|تحریر: پارس جان|
عالمی سرمایہ داری کا حالیہ بحران انتشار، تذبذب، معاشی و سفارتی ہیجان اور سب سے بڑھ کر عوام کے روزمرہ پر تباہ کن اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے ماضی کے تمام بحرانوں پر سبقت لے گیا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین معیشت، دانشور اور پروفیسر صاحبان بحران کا کوئی حل پیش کرنے کی بجائے بحران کی تما م تر ذمہ داری کرونا وائرس پر لاد کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ بحران کے نتیجے میں پھیلنے والی بیروزگاری، افلاس اور بھوک کو تقدیر کا لکھا قرار دے کر ممکنہ عوامی غیض و غضب سے محفوظ رہا جا سکے۔ لیکن دوسری طرف اسی بحران کے دوران ارب پتیوں کے اثاثوں اور بینک بیلنس میں ہونے والے ہوشربا اضافوں اور قومی اور سامراجی ریاستوں کی طرف سے نظام کو بچانے کے لیے سرمایہ داروں کو دیئے جانے والے کھربوں ڈالر کے بیل آؤٹ پیکجز نے بالخصوص ترقی یافتہ دنیا اور بالعموم سارے کرۂ ارض کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ شعور سماجی وجود کا تعین نہیں کرتا بلکہ سماجی وجود ہی شعور کا تعین کرتا ہے۔ حاوی دانش جتنا بھی زور لگاتی رہے عوا م اپنے ارد گرد ہونے والی بے وقت کی اموات، اشیائے ضرورت کی نایابی، ادویات کی قلت اور بیروزگاری کے سیلاب سے اہم اسباق اخذ کر رہے ہیں۔ انہیں اب ایک قطب پر دولت اور دوسری پر غربت کے انبار صاف دکھائی دے رہے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ ان دونوں قطبین کے باہمی لازمی تعلق کو بھی سمجھ رہے ہیں۔ رہی سہی کسر ریاست کے ننگے جبر نے پوری کر دی ہے۔ تہذیب اوربردباری کا گہوارہ سمجھے جانے والے یورپ اور امریکہ میں ریاست اپنے تمام تر خونی پنجوں اور جبڑوں کے ساتھ بے نقاب ہو چکی ہے۔ چھوٹی چھوٹی مزاحمتی تحریکیں انقلابات کی صورت اختیار کر رہی ہیں۔ قیادت کے بغیر ان میں سے زیادہ ترکا ردِ انقلاب میں بدلنا بھی اٹل ہے۔ حکمران طبقہ بخوبی جانتا ہے کہ عوام لا امتناعی وقت تک تحریکوں میں سرگرم نہیں رہ سکتے، اس لیے وہ جتنا زور تحریکوں کو کچلنے پر لگاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ زور سرمایہ داری کے درست متبادل نظریات کو غیر فطری، فروعی اور یوٹوپیائی ثابت کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشلزم کے خلاف پروپیگنڈا ایک دفعہ پھر شدت اختیار کر رہا ہے۔ ایک طرف عوام میں سوشلزم کی پیاس بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف حکمران انہیں یہ باور کروا رہے ہیں کہ پیاس جتنی بھی ہو یہ مشروب زہر آلود ہے، پیو گے تو مر جاؤ گے۔ بھوک اور کرونا سے مرتے ہوئے عوام کے لیے یہ پروپیگنڈا مضحکہ خیز شکل اختیار کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو خود کئی دفعہ سوشلزم کے خلاف بات کرنی پڑی۔ آنے والے دنوں میں دیگر عالمی رہنما بھی ایک دوسرے سے بڑھ کر سوشلزم کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ عوام ان سے اتنی شدید نفرت کرتے ہیں کہ ان کا پروپیگنڈا عوام کو سوشلزم سے دور کرنے کی بجائے اور نزدیک کر رہا ہے۔
بحران نے جہاں ایک طرف طبقاتی خلیج کو بے پناہ وسعت دی ہے وہیں وہ تما م تضادات اور سوالات بھی دوبارہ ابھر رہے ہیں جن کواپنے اوائلِ شباب میں سرمایہ داری نے کم از کم یورپ اور ترقی یافتہ دنیا میں ختم یا کند کر دیا تھا۔ قومی، نسلی، لسانی اور مذہبی تفریق ایک دفعہ پھر اہم سیاسی موضوعات بن کر ابھر رہے ہیں۔ حکمران جب انہیں حل کرنے سے قاصر ہیں تو انہیں اس شکل میں دانستہ طور پر ابھار رہے ہیں کہ یہ نظام کے لیے سوالیہ نشان بننے کی بجائے نظام کے خلاف ہونے والی جدوجہد کو ہی زائل کرنے کا سبب بن سکیں۔ شناخت کے سیاسی نظریات آج کل بالا اور خوشحال درمیانے طبقے کے مرغوب نظریات ہیں جنہیں سرکاری سرپرستی میں یا مختلف لبادوں میں عوامی تحریکوں میں انڈیلنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ ان نظریات کو اس لیے جدید یا جدید ترین ثابت کیا جاتا ہے تاکہ سوشلزم اور مارکسزم قدیم اور متروک لگنے لگیں۔ پسماندہ اور غریب ممالک میں بھی سوشلزم کے خلاف انہی نظریات کا سہارا لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان خطوں میں قو می، نسلی اور مذہبی تفریق یہاں کے حکمران طبقات کبھی ختم ہی نہیں کر پائے تھے تو اس لیے اب یہ سلگتے ہوئے مسائل کہیں زیادہ شدت سے دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں۔ اس تحریر میں ہم خود کو صرف قومی مسئلے کے حل کی بحث تک ہی محدود رکھیں گے۔ مارکسی سیاست اور لٹریچر میں بھی قومی مسئلے کو ہمیشہ کلیدی اہمیت حاصل رہی ہے۔ سوویت یونین کی قومی بنیادوں پر زوال پذیری کے بعدتو سوویت بیوروکریسی کے زیر اثر دنیا کی زیادہ ترکمیونسٹ پارٹیوں میں قوم پرستی اور سوشلزم کو ایک ہی نظریہ سمجھا جانے لگا تھا۔ یہ مارکسزم کے بنیادی تصورات سے قطعی رو گردانی تھی۔ سوویت یونین میں افسر شاہی کی اس نظریاتی غداری کے خلاف مارکس اور لینن کے نظریات اور طریقہ کار کے دفاع میں سب سے مؤثر اور توانا آواز لیون ٹراٹسکی کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سٹالن نے نہ صرف ٹراٹسکی، اس کے خاندان کے بیشتر افراد اور اس کے ہزاروں کامریڈوں کا قتل عام کیا بلکہ ٹراٹسکی کی زندگی میں اور اس کی شہادت کے بعد بھی سٹالنسٹ افسر شاہی نے دنیا بھر میں ٹراٹسکی کی کردار کشی کی انتہائی بہیمانہ مہم چلائی۔ اس کے کردار کے ساتھ ساتھ اس کے نظریات کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ یہ روش آج بھی جاری ہے اور آج بھی بچے کھچے سٹالنسٹ لیڈر ٹراٹسکی پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پاکستان میں بھی ایسی بہت سی تحریریں اور ویڈیو پیغامات نشر ہوتے رہتے ہیں جن میں ٹراٹسکی پر لعن طعن کرنے کے لیے پہلے ایک خود ساختہ ٹراٹسکی ازم بتایا جاتا ہے، پھر اس کے بخیے ادھیڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بے شمار ایسی باتیں بھی ٹراٹسکی سے منسوب کر دی جاتی ہیں جنہیں اگر ٹراٹسکی خود بھی سن لے تو بلا جھجک اعلان کر دے کہ اگر یہ ٹراٹسکی ازم ہے تو میں قطعاً”ٹراٹسکائیٹ“ نہیں ہوں۔ بعض اوقات تو ٹراٹسکی کے ہی موقف کو اس کے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
یوں تو ٹراٹسکی پر بے شمار الزامات لگائے جاتے ہیں مگر اس تحریر میں ہم صرف ایک مخصوص الزام کا ہی جواب دیں گے اور وہ الزام یہ ہے کہ ٹراٹسکی قومی سوال کا یکسر انکاری تھا اور یوں لینن اسٹ نہیں تھا۔ ٹراٹسکی کے بغض میں لینن کو قوم پرست ثابت کرنا بھی اب معمول کی بات بن چکی ہے۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ٹراٹسکی نہ صرف یہ کہ قومی سوال کو تسلیم کرتا تھا اور اس اہم مسئلے پر لینن اور اس کی پوزیشن میں کوئی اختلاف نہیں تھابلکہ آج بھی قومی مسئلے کا اگر کوئی حل ہے تو وہ صرف اور صرف لینن اور ٹراٹسکی کے چھوڑے گئے نظریاتی ورثے میں موجود ہے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ ہم اس تحریر میں ٹراٹسکی کی اپنی تحریروں کے حوالہ جات پر زیادہ اکتفا کریں۔
