سری لنکا کی انقلابی تحریک کے اہم اسباق

|تحریر: آدم پال|

سری لنکا میں عوام کے انقلابی عمل نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ لاکھوں لوگ تمام تر رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے صدارتی محل میں داخل ہوگئے اور صدر راجاپکشا کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ گزشتہ کئی مہینے سے عوام اس عوام دشمن صدر کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے اور پورے ملک کی سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے لیکن صدر اقتدار سے چمٹا ہوا تھا۔ اس سے قبل اسی صدر کا بھائی بطور وزیر اعظم بھی عوام کے شدید غم و غصے کے بعد وزیر اعظم کے عہدے سے اسی طرح برطرف کیا گیا تھا اور اس نے بھی ملک سے فرار ہو کر ہی عوام کے غیض و غضب سے چھٹکارا پایا تھا۔ صدر راجا پکشا نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا اور عوام کو ایک انقلابی تحریک برپا کرنے سے روکنے کے لیے ہر غلیظ اور عوام دشمن حربہ آزمایا لیکن اس کے باوجود عوام نے اپنی طاقت کے ذریعے حکمران طبقے کے اس اہم نمائندے کو اکھاڑ پھینکا اور اسے ملک سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

سری لنکا اس وقت تاریخ کے بد ترین بحران سے گزر رہا ہے اور معیشت مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے۔ 90 فیصد آبادی اس وقت فاقوں کا شکار ہے اور ایک وقت کا کھانا بھی مشکل سے حاصل کر پا رہی ہے۔ بجلی، تیل اور دیگر ضروری اجناس کی شدید قلت ہے اور پورا سماج اس معاشی دیوالیہ پن کے باعث مفلوج ہو چکا ہے۔ صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ انتہائی ضروری ادویات بھی ملک میں موجود نہیں جس کے باعث بہت سے مریضوں کا علاج رُک چکا ہے اور انہیں موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ کھانا پکانے کے لیے لکڑیوں کا استعمال عام ہو چکا ہے جبکہ سفر کے لیے پٹرول اور ڈیزل کی عدم موجودگی ایک مستقل رکاوٹ بن چکی ہے۔ لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود بھی حکمران طبقہ اپنی پر تعیش زندگیوں کو نہ صرف جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے فوج اور پولیس کے ذریعے جبر کو مسلط کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ سری لنکا میں موجود قومی اور مذہبی تعصب کو بھی ابھارنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ عوام حکمرانوں کا گریبان پکڑنے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کیخلاف لڑتے ہوئے مر جائیں اور حکمران طبقہ اپنا نظام اور اپنی موج مستی جاری رکھ سکے۔

مستعفی ہونے والے صدر راجاپکشا نے بدھ مذہب سے وابستہ بنیاد پرست تنظیموں کو نفرت پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی تاکہ مذہبی اقلیتوں کیخلاف عوام کو مشتعل کیا جا سکے اور مذہبی فسادات اور ہنگامے پورے ملک میں شروع کروائے جا سکیں۔ سری لنکا میں مسلمان اور ہندو مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی ایک کثیر تعداد موجود ہے، لیکن وہ بدھ مذہب کی نسبت اقلیت میں ہیں۔ آباد ی کا 70 فیصد سے زائد بدھ مذہب سے تعلق رکھتا ہے جبکہ بارہ فیصد ہندو، تقریباً دس فیصد مسلمان اور چھ فیصد عیسائی ہیں۔ حکمران طبقہ سماج میں موجود اس تقسیم کو اپنے مفادات کے لیے پہلے بھی استعمال کرتا رہا ہے اور موجودہ بحران میں بھی اس مذہبی منافرت کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن عوام نے اس حربے کا منہ توڑ جواب دیا اور تمام تر اشتعال کے باجود ان بنیاد پرست تنظیموں اور ان کے انتہائی مقدس سمجھے جانے والے لیڈران کو مکمل طو ر پر رد کر دیا۔ راجا پکشا اور اس کی پارٹی بدھ بنیاد پرست تنظیم ”بودو بالا سینا“کی سرپرستی کرتے رہے ہیں اور اس تنظیم کو پورے ملک میں مذہبی اور قومی منافرت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس تنظیم کا ڈھانچہ انڈیا میں موجود ہندو بنیاد پرست تنظیم آر ایس ایس جیسا ہے اور سری لنکا میں بھی حکمران طبقہ اس ہتھیار کو عوام کو آپس میں تقسیم کرنے اور ایک دوسرے سے لڑوانے کے استعمال کرتا رہتا ہے۔ لیکن موجودہ انقلابی تحریک میں عوام نے اس منافرت کو مکمل طور پر رد کر دیا اورقومی اور مذہبی تعصبات کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ایک جڑت کا اظہار کیا جس کے باعث صدر راجا پکشا نجی طیارے میں بھاگنے پر مجبور ہوا۔

