|ترجمہ : حسن جان|
یہ مضمون اپریل 1939ء میں لکھا گیا، یہ ٹراٹسکی کے قتل سے قبل انقلابی مارکسزم کی سچائی کے متعلق اس کی آخری تحریروں میں سے ایک ہے۔ یہ مضمون 1939ء میںOtto Ruhleکی جانب سے کی جانے والی مارکس کی سرمایہ کی تلخیص کے تعارف کے طور پر لکھا گیا تھا۔ اسے ایک پمفلٹ کے طور پر بھی شائع کیا گیا تھا۔ یہ پمفلٹ انٹرنیٹ پر سب سے پہلے ’’مارکسزم کے دفاع میں(marxist.com)‘‘ ویب سائٹ پر شائع ہواتھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ کتاب مختصراً مارکس کی معاشی تعلیمات کی اساس کو مارکس کے اپنے الفاظ میں پیش کرتی ہے۔ بہر حال قدرِ محنت کے نظریئے کی خود مارکس سے بہتر کوئی بھی تشریح نہیں کر پایا ہے۔ سرمایہ، مارکس کے پورے معاشی نظام کی بنیاد، کی پہلی جلد کی تلخیص اوٹو روہلے نے بڑی احتیاط اور اپنے کام کی گہری سمجھ بوجھ کے ساتھ کی ہے۔ سب سے پہلے تو فرسودہ مثالوں اور خاکو ں کو حذف کرنا تھا اور پھر صرف تاریخی اہمیت کی حامل تحریروں سے لیے گئے اقتباسات کو، فراموش شدہ مصنفین کے ساتھ مناظروں اور آخر میں متعدد دستاویزات کو (پارلیمانی قوانین، فیکٹری معائنہ کاروں کی رپورٹیں وغیرہ) جن کی اہمیت ایک مخصوص عہد کو سمجھنے کے لیے کچھ بھی ہو لیکن ایک مختصر توضیح، جو تاریخی سے زیادہ نظریاتی مقاصد رکھتی ہے، میں اُس کی کوئی جگہ نہیں۔ اس کے باوجود روہلے نے سائنسی تجزیے کی ترویج اور توضیح کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی بھر پور کوشش کی۔ ہمیں یقین ہے کہ خیال کے منطقی استخراج اور جدلیاتی حرکت میں کسی بھی مقام پر جھول نہیں آنے دیا گیا ہے۔ اس تلخیص کو توجہ اور غور سے نہ پڑھنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قاری کی مدد کے لیے اوٹو روہلے نے متن کے ساتھ مختصراً حاشیاتی عنوانات بھی فراہم کیے ہیں۔
نئے قاری کے لیے با لخصوص پہلے باب، جو سب سے مشکل ہے، میں مارکس کے بعض دلائل شاید متنازعہ، موشگافانہ یا ’’مابعد الطبیعاتی‘‘ لگیں۔ در حقیقت یہ تاثر عمومی مظاہر کو سائنسی انداز میں دیکھنے کی عادت کے فقدان کی وجہ سے اُبھرتا ہے۔ جنس (Commodity) ہماری روز مرہ زندگی کے لئے لازم و ملزوم اور اس حد تک عمومی چیز بن چکی ہے کہ ہم انجانے میں اس بات پر توجہ ہی نہیں دیتے کہ لوگ کیوں زندگی کے لیے لازمی اشیا کو سونے یا چاندی کے چھوٹے سکوں کی خاطر چھوڑ دیتے ہیں جن کا کوئی دنیاوی استعمال ہی نہیں۔ معاملہ صرف جنس تک محدود نہیں ہے۔ منڈی کی معیشت کے تمام مقولات (Categories۔ بنیادی تصورات) کو بغیر کسی تجزیے کے قبول کر لیا جاتا ہے کہ جیسے وہ انسانی تعلقات کی فطری بنیادیں ہوں۔ معاشی عوامل کے حقائق انسانی محنت، خام مال، اوزار، مشینیں، تقسیم محنت، تیار شدہ مال کو عمل محنت کے شرکا میں تقسیم کرنا وغیرہ ہیں جبکہ اجناس، روپے (money)، اجرتیں، سرمایہ، منافع، ٹیکس وغیرہ انسانوں کے ذہن میں معاشی عمل کے مختلف پہلوؤں کے نیم صوفیانہ عکس ہیں، جنہیں وہ نہیں سمجھتے اور جو اُن کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اُن کو سمجھنے کے لیے ایک جامع سائنسی تجزیے کی اشد ضرورت ہے۔
امریکہ میں، جہاں ایک ملین کے مالک آدمی کو ’’ملین مین‘‘ کہا جا تا ہے، منڈ ی کے نظریات کسی بھی دوسری جگہ کی نسبت زیادہ سرایت کرچکے ہیں۔ حالیہ دنوں تک امریکی معاشی تعلقات کی نوعیت کے بارے میں زیادہ غور و فکر نہیں کر تے تھے۔ طاقتور ترین معاشی نظام کی سرزمین میں معاشی نظریے کو کم اہمیت دی جاتی تھی۔ امریکی معیشت کے حالیہ گہرے بحران نے رائے عامہ کو سرمایہ دارانہ سماج کے بنیادی مسائل سے بے رحمانہ انداز میں آشنا کیا ہے۔ بہر حال، جس نے بھی معاشی ارتقا کے پہلے سے تیار شدہ نظریات کو من و عن قبول کرنے کی عادت کو نہیں چھوڑا، جس کسی نے بھی، مارکس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، جنس کی بنیادی فطرت کو، سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی خلیہ نہیں جانا، وہ ہمیشہ کے لیے ہمارے عہد کے اہم ترین مظاہر کو سائنسی انداز میں سمجھنے سے قاصر رہے گا۔
مارکس کا طریقہ کار
فطرت کے معروضی واقعات کے ادراک کے لیے سائنس کو قائم کرنے کے بعد انسان نے سائنس سے سختی سے اپنے آپ کو مسلسل الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے لیے غیر مرئی قوتوں (مذہب) یا ابدی اخلاقی نظریات(خیال پرستی) سے تعامل کی شکل میں مخصوص جگہیں(مراعات) بنانے کی کوشش کی ہے۔ مارکس نے انسان کو ان بیہودہ مراعات سے قطعی طور پر اور ہمیشہ کے لیے محروم کر کے اُسے مادی فطرت کے ارتقائی عمل کی ایک کڑی، انسانی سماج کو پیداوار اور تقسیم کی ایک تنظیم اور سرمایہ داری کو انسانی سماج کے ارتقا کا ایک مرحلہ قرار دیا۔
مارکس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ معیشت کے ’’ابدی قوانین‘‘ دریافت کرے۔ اس نے اس طرح کے قوانین کے وجود سے انکار کر دیا۔ انسانی سماج کے ارتقا کی تاریخ مختلف معاشی نظاموں کے تسلسل کی تاریخ ہے جن میں سے ہر ایک اپنے ہی قوانین کے تابع تھا۔ ایک نظام سے دوسرے نظام تک عبور کا تعین ہمیشہ پیداواری قوتوں، تکنیک اور محنت کی تنظیم، کی ترقی سے ہو تا تھا۔ ایک خاص مرحلے تک سماجی تبدیلیاں اپنے کردار میں مقداری ہوتی ہیں اور سماج کی بنیادوں (رائج الوقت ملکیتی رشتے) کو تبدیل نہیں کرتیں۔ لیکن ایک ایسا مرحلہ آجا تا ہے جب ترقی یافتہ پیداواری قوتیں پرانے ملکیتی رشتوں میں سما نہیں سکتیں، پھر سماجی نظام میں بنیادی تبدیلی اور بھونچال کا دور آتا ہے۔ غلام داری نے قدیم اشتمالی سماج کی جگہ لے لی، کسان غلامی(مزارعیت) مع جاگیر دارانہ بالائی ڈھانچے نے غلام داری کی جگہ لے لی، سولہویں صدی میں شہروں کی کاروباری ترقی نے یورپ کو سرمایہ داری سے متعارف کرایا جہاں سے یہ مختلف مراحل سے گزری۔ سرمایہ میں مارکس عمومی معیشت کی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ معیشت کا مطالعہ کر تا ہے جس کے اپنے مخصوص قوانین ہو تے ہیں۔ صرف مختصراً وہ دوسرے معاشی نظاموں کا حوالہ دیتا ہے تاکہ سرمایہ داری کے کردار کو واضح کر سکے۔
قدیم کسان خاندان کی خود کفیل معیشت کو کسی ’سیاسی معاشیات ‘ کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ایک طرف سے یہ فطری قوتوں اور دوسری طرف سے روایات کی قوتوں کے تابع تھی۔ غلاموں کی محنت پر قائم یونانیوں اور رومنوں کی خود کفیل فطری معیشت غلام مالکوں کی مرضی سے چلتی تھی جن کے ’منصوبے ‘ بذات خود معمول اور فطرت کے قوانین سے متعین ہو تے تھے۔ یہی بات عہد وسطیٰ کی جاگیروں مع اپنے کسان غلاموں کے بارے میں بھی درست ہے۔ ان تمام مثالوں میں معاشی تعلقات اپنی قدیم سادگی کے ساتھ واضح اور شفاف تھے۔ لیکن موجودہ سماج کی کہانی یکسر مختلف ہے۔ اس نے قدیم بے نیاز رابطوں اور وراثت میں ملی محنت کی اشکال کو ختم کر دیا۔ نئے معاشی تعلقات نے شہروں اور دیہاتوں، صوبوں اور اقوام کو یکجا کر دیا۔ تقسیم محنت نے پورے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، روایات اور معمول کو کچلتے ہوئے ان تعلقات نے کسی مخصوص منصوبے کے تحت نہیں بلکہ انسانی شعور اور پیش بینی کے بر عکس اپنی تشکیل کی اور ایسا لگتا ہے کہ انسان کے علم کے بغیر ہی ایسا ہوا۔ انسانوں، گروہوں، طبقوں اور اقوام کے ایک دوسرے پر انحصار، جو تقسیم محنت کا نتیجہ ہے، کو کوئی فرد منظم نہیں کرتا۔ لوگ ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کی ضروریات کو جانے بغیر اس اُمید اور یقین کے ساتھ کام کرتے ہیں کہ اُن کے تعلقات کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو منظم کریں گے اور حقیقت یہی ہے کہ ایسا ہی ہو تا تھا یا ہے۔
سرمایہ دارانہ سماج کے عوامل کی وجوہات کو موضوعی شعور، لوگوں کے ارادوں اور منصوبوں، میں تلاش کرنے کی کوشش قطعاً ناممکن ہے۔ سرمایہ داری کے عوامل سائنس کے اُس کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کر نے سے پہلے ہی وجود میں آگئے تھے۔ آج تک لوگوں کی اکثریت سرمایہ دارانہ معیشت کو چلانے والے قوانین سے بے خبر ہے۔ مارکس کے طریقہ کار کی تمام تر طاقت اس میں تھی کہ اُس نے معاشی مظاہر کو چند افراد کے موضوعی نکتہ نظر سے نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی پورے سماج کے معروضی نکتہ نظر سے دیکھا۔ جس طرح ایک تجرباتی فطری سائنسدان شہد کی مکھی کے چھتے یا چیونٹیوں کے گھر کا مطالعہ کر تا ہے۔
معاشی سائنس میں فیصلہ کن اہمیت اس بات کی ہے کہ لوگ کیا اور کیسے کر تے ہیں نہ کہ وہ خود اپنے عمل کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ سماج کی بنیاد مذہب یا اخلاقیات نہیں بلکہ فطرت اور محنت ہے۔ مارکس کا طریقہ کار مادیت پسندانہ ہے کیونکہ یہ وجود سے شعور کی طرف جاتا ہے نہ کہ اس کے بر عکس۔ مارکس کا طریقہ کار جد لیاتی ہے کیونکہ یہ فطر ت اور سماج کے ارتقا اور بذات خود ارتقا کو بر سر پیکار قوتوں کا باہمی تضاد قرار دیتا ہے۔
مارکسزم اور سرکاری سائنس
مارکس کے اپنے پیشرو تھے۔ کلاسیکی سیاسی معاشیات (ایڈم سمتھ، ڈیوڈ ریکارڈو) سرمایہ داری کے بوڑھے ہو کر مستقبل سے ڈرنے سے قبل ہی اپنے عروج تک پہنچ چکی تھی۔ مارکس نے دونوں عظیم کلاسیکی شخصیات سے گہر ی عقیدت کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود کلاسیکی معیشت دانوں کی بنیادی غلطی یہ تھی کہ وہ سرمایہ داری کو سماج کے ارتقا کے ایک تاریخی مرحلے کی بجائے انسانوں کے معمول کی زندگی سمجھتے تھے۔ مارکس نے اس سیاسی معاشیات کی تنقید سے آغاز کر تے ہوئے اس کی غلطیوں اور سرمایہ داری کے اپنے تضادات کو واضح کیا اور دکھا یا کہ اس کا انہدام ناگزیر ہے۔ جس طرح روزا لکسمبرگ نے درست انداز میں کہا کہ مارکس کی معاشی تعلیمات کلاسیکی معاشیات کی اولاد ہیں، ایسی اولاد جس نے اپنی ماں کی جان لے لی۔
سائنس دانشوروں کے ہوا بند مطالعے میں نہیں بلکہ زندہ و جاوداں سماج میں اپنی منزل کو پہنچتی ہے۔ تمام تر مفادات اور جذبات، جو سماج کو چیر ڈالتے ہیں، سائنس، بالخصوص سیاسی معاشیات، دولت اور غربت کی سائنس، کے ارتقا پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ سرمایہ داروں کے خلاف مزدوروں کی جد وجہد نے بورژوازی کے نظریہ دانوں کو مجبور کیا کہ وہ استحصالی نظام کے سائنسی تجزیے کو نظر انداز کر کے اپنے آپ کو معاشی حقائق کے محض تذکرے اور معاشیات کے ماضی کے مطالعے میں مصروف رکھیں۔ اس سے بھی زیادہ بد تر یہ کہ سرمایہ دارانہ حکومت کو جواز فراہم کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر یں۔ سرکاری تعلیمی اداروں اور بورژوا پریس میں پڑھائے اورتبلیغ کئے جانے والے معاشی نظریات میں اہم معاشی حقیقی مواد کی کمی نہیں تاہم یہ معاشی عمل کو سمجھنے اور اس کے قوانین اور تناظر کو دریافت کرنے کے قطعاً قابل نہیں اور نہ ہی یہ ایسا کر نے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سرکاری سیاسی معاشیات مر چکی ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج کا حقیقی علم صرف مارکس کی’ سرمایہ‘ سے ہی مل سکتا ہے۔
قدرِ محنت کا قانون
موجودہ سماج میں انسانوں کا سب سے اہم رشتہ تبادلہ ہے۔ محنت کی کوئی بھی پیداوار جب تبادلے کے عمل میں داخل ہو تی ہے توہ جنس بن جاتی ہے۔ مارکس نے اپنے تجزیے کا آغاز جنس سے کیا اور سرمایہ دارانہ سماج کے اس بنیادی خلیے سے اُن سماجی رشتوں کو اخذ کیا جو انسانوں کی خواہشات سے آزاد تبادلے کی بنیاد پر اپنی تشکیل کر تے ہیں۔ صرف اسی راستے پر چل کر ہی اُس بنیادی معمے کو حل کیا جاسکتا ہے کہ بورژوا سماج میں، جہاں انسان صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے اور کوئی بھی دوسروں کے بارے میں نہیں سوچتا، کس طرح زندگی کے لیے لازم معیشت کی مختلف شاخوں کے اضافی تناسب تشکیل پاتے ہیں۔
