|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ،لاہور|
7نومبر کی شب کو لاہور ہائیکورٹ کے احکامات کے تحت گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کی مرکزی قیادت نے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کیخلاف تقریباً ایک ماہ سے جاری ہڑتال کے خاتمے کا اعلان کر دیا اور یوں اس نجکاری مخالف جدوجہد کا ایک مرحلہ اختتام پذیر ہوا۔ اس تمام عرصے میں پنجاب کے شعبۂ صحت کے محنت کشوں نے زبردست اتحاد اور ولولے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نہایت ہی جرأت مندانہ لڑائی لڑی جس پر وہ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ بیک وقت حکومت، افسر شاہی، عدلیہ، میڈیا، خفیہ اداروں اور تحریک کے اندر موجود ان کے دلالوں کی سازشوں، حملوں، پروپیگنڈے اور دباؤ کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا اور وہ بھی ایک ایسے ماحول میں جب کسی دوسرے عوامی ادارے میں فی الوقت کوئی بڑی نجکاری مخالف لڑائی سطح پر موجود نہیں۔ ملکی سطح پر مزدور تحریک کے منظم اظہار کی عدم موجودگی کے باعث بھی یہ تحریک سماجی تنہائی کا شکاررہی۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود شعبۂ صحت کے محنت کشوں نے گرینڈ ہیلتھ الائنس کی صورت میں جس دلیری کے ساتھ اس تحریک کو آگے بڑھایا، وہ بلا شبہ ملک کے تمام محنت کشوں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ مزید برآں،پختونخواہ میں شعبۂ صحت کے محنت کشوں کی شاندار نجکاری مخالف جدوجہد ابھی بھی جاری ہے اور وہاں پرہڑتال اپنے 43 ویں دن میں داخل ہو چکی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں بھی یہ تحریک ابھی اپنے حتمی اختتام تک نہیں پہنچی اور اس بات کے کافی امکانات ہیں کہ یہ تحریک ایک مرتبہ پھر پوری شدت کے ساتھ سر اٹھائے گی۔ اسی لیے یہ اہم ہے کہ ابھی تک کی تمام جدوجہد سے لازمی نتائج اخذ کیے جائیں تا کہ تحریک کے دوبارہ اٹھنے کی صورت میں اسے فیصلہ کن کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکے۔
سب سے پہلے تویہ واضح ہے کہ شعبۂ صحت کے محنت کشوں کے اتحاد اور جرأت وحوصلے نے پنجاب حکومت کے قدم اکھاڑ دیے تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب حکومت اور افسر شاہی تمام تر دھمکیوں، تادیبی کاروائیوں، پروپیگنڈے، دباؤ اورسازشوں کے باوجود اس تحریک کو توڑنے میں ناکام رہے تو انہوں نے اسے کچلنے کے لیے عدالت کا سہارا لیا۔ ان عدالتوں کا حقیقی کردار کیا ہے، اس پر ہم اپنی پچھلی رپورٹس میں تفصیلاً بحث کر چکے ہیں اور یہاں صرف اتنا ہی دہرائیں گے کہ عدلیہ سمیت طبقاتی سماج کا ہر ادارہ حتمی تجزئیے میں سرمایہ دارحکمران طبقے کے مفادات کا ہی محافظ ہوتا ہے اور غیر جانبداری کے تمام تر ڈھونگ سے قطع نظر ہر فیصلہ کن موڑ پر بالادست طبقات کی ہی طرف داری اور حمایت کرتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے بھی اپنے احکامات میں اپنے اسی طبقاتی کردار کا ہی اظہار کیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ عدالت نے آئی ایم ایف کے احکامات پر ہونے والی سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری جیسے عوام دشمن حکومتی اقدام کیخلاف کوئی بات نہیں کی بلکہ ایک ایسی ریاست اور حکمران طبقے، جس کی لوٹ مار، نااہلی اور عوام دشمنی کے باعث ہر سال صحت کی مفت ومعیاری سہولیات سے محروم لاکھوں غریب تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، کے جرائم کا سارا ملبہ شعبۂ صحت کے محنت کشوں پر ڈالتے ہوئے انہیں یہ نجکاری مخالف ہڑتال کرنے پر عوام دشمن قرار دے ڈالا۔ عدالت کا تحریری حکم نامہ پڑھیں تو سانحہ ساہیوال کے مجرموں، راؤ انوار جیسے سرکاری قاتلوں، استحصالی سرمایہ داروں، غاصب جرنیلوں اور سیاسی لٹیروں کو کھلی چھوٹ دینے والی عدالت عوام کے غم میں ہلکان مگر مچھ کے آنسو بہاتی نظر آتی ہے۔
اسی طرح، لازمی سروسز ایکٹ جیسے کالے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے شعبۂ صحت کے محنت کشوں کے ہڑتال کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے حالانکہ یہ ہر محنت کش کا بنیادی ترین جمہوری حق ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آئندہ ہڑتال کرنے پر محنت کشوں کو فوجداری مقدمات، برطرفیوں، قید اور جرمانو ں کی بھی دھمکیاں دی گئیں ہیں لیکن یہی عدالتیں تاجروں، وکلاکی ہڑتال یا فیکٹری مالکان کی طرف سے ڈاؤن سائزنگ یا مزدوروں کو کم اجرت پر کام کے لیے مجبور کیے جانے والے لاک آؤٹ پر اندھی بن جاتی ہیں۔ مزید برآں، ابھی تک جاری کردہ شوکاز نوٹسوں، معطلیوں اور برطرفیوں کو بھی واپس نہیں لیا گیا اور انتہائی دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں ایک طرف محکمہ صحت کو متعلقہ محنت کشوں کے خلاف تادیبی کاروائی آگے بڑھانے سے روک دیا گیا ہے وہیں دوسری طرف ان محنت کشوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان شو کاز نوٹسوں کا جواب دیں جس کا آسان زبان میں مطلب یہ ہے کہ وہ گڑگڑاتے ہوئے محکمے سے تحریری معافی مانگیں اور آئندہ سے ہڑتال نہ کرنے کی یقین دہانی کرائیں۔
اس کے علاوہ، ایم ٹی آئی ایکٹ (نجکاری بل) کو مسترد کرنا تو دور کی بات اس میں نام نہاد ترامیم، جن میں عوام کو مفت علاج کی فراہمی اور ملازمین کے مستقل روزگار کے تحفظ جیسی بنیادی چیزوں کا کوئی ذکر نہیں ہے، کے لیے بھی محنت کشوں کو واپس پہلے سے تشکیل کردہ ایک ڈھونگی مذاکراتی کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی طاقتور تحریک اور مضبوط ہڑتال کے باوجودگرینڈ ہیلتھ الائنس کی مرکزی قیادت نے ہڑتال کے خاتمے کا فیصلہ کیوں کیا اور کیا واقعی اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ان وجوہات کو سمجھنا آئندہ اٹھنے والی ممکنہ نجکاری مخالف تحریک کی کامیابی کے لیے نہایت ضروری ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں بالکل واضح ہونا چاہیے کہ عام محنت کشوں خصوصاً نرسز اور پیرامیڈیکس کی ایک بھاری ترین اکثریت مقصد کے حصول تک ہڑتال جاری رکھنے کے حق میں تھی۔ ینگ ڈاکٹرز کی بھی ایک قابل ذکر تعداد کا مؤقف یہی تھا۔ مگر جی ایچ اے پنجاب کی مرکزی قیادت تحریک کے اس فیصلہ کن موڑپر ہمت ہار بیٹھی اور عدالت کے کاغذی رعب ودبدبے کے دباؤ میں آ کر ان کے اعصاب چٹخ گئے۔ یہاں تک کہ اس معاملے پر ہونے والی آخری میٹنگ میں ہڑتال جاری رکھنے کے حق میں واحد ووٹ کور کمیٹی میں موجود ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندے کا تھا جبکہ باقی تمام اراکین نیچے سے آنے والے دباؤ کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے ہڑتال کا خاتمہ چاہتے تھے۔ مگر ایسا ہوا کیوں؟ بلاشبہ، اس کی ایک تو وجہ تحریک کی طوالت کے باعث قیادت پر چھا جانے والی تھکن تھی مگر یہ قیادت کی بدحوصلگی اور کم ہمتی کا بنیادی کارن نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قیادت سرمایہ دارانہ سماج اور ریاست کی نظریاتی و تاریخی سمجھ بوجھ سے بالکل عاری تھی اور اسی لیے نہ صرف یہ کہ اسے محنت کش طبقے کی قوت بازو پر بھر پور سائنسی یقین نہ تھا بلکہ وہ سرمایہ دارانہ ریاستی اداروں کو ایک ازلی و ابدی حقیقت سمجھتے ہوئے ان کو ایک ناقابل تسخیر قوت کے طور پر دیکھتی تھی حالانکہ سادہ سی زمینی حقیقت یہ تھی کہ محنت کش قیادت کے ایک اشارے پر ہر قربانی دینے کو تیار تھے اور یہ محنت کش ہی اپنی دن رات کی محنت سے ان ہسپتالوں کو چلاتے ہیں اور ان کے علاوہ عدلیہ، پولیس، حکومت اور خفیہ اداروں سمیت دنیا کی کوئی طاقت ا نہیں چلا نہیں سکتی تھی۔ درحقیقت، تحریک اپنے پہلے دن ہی سے مرکزی قیادت کی اس نظریاتی و سیاسی تنگ نظری کی جکڑبندی کا شکار تھی۔ اس تنگ نظری نے بارہا اپنا اظہار عوامی حمایت جیتنے کے لیے درکار عوامی آگہی مہم پر توجہ نہ دینے، دیگر عوامی اداروں اور صنعتوں کی ٹریڈیونینز سے یکجہتی مانگنے کی سنجیدہ اور بھرپور اپیل نہ کرنے، پختونخوا اور پنجاب کے جی ایچ اے کے مابین مقصد ایک ہونے کے باوجود عملی اتحاد کے نہ بننے اور مرکزی قیادت کی ہر میٹنگ میں نام ونمود اور چھوٹی چھوٹی ذاتی رنجشوں پر ہونے والی مسلسل چپقلش کی صورت میں کیا۔
واضح رہے کہ ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان نے تحریک میں بھر پور مداخلت کرتے ہوئے اپنی عددی بساط کے مطابق ان کمزوریوں کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کی جس میں لیفلٹ لکھنے اور پوسٹر بنانے سے لے کر دیگر اداروں کی ٹریڈ یونین قیادتوں سے جی ایچ اے قیادت کی ملاقاتیں کرانے اور نہایت مقبول ہونے والی نجکاری مخالف ویڈیوز بنانے تک بے شمار اقدامات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈ ورکرز فرنٹ نے تحریک کے تمام مرحلوں سے لے کر آخری وقت تک عملی مداخلت، مسلسل رپورٹنگ اور جی ایچ اے کی کور کمیٹی میٹنگز میں اپنے موقف کے ذریعے تحریک کے شعوری معیار کو بڑھانے اور قیادت کی نظریاتی کج روی دور کرنے کی بھر پور کوششیں جاری رکھیں۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر قیادت اس فیصلہ کن موڑ پر ہمت ہار کر سمجھوتہ نہ کرتی تو یہ لڑائی چند دنوں میں جیتی جا سکتی تھی۔ درحقیقت، عدالتی جبر کا استعمال حکومت و ریاست کے پاس موجود آخری آپشن تھا۔ یہ آخری امتحان تھا جس کے بعدکامیابی تحریک کی منتظر تھی۔ اگر مرکزی قیادت اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے ہڑتال جاری رکھنے اور اگلے روز صرف لاہور شہر سے ہی شعبۂ صحت کے محنت کشوں کو ہائیکورٹ کے سامنے ایک بھر پور احتجاج کرنے کی کال دے دیتی تو سب دیکھتے کہ حکومت کیسے دم دبا کر بھاگتی۔ اگر بالفرض اس کے بعد حکومت یا عدالت ریاستی جبر کا آپشن استعمال کرتی تو اس سے بھی تحریک کی شدت میں مزید تیزی ہی آنی تھی اور یہ آخری حربے استعمال کر چکنے کے بعد چند ہی روز میں حکومت کی حتمی شکست یقینی تھی۔
اب جو کچھ ہو چکا ہے اسے بدلا تو نہیں جا سکتا لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی قیادت اپنا محاسبہ کرے اور اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا ادراک حاصل کرے۔ اس کے لیے سب پہلے تو لازمی ہے کہ عدالتی احکامات کو تروڑ مروڑ کر مزدور دوست ثابت کرنے اور فتح کا کھوکھلا جشن منانے کی بجائے عام محنت کشوں کو سب کچھ سچ سچ بتایا جائے۔ واضح رہے کہ تحریک کو لگنے والے اس وقتی دھچکے اور عدالتی احکامات سے حوصلہ پاتے ہوئے حکومت عنقریب مزید تادیبی کاروائیاں کرے گی اور تحریک کے متحرک کارکنوں کو انتقام کا نشانہ بنائے گی۔ مزید برآں، یہ بالکل واضح ہے کہ تحریک کا دباؤ ختم ہو جانے کے بعد ایم ٹی آئی ایکٹ واپس لینا تو دور کی بات حکومت کا اس میں کوئی کاسمیٹک ترامیم کرنے کابھی کوئی ارادہ نہیں ہے، لہٰذا اس نام نہاد مذاکراتی کمیٹی سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں اور دو چار فل سٹاپ یا کومے آگے پیچھے کر کے حکومت اس ایکٹ کو شعبۂ صحت کے محنت کشوں اور عوام پر عدالتی جبر کے ذریعے ہی مسلط کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس تمام صورتحال کا مقابلہ کرنے اور ہسپتالوں کی نجکاری کو رکوانے کے لیے شعبۂ صحت کے محنت کشوں کو ایک بار پھر عمل کے میدان میں اترنا ہوگا مگر اس کے لیے لازمی ہے کہ مرکزی قیادت ان سے حقائق چھپانے کی بجائے ان کے سامنے پوری سچائی بیان کرے۔ اسی طرح درمیانی عرصے میں عوامی آگہی مہم کو ترجیحی بنیادوں پر چلانے اور دیگر عوامی اداروں کی ٹریڈ یونینز کے ساتھ روابط کو بڑھانے پر بھرپور توجہ دینا ہو گی۔ جی ایچ اے پختونخواہ کی نجکاری مخالف تحریک کے ساتھ بھی مسلسل بنیادوں پر عملی اظہارِ یکجہتی ہونا چاہیے تاکہ اس تحریک پر پنجاب میں تحریک کو لگنے والے دھچکے کے اثرات کم سے کم ہوں۔ حتمی طور پر سب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی سطح کے اس شدید نامیاتی بحران کے عہد میں اصلاحات کی کوئی معمولی سی لڑائی جیتنے کے لیے بھی مزدور نظریات یعنی سوشلزم کی جانکاری ہونا لازمی ہے۔صرف ان ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر ہی نجکاری مخالف جدوجہد سمیت مزدور تحریک کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ریڈ ورکرز فرنٹ ہمیشہ کی طرح شعبۂ صحت کے محنت کشوں کی ہر جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