“روحِ عصر اور لینن ازم” پارس جان کی نئی کتاب کا پیش لفظ

مشتِ خاک

لینن کو اس دنیا سے رخصت ہوئے سو سال گزر گئے۔ اس نے بہت طویل عمر نہیں پائی۔ وہ 54 سال جیا مگر اس کی سیاسی زندگی عملاً تین دہائیوں پر محیط ہے۔ جس دن وہ مارکس کی سیاسی فکر اور فلسفے سے متفق ہوا اور اس نے سوشلزم کو اپنا مقصد بنایا پھر اس نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔ ان تین دہائیوں میں اس نے آئندگاں کے لیے ورثے میں اتنا چھوڑا ہے کہ اگر بورژوا تعصبات کو پسِ پشت ڈال دیا جائے تو فلسفے، معاشیات، سیاسیات اور عمرانیات کے شعبہ جات میں مدرسانہ (academic) نکتہِ نظر سے بھی اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس مختصر سی زندگی میں جتنا کچھ لینن نے لکھا ہے، سچ تو یہ ہے کہ اس کو واقعی سمجھ کر پڑھنے کے لیے مصروفیات اور نفسانفسی کے اس دور میں شاید ایک صدی بھی کم پڑ جائے۔ لیکن لینن کو پڑھنے کا بھی ایک طریقہ ہے، یعنی اسے اس کے سیاق و سباق اور فکری ارتقا کی کلیت میں سمجھ کر پڑھا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس کا ایک مضمون یا ایک کتابچہ پڑھ کر علامہ بنے پھرتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو لینن کا سیر حاصل مطالعہ کر کے بھی پارٹی سے لے کر قومی سوال تک ہر ایشو پر لینن کی تعلیمات کی ابجد بھی نہیں سمجھ پاتے۔ وہ بزعمِ خود کوئی توپ چیز بن ہی چکے ہوتے ہیں مگر دوسروں کو بھی اسی خبط میں مبتلا کرنے کی ان تھک کوشش جاری رکھتے ہیں۔

اس کتاب میں ہم نے یہ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ لینن کو کیسے پڑھا جائے تاکہ اس کے فکری جوہر تک رسائی ممکن ہو سکے اور اس کو بطور فرد کیسے دیکھا جائے تاکہ اس کی پرستش کرنے کی بجائے اس کا شاگرد ہونے کا حقیقی معنوں میں حق ادا کیا جا سکے۔ مگر سب سے پہلے یہ دیکھنا زیادہ ضروری ہے کہ کیا ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی لینن کی ثقیل اور گنجلک تصانیف کا مطالعہ ضروری ہے بھی یا نہیں۔


’سیانے کوے‘ تو ہمیں یہی کہیں گے کہ بھائی ایک صدی بہت وقت ہے جو گزر چکا ہے۔ بہت کچھ نیا ہو چکا ہے۔ دنیا یکسر بدل گئی ہے اور ہر سال ہزاروں نئی کتب شائع ہوتی ہیں تو پھر ان پرانی باتوں اور بوسیدہ کتابوں میں کیا رکھا ہے۔ یہ آج کل ہماری حاوی سوچ کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ’نیا‘ لفظ سن کر بنا سوچے سمجھے پاگلوں کی طرح اس کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس میں دراصل گزشتہ نصف صدی میں تیزی سے غالب آنے والی بورژوا ثقافت کی سب سے اہم جبلت کنزیومرازم کا گہرا عمل دخل ہے۔ موبائل کا نیا ماڈل آ گیا ہے تو اگر ابھی تک آپ کے ہاتھ میں پرانا موبائل ہے تو آپ بغیر کسی وجہ کے بے یقینی اور خود پر بد اعتمادی کا شکار رہتے ہیں۔ متوسط طبقے میں گاڑی اور دیگر اشیائے صرف کے لیے بھی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ بے انت پیداواری صلاحیت کے دور میں اپنا مال بیچنے کے لیے سرمایہ داروں نے منظم طریقے سے اس سوچ کی ہمارے دماغ میں ایسے ہی پروگرامنگ کر دی ہے جیسے کسی کمپیوٹر میں کوئی سافٹ ویئر اپڈیٹ کر دیا گیا ہو۔ وہی سوچ ہم لاشعوری طور پر علم اور ادب کے میدان میں بھی لے آتے ہیں اور ان کے مواد (content) کو نظر انداز کر کے صرف ’نئے‘ کو اپنی ترجیح بنا لیتے ہیں۔ نئی فلم کونسی آئی ہے، نیا سیزن کونسا ریلیز ہوا ہے، نیا گانا، نئی کتاب، نیا نظریہ وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ’نیا‘ ترقی اور ارتقا کی علامت ہے لہٰذا جیسے کسی بھی شے کو محض نیا ہونے کی بنیاد پر قبول یا تسلیم نہیں کیا جا سکتا، ویسے ہی محض نیا ہونے کی بنیاد پر کسی بھی چیز کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اس لیے سائنس سے لے کر سیاست اور فلسفے سے لے کر ادب تک ہر چیز میں کسی بھی نئے کو اپناتے یا قبولتے ہوئے اس کی ضرورت یا تاریخی لازمیت (necessity) اور کرافٹ دونوں کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ ایک چیز اگر محض خوبصورت ہے لیکن ضروری نہیں ہے تو ضروری کی تلاش کو ترک نہیں کر دینا چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی چیز ضروری ہے لیکن اس میں اس سے زیادہ بہتر اور خوبصورت شے کا حصول بھی ممکن ہے تو ظاہر ہے تب بھی تلاش ختم نہیں ہوتی لیکن اگر خوبصورتی اور لازمیت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو لازمیت کو خوبصورتی پر ترجیح دی جانی چاہیے۔