مزدور اپنی قوت محنت بیچتا ہے، کسان اپنی پیداوار منڈی میں لے جا تا ہے، بینکار کے ساہو کار قرضے دیتے ہیں، پرچون فروش کے پاس مختلف اقسام کی اجناس ہو تی ہیں، صنعتکار پلانٹ لگاتے ہیں، سٹے باز سٹاک اور بانڈز کی خرید و فروخت کر تے ہیں، ہر کسی کو اپنی ترجیحات، ذاتی منصوبوں اور اجرتوں اور منافعوں کی فکر ہو تی ہے۔ اس کے باوجود ان انفرادی کوششوں کے انتشار سے ایک مخصوص معاشی کُل ابھرتا ہے جو بلا شبہ ہم آہنگ نہیں بلکہ متضاد ہے لیکن سماج کو لازماً نہ صرف زندہ رہنے بلکہ ترقی کرنے کے مواقع فراہم کر تا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتشار ہر گز انتشار نہیں ہے بلکہ، اگر چہ شعوری طور پر نہیں، کسی حد تک خود بخود منظم ہو تا ہے۔ معیشت کے مختلف پہلوؤں کے آپس میں نسبتی توازن کی حرکیات کو سمجھنے کے لیے ہمیں سرمایہ داری کے معروضی قوانین کو دریافت کر نا ہو گا۔
واضح طور پر، سرمایہ دارانہ معیشت کے مختلف شعبوں؛اجرت، قیمت، زمین، کرایہ، منافع، سود، قرض، سٹاک ایکسچینج، کو چلانے والے قوانین بے شمار اور پیچیدہ ہیں۔ لیکن آخری تجزیے میں وہ سب ایک ہی قانون پر منتج ہو تے ہیں جسے مارکس نے دریافت کرکے مکمل تجزیہ کیا اور وہ ہے قدر محنت کا قانون، جو بلاشبہ سرمایہ دارانہ معیشت کا بنیادی ریگولیٹر ہے۔ اس قانون کا جوہر سادہ ہے۔ سماج کے پاس زندہ قوت محنت کا ایک مخصوص ذخیرہ ہے۔ جب اس قوت کو فطرت پر لاگو کیا جاتا ہے تو انسانی ضروریات کی تسکین کے لیے لازمی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ آزاد پیداوار کنندگان کے بیچ تقسیم محنت کے نتیجے میں پیداوار اجناس کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اجناس کا ایک خاص تناسب سے باہمی تبادلہ، پہلے بلاواسطہ اور بالآخر روپے یا سونے کے ذریعے، ہو تا ہے۔ اجناس کی بنیادی خاصیت، جو انہیں ایک خاص تعلق سے ایک دوسرے کے مساوی بنادیتی ہے، اُن پر لگنے والی انسانی محنت ہے۔ تجریدی محنت، عمومی محنت جو تمام تر قدر کی بنیاد اور پیمائش ہے۔ لاکھوں منتشر پیداوار کنندگان کے درمیان تقسیم محنت سماج کی ٹوٹ پھوٹ پر منتج نہیں ہو تی کیونکہ اجناس کا تبادلہ اُن پر صرف کیے گئے سماجی لازمی وقت محنت کے مطابق ہو تا ہے۔ اجناس کو قبول کر کے یا مسترد کر کے منڈ ی، جو تبادلے کی جگہ ہے، اُن کے اندر سماجی لازمی محنت کی موجودگی یا غیر موجودگی کا تعین کر تے ہوئے سماج کے لیے مختلف لازمی اجناس کے تناسب کا تعین کر تی ہے اور نتیجتاً مختلف پیشوں کے مطابق قوت محنت کی تقسیم کر تی ہے۔
منڈی کے اصل عوامل یہاں پر بیان کر دہ چند سطروں سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔ پس قیمتیں قدر محنت کے گرد ڈولتے ہوئے اُس کے آس پاس ہی گھٹتی بڑھتی ہیں۔ اس اتار چڑھاؤ کی وجوہات کو مارکس نے سرمایہ کی تیسری جلد میں تفصیل سے بیا ن کیا ہے جو ’’سرمایہ دارانہ پیداوار کے عمل کو کلی طور پر‘‘ بیان کر تی ہے۔
انفرادی مثالوں میں اجناس کی قیمتوں اور قدروں میں فرق کتناہی زیادہ کیوں نہ ہو اس کے باوجود تمام قیمتوں کا حاصل جمع تمام قدروں کے حاصل جمع کے برابر ہو تا ہے کیونکہ آخری تجزیے میں انسانی محنت سے تخلیق کی گئی قدر ہی سماج کو ملتی ہے اور قیمتیں بشمول ٹرسٹوں کی اجارہ دارانہ قیمتیں ان حدود و قیود کو پار نہیں کر سکتیں۔ جہاں محنت نے کچھ پیدا نہ کیا ہو وہاں ’’راک فیلر‘‘ (Rockefeller)کو بھی کچھ نہیں مل سکتا۔
نابرابری اور استحصال
اگر اجناس کا آپس میں تبادلہ ان پر صرف کی گئی محنت کے مطابق ہو تا ہے تو برابری سے نابرابری کیسے جنم لیتی ہے؟ مارکس نے اس معمے کو اجناس میں سے ایک کی مخصوص فطرت کی وضاحت کر تے ہوئے حل کیا جو تمام تر دوسری اجناس کی بنیاد ہے، اور وہ ہے قوت محنت۔ ذرائع پیداوار کا مالک، سرمایہ دار، قوت محنت خریدتا ہے۔ تمام تر دوسری اجناس کی طرح اس کی قدر کی پیمائش اس پر خرچ کی گئی محنت کی مقدار سے کی جاتی ہے۔ یعنی وہ تمام ذرائع زندگی جو مزدور کے زندہ رہنے اور واپس کام پر آنے کے لیے ضروری ہو تے ہیں۔ لیکن اس جنس یعنی قوت محنت کے صرف ہونے کا مطلب کام یعنی قدر کی تخلیق ہے۔ ان نئی تخلیق کی گئی قدروں کی مقدار اُس سے بہت زیادہ ہے جو مزدور کو اس کام کے عوض ملتی ہے جسے وہ اپنی دیکھ بھال کے لیے خرچ کر تا ہے۔ سرمایہ دار قوت محنت کا استحصال کر نے کے لیے اُسے خرید تا ہے۔ یہی استحصال نابرابری کی بنیاد ہے۔
پیداوار کا وہ حصہ جو مزدور کے زندہ رہنے کے کام آتا ہے اسے مارکس لازمی پیداوار کہتا ہے اور اس سے زیادہ کی پیداوار کو زائد پیداوار (Surplus Product)۔ غلام کو زائد پیداوار لازماً پیدا کر نا ہو گی ورنہ غلام مالک غلام رکھے گا ہی نہیں۔ کسان غلام کو لازماً زائد پیداوار پیدا کر نا ہوگی ورنہ کسان غلامی جاگیر دار طبقے کے کسی کام کی نہیں۔ اسی طرح اجرتی مزدور بھی بہت بڑی مقدار میں زائد پیداوار پیدا کرتا ہے بصورت دیگر سرمایہ دار کو قوت محنت خریدنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ طبقاتی جد وجہد زائد پیداوار کے حصول کی جد وجہد کے علاوہ کچھ نہیں۔ جس کے پاس زائد پیداوار ہوگی وہی حالات کا مالک ہوگا۔ اُسی کے پاس دولت، ریاست، کلیسا، عدالتیں، سائنس اور آرٹ کی ملکیت ہو گی۔
مقابلہ بازی اور اجارہ داری
مزدوروں کا استحصال کرنے والے سرمایہ داروں کے درمیان تعلقات کا تعین مقابلہ بازی کر تی ہے جو ایک عرصے سے سرمایہ دارانہ ترقی کی کنجی ہے۔ بڑی بڑی فرموں کو چھوٹی فرموں پر تکنیکی، مالیاتی، تنظیمی، معاشی اور سب سے بڑھ کر سیاسی برتری حاصل ہے۔ سرمائے کی بڑی مقدار، یعنی مزدوروں کی بڑی تعداد کااستحصال کرنے کے قابل ہو نا، ناگزیر طور پر مقابلے میں فتح یا ب ہو تی ہے۔ یہی سرمائے کے ارتکاز اور اس کی مرکزیت کے عمل کی اٹل بنیاد ہے۔
جہاں مقابلہ بازی تکنیک کی ترقی کا باعث بنتی ہے وہیں یہ نہ صرف درمیانی پرتوں بلکہ اپنے آپ کا بھی خاتمہ کر دیتی ہے۔ مردہ اور نیم مردہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے سرمایہ داروں کی قیمت پر ہمہ وقت عددی طور پر کم مگر طاقتور سرمایہ دار ابھرتے ہیں۔ اس طرح ’’ایماندار‘‘، ’’جمہوری‘‘ اور ’’ترقی پذیر‘‘ مقابلہ بازی سے قطعی خطرناک، طفیلی اور رجعتی اجارہ داری جنم لیتی ہے۔ پچھلی صدی کی اَسّی کی دہائی میں اجارہ داری نے اپنے آپ کو ظاہر کر نا شروع کیا اور موجودہ صدی کے آغاز میں حتمی شکل اختیار کر لی۔ اب بورژوا سماج کے سرکاری نمائندوں کی اکثریت اجارہ داری کی فتح کو قبول کر تی ہے۔ امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل ہومر ایس کمنگز نے شکایت کی ہے کہ روکنے والی قوت کے طور پر مقابلہ بازی کو بڑے شعبوں میں آہستہ آہستہ ہٹا یا جا رہا ہے اور ماضی کے حالات کی صرف یادیں رہ گئی ہیں۔ جبکہ مارکس نے اپنے تجزیے کے دوران جب پہلی دفعہ سرمایہ داری کے اندرونی رجحانات سے اجارہ داری کو اخذ کیا تھا، اس وقت بورژوا دنیا مقابلہ بازی کو فطرت کے ابدی قانون کے طور پر دیکھتی تھی۔
اجارہ داری کے ذریعے مقابلہ بازی کا خاتمہ سرمایہ دارانہ سماج کی ٹوٹ پھوٹ کی علامت ہے۔ مقابلہ بازی سرمایہ داری کا اہم ترین تخلیقی حصہ اور سرمایہ داروں کا تاریخی جواز تھا۔ اسی وجہ سے ہی مقابلہ بازی کے خاتمے کا مطلب کھاتہ داروں کو سماجی طفیلیوں میں بدلنا ہے۔ مقابلہ بازی کو کچھ آزادیاں دینا پڑتی تھیں؛ آزاد فضا، جمہوری اور کاروباری عالمگیریت کی حکومت۔ اجارہ داری کے لیے حتی الامکان آمرانہ حکومت، محصولات، خام مال کے ’اپنے ‘ ذرائع اور منڈی (نوآبادیات) کی ضرورت ہو تی ہے۔ اجارہ دارانہ سرمائے کی ٹوٹ پھوٹ کی آخری منزل فاشزم ہے۔
دولت کا ارتکاز اور طبقاتی تضادات کا ابھار
سرمایہ داروں اور اُن کے حواریوں کی ہر طرح سے یہ کوشش ہے کہ دولت کے ارتکاز کی حقیقی کیفیت کو لوگوں اور حتیٰ کہ ٹیکس وصول کنندگان کی آنکھوں سے اوجھل رکھے۔ بڑی ڈھٹائی سے بورژوا ذرائع ابلاغ اب بھی سرمایہ دارانہ سرمایہ کاری کی ’جمہوری ‘ تقسیم کے فریب کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مارکسسٹوں کو رد کر تے ہوئے نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ تین سے پانچ ملین الگ آجر موجود ہیں۔ یہ درست ہے کہ جوائنٹ سٹاک کمپنیاں تین سے پانچ ملین آجروں کی نسبت دولت کے زیادہ ارتکاز کی غمازی کر تی ہیں لیکن امریکہ میں ’’آدھ ملین کارپوریشنز‘‘ بھی ہیں۔ اوسط اعداد و شمار کو اس طرح پیش کرنے کا مقصد حقائق کو دکھانا نہیں بلکہ چھپانا ہے۔
جنگ کے آغاز سے لے کر 1923ء تک امریکہ میں پلانٹس اور فیکٹریوں کی تعداد انڈیکس عدد 100 سے 98.7 پر آگئی جبکہ صنعتی پیداوار کی مقدار 100 سے 156.3 تک چلی گئی۔ ہیجان خیز’ ترقی‘ کے ادوار (1923-29ء) کے دوران جب ایسا لگ رہا تھا کہ ہر کوئی امیر ہو رہا ہے، بڑی فرموں کی تعداد 100سے 93.8 تک گر گئی جبکہ پیداوار 100 سے 113 ہو گئی۔ لیکن کاروباری فرموں کا ارتکاز، اپنے بھاری بھر کم وجود کی وجہ سے، اپنی روح، یعنی کہ ملکیت، کے ارتکاز سے بہت پیچھے ہے۔ 1929 ء میں، جیسا کہ نیو یارک ٹائمز درست طور پر مشاہدہ کر تا ہے، امریکہ میں واقعتا تین لاکھ کارپوریشنز تھیں لیکن صرف یہ اضافہ کر نے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے 200 (کل تعداد کا 0.07 فیصد) براہ راست تما م کارپوریشنوں کے کل اثاثوں کا 49.2فیصد کنٹرول کر تی تھیں۔ چار سال بعد یہ تناسب 56فیصد اور روزویلٹ کی انتظامیہ کے دنوں میں یہ مزید بڑھ گیا ہے۔ ان دو سو سر فہرست کا رپوریشنز میں اصل طاقت چھوٹی سی اقلیت کے پاس ہے۔ سینٹ کی ایک کمیٹی نے فروری 1937ء میں انکشاف کیا کہ پچھلے بیس سالوں میں بارہ سب سے بڑی کارپوریشنز کے فیصلے امریکی صنعت کے بڑے حصے کے لیے حکم کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کارپوریشنوں کے بورڈز کے چیئر مینوں کی تعداد امریکی صدر کی کابینہ (جمہوریہ کی حکومت کی انتظامی برانچ) کی تعداد کے برابر ہے۔ لیکن بورڈ کے یہ چیئر مین کابینہ کے ممبران سے زیادہ طاقتور ہیں۔
یہی حال بینکنگ اور انشورنس کے نظام کا ہے۔ امریکہ میں پانچ بڑی انشورنس کمپنیوں نے نہ صرف دوسری کمپنیوں بلکہ بہت سے بینکوں کو بھی ہڑپ کر لیا ہے۔ بینکوں کی کل تعداد، بنیادی طور پر نام نہاد’ادغام‘ کی وجہ سے، انضمام کی شکل میں کم ہو گئی ہے۔ منافع میں بے انتہااضافہ ہوا ہے۔ بینکوں کے اُوپر سُپر بینکوں کی اشرافیہ قائم ہو تی ہے۔ بینک کا سرمایہ صنعتی سرمائے کے ساتھ مل کر مالیاتی سُپر سرمائے کو تشکیل دیتا ہے۔ بالفرض صنعتوں اور بینکوں کے انضمام کی رفتار وہی رہے جو صدی کی پچھلی چو تھا ئی میں تھی (در حقیقت ارتکاز کی رفتار بڑھ رہی ہے) تو آنے والی چوتھائی صدی میں اجارہ داریاں بغیر کچھ چھوڑے ملک کی پوری معیشت کو ہتھیا لیں گی۔
یہاں پر امریکہ کے اعداد و شمار اس وجہ سے پیش کیے جا رہے ہیں کیونکہ وہ زیادہ درست اور قابل ذکر ہیں۔ بنیادی طور پر ارتکاز کا عمل اپنے کردار میں بین الا قوامی ہے۔ سرمایہ داری کے مختلف مر حلوں، اتفاقی حادثات کے ادوار، تمام سیاسی حکومتوں، پر امن اور مسلح جنگ کے ادوار میں دولت کے کم سے کم ہاتھوں میں ارتکاز کا عمل جاری ہے اور بغیر رُکے جاری رہے گا۔ جنگ عظیم کے سالوں کے دوران، جب اقوام لڑتے لڑتے مر رہی تھیں، جب بورژوازی کی حکومتیں خود قومی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھیں، جب مالیاتی نظام منہدم ہو کر مڈل کلاس کو بھی اپنے ساتھ غرق کر رہا تھا، اُس وقت بھی اجارہ داریاں ا س خون خرابے سے بے نظیر منافع بٹور رہی تھیں۔ امریکہ کی طاقتور ترین کمپنیوں نے جنگ کے سالوں میں اپنے اثاثے دو، تین، چار اور پانچ گنا بڑھا لئے اور اپنے منافعوں میں تین سو، چار سو، نو سو فیصد اور اس سے بھی زیادہ اضافہ کیا۔