جدید اقوام کی تشکیل اور ترویج بورژوا جمہوری انقلابات سے عبارت ہے۔ تاریخ میں بغیر جمہوری انقلاب کے کہیں کوئی ایک بھی قومی ریاست تشکیل نہیں دی جا سکی۔ پسماندہ خطوں میں موجود قدیم اقوام ابھی تک تاریخی ارتقا کے قبائلی مرحلے پر موجود ہیں۔ قبائلی تعصبات اور تضادات کو فیصلہ کن انداز میں ختم کیے بغیر قومی انقلاب پایہئ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا اور اس کو ایک ٹھوس مادی حقیقت میں بدلنے کے لئے بڑے پیمانے پر کموڈیٹی پروڈکشن اور صنعتی، فزیکل اور سوشل انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔ لیکن پسماندہ خطوں کے زیادہ تر قوم پرست رائج سماجی تعلقات کو ختم کیے بغیر قومی شعور کے فروغ کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ سوویت یونین کی موجودگی میں کسی حد تک ان تحریکوں میں ایک ترقی پسند عنصر غالب تھا مگر اب صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر جمہوری انقلاب کے بغیر سامراجی مداخلت سے کسی قوم کو الگ خطہ سامراجی بھیک میں مل بھی جائے تو وہ آزادی نہیں ہو گی بلکہ غلامی کی بدترین شکل ہو گی۔ مختصر یہ کہ جن خطوں میں قدیم پسماندہ اقوام موجود ہیں اور وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی اپنے سے زیادہ طاقتور قوم کے زیر تسلط ہیں تو ان اقوام میں جدید قوم بننے یا قومی آزادی حاصل کرنے کی خواہش عین فطری ہے جس کی حمایت کی جانی چاہیے مگر اس خواہش کی تکمیل کے لیے ان اقوام کو جمہوری انقلاب کے مرحلے سے بہر طور گزرنا ہو گا۔ اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ جمہوری انقلاب آج کے عہد میں کیسے ممکن ہے یا ممکن ہے بھی یا نہیں؟ رومانوی قوم پرست اس سوال کو بائی پاس کرکے یا جمہوری انقلاب کی لاز میت سے کاٹ کر قومی آزادی کوایک یوٹوپیا میں بدل دیتے ہیں اور پھر مہم جوئی یا موقع پرستی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ ٹراٹسکی اس موضوع پر یوں رقمطراز ہوتا ہے:
”صرف مکار جہالت ہی قوم اور لبرل ڈیموکریسی میں کسی تضاد کو تلاش کر سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید تاریخ کی تمام آزادی کی تحریکیں، ہالینڈ کی تحریکِ آزادی سے لے کر آج تک، بیک وقت قومی اور جمہوری کردار رکھتی ہیں۔ مظلوم اور منقسم اقوام کی بیداری، ان کی اپنے حصوں بخروں کو جوڑنے اور بیرونی قابض کو بھگانے کی جدوجہدسیاسی آزادی کی جدوجہد کے بغیر ناممکن ہوتی۔ فرانسیسی قوم اٹھارویں صدی کے اختتام پر جمہوری انقلاب کے طوفانوں اور تھپیڑوں میں متشکل ہوئی تھی۔ اطالوی اور جرمن اقوام انیسویں صدی میں متعدد جنگوں اور انقلابات کے نتیجے میں نمودار ہوئیں۔ امریکی قوم کی مقوی بلوغت جسے آزادی کا بپتسمہ اٹھارویں صدی کے سماجی ابھار سے ملا تھابالآخر خانہ جنگی کے دوران شمال کی جنوب پر فتح سے مستحکم ہو گئی۔ نہ ہٹلر اور نہ ہی مسولینی نے قوم کو دریافت کیا۔ حب الوطنی اپنے جدید معنوں میں، یا یوں کہہ لیں کہ بورژوا معنوں میں انیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ فرانسیسی لوگوں کا قومی شعور شاید سب سے زیادہ قدا مت پسند اور مستحکم ہے اور آج کے دن تک یہ جمہوری روایات کے منبع سے پھوٹتا ہے۔“ (قوم پرستی اور معاشی زندگی)
مسلسل انقلاب کی مسلسل توڑمروڑ
رومانوی قوم پرست اس سوال کو بھلے ہی جھٹلاتے ہوں مگر مارکسی حلقے جمہوری انقلاب اور قومی آزادی کو لازم وملزوم سمجھتے ہیں۔ سوشلسٹوں کے مابین اس معاملے میں اختلافی نقطہ جمہوری انقلاب کے طریقہ کار اور قیادت کے کردار پر ہے۔ آیئے ایک دفعہ پھر مذکورہ بالا اسی اہم ترین سوال کو دہراتے ہیں۔ کیا پسماندہ اقوام کو بغیر جمہوری انقلاب کے حقیقی آزادی مل سکتی ہے، ہرگز نہیں۔ مزید یہ کہ کیا سامراج کے عہد میں پسماندہ خطوں میں یہ جمہوری انقلاب ممکن ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا ٹراٹسکی نے نظریہ مسلسل انقلاب کی شکل میں تفصیلی اور سائنسی جواب دیا ہے اور اسی اہم ترین سوال پر ٹراٹسکی کے خیالات کی توڑ مروڑ شروع ہو جاتی ہے اور پھر کہیں ختم نہیں ہوتی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ٹراٹسکی کے خیال میں جمہوری انقلاب ناممکن ہے، لہٰذا وہ جمہوری انقلاب کے خلاف تھا۔ حقائق اس کے متضاد ہیں۔ ٹراٹسکی نہ صرف یہ کہ جمہوری انقلاب کو ممکن بلکہ لازمی قرار دیتا تھا مگر اس کے خیال میں پسماندہ اقوام میں اب جمہوری انقلاب ویسے ممکن نہیں ہے جیسا کہ یورپ میں وقوع پذیر ہوا۔ یورپ میں بورژوا طبقہ مجبور تھا کہ اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے، یعنی جاگیرداری کا تختہ الٹنے کے لیے جمہوری انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے اسے پایہئ تکمیل تک پہنچائے۔ اگرچہ وہاں بھی اس نے شدید بزدلی اور ہچکچاہٹ کامظاہرہ کیا تھا مگر بالآخر اسے اپنی مصنوعات کے لیے ایک منڈی درکار تھی جو اسے صرف قومی ریاست کی شکل میں میسر آ سکتی تھی۔ لیکن اب یورپ کی وہی قومی ریاستیں سامراجی ریاستوں میں تبدیل ہو چکی ہیں اور انہوں نے دنیا بھر کی منڈیوں پر قبضے کر لیے ہیں۔ مالیاتی سرمائے کے پھیلاؤ نے اس سامراجی قبضے کو نئی شکل دی ہے، جدید تکنیک اور سائنس پر ان سامراجیوں نے مکمل اجارہ داری حاصل کر لی ہے جس کے باعث انہوں نے پسماندہ اقوام کی بورژوازی کی مسابقت کی صلاحیت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔ یعنی اب پسماندہ اقوا م کے سرمایہ دار ان کے دلال بن گئے ہیں اوروہ اپنی الگ منڈی کی خواہش اگر رکھتے بھی ہوں تو سامراجی سمجھوتوں، خیرات اور کمیشنز کی وصولی سے آگے نہیں بڑھ سکتے، اس لیے ان کی جمہوری انقلاب کی قیادت کرنے کی صلاحیت مرچکی ہے جس میں اب کوئی ابنِ مریم بھی روح نہیں پھونک سکتا۔ لیکن ٹراٹسکی نے یہ کہیں نہیں کہا تھا کہ جمہوری انقلاب کی ضرورت اور اس کا امکان ہی ختم ہو چکا ہے۔ بلکہ اس نے وضاحت کی تھی کہ ان پسماندہ خطوں میں ایک اور طبقہ موجود ہے جو عین انہی معروضی حالات جن کے سبب بورژوازی یہ تاریخی فریضہ سر انجام دینے کی اہلیت کھو دیتی ہے، یہ طبقہ اپنی بقا کی خاطراس جمہوری انقلاب کو مکمل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ طبقہ پرولتاریہ ہے۔ پسماندہ خطوں میں تعداد میں کم ہونے کے باوجود سرمایہ داری کے بحرانات اور حالات کے تھپیڑے اسے جمہوری انقلاب کا قائد بنا دیتے ہیں مگر اس کے لیے اسے اقتدار اپنے ہاتھ میں لینا پڑتا ہے۔ برسرِاقتدار آ کر اسے جہاں جمہوری انقلاب کے ادھورے فرائض مکمل کرنے ہوتے ہیں وہیں وہ اس انقلاب کو آگے بڑھاتے ہوئے سوشلسٹ اقدامات کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے بصورت دیگر سامراجی طاقتوں سے جڑے مقامی سرمایہ دار طبقے، جس کے پاس تمام مالیاتی سرمائے، ذرائع پیداوار، نقل و حمل اور مواصلات کی ملکیت ہوتی ہے اور جن کے دم پر وہ پرولتاریہ کو اقتدار سے بے دخل کرتے ہوئے، پھر پرانا نظم وضبط بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یوں ٹراٹسکی کے بقول پسماندہ اور محکوم اقوام کو قومی آزادی دلوانے کا تاریخی فریضہ بھی پرولتاریہ کے کاندھوں پر ہی ہے۔ جہاں محکوم قوم میں پرولتاریہ کی تعداد بالکل ہی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے، وہاں یہ حاکم قوم کے محنت کش طبقے کا فرض ہے کہ وہ محکوم اقوام کی آزادی کے حق کے لیے نہ صرف یہ کہ جدوجہد کرے بلکہ ان کی حمایت جیتتے ہوئے اپنے حکمران طبقے کا تختہ الٹے اورمظلوم اقوام کے آزاد رہنے کے حق کی سیاسی وآئینی تکمیل کرے۔ ٹراٹسکی انقلاب میں کسانوں کے کردار کا انکاری نہیں تھا بلکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ اپنے مخصوص تاریخی ارتقا کے باعث وہ جمہوری انقلاب کی قیادت نہیں کر سکتے، یا تو انہیں بورژوازی کی قیادت میں متحد ہونا ہوتا ہے یا پھر پرولتاریہ کی رہنمائی میں انقلاب کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ یہ ایک مربوط سائنسی نظریہ ہے جسے تشکیل دینے کے لیے ٹراٹسکی نے خالصتاً جدلیاتی طریقہ کار استعمال کیا۔ سٹالنسٹ افسر شاہی نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ٹراٹسکی کے ان نظریات کو یا تو دنیا بھر کے سوشلسٹوں تک پہنچنے ہی نہیں دیا یا پھر اس کی روح کو یکسر مجروح کر دیا گیا۔ اپنی کتاب ”مسلسل انقلاب“ کے آخری باب کے اختتامیہ میں ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ ”ایسے ممالک جو سرمایہ دارانہ طرزِارتقا میں پیچھے ہیں، بالخصوص نوآبادیاتی اور نیم نو آبادیاتی ممالک، وہا ں جمہوریت اور قومی آزادی کے فرائض صرف پرولتاریہ کی آمریت کے ذریعے ہی مکمل ہو سکتے ہیں، یعنی پرولتاریہ محکوم قوم اور سب سے بڑھ کر کسانوں کے قائد کا کردار ادا کرے۔۔۔۔جمہوری انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے اقتدار میں آنے والے پرولتاریہ کا سامنافوراً ایسے مسائل سے ہوتا ہے جن کا حل سرمایہ دارانہ ملکیت کو ختم کیے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ جمہوری انقلاب یوں سوشلسٹ انقلاب میں بدل کر مسلسل انقلاب بن جاتا ہے۔“ نہ صرف ہمارے لبرل دوستوں بلکہ سٹالنسٹوں کو بھی بورژوازی سے اتنا انس ہے کہ بورژوازی کی قیادت سے انکار کو ہی وہ قومی آزادی اور جمہوریت سے انکار تصور کرتے ہیں اور اسی حقیقت کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ دونوں خود بورژوازی کی طرح محنت کش طبقے سے اتنے خوفزدہ اور متنفر ہیں کہ اس کے اقتدار کا سنتے ہی ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