اس بات کو اتنا طول دینے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ امر سیاست میں اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ کسی بھی پارٹی، لیڈر یا تحریک کو محض نیا ہونے کی بنیاد پر اس کی تقلید یا اس میں شمولیت نہیں کی جا سکتی۔نئی نسل کا یہ نئے کا استصنام بھی دیگر تمام محرکات کے ساتھ ساتھ تحریکِ انصاف جیسی دائیں بازو کی پارٹی کی اتنے بڑے پیمانے پر مقبولیت کی ایک بڑی وجہ بنا۔ ظاہر ہے کہ پرانی پارٹیوں، ریاستی اداروں اور پرانے لیڈروں سے بے پناہ نفرت نے بھی اس میں کلیدی کردار ادا کیا۔

لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ کوئی چیز اگر پرانی ہے تو وہ غلط ہے اور اس میں کارآمد کچھ بھی نہیں۔ جب تک کوئی بھی چیز اپنی لازمیت کھو نہیں دیتی، یا کوئی زیادہ لازمی اور ضروری چیز اس کو رد نہیں کر دیتی، اس وقت تک اسے پرانی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سیاسی نظریات اور فلسفوں کے معاملے میں یہ بات سب سے زیادہ مؤثر اور درست ہے۔

پچاس سو سال پرانے نظریات کے مقابلے میں اکثر سینکڑوں سال پرانے نظریات اور فلسفے نئی پیکنگ میں علم کی منڈی میں اتار دیئے جاتے ہیں۔ جی جی بالکل، آپ نے کچھ غلط نہیں پڑھا۔ ’علم کی منڈی‘ ہی لکھا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں علم بھی کار اور گھر وغیرہ کی طرح ہی ایک شے (commodity) ہی تو بن کر رہ گیا ہے۔ جس طرح نئے موبائل اور گاڑی وغیرہ کی فروخت کے لیے ایڈورٹائزمنٹ انڈسٹری کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جس طرح کینسر، بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ کی کوئی نئی دوائی بیچنے کے لیے میڈیکل ریپ وغیرہ مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں، ایسے ہی ان نئے نظریات کی فروخت کے لیے ہمارے درمیانے طبقے کے شوقین مزاج اور تیز طرار (ambitious) پروفیسر صاحبان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ جن پروفیسر صاحبان کے نام کے ساتھ کسی یورپ یا امریکہ کی یونیورسٹی کا نام بھی لگا ہو تو ان کی مانگ بھی زیادہ ہوتی ہے اور اسی لیے ان کے نرخ بھی مقامی مصنوعات کی نسبت کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے امپورٹڈ مال تو پھر امپورٹڈ ہی ہوتا ہے اور ڈیوٹی فری سے ایک کے ساتھ ایک فری بھی مل جاتا ہے۔