1840ء میں، مارکس اور اینگلز کے کمیونسٹ مینی فیسٹو لکھنے سے آٹھ سال پہلے، مشہور فرانسیسی مصنف الیکسس ڈی ٹاکویلی نے اپنی کتاب ’’امریکہ میں جمہوریت‘‘ میں لکھا، ’’بڑی دولت غائب ہو تی ہے، چھوٹی جائیدادیں بڑھتی ہیں۔ ‘‘ اس سوچ کو متعدد مرتبہ دہرایا گیا، پہلے امریکہ کے حوالے سے اور پھر دوسری نو خیز جمہوریتوں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے حوالے سے۔ یقیناًڈی ٹاکویلی کا یہ خیال اپنے عہد میں ہی ایک مغالطہ تھا۔ پھربھی حقیقی ارتکاز دولت امریکی خانہ جنگی کے بعد، جس وقت ڈی ٹاکویلی مر چکا تھا، شروع ہوا۔ موجودہ صدی کے آغاز میں امریکہ کی دو فیصد آبادی کے پاس ملک کی مجموعی دولت کا آدھے سے زیادہ حصہ تھا۔ 1929 ء میں اسی دو فیصد کے پاس قومی دولت کا تین چوتھائی حصہ تھا۔ اُسی وقت چھتیس ہزار خاندانوں کے پاس ایک کروڑ دس لاکھ غریب اور متوسط طبقے کے خاندانوں کی آمدنی کے برابر دولت تھی۔ 1929-33ء کے بحران کے دوران اجارہ دارانہ فرموں کو عوامی خیرات کی اپیل کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے بر عکس انہوں نے قومی معیشت کے عمومی بحران سے پہلے سے زیادہ کمایا۔ بعد میں نیو ڈیل کے نتیجے میں ہونے والی کمزور صنعتی بحالی کے دوران اجارہ داروں نے خوب کمائی کی۔ بہترین حالات میں بیروزگاروں کی تعداد بیس ملین سے دس ملین ہو گئی۔ اس دوران سرمایہ دارانہ سماج کی اُوپری پرتوں نے (جن کی تعداد چھ ہزار سے زائد نہیں) حیرت انگیز منافع کمائے۔ اسی چیز کو سولیسٹر جنرل رابرٹ ایچ جیکسن نے بطور اینٹی ٹرسٹ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے اپنی مد ت ملازمت کے دوران اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا۔
فرڈینینڈ لنڈبرگ، جو اپنی تمام تر عالمانہ ایمانداری کے باوجود ایک قدامت پسند معیشت دان ہے، نے اپنی کتاب (جس سے کافی شور شرابا بھی ہوا) میں لکھا، ’’امریکہ کی ملکیت ساٹھ امیر ترین خاندانوں کے پاس ہے، جن کی معاونت کم تر دولت کے حامل نوے خاندان کر تے ہیں۔‘‘اس میں تین سو پچاس خاندانوں کے دوسرے گروہ کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جن کی سالانہ آمدن ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔ غالب حیثیت ساٹھ خاندانوں کے پہلے گروہ کی ہے جو نہ صرف منڈی بلکہ حکومت کے انتظام پر بھی قابض ہیں۔ اصلی حکومت یہی ہیں، ’’ڈالر جمہوریہ میں پیسے کی حکومت‘‘۔
اس طرح سے ہمارے لیے ’’اجارہ دارانہ سرمائے‘‘ کے تجریدی خیال کو گوشت پوست سے مزین کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند خاندان جو آپس میں خونی رشتوں اور مشترکہ مفادات کے ذریعے جُڑ کر مخصوص سرمایہ دارانہ اشرافیہ بنا کر ایک عظیم قوم کی معاشی اور سیاسی تقدیر کا فیصلہ کر تے ہیں۔ ارتکاز کے مارکسی قانون کی سچائی کو لازماً قبول کرنا ہی پڑے گا۔
کیا مارکس کی تعلیمات کا وقت گزر چکا ہے؟
مقابلہ بازی، ارتکازِ زر اور اجارہ داری کے سوالات فطری طور پر اس سوال کو جنم دیتے ہیں کہ کیا ہمارے عہد میں مارکس کا معاشی نظریہ صرف تاریخی اہمیت کا حامل ہے (جیسا کہ ایڈم سمتھ کا نظریہ)یا اس کی کوئی حقیقی اہمیت بھی ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے معیار سادہ سا ہے، اگر یہ نظریہ دوسرے نظر یات کی نسبت بہتر انداز میں واقعات کا صحیح اندازہ لگا تا ہے اور مستقبل کی پیش گوئی کرتا ہے تو قدیم ہونے سے قطع نظر یہ ہمارے عہد کا سب سے ترقی یافتہ نظریہ ہے۔
نامور جرمن معیشت دان ورنر سومبارٹ، جو اپنے کیرئیر کے آغاز میں فی الواقع مارکسسٹ تھا لیکن بعد میں اس نے مارکس کی تعلیمات کے زیادہ انقلابی پہلوؤں، با لخصوص وہ جو بورژوازی کے لیے نا قابل ہضم تھے، میں ترمیم کی، نے 1928ء میں اپنے کیریئر کے اواخر میں مارکس کی ’سرما یہ ‘ کو اپنی ’’سرمایہ داری‘‘ کے ذریعے رد کیا جس کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں، جو حالیہ دنوں میں بورژوا معیشت کے معذرت خواہوں کی بہترین طریقے سے ترجمانی کر تی ہے۔ سرمایہ کے مصنف کی تعلیمات کو افلاطونی حوصلہ افزائی کی عقیدت پیش کر نے کے بعد سومبارٹ اسی لمحے کہتا ہے، ’’کارل مارکس نے اولاً اجرتی مزدوروں کی بڑھتی ہوئی بد حالی، ثانیاً دستکاروں اور کسان طبقے کے خاتمے کے نتیجے میں عمومی ارتکاز، ثالثاً سرما یہ داری کی تباہ کن بر بادی کی پیش گوئی کی۔ ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا۔‘‘ اس غلط تجزیے کے بر عکس وہ اپنا ’’مکمل سائنسی‘‘تجزیہ پیش کر تا ہے۔ اس کے مطابق، ’’سرمایہ داری اپنے عروج کے دنوں میں اپنے آپ کو اندرونی طور پر اسی طرح تبدیل کر تی رہے گی جس طرح اس نے پہلے سے ہی اپنے آپ کو تبدیل کر نا شروع کیا ہے۔ جب یہ بوڑھی ہوگی تو یہ زیادہ سے زیادہ پر سکون، متین اور معقول ہوتی جا ئے گی۔‘‘ ہم بنیادی نظریات کے بلبوتے پر تصدیق کر نے کی کوشش کر تے ہیں کہ ان میں سے کون درست ہے۔ تباہ کاری کے تجزیے والا مارکس یا سومبارٹ جو پوری بورژوا معیشت کے حوالے سے وعدہ کرتا ہے کہ معاملات پر سکون، متین اور معقول طریقے سے حل ہو جائیں گے۔ قاری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ یہ سوال نہایت اہم ہے۔
بڑھتی ہوئی بد حالی کا نظریہ
سومبارٹ سے ساٹھ سال پہلے مارکس نے لکھا، ’’ایک طرف دولت کا ارتکاز اور دوسری طرف سرمائے کی شکل میں اپنی پیداوار پیدا کرنے والے طبقے کے لئے بد حالی، عذاب، غلامی، جہالت، وحشت، ذہنی رسوائی کا ارتکازہوتا ہے۔ ‘‘ ’’بڑھتی ہوئی بد حالی کا نظریہ‘‘ کے نام سے مارکس کے اس نظریے کو جمہوری اور سوشل ڈیمو کریٹک اصلاح پسندوں نے مسلسل حملوں کا نشانہ بنا یا، بالخصوص 1896ء سے1914ء کے دوران جب سرمایہ داری تیزی سے ترقی کر تے ہوئے مزدوروں، بالخصوص اُن کی بالائی پرتوں کو، بعض مراعات دے رہی تھی۔ عالمی جنگ کے بعد جب بورژوازی اپنے جرائم اور اکتوبر انقلاب سے خوفزدہ ہوکر تشہیری سماجی اصلاحات کی راہ پر چل نکلی، جس کے اثرات کو بیروزگاری اور افراط زر نے اسی وقت ہی ختم کر دیا، تو سرمایہ دارانہ سماج کے ترقی پسندانہ تبدیلی کے نظریے کو اصلاح پسندوں اور بورژوا پروفیسروں نے بالکل مستند سمجھا۔ 1928ء میں سومبارٹ نے یقین دلا یا کہ ’’اجرتی مزدوروں کی قوت خرید سرمایہ دارانہ پیداوار کے پھیلاؤ کے براہ راست تناسب سے بڑھ گئی ہے۔‘‘
درحقیقت، سرمایہ دارانہ ترقی کے سب سے خوشحال ترین دور میں پرولتاریہ اور بورژوا زی کے درمیان معاشی تضادات مزید گھمبیر ہو گئے۔ محنت کشوں کی مخصوص پرتوں کے معیارِ زندگی میں اضافے (جو اُس دوران بہت زیادہ تھا) نے قومی آمدن میں پرولتاریہ کے حصے میں کمی کو کمزور نظر لوگوں کی آنکھو ں سے چھپا دیا۔ اس طرح زوال سے ذرا پہلے 1920ء اور 1930ء کے دوران امریکہ کی صنعتی پیداوار میں 50فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا جبکہ اجرتیں 30فیصد کے حساب سے بڑھیں، جس کا مطلب سومبارٹ کی یقین دہانیوں کے باوجود قومی آمدن میں مزدوروں کا حصہ بے انتہا گھٹ گیا۔ 1930 ء میں بیروز گاری میں بھیانک اضافہ ہو ا اور 1933ء میں بیروزگاروں کو جو کم و بیش منظم امداد دی جا رہی تھی وہ مشکل سے اس اجرت کی نصف تھی جس سے اُنہیں ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ تمام طبقات کی ’’ترقی‘‘ کا فریب کوئی نشان چھوڑے بغیر ختم ہو چکا ہے۔ عوام کے معیارِ زندگی میں نسبتی زوال کی جگہ مطلق زوال نے لے لی ہے۔ محنت کشوں نے پہلے اپنی تفریح، پھر لباس اور آخر میں اپنی خوراک میں بھی کٹو تیا ں شروع کر دی ہیں۔ اوسط معیار کی مصنوعات اور چیزوں کی جگہ غیر معیاری اور پھر غیر معیاری کی جگہ بد ترین نے لے لی ہے۔ ٹریڈ یونین کی حالت اُس شخص کی طرح ہے جو برقی زینے پر چمٹے رہنے کی ناکام کوشش کر تا ہے جب کہ برقی زینہ تیزی سے نیچے کی طرف جار ہا ہے۔
دنیا کی چھ فیصد آبادی کے ساتھ امریکہ کے پاس دنیا کی دولت کا 40فیصدہے۔ جبکہ روزویلٹ نے خود اعتراف کیا ہے کہ قوم کی ایک تہائی آبادی غذائی قلت، ناکافی لباس اور غیر انسانی حالات کا شکار ہے۔ پھر غریب ممالک کی کیا حالت ہو گی ؟ پچھلی جنگ سے سرمایہ دارانہ دنیا کی تاریخ بڑھتی ہوئی بد حالی کے نظریے کو درست ثابت کر تی ہے۔ سماج میں بڑھتی ہوئی سماجی تفریق کو نہ صرف ہر لائق ماہر شماریات بلکہ ریاضی کے بنیادی قوانین کا علم رکھنے والے سیاست دان بھی قبول کر تے ہیں۔
فاشسٹ حکومت کسی بھی سامراجی سرمایہ داری کے اندر پوشیدہ زوال اور رجعت کی حدوں کو آخرتک لے جا تی ہے۔ سرمایہ داری کے زوال کی وجہ سے پرولتاریہ کے معیار زندگی میں اضافے کے فریب کو قائم نہ رکھنے کے نتیجے میں یہ ضروری ہو گیا تھا۔ فاشسٹ آمریت بڑھتی ہوئی غربت کے رجحان کا واضح اقرار ہے جسے سامراجی جمہوریتیں اب بھی چھپانے کی کوشش کر تی ہیں۔ مسولینی اور ہٹلر مارکسز م پر اس قدر نفرت سے حملے اس لیے کر تے ہیں کیونکہ اُن کی خوفناک حکومتیں بذات خود مارکسی تجزیے کو درست ثابت کرتی ہیں۔ مہذب دنیا اُس وقت برہم تھی یا بر ہمی کا ناٹک کر رہی تھی جب گوئرنگ( ایک نازی لیڈر۔ مترجم) نے اپنے مخصوص جلادی اور مسخرے انداز میں اعلان کیا کہ بندوق مکھن سے زیادہ اہم ہے یا جب مسولینی نے مزدوروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنی سیاہ قمیصوں پر مضبوطی سے پٹہ باندھنا سیکھ جائیں۔ لیکن در حقیقت کیا یہی چیزیں سامراجی جمہوریتوں میں نہیں ہو تیں؟ مکھن کو ہر جگہ بندوق کو گریس کر نے کے لیے استعمال کیا جا تا ہے۔ فرانس، انگلینڈ اور امریکہ کے مزدور سیاہ شرٹس کے بغیر ہی پٹہ باندھنا سیکھتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین ملک میں لاکھوں مزدور بھکاری بن کر وفاقی، ریاستی، میونسپل یا نجی خیرات پر گزربسر کر رہے ہیں۔
ریزرو فوج اور بیروزگاروں کا نیا ضمنی طبقہ
صنعتی ریزرو فوج سرمایہ داری کی سماجی میکانیات کا اتنا ہی لازمی حصہ ہے جتنا کہ فیکٹری کے گوداموں میں خام مال اور مشینوں یا دکانوں میں مصنوعات کا ہو تا ہے۔ قوت محنت کے ذخیرے کے بغیر نہ تو پیداوار کی عمومی بڑھوتری اور نہ ہی سرمائے کے صنعتی چکر کی فصلی اتار چڑھاؤ سے مطابقت ممکن ہے۔ سرمایہ دارانہ ترقی کے عمومی رجحان، تغیر پذیر سرمائے (قوت محنت) کی قیمت پر مستقل سرمائے (مشینیں اور خام مال) میں اضافہ، سے مارکس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ، ’’سماجی دولت جتنی زیادہ ہو گی صنعتی ریزرو فوج اتنی ہی زیادہ ہو گی، زائد مجتمع آبادی جتنی زیادہ ہوگی سرکاری گداگری اتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ یہی سرمایہ دارانہ ارتکاز کا مطلق قانون ہے۔‘‘