الزامات کے برعکس، اپنی کسی بھی تحریریا تقریر میں ٹراٹسکی نے کبھی قومی آزادی یا جمہوری تحریک کی مخالفت نہیں کی۔ بلکہ اس نے اپنی صفوں میں موجود الٹرا لیفٹ رجحانات کی ہمیشہ سرزنش کی اور مظلوم اقوام کی حمایت جیتے بغیرانقلاب کے تصور کا ہمیشہ مذاق اڑایا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے ”پرولتاریہ کی آمریت“ کے موقف پر بھی ہمیشہ ثابت قدم رہا۔ ایک ہسپانوی کامریڈ اینڈرس نِن نے کیٹالونیا کے معاملے پر ٹراٹسکی سے ایک خط کے ذریعے انتہائی اہم سیاسی سوالات کیے۔ اور بلقان کی چھوٹی ریاستوں کی آزادی کے تلخ تجربے کو یاد کرتے ہوئے آئبیرئین جزیرہ نما میں آزادی کے ممکنہ منفی مضمرات کی نشاندہی کی۔ ٹراٹسکی اس کے جواب میں لکھتا ہے کہ:
”دونوں جزیرہ نماؤں کے موازنے کو مکمل کرنا ہوگا۔ ایک وقت تھا کہ جب جزیرہ نما بلقان ترک اشرافیہ، افواج اور پروکونسلز کے جبر کے سائے میں متحد تھا۔ محکوم لوگ اپنے حاکموں کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ اگر اس وقت ہم ان محکوم لوگوں کے جذبات کے بالمقابل یہ موقف اختیار کرتے کہ ہم جزیرہ نما کی تقسیم کسی صورت نہیں چاہتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ ہم ترک پاشا اور گورنر کے خادمین اور ایجنٹس کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہی بلقانی لوگ جو ترکی کے چنگل سے آزاد ہوئے تھے اب عشروں سے ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ اس معاملے میں بھی پرولتاری قیادت مسلسل انقلاب کا نقطہ نظر اختیار کر سکتی ہے۔ سامراجی شکنجے سے آزادی جمہوری انقلاب کا سب سے اہم عنصر ہے، اور آزادی کے فوری بعد ایک تسلسل میں پرولتاری انقلاب کے ذریعے سوویتوں کی جمہوری فیڈریشن کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔ جمہوری انقلاب کی مخالفت کرتے ہوئے نہیں بلکہ اس کے برعکس اس کی مکمل حمایت کرتے ہوئے حتیٰ کہ علیحدگی کی صورت میں بھی (یعنی عملی جدوجہد کی حمایت نہ کہ کسی وہم یا مغالطے کی)۔ ہم بیک وقت جمہوری انقلاب میں اپنی آزادانہ پوزیشن اختیار کرتے ہیں اور ساتھ ہی ریاست ہائے متحدہ سوشلسٹ یورپ کے ایک لازمی جزو کے طور پر آئبیرئین جزیرہ نما کی سوویتوں کی فیڈریشن کے خیال کی تشہیر، تجویز اور تلقین کرتے ہیں۔ صرف اسی صورت میں میرے نظریئے کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ کہنے کہ ضرورت نہیں ہے کہ میڈرڈ کے کامریڈوں کو بالخصوص اور ہسپانوی کامریڈوں کو بالعموم بلقانائزیشن کی بحث کے حوالے میں اس صوابدیدی طریقے کو استعمال کرنا چاہیے۔“ (آندرے نِن کو خط)
مارکسی بین الاقوامیت
تعصب، ہٹ دھرمی اور بہتان تراشی سٹالنسٹوں کے بنیادی خواص ہیں۔ انتہائی ڈھٹائی سے وہ ٹراٹسکی پر بیہودہ الزامات لگاتے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ گردان قارئین نے کشمیر سے لے کر کوئٹہ تک مبینہ طور پر ”پڑھے لکھے“ سٹالنسٹوں اور قوم پرستوں سے بارہا سنی ہو گی کہ ٹراٹسکی کے قومی سوال کے مرتد ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ بین الاقوامیت کی بات کرتا ہے۔ اس کا نظریہ ’مجرد‘ ہے اور وہ کسی بھی خطے یا قوم کے ٹھوس معروضی حالات کو یکسر فراموش کر دیتا ہے۔ سٹالنسٹوں کی سیاسی بددیانتی کا کھلم کھلا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب وہ ٹراٹسکی کے بین الاقوامیت کے تصور کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ ٹراٹسکی کہتا تھا کہ دنیامیں کسی ایک ملک میں انقلاب آ ہی نہیں سکتا بلکہ بیک وقت پوری دنیا میں انقلاب آنا چاہیے۔ یہ بات کسی سیاسی نظریہ دان تو کجا کسی عام سطحی ذہنیت کے حامل شخص کی فہم و فراست کے بھی منافی ہے۔ کوئی شخص جو رتی برابر بھی عقل اور شعور رکھتا ہو، وہ ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔ اور ٹراٹسکی جیسے عظیم المرتبت شخص کی طرف سے ایسی دقیانوسیت کا کوئی سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔ سٹالن چونکہ خود انتہائی اوسط ذہن کاشخص تھا، اس کے ماننے والے جہالت میں اس سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ وہ درحقیقت جدلیات کی ابجد سے اتنے نابلد ہیں کہ مجرد اور ٹھوس کے تعلق کو سمجھنے کے اہل ہی نہیں ہو سکتے۔ ٹراٹسکی عالمی معیشت کے ایک کُل کے اجزا کے طور پر قومی معیشتوں کی نسبتی خود مختاری سے ہرگز انکاری نہیں تھا مگر کُل کی فیصلہ کن برتری کو تاریخی ترقی کے منطقی لازمے کے طور پر سمجھتا تھا۔ اس کی بین الاقوامیت کوئی نیا تصور بالکل بھی نہیں ہے بلکہ مارکس، اینگلز اور لینن کے تصور کی ہی تفسیر ہے۔ بلکہ لینن نے اس موضوع پر کئی جگہ ٹراٹسکی سے بھی کہیں آگے بڑھ کر دو ٹوک اور واشگاف لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ یہ تما م اساتذہ معیشت اور سفارتکاری کی معروضی عالمگیریت سے بین الاقوامیت کے نظریئے کی لازمیت کو کشید کرتے تھے نہ کہ اس کے الٹ۔ لینن اور ٹراٹسکی نے بیسیوں بار وضاحت کی کہ قومی حدود میں مکمل سوشلزم کی تعمیر مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ یہ مارکسزم کی معراج نہیں بلکہ ابجد ہے۔ مارکسزم اپنی انتہا میں نہیں بلکہ اپنے آغاز میں بین الاقوامی ہے۔ آئیے ٹراٹسکی کو بولنے دیتے ہیں:
”وہ معاشی ترقی جس نے انسانیت کو قرونِ وسطیٰ کی محدود علاقائیت سے نکالا، قومی سرحدوں پر رک نہیں سکی۔ قومی معیشتوں کی تشکیل کے متوازی عالمی تبادلے کی بڑھوتری بھی ہوتی رہی۔ ترقی یافتہ ممالک میں ترقی کی کسی بھی شرح پر، ترقی کے اس رجحان نے اپنا اظہارکشش ثقل کے مرکز کو قومی سے بیرونی منڈی میں منتقل کرتے ہوئے کیا۔ انیسویں صدی کی تاریخ قومی مقدر کے معاشی زندگی کے ساتھ منسلک ہو جانے کی تاریخ ہے۔ لیکن ہماری صدی کا بنیادی رجحان قومی اور معاشی زندگی میں مسلسل بڑھتے ہوئے تضاد کا رجحان ہے۔۔۔الٹرا ماڈ رن معاشی قوم پرستی کی تباہی اس کے اپنے رجعتی کردار کے ہاتھوں اٹل اور ناگزیر ہے۔ یہ انسانیت کی پیداواری قوت کو کم، محدود اور ضائع کرنے کا نظریہ ہے۔“ (قوم پرستی اور معاشی زندگی)
ٹراٹسکی نے کبھی نہیں کہا کہ سوشلزم پوری دنیا میں بیک وقت آئے گا بلکہ اس کا استفسار یہ تھا کہ سوشلسٹ انقلاب کسی بھی ایک ملک سے شروع ہو سکتا ہے مگراس کی تکمیل بین الاقوامی سطح پر ہی ہو گی کیونکہ جس سرمایہ داری کو اس نے شکست دینی ہے وہ تمام تر ناہموار طرزِ ارتقا کے باوجودخود عالمی کردار اختیار کر چکی ہے، یہی نہیں بلکہ اس نظام کے بطن سے ایک عالمی مزدور تحریک کا جنم ہوا ہے جس کے پیچھے پیچھے عالمی طبقاتی شعور پروان چڑھ رہا ہے۔ کسی بھی ایک ملک کی تحریک مارکس وادیوں کی خواہش کی وجہ سے نہیں بلکہ تاریخی محرکات کے باعث دیگر ممالک تک پھیلتی چلی جاتی ہے۔ انقلابات صرف سیاسی تشکیلات کو ہی نہیں بلکہ تاریخ اور جغرافیے کو بھی بدل دیتے ہیں۔ تاریخ سے اس نظریئے کی صداقت کی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں۔ زیادہ دور نہ جایئے، گزشتہ دہائی میں عرب بہار یا امریکہ کی آکوپائی وال سٹریٹ کی تحریک کو ہی لے لیجیے۔ سٹالنسٹ تاریخ سے اب اس لیے بھی کچھ سیکھنے کے اہل نہیں رہے کیونکہ تاریخ کے کوڑے دان میں ذہنی ورزش کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ ٹراٹسکی مارکسی بین الاقوامیت کے تصور کو اس طرح پیش کرتا ہے:
”اقتدار پر پرولتاریہ کے قبضے سے انقلاب مکمل نہیں ہوتا بلکہ شروع ہوتا ہے۔ سوشلزم کی تعمیر صرف طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر قومی اور عالمی سطح پر کی جا سکتی ہے۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ رشتوں کے شدید تسلط کی کیفیات میں یہ جدوجہد ناگزیر طور پر دھماکوں یعنی داخلی طور پر خانہ جنگیوں اور خارجی طور پر انقلابی جنگوں کو جنم دیتی ہے۔ اسی میں سوشلسٹ انقلاب کا مسلسل کردار پوشیدہ ہے۔ چاہے یہ کوئی پسماندہ ملک ہو جس نے ابھی کل ہی اپنا جمہوری انقلاب مکمل کیا ہویا پھر کوئی پرانا سرمایہ دارانہ ملک ہوجس کے پیچھے جمہوریت اور پارلیمانیت کی طویل تاریخ ہو۔ قومی حدود میں سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل کو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ بورژوا سماج کے بحران کی ایک بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ اس کی اپنی تخلیق کردہ پیداواری قوتیں اب قومی ریاستی حدود سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب قو می میدان میں شروع ہوتا ہے، بین الاقوامی میدان میں آگے بڑھتاہے اور عالمی میدان میں مکمل یا کامیاب ہوتا ہے۔ اس طرح سوشلسٹ انقلاب ایک مسلسل انقلاب بن جاتا ہے۔ یہ پورے کرۂ ارض پر ایک نئے سماج کی حتمی کامیابی سے ہی مکمل ہوتا ہے۔ اوپر بیان کیا گیا عالمی انقلاب کی بڑھوتری کا خاکہ سوشلزم کے لیے بالغ یا نابالغ ممالک کا سوال ہی ختم کر دیتا ہے۔ سر مایہ داری نے عالمی منڈی، عالمی تقسیمِ محنت اور عالمی پیداواری قوتیں تخلیق کر کے عالمی معیشت کو مجموعی طور پر سوشلسٹ تبدیلی کے لیے تیار کر دیاہے۔ مختلف ممالک اس عمل میں سے مختلف رفتار سے گزریں گے۔ کچھ مخصوص حالات میں پسماندہ ممالک ترقی یافتہ ممالک سے پہلے پرولتاریہ کی آمریت تک پہنچ سکتے ہیں یا وہ ترقی یافتہ ملک کی نسبت دیر سے سوشلزم تک پہنچیں گے۔“ (مسلسل انقلاب، آخری باب)
پہلی عالمی جنگ اور چھوٹی اقوام کا سوال
پہلی عالمی جنگ ایک دیو ہیکل واقعہ تھا جس میں پہلی دفعہ اتنے وسیع پیمانے پر سر مایہ داری کے تضادات پھٹ پڑے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ دنیا بھر کے انقلابیوں کی نظریاتی سمجھ بوجھ اور طبقاتی کمٹمنٹ کا بہت بڑا امتحان بھی تھا۔ جنگ نے قومی سوال کو پوری شدت کے ساتھ عالمی سیاست کے منظرنامے پر حاوی کر دیا تھا۔ ٹراٹسکی نے ان سالوں میں لینن کے ہمراہ پوری طاقت کے ساتھ اپنے بین الاقوامیت کے تصور کی تشریح اور اس کا دفاع کیا۔ سچ پوچھیے تو یہی وہ وقت تھا کہ جب لینن اور ٹراٹسکی کی نظریاتی ہم آہنگی قطعی شکل اختیار کر گئی اور پھر وہ دو الگ جسم اور فرد ہوتے ہوئے بھی ایک ہی نظریئے کی مجسم تفسیر بن گئے۔ جو لوگ واقعی سیاسی طور پر بد دیانت نہیں ہیں اور ٹراٹسکی کے قومی سوال پر مؤقف کے حوالے سے محض کنفیوز ہیں ان کو پہلی فرصت میں ٹراٹسکی کی اس بحرانی دور کی تحریروں کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے جودکھاتی ہیں کہ کس طرح ٹراٹسکی مارکسی بین الاقوامیت کی وکالت کے فرض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مظلوم اور چھوٹی اقوام کے حقوق کی لڑائی سے کبھی ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ ایک انتہائی اہم مضمون سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”امن کا پروگرام کیا ہے؟ حکمران طبقے اور اس کی اطاعت گزار پارٹیوں کے نقطہئ نظر سے، یہ ان خواہشات کی کلیت ہے جن کی تکمیل کو فوجی طاقت کے بلبوتے پر یقینی بنایا جائے گا۔ تاہم ملیاخوف (روسی وزیرخارجہ) کے مجوزہ امن پروگرام کی رو سے استنبول کو ہر صورت میں اسلحے کے زور پر فتح کیا جانا چاہیے۔ جبکہ وینڈرویلڈ (ایک بیلجیئن سوشلسٹ) کا امن پروگرام ایک منطقی لازمے کے طور پربیلجیئم سے جرمن افواج کے انخلا سے مشروط ہے۔ ان نقطہ ہائے نظر کی رو سے امن کی دفعات محض ان فتوحات پر اخلاقی مہر ثبت کرنے کا کام کرتی ہیں جو اسلحے کی طاقت سے حاصل کی گئی ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یہ تمام امن کے پروگرام آخری تجزیئے میں جنگ کے پروگرام ہیں۔ لیکن یہ، درحقیقت، تیسری طاقت (سوشلسٹ انٹرنیشنل) کی مداخلت سے پہلے کی صورتحال ہے۔ انقلابی پرولتاریہ کے نقطہئ نظر سے امن کے پروگرام سے مراد وہ خواہشات نہیں ہیں جن کو قومی فوجی شاونزم کے ذریعے پورا کیا جائے بلکہ وہ مطالبات ہیں جنہیں پرولتاریہ تمام ممالک کے فوجی شاونزم کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد کے دم پرلاگو کرنا چاہتا ہے۔ جتنا زیادہ عالمی انقلابی تحریک بڑھتی چلی جائے گی، اتنا ہی امن کے سوال کا انحصار متحارب ریاستوں کے باہمی فوجی توازن پر کم ہوتا چلا جائے گا، ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی کم ہوتا جائے گا کہ امن کی صورتحال کو بھی عوام جنگی مقاصد کابہروپ ہی سمجھتے رہیں۔
چھوٹی قومیتوں اور کمزور ریاستوں کے سوال پر یہ امر اور بھی زیادہ وضاحت سے منکشف ہوتا ہے۔
جنگ کا آغاز بیلجیئم اور لگزمبرگ پر جرمنی کے تباہ کن حملے سے ہوا۔ اس کے فوری بعد جہاں ایک طرف جرمنی کے دشمن حکمران طبقات نے چھوٹے ملک کی پامالی پر منافقانہ اور انانیت پرستانہ واویلا کیا، وہیں دوسری طرف عوامی سطح پر ایک حقیقی غم و غصہ اور مزاحمت کی لہربھی ابھری جسے ان چھوٹی قومیتوں کی تقدیر کے عمومی سوال کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے جو اتفاقی طور پر دو جنگی طاقتوں کے مابین واقع ہونے کی وجہ سے برباد ہو جاتی ہیں۔
جنگ کے پہلے مرحلے پر اپنی غیر معمولی المیاتی صورتحال کے باعث بیلجیئم کو دنیا بھر سے توجہ اور ہمدردی ملی لیکن جنگی کارگزاری کے چونتیس ماہ نے ثابت کر دیا کہ بیلجیئم سامراجی جنگ کے بنیادی سوال کے حل کی طرف محض پہلا قدم تھا۔ اور سامراجی جنگ کا بنیادی سوال اصل میں کمزور پر طاقتور کی گرفت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
سرمایہ داری نے بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ میں بھی وہی طریقے منتقل کر دیئے ہیں جنہیں یہ اقوام کی داخلی معاشی زندگی کو متحرک رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ مسابقت کا راستہ، در حقیقت، بڑے سرمائے کے تسلط کی خاطر چھوٹی اور درمیانی کمپنیوں کے بتدریج خاتمے کا راستہ ہے۔ اسی طرح، سرمایہ دارانہ قوتوں کی عالمی مسابقت کا مطلب ہے بڑی اور وسیع الجثہ سرمایہ دارانہ طاقتوں کے آ گے چھوٹی، درمیانی اور پسماندہ اقوام کی اطاعت گزاری۔ سرمایہ داری میں تکنیک جتنی ترقی کرتی جاتی ہے، اتنا ہی مالیاتی سرمائے کا کردار بڑھتا چلا جاتا ہے اوراسی تناسب سے فوجی شاونزم کی ضرورت بھی سر اٹھاتی رہتی ہے اور اس عمل کے ناگزیر نتیجے کے طور پر چھوٹی اقوام کا بڑی اور طاقتور اقوام پر انحصار بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مذکورہ عمل اصل میں سامراجی میکانیات کا سب سے اہم لازمہ ہے جو کہ جنگ کے علاوہ امن کے ادوار میں بھی ریاستی قرضوں، ریلوے اور دیگر رعایتوں اور فوجی و سفارتی معاہدوں وغیرہ کے ذریعے بلا روک ٹوک جاری رہتا ہے۔ جنگ کھلے اشتعال کی شکل میں اس عمل کو عریاں اور تیز کر دیتی ہے۔ جنگ چھوٹی اقوام کی آزادی کی آخری رمق کو بھی تباہ کر دیتی ہے، اس بات سے قطع نظر کہ دو بنیادی مخالف کیمپوں میں سے فتح چاہے کسی کی بھی ہو۔