اب اگر ہم لینن ازم کی طرف واپس آئیں تو ہمیں اس کی لازمیت کے بارے میں ایک حتمی رائے قائم کرنی ہے۔ یہ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ویسے تو اس کے لیے ظاہر ہے کہ ہم آپ کو اس کتاب کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دیں گے لیکن یہاں مختصر ہمارا مدعا یہ ہے کہ لینن ازم بنیادی طور پر عملی مارکسزم ہے یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا ایک منظم اور سائنسی منصوبہ پیش کرنے والا نظریہ۔ لہٰذا سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کی ضرورت ختم ہو گئی ہے؟

اپنے اردگرد، ماحول، یونیورسٹی، گاؤں، شہر، قصبے، فیکٹری اور دفتر آپ کہیں بھی نظر دوڑائیے اور دل و دماغ کو یکجا کر کے سوچیے کیا سچ میں اس نظام کو بدلنے کی ضرورت سو سال پہلے سے کہیں زیادہ محسوس نہیں ہوتی؟ صرف سرمایہ دار، جرنیل، بڑے بیوروکریٹ، وڈیرے اور کامیاب پراپرٹی ڈیلر ہی اس سوال کا جواب نفی میں دے سکتے ہیں۔ غزہ میں بے موت مارے جانے والے 40000 معصوم انسانوں کی دریدہ لاشیں ہی اس کا جواب دینے کے لیے کافی ہیں۔ لیکن کیا دہشت گردی، جنگوں، خانہ جنگیوں اور قدرتی آفات میں انسانی جانوں کا ضیاع ہی المناک ہوتا ہے؟ ہر گز نہیں اصل المیہ تو روزمرہ کے مسائل کے ہاتھوں قتل ہونا ہے، بجلی کے بل کے ناگ کے ڈس لینے سے مرنے والے کو شہید کیوں نہیں کہا جاتا۔ بچے کی فیس کے زائد المیعاد ہو جانے سے جو زہر سیدھا روح کو چڑھ جاتا ہے، اس زہر سے نیلے پڑ جانے والے کا کوئی ماتم کیوں نہیں کرتا، یہ ہے اصل المیہ۔ ہر صاحبِ دل کو یہ ماننا پڑے گا کہ اس نظام کو جتنی جلدی اور جس بھی طریقے سے ممکن ہو سکے تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اگر یہ نظام ایک ایسی ڈائن ہے جو آئے روز معصوم بچوں، عورتوں اور نہتے اور لاچار انسانوں کو نگل رہی ہے تو اس کو ہر صورت ختم کرنا ہو گا۔ اب اگلا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے کہ اس کو ختم کرنے کے لیے کیا کرنا ہو گا؟

ایسا نہیں ہے کہ اس سوال پر سماج میں بحث موجود نہیں۔ اب تو ہر ہوٹل، ڈھابے، دفتر اور کلاس میں یہ ڈسکشن ہوتی ہے کہ اس نظام کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہر شخص اپنے مخصوص حالات اور پسِ منظر میں اس کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی کہے گا فلاں پارٹی یا لیڈر آ جائے تو نظام بدل جائے گا، کوئی کہے گا کہ مارشل لا ہی لگ جائے سارے سیاستدان تو چور ہیں وغیرہ وغیرہ۔ زیادہ تر لوگوں کی آرا یا تو سراسر غلط اور ناقابلِ عمل ہوں گی یا پھر جزوی طور پر ہی درست ہوں گی۔ اصل میں چہروں کی تبدیلی یا کاسمیٹک اتھل پتھل سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ 70 سال کا مرد وِگ لگوا کر اور عورت بیوٹی پارلر جا کر جوان نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا یہ نظام پورے سماج کی سرجری سے ہی تبدیل ہو سکتا ہے، جسے سیاسی لغت میں انقلاب کہا جاتا ہے۔