سری لنکا میں قومی جبر کی بھی ایک طویل تاریخ ہے اور حکمران طبقہ قومی بنیادوں پر بھی محنت کش طبقے کو تقسیم کرتا چلا آیا ہے اور موجودہ حالات میں بھی عوام کو آپس میں لڑوانے کے لیے قومی تقسیم کواستعمال کیا گیا لیکن محنت کشوں نے ان تمام ہتھکنڈوں کے خلاف لڑتے ہوئے حکمرانوں کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ سری لنکا میں آبادی کا تقریبا ً دو تہائی حصہ سنہالی زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے جبکہ تقریباً ایک تہائی تمل زبان بولتے ہیں۔ تمل بولنے والوں پر قومی جبر کی ایک طویل تاریخ بھی ہے اور یہاں پر قوم پرست پارٹیوں کے ابھار، مسلح جدوجہد اور اس کیخلاف خونی فوجی آپریشنوں کی بھی ایک تاریخ ہے۔ درحقیقت راجا پکشا خاندان کا اُبھار ہی اس وقت ہوا تھا جب انہوں نے تمل قومی آزادی کی مسلح جدوجہد کو فوجی جبر کے ذریعے خون میں ڈبویا تھا۔ اس دوران قومی تعصب کے زہر کو پورے سماج میں انڈیلا گیا اور دونوں قوموں میں ایک وسیع خلیج پیدا کر دی گئی۔ سماج کو اس پورے زہر سے بھرنے کے بعد عوام پر معاشی حملوں کا آغاز کر دیا گیا اور چین سمیت تمام سامراجی طاقتوں سے بھاری سود پر قرضے لے کر ملکی خزانے کی لوٹ مار کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز کر دیا گیا۔ ان تمام معاشی حملوں کیخلاف ابھرنے والی مزاحمت کو ملک دشمن قرار دے کر کچل دیا گیا یا پھر اسے قومی اور مذہبی تعصبات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس تمام عمل میں بودو بالا سینا جیسی سنہالی بنیاد پرست تنظیمیں بھی قومی منافرت کو پھیلانے میں ایک اہم اوزار تھیں جسے سر ی لنکا کی سرمایہ دارانہ ریاست نے اپنے مفادات کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ موجودہ عوامی تحریک درحقیقت ان تمام ہتھکنڈوں کا ایک بھرپور جواب ہے جس میں عوام تر فروعی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے حکمران طبقے کیخلاف یکجا ہو کر باہر نکلے اور ریاستی اداروں کی کھڑی کی گئی تمام رکاوٹوں، آنسو گیس، شیلنگ اورواٹر کینن کو عبور کرتے ہوئے صدارتی محل میں داخل ہو گئے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی

سری لنکا کا بحران درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل ناکامی کا اظہار ہے اور عالمی سطح پر جاری مالیاتی بحران کا شکار ہونے والے ابتدائی ممالک میں شامل ہے۔ اس وقت دنیا کے تمام ممالک بد ترین مالیاتی بحران کا شکار ہیں اور امریکہ اور یورپ جیسی بڑی معیشتیں بھی تاریخ کے بد ترین بحرانوں میں گھری ہوئی ہیں۔ امریکہ میں افراط زر دس فیصد کو چھو رہی ہے جو گزشتہ چالیس سال میں سب سے زیادہ ہے۔ آنے والے مہینوں میں امریکی معیشت 1929ء جیسے یا اس سے بھی بڑے بحران کا شکار ہو کر کساد بازاری میں گر سکتی ہے۔ امریکی معیشت میں شرح سود کے اضافے کے باعث بہت سی کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں اور اسٹاک ایکسچینج شدید مندی کا شکار ہیں۔ امریکی عوام کی قوت خرید تیزی سے گر رہی ہے اور ان کا معیار زندگی بد تر ہوتا جا رہا ہے اور اس میں بہتری کے عنقریب کوئی امکان نہیں۔ یورپ کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں اور جرمنی جیسے ممالک میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہونے جارہا ہے جبکہ صنعتیں بڑے پیمانے پر بند ہونے کے امکانات بھی ابھر چکے ہیں۔ برطانیہ میں ریلوے سمیت ایک سو سے زیادہ شعبوں میں مزدوروں کی ہڑتالیں چل رہی ہیں اور لاکھوں محنت کش سڑکوں پر احتجاجوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ برطانیہ اور اٹلی کے وزرائے اعظم استعفیٰ دے چکے جو بد ترین سیاسی بحران کی عکاسی ہے اور آنے والے عرصے میں کہیں بھی سیاسی استحکام دکھائی نہیں دے رہا۔