بیلجیئم ابھی بھی جرمن فوجی جکڑ میں بلک رہا ہے۔ یہ اس کی آزادی کے انہدام کا واضح اور خون آلوداظہار ہے۔ بیلجیئم کی آزادی اتحادی حکومتوں کے لیے ایک آزادانہ حدف نہیں ہے۔ چاہے جنگ جاری رہے یا ختم ہو جائے دونوں صورتوں میں بیلجیئم بڑی قوتوں کے مابین مہرے کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ اگر تیسری قوت (انقلاب) کی مداخلت ناکام ہوتی ہے تو یا تو بیلجیئم جرمن تسلط میں رہے گا، یا برطانوی جبرکا سامنا کرے گا یا پھر دونوں اتحادوں کے دو بڑے طاقتورڈکیت اسے آپس میں تقسیم کر لیں گے۔ یہی بات سربیا کے لیے بھی درست ہے جس کی قومی توانائی نے سامراجی دنیا میں ایک ایسے میزان کا کام دیا جس کے ایک یا دوسرے پلڑے کے جھکنے سے سربیا کے عوام کے آزادانہ مفادات کی عکاسی نہ ہونے کے برابر ہی رہ گئی ہے۔۔۔رومانیہ اور یونان کی مثالیں ہمارے سامنے مزید واضح کرتی ہیں کہ سامراجی ٹرسٹوں کی لڑائی میں چھوٹی اقوام کو دی جانے والی ’انتخاب کی آزادی‘ کی کیا اوقات ہے۔ رومانیہ نے اس انتخاب کی آزادی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی غیر جانبداریت کو قربان کر دیا جبکہ یونان نے مختلف طریقوں سے اپنی حد تک غیر متعلق رہنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اپنی بقا کے تحفظ کی غرض سے اس غیر جانبدارنظر آنے کی لایعنیت اس وقت بالکل ننگی ہو گئی جب بلغاریہ، ترکی، فرانس، برطانیہ، روس اور اٹلی کی افواج یونانی علاقے میں دندنانے لگیں۔ انتخاب کی آزادی کا بہترین عملی مظاہرہ خود کی تباہی کی صورت میں ہوا۔ آخر میں رومانیہ اور یونا ن کا مقدر ایک ہی ہے۔ وہ بڑے جواریوں کے ہاتھوں میں تاش کے پتوں کی طرح ہیں۔۔۔چاہے کوئی بھی فتح مند ہو، اور اس فتح کے کتنے ہی دور رس اثرات کیوں نہ ہوں، یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ چھوٹی اقوا م کے لیے حقیقی آزادی کی طرف واپسی ناممکن ہے۔ خود ساختہ ماہرین اور بیوقوف لوگ ہی چھوٹی اقوام کی آزادی کے سوال کو ایک یا دوسرے فریق کی فتح کے ساتھ منسلک کر سکتے ہیں۔۔۔۔بیلجیئم، سربیا، پولینڈ اور آرمینیا کی آزادی کے سوال کو ہم(گویسڈ، پلیخانوف، وینڈرویلڈ، ہینڈرسن اور دوسروں کی طرح) اتحادیوں کے جنگی پروگرام سے نتھی نہیں کرتے بلکہ ہمارے لیے یہ سامراجیت کے خلاف بین الاقوامی پرولتاریہ کی جدوجہد کا لازمی جزو ہے۔“ (لیون ٹراٹسکی، امن کا پروگرام، ریاست ہائے متحدہ سوشلسٹ یورپ)
اسی طرح جب تیس کی دہائی میں دوسری عالمی جنگ کا خطرہ امڈ رہا تھا اور چیکو سلواکیہ اور جرمنی کے مابین جنگ کے خطرات منڈلا رہے تھے تو ایک دفعہ پھر بہت سے سوشلسٹوں میں قومی شاونزم ابھرنا شروع ہو گیا تھا۔ سٹالنزم اب ایک واضح سیاسی رجحان کے طور پر نمودار ہو چکا تھا جس نے اس عمل کو مزید مہمیز دی۔ ٹراٹسکی نے ایک دفعہ پھر مارکسزم کی اساس کے لیے قلم اٹھایا:
”جرمنی اور چیکو سلواکیہ کے مابین ممکنہ جنگ کو، حتیٰ کہ اگر اس میں فوری طور پر دوسری سامراجی ریاستیں مداخلت نہ بھی کریں تب بھی ان یورپی اور عالمی سامراجی تعلقات کے بندھن سے کاٹ کر سمجھنے کی کوشش کرنا حماقت ہو گی جن تعلقات سے یہ جنگ ایک واقعے کے طور پر نمودار ہو گی۔ ایک دو ماہ کے بعد چیک جرمن جنگ میں دوسری ریاستوں کی مداخلت ناگزیر ہو گی۔ یوں ایک مارکسسٹ کے لیے یہ بہت بڑی غلطی ہو گی کہ وہ اپنامؤقف جنگ کے درپردہ سماجی محرکات کے عمومی کردار کی بجائے عارضی اور اتفاقی سفارتی اور عسکری صف بندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دے۔۔۔یہ قطعی طور پر واضح ہے کہ پرولتاریہ کواپنی پالیسی کسی بھی جنگ کے ممکنہ نتائج کے مفروضے اور قیاس آرائی کی بجائے اس جنگ میں اس وقت کے مخصوص معروضی مواداور اس مواد کو متعین کرنے والے ترقی اور ارتقا کے تسلسل کے تحت تشکیل دینی چاہیے۔ اس طرح کی قیاس آرائیوں میں ہر کوئی ناگزیر طور پر اپنی خواہشات، اپنی قومی ہمدردیوں اور نفرتوں کے زیر اثر ہی کوئی نقطہ نظر اپنائے گا۔ یہ واضح ہے کہ ایسا نقطہئ نظر مارکسی کی بجائے موضوعی اور بین الاقوامی کی بجائے شاونسٹ کردار کا حامل ہو گا۔“ (سماجی حب الوطنی کی سوفسطائیت)
حقِ خود ارادیت
جس سوال پر قوم پرستوں اور سٹالنسٹوں کے مابین تمام تر سیاسی امتیاز ختم ہو جاتا ہے وہ حقِ خود ارادیت کا سوال ہے۔ دونوں ٹراٹسکی کو بہت کوستے ہیں کہ وہ حقِ خود ارادیت یا علیحدگی کا منکر یا مخالف تھا۔ اس کے بالکل برعکس وہ لینن کی طرح حقِ خود ارادیت کا بہت بڑا وکیل تھا لیکن مارکسزم کے یہ دونوں سرخیل ہمیشہ اس حق کے عالمی مزدور تحریک کے ساتھ اٹوٹ رشتے پر زور دیتے تھے۔ تیس کی دہائی میں جنوبی افریقہ کی ورکرز پارٹی کی قیادت ٹراٹسکائیٹس کے پاس تھی۔ جنوبی افریقہ میں برطانوی سامراج سے آزادی کے ساتھ ساتھ بلیک ریپبلک کا سوال بھی پوری شدت سے ابھر رہا تھا۔ اس موضوع پرورکرز پارٹی کے اندر گرما گرم بحثیں چل رہی تھیں۔ پارٹی کی قیادت نے اس اہم سیاسی سوال پر اپنے سیاسی مؤقف کو ایک تھیسز کی شکل میں مرتب کیا اور اسے منظوری کے لیے ٹراٹسکی کو ایک خط کی شکل میں ارسال کر دیا۔ اس خط کے جواب میں ٹراٹسکی نے اس سوال پر اپنا تفصیلی نقطہ نظر پیش کیا جوکچھ یوں ہے:
”تھیسز میں جہاں کہا گیا ہے کہ ’بلیک ریپبلک‘کا نعرہ بھی انقلابی مقصد کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا کہ ’جنوبی افریقہ فار دی وائٹس‘، ہم اس بیان کی ساخت سے کسی صورت متفق نہیں ہو سکتے کیونکہ آخرالذکرنعرہ مکمل جبر کی دو ٹوک حمایت کرتا ہے جبکہ اول الذکر حقیقی آزادی کی طرف پہلے مرحلے کا علمبردار ہے۔ ہمیں مکمل ہوش و حواس میں اور بغیر کسی قسم کے تحفظات کے سیاہ فاموں کی غیر مشروط آزادی کے حق کی حمایت کرنی چاہیے۔ صرف اور صرف استحصالی گوروں کے جبر کے خلاف مشترکہ جدوجہدسے ہی سفید اور سیاہ فام مظلوموں کا اتحاد مضبوط ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ فتح کے بعد سیاہ فام جنوبی افریقہ میں اپنی الگ جمہوریہ کی تشکیل کو غیر ضروری سمجھیں، ظاہر ہے کہ ہم انہیں الگ ریاست کی تشکیل کے لیے مجبور نہیں کریں گے لیکن یہ فیصلہ بہرحال انہیں خود کرنے کی مکمل آزادی ہو گی اور وہ یہ فیصلہ استحصالی گوروں کی لاٹھی کے زیراثر نہیں بلکہ اپنے تجربات کی روشنی میں کریں گے۔ پرولتاری انقلابیوں کو کسی صورت بھی مظلوم اقوام کے حقِ خود ارادیت کو بشمول مکمل علیحدگی کے حق کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اور انہیں ظالم قومیت کے پرولتاریہ کے اس فرض کو بھی پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے کہ انہوں نے ہر قیمت پر مظلوم اقوام کے اس حق کا دفاع کرنا ہے چاہیے اس کے لیے انہیں ضرورت پڑنے پر ہتھیار ہی کیوں نہ اٹھانے پڑیں۔تھیسز میں بالکل درست تحریر ہے کہ روس میں قومی سوال کو اکتوبر انقلاب نے ہی حل کیا تھا۔ قومی جمہوری تحریکیں اپنے بلبوتے پر زار روس کے قومی جبر سے آزاد ہونے کی اہل نہیں تھیں۔ صرف اس وجہ سے کہ مظلوم اقوام اور کسانوں کی زرعی تحریکوں نے پرولتاریہ کو مواقع فراہم کیے کہ وہ اپنی آمریت نافذ کر سکیں، قومی اور زرعی مسئلے دونوں فیصلہ کن اور دلیرانہ انداز میں حل ہوئے۔ لیکن قومی تحریکوں اور پرولتاریہ کی جدوجہد کا سنگم صرف اسی باعث ممکن ہو سکا تھا کہ بالشویکوں نے اپنی ساری تاریخ میں ظالم روسیوں کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کی تھی اور مظلوم اقوام کے حقِ خود ارادیت کا بشمول علیحدگی کے حق کا جرأت سے دفاع کیا تھا۔“ (زرعی اور قومی سوال، ورکرز پارٹی آف ساؤتھ افریقہ کے مجوزہ تھیسز پر ریمارکس)
ٹراٹسکی نے جہاں ایک طرف ہمیشہ اور ہر قیمت پر مظلوم اقوام کے حقِ خود ارادیت کا دفاع کیا وہیں اس نے مظلوم اور ظالم اقوام دونوں کی بورژوازی کے اس اہم مدعے پر منافقانہ اورموقع پرستانہ رویے کو بھی پوری جرأت اور دیانتداری سے بے نقاب کیا۔ مثال کے طور پر پہلی عالمی جنگ کے دوران سو یٹزر لینڈ کے شہر لوزین میں چھوٹی اورمظلوم اقوام کی ایک کانگریس منعقد کی گئی جس میں تئیس مظلوم قومیتوں کے مندوبین نے شرکت کی جن میں روس کے فنز، پولز، جارجیئنز، یوکرائینی، لیٹویئن، لتھوائنی سمیت تقریبا تمام محکوم اقوام شامل تھیں، روسی اقوام کے علاوہ کانگریس میں آئر لینڈ، البانیہ، مصر اور تیونس کے نمائندے بھی موجود تھے اور یہودیوں کو بھی بطور قوم کے نمائندگی دی گئی تھی۔ کانگریس میں تمام اقوام کے حقِ خود ارادیت کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی۔ ٹراٹسکی نے اس کانگریس کا خیر مقدم کیااور اس کانگریس کی طرف اتحادی ممالک کے حکمران طبقے کی منافقانہ پالیسی کی شدید مذمت کی۔ اس وقت سارا مغربی بورژوا میڈیا عام طور پر اتحادی ممالک کی مشہورزمانہ ’قومی اصول‘کی پالیسی کے گن گا رہا تھا۔ اس پالیسی کا بظاہر لب لبا ب یہ بتایا جاتا تھا کہ اتحادی، در حقیقت، تمام اقوام کی آزادی کی خاطر عالمی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اسی منافقانہ پالیسی کے تسلسل میں لوزین کانگریس کی حمایت کا ناٹک بھی کیامگر حقِ خود ارادیت کی اصل روح کو یکسر مسخ کرنے کی کوشش کی۔ ٹراٹسکی نے ان سامراجیوں کے جمہوری کھلواڑ کا پردہ فاش کرنے کے لیے ضروری اور اہم مضامین تحریر کیے۔ ”دی نیشنل پرنسپل“ کے عنوان سے لکھے گئے ایک مضمون میں ٹراٹسکی نے ایک فرانسیسی اخبار ”دی سپارک“ جسے فرانس کی ترقی پسند بورژوازی کا نمائندہ اخبار سمجھا جاتا تھااور جس میں ٹراٹسکی کے بقول فرانسیسی بورژوازی کی خواہشات کے برعکس کبھی کبھار سچائی کا کوئی پہلو برآمد ہو ہی جاتا تھا، سے لوزین کانگریس میں حق خود ارادیت کے حق میں پاس ہونے والی قرارداد کے بارے میں لکھی گئیں چند سطور نقل کیں جن میں درج تھا کہ:
”اس پروگرام پر عملدرآمد میں عملی مشکلات یہ ہیں کہ ہر کوئی اپنے دشمنوں کی قومی اقلیتوں کے حقِ آزادی کو تو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے مگر اپنی اور اپنے اتحادیوں کی محکوم اقوام کے حقوق پر بات کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں، مثال کے طور پر اگر جرمنی کے مخالف سامراجی اتحاد کی بات کی جائے تو وہ جرمنی اور آسٹریا کے زیر تسلط غیر جر من اقوام کی آزادی کا مطالبہ تو کررہے ہیں، اسی طرح ترکی کے قبضے میں موجود غیر ترک نسلی گروہوں کی آزادی کے حق کو تو تسلیم کر رہے ہیں مگر وہ اپنے اتحادی روس کے اپنی مظلوم اقوام کی طرف رویئے پر بات کرنے کو تیار نہیں“۔
ٹراٹسکی اپنی بات جاری رکھتا ہے کہ:
”لوزین کانگریس میں کرغز بھی شامل تھے جو زار کے تسلط کی شکایت کرنے کے لیے وہاں موجود تھے، اس پر روسی سوشلسٹ، روسی انقلابی اور روسی تارکین وطن کیا کہیں گے جو اس کانگریس سے قبل تک جناب سازونوف (روسی وزیر خارجہ)کے اس مؤقف کے ہمنوا بنے ہوئے تھے کہ روس اس جنگ میں آزادی کے مقصد کے لیے شامل ہوا ہے۔ ہم ان لوگوں سے بین الاقوامیت پسندی کا مطالبہ ہرگز نہیں کریں گے لیکن اگر یہ خود کو محب وطن ڈیموکریٹ بھی قرار دیتے ہیں تب بھی انہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تھا۔ شرمندگی سے بچنے کے لیے یہ ہمیشہ اتحادیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بے شرمی سے کہتے ہیں کہ ہاں روس ایک جابر ملک ہے مگر مغربی جمہوریتوں کے تعاون سے فتح کے ذریعے روس وہ تمام داخلی اور خارجی معجزے سر انجام دے گا جو جر منی نے ہر صورت میں شکست کے بعد سرانجام دینے ہیں۔ لیکن اس مدعے پر اتحادیوں کی حقیقت حقارت آمیز ہے۔ مشرق بعید کو تو رہنے ہی دیں جہاں روس نے جاپان کے ساتھ مل کر چین کی پشت پر آنے والی دہائیوں میں ’قومی اصول‘کے تازیانے برسانے ہیں۔ یہ نصف ارب کے قریب چینی باشندوں کے بارے میں سوچنے کا وقت ہے جبکہ پلیخانوف اور کروپوٹکن جرمنی کی معمولی سی ریاست شلیس وِگ۔ہولسٹائن کی آزادی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ چلیں ہم اپنے آپ کو مغربی جمہوریتوں تک محدود کر لیتے ہیں۔ لیکن کیا ہمیں آئرش لوگوں کی بات بھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ برطانیہ عظمیٰ کتنی سخاوت اور کشادہ دلی سے ڈبلن میں اپنا مقدس قانو ن لاگو کیے ہوئے ہے۔ تاہم کونولی اور دیگر باغی، جن کو سولی پر لٹکایا گیا یا گولی مار دی گئی، وہ کبھی بھی ایک آئرش پارلیمان سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے، کیونکہ آزادی کی راہ میں شہید ہوچکنے کے بعد و ہ ابھی زیرزمین حشرات کی پارلیمان سے محظوظ ہو رہے ہوں گے۔ چلو آئرلینڈ کو بھی چھوڑ دیتے ہیں بلکہ سارے برطانیہ کو ہی رہنے دیں، فرانس کی کیا صورتحال ہے؟ فرانس اور برطانیہ جیسی سامراجی قوتو ں کے لیے ’مقامی‘لوگوں کا سوال بہت اہم ہے۔ لوزین کانگریس کی قرارداد انسانی نسلوں کی ’اعلیٰ‘اور’ادنیٰ‘میں تقسیم کو قبول نہیں کرتی جبکہ یہ سامراجی اسی فلسفے کے تحت کالونیوں پر مسلط ہیں۔ دی سپارک اخبار اسی کانگریس میں الجزائر کے باشندوں کو متعلقہ اداروں میں سنجیدہ نمائندگی دیئے جانے کے مطالبے پر مبنی بل کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے مگر عین اسی وقت جب یہ سیشن جاری تھافرانس کے زیر تسلط مشرق بعید میں چین و ہندکی سرزمین پر ایک واقعہ پیش آیا جو قومی اصول کے حوالے سے شاید زیادہ حوصلہ افزانہیں ہے۔ پانچ لاکھ سے زائد آبادی والی فرانسیسی نو آبادی اینم (ویتنام کے ایک علاقے کا پرانا نام) میں قومی آزادی کے جھنڈے تلے ایک بغاوت شروع ہو گئی۔ اینم کا نوجوان بادشاہ دوئی تان، جو کہ فرانسیسیوں کا محض مقامی دم چھلہ ہی تھا، اپنی رعایا کی قومی انقلابی تنظیم کے ساتھ رابطے میں آ گیا۔ ان کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں وہ اپنے محل سے فرار ہو کر کسی گاؤں میں منتقل ہو گیا اور اس نے قوم سے ایک انقلابی اپیل کرتے ہوئے اینم کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ مگر (فرانس کی) تیسری جمہوریہ کی حکومت نے جلد ہی صورتحال قابو میں کر لی۔ باغی کو پکڑ لیا گیا، اسے ان کے دارالخلافہ لایا گیا اور ایک قلعے میں قید کر دیا گیاجہاں اب اسے گھٹیا بورژوا اخبارات پڑھنے (اگرفراہم کیے گئے) اور انسانی حقوق کے ڈیکلیریشن کو حفظ کرنے کے لیے کافی فرصت میسر ہو گی۔“
اس کے ساتھ ساتھ ٹراٹسکی نے ہمیشہ مظلوم اقوام کے حریت پسندوں کو خبردار بھی کیا کہ سامراجی ان کی تحریکوں کو کیسے اپنے وحشیانہ عزائم اور دنیا کے وسائل کی آپسی بندر بانٹ یا تقسیمِ نو کے لیے استعمال کر تے ہیں۔ معروضی حقائق پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے محض آزادی آزادی چلانے یا حقِ خود ارادیت کا ورد کرنے سے آزادی کی منزل قریب آنے کی بجائے اور دور چلی جاتی ہے۔ ٹراٹسکی عالمی جنگ کے ایک انتہائی اہم واقعے سے اس مسئلے کی اہمیت کو ان الفاظ میں اجاگر کرتا ہے:
”اتحادیوں نے آسٹرو ہنگری کے ایڈریاٹک ساحل پر دلماتیہ کے مقام پر آسٹروی بادشاہت میں جنوبی سلاویہ کے صوبے میں ہونے والی بغاوت کو کمک فراہم کرنے کے لیے پڑاؤ کیا ہوا تھا۔ اس مقصد کے لیے فرانسیسی جہازوں کے پاس سربیئن پریس کا بہت بڑا ذخیرہ تھا تاکہ انقلابی مواد شائع کیا جا سکے اوراس کام کے لیے انہوں نے جوشیلے سرب نوجوان رکھے ہوئے تھے جو یہ مواد لکھتے اور چھاپتے تھے تاکہ قومی آزادی کے حصول کی غرض سے عوامی بغاوت کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ان کو مترجم کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ چونکہ فرانسیسی جہازوں پر موجود یہ سربیئن انقلابی بے پناہ جوشیلے اور جذباتی تھے، اس لئے ان کی نگرانی کرنے کے لیے ایک بوڑھا سربیئن جاسوس بھی موجود ہوتا تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ دانشمندانہ اقدام پیرس میں قائم روسی سفارتخانہ کی سرکاری مشاورت کا نتیجہ ہو، کیونکہ اپنے تجربے کی بدولت روسیوں کو اس کام میں اتحادیوں پر سبقت حاصل ہے۔ لیکن یہ ساری کاوشیں بے سود گئیں۔ فرانسیسی جہازایڈریاٹک سے پہلے پولا اور پھر گھر لوٹ گئے۔ لیکن کیوں؟ فرانسیسی صحافتی اور سیاسی حلقے پہلے ہی اس کی وضاحت دے چکے ہیں کہ اٹلی اس آپریشن کے خلاف تھا۔ آسٹرو ہنگری کے جنوبی صوبوں میں اگر کوئی بغاوت ہوتی تو وہ صرف جنوبی سلاویہ کے قومی اتحاد کے نعرے کے گرد ہی ممکن تھی۔ جبکہ اٹلی دلماتیہ کو قانونی حق کے تحت اپنا حصہ سمجھتا ہے، ظاہر ہے کہ اپنی سامراجی ہوس کے قانون کے تحت۔ اسی لیے اٹلی نے فرانس کی متوقع مہم جوئی کے خلاف احتجاج کیا۔ اس وقت فرانس کے لیے جنگ میں اٹلی کی مفیدوقتی غیر جانبداری اور بعد ازاں عملی حصہ داری کی قیمت چکانا ضروری ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فرانسیسی جہاز غیر متوقع طور پر سرب مترجموں کے ساتھ واپس لوٹ گئے۔ بعد میں ایک سرب انقلابی نوجوان سے میری ملاقات ہوئی، اس نے مجھ سے کہا کہ ’اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اتحادیوں نے بغیر کوئی تقریب منعقد کیے سربوں کو اٹلی کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ اب چھوٹی قوموں کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کہاں ہے؟ اور پھر ہم سرب کس کے لیے مر رہے ہیں؟ میں نے اپنی رضاکارانہ خدمات دلماتیہ کی اٹلی کو منتقلی کے لیے نہیں دی تھیں۔ اور سراجیو ومیں میرے دوسرے دوستوں نے کیا اسی لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے؟“ (چھوٹی قوموں کا دفاع، بڑا جھوٹ)۔