اچھا! انقلاب؟ ہممم! تو کیسا اور کونسا انقلاب؟ اس کا جواب بھی بہت سے لوگ اپنے اپنے خیالات کے مطابق دیں گے۔ کوئی کہے گا کہ خمینی والا انقلاب، فرانس والا انقلاب، مدینے والا انقلاب وغیرہ وغیرہ۔ دراصل مریض کو دیکھ کر، معائنہ کر کے اور ضروری ٹیسٹ کروا کر ہی ایک سرجن یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ آپریشن جسم کے کس حصے کا ہو گا اور اس کا علاج کیا ہے۔ ایسے ہی جس سماج کو بدلنا ہے، اس کی معیشت، سیاست اور ثقافت تمام عوامل کا گہرا مشاہدہ اور سائنسی تجزیہ درکار ہو گا۔ ہمارے سامنے جو مریض ہے اس کے تمام اعضا کے سماجی سائنس کی لیبارٹری سے جو ٹیسٹ کروائے گئے ہیں، اس کے بعدیہ طے پایا ہے کہ اس کو سوشلسٹ انقلاب کی ہی سرجری درکار ہے۔

لو جی ’سیانے کوے‘ کے کان پھر کھڑے ہو جائیں گے۔ دیکھو دیکھو یہ تو نری عقیدہ پرستی ہو گئی۔ سوشلزم ہی کیوں، اور کچھ کیوں نہیں؟ ہم فوراً جوابی سوال داغتے ہیں۔ یہ بتائیے کے یہ ’اور کچھ‘ کیا ہے؟ پھر یہ خواتین و حضرات جو ’اور کچھ‘ اور ’نیا‘ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں تو ہم فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ یہ ’اور کچھ‘ تو کچھ سنا سنا سا لگتا ہے۔ تھوڑا سا کھنگالنے اور جانچ پڑتال کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ اور کچھ تو کانٹ، برکلے اور ہیوم وغیرہ کی بکواس ہے۔ یعنی قبل ازانقلابِ فرانس سرمایہ دارانہ نظریات کو ’نیا‘ بنا کر ہمارے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

میرے عزیز دوستو اور طالبِ علمو! خبرادار، نقالوں سے ہوشیار رہیں۔ فوکو، دریدا اور اسی طرح کے پانچ سو نام آپ کو سنا کر مرعوب کیا جائے گا۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ وہ ہیں جن کے بارے میں خود CIA نے اپنی 1985ء کی رپورٹ میں انکشاف کیا ہوا ہے کہ ان لوگوں کو یونیورسٹیوں کے رسمی نصاب میں شامل کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ نئی نسل کو مارکسزم سے بدظن کیا جا سکے۔ آج کل دانشور بننا ویسے ہی بہت آسان ہو گیا ہے۔ 100 لکھاریوں اور 500 کتابوں کے نام یاد کر لو۔ لو جی بن گئے آپ دانشور۔

میرے عزیز دوستو اور طالبِ علمو! خبرادار، نقالوں سے ہوشیار رہیں۔ فوکو، دریدا اور اسی طرح کے پانچ سو نام آپ کو سنا کر مرعوب کیا جائے گا۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ وہ ہیں جن کے بارے میں خود CIA نے اپنی 1985ء کی رپورٹ میں انکشاف کیا ہوا ہے کہ ان لوگوں کو یونیورسٹیوں کے رسمی نصاب میں شامل کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ نئی نسل کو مارکسزم سے بدظن کیا جا سکے۔

دراصل جب ہم سائنسی تیقن سے کچھ بھی کہیں گے تو یہ ہمیں عقیدہ پرست کہہ کر ہی جھٹلانے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ یہ خود پورے وثوق اور قطعی یقین سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے، یہ تو یقین سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ابھی دن ہے یا رات۔ اس لیے یقین اور اعتماد جیسی انسانی خصوصیات انہیں کسی صورت برداشت نہیں۔ کسی بھی شے کے عقیدہ بن جانے کا خوف اتنا زیادہ دماغوں میں بھر دیا گیا ہے کہ یہ خوف خود عقیدے کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اس طرح کے عقیدت مند آپ کو ہر یونیورسٹی میں ایک آدھ مل ہی جاتے ہیں۔ ابدی سچائیوں کا انکار کرتے کرتے یہ معروضی سچائی کا ہی یکسر انکار کر بیٹھے ہیں۔ ان کے نزدیک سب کچھ آنکھوں کا دھوکہ ہے۔ یعنی سب سے بڑا سراب تو خود مادہ ہے، جس کے جونہی قریب پہنچتے ہیں تو وہ غائب ہو جاتا ہے۔ اب جب معروضی سچائی ہے ہی کچھ نہیں تو پھر بدلنا کس کو ہے؟ جواب دیں گے خود کو۔ خود کو بدل لیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ خوش رہیں تو بھوک نہیں لگے گی۔ جی بھر کے سوئیں تو بجلی کا بل نہیں آئے گا۔ یہ سب مسائل اس لیے ہیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ ہیں اگر ہم ان کو قبول ہی نہ کریں تو ان کی مجال ہے کہ یہ ہمیں تنگ کر سکیں۔