یہ نظریہ، جو بڑھتی ہوئی بد حالی کے نظریے سے جڑا ہے اور جسے سالوں تک مبالغہ آرائی، متنازعہ اور جذباتی کہا گیا، اب چیزوں کی بے عیب نظریاتی تصویر بن چکا ہے۔ بیروز گاروں کی موجودہ فوج کو اب مزید ’’ریزرو فوج‘‘ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کی بنیادی تعداد کو روزگار ملنے کے امکانات بالکل نہیں ہیں۔ اس کے بر عکس مزید بیروزگاروں کے مستقل بہاؤ سے اس کا حجم اور بڑھے گا۔ بکھرتی سرمایہ داری نے بے روز گار نوجوانوں کی ایک پوری نسل پیدا کی ہے جنہیں کبھی روزگار ملا ہی نہیں اور نہ ہی ملنے کی امید ہے۔ پرولتاریہ اور نیم پرولتاریہ کے بیچ اس ضمنی طبقے کو سماج کے خرچے پر رہنا پڑتا ہے۔ اندازاً نو سال (38-1930ء) کے دوران بیروزگاری کی وجہ سے امریکی معیشت میں چار کروڑ تیس لاکھ انسانی محنت کے سال (Labour Man-Year)ضائع ہوئے۔ فرض کریں کہ خوشحالی کے عروج 1929ء میں امریکہ میں بیروزگاروں کی تعداد بیس لاکھ تھی اور ان نو سالوں کے دوران امکانی مزدوروں کی تعداد میں پچاس لاکھ کا اضافہ ہوا تو ضائع شدہ انسانی محنت کے سالوں کی تعداد بے نظیر حد تک بڑی ہوگی۔ اس طرح کا طاعون زدہ سماجی نظام اپنے بسترِ مرگ پر پڑا ہے۔ اس بیماری کی تشخیص اَسّی سال پہلے اس وقت ہوئی تھی جب خود بیماری صرف ایک جر ثومے کی شکل میں تھی۔
متوسط طبقوں کا زوال
ارتکازِ سرمایہ کی نشاندہی کر نے والے اعداد و شمار ظاہر کر تے ہیں کہ متوسط طبقے کی پیداوار میں مخصوص اہمیت اور قومی آمدن میں حصہ مستقل انداز میں رو بہ زوال ہے جب کہ چھوٹے کاروباروں کو بڑے کاروبار یا تو نگل رہے ہیں یا پھر زوال پذیر ہو کر اپنی آزادی گنوا رہے ہیں اور ناقابل برداشت مصیبتوں اور مایوسانہ افلاس کی تصویر بن جا تے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ اسی دوران سرمایہ داری کی بڑھوتری نے فنی ماہرین، منیجر، سر وس مین، کلرک، وکیل، ڈاکٹر یا بَیک لفظ نام نہادنئے متوسط طبقے کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔ لیکن یہ پرت، جس کا ابھار پہلے سے مارکس کے لیے کوئی معمہ نہیں تھا، پرانی مڈل کلاس سے بہت مختلف ہے جن کے پاس اپنے ذرائع پیداوار ہونے کی وجہ سے معاشی آزادی کی واضح گارنٹی تھی۔ اس ’’نئی مڈل کلاس‘‘کا سرمایہ داروں پر براہ راست انحصار مزدوروں(جن کے یہ بڑی حد تک ٹاسک ماسٹر ہوتے ہیں) سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بیچ بھی بہت زیادہ زائد پیداوار دیکھی جا سکتی ہے جو سماجی ذلت پر منتج ہو تی ہے۔
اُوپر تذکرہ شدہ سابق اٹارنی جنرل ہومر کمنگز کی مانند مارکسزم سے لاعلم ایک شخص کہتا ہے، ’’قابل بھروسہ اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ بہت سے صنعتی یونٹس مکمل طور پر ختم ہوچکے ہیں اور جو کچھ ہوا وہ امریکی زندگی سے چھوٹے کاروباروں کا بحیثیت عامل مسلسل خاتمہ ہے۔ ‘‘
لیکن سومبارٹ اپنے پیشروؤں اور جانشینوں کے ساتھ مارکس کو نظر انداز کر تے ہوئے اعتراض کرتا ہے کہ، ’’دستکاروں اور کسان طبقے کے خاتمے کے ساتھ عمومی ارتکاز‘‘ ابھی تک ہوا ہی نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس معاملے میں کون سی چیز زیادہ اہم ہے، غیر ذمہ داری یا بُرا عقیدہ۔ ہر نظریہ دان کی طرح مارکس نے بنیادی رجحانات کو اُن کی خالص شکل میں الگ کر کے اپنے کام کا آغاز کیا۔ ورنہ سرمایہ دارانہ سماج کی حقیقت کو سمجھنا مکمل طور پر نا ممکن ہو تا۔ مارکس خود بالکل اس قابل تھا کہ زندگی کے مظاہر کو ٹھوس تجزیے اور متنوع تاریخی عوامل کے ارتکاز کی روشنی میں دیکھے۔ یقینامختلف حالات کے تحت گرتی ہوئی اشیا کی رفتار کی شرح کے مختلف ہونے یا سیاروں کے مداروں میں خلل سے نیوٹن کے قوانین غلط ثابت نہیں ہو تے۔
متوسط طبقوں کی نام نہاد ’’مضبوطی‘‘ کو سمجھنے کے لیے اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دو رجحانات، متوسط طبقوں کی بر بادی اور ان برباد شدگان کی پرولتاریہ میں تبدیلی نہ تو مستقل رفتار سے ہو تی ہے اور نہ ہی ایک انداز سے۔ قوت محنت پر مشینوں کی بر تری سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ متوسط طبقوں کی بر بادی کے عمل کے آگے بڑھنے کے مقابلے میں ان کی پرولتاریہ سازی کا عمل اتنا ہی پیچھے رہ جا تا ہے اور حتیٰ کہ ایک خاص موقع پر مؤخر الذکر کو مکمل طور پر رُکنا یا حتی کہ پیچھے پلٹنا پڑتا ہے۔
جس طرح فزیالوجی کے قوانین کا اطلاق زندہ اور مرتے ہوئے اجسام میں مختلف نتائج دیتا ہے اسی طرح مارکسی معیشت کے قوانین ترقی پذیر اور بکھرتی ہوئی سرمایہ داری میں مختلف انداز میں لاگو ہوتے ہیں۔ اس فرق کو قصبوں اور دیہاتوں کے باہمی تعلق میں خاص طور پر واضح دیکھا جا سکتا ہے۔ 1910ء تک امریکہ کی دیہی آبادی (مجموعی آبادی کی نسبت کم بڑھی) مطلق عدد میں بڑھتی رہی، جب یہ تین کروڑ بیس لاکھ کو پہنچی۔ اگلے بیس سالوں میں ملک کی مجموعی آبادی میں اضافے سے قطع نظر، یہ تین کروڑ چار لاکھ تک گری یعنی سولہ لاکھ۔ لیکن 1935ء میں 1930ء کی نسبت چوبیس لاکھ بڑھ کر دوبارہ تین کروڑ اٹھائیس لاکھ تک پہنچی۔ اس طرح کی ظاہراً حیران کن تبدیلی کسی طرح بھی شہری آبادی کی دیہی آبادی کی قیمت پر بڑھنے کے رجحان یا متوسط طبقے کے سکڑنے کے رجحان کو رد نہیں کر تی۔ اس کے باوجود یہ بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ نظام کی ٹوٹ پھوٹ کو واضح دکھاتی ہے۔ 35-1930ء کے گہرے بحران کے دوران دیہی آبادی میں اضافے کو اس سادہ حقیقت سے واضح کیا جاسکتا ہے کہ تقریباً بیس لاکھ شہری آبادی یا زیادہ واضح انداز میں بیس لاکھ بھوکے بیروزگار دیہاتوں کی طرف ہجرت کر گئے تاکہ کسانوں کی ترک کی ہوئی زمینوں یا اپنے رشتہ داروں کے کھیتوں پر اپنی قوت محنت کو (جسے سماج نے دھتکار دیا تھا) پیداواری فطری معیشت پر لگا کر مکمل بھوک سے مرنے کی بجائے نیم فاقے کی زندگی تو گزار سکیں۔
پس، یہ چھوٹے کسانوں، دستکاروں یا پرچون فروشوں کے استحکام کا سوال نہیں بلکہ اُن کے حالات زندگی کی مکمل بے بسی کی علامت ہے۔ مستقبل کی ضمانت کی بجائے مڈل کلاس ماضی کی بد قسمت اور پُر الم باقیات ہیں۔ مکمل طور پر ختم نہ کر سکنے کی وجہ سے سر مایہ داری نے اسے ذلت اور تنگ دستی کی اتھا ہ گہرائیوں میں پہنچا دیا ہے۔ کسان کو نہ تو اس کی زمین کا کرایہ دیا جا تا ہے اور نہ ہی اس کے لگائے گئے سرمائے پر منافع دیا جا تا ہے حتیٰ کہ اس کی اجرت کا بڑا حصہ بھی نہیں دیا جا تا۔ اس طرح قصبوں میں چھوٹے دکان دار زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ مڈل کلاس اس لیے پرولتاریہ نہیں بنتے کیونکہ وہ در بدر ہوچکے ہیں۔ اسی وجہ سے مارکس کے خلاف دلیل ڈھونڈنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ سرمایہ داری کے حق میں دلیل ڈھونڈنا۔
صنعتی بحران
گزشتہ صدی کے اختتام اور نئی صدی کے آغاز میں سرمایہ داری نے اتنی زبر دست ترقی کی ہے کہ وقتاً فوقتاً آنے والے بحرانات کی حیثیت اتفاقی ایذا رسانی سے زیادہ کچھ نہیں لگتی تھی۔ آفاقی سرمایہ دارانہ رجائیت کے سالوں میں مارکس کے نقاد ہمیں یقین دلاتے تھے کہ قومی اور بین الا قوامی سطح پر ٹرسٹوں، سنڈیکیٹس، کارٹلز کے ابھار نے منڈی کے منصوبہ بند کنٹرول کو متعارف کر ا دیا ہے اور بحرانوں پر آخری فتح کی نوید سنادی ہے۔ سومبارٹ کے مطابق بحرانات کو جنگ سے پہلے ہی سرمایہ داری کے ماہرین نے اس طرح سے ختم کر دیا ہے کہ’’آج ہمیں بحران کے مسئلے کی کوئی پرواہ ہی نہیں۔‘‘ آج دس سال بعد یہ الفاظ کھو کھلا مذاق لگتے ہیں جبکہ ہمارے عہد میں ہی مارکس کا تجزیہ اپنی المناک معقولیت کی پوری آب و تاب لیے ہمارے سامنے ہے۔ زہریلے خون والے جسم میں ہر بیماری عذاب مسلسل بن جا تی ہے۔ اسی طرح اجارہ دارانہ سرمایہ داری کے بوسیدہ جسم میں بحرانات ایک مہلک بیماری کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سرمایہ دارانہ ذرائع ابلاغ، جو اجارہ داریوں کے وجود سے ہی منکر ہیں، انہی اجارہ داریوں پر تکیہ کر کے سرمایہ دارانہ انتشار سے انکار کر تے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز طنزیہ انداز میں کہتا ہے، ’’اگر ساٹھ خاندانوں کو امریکہ کی معاشی زندگی کو کنٹرول کرنا ہو تو اس سے یہ ظاہر ہو گا کہ امریکی سرمایہ داری کو غیر منصوبہ بندی کے بر عکس انتہائی مہارت سے منظم کیا جا تا ہے۔‘‘لیکن اس دلیل کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔
سرمایہ داری اپنے رجحانات میں سے کسی کو بھی آخر تک نہیں لے جا سکی۔ جس طرح دولت کا ارتکاز مڈل کلاس کو مکمل طور پر ختم نہیں کرتا اسی طرح اجارہ داری مقابلہ بازی کو ختم نہیں کر تی بلکہ صرف اُسے زیر کر کے نقصان پہنچاتی ہے۔ ساٹھ خاندانوں میں سے ہر ایک کے منصوبے کی طرح ان عام منصوبوں کی مختلف اقسام کا مقصد بھی معیشت کی مختلف شاخوں کو جوڑنا نہیں بلکہ دوسرے اجارہ دارانہ گروہوں اور پوری قوم کی قیمت پر اپنے اجارہ دارانہ ٹولے کے منافعوں میں اضافہ کر نا ہے۔ آخری تجزیے میں ان منصوبوں کے ٹکراؤ سے قومی معیشت کا انتشار اور گہرا ہو تا جاتا ہے۔ اجارہ دارانہ آمریت اور انتشار الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کی تشکیل کرتی اور پروان چڑھاتی ہیں۔
امریکہ میں 1929ء کا بحران سومبارٹ کے اس دعوے کے ایک سال بعد رونما ہوا جس میں اس نے کہا کہ اُس کی ’’سائنس‘‘ بحرانات کے مسئلے کو خاطر میں نہیں لاتی۔ بے نظیر خوشحالی کے عروج سے امریکی معیشت کو بھیانک بر بادی کی اتھا ہ گہرائیوں میں جھونک دیا گیا۔ مارکس کے زمانے میں اس طرح کی وسیع اُتھل پتھل کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ امریکہ کی قومی آمدن 1920ء میں پہلی بار 69 ارب ڈالر پر پہنچ کر اگلے سال ہی 27فیصدگراوٹ کے ساتھ 50ارب ڈالر ہو گئی۔ اگلے چند سالوں کی ترقی کے نتیجے میں قومی آمدن دوبارہ بڑھی اور 1929ء میں اپنی بلند ترین سطح 81 ارب ڈالر پر پہنچنے کے بعد 1932 ء میں آدھے سے زیادہ گھٹ کر 40 ارب ڈالر ہوگئی۔ 38-1930ء کے دوران قومی آمدن کے تقریباً 133 ارب ڈالر اور محنت کے چار کروڑ تیس لاکھ انسانی سال ضائع ہوگئے۔ یہ 1929 ء کی آمدن اور محنت کے حالات تھے جب ’’صرف‘‘ دو ملین بیروزگار تھے۔ اگر یہ انتشار نہیں ہے تو اس لفظ کا ممکنہ طور پر مطلب کیا ہے ؟
انہدام کا نظریہ
مڈل کلاس دانشوروں اور ٹریڈ یونین افسر شاہی کے دل و دماغ کو مارکس کی موت اور عالمی جنگ کے آغاز کے درمیانی عرصے میں سرمایہ داری کی حاصلات نے مو ہ لیا تھا۔ مرحلہ وار ترقی (’’ارتقا‘‘) کے نظریے پر ہمیشہ کے لیے مہر تصدیق ثبت ہو چکی تھی جبکہ انقلاب کا نظریہ بربریت کے عہد کی نشانی سمجھا جا تا تھا۔ ارتکازِ زر، طبقاتی تضادات میں اضافہ، بحرانات کی شدت اور سرمایہ داری کے تباہ کن انہدام کے بارے میں مارکس کے تجزیے میں تھوڑی بہت تصحیح کر کے اسے مزید جامع نہیں بنا یا گیا بلکہ قومی آمدنی کی زیادہ متوازن تقسیم، طبقاتی تضادات میں کمی اور سرمایہ دارانہ سماج کی بتدریج اصلاح کے معیاری طور پر متضاد تجزیے پیش کر کے اُسے مسترد کردیا گیا۔ جین جواریز، کلاسیکی عہد کے سب سے قابل سوشل ڈیموکریٹ، کو اُمید تھی کہ سیاسی جمہوریت میں بتدریج سماجی مواد بھر تا جائے گا۔ یہی اصلاح پسندی کی روح ہے۔ یہ متبادل تجزیہ تھا۔ اب کیا بچا ہے ؟
ہمارے عہد میں اجارہ دارانہ سرمایہ داری بحرانوں کی ایک زنجیر ہے۔ ہر بحران ایک تباہ کاری ہے۔ محصولاتی دیواریں کھڑی کر کے، افراط زر، حکومتی اخراجات اور قرضے بڑھا کر ان جزوی تباہ کاریوں سے نجات حاصل کر نے کی کوشش اضافی، گہرے اور مزید وسیع بحرانوں کی راہ ہموار کر تی ہے۔ منڈیوں، خام مال اور نو آبادیات کی جد وجہد فوجی تباہ کاریوں کو ناگزیر بناتی ہے۔ اور مجموعی طور پر یہ انقلابی تبدیلیوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔ سومبارٹ کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ سرمایہ داری بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ مزید پر سکون، پر امن اور بہتر ہوتی جائے گی۔ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ یہ دلیل کی آخری باقیات سے ہاتھ دھو رہی ہے۔ بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’انہدام کا نظریہ‘‘ پرامن ترقی کے نظریے پر سبقت لے گیا ہے۔
