کیا عقل کا چراغ تھا خاموش ہو گیا۔ ۔ ۔ کیا دل تھا، دھڑکنوں کے تلاطم میں سو گیا
نئے کیلنڈر کے مطابق 5 اگست 1895ء کو فریڈرک اینگلز نے لندن میں انتقال کیا۔ اپنے دوست کار ل مارکس کی وفات (1883 ء) کے بعد وہی ایک شخص تھا جسے تمام متمدن دنیا میں موجود پرولتاری طبقے کا بہترین استاد اور عالم کہنا چاہئے۔ جس دن سے کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کو یکجا ئی نصیب ہو ئی دونوں دوستوں نے اپنی زندگی ایک ہی مقصد میں لگادی۔ چنانچہ فریڈرک اینگلز نے پرولتاریہ کے لئے جو کچھ کیا ہے، اسے سمجھنے کے لئے صاف صاف یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ آج محنت کش طبقے کی تحریک کوفروغ دینے میں کارل مارکس کی تعلیمات اور اس کے کام کی کیا اہمیت ہے۔ مارکس اور اینگلز یہ ثابت کرنے میں سب سے اول ہیں کہ مزدور طبقہ اور ا س کی مانگیں موجودہ معاشی نظام کا لازمی نتیجہ ہیں اور یہی وہ نظام ہے جو بورژوازی کے ساتھ بہرحال پرولتاریہ کو جنم بھی دیتا ہے اور اس کی تنظیم بھی کرتا ہے۔ مارکس اور اینگلز نے یہ دکھادیاکہ محض کچھ بھلے مانسوں اور نیک بندوں کی دیانت دارانہ کوششوں کی بدولت نہیں، بلکہ منظم پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد کے زور سے ہی انسانیت کو ان برا ئیوں سے نجات ملے گی جو آج اس شکنجے میں کسے ہوئے ہیں۔ اپنی علمی تحریروں کے ذریعے مارکس اور اینگلز نے سمجھایا کہ سوشلزم خواب و خیال کی شعبدہ کاری نہیں بلکہ ایک منزل مقصود اور لازمی نتیجہ ہے موجودہ سماج کی پیداوار ی قوتوں کے بڑ ھنے چڑھنے کا۔ آج تک جتنی تاریخ لکھی جا چکی ہے وہ تمام تر طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے، لگاتار بعض سماجی طبقوں کو اوروں پر حاکمانہ اختیارات اور غلبہ حاصل رہنے کی تاریخ ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتارہے گا جب تک طبقاتی کش مکش اور طبقاتی غلبے کی جڑ بنیاد، یعنی ذاتی ملکیت اور اندھا دھند سماجی پیداوار کا صفایا نہیں ہو جاتا۔ پرولتاریہ کا مفاد اس میں ہے کہ ان بنیادوں کا خاتمہ کر دیا جائے۔ لہٰذا منظم مزدوروں کی باشعور طبقاتی کش مکش کا رخ انہی بنیادوں کے خلاف ہونا چاہیے۔ ہر ایک طبقاتی کش مکش سیاسی جد و جہد ہو تی ہے۔
مارکس او ر اینگلز کے ان خیالات کو اب ان تمام پرولتاریوں نے اپنا لیا ہے جو اپنی رہا ئی کی کوششوں میں لگے ہو ئے ہیں۔ لیکن 1840ء کے دور میں جب ان دونوں دوستوں نے ا شتراکی لٹریچر اور اپنے زمانے کی سماجی تحریکوں میں قدم رکھا تو و ہ بالکل ہی نئے تھے۔ بہتیرے لوگ، جن میں لا ئق اور نالا ئق ایماندار اور بے ا یمان سبھی تھے، سیاسی آزادی کی جدوجہد میں بادشاہوں، پولیس والوں اور پادریوں کی مطلق العنانی کے مقابل صف آرا ئی میں لگے ہو ئے تھے، وہ لوگ اس حقیقت کو نظر میں نہ رکھ سکے کہ بورژوازی او ر پرولتاریہ کے مفادات میں مستقل ٹکرا ؤ چلتا ہے۔ وہ اس خیال کو ہضم نہیں کرسکے تھے کہ مزدور ایک آزادانہ سماجی طاقت کے بطور عمل کریں۔ دوسری طرف ایسے بہت سے خیالی لوگ، جن میں بعض نابغہ (Geniuses) بھی تھے، یہ سوچتے رہے کہ حاکموں اور حاکمانہ اختیار رکھنے والے طبقوں سے صرف اتنا منوا لینا ضروری ہے کہ موجودہ سماجی نظام انصاف سے محروم ہے، یہ منوا لیا تو زمین پر امن چین کاراج ہو جا ئے گا اور عام بھلا ئی پھیل جا ے گی۔ یہ لوگ ایسے سوشلزم کا خواب دیکھتے تھے جس تک رسا ئی کے لئے جدوجہد کی کو ئی ضرورت نہ ہو۔ آخر میں اس زمانے کے قریب قریب سارے ہی سوشلسٹ اور مزدور طبقے کی بھلا ئی چاہنے والے عام طور سے پرولتاریہ کو ناسور سمجھتے تھے اور ان پر دہشت سوار تھی کہ انڈسٹری بڑھنے کے ساتھ ساتھ پرولتاریہ کتنا بڑھ گیا ہے۔ چنانچہ یہ سبھی اس فکر میں مبتلا تھے کہ کسی تدبیر سے انڈسٹری کا بڑھنا اور اسی کے ساتھ پرولتاریہ کا بڑھنا روکا جا ئے، ’’تاریخ کے پہیے کاگھماؤ‘‘ روکا جائے۔ مارکس اور اینگلز کو پرولتاریہ کے بڑھنے پر اس عام دہشت سے کوئی سرو کار نہ تھا، الٹا اور اسی کی مسلسل ترقی پرانہوں نے اپنی امیدیں لگادیں۔ پرولتاری جتنے زیادہ ہوں گے، انقلابی طبقے کی حیثیت سے ان کی طاقت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی اور سوشلزم اتنا ہی نزدیک اور قابل حصول ہو جا ئے گا۔ مارکس اور اینگلز نے محنت کش طبقے کے لیے جو خدمات سر انجام دی ہیں انہیں گنے چنے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے :مزدور طبقے کو انہوں نے خود شناسی اور خود آگاہی سکھا ئی، خواب وخیال کی جگہ علم و تحقیق کا پایہ رکھ دیا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اینگلز کا نام اورانکی زندگی کے حالات کا علم ہر ایک مزدور تک پہنچے۔
* * * * * *
فریڈرک اینگلز1820ء میں پروشیائی سلطنت کے صوبہ را ن کے مشہور شہر بریمن (جو اب جرمنی کا حصہ ہے) کے مقا م پر پید ا ہوا۔ اس کے باپ کارخانہ دار تھا۔ 1838 ء میں گھر کے حالات سے مجبورہو کر بیٹے نے ہائی سکول کی تعلیم چھوڑ ی اور بریمن کے ایک تجارتی دفتر میں کلرکی اختیار کر لی۔ بیوپاری مصروفیتوں کے باوجود اینگلز نے اپنی علمی اور سیاسی تعلیم کی لگن باقی رکھی۔ ہا ئی سکول کے زمانے سے ہی اسے باد شاہی اور سرکاری اہل کاروں کے ظلم زبردستی سے سخت نفرت ہو گئی تھی۔ فلسفہ پڑھا تو یہ نفرت اور منجھ گئی۔ ان دنوں جرمن فلسفے پرہیگل کا رنگ چڑھا ہوا تھا اور اینگلز بھی اس کی لپیٹ میں آگیا۔ اگرچہ ہیگل بذات خود پروشیا کی شخصی حکومت کا مداح تھا، اور برلن یونیورسٹی میں فلسفے کا پروفیسر ہونے کی حیثیت سے اسی حکومت کا نمک خوار بھی رہاتھا، تا ہم اس کی تعلیمات انقلابی تھیں۔ ہیگل کو انسانی عقل او راس کے حقوق پرایمان تھا۔ ہیگل کے فلسفے کا بنیادی نکتہ تھا کہ تمام کائنات کے رگ و پے میں تغیر، تبدیلی اور ارتقا جاری و ساری ہے اس کی بدولت جرمن فلسفی کے بعض شاگردوں نے، جوا’س وقت کی صورتحال کو برحق ماننے کے لئے تیار نہ تھے، یہ خیال اپنا لیا کہ اس صورت حال کے خلاف قدم بڑھانا اور جو ظلم و جبر پھیلا ہوا ہے، اس کے سامنے سر اٹھانا بھی اسی ہمہ گیر اصول کی جڑ بنیاد میں شامل ہے، یعنی ہمیشہ ہمیشہ تغیر اور ارتقا ہوتا رہے۔
اگر ہر چیز کچھ سے کچھ ہو تی جاتی ہے، اگر ایک قسم کے ادارے یا ڈھانچے ٹو ٹتے ہیں اور ان کی جگہ لے لیتے ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پروشیا ئی بادشاہ سلامت یا زار روس کی فرماروا ئی، یا لوگوں کی بہت بڑی تعداد کے نقصان سے تھوڑے سے لوگوں کی دولت مندی یا عام لوگوں پر سرمایہ دار طبقے کاغلبہ ایسے ہی ( بے تبدیلی کے) ہمیشہ چلتا رہے۔ ہیگل کا فلسفہ ذہن اور خیالات کی تبدیلی کی بات کرتا تھا۔ وہ عینیت پرست یا خیال پرست تھا۔ ذہن کی تبدیلی سے اس کا مطلب تھا کہ فطرت میں، انسان میں، انسانی اور سماجی تعلقات میں تبدیلی پیدا ہو۔ مارکس اور اینگلز نے ہیگل کے فلسفے میں سے مسلسل تغیر و تبدل کااصول قا ئم رکھ کر خیال پرستی کے نظر ے کا خول اتار ڈالا۔ (مارکس اور اینگلز نے بتایا ہے کہ اپنے ذہنی ارتقا کے سلسلے میں وہ عظیم جرمن فلسفیوں کے اور خاص طور پرہیگل کے بہت زیادہ مرہون منت ہیں۔ اینگلز کا کہنا ہے ’’جرمن فلسفے کے بغیر سائنسی سوشلزم کاکو ئی وجود نہ ہوتا‘‘۔ اصلی زندگی کی طرف رخ کرکے انہوں نے یہ دیکھا کہ ذہنی تبدیلی سے عالم فطرت کی تبدیلی کو نہیں سمجھایا جا سکتا بلکہ اس کے برعکس ذہنی تبدیلی خود عالم فطرت یا مادی تبدیلی سے نکلتی ہے …. فلسفی ہیگل کے اورہیگل والے خیالات رکھنے والوں کے بر خلاف مارکس اور اینگلز نے مادیت اختیا ر کی۔ دنیا اور عالم انسانیت کو انہوں نے مادی پہلو سے دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا کہ جس طرح فطرت کے مظاہر کی تہہ میں مادی اسباب پوشیدہ ہوتے ہیں اس طرح انسانی سماج میں جو تغیر و تبدل ہوتے ہیں وہ مادی طاقتوں یعنی پیداواری تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے، ان چیزوں کی پیداوار میں آدمی کے آدمی سے جس قسم کے تعلقات بنتے ہیں، جو رشتے قا ئم ہوتے ہیں، ان رشتوں یا تعلقات کا دارو مدار پیداواری طاقتوں کے تغیر و تبدل پر ہوتا ہے۔ انہی رشتوں میں سماجی زندگی کے، انسانی آرز ووں، امنگوں، خیالات اور قوانین کے سارے مظاہر کو سمجھا جاسکتا ہے۔ پیداواری طاقتوں کے بڑھنے سے وہ سماجی تعلقات پیدا ہو ئے جن کی بنیاد ذاتی ملکیت پر ہے لیکن اب دیکھئے تو پیداواری طاقتوں کے بڑھنے کی بدولت ہی آبادی کی بڑی اکثریت اپنی ملکیت سے محروم کردی گئی اور تھوڑے سے لوگوں کے قبضہ قدرت میں یہ ملکیت سمٹتی چلی گئی۔ جا ئداد اور ملکیت کا یہ ارتقا، جو آج کے سماجی نظام کی اصل بنیاد ہے، خود اسی کے خاتمے کا پیش خیمہ ہے۔ اورخود اسی مقصد کی خاطر قدم بڑھا رہا ہے جو اشتراکیوں نے اپنے پیش نظر رکھا ہے۔ اشتراکیوں کو صرف اتناہی کرناہے کہ اس سماجی طاقت کا پتہ لگا ئیں جو، موجودہ سماج میں اپنی حیثیت کی وجہ سے، اشتراکیت کے لانے میں غرضمند ہو اور اس سماجی طاقت کو خود اس کے مفاد اور تاریخی عمل سے باخبر کریں۔ یہ سماجی طاقت پرولتاریہ ہے۔ اینگلز نے اسی پرولتاریہ سے انگلینڈ میں، انگریزی صنعت کے مرکز مانچسٹر میں آگاہی حاصل کی جہاں 1842ء میں وہ رہنے لگاتھا، اور ایک ایسی تجارتی کمپنی میں نوکری کررہا تھا جس میں اینگلز کا باپ بھی حصہ دار تھا۔ مانچسٹر میں اینگلز کارخانے میں ہی نہیں بیٹھا رہا بلکہ ان گندی بستیوں میں بھی مارا مارا پھرتا تھا جہاں مزدور لبالب بھرے تھے، ان کی غریبی اور تباہ حالی اپنی آنکھوں سے د یکھی۔ اس نے صرف ذاتی مشاہدوں پر بس نہیں کی۔ برطانیہ کے مزدور طبقے کے حالات پر پہلے سے جو لکھا جا چکا تھا، اینگلز نے اس کا بھی مطالعہ کیا اور جتنی سرکاری دستاویزوں تک وہ پہنچ سکتا تھا سب اس نے نہایت غور کے ساتھ پڑھ ڈالیں۔ ان تمام مطالعوں اور مشاہدوں کا حا صل وہ کتا ب تھی جو 1840ء میں شائع ہوئی؛ ’’انگلستان میں مزدور طبقے کی حالت‘‘۔ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس کتاب کے تحریر کرنے میں اینگلز نے کیا اہم خدمت انجام دی ہے۔ اینگلز سے پہلے بھی بہت لوگوں نے پرولتاریہ کے مصا ئب بیان کئے تھے اور اس طبقے کی حالت سدھارنے کی ضرورت پر توجہ دلا ئی تھی۔ لیکن اینگلز وہ پہلاشخص ہے جس نے کہا کہ پرولتاریہ ایک مصیبت زدہ طبقہ ہی نہیں، بلکہ حقیقت میں ا س طبقے کی شرمناک معاشی حالت ہی اسے آمادہ کرکے آگے بڑھاتی ہے اورمجبور کرتی ہے کہ بالآخر وہ اپنا بوجھ اتارنے کے لئے میدان میں اترے۔ پرولتاریہ میدان میں اترتاہے تو اپنی مدد آپ کر لیتا ہے۔ مزدور طبقے کی سیاسی تحریک بہرحال مزدوروں پر یہ روشن کر دے گی کہ ان کی نجات کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے سوشلزم۔ دوسری طرف سوشلزم تبھی طاقت بنے گا جب وہ مزدور طبقے کی سیاسی جدوجہد کی منزل قرار پا ئے۔ انگلینڈ کے محنت کشوں کی حالت پر اینگلز کی کتاب میں اسی قسم کے خیالات تھے، وہ خیالات جنہیں آج کے زمانے میں تمام سوچنے والے اور مقابلہ کرنے والے پرولتاریہ نے اپنا لیا ہے، لیکن جب وہ پہلی بار پیش کئے گئے تو بالکل نئے یا اجنبی تھے۔ یہ خیالات ا س کتاب میں منظر عام پر لائے گئے جو نہایت دلنشیں انداز میں لکھی گئی تھی اور جس میں انگریزی پرولتاریہ کی تباہ حالی کی بھر پور مستند اورہیبت ناک تصویر کھینچی گئی تھی۔ یہ کتاب سرمایہ داری اور سرمایہ داروں (بورژوازی) کے منہ پر طمانچہ ثابت ہو ئی اور گہرا اثر چھوڑ گئی۔ موجودہ زمانے میں پرولتاریہ کے حالات کی صحیح تصویر کشی کے لئے جابجا اسی کتاب کے حوالے د یے جانے لگے۔ سچ پوچھئے تو مزدور طبقے کی تباہ حالی کی ایسی سچی اور بے لاگ تصویر نہ 1840 سے پہلے کبھی کھینچی گئی تھی نہ اس کے بعد۔
انگلستان پہنچنے کے بعد اینگلز سوشلسٹ ہو گیا۔ مانچسٹر میں اس نے ان لوگوں سے تعلقات پیدا کئے جو اپنے وقت میں انگریزوں کی مزدور تحریکوں میں سرگرم تھے اور انگریزی کے اخبارات و رسا ئل کے لئے لکھنا شروع کردیا۔ 1844ء میں جب وہ جرمنی واپس جا رہا تھا تو پیر س میں مارکس سے ملاقات ہو ئی۔ ملاقات سے پہلے ہی دونوں میں خط و کتابت رہ چکی تھی۔ پیرس میں کارل مارکس بھی فرانسیسی اشتراکیوں اور فرانس کی زندگی کے زیر اثر سوشلسٹ ہو چکا تھا۔ یہا ں ان دونوں دوستوں نے مل کر ایک کتا ب تصنیف کی جس کا عنوان تھا ’’ مقدس خاندان یا تنقیدی تنقید کی تنقید‘‘۔ یہ کتا ب اینگلز کی ’’ انگلستان میں مزدور طبقے کی حالت ‘‘ کے بازار میںآنے سے ایک سال پہلے ہی چھپ کر آگئی۔ اس کا بیشتر حصہ مارکس نے لکھا اور اس میں انقلابی مادی اشتراکیت کی بنیادیں موجود تھیں، جن کے اصل خیالات ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ ’’ مقدس خاندان ‘‘ کا لفظ با ویر نام کے جرمن بھا ئیوں اور ان کے ماننے والوں پر ایک پھبتی کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ یہ حضرات ایسی تنقید کا پرچار کرتے تھے جسے نہ حقیقت سے کو ئی سروکار تھا، نہ پارٹیوں اور سیاست سے، اور نہ اسے عملی سرگرمی گوارا تھی۔ اسے تو گرد و پیش کی دنیا پر اور جو واقعات دنیا میں گزرتے تھے‘ ان پر صرف ’’ تنقیدی ‘‘ نظر ڈالنے سے غرض تھی۔ با ویر صاحبان کی نظر میں پرولتاریہ ایک بے وقعت انبوہ تھا، تنقید سے کورا۔ مارکس اور اینگلز نے اس بیہودہ او ر نقصان دہ رحجان کی زبردست مخالفت کی۔ ایک جیتے جاگتے انسانی وجود کے لئے، جو مزدور ہے اور حکمراں طبقوں اور سرکار کے بوجھ تلے پس رہا ہے، انہوں نے قیاس آ را ئی کا نہیں بلکہ ایسی جدوجہد کا مطالبہ کیا جو بہتر نظام زندگی کے لئے کی جا ئے۔ ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں پرولتاریہ ہی وہ طاقت تھی جو ایسی جدوجہد چلانے کی اہلیت رکھتی تھی اور اس کی غرضمند بھی تھی۔ ابھی یہ کتاب ’’ مقدس خاندان ‘‘ نکلی نہ تھی کہ فریڈرک اینگلز نے مارکس اور روگے کے مجموعہ مضامین Deutsc-Franzosische Jahrbucher میں اپنے تفصیلی ’’ سیاسی معاشیات کے تنقیدی مضامین ‘‘ شائع کر دیے تھے اور ان میں اشتراکی نقطہ نظر سے موجودہ معاشی نظام کے اصل مظاہر پر بحث کرتے ہو ئے یہ بتایا گیا تھا کہ ذاتی ملکیت کی حکمرانی سے یہی نتیجے نکلنے والے تھے۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ مارکس نے جو یہ فیصلہ کیا کہ سیاسی معاشیات کا، یعنی اس علم کا مطالعہ کیا جا ئے جس میں آگے چل کر اس کی تحریروں نے انقلاب برپا کر دیا، اس فیصلے میں اینگلز سے ربط و ضبط پید اہونے کا بڑا ہاتھ ہے۔
1845ء سے 1847ء تک اینگلز برسلز اور پیرس میں رہا۔ علمی کام کے ساتھ ساتھ اس نے برسلز اور پیرس میں جرمن مزدوروں کے درمیان عملی سرگرمی بھی جاری رکھی۔ یہاں مارکس اور اینگلز نے خفیہ جرمن ’’ کمیونسٹ لیگ ‘‘ سے رابطہ قا ئم کیا اور اس کی طرف سے یہ ذمہ داری سنبھالی کہ سوشلزم کے جن خاص اصولوں پر جم کر کام کیا جا چکاہے، انہیں تفصیل کے ساتھ پیش کریں۔ چنانچہ مارکس اور اینگلز کا لکھا ہو اوہ مشہور ’’ کمیو نسٹ پارٹی کا مینی فسٹو‘‘ تیار ہوا جو 1848ء میں شا ئع کیا گیا۔ یہ کتابچہ کئی کئی جلدوں کی کتاب پرحاوی ہے، جو روح اس میں سما ئی ہے وہ آج بھی متمدن دنیا کے تمام منظم اور مقابلہ کرتے ہو ے پرولتاریہ کو حوصلہ عطاکر رہی ہے اور اسے راہ دکھا رہی ہے۔
1848ء کا انقلاب جو پہلے فرانس میں پھوٹ پڑا اور پھر مغربی یورپ کے دوسرے ملکوں میں، مارکس اور اینگلز کو ان کے وطن (جرمنی) میں واپس لے گیا۔ یہا ں پہنچ کر انہوں نے پروشیاکے را ئن والے صوبے میں جمہوری اخبار Neu RheinischeZeitung کا انتظام سنبھالا جو کولون شہر سے شا ئع ہو ا کرتا تھا۔ یہ دونوں دوست رائن پروشیا کی تمام انقلابی جمہوری امنگوں کے رو ح رواں بن گئے۔ انہوں نے آزادی کی حمایت میں اور رجعت پرستی کی طاقتوں کے مقابلے پر عوام کے حق میں ایک ایک قدم پر جم کر جنگ لڑی لیکن جیسا کہ ہمیں معلوم ہے رجعت پرستی جیت گئی۔ یہ اخبار Neue Rheinische Zeitung کچل کر ختم کر دیا گیا۔ مارکس اپنی جلاوطنی کے زمانے میں پروشیا ئی شہریت سے محروم ہوچکا تھا، اب اسے وہاں سے بدیسی کی طرح نکال دیا گیا۔ اینگلز مسلح عوامی بغاوت میں شریک ہو گیا، تین جنگوں میں آزادی کے لئے لڑا اور جب باغیوں کو شکست ہوئی تو وہ پسپا ہو کر سوئٹزر لینڈ کے راستے لندن کی طرف نکل گیا۔
مارکس بھی لندن میں ہی مقیم ہوچکا تھا۔ اینگلز نے وہاں پہنچ کر پھر کلرکی اختیا ر کر لی اور کچھ دنوں بعد مانچسٹر کی اسی کمپنی کا حصہ دار بن گیا جس میں 1840ء کے بعد والے برسوں میں نوکری کر چکا تھا۔ 1870ء تک وہ مانچسٹر میں ہی رہا اور اس عرصہ میں مارکس نے بھی لندن میں رہا ئش رکھی۔ اس فاصلے نے ان دونوں کے درمیان تازہ بہ تازہ تبادلہ خیالات میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا۔ قریب قریب روزانہ خط آتے جاتے تھے۔ خط و کتابت کے ذریعے دونوں دوستوں نے اپنے خیالات اور اپنی تحقیقات کو ایک دوسرے تک پہنچایا اور علمی سوشلزم کا خاکہ تیار کرنے میں باہم ہاتھ بٹاتے رہے۔ 1870ء میں اینگلز لندن چلاآیا۔ ان د و نوں کی ذہنی زندگی، شد و مد کے ساتھ اس وقت تک باہمی رفاقت سے چلتی رہی جب تک 1883ء میں کارل مارکس کا انتقال نہیں ہو گیا۔ اس کا ثمرہ یہ تھا کہ مارکس نے ’’سرمایہ ‘‘ لکھی جو ہمارے زمانے میں سیاسی معاشیا ت کی سب سے بڑی تصنیف ہے۔ اور اینگلز نے چھوٹی اور بڑی کئی تصانیف پیش کیں۔ سرمایہ دارانہ معیشت کے جو پیچ در پیچ مظاہر ہوتے ہیں، ان کے تجزیے پر مارکس نے کام کیا۔ اینگلز نے اپنی سادہ اورآسان تحریروں میں، جن میں اکثر جوابی استدلال سے کام لیا گیاہے، عام علمی مسا ئل سے بحث کی اور تاریخ کے مادی نظر یے سے اور مارکس کے معاشی نظر یے کی روشنی میں ماضی اور حال کے مختلف مظاہر و و اقعات سے بحث کی۔ اینگلز کی ان تحریروں میں سے ہم فی ا لحال یہ نام لیں گے :’’جرمن فلسفی ڈیورنگ سے مناظرہ‘‘ یہ کتاب فلسفے ‘ قدرتی سا ئنس اور سماجی علوم کے دائرے میں آنے والے انتہا ئی اہم مسائل کا تجزیہ کرتی ہے) یہ بہت ہی کار آمد اور معلومات سے مالا مال کتاب ہے۔ بد قسمتی سے اس کا صرف ایک ہی حصہ جس میں سوشلزم کے ارتقا کا تاریخی خاکہ پیش کیا گیا ہے، روسی زبان میں ترجمہ ہوا ہے ::’’ سا ئنسی سوشلزم کا ارتقا ‘‘ (جنیوا، 1892ء) ’’خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘‘ (جو روسی زبان میں ترجمہ ہو چکی ہے اور سینٹ پیٹر سبرگ سے اس کا تیسرا ایڈیشن 1890ء میں نکل چکا ہے)، ’’لوڈوگ فیور باخ‘‘ (اس کا روسی ترجمہ پلیخانوف کی تشریحات کے ساتھ جنیواسے 1892 ء میں شا ئع ہوا ہے)، روسی حکومت کی خارجہ پالیسی پر مضمون (یہ مضمون جنیوا سے ’’سوشل ڈیمو کریٹ‘‘ رسالے کے پہلے اور دوسرے شمارے میں بزبان روسی ترجمہ ہو کر چھپا)، رہا ئشی مسئلے پرشاندار مضامین، اور آخر میں دو مختصر مگر نہایت قیمتی مضمون جو روس کی معاشی اٹھان پر لکھے گئے ہیں۔ (یہ دونوں مضمون زاسولیچ کے روسی ترجمے کی صورت میں بعنوان ’’روس کی بابت فریڈرک اینگلز‘‘ جنیواسے 1894ء میں چھپے)۔ سرما ئے پر اپنی زبردست تصنیف کو تما م کرنے سے پہلے ہی کارل مارکس کا انتقال ہو گیا۔ صرف اس کا خاکہ مکمل ہو چکا تھا اور جب مارکس دنیا سے اٹھ گیا تو اینگلز نے اس عظیم ا لشان کا م کی تکمیل کا اہتمام کیا تا کہ ’’سرمایہ ‘‘ کتاب کی دوسری اور تیسری جلد ترتیب دے کر شائع ہو جا ئے۔ 1880ء میں اس نے دوسری جلد اور 1894ء میں تیسری جلد شا ئع کر دی (اینگلز کی موت نے چوتھی جلد کی تیاری اور تکمیل نہ ہونے دی)۔ دوسری اور تیسری جلد شا ئع کر کے اینگلز نے اس زبردست عالی دماغ کی ایک عظیم ا لشان یادگار قا ئم کر دی، جو اس کا دوست رہا تھا، بلکہ ایک ایسی یاد گار قا ئم کی جس پر، انجانے میں خود اینگلز کا نام بھی نقش ہو گیا ہے۔ حق بات یہ ہے کہ ’’ سرمایہ ‘‘ کی یہ دونوں جلدیں دو آدمیوں -مارکس اور اینگلز کا مشترکہ کارنامہ ہے۔ داستانوں میں دوستی یا ہمدمی کی بعض ایسی مثالیں آ ئی ہیں جو دل ہلا دیتی ہیں۔ یورپی پرولتاریہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس کا علم دو ایسے عالموں اور جانبازوں کی دین ہے جن کی باہمی رفاقت، دوستی کے تمام پرانے قصے کہانیوں میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔ اینگلز نے ہر جگہ خود کو مارکس کے بعد دوسرے نمبر پر شمار کیا ہے اور عام طور سے وہ حق بجانب ہے۔ اس نے اپنے ایک دوست کو لکھا ’’مارکس کے جیتے جی میں ہمیشہ اس کے بازو پر رہا‘‘۔ مارکس کی زندگی میں جو محبت اور مرنے کے بعد جو تعظیم اینگلز نے دی اس کی کو ئی انتہا نہیں۔ اس بیباک جواں مرد اور محتاط مفکر کے وجود میں ایک بے پناہ محبت کرنے والی روح تھی۔
1848-49ء کی تحریک کے بعد والے زمانے میں جلاوطن رہ کر مارکس اور اینگلز نے خود کو صرف علمی دیدہ ریزی تک محدود نہیں رکھا۔ 1864ء میں مارکس نے ’’محنت کرنیوالوں کی انٹرنیشنل ایسوسی ایشن‘‘ بنا ئی اور پورے دس برس تک اسے چلاتا رہا۔ اینگلز نے بھی اس کے کاموں میں عملی حصہ لیا۔ ’’انٹرنیشنل ایسوسی ایشن‘‘ جو مارکس کے خیالات کے مطابق تمام ملکوں کے پرولتاریہ میں اتحاد کی علمبردار تھی، اس کی خدمات محنت کش طبقے کی تحریک کو بڑھانے میں زبردست اہمیت رکھتی ہیں۔ جب 1870ء کے بعد والے برسوں میں یہ ایسوسی ایشن بند کر دی گئی، تب بھی مارکس اور اینگلز نے اