|تحریر: لینن، ترجمہ: صبغت وائیں |
یہ 1908ء میں فلسفے پر لکھی گئی لینن کی معروف تصنیف ”مادیت پسندی اور تجربی تنقید“ کا ایک اقتباس ہے جس میں لینن مارکسزم پر تنقید کرنے والے ایک لیکچرر سے سوال کر رہا ہے۔
اسے قارئین کی دلچسپی کے لیے صبغت وائیں نے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔
1۔ کیا لیکچرار یہ جانتا ہے کہ مارکسزم کا فلسفہ جدلیاتی مادیت ہے؟ اگر وہ نہیں جانتا، تو اس نے اس موضوع کے بارے میں اینگلز کے لاتعداد بیانات کیوں نہیں دیکھے؟ اگر وہ جانتا ہے تو پھر ماخیئن اپنی جدلیاتی مادیت کی ”ترمیم پسندی“ کو ”مارکسزم کا فلسفہ“ کیوں کہتے ہیں؟
2۔ کیا لیکچرار اینگلز کی جانب سے فلسفیانہ نظاموں کی عینیت پرستی اور مادیت پسندی میں کی گئی بنیادی تقسیم کو مانتا ہے، اینگلز ان تمام کو جو کہ ان دونوں کے درمیان پائے جاتے ہیں، یا پھر متزلزل ہیں، جیسے کہ جدید فلسفے میں ہیوم کی لکیر ہے، اس لکیر کو ”لا ادریت“ کے نام سے پکارتا ہے اور کانٹ کے فلسفے کو لا ادریت ہی کی ایک شکل بتاتا ہے؟
3۔ کیا لیکچرار اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ خارجی دنیا اور انسانی ذہن پر اس کے عکس کو تسلیم کرنا جدلیاتی مادیت کے نظریہ علم کی بنیاد ہے؟
4۔ کیا لیکچرار اینگلز کی اس دلیل کو درست مانتا ہے جو کہ ”اشیا فی الذات“ کی ”اشیا برائے انسان“ میں تبدیلی سے متعلق ہے؟
5۔ کیا لیکچرار اینگلز کے اس دعوے کو درست تسلیم کرتا ہے کہ ”دنیا کی حقیقی ہم آہنگی اس کی مادیت پر مبنی ہے“؟ (قاطع دوھرنگ)
6۔ کیا لیکچرار اس بات کو درست مانتا ہے کہ اینگلز کا یہ کہنا کہ ”مادے کا حرکت کے بغیر ہونا اسی طرح سے غیرمعقول ہے جیسے کہ حرکت کا بغیر مادے کے ہونا“؟ (قاطع دوھرنگ)
7۔ کیا لیکچرار علیت، لازمیت، قانون، وغیرہ جیسے تصورات کو انسانی ذہن میں قوانینِ فطرت، اور حقیقی دنیا کے عکس کے طور پر تسلیم کرتا ہے؟ یا پھر اینگلزایسا کہنے میں غلط تھا؟ (قاطع دوھرنگ)
8۔ کیا لیکچرار یہ جانتا ہے کہ ماخؔ نے خود کو ”ایماننٹ مکتبہ فکر“ (جس میں دنیا کی کلیت کے وجود پذیر ہونے کے لیے کسی ناظر کا، یا ذہن رکھنے والے کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے، مترجم) کے سربراہ شُوپےؔ کی باتوں سے اتفاق ظاہر کیا تھا، اور یہی نہیں بلکہ اپنی آخری اور اہم ترین فلسفیانہ تصنیف کو اسی کے نام کیا تھا؟ تو لیکچرار ماخؔ کی شُوپےؔ، جو پادریت کا حمایتی اور فلسفے میں عمومی طور پر ایک کھلا رجعت پرست ہے، کی صریحاً عینیت پرست فلسفے سے وفاداری کے متعلق کیا وضاحت دے گا؟
9۔ لیکچرار اس ”مہم جوئی“ کے بارے میں کیوں خاموش ہے جو کہ اس کے سابقہ کامریڈ (مطالعے کے مطابق) کے ساتھ ہوئی، یوش کیویچؔ جو کہ ایک منشویک ہے، اس نے آج بوغدانوفؔ کو (راخمیتوف کی پیروی میں) ایک عینیت پرست قرار دیا ہے؟ کیا لیکچرار کو اس بات سے آگاہی ہے کہ پیٹسوئٹؔ نے اپنی تازہ ترین کتاب میں ماخؔ کے بیشتر پیروکاروں کو عینیت پرستوں میں شمار کیا ہے؟
10۔ کیا لیکچرار اس حقیقت کی یقین دہانی کرواتا ہے کہ ’ماخزم‘ کی بالشوزم کے ساتھ کہیں پر بھی مماثلت نہیں ہے؟ اور یہ کہ لیننؔ نے ماخزم کے خلاف مسلسل احتجاج کیا ہے؟ اور یہ کہ منشویک یُوش کیویچ اور ویلنتِنوف ”محض“ تجربی نقاد ہیں؟