سرمایہ داری کا انحطاط
منڈی کا تسلط سماج کو بہت مہنگا پڑا ہے تاہم ایک مخصوص عہد، تقریباً عالمی جنگ تک، انسانوں نے جزوی اور عمومی بحرانوں کے باوجود خوب ترقی کی اور مالامال ہوئے۔ اُس دور میں ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت نسبتاً ترقی پسندانہ عامل تھا۔ لیکن اب قدر کے قانون کا اندھا تسلط مزید یہ خدمت سر انجام نہیں دے سکتا۔ انسانی سماج کا ارتقا بند گلی میں پھنس چکا ہے۔ تازہ ترین تکنیکی کامیابیوں کے باوجود مادی پیداواری قوتیں مزید ترقی نہیں کر پارہی ہیں۔ زوال کی سب سے بے عیب اور واضح نشانی یہ ہے کہ معیشت کی بنیادی شاخوں میں نئی سرمایہ کاری کے رُکنے کی وجہ سے عالمی سطح پر تعمیر اتی صنعت میں ٹھہراؤ آگیا ہے۔ سرمایہ داروں کو اب اپنے نظام کے مستقبل پر مزید کوئی اعتبار نہیں۔ حکومتی سطح پر تعمیرات کو بڑھاوا دینے کا مطلب ٹیکسوں میں اضافہ اور ’’بے پنا ہ‘‘ قومی آمدن کا سکڑاؤ ہے کیونکہ نئی حکومتی تعمیرات کا بڑا حصہ براہ راست جنگی مقاصد کے لیے ہے۔
زراعت، جو انسانی سرگرمیوں کا سب سے قدیم شعبہ اور حیات آفریں بنیادی انسانی ضروریات سے قریبی طور پر جڑا ہواہے، میں سُوکھے (Marasmus) نے خاص طور پر بھیانک اور ذلت آمیز شکل اختیار کر لی ہے۔ ذاتی ملکیت کی سب سے رجعتی شکل یعنی چھوٹی زمینداری کی زراعت کے راستے میں رکاوٹ سرمایہ دارانہ حکومتوں کو مزید تسکین فراہم نہیں کرتی اور وہ ان قانونی اور انتظامی اقدامات کے ذریعے پیداوار کو مصنوعی طور پر کم کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں جو گلڈز کے دستکاروں کو اپنے زوال کے عہد میں خوفزدہ کر دیتیں۔ یہ بات تاریخ میں لکھی جائے گی کہ طاقتور ترین سرمایہ دارانہ حکومت پیداوار کو کم کر نے (یعنی پہلے سے کم ہوتی ہوئی قومی آمدن کو مصنوعی طور پر مزید کم کرنے)کے لیے اپنے کسانوں کو انعامات دیتی ہے۔ نتائج خود عیاں ہیں۔ تجربات اور سائنس کے بلبوتے پر حاصل کر دہ پر شکوہ پیداواری امکانات کے باوجودزرعی معیشت سڑتے ہوئے بحران سے نکل نہیں پا رہی۔ جب کہ انسانوں کی اکثریت پر مبنی بھوکے لوگوں کی تعداد میں اضافہ سیارے کی آبادی میں اضافے سے زیادہ ہے۔ رجعتی لوگ اس طرح کے تباہ کن پاگل پن پر مبنی سماجی نظام کے دفاع کو دانشمندانہ سیاست کا نام دیتے ہیں جب کہ اس طرح کے پاگل پن کے خلاف سوشلسٹ جد وجہد کو تباہ کن خیالی پلاؤ کہہ کر مذمت کر تے ہیں۔
فاشزم اور نیا معاہدہ (New Deal)
اتہاسک روپ سے برباد سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیے دو طریقے اپنی تمام تر شکلوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں؛ فاشزم اور نیو ڈیل۔ پرولتاریہ کی طبقاتی جد وجہد کو دوبارہ ابھرنے سے روکنے کے لیے فاشزم اپنے پروگرام کی بنیاد مزدور تنظیموں کے خاتمے، سماجی اصلاحات کی بربادی اور جمہوری حقوق کے مکمل خاتمے پر رکھتا ہے۔ فاشزم ’’قوم‘‘ اور ’’نسل‘‘ (بے باکانہ نام جن کے نیچے سڑتی ہوئی سرمایہ داری چھپی ہے) کو بچانے کے نام پر مزدوروں کی تنزلی اور مڈل کلاس کی بر بادی کو سرکاری طور پر قانونی شکل دے دیتا ہے۔
نیوڈیل کی حکمت عملی، جو مزدور اور کسان اشرافیہ کو رشوت دے کر سامراجی جمہوریت کو بچانا چاہتی ہے، صرف دولت مند قوموں کے لیے ہے اور اس حوالے سے یہ بہترین امریکی پالیسی ہے۔ حکومت نے اس پالیسی کے اخراجات کا کچھ حصہ اجارہ داریوں کے کندھوں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں اجرتوں میں اضافے اور اوقات کار میں کمی کرنے کا کہا ہے تاکہ آبادی کی قوت خرید بڑھے اور پیداوار میں اضافہ ہو۔ لیون بلوم نے اس خطبے کو فرانس میں لاگو کر نے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوا۔ امریکیوں کی طرح فرانسیسی سرمایہ دار بھی پیداوار کے لیے نہیں بلکہ منافع کے لیے پیدا کر تے ہیں۔ وہ پیداوار کو کم کرنے حتیٰ کہ تیار مصنوعات کو تباہ کر نے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں بشرطیکہ اس سے قومی آمدنی میں ان کا حصہ بڑھے۔
نیو ڈیل پروگرام اس حوالے سے بھی غیر موافق ہے کہ ایک طرف سرمائے کے مگرمچھو ں کو افراط کی قلت پر برتری کے فوائد کے بارے میں وعظ دیئے جا تے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت پیداوار کو کم کرنے کے لیے انعامات دے رہی ہے۔ کیا اس سے زیادہ بوکھلاہٹ ممکن ہے؟حکومت اپنے ناقدین کو اس چنوتی سے لاجواب کرتی ہے، ’’کیا آپ کے پاس کوئی بہتر حل ہے ؟‘‘ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بنیاد پر حالات مایوس کن ہیں۔
1933ء سے پچھلے سات سالوں میں وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں نے بیروزگاروں کو 15 ارب ڈالر دیئے ہیں۔ ختم شدہ اجرتوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ اُس کا بہت قلیل حصہ ہے لیکن گرتی ہوئی قومی آمدن کے حوالے سے یہ بہت بڑی رقم ہے۔ 1938ء کے دوران، جو نسبتاً معاشی بحالی کا سال تھا، امریکہ کا قومی قرضہ دو ارب ڈالر بڑھ کر 38 ارب ڈالر سے گزر گیا جو عالمی جنگ کے اختتام پر بلند ترین سطح سے 12 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ 1939ء کے آغاز میں یہ 40 ارب ڈالر سے گزر گیا۔ اور پھر کیا ہوا؟بڑھتا ہوا قومی قرضہ ترقی پر بوجھ ہے۔ لیکن نیو ڈیل ماضی کی نسلوں کی جمع کی ہوئی بے پناہ دولت کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔ ایک امیر ملک ہی اس طرح کی مہنگی پالیسی کو برداشت کر سکتا ہے۔ لیکن اس طرح کا ملک بھی غیر معینہ مدت تک ماضی کی نسلوں کے خرچے پر نہیں رہ سکتا۔ نیو ڈیل کی پالیسی اپنی مصنوعی حاصلات اور قومی قرضوں میں حقیقی اضافے کے ساتھ ناگزیر طور پر خطرناک سرمایہ دارانہ رجعت اور سامراجیت کے تباہ کن ابھار کو جنم دے گی۔ دوسرے الفاظ میں یہ فاشزم کی پالیسی کے راستے پر ہی چل رہی ہے۔
بے قاعدگی یا معمول؟
وزیر داخلہ ہیرولڈ اِکس سمجھتا ہے کہ یہ ’’پوری تاریخ کی سب سے عجیب بے قاعدگیوں میں سے ایک ہے‘‘ کہ امریکہ ظاہری طور پر جمہوری اور اپنے جوہر میں آمرانہ ہے۔ ’’اکثریت کی حکومت کی سر زمین، امریکہ، کو کم از کم 1933ء تک اجارہ داریاں چلاتی تھیں جن کو پھر اُن کے نہایت ہی قلیل کھاتہ دار چلاتے ہیں۔‘‘ یہ تجزیہ درست ہے لیکن اس اطلاع کی استثنیٰ کے ساتھ کہ روزویلٹ کے آنے کے بعد اجارہ داریوں کی حکومت یا تو ختم ہوئی یا کمزور ہوئی۔ لیکن اِکس جسے ’’پوری تاریخ کی سب سے عجیب بے قاعدگیوں میں سے ایک‘‘ کہتاہے وہ در حقیقت سرمایہ داری کی ایک مسلمہ روایت ہے۔ کمزور پر طاقتور، زیادہ پر کم اور محنت کشوں پر استحصال کنندگان کی حکومت بورژوا جمہوریت کا بنیادی قانون ہے۔ جو چیز امریکہ کو دوسرے ممالک سے ممتاز کر تی ہے وہ محض اس کی سرمایہ داری کی زیادہ وسعت اور اس کے تضادات کی زیادہ ہولناکیت ہے۔ جاگیر دارانہ ماضی کا فقدان، بے پناہ وسائل، پر جوش اور تخلیقی لوگ، بیک لفظ جمہوریت کی مسلسل ترویج کے لیے تمام لازمی شرائط نے در حقیقت شاندار ارتکازِ زر کو ممکن بنایا ہے۔
اب اِکس اجارہ داریوں کے خلاف فتح تک جنگ لڑنے کا وعدہ کر تے ہوئے فرینکلن روزویلٹ کے پیشروؤں تھامس جیفرسن، اینڈریو جیکسن، ابراہم لنکن، تھیو ڈور روز ویلٹ اور ووڈرو ولسن کو بے ساختہ یاد کرتا ہے۔ 30دسمبر 1937ء کواُ س نے کہا، ’’عملی طور پر ہماری تمام تاریخی شخصیات دولت اور طاقت کے چند ہاتھوں میں حد سے زیادہ ارتکاز کو انتھک اور جرأت مندی سے لڑ کر روکنے اور کنٹرول کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ ‘‘ لیکن ان باتوں کے بعد یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اس ’’انتھک اور جرأت مندانہ جد وجہد‘‘ کا ثمر جمہوریت پر دھن راج کا مکمل غلبہ ہے۔
کسی ناقابل بیان وجہ سے اِکس کو اس دفعہ فتح کا یقین ہے۔ شرط یہ ہے کہ لوگ اس بات کو باور کریں کہ جنگ ’’نیوڈیل اور اوسط روشن خیال کاروباریوں کے درمیان نہیں بلکہ نیوڈیل اور ساٹھ خاندانوں کی بادشاہت کے بیچ ہے جنہوں نے امریکہ کے باقی کاروباریوں کو اپنی حاکمیت سے خوفزدہ کر رکھا ہے۔ ‘‘ یہ حاکمانہ ترجمان یہ نہیں بتاتا کہ جمہوریت اور ’’عظیم تاریخی شخصیات‘‘ کی کوششوں کے باوجود آخر کس طرح ان قدامت پسندوں نے تمام روشن خیال کاروباریوں کو مطیع بنا یا ہے۔ راک فیلر ز، مورگنز، میلنز، وینڈربلٹز، گگن ہیمز، فورڈز اینڈ کمپنی نے امریکہ پر باہر سے حملہ نہیں کیا، جس طرح کورٹیز نے میکسیکو پر حملہ کیا تھا۔ وہ ’’لوگوں‘‘ میں سے ہی ابھرے یا درست انداز میں ’’روشن خیال صنعت کاروں اور کاروباریوں‘‘ کے طبقے سے ابھرے اور مارکس کے تجزیے کی روح کے مطابق سرمایہ داری کی فطری اوج پر پہنچ گئے۔ اپنے عروج کے دنوں میں جب ایک نوخیز اور طاقتور جمہوریت دولت کے ارتکاز کو ( جب وہ اپنے ابتدائی مراحل میں تھی) نہیں روک سکی تو کیا اس بات پر صرف ایک لمحے کے لیے بھی یقین کیا جاسکتا ہے کہ ایک سڑتی ہوئی جمہوریت اپنی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے طبقاتی تضادات کو کمزور کر سکے گی ؟ بہرحال، نیو ڈیل کے تجربات سے اس بات کی قطعاً کوئی امید نہیں۔ حکومت کے خلاف بڑے کاروباروں کے الزامات کو مسترد کر تے ہوئے انتظامی کونسل کی ایک بڑی شخصیت رابرٹ جیکسن نے اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا کہ روز ویلٹ کے دور میں سرمائے کے مگر مچھوں کے منافعوں میں اتنا اضافہ ہوا کہ ہُوور کے سابقہ دورِ صدارت میں وہ اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ بہرحال اس سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ اجارہ داریوں کے خلاف روزویلٹ کی جد وجہد کو اپنے پیشروؤں سے زیادہ کامیابی نہیں ملی۔
اگرچہ اصلاح پسند سرمایہ داری کی بنیادوں کا دفاع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن وہ فطری طور پر قوانین میں سخت معاشی اقدامات کا اضافہ کرنے میں بے بس ہیں۔ وہ نصیحت کرنے کے علاوہ اور کر ہی کیا سکتے ہیں ؟ نیوڈیل کے مبلغین اور کابینہ کے دوسرے ارکان کی طرح اِکس اپنی بات اجارہ داریوں سے گزارش کے ذریعے ختم کرتا ہے کہ وہ شائستگی اور جمہوری اُصولوں کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ کیا یہ بارش کے لیے دُعا کی مانند نہیں ہے ؟ یقینامارکس کا ذرائع پیداوار کی ملکیت کا نظریہ زیادہ سائنسی ہے۔ سرمایہ میں ہم پڑھتے ہیں، ’’بحیثیت سرمایہ دار وہ محض مجسم سرمایہ ہے۔ اُس کی روح سرمائے کی روح ہے۔ لیکن سرمائے کا زندگی میں صرف ایک ہی مقصد ہے، قدر زائد پیدا کر نا۔‘‘ اگر سرمایہ دار کے رویے کا تعین اس کی انفرادی روح کی خصلتیں یا وزیر داخلہ کی جذباتی باتیں کرتیں پھر نہ تو اوسط قیمتیں نہ اوسط اجرتیں، نہ کھاتوں اور نہ ہی پوری سرمایہ دارانہ معیشت کا وجود ہوتا۔ تاہم کھاتہ داری فروغ پا رہی ہے اور تاریخ کے مادی نظریے کے حق میں ایک مضبوط دلیل ہے۔
عدالتی نیم حکیمی
امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل ہومر کمنگز نے نومبر 1937 ء میں کہا، ’’جب تک ہم اجارہ داری کو ختم نہیں کریں گے، اجارہ داری مختلف طریقوں سے ہماری زیادہ تر اصلاحات کا خاتمہ کرے گی اور بالآخر ہمارے عمومی معیارِ زندگی کو نیچے لے جائے گی۔ ‘‘ حیران کن اعداد و شمار پیش کر کے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر تا ہے کہ، ’’دولت اور معاشی کنٹرول کے ناجائز ارتکاز کا رجحان صریح تھا۔ ‘‘ اس کے باوجود کمنگز نے مجبوراً اعتراف کیا کہ اب تک ٹرسٹوں کے خلاف قانونی اور عدالتی جنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ وہ شکایت کر تا ہے، ’’ایک منحوس ارادے کا پتہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہ معاشی نتائج کا مسئلہ ہے۔ ‘‘ یہی تو بات ہے ! اس سے بد تر یہ کہ ’’ٹرسٹوں کے خلاف عدالتی جنگ نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ ‘‘ مارکسی قانون قدر کے خلاف جمہوری انصاف کی جنگ کی بے بسی کو یہ خوش کن تکرار بڑی خوبی سے واضح کرتی ہے۔ اس بات کی کوئی امید نہیں کہ کمنگز کے جانشین فرینک مورفی ان مسائل کو حل کرے گا جن کا صرف ذکر ہی معاشی نظریات کے میدان میں قنوطی نیم حکیمی کو سامنے لے آتا ہے۔
