جان لک میلاشون(Jean-Luc Melachon) اپنے بلاگ (blog)پر مکمل اعتراف کرتا ہے۔
عوامی جدوجہد کے دھیمے ہونے کے ساتھ ہی FN اپنی کچھار سے باہر آ جائے گی اور ’’اپنے نظام‘‘ کے خلاف بکنا شروع کر دیں گے۔ وہ ہر طریقہ کار استعمال کریں گے: سوشلسٹ پارٹی کی فاش غلطیاں، باغیوں کا خصی پن، ریپبلیکنز کا بحران، معاشی دلدل، بڑھتی بے روزگاری، برطانیہ کا اخراج (Brexit) اورEU کا بحران۔۔ساتھ ہی کسی بھی ایسے واقعے کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گے کہ جس سے ’’غیر ملکیوں‘‘ کو بدنام کرنے کا موقع ملے۔ اس کے بھی امکانات ہیں کہ کچھ عرصے بعد وہ لیبر قانون پر تنقید کرنی شروع کر دیں۔ وہ اپنے آپ کو حسبِ سابق حالات کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کریں گے، کرپٹ اور آزمائے ہوئے سیاسی طبقے کے مخالفین۔
بہرحال، سٹیٹس کو کے خلاف بائیں بازو کے ایک قابلِ اعتماد متبادل کو اگلے چند مہینوں میں ابھرنا ہو گا۔ یہ عین ممکن ہے۔ لیبر قانون کے خلاف جدوجہد نے ایک بار پھر ان امکانات کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔ اپنے اصلی نکتہ نظر کی طرف واپس پلٹتے ہوئے یہ واضح ہے کہ اس تحریک کا تجربہ بائیں بازو کے متبادل کی تعمیر کیلئے موافق ہے۔ سوشلسٹ پارٹی کی ناکامی نے بائیں بازو کی سیاست میں بہت بڑا سیاسی خلا پیدا کر دیا ہے۔
لیکن یہ خلا ہر چاہنے والے کی خواہشات کے مطابق خود بخود پر نہیں ہو سکتا۔ میلاشون اور اس کی تحریک مروجہ سیاسی حالات سے ریاضی کے کسی خام فارمولے کے تحت کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے گی۔ کسی بھی تحریک کو ابھر کر میلاشون اور اس کی تحریک کے ارد گرد اکٹھا ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس وقت لوگوں کی مروجہ امنگوں، غصے اور ریڈیکلائزیشن کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔ مستقبل میں ہم اس پروگرام پر بات رکھیں گے جو ہمارے مطابق میلاشون کو عوام کے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کا دفاع کرنا چاہئے۔ لیکن فی الحال ہم یہاں پر لیبر قانون کے خلاف تحریک میں سیکھے گئے ایک بہت اہم سبق کا ذکر کرتے ہیں: اتنی بے پناہ حمایت جو اسے مل رہی ہے اس کی صرف ایک وجہ سے ہے اور وہ ہے اس کا طبقاتی مواد۔ میلاشون کی کمپین کا اپنا بہت واضح طبقاتی مواد ہونا چاہئے۔ یہی وہ بہترین طریقہ ہے اور حقیقی طور پر واحد ذریعہ ہے جس سے FN کے رجعتی عناصرکے پیروں تلے زمین کھینچی جا سکتی ہے۔
متعلقہ:
فرانس لیبر قانون: فیصلہ کن جنگ کا آغاز!