اس تمام تر صورتحال کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام کا بد ترین بحران ہے جو معیشت سے لے کر سیاست اور ریاست تک ہر جگہ اپنا اظہار کر رہا ہے۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران سے باہر نکلنے کے جو حربے استعمال کیے گئے انہوں نے اس سے بھی بڑے بحران کی بنیاد رکھ دی جس کا اب پوری دنیا کو سامنا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں نوٹ چھاپ چھاپ کر اور شرح سود کو صفر تک کم کر کے معیشت کو مصنوعی طریقوں سے چلانے کی کوشش کی گئی۔ سرمایہ داروں کو تاریخ کے سستے ترین قرضے اور زر فراہم کر کے معیشت میں روح پھونکنے کی کوشش کی گئی لیکن اس سے مالیاتی بلبلے ہی بن سکے اور حقیقی پیداواری سرگر می میں پہلے جیسا اضافہ نہیں ہوسکا۔ کرونا وبا میں عوامی تحریکوں کے ابھار سے خوفزدہ ہوکر یورپ اور امریکہ میں مزید کھربوں ڈالر کے نوٹ چھاپ کر گھروں میں تقسیم کیے گئے جبکہ سرمایہ دار طبقے پر نہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا اور نہ ہی ان کے منافعوں میں کٹوتی کی گئی بلکہ اس دوران دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت دگنی ہوتی گئی۔ ان عوام دشمن معاشی پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ بحرانوں کی شکل میں ہی نکلنا تھا جس کا اب پوری دنیا کو سامنا ہے۔ اس دوران امریکی سامراج بھی پہلے کی نسبت شدید کمزور ہو گیا جس سے یوکرائن جیسی جنگوں کی راہ ہموار ہوئی اور اس نے ان بحرانوں کو شدید تر کر دیا۔ سری لنکا میں بھی عالمی سطح پر موجود سرمایہ دارانہ نظام کی ہی ایک کمزورکڑی ہے اور اتنے بڑے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا اس لیے یہاں پر دیوالیہ پن کا آغاز ہو چکا ہے جبکہ دنیا کے بہت سے دیگر ممالک بھی اسی منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں جن میں پاکستان بھی اولین نمبروں میں موجود ہے۔ سری لنکا کے حکمرانوں نے بھی گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے زیادہ کے عرصے میں عالمی سطح پر موجود حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور سستے قرضوں کے ذریعے ملک کوچلانے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران انفرااسٹرکچر کے بڑے بڑے منصوبوں کا آغاز کیا گیا جن میں حکمرانوں کے لیے لوٹ مار کے بڑے مواقع موجود تھے جبکہ محنت کش طبقے کے لیے بھوک اور بیماری کی دلدل۔ ان منصوبوں میں سب سے بڑا منصوبہ ہمبون توتا کی اہم بندرگاہ تھی جو بحر ہند میں سٹریٹجک حوالوں سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ چین کے تعاون سے اس منصوبے کے لیے بڑے پیمانے پر قرضے حاصل کیے گئے اور راجاپکشا خاندان کے آبائی علاقے میں اس دیو ہیکل منصوبے کا آغاز کر دیا گیا۔ عالمی سطح پر چین کی سرمایہ دارانہ ریاست کا ابھار بھی گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں واضح ہو کر سامنے آیا ہے۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران سے سرمایہ دارانہ نظام کو نکالنے میں چین کا اہم کردار تھا اور چین کے حکمران طبقے نے اس خدمت کا بھرپور معاوضہ وصول کیا۔ اس دوران جہاں چین کی معیشت کا حجم تیزی سے پھیلا اور وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گئی وہاں چین کی سرمایہ دارانہ ریاست کے سامراجی عزائم بھی واضح ہو کر سامنے آئے اور اس نے اپنی دیو ہیکل معیشت کو چلانے کے لیے خام مال کے ذخائر کو اپنے لیے محفوظ بنانے کا آغاز کیا اور ساتھ ہی سٹریٹجک مقامات پر اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس دوران اپنی زائد پیداواری صلاحیت کی کھپت کے لیے دنیا بھر میں انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کا آغاز کر دیا اور اس کے لیے قرضوں کی فراہمی بھی ممکن بنانی شروع کر دی۔ اس طرح جہاں سٹریٹجک حوالوں اور مختلف ممالک سے خام مال کے حصول کے لیے اس کا امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں سے ٹکراؤ بننا شروع ہوا وہاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی گرفت میں موجود عالمی معیشت میں ایک متوازی بینکاری بھی ابھرنی شروع ہوئی۔ ان سامراجی طاقتوں کے اختلافات کے باوجود ان کی بنیاد اور ایمان سرمایہ دارانہ نظام پر ہی ہے اور امریکہ اور چین سمیت تمام معیشتیں ایک دوسرے سے مد مقابل ہونے کے باوجودجڑی ہوئی بھی ہیں ایک دوسرے پر انحصار بھی کرتی ہیں۔ نظام کے بحران نے ان معیشتوں کو بھی کمزور کیا جس سے ان کے اختلافات میں بھی شدت آئی ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔ امریکہ اور چین کی مسابقت کے آغاز میں ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں کو لوٹ مار کے سنہری مواقع نظر آئے اور انہوں نے دونوں اطراف سے قرضے حاصل کر کے اپنی جیبیں بھریں۔ لیکن اس کا نتیجہ ان کمزور معیشتوں پر قرضوں کے بوجھ میں کئی گنا اضافے کی صورت میں ہوا جو ناگزیر طور پر دھڑام سے زمین بوس ہونے کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔ سری لنکا کا بیرونی قرضہ 51 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر میں چند ملین ڈالر بھی موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ملک اپنے قرضوں کی قسطیں بھی ادا نہیں کر سکتا اور نہ ہی اپنی ضرورت کے لیے تیل اور دیگر زرعی اجناس امپورٹ کر سکتا ہے۔ راجا پکشا نے بطور صدر گزشتہ عرصے میں معاشی بحران سے نپٹنے کے لیے سرمایہ داروں پر ٹیکس نہیں لگایا اور نہ ہی ذرائع پیداوار کو ریاستی کنٹرول میں لیا بلکہ سرمایہ داری کے ایک وفادار غلام کے طور پر بحران کا بوجھ عوام پر ہی منتقل کیا۔ اس نے زرمبادلہ بچانے کے لیے فرٹیلائزر کی امپورٹ پر پابندی لگا دی اور کہا کہ صحت مند اجناس پیدا کرنے کے لیے ان مصنوعی طریقوں سے بچنا ہو گا۔ اس پالیسی کے باعث زرعی پیداوار شدید متاثر ہوئی اور اب ملک میں خوراک کی قلت پیدا ہو چکی ہے اور قحط کی سی صورتحال ہے۔دوسری جانب پہلے سے موجود قرضوں کے بوجھ کے باعث کوئی بھی مالیاتی ادارہ قرض دینے کے لیے تیار نہیں یا پھر ملک کے اہم اثاثے گروی رکھنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انڈیا نے حال ہی میں اہم آئیل ریفائنری حاصل کرنے کے بعد مالی امداد دینے کا عندیہ دیا ہے جبکہ چین پہلے ہی ہمبن توتا کی بندر گاہ اور ملحقہ علاقوں پر قرضوں کی عدام ادائیگی کے نتیجے میں مکمل کنٹرول حاصل کر چکا ہے۔ دیوالیہ پن کے بعد سری لنکا میں انڈیااور چین کے سامراجی عزائم کا ٹکراؤ بھی پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ نظر آناشروع ہوچکا ہے جبکہ حکمران طبقہ ہر طرف اپنی وفاداریوں کی یقین دہانیاں کروا رہا ہے۔ راجاپکشا خاندان کو چین کے حکمران طبقے کے نزدیک سمجھا جاتا تھا اور 2019ء کے انتخابات میں ان کی کامیابی میں چین کے کردار کی بھی نشاندہی کی گئی تھی گو کہ انہوں نے انڈیا سے بھی تعلقات بحال رکھنے کی متعدد کوششیں کیں۔ مختلف سامراجی طاقتوں کی کشمکش میں سرمایہ دارانہ ریاست بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اورکبھی امریکہ اور کبھی روس سے بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ ایسے میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے سرمایہ دار طبقے پر بڑے پیمانے پر ٹیکس لگانے یا ان کی جائیدادوں اور منافعوں کو ضبط کرتے ہوئے معاشی بحران سے نپٹنے کا کوئی بھی امکان زیر غور نہیں۔ سری لنکا میں عوامی بغاوتوں اور جدوجہدوں کی ایک طویل تاریخ ہے اور سرمایہ دار طبقے اور سامراجی طاقتوں کیخلاف ان مزاحمتی تحریکوں سے مزدور طبقے نے اپنے لیے ماضی میں بہت سی حاصلات لیں تھی۔ سری لنکا میں تعلیم پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی تک مفت ہے اور علاج بھی ہر سطح پر مفت فراہم کیا جاتا ہے لیکن اب ان تمام حاصلات کو ختم کیا جا رہا ہے جبکہ حکمران طبقے کی عیاشیوں پر کوئی قدغن نہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے سری لنکا کا بایاں بازو نظریاتی غداریوں کے باعث شدید زوال پذیری کا شکار تھا اور حکمران طبقے کا دم چھلا بن چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی تحریک نے جہاں حکمران طبقے کی تمام سیاسی پارٹیوں کو رد کیا وہاں پرپارلیمنٹ میں موجود بائیں بازو کی تمام پارٹیوں کو بھی درست طور پر عوام دشمن قرار دے کر رد کیا۔ انتہائی دائیں سے لے کر بائیں بازو اور قوم پرستوں تک تمام پارٹیوں کو رد کرنے کے باوجود عوامی تحریک کو ابھرنے سے نہیں روکا جا سکا اور یہی اس انقلابی تحریک کا اہم سبق بھی ہے۔

انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں

سری لنکا میں بھی ہمیں واضح طور پر نظر آیا کہ عوام نے اگلے الیکشنوں کا انتظار نہیں کیا، کسی عدالت میں درخواست دائر نہیں کی اور نہ ہی کسی آرمی چیف یا جنرل کو مدد کے لیے پکارابلکہ جب حالات ان کی برداشت سے باہر ہو گئے تو خود سڑک پر آکر نہ صرف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا بلکہ اس تمام تر بحران کے ذمہ داروں کو بھی ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

 

سری لنکا کی انقلابی تحریک قنوطیت پسند دانشور وں اور سرمائے کے پجاریوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ ان کرائے کے دانشوروں اور زر خرید تجزیہ نگاروں کی اکثریت انقلاب کو ماضی کا قصہ قرار دے چکی ہے بلکہ اب توایسے بدبودار فلسفے گھڑ لیے گئے ہیں جو انسانی تاریخ میں کسی بھی انقلاب کی موجودگی سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ سماجی حالات میں ہر قسم کی غلاظت اور تباہی و بربادی کے ا مکان پر بحث کر لیتے ہیں اور ہر قسم کی عوام دشمن قوت کے حاوی ہونے کا تناظر بنا سکتے ہیں لیکن انقلاب کو ہمیشہ خارج ازا مکان ہی قرار دیتے ہیں۔ یہ درحقیقت اس نظریے پر ایمان لا چکے ہیں کہ سرمایہ داری نظام ہی انسانیت کی معراج ہے اور اس کے بعد کوئی نظام کبھی دنیا میں آ ہی نہیں سکتا۔ یہ لوگ امریکی سامراج اور اس کے دلالوں کی لازوال حاکمیت کے بھی قائل ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک دنیا کے ہر مسئلے کو امریکی سامراج چٹکی بجا کر حل کر سکتا ہے۔ ان کی سازشی تھیوریوں کے مطابق ہر عوامی تحریک درحقیقت کسی بیرونی دشمن کی سازش ہوتی ہے اور اسے اس طاقت کے مخصوص مفاد کے لیے ہی ابھارا جا تا ہے۔ ان کے نزدیک عوام صرف مجہول کردار کے ہی حامل ہو سکتے ہیں اور ان کا کام حکمرانوں کے اشاروں پر ناچنا اور اپنی زندگیاں قربان کر دینا ہی ہوتا ہے اور وہ خود اپنے عمل سے کوئی بھی سیاسی اور مزاحمتی کردار ادا نہیں کرسکتے۔ ان عوام دشمن دانشوروں کی رائے میں عظیم لیڈر ہی عوام کو گیان بانٹ سکتے ہیں اور عوام کا کام صرف ان تاریخی شخصیات کی پیروی کرنا ہی ہوتا ہے اور وہ اپنے طور پر نہ تو کچھ سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی تاریخی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بلکہ ان دانشوروں کے نزدیک تو عوام نے سوچنے اور سمجھنے کا کام ان دلال صحافیوں، غائب دماغ پروفیسروں اور گماشتہ تجزیہ گاروں کو سونپ رکھا ہے۔

انسانی تاریخ اس تمام طرز فکر کی نفی کرتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ عوام نے ایک دفعہ نہیں بلکہ سینکڑوں دفعہ حکمرانوں کا تختہ الٹا ہے اور تاریخ کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا عمل بھی سر انجام دیا ہے۔ انقلابات انسانی سماج کا ایک نامیاتی حصہ ہیں اورکسی بھی سماج کے تضادات جب کسی مخصوص مرحلے پر ناقابل حل سطح پر پہنچ جائیں تو انہیں ایک انقلاب کے ذریعے حل کیا جاتا ہے۔ ٹراٹسکی کے الفاظ میں ایک انقلاب سب سے پہلے عوام کی سماجی اور سیاسی معاملات میں براہ راست مداخلت کا عمل ہوتا ہے۔ اس سے قبل سیاست، معیشت اور دیگر اہم معاملات حکمرانوں کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور وہی تمام تر پالیسیاں اپنے مفادات کے تحت ترتیب دیتے ہیں لیکن ایک انقلابی عمل میں یہ تمام فیصلے سڑکوں اور چوراہوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں ہوتے ہیں اور عوام براہ راست ایک اجتماعی عمل کے ذریعے فیصلے کرتے ہوئے حالات کو فیصلہ کن انداز میں تبدیل کرتے ہیں۔ سری لنکا میں بھی ہمیں واضح طور پر نظر آیا کہ عوام نے اگلے الیکشنوں کا انتظار نہیں کیا، کسی عدالت میں درخواست دائر نہیں کی اور نہ ہی کسی آرمی چیف یا جنرل کو مدد کے لیے پکارابلکہ جب حالات ان کی برداشت سے باہر ہو گئے تو خود سڑک پر آکر نہ صرف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا بلکہ اس تمام تر بحران کے ذمہ داروں کو بھی ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ حکمرانوں نے اس کے لیے پولیس، فوج اور دیگر ریاستی اداروں کا استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی اور آخری تجزیے میں ریاست مسلح جتھوں کا ہی دوسرا نام ہے لیکن پوری دنیا نے دیکھا کہ عوام کے بپھرے ہوئے طوفان کے سامنے یہ ریاستی طاقت ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور تمام تر جبر کے باوجود حکمران شکست سے دوچار ہوئے۔ درحقیقت فوج کے سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد بھی عوام کے اس ریلے کا حصہ بن گئی اور اپنے افسران کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس دوران سماج کی پسماندہ پرتوں سے مسلح جتھے تشکیل دے کر عوام پر حملہ کروانے کی بھی کوششیں کی گئیں اور جیلوں سے سزا یافتہ مجرموں کو رات کی تاریکی میں باہر نکال کر ریاست اداروں کی سرپرستی میں منظم کر کے ایک عوامی دھرنے پر حملہ کرنے کے لیے بھی بھیجا گیا۔ لیکن عوام نے اس حملے کا بھی منہ توڑ جواب دیا اور ان غلیظ حملہ آوروں کو نہ صرف بھاگنے پر مجبور کر دیا بلکہ ان خونریز جتھوں کو منظم کرنے والے افسران اور وزیروں کے گھروں پر دھاوا بول کر انہیں بھی دھول چٹوائی۔