تاریخ میں زیادہ د ور جانے کی ضرورت نہیں، ابھی حال ہی میں ہم نے امریکہ کو ترکی سے کرد مزاحمتی تحریک کا سودا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ پاکستان میں ہی دیکھ لیں، ساری مظلوم اقوا م کی تحریکوں کو جو نام نہاد عالمی برادری یا سامراجی اداروں سے جو حمایت ملتی ہے، اس کی وجہ ان کی انسا نی ہمدردی نہیں ہوتی بلکہ یہ سامراجی خطے میں بین الاقوامی تعلقات کے توازن کو اپنے حق میں رکھنے کے لیے یا یوں کہہ لیں کہ مناسب وقت پر سودے بازی کے لیے خود کو تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سامراجی مظلوم اقوا م کے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ مظلوم اقوا م کا ہمدرد، دوست اور نجات دہندہ عالمی پرولتاریہ کے علاوہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
نو آبادیات کا سوال
آج کل نو آبادیات کے سوال پر بھی بہت شور مچایا جاتا ہے اور اس شور نے اب کئی دہائیوں سے ایک باقاعدہ نظریاتی ڈسپلن کی شکل اختیار کر لی ہے، جسے پوسٹ کلونیل ازم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں ہمارے پاس وقت اور جگہ نہیں کہ اس مبینہ نظریئے کی مکمل جانچ پھٹک کی جا سکے۔ تاہم اس حوالے سے بس یہی کہے دیتے ہیں کہ اس نظریئے کا بنیادی لب لباب بھی ایک مخصوص طریقے سے مارکسزم کو غلط ثابت کرنا یا اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا ہی ہے۔ اس نظریئے کے پرچارکوں کا مدعا یہ ہے کہ مارکسزم ایک یوروسنٹرک نظریہ ہے۔ اور سابقہ نوآبادیاتی ممالک کے سیاسی مسائل کا اول تو اس میں کوئی حل موجود ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو اسے یہاں کے مخصوص مادی حالات کے مطابق ”ڈھال“ کر ہی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ دوسرے معنوں میں ترقی یافتہ دنیا کا مارکسزم الگ ہے اور سابقہ نوآبادیاتی ممالک کا مارکسزم الگ یا اگر الگ نہیں ہے تو اسے الگ ہونا چاہیے۔ یہ انتہائی غیر سائنسی اور موضوعی اپروچ ہے۔ اس نظریئے کے مقامی متاثرین اکثر ہم مارکس وادیوں سے یہ شکایت کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ آپ لوگ دنیا جہان کی باتیں کرتے ہیں مگر ہمارے علاقائی یا صوبائی مسائل کو فراموش کر دیتے ہیں۔ ایسا ہرگزنہیں ہے۔ ہم مارکس وادی مقامی آبادی کے اپنے مسائل کے حل کے لیے ہر تحرک کا حصہ بننا ضروری سمجھتے ہیں، تاہم، ہم کسی بھی خطے کے مسائل کو عالمی سیاست، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات سے کاٹ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ میکانکی طریقہ کار بالآخر اصلاح پسندی کی طرف ہی لے جاتا ہے۔ ہمارے سٹالنسٹوں کو اپنے جینیاتی خبط کی وجہ سے پوسٹ کلونیل ازم میں بہت کشش محسوس ہوتی ہے اور ایسے ہی این جی اوٹک لیفٹ بھی جہاں ایک طرف ”نئے مارکسزم“ کی تلاش میں رہتا ہے وہیں ”مقامی مارکسزم“ کی ترویج کے لیے بھی سر توڑ کوششوں میں لگا رہتا ہے۔ اور یہ سب عناصر مل کر ہم ٹراٹسکائیٹس پر مارکسی ملاں اور فرقہ پرور ہونے کے فتوے لگاتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مارکسی اساتذہ کے ہاں نوآبادیات کے معاملے پر بیش بہا قیمتی خزانہ موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے دنیا کے ہر خطے کے ہر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کا احاطہ نہیں کیااور نہ ہی ان کے لیے ایسا کرنا ممکن تھا مگر انہوں نے اپنے تجزیئے اور تناظر میں جو میتھڈ وضع کیا ہے وہ آج بھی دنیا کے تمام خطوں کے مختلف اور مخصوص مسائل کی تفہیم اور حل کے لیے مفید، قابل استعمال اور واحد تریاق ہے۔
ٹراٹسکی جنوبی افریقہ کے معاملے پر رقمطراز ہوتاہے:
”جنوبی افریقہ پر برطانوی تسلط صرف مقامی گوروں کی اقلیت کے نقطہ نظر سے ڈومینیئن (نیم خودمختاری) ہے۔ سیاہ فاموں کی بھاری اکثریت کے لیے یہ سیدھی سیدھی غلام نوآبادیات ہے۔ جنوبی افریقن ڈومینین میں برطانوی سامراج کے رہتے کسی سماجی انقلابی تبدیلی یعنی زرعی انقلاب وغیرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جنوبی افریقہ میں برطانوی سامراج کی شکست جنوبی افریقہ میں سوشلزم کی فتح کے لیے اتنی ہی ضروری اور ناگزیر ہے جتنا کہ برطانیہ کے اپنے اندر سوشلزم کی فتح کے لیے۔ اگر، جیسا کہ یہ سوچناممکن ہے کہ انقلاب پہلے برطانیہ میں شروع ہو، تو اس صورت میں برطانوی سامراجیوں کو اپنی نو آبادیات اور ڈومینینوں میں سے جتنی کم حمایت ملے گی، گھر میں ان کی شکست اتنی ہی جلدی پایہئ تکمیل کو پہنچے گی۔ برطانوی سامراج کے انخلا کے لیے جدوجہد، اس کے اوزار اور ایجنٹس کو اسی وجہ سے جنوبی افریقہ کے پرولتاریہ کی پارٹی کے پروگرام کا ناگزیر حصہ ہوناچاہیے۔ جنوبی افریقہ سے برطانوی انخلا برطانیہ کی فوجی شکست اور سلطنت کی تقسیم کی صورت میں بھی ممکن ہے۔ اس صورت میں مقامی گورے کچھ وقت کے لیے سیاہ فام اکثریت پر اپنی برتری برقرار رکھ سکیں گے۔ برطانوی انخلا کی دوسری صورت بھی ممکن ہے جو کسی حد تک پہلی سے منسلک بھی ہے اور وہ برطانیہ اور اس کی نو آبادیات میں انقلاب کی صورت ہے۔ جنوبی افریقہ کی تین چوتھائی یعنی اسی لاکھ میں سے ساٹھ لاکھ آبادی غیر یورپیوں پر مشتمل ہے۔ مقامی باشندوں کے سماجی ابھار کے بغیر ایک فتح مند انقلاب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے انہیں وہ میسر ہو گا جس سے وہ ابھی تک محروم ہیں، اپنی طاقت پر اعتماد، شعور کی بلندی اور ثقافتی ترقی۔ ان حالات میں جنوبی افریقہ کی جمہوریہ سب سے پہلے ایک بلیک جمہوریہ کے طور پر ابھرسکتی ہے، اس میں ظاہرہے کہ گوروں کے لیے مکمل برابری یانسلی ہم آہنگی کی شرط موجود ہو گی جس کا انحصار مقامی گوروں کے رویے پرہو گا۔ یہ بہرحال واضح ہے کہ انقلاب کے بعد قائم ہونے والی ریاست پر غلامانہ تاریخی انحصار سے آزاد ہونے والی آبادی کی بھاری اکثریت اپنے نقش ضرور ثبت کرے گی۔ مختصر یہ کہ جنوبی افریقہ کا فتح مند انقلاب جہاں طبقات کے باہمی رشتے کو معیاری طور پر بدل دے گا وہیں وہ نسلوں کے باہمی تعلقات کو بھی الٹ دے گااور سیاہ فاموں کو ریاستی طاقت میں ان کی آبادی کے مطابق مقام عطا کرے گا، اس حوالے سے جنوبی افریقہ کے سماجی انقلاب کا کردار کسی حد تک قومی بھی ہوگا۔ ہمارے پاس حقیقت کے اس رخ سے چشم پوشی کرنے یا اس کی اہمیت کو جھٹلانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ اس کے بالکل الٹ پرولتاری پارٹی کو زبانی و عملی دونوں سطح پر قومی مسئلے کے حل کی ذمہ داری کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ یہ بات اپنی جگہ الگ اور اہم ہے کہ پرولتاریہ کی پارٹی اس معاملے کو اپنے مخصوص طریقوں سے ہی حل کرے گی۔ قومی آزادی کا تاریخی اوزار صرف اور صرف طبقاتی جدوجہد ہی ہو سکتا ہے۔ کومنٹرن نے 1924ء کے بعد سے بدقسمتی سے نوآبادیاتی عوام کی قومی آزادی کے سوال کو ایک خالی خولی تجرید میں تبدیل کر دیا ہے جس کو طبقاتی تعلقات کی معروضی حقیقت سے ماورا گردانا جاتا ہے“۔
ٹراٹسکی اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں بات جاری رکھتا ہے کہ سٹالنسٹ یوٹوپیا کے مطابق:
”قومی جبر کے خلاف جدوجہد میں مختلف طبقات عارضی طور پر خود کومادی طبقاتی مفاد سے آزاد کرکے ایک سامراج مخالف قوت بن جاتے ہیں اورپھر یہ ’روحانی‘ قوت بہت بہادری سے وہ فرائض سر انجام دیتی ہے جو کومنٹرن انہیں تفویض کرتا ہے اور بدلے میں ان سے ایک روحانی قومی جمہوری ریاست کی تشکیل کا وعدہ کیا جاتا ہے اور اس وعدے کے ساتھ لینن کے ’پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت‘کا حوالہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔“ (زرعی اور قومی سوال، ورکرز پارٹی آف ساؤتھ افریقہ کے مجوزہ تھیسز پر ریمارکس)
ہندوستان ایک اور اہم برطانوی نو آبادی تھا۔ ٹراٹسکی نے ہندوستانی محنت کشوں کے نام ایک کھلا خط لکھاجس میں وہ کہتا ہے کہ:
”ہندوستان صرف جمہوریت ہی سے محروم نہیں ہے بلکہ قومی آزادی کے بنیادی حق سے بھی محروم ہے۔ سامراجی جمہوریت اصل میں غلاموں کے مالکان کی جمہوریت ہے جو نو آبادیات کے خون پر پلتی ہے۔ لیکن ہندوستان کو اپنی جمہوریت چاہیے نہ کہ وہ غلاموں کے مالکان کے لیے فرٹیلائزر کی خدمات سر انجام دے۔ وہ جو فاشزم، رجعت اور جبر کی ہر شکل کو ختم کرنا چاہتے ہیں انہیں ہر صورت میں سامراجیت کے خاتمے کے لیے لڑنا ہو گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ لیکن یہ ہدف پر امن طریقوں، مذاکرات اورفریادوں یا وعدوں سے حاصل نہیں ہو گا۔ آج تک تاریخ میں کبھی مالکوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے غلاموں کو آزاد نہیں کیا۔ صرف ہندوستانی عوام کی اپنی معاشی اور قومی آزادی کے لیے جرأت مند اور پر عزم جدوجہد ہی ہندوستان کو آزاد کرا سکتی ہے۔ ہندوستانی بورژوازی ایک انقلابی جدوجہد کی قیادت کی اہل نہیں ہے۔ وہ برطانوی سامراجیوں سے بندھے ہوئے ہیں اور ان پر انحصار کرتے ہیں۔ انہیں خود اپنی جائیدادوں کے چھن جانے کے خطرات لاحق ہیں۔ وہ خود عوام سے خوفزدہ ہیں۔ وہ سامراجیوں سے سمجھوتہ چاہتے ہیں انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہندوستانی عوام کی اوپر سے اصلاحات کی توقعات کیا ہیں۔ اس بورژوازی کا لیڈر اور پیغمبر گاندھی ہے۔ جو کہ ایک جعلی لیڈر ہے اور جھوٹا پیغمبر ہے۔ گاندھی اور اس کے ساتھیوں کا نظریہ یہ ہے کہ ہندوستان کے حالات بتدریج بہتر ہوں گے، کہ اس کی آزادیاں مسلسل بڑھتی رہیں گی اور بالآخر پر امن طریقے سے ہندوستان ڈومینیئن سٹیٹس حاصل کر لے گا۔ اور بعد میں شاید مکمل آزادی بھی۔ یہ ساراتناظر شروع سے آخر تک غلط ہے۔“ (ہندوستان کے محنت کشوں کے نام کھلا خط)
قوم پرستی اور کمیونسٹ تحریک
مذکورہ بالا تما م بحث کے بعد سب سے اہم سوال یہ بچتا ہے کہ کمیونسٹ تحریک کا مختلف الانواع کے قوم پرستوں کی طرف کیا رویہ ہونا چاہیے۔ اس اہم سوال پر بھی ہم خود کچھ کہنے کی بجائے ٹراٹسکی کے الفاظ ہی نقل کرنا پسند کریں گے تاکہ اس موضوع پر بحیثیت مجموعی ٹراٹسکی کے نقطہئ نظر کو ایک کُل کے طور پر سمجھا جا سکے۔ تیس کی دہائی میں جب سپین انقلاب کے شعلوں کی لپیٹ میں تھا تو اس وقت بھی سپین میں کیٹالونیا کی قومی آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔ ہسپانوی کامریڈ اس تحریک کی پیٹی بورژوا قوم پرست قیادت کے ساتھ اپنے تعلق کے حوالے سے متذبذب ہوئے تو ٹراٹسکی نے ان کی مندرجہ ذیل الفاظ میں رہنمائی کی:
”مزدوروں اور کسانوں کے بلاک کے لیڈر مورین نے کچھ ہچکچاہٹ کے بعدخود کو پیٹی بورژوا قوم پرستوں کے بائیں بازو میں شامل کر لیا ہے اور اب وہ مکمل علیحدگی کے خیالات رکھتا ہے۔ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ موجودہ مرحلے پر کیٹالونیا کی پیٹی بورژوا قوم پرستی ترقی پسندانہ کردار کی حامل ہے۔ لیکن اس کی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ یہ اپنی تمام سرگرمی کمیونسٹوں کی صفوں کے باہر جاری رکھے اوراس پر کمیو نسٹوں کی طرف سے مسلسل تنقید جاری رہے۔ پیٹی بورژوا قوم پرستی کو یہ اجازت دینا کہ وہ کمیونسٹ ماسک پہن کر سرگرم رہے، نہ صرف پرولتاری قیادت کے لیے ناقابل اعتبار، پر فریب اور تباہ کن ہو گابلکہ بیک وقت یہ پیٹی بورژوا قوم پرستی کی ترقی پسندانہ افادیت کا بھی قلع قمع کر دے گا۔“ (کیٹالونیا میں قومی سوال)
ایک اور اہم تحریر سے چند سطور ملاحظہ کریں:
”یہ تسلیم شدہ ہے کہ اس امر میں کوئی برائی نہیں کہ کچھ مایوس قوم پرست اب پیٹی بورژوا شاونزم سے نکل کر کمیونسٹ پارٹی کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ مختلف عناصر کمیونزم کی طرف مختلف راستوں سے ہو کر آتے ہیں۔ مخلص اور دیانتدار عناصر کے ساتھ ساتھ عادی کیریئراسٹ اور ناکام بے اصول لوگ بھی وائٹ گارڈز اور بلیک ہنڈرڈز کی ان پرتوں میں بلاشبہ شامل ہیں جو اب کمیونزم کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ پارٹی یقینی طور پر فاشسٹ کیمپ کی حوصلہ شکنی کی غرض سے ان افراد کی نظریاتی اچھل کود کو تنظیمی مضبوطی کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ سٹالنسٹ افسرشاہی کا تاہم واضح اور دو ٹوک جرم یہ ہے کہ انہوں نے پارٹی کے استحکام کی بنیاد انہی عناصر کو بنا لیا ہے، ان کی آواز کو پارٹی کی آواز قرار دے دیا ہے اور ان کے قوم پرستانہ اور مہم جویانہ خیالات کو ایکسپوز کرنے کا خیال ہی ترک کر دیا ہے۔“ (قومی کمیونزم کے خلاف)
سٹالنسٹوں کا تو خیر ہمیشہ یہی وطیرہ رہا ہے مگر بدقسمتی سے بہت سے نام نہاد ٹراٹسکائیٹ گروپ بھی عددی اہداف کو جلد از جلد حاصل کرنے کے لیے اسی سہل راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ سب سیاسی طور پر متحرک لوگوں، گروپوں یا تنظیموں کو اپنے ساتھ ملا لینے کو ہی مارکسی لائحہ عمل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ مارکسی لائحہ عمل اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے جس میں اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ زیادہ سے زیادہ سیاسی طور پر متحرک لوگوں تک رسائی کے لیے لائحہ عمل میں لچک ناگزیر ہوتی ہے مگر بس یہیں تک۔ اس سے آگے ان سیاسی طور پر متحرک ہراول پرتوں یا افراد کو مارکسزم کے دو ٹوک سائنسی پروگرام پر جیت کر ہی انقلابی قوتیں تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ خاص طورپر قوم پرستوں کو جتنی بھی نظریاتی یا سیاسی چھوٹ دی جاتی ہے، ان کی ہٹ دھرمی، تنگ نظری اور موقع پرستی اتنی ہی مضر اور مہلک ہوتی چلی جاتی ہے جس کا منطقی نتیجہ انقلابی تنظیموں کی شکست و ریخت کی صورت میں ہی برآمد ہوتا ہے۔ ہم اس موضوع پر ٹراٹسکی کی شاہکار تصنیف ”انقلابِ روس کی تاریخ“ کے ان زندہ و تابندہ الفاظ پر اس بحث کو ختم کرتے ہیں:
”پارٹی کے فریم ورک میں بالخصوص اور مزدور تنظیموں میں بالعموم، بالشوازم نے محنت کشوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے یا ان کی ایکتا کو نقصان پہنچانے والے قوم پرستی کے ہر رجحان کے خلاف ناقابل تعطل تسلسل کے ساتھ ہمیشہ سخت گیر مرکزیت پر زور دیا۔ بورژوا ریاست کے کسی قومی اقلیت پر جبری شہریت یا ریاستی زبان مسلط کرنے کے حق کی تردیدکرتے ہوئے بالشوازم نے بیک وقت اسے اپنا مقدس فریضہ بنا لیا کہ وہ جتنا ممکن ہو سکے رضاکارانہ طبقاتی ڈسپلن کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف اقوام کے محنت کشوں کوزیادہ سے زیادہ متحد کرے۔ اسی لیے اس نے پارٹی کی تعمیر میں قومی وفاقیت کے اصول کو دو ٹوک انداز میں مسترد کر دیا۔ انقلابی تنظیم مستقبل کی ریاست کا پروٹوٹائپ نہیں ہوتی بلکہ اس کی تخلیق کا محض ایک اوزار ہوتی ہے۔ ایک اوزار کو اپنی پروڈکٹ کی تخلیق اور تشکیل کے لوازمات کے مطابق ضرور ڈھلنا چاہیے لیکن اس میں پروڈکٹ کی شمولیت نہیں ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرکزیت مائل تنظیم جدوجہد کی کامیابی کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے حتیٰ کہ وہا ں بھی جہاں حتمی ہدف اقوام پر ہونے والے مرکزی جبر کا خاتمہ ہو۔“