ماضی کی طرف واپسی
پروفیسر لیوس ڈگلس، روزویلٹ انتظامیہ میں سابقہ بجٹ ڈائریکٹر، سے ہمیں اتفاق کرنا چاہیے جب وہ حکومت کی اس بات پر مذمت کرتا ہے کہ وہ ’’ایک شعبے میں اجارہ داری پر حملے کرتی ہے جبکہ دوسرے بہت سے شعبوں میں اس کی حوصلہ افزائی کر تی ہے۔ ‘‘ تاہم فطری طور پر اس کے بر عکس نہیں ہو سکتا۔ مارکس کے مطابق، حکومت حکمران طبقے کی انتظامی کمیٹی ہے۔
آج اجارہ داریاں حکمران طبقے کا سب سے مضبوط دھڑا ہیں۔ حکومت کسی بھی طرح اجارہ داری کے خلاف ( اُ س طبقے کے خلاف جن کی مہربانی سے وہ حکومت میں ہیں) نہیں لڑ سکتی۔ اجارہ داری کے ایک حصے پر حملہ کر کے وہ دوسرے حصے میں اتحادی تلاش کر نے پر مجبور ہیں۔ بینکوں اور چھوٹی صنعتوں کے ساتھ مل کر یہ بھاری صنعتوں کی ٹرسٹوں پر کبھی کبھار حملے کر تے ہیں لیکن وہ ان کی پرواہ کئے بغیر بڑے منافع کما رہے ہیں۔
لیوس ڈگلس سرکاری نیم حکیمی کے مقابلے میں سائنس نہیں بلکہ دوسری قسم کی نیم حکیمی لا یا ہے۔ اس کے مطابق اجارہ داری کی وجوہات سرمایہ داری نہیں بلکہ تحفظیت (Protectionism)ہے اور اسی طرح یہ دریافت کر تا ہے کہ ’’سماج کی نجات ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت کے خاتمے میں نہیں بلکہ کسٹم محصولات کے کم کرنے میں ہے۔ ‘‘ وہ پیش گوئی کر تا ہے کہ ’’جب تک منڈی کی آزادی کو بحال نہیں کیا جاتا اُس وقت تک تمام اداروں، جیسے کاروبار، تقریر، تعلیم اور مذہب، کی آزادی خطرے میں ہے۔‘‘ دوسرے الفاظ میں عالمی تجارت کی آزادی کی بحالی کے بغیر جمہوریت (جہاں اور جس شکل میں بھی ہے) کو انقلابی یا فاشسٹ آمریت کا سامنا کر نا ہوگا۔ لیکن عالمی تجارت کی آزادی اندرونی تجارت ( مقابلہ بازی) کی آزادی کے بغیر ناممکن ہے اور اجارہ داری کی موجودگی میں مقابلہ بازی کی آزادی ناممکن ہے۔ اِکس، جیکسن، کمنگز اور خود روزویلٹ کی طرح ڈگلس نے بد قسمتی سے اجارہ دارانہ سرمایہ داری اور اسی طرح انقلاب یا آمرانہ حکومت کے خلاف اپنا نسخہ تجویز کر نے کی تکلیف نہیں کی ہے۔
تجارت کی آزادی، مقابلہ بازی کی آزادی اور مڈ ل کلاس کی خوشحالی کی طرح ناقابل واپسی ماضی کا حصہ ہیں۔ ماضی کو واپس لانا، چھوٹے اور درمیانے صنعت کاروں اور کاروباریوں کے لیے آزادی کی واپسی، روپے اور قرض کے نظام کو اپنے حق میں تبدیل کر نا، مارکیٹ کو ٹرسٹوں کے غلبے سے آزاد کرانا، سٹاک ایکسچینج سے پیشہ ور سٹہ بازوں کو ختم کرنا، عالمی تجارت کی آزادی کی بحالی وغیرہ وغیرہ صرف سرمایہ داری کے جمہوری اصلاح پسندوں کا نسخہ ہے۔ اصلاح پسند حتیٰ کہ مشینوں کے استعمال کو محدود کرنے کا خواب دیکھتے ہیں اور سماجی توازن کو بگاڑنے اور لوگوں کو پریشان کرنے والی تکنیک پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ اس کے بارے میں ایک امریکی سائنس دان نے سخت نفرت انگیزی سے کہا کہ ظاہری طور پر ہم واپس امیبا(Amoeba) بن کر، یااس میں ناکامی کی صورت میں، مطمئن سُور بن کر محفوظ ہو سکتے ہیں۔
ملیکان اور مارکسزم
بد قسمتی سے سائنسدان ڈاکٹر رابرٹ ملیکان بھی اسی طرح آگے کی بجائے ماضی کی طرف دیکھتا ہے۔ 7دسمبر 1937 ء میں سائنس کے دفاع میں اس نے کہا، ’’امریکی اعدادو شمار دکھاتے ہیں کہ فی صد مستقل روزگار کی حامل آبادی پچھلے پچاس سالوں کے دوران مسلسل بڑھی ہے، جب سائنس کو تیزی سے لاگو کیا گیا۔ ‘‘ سائنس کے دفاع کی آڑ میں سرمایہ داری کے دفاع کو درست نہیں کہا جاسکتا۔ انہی پچھلے پچاس سالوں میں زمانوں کا رابطہ ٹوٹا اور معیشت اور تکنیک کا باہمی رشتہ تیزی سے تبدیل ہوا۔ ملیکان نے جس دور کی بات کی ہے وہ سرمایہ داری کے زوال کی شروعات اور سرمایہ دارانہ ترقی کا عروج بھی ہے۔
اس زوال کے آغاز کو چھپانا، جو عالمی ہے، سرمایہ داری کا معذرت خواہ بننا ہے۔ سوشلزم کو اس قدر سرد مہری سے اور ایسے دلائل سے رد کر نا حتیٰ کہ ہنری فورڈ کو بھی مشکل سے پسند آئے گا، ڈاکٹر ملیکان کہتا ہے کہ پیداوار کو بڑھائے بغیر تقسیم کا کوئی بھی نظام انسانوں کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ بے شک ! لیکن افسوس کی بات ہے کہ مشہور طبیعیات دان لاکھوں بے روز گار امریکیوں کے لیے یہ واضح نہیں کرتا کہ وہ کس طرح قومی آمدن کو بڑھانے میں شریک ہو سکتے ہیں۔ انفرادی اقدام کی خوبیوں اور محنت کی زیادہ پیداواریت کے بارے میں مجرد وعظ دینے سے بیروزگاروں کو روزگار نہیں ملیں گے نہ ہی بجٹ خسارہ پورا ہوگا اور نہ ہی قومی معیشت کو بند گلی سے نکالا جا سکے گا۔
مارکس کی ذہانت کی آفاقیت، مظاہر اور مختلف شعبوں کو اُن کے جبلی رابطوں میں سمجھنے کی اہلیت نے اُسے ممتاز بنا دیا۔ فطری سائنس کا ماہر نہ ہونے کے باوجود وہ پہلا آدمی تھا جس نے اس شعبے میں ہونے والی عظیم دریافتوں کو بھانپ لیا تھا جیسے ڈارون کا نظریہ۔ مارکس کو پتہ تھا کہ اس کی فضیلت اس کی ذہانت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے طریقہ کار کی وجہ سے ہے۔ بورژوا ذہنیت کے مالک سائنس دان شاید اپنے آپ کو سوشلزم سے مبرّا سمجھتے ہیں لیکن رابرٹ ملیکان ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کر تا ہے کہ عمرانیات کے شعبے میں وہ اب بھی نیم حکیم ہیں۔ اُنہیں مارکس سے سائنسی سوچ کی تعلیم حاصل کر نی چاہیے۔
پیداواری امکانات اور ذاتی ملکیت
1937ء کے آغاز میں کانگریس کو اپنے پیغام میں صدر روز ویلٹ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ قومی آمدن کو نوے یا سو ارب ڈالر تک بڑھایا جائے تاہم یہ نہیں بتا یا کہ کس طرح۔ یہ پروگرام اپنے آپ میں حد سے زیادہ معتدل ہے۔ 1929ء میں جب بیروزگاروں کی تعداد دو ملین تھی قومی آمدن 81ارب ڈالر تھی۔ موجودہ پیداواری قوتوں کو کام میں لا کر نہ صرف روز ویلٹ کے پروگرام کو حقیقت کا روپ دیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے آگے بھی جایا جا سکتا ہے۔ مشینیں، خام مال، مزدور، ہر چیز دستیاب ہے۔ سب سے بڑھ کر لوگوں کو ان مصنوعات کی ضرورت ہے۔ اگر اس کے باوجود یہ منصوبہ ناقابل حصول ہے (اور یقیناًیہ ناقابل حصول ہے) تو اس کی واحد وجہ سرمایہ دارانہ ملکیت اور سماج کی بڑھتی پیداوارکی ضرورت کے درمیان ناقابل مصالحت تضاد ہے۔ مشہور حکومتی ’ ممکنہ پیداواری صلاحیت کا قومی سروے ‘ اس نتیجے پر پہنچا کہ 1929 ء میں استعمال شدہ خدمات اور پیداواری لاگت تقریباً 94 ارب ڈالر تھی۔ یہ خوردہ قیمتوں کی بنیاد پر حساب لگا یا گیا ہے۔ لیکن اگر حقیقی پیداواری صلاحیتوں کو استعمال میں لا یا جاتا تو یہ عدد 135ارب ڈالر تک چلا جا تا، اوسطاً 4370 ڈالر سالانہ فی خاندان جو ایک شانت اور آرام دہ زندگی کے لیے کافی ہے۔
یہاں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ قومی سروے کا یہ تخمینہ امریکہ کی موجودہ پیداواری تنظیم کی بنیاد پر لگا یا گیا ہے جو سرمایہ داری کی پر انتشار تاریخ کی وجہ سے بنی ہے۔ اگر ذرائع پیداوار کو ایک یکجا سوشلسٹ منصوبے کی بنیاد پر آراستہ کیا جا ئے تو پیداواری تخمینہ بے پناہ بڑھ سکتا ہے اور انتہائی قلیل اوقات کار کی بنیاد پر تمام لوگوں کے لیے ایک نہایت ہی آرام دہ معیار زندگی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
لہٰذا سماج کو بچانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ تکنیک کی ترقی کو روکا جائے، فیکٹریاں بند کی جائیں، زراعت کو تباہ کر نے کے لیے کسانوں کو انعامات دیئے جائیں، ایک تہائی مزدوروں کو بھکاری بنایا جائے یا پاگلوں کو ڈکٹیٹر بنایا جائے۔ یہ تمام تر اقدامات، جو سماجی مفادات کے ساتھ ایک بھیانک مذاق ہیں، غیر ضروری ہیں۔ ضروری او ر فوری کام یہ ہے کہ ذرائع پیداوار کو اُن کے موجودہ طفیلی مالکان سے الگ کیا جائے اور سماج کو ایک تعقلی منصوبے کی بنیاد پر منظم کیا جائے۔ تب ہی سماج کی تمام بیماریوں کا علاج ممکن ہو پائے گا۔ کام کے قابل ہر شخص کو روز گار ملے گا۔ اوقات کار بتدریج کم ہو جائیں گے۔ سماج کے تمام ارکان کی ضرورتیں تیزی سے پوری ہونگی۔ ’’جائیداد‘‘، ’’بحران‘‘، ’’استحصال‘‘ کے الفاظ منظر سے غائب ہو جائیں گے۔ بالآخر انسان حقیقی انسانیت کی اقلیم میں قدم رکھے گا۔
سوشلزم کی ناگزیریت
مارکس کہتا ہے، ’’سرمائے کے بڑے بڑے مگر مچھوں کی کم ہو تی ہوئی تعداد کے ساتھ ساتھ بد حالی، جبر، غلامی، ذلت اور استحصال کی شدت میں اضافہ ہو تا جا تا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی محنت کش طبقے کی بغاوت بھی بڑھتی جا تی ہے۔ تعداد میں بڑھتا ہوا ایک ایسا طبقہ جو منظم، متحد اور سرمایہ دارانہ پیداوار ی عمل کے طریقہ کار کی وجہ سے ہی منظم ہو تا ہے۔ ذرائع پیداوار کی مرکزیت اور محنت کی سوشلائزیشن(Socialisation) بالآخر ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے سرمایہ دارانہ غلاف سے بغاوت کر تی ہے۔ اس غلاف کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کے لئے پیام اجل آ جاتا ہے۔ غاصبوں کو بیدخل کر دیا جا تا ہے۔ ‘‘یہی سوشلسٹ انقلاب ہے۔ مارکس کے نزدیک سماج کی تعمیر نو کا مسئلہ اُس کی ذاتی پسند ناپسند کا نتیجہ نہیں تھا۔ بلکہ ایک گہری تاریخی ضرورت تھی جو ایک طرف پیداواری قوتوں کی زبر دست ترقی اور دوسری طرف قانون قدر کی بنیاد پر ان قوتوں کی مزید ترقی کے امکانات کے نہ ہونے کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ مارکس کی تعلیمات سے قطع نظر، اس موضوع پر بعض دانشوروں کی تحریریں کہ سوشلزم ناگزیر نہیں بلکہ امکان ہے، کسی بھی طرح کے مواد سے عاری ہیں۔ یقیناًمارکس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ سوشلزم انسانوں کے ارادوں اور عمل کے بغیر آئے گا۔ اس طرح کی باتیں احمقانہ ہیں۔ مارکس نے پیش گوئی کی کہ معاشی زوال، جس پر سرمایہ دارانہ ارتقا ناگزیر طور پر منتج ہوگا اور جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، سے نکلنے کا اور کوئی راستہ نہیں رہے گا سوائے اسکے کہ ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لے لیا جائے۔ پیداواری قوتوں کو ایک نئے منتظم اور مالک کی ضرورت ہے اور چونکہ وجود شعورکا تعین کر تا ہے، لہٰذا مارکس کو یقین تھا کہ محنت کش طبقہ جلد یا بدیر، غلطیوں اور شکستوں سے سیکھتے ہوئے حقیقی معروض کو سمجھ کر اہم عملی نتائج اخذ کرے گا۔
سرمایہ دارانہ پیداکردہ ذرائع پیداوار کو قومیانے سے ہونے والے زبر دست معاشی فوائد کا اظہار نہ صرف نظریاتی طور پر بلکہ عملی طور پر سوویت یونین کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے، اس کی محدودیت کے باوجود۔ یہ سچ ہے کہ سرمایہ دارانہ رجعتی عناصر مکاری سے سٹالن کی حکومت کو سوشلزم کے نظریات کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے استعمال کر تے ہیں۔ درحقیقت مارکس نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ایک ملک میں سوشلزم کی تعمیر کی جاسکتی ہے کجا کہ ایک پسماندہ ملک میں۔ سوویت یونین میں عوام کی مسلسل محرومی، مراعات یافتہ پر ت کی مطلق طاقت، جس نے اپنے آپ کو قوم اور اُس کی بد حالی سے اُوپر اٹھا لیا ہے اور آخر میں نوکر شاہی کی بلاروک ٹوک ڈنڈا شاہی سوشلسٹ طرز معیشت کی وجہ سے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ گھیراؤ کی زد میں آئے سوویت یونین کی تنہائی اور پسماندگی کی وجہ سے ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس طرح کے نامساعد حالات میں بھی منصوبہ بند معیشت نے اپنے ناقابل تسخیر فوائد کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔
سرمایہ داری کے تمام مسیحاؤں، بشمول جمہوری اور فاشسٹ، کی یہ کوشش ہے کہ سرمائے کے مگر مچھوں کی طاقت کو محدود کریں یا کم از کم چھپائیں تاکہ ’’غاصبوں کی بیدخلی‘‘ کو روکا جا سکے۔ ان سب کو پتہ ہے اور بہت سے کھلم کھلا اقرار کر تے ہیں کہ اُن کی اصلاح پسندانہ کوششوں کی ناکامی سوشلسٹ انقلاب کا باعث بنے گی۔ ان سب کی حرکتوں سے لگتا ہے کہ اُن کے سرمایہ داری کو بچانے کے طریقے رجعتی اور مایوس کن نیم حکیمی ہیں۔ پس یہ سوشلزم کی نا گزیریت کے بارے میں مارکس کے تجزیے کو نفی کا ثبوت (Proof of negative) فراہم کرتا ہے۔
سوشلسٹ انقلاب کی ناگزیریت
1929-32ء کے عظیم بحران کے دور میں فروغ پانے والی ’’ٹیکنوکریسی‘‘ کا پروگرام اس درست قضیے کی بنیاد پر تھا کہ معیشت کو صرف سائنس کی جدید ترین تکنیک اور سماجی خدمت پر مامور حکومت کے اتحاد سے ہی معقول بنایا جا سکتا ہے۔ یہ اتحاد تب ممکن ہے جب تکنیک اور حکومت کو نجی ملکیت کی غلامی سے آزاد کیا جائے۔ یہیں سے عظیم انقلابی کام کا آغاز ہو تا ہے۔ تکنیک کو نجی مفادات کے ٹولے سے آزاد کرنے اور حکومت کو سماج کی خدمت پر مامور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ’’غاصبوں کو بے دخل کر دیا جائے‘‘۔ صرف ایک طاقتور طبقہ ہی جو اپنی آزادی میں مگن ہو اور جو اجارہ دارانہ غاصبوں کے خلاف ہو یہ کام کرنے کے قابل ہے۔ قابل ہنر مندوں کی پرت صرف ایک پرولتاری حکومت کے ساتھ مل کر ہی ایک حقیقی معنوں میں سائنسی اور قومی، یعنی کہ ایک سوشلسٹ معیشت قائم کر سکتی ہے۔
سب سے اچھا تو یہ ہوگا کہ اس مقصد کو پر امن، بتدریج اور جمہوری انداز میں حاصل کیا جائے لیکن ایک متروک سماجی نظام کبھی بھی بغیر مزاحمت کے اپنے جانشین کے لیے جگہ خالی نہیں کرے گا۔ اگر اپنے عروج کے دنوں میں نوخیز طاقتور جمہوریت دولت اور طاقت کو دولت مند افراد کے ہاتھوں میں مجتمع ہونے سے نہ روک سکی تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک کمزور اور تباہ حال جمہوریت ساٹھ خاندانوں کی حاکمیت پر قائم سماجی نظام کو تبدیل کر دے؟ نظریات اور تاریخ بتاتے ہیں کہ طبقاتی جد وجہد کی انتہائی کیفیت، یعنی انقلاب، کے نتیجے میں ہی سماجی نظام تبدیل ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکہ میں غلامی بھی بغیر خانہ جنگی کے ختم نہ ہوسکی۔ ’’طاقت پرانے سماج کی کوکھ میں جنم لینے والے نئے سماج کی دایہ ہے۔‘‘ طبقاتی سماج کی عمرانیات کے حوالے سے مارکس کے اس بنیادی نظریے کو آج تک کوئی بھی مسترد نہ کر سکا ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی سوشلزم کے لیے راستہ صاف کرے گا۔
مارکسزم امریکہ میں
شمالی امریکی جمہوریہ تکنیک اور پیداوار ی تنظیم کے شعبے میں دوسروں سے آگے نکل گیا ہے۔ نہ صرف امریکی بلکہ پوری انسانیت اس بنیاد پر تعمیر ہوگی۔ تاہم ایک ہی ملک میں سماجی عمل کے مختلف مراحل کی مختلف رفتار ہو سکتی ہے۔ یہ مخصوص تاریخی حالات پر منحصر ہے۔ جہاں امریکہ کو تکنیک کے میدان میں زبر دست برتری حاصل ہے وہیں اس کے دائیں اور بائیں بازو کے معاشی نظریے بہت پسماندہ ہیں۔ جان لیوس اور فرینکلن روزویلٹ کے نظریات ایک جیسے ہیں۔ اس کے عہدے کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے لیوس کا سماجی کردار روز ویلٹ سے زیادہ قدامت پسند بلکہ رجعتی ہے۔ بعض امریکی حلقوں میں ایک رجحان ہے کہ ایک یا دوسرے ریڈیکل نظریات کو بغیر کسی سائنسی تنقید کے صرف ’’غیر امریکی‘‘ کہہ کر مسترد کر دیا جا تا ہے۔ لیکن اس کے لیے فرق کرنے کے معیارا ت کیا ہیں؟
عیسائیت کو امریکہ میں لوگر تھم، شیکسپئر کی شاعری، انسانوں اور شہریوں کے حقوق کے نظریات اور انسانی فکر کی دوسری اہم پیداواروں کے ساتھ در آمد کیا گیا۔ آج مارکسزم بھی اسی درجہ بندی میں آتا ہے۔
وزیر زراعت ہنری والس نے مصنف پر ’’عقیدہ پرستانہ کمزوری جو شدت سے غیر امریکی ہے‘‘ کا الزام لگا یا ہے اور روسی عقیدہ پرستی کے خلاف جیفر سن کے موقع پرستانہ رجحان کا ذکر کیا ہے جو اپنے مخالفین سے سمجھوتہ کرنا جانتا ہے۔ ظاہراً والس کے ذہن میں یہ خیال کبھی نہیں آیا ہوگا کہ سمجھوتہ کر نے کی پالیسی کسی غیر مادی قومی رجحان کی نہیں بلکہ مادی حالات کی پیداوار ہے۔ تیزی سے امیر ہوتی ہوئی قوم کے پاس مخالف طبقات میں مصالحت کرانے کے کافی مواقع ہوتے ہیں۔ دوسری طرف جب سماجی تضادات تیز ہو جاتے ہیں تو مصالحت کے مواقع غائب ہو جاتے ہیں۔ امریکہ ’’عقیدہ پرستانہ کمزوری‘‘ سے آزاد تھا کیونکہ اس کے پاس وسیع غیر مزروعہ زمین، لامتناہی قدرتی دولت کے ذخائر اور ایسا لگتا تھا کہ ترقی کے لامحدود مواقع ہیں۔ لیکن ان حالات کے باوجود خانہ جنگی کا وقت آنے پر مصالحت کا رجحان اُسے نہ روک سکا۔ تاہم جن مادی حالات نے ’’امریکن ازم‘‘ کی بنیاد ڈالی وہ آج کافی حد تک ماضی کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس طرح یہ روایتی امریکی نظریے کا گہرا بحران ہے۔
تجربی سوچ، جو گاہے بگاہے فوری مسئلوں کے حل تک محدود ہے، مزدور اور بورژوا حلقوں میں اس وقت تک موزوں تھی جب تک مارکس کا قانون قدر سماج کو آگے لے کر جا رہا تھا۔ لیکن آج وہی قانون اپنے ساتھ ناقابل مصالحت تضاد میں ہے۔ معیشت کو آگے بڑھانے کی بجائے یہ اس کی بنیادیں منہدم کر رہا ہے۔ عملیت پسندی، مصالحانہ ااصطفائیت پسندانہ سوچ، اپنی فلسفیانہ اوج کے ساتھ مکمل طور پر غیر موزوں ہے جب کہ مارکسزم کو ’’عقیدہ‘‘ کہہ کر اس کی طرف نامناسب یا تحقیر آمیز رویہ نہایت ہی فضول، رجعتی اور مکمل طور پر مضحکہ خیز ہے۔ اس کے برعکس یہ روایتی ’’امریکن ازم‘‘ کی سوچ ہی ہے جو بے جان، خوف زدہ عقیدہ بن چکی ہے جو غلطیوں اور بوکھلاہٹ کو جنم دے رہی ہے۔ معاً، مارکس کی معاشی تعلیمات امریکہ کے لیے ایک خاص زیست پذیری اور تیز دھار پن حاصل کر چکی ہیں۔ اگر چہ’’سرمایہ‘‘ عالمی مواد (زیادہ تر برطانوی) پر انحصار کرتی ہے لیکن اپنی نظریاتی بنیادوں کے حوالے سے یہ خالص سرمایہ داری کا عمومی تجزیہ ہے۔ بلاشبہ امریکہ کی غیر مزروعہ، غیر تاریخی سر زمین پر پرورش پانے والی سرمایہ داری مثالی سرمایہ داری کے قریب ترین ہے۔
امریکہ معاشی طور پر جیفر سن کے اصولوں کی بجائے مارکس کے نظریات کے مطابق پروان چڑھا اس سے والس کی عزت بچ گئی۔ اس بات کو قبول کرنے سے قومی وقار مجروح نہیں ہو تا بالکل اسی طرح جیسے اس بات کو قبول کرنے سے کچھ نہیں ہوتا کہ امریکہ سورج کے گرد نیوٹن کے قوانین کے مطابق گھومتا ہے۔ مارکس کو امریکہ میں جتنا نظرانداز کیا جاتا ہے اتنی ہی اس کی تعلیمات میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ ’’سرمایہ‘‘ بیماری کی ایک بے عیب تشخیص اور بے بدل تجزیہ پیش کرتی ہے۔ اس حوالے سے مارکس کی تعلیما ت ہوور، روزویلٹ، گرین اور لیوس کی نسبت نئے ’’امریکن ازم‘‘ سے زیادہ سرشار ہیں۔
یہ بات صحیح ہے کہ امریکی معیشت کے بحران کے بارے میں امریکہ میں بہت سی نئی تحقیق موجود ہے۔ دیانت دار معیشت دان جس حد تک امریکی سرمایہ داری کے تباہ کن رجحانات کی معروضی تصویرکشی کرتے ہیں اُن کے تجزیے، ان کے نظریاتی رجحانات سے قطع نظر جو عام طور پر ناقدانہ ہیں، بالکل مارکس کے نظریے کی براہ راست تشریحات لگتے ہیں۔ قدامت پسند روایات تب اپنا سر اٹھاتی ہیں جب یہ مصنفین شدت سے واضح نتائج سے دور بھاگتے ہیں اور اپنے آپ کو تاریک پیش گوئیوں یا ایسی نصیحتوں جیسے ’’قوم کو سمجھنا چاہیے‘‘ ’’رائے عامہ کو اس بات پر غور کرنا چاہیے‘‘ وغیر ہ وغیرہ تک محدود کر تے ہیں۔ یہ کتابیں دھار کے بغیر چاقو یا سوئی کے بغیر قطب نما کی طرح ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ماضی میں امریکہ میں عجیب اقسام کے مارکسسٹ یا تین اقسام کے مارکسسٹ تھے۔ اولاً یورپ سے آئے ہوئے مہاجر تھے جنہوں نے بھر پور کوشش کی لیکن انہیں کوئی نتیجہ نہیں ملا۔ ثانیاً ڈی لیونسٹ جیسے الگ تھلگ امریکی گروپوں نے واقعات کے تسلسل میں اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو ٹولیوں میں بدل دیا ہے۔ ثالثاً ایسے شوقیہ لوگ جو اکتوبر انقلاب کی طرف متوجہ ہوئے اور بطور پر اسرار تعلیمات، جس کا امریکہ سے لینا دینا نہیں تھا، مارکسزم سے ہمدردی رکھتے تھے۔ ان کا وقت گزر چکا ہے اب پرولتا ریہ کی آزاد طبقاتی تحریک اور حقیقی مارکسزم کی صبح طلوع ہو رہی ہے۔ یہاں بھی امریکہ چند ہی چھلانگوں میں یورپ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ ترقی پسند تکنیک اور سماجی ساخت خود ہی نظریے کے لیے راستہ ہموار کرے گی۔ امریکی سرزمین پر بہترین مارکسی نظریہ دان پیدا ہونگے۔ مارکس جدید امریکی مزدوروں کا استا د بن جائے گا۔ یہ تلخیص شدہ پہلی جلد مارکس کو مکمل سمجھنے کا پہلا قدم ثابت ہوگی۔
سرمایہ داری کا مثالی آئینہ
جب سرما یہ کی پہلی جلد چھپی تو اس وقت بر طانوی بورژوازی کے عالمی غلبے کے سامنے کوئی نہیں تھا۔ اجناس کی معیشت کے تجریدی قوانین کا مکمل اظہار، جو ماضی کے اثرات پر کم تر منحصر ہے، فطری طور پر ایک ایسے ملک میں ہوا جہاں سرمایہ داری اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔ مارکس نے اپنے تجزیے میں زیادہ تر انگلینڈ پر انحصار کیا لیکن اُس کے مد نظر نہ صرف انگلینڈ بلکہ پوری سرمایہ دارانہ دنیا تھی۔ اس نے اپنے زمانے کے انگلینڈ کو سرمایہ داری کی بہترین ہم عصر مثال کے طور پر استعمال کیا۔
اب برطانوی غلبے کی صرف یاد باقی ہے۔ پہلا سرمایہ دارانہ ملک ہونے کے فوائد اب نقصانات میں بدل گئے ہیں۔ انگلینڈ کی تکنیکی اور معاشی ساخت اب گل سڑ چکی ہے۔ ملک اپنی عالمی حیثیت کے لیے سرگرم معاشی طاقت کی بجائے نوآبادیاتی سلطنت پر انحصار کر رہا ہے جو ماضی کی وراثت ہے۔ اتفاقاً یہی چیز فاشسٹوں کی عالمی غنڈہ گردی کے لیے چیمبرلین کی مسیحی ہمدردی کی وضاحت کر تی ہے جس نے ہر کسی کو حیران کر دیا۔ انگریز بورژازی اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس کا معاشی زوال عالمی سطح پر اس کی حیثیت سے میل نہیں کھاتا اور ایک نئی جنگ برطانوی سلطنت کے انہدام کا باعث بنے گی۔ فرانس کی ’’امن پسندی‘‘ کی معاشی بنیاد بھی حقیقت میں یہی ہے۔
اس کے بر عکس جرمنی نے اپنی تیز سرمایہ دارانہ ترقی کے دوران تاریخی پسماندگی کے فوائد کو استعمال کر تے ہوئے یورپ کی بہترین تکنیک سے اپنے آپ کو مسلح کیا ہے۔ محدود قومی بنیاد اور کمتر قدرتی وسائل کی وجہ سے جرمنی کی متحرک ضرورت کی سرمایہ داری نام نہاد عالمی طاقتوں کے توازن میں سب سے دھماکہ خیز عامل میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ہٹلر کا مرگی زدہ نظریہ دراصل جرمن سرمایہ داری کی مرگی کے مرض کا عکس ہے۔
متعدد بیش قیمت تاریخی کردار کے حامل فوائد کے علاوہ، امریکہ کی ترقی لا محدود بڑے رقبے اور جرمنی کی نسبت بے نظیر قدرتی دولت کی وجہ سے ہوئی۔ بر طانیہ کو واضح طور پر پیچھے دھکیلتے ہوئے شمالی امریکی جمہوریہ اس صدی کے آغاز پر عالمی بورژوازی کا سب سے مضبوط قلعہ بن گیا۔ یہاں سرمایہ داری میں پوشیدہ تمام تر امکانات کو بہترین اظہار مل گیا۔ ہمارے سیارے پر کسی بھی دوسری جگہ بورژوازی ڈالر جمہوریہ میں اپنی حاصلات سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر سکتی جو بیسویں صد ی کی سرمایہ داری کی سب سے کامل شکل ہے۔