ان تمام موضوعی عینیت پسندوں کی بکواسیات اپنی جگہ لیکن ہمارے دماغ سے باہر ایک حقیقی دنیا موجود ہے جس میں بدقسمتی سے خوش رہنے کا مواد بہت کم بچا ہے، باقی دکھ ہی دکھ ہیں۔ اور اس لیے اس دنیا کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کرنا، اس کے لیے لڑنا اور قربانی دینا ہی زندگی کا سب سے اولین مقصد ہے۔ ایسا مقصد جس کے لیے جیا بھی جا سکے اور مرا بھی جا سکے۔ لیکن اس دنیا کو بدلنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ اس کو سمجھا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اس میں اتنے دکھوں اور تکالیف کی بنیادی وجوہات کیا ہیں۔ اس کے لیے ہمیں ایک سائنسی نظریہ درکار ہو گا۔ ہم محض اپنے ارد گرد کا مشاہدہ کر کے اور حقائق اور اعداد و شمار کے انبار لگا کر اس دنیا کا درست ادراک حاصل نہیں کر سکتے، سرمایہ دارانہ نظام کے میکنزم کو نہیں جان سکتے۔ سرمایہ داروں نے ہمارے دماغ میں نصاب، اخلاقیات اور ادب کے نام پر اتنا کچرا بھر دیا ہے کہ وہ ہمیں دنیا کو جاننے میں مدد کرنے کی بجائے، سب سے زیادہ روڑے اٹکاتا ہے، لہٰذا ہمیں ایک متبادل سائنسی نظریئے کی ضرورت ہے جو مظلوموں اور محکوموں (جو آبادی کی اکثریت پر مشتمل ہیں) کے نکتہِ نظر سے دنیا کو دیکھنا اور سمجھنا سکھائے۔ جس طرح ”مارکسزم کے انقلابی فلسفے کا تعارف‘‘ میں ایلن ووڈز ہمیں بتاتے ہیں کہ:

”حقائق تک آتے ہوئے ہم اپنے تصورات اور مقولات (categories) ساتھ لاتے ہیں۔ یہ شعوری بھی ہو سکتے ہیں اور غیر شعوری بھی، مگر یہ ہمیشہ ہوتے ہیں۔ جنہیں یہ لگتا ہے کہ وہ فلسفے کے بغیر ہنسی خوشی کام چلا رہے ہیں، جیسا کہ بہت سارے سائنسدان، وہ غیر شعوری طور پر محض اس دور کے ’سرکاری‘ فلسفے اور اسی سماج کے تعصبات کو دہرا رہے ہوتے ہیں جس میں وہ رہتے ہیں۔ اس لیے سائنسدانوں اور عقل و فہم رکھنے والے سب افراد کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ وہ دنیا کو تسلسل میں دیکھنے کی سعی کرتے ہوئے ایک مربوط فلسفے کی تلاش کریں جو چیزوں اور عوامل کو سمجھنے کے لیے ایک کارآمد اوزار کا کام دے“۔

یہ نظریہ مارکسزم کا نظریہ ہے اور لینن ازم اسی نظریئے کی عملی تفسیر ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ یہ یوٹوپیا ہے تو اس کی اپنی منطق کے مطابق بھی یہ بات غلط ہے کیونکہ یہ ایک دفعہ ہو چکا ہے۔ سائنسی میتھڈ میں بار بار کے تجربات سے ہی کوئی نئی پیراڈائم یا نیا میتھڈ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اب اگر سوشلسٹ انقلاب کرنا ہے تو ہم ان ’سیانے کووں‘ سے سوال کریں گے کہ لینن ازم کے علاوہ ہمارے پاس اور کونسا اوزار ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ نظریات جو معروضی سچائی کی تفہیم سے ہی انکار کر دیں، ان کے ذریعے تو انقلاب کا تصور ہی اصل یوٹوپیا ہے۔ جی جی، اب سمجھ آئی کہ یہ ’سیانے کوے‘ تو انقلاب کرنا ہی نہیں چاہتے۔

شکر ہے آپ کو سمجھ تو آئی تو اب یہ بھی سمجھ لیجیے کہ ان کی اتنی خاطر مدارات کیوں کی جاتی ہیں۔ پھر جب ان کا اور کہیں کوئی بس نہیں چل پاتا تو یہ خواتین و حضرات اخلاقی چورن بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اوہو ہو ہو، کیا؟ انقلاب، اچھا بھئی کر لینا انقلاب، ابھی تو آپ طالبِ علم ہو، پہلے اپنی ڈگری تو مکمل کر لو، پھر کوئی نوکری ووکری مل جائے، ماں باپ راضی ہو جائیں، انقلاب کرنے کو تو عمر پڑی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انقلابی طلبہ اپنی رسمی تعلیم کو خیر باد کہہ دیں، ہم تو الٹا اس میں ہر ممکن معاونت کرتے ہیں لیکن ساتھ یہ تلقین کرنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ کچھ سیکھنے کی اور بدلنے کے لیے کچھ عملی جدوجہد کرنے کی عمر بھی یہی ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاستوں نے بڑے سوچے سمجھے منصوبے سے نظامِ تعلیم کو اب ایسے ترتیب دے دیا ہے کہ طلبہ غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے بالکل وقت نہ نکال پائیں۔ اس سازش کو ناکام بنانا ہو گا۔ جیسے محاورتاً کہا جاتا ہے کہ زندگی گزارنے کا مزا تو جوانی میں ہی ہے، ایسے ہی ہم آپ کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ انقلابی جدوجہد کا، انصاف، حقوق اور آدرشوں کے لیے لڑنے کا اصل مزا بھی جوانی میں ہی ہے اور جب آپ یہ مزا چکھ لیتے ہیں تو اس کا کمال ہی یہ ہے کہ یہ آپ کو کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتا۔

اس لیے ہم ان طالبِ علموں سے خاص طور پر مخاطب ہیں جو ابھی ابھی انقلابی جدوجہد کا حصہ بن رہے ہیں۔ لینن کے نظریات کا فوری مطالعہ شروع کر دیجیے۔ اور پھر ان نظریات کو اپنے تک محدود نہ رکھیے، اپنے ہم جماعتوں، روم میٹوں، دوستوں اور عزیز و اقارب تک لے کر جائیے بلکہ سب سے بڑھ کر انہیں مزدور تحریک تک لے کر جائیے تاکہ ان نہتے اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے والے محنت کشوں کو بھی ان انقلابی نظریات سے مسلح کیا جا سکے۔ عظیم انقلابی استادلیون ٹراٹسکی نے تلقین کی تھی کہ:

”ایک انقلابی طالبِ علم اسی وقت کوئی کردار ادا کر سکتا ہے جب وہ سب سے پہلے تو اپنی تعلیم و تربیت کے مشقت بھرے اور مسلسل عمل سے گزرتا ہے اور اس کے ساتھ جب وہ طالبِ علم ہوتے ہوئے بھی انقلابی مزدور تحریک کا حصہ بنتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی مجھے صاف صاف کہنے دیں کہ جب میں انقلابی تعلیم کی بات کرتا ہوں تو اس سے میری مراد غیر مسخ شدہ مارکسزم کا مطالعہ ہے“۔ (نومبر 1932ء)۔

آخر میں ایک سب سے ضروری بات یہ ہے کہ خود پر، اپنے نظریات پر اور محنت کش طبقے پر غیر متزلزل یقین اور اعتماد ہر انقلابی کی بنیادی خصوصیت اور ضرورت ہوتی ہے۔ آج ہم تعداد میں کم سہی لیکن ہمارے علاوہ بھی تو کہیں کچھ نہیں ہے۔ ہم نے پوری جرات، ہمت اور استقامت سے آگے بڑھنا ہے، حالات اور واقعات کے تھپیڑے خود ہمارے کارواں کی تشکیل کے لیے سرگرم ہو جائیں گے۔ میر کے اس شعر کا لطف لیجیے، مزہ دوبالا ہو جائے گا۔

ہیں مشتِ خاک لیکن جو کچھ ہیں میرؔ ہم ہیں
مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا

پارس جان
کراچی
23 فروری 2024ء

Comments are closed.