یہ پورا عمل اس امر کی گواہی ہے کہ عوامی طاقت ہی وہ بنیاد ہے جس پر پورا سماج کھڑا ہوتا ہے اور ریاست کے تمام ادارے خود کو جتنا مرضی قد آور اور بالا دست سمجھ لیں وہ عوام کے ہی مرہون منت ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ، عدلیہ اور ریاستی مشینری کے دیگر ادارے بظاہر عوام پر حکمرانی کرتے نظر آتے ہیں اور عوام کی تقدیروں کا فیصلہ کرتے پائے جاتے ہیں لیکن جب عوامی تحریک فیصلہ کن انداز میں باہر نکلتی ہے تو ان کی تمام تر طاقت ہوا میں معلق ہو جاتی ہے اوریہ عوام دشمن طاقتیں خود اپنی زندگی کی بھیک مانگتی نظر آتی ہیں۔

سوشلسٹ انقلاب ہی حتمی حل ہے

سری لنکا میں عوامی تحریک سے حکومت کا خاتمہ تو کر دیا گیا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست اب بھی پہلے کی طرح موجود ہے۔ پچھلے وزیر اعظم کی جگہ وکرما سنگھے نیا وزیر اعظم بن چکا ہے اور بھگوڑے صدر کی جگہ بھی ایسا ہی کوئی شخص لے گا۔ وکرما سنگھے بھی حکمران طبقے کا ہی حصہ ہے اور پہلے بھی اہم عہدوں پر فائز رہ چکا ہے گو کہ پچھلے انتخابات میں اس کی پارٹی کو بد ترین شکست ہوئی تھی۔ اس کی تمام تر پالیسیاں بھی پچھلی حکومت جیسی ہی ہیں اور وہ بھی آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی طاقتوں سے بھیک مانگ رہا ہے جبکہ ملک میں موجود سرمایہ دار طبقے کیخلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا۔ اس سے کوئی دوسری توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت سری لنکا میں ایک ایسی انقلابی پارٹی کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے جو سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا پروگرام پیش کرے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ تمام بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور صنعتوں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لینے کا اعلان کیا جائے اور مارکیٹ اکانومی کا خاتمہ کرتے ہوئے منصوبہ بند معیشت کا آغاز کیا جائے۔ پورے ملک میں موجود نجی ملکیت کے قوانین کو ختم کرتے ہوئے تمام کلیدی صنعتیں اور معیشت کے اہم شعبے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لے لیے جائیں۔ ملک میں موجود تمام دولت اور وسائل کو منصوبہ بندی کے ذریعے عوام کی ضروریات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے۔ تمام سامراجی قرضوں کو ضبط کرنے کا اعلان کی جائے اور انہیں دینے سے انکار کر دیا جائے۔ ملک میں ہونے والی تمام تر پیداوار کی ملکیت عوام کو منتقل کر دی جائے اور اس کو عوام کی جمہوری رائے سے صَرف کیا جائے۔ اس کے لیے پرانے ریاستی ڈھانچے کو ختم کرتے ہوئے ایک مزدور ریاست کا ڈھانچہ ترتیب دینا ہوگا جس کے بیج اس وقت سری لنکا میں ملکی سطح پر موجود ہیں۔ ہر گاؤں اور محلے کی سطح پر عوام کی منتخب کمیٹیوں کو علاقے کا تمام تر انتظامی، معاشی اور سیاسی کنٹرول اپنے اختیار میں لینا ہوگا اور سرمایہ دارانہ ریاست کے پرانے اہلکاروں کو انتظامی، عدالتی اور دیگر عہدوں سے برخاست کرتے ہوئے گھروں کو بھیجنا ہوگا۔ فوج کے اندر سپاہیوں کی منتخب کمیٹیوں کے ذریعے ادارے کو چلانا ہو گا جو عوام کی منتخب کمیٹیوں کے زیر اثر ہوں گے۔ اسی طرح بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کا کنٹرول بھی عوامی کمیٹیوں کے اختیار میں لینا ہوگا اور ملکی سطح کی نئی منتخب کمیٹیوں کے ذریعے مزدور ریاست کی نئی حکومت تشکیل دینی ہوگی۔ اس مزدور ریاست میں قومی جبر کا بھی مکمل خاتمہ ہو گا اور مذہبی تعصبات کی بنیاد پر سماج میں زہر پھیلانے والے تمام کاروبار بند کیے جائیں گے۔ ذرائع پیداوار پر مزدوروں کا جمہوری کنٹرول مفلوج معیشت کو دوبارہ سے زندہ کر دے گا اور پوری آبادی کی دن رات کی محنت اور انقلابی حرارت اس معیشت میں نئی روح پھونک دے گی۔ سری لنکا کے مزدوروں کی یہ انقلابی فتح انڈیا سمیت پوری دنیا کے محنت کشوں کے لیے آگے بڑھنے کا پیغام ہوگی اور اس مزدور ریاست کی حمایت میں دنیا بھر کا عوامی رد عمل اس ریاست کو مزید تقویت دے گا او ر اسے سامراجی طاقتوں کے جبر سے تحفظ دے گا۔ اس تحریک کے سوشلسٹ اقدامات تیزی سے انڈیا اور دیگر ممالک میں پھیل کر وہاں بھی سوشلسٹ انقلابات کی راہ ہموار کریں گے اور جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کی منزل کی جانب محنت کشوں کا سفر تیزی سے طے ہو گا۔ یہ سب اقدامات کرنے کے لیے سوشلسٹ نظریات سے لیس ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی انتہائی اہمیت کی حامل ہے جو ان نظریات کے تحت ایک سیاسی پروگرام عوام میں پیش کرے۔ اس پارٹی کو پہلے سے موجود بائیں بازو کی پارٹیوں کی غداریوں اور نظریاتی ا بہام کا بھی جواب دینے کی ضرورت ہو گی اورخاص طور پر قومی مسئلے پرکی گئی غداریوں کا بھی طبقاتی جڑت کے پیغام سے جواب دینے کی ضرورت ہو گی۔ ابھی تک تحریک کا اولین دستہ زیادہ تر طلبہ اور درمیانے طبقے کے مختلف حصوں پر مشتمل رہا ہے اور مزدورطبقہ اس میں کلیدی کردار ادا نہیں کر پایا۔ گوکہ ایک عام ہڑتال منظم کی جا چکی ہے اور ریلوے سمیت مختلف اداروں کے مزدور متحرک ہیں لیکن تحریک کی قیادت حاصل کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کی وجہ ٹریڈ یونین قیادتوں کا مفاہمتی کردار ہے۔ حکمران طبقہ بھی اسی لیے اپنے اقتدار کو طول دے پا رہا ہے اور مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال کر رہا ہے۔ مزدور طبقے کے لیے قیادت حاصل کرنے میں واحد رکاوٹ اس کی اپنی ہچکچاہٹ اور نظریاتی ابہام ہے۔ جس وقت سری لنکا کا مزدور طبقہ قیادت میں آئے گا اس وقت اس تحریک کا کردار یکسر تبدیل ہو جائے گا اور وہ جمہوری مطالبات کی بجائے نجی ملکیت کی حاکمیت پر سوال اٹھائے گی۔ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام پر فیصلہ کن وار کرنے کا موقع بھی موجود ہوگا۔ اسی صورتحال میں ایک انقلابی پارٹی موجود ہوتی ہے اور سوشلسٹ انقلاب کی جانب پیش قدمی کرتی ہے تو پوری دنیا میں موجود سرمایہ دارانہ نظام کو زلزلے کے جھٹکے لگیں گے اور اس کاموت کی جانب سفر مزید مختصر ہو جائے گا۔

Comments are closed.