اسی وجہ سے مارکس نے اپنی تشریحات کی بنیاد انگریزی اعداد و شمار، پارلیمانی رپورٹس پر رکھی۔ اسی طرح ہم نے بھی اپنے معمولی سے تعارف میں امریکہ کے معاشی اور سیاسی تجربات سے متعلق مواد پر انحصار کیا ہے۔ کسی بھی دوسرے سرمایہ دارانہ ملک کے ملتے جلتے اعداد و شمار کو پیش کرنا مشکل نہیں ہے۔ لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ نتائج یکساں ہونگے لیکن صرف مثالیں غیر دلچسپ ہونگی۔
فرانس میں پاپولر فرنٹ کی معاشی پالیسی، اس کے ایک ماہر مالیات کے الفاظ میں ’’بالشتیوں کے لیے‘‘ نیو ڈیل کی ایک شکل ہے۔ یہ مکمل طور پر واضح ہے کہ نظریاتی تجزیے میں چھوٹی مقدار کی نسبت بڑی مقدار سے نمٹنا بہت آسان تر ہے۔ روز ویلٹ کا تجربہ دکھاتا ہے کہ صرف ایک معجزہ ہی عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو بچا سکتا ہے۔ لیکن اتفاق سے، سرمایہ دارانہ پیداوارکی ترویج معجزوں کی پیداوار روک دیتی ہے۔ منتروں اور دعاؤں کی بہتا ت ہے لیکن معجزے ہو تے ہی نہیں۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ اگر سرمایہ داری کو دوبارہ جوان کرنے کا معجزہ کہیں پر ہوسکتا ہے تووہ کہیں اور نہیں صرف امریکہ میں ہی ہو سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جو کام دیو نہ کر سکے وہ یہ بالشتیے کہاں کر سکتے ہیں۔ اس سادہ نتیجے پر پہنچنے کے لیے ہمیں امریکی معیشت کو دیکھنا چاہیے۔
بالادست ممالک اور نوآبادیات
مارکس نے سرمایہ کے پہلے ایڈیشن کے پیش لفظ میں لکھا، ’’صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملک میں کم ترقی یافتہ ملک کو اپنا مستقبل نظر آتا ہے۔ ‘‘ کسی بھی صورت میں اس خیال کو حرف بہ حرف نہیں لینا چاہیے۔ بلاشبہ سرمایہ دارانہ ارتقا کے راستے پر چلنے والے ہر ملک کو پیداواری قوتوں کی ترقی اور گہرے ہو تے ہوئے سماجی تضادات کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ تاہم رفتار اور معیارات کا عدم توازن، جو انسانی ترقی میں ہر وقت موجود تھا اور بنیادی طور پر اس کی تاریخی اور فطری وجوہات ہیں، سرما یہ داری کے تحت خصوصی طور پر نہ صرف تیز ہوا بلکہ مختلف معاشی اقسام کے ممالک کے درمیان غلامی، استحصال اور جبر پر مبنی ایک پیچیدہ باہمی انحصار نے جنم لیا۔
صرف چند ممالک ہی دستکاری سے گھریلو پیداوار اور پھر فیکٹری کے باقاعدہ اور منطقی ترقی کے عمل سے گزرے جس کا مارکس نے تفصیل سے تجزیہ کیا تھا۔ تجارتی، صنعتی اور مالیاتی سرمائے نے پسماندہ ممالک پر باہر سے یلغار کی اور جزوی طور پر قدیم مقامی معیشت کی اشکال کو تباہ کر دیا اور کسی حد تک انہیں مغرب کے عالمی صنعتی اور بینکنگ کے نظام سے جوڑ دیا۔ سامراجیت کے کوڑے کے زیر اثر نو آبادیات اور نیم نوآبایات کو درمیانی مرحلوں کو پھلانگنا پڑاجب کہ اسی لمحے وہ ایک یا دوسری سطح پر مصنوعی طور پر چمٹے بھی رہے۔ ہندوستان کا ارتقا انگلینڈ کے ارتقا کی تکرار نہیں بلکہ اس کا ضمیمہ ہے۔ تاہم ہندوستان جیسے پسماندہ اور غلام ممالک کی مشترکہ ترقی کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انگلینڈ کے ارتقا سے مارکس کا اخذ کیا گیا کلاسیکی طریقہ کار ذہن میں رکھا جائے۔ قدر کا قانون لندن شہر کے سٹہ بازوں کے حساب کتاب پر اسی طرح اثر انداز ہو تا ہے جس طرح دور افتادہ حید ر آباد میں رقوم کی تبدیلی کے کاروبار پر اثر انداز ہو تا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ مؤخر الذکر میں یہ زیادہ سادہ اور کم عیار ہے۔
ارتقائی عدم توازن ترقی یافتہ ممالک کے لیے زبر دست فائدے کا باعث بنا جو اگرچہ مختلف حوالوں سے پسماندہ ممالک کی قیمت پر، ان کا استحصال کر کے، انہیں اپنی نو آبادیات بنا کر یا کم سے کم انہیں سرمایہ دارانہ اشرافیہ میں داخل ہونے سے روک کر، ہی ترقی کر تے رہے۔ سپین، ہالینڈ، انگلینڈ اور فرانس نے اتنی دولت نہ صرف اپنے پرولتاریہ کی قد ر زائد اور اپنی پیٹی بورژوازی کو تباہ کر کے بلکہ اپنی نو آبادیات کی منظم لوٹ مار سے بھی حاصل کی۔ اقوام کے استحصال کے ذریعے طبقات کے استحصال میں مزید شدت لائی گئی۔ اپنی نو آبادیات سے زبردست منافع کما کر بالا دست ممالک کی بورژوازی اپنے پرولتاریہ بالخصوص اس کی اُوپری پرتوں کو ایک مراعات یافتہ مقام دے سکی۔ اس کے بغیر کسی بھی طرح کی مستحکم جمہوری حکومت بالکل ناممکن ہو تی۔ اپنی واضح شکل میں بورژوا جمہوریت ایک ایسی حکومت ہے جو صرف امیر ترین اور استحصالی اقوام کی پہنچ میں ہے۔ قدیم جمہوریت غلامی پر کھڑی تھی۔ سامراجی جمہوریت نو آبادیات کی لوٹ مار پر۔
رسمی طور پر امریکہ کی تقریباً کوئی نو آبادیات نہیں ہیں۔ اس کے باوجو د وہ تاریخ کی تمام قوموں میں سب سے مراعات یافتہ ہے۔ یورپ کے سرگرم مہاجروں نے حد سے زیادہ امیر بر اعظم پر قبضہ کر لیا، مقامی آبادی کا صفایا کر دیا، میکسیکو کے بہترین حصوں کو ہتھیا لیا اور وہ عالمی دولت کے ایک بڑے حصے کے دعویدار بن گئے۔ اس طرح سے ہاتھ آنے والی دولت حتیٰ کہ آج زوال کے عہد میں بھی جمہوریت کا پہیہ چلانے کے کام آرہی ہے۔
حالیہ تاریخی تجربات اور نظریاتی تجزیے بھی اس بات کی تصدیق کر تے ہیں کہ جمہوریت کی ترقی اور استحکام طبقاتی تضادات کی کشمکش کے بالعکس متناسب ہے۔ کم مراعات یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک، (ایک طرف زار شاہی روس، دوسری طرف جرمنی، اٹلی وغیرہ) جو متعدد اور مستحکم مزدور اشرافیہ پیدا کر نے میں ناکام رہے، میں جمہوریت کبھی بھی کسی سطح پر پروان نہ چڑھ سکی اور نسبتاً آسانی سے آمریت پر منتج ہوئی۔ تاہم سرمایہ داری کی مسلسل بڑھتی ہوئی بد حالی مراعات یافتہ ترین اور امیر ترین اقوام کی جمہوریتوں کو اسی ڈگر پر لے جا رہی ہے۔ فرق صرف تاریخ کا ہے۔ مزدوروں کے حالات زندگی کی بے قابو تنزلی اس بات کو ناممکن بنا رہی ہے کہ بورژوازی حتی ٰ کہ بورژوا پارلیمانیت کے محدود دائرے میں بھی عوام کو سیاسی زندگی میں شمولیت کا حق دیں۔ جمہوریت کی فاشزم کے ذریعے بیدخلی کے واضح عمل کی کوئی بھی دوسری تشریح چیزوں کی اصلی حالت کی خیال پرستانہ تحریف، دھوکہ یا خود فریبی ہے۔
جہاں سامراجیت سرمائے کے پرانے ملکوں میں جمہوریت کو تباہ کر رہی ہے وہیں یہ پسماندہ ممالک میں جمہوریت کے ابھار کو روک رہی ہے۔ یہ حقیقت کہ نئے عہد میں نو آبادیاتی یا نیم نو آبادیاتی ممالک میں سے ایک بھی اپنا جمہوری انقلاب مکمل نہ کر سکا، سب سے بڑھ کر زرعی تعلقات کے شعبے میں، اور یہ سب سامراجیت کی وجہ سے ہے جو معاشی اور سیاسی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اجارہ دارانہ حکمران اور ان کی حکومتیں پسماندہ ممالک کی قدرتی دولت کو لوٹتے ہیں اور جان بوجھ کر ان کی آزادانہ صنعتی ترقی کو روکتے ہیں اور اسی لمحے مقامی استحصالیوں کے سب سے رجعتی، طفیلی، نیم جاگیر دارانہ ٹولوں کو مالیاتی، سیاسی اور فوجی امداد دیتے ہیں۔ مصنوعی طور پر قائم رکھی گئی زرعی بربر یت موجودہ عالمی معیشت کی سب سے بھیانک بیماری ہے۔ نو آبادیاتی عوام کی اپنی آزادی کی جنگ، درمیانی مرحلوں کو پھلانگتے ہوئے لازمی طور پر سامراجیت کے خلاف جنگ میں تبدیل ہوگی اور اس طرح وہ بالادست ممالک کے پرولتاریہ کی جد وجہد کے ساتھ جڑ جا تے ہیں۔ نو آبادیاتی بغاوتیں اور جنگیں سرمایہ دارانہ دنیا کی بنیادیں ہلادیں گی اور اس کے دوبارہ ابھار کو پہلے سے بڑھ کر ناممکن بنادیں گی۔
عالمی منصوبہ بند معیشت
سرمایہ داری نے تکنیک کو اعلیٰ سطح پر لے جا کر اور دنیا کے تمام حصوں کو معاشی بندھنوں میں جوڑ کر دو تاریخی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ اس طرح اس نے ہمارے سیارے کے وسائل کو منظم طریقے سے استعمال کرنے کے لیے مادی بنیادیں فراہم کی ہیں۔ تاہم سرمایہ داری یہ فوری فریضہ سر انجام دینے کے قابل نہیں ہے۔ اس کے پھیلاؤ کی کوششوں کا مقصد محدود قومی ریاستیں، کسٹم ہاؤسز اور افواج ہیں۔ لیکن پیداواری قوتیں بہت پہلے ہی قومی ریاست کی حدود کو پھلانگ چکی ہیں۔ اس طرح ایک ترقی پسند تاریخی عامل ایک ناقابل برداشت رکاوٹ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ سامراجی جنگیں ریاستی سرحدوں کے خلاف پیداواری قوتوں کی بغاوتیں ہیں جو ان کو محدود کرتی ہیں۔ نام نہاد خود کفالیت (Autarchy)کے پروگرام کا خود کفیل الگ تھلگ معیشت کی طرف مراجعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ایسا لگ رہا ہے ہے کہ قومی بنیادوں کو ایک نئی جنگ کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
ورسائی کے معاہدے پر دستخط کے بعد عمومی طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ دنیا کو بہتر طریقے سے تقسیم کر دیا گیا ہے۔ لیکن حالیہ واقعات نے ہمیں یہ بات یاد دلادی ہے کہ ہمارے سیارے پر ابھی تک ایسی جگہیں موجود ہیں جنہیں ابھی تک نہیں لُوٹا گیا یا اچھی طرح سے نہیں لُوٹا گیا ہے۔ اٹلی نے حبشہ(Abyssinia) پر قبضہ کر لیا ہے۔ جاپان چین کو ہتھیانا چاہتا ہے۔ اپنی سابقہ نو آبادیات کی واپسی کے انتظار سے تھک ہار کر جرمنی نے چیکوسلواکیہ کو اپنی نو آبادی بنا لیا ہے۔ اٹلی البانیہ میں گھس گیا۔ جزیرہ نما بلقان کی قسمت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ لاطینی امریکہ میں ’’پردیسیوں‘‘ کی مداخلت سے امریکہ پریشان ہے۔ نو آبادیات کے لیے جد وجہد سامراجی سرمایہ داری کی پالیسی کا خاصہ ہے۔ دنیا کو چاہے کتنا ہی مکمل طور پر تقسیم کر لیا جائے یہ عمل رکے گا نہیں بلکہ سامراجی قوتوں کے درمیان تبدیل ہو تے تعلقات کے مطابق تقسیم نو کا سوال بار بار ابھرے گا۔ دوبارہ ابھرتی ہوئی اسلحہ بندی، سفارتی تنازعات اور جنگی اتحادوں کی یہی اصل وجوہات ہیں۔
آنے والی جنگ کو جمہوریت اور فاشزم کے نظریات کے مابین جنگ کے طور پر پیش کر نے کی تمام کوششیں جہالت یا بیوقوفی کی اقلیم سے تعلق رکھتی ہیں۔ سیاسی اشکال تبدیل ہوتی ہیں لیکن سرمایہ دارانہ لالچ قائم رہتی ہے۔ اگر کل رودبار انگلستا ن کے دونوں اطراف ایک فاشسٹ حکومت قائم ہوجائے (کوئی بھی اس امکان کو آسانی سے رد نہیں کر سکتا) تو پیرس اور لندن کے آمر اپنی نو آبادیاتی مقبوضات سے بالکل اسی طرح دستبردار نہیں ہونگے جس طرح ہٹلر اور مسولینی اپنے نو آبادیاتی دعوؤں سے دستبر دار نہیں ہونگے۔ دنیا کی تقسیم نو کے لیے غضبناک اور مایوسانہ جد وجہد لازمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے جان لیوا بحران سے جنم لیتی ہے۔
جزوی اصلاحات اور پیوند لگانے سے کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ تاریخی ارتقا اس فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ صرف عوام کی براہ راست مداخلت ہی رجعتی رکاوٹوں کو توڑ کر ایک نئے نظام کی بنیاد ڈال سکتی ہے۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ منصوبہ بند معیشت کی پہلی شرط ہے یعنی انسانی تعلقات کی اقلیم میں دلیل کو متعارف کرانا، پہلے قومی اور پھر عالمی سطح پر۔ جب یہ شروع ہوا تو سوشلسٹ انقلاب بے انتہا عظیم طاقت کے ساتھ فاشزم سے بھی زیادہ تیزی سے ہر ملک میں پھیلے گا۔ ترقی یافتہ ملکوں کی مثال اور ان کی مدد سے پسماندہ ممالک بھی سوشلز م کے بہاؤ میں آجائیں گے۔ مکمل طور پر بوسیدہ کسٹم کی محصولی دیواریں منہدم ہو جائیں گی۔ وہ تضادات جو یورپ اور پوری دنیا کو ٹکڑوں میں بانٹتے ہیں، یورپ اور دنیا کے دوسرے حصوں کی متحدہ سوشلسٹ ریاستوں میں فطری اور پر امن انداز میں حل ہو جائیں گے۔ انسانیت آزاد ہو کر اپنی معراج کو پہنچے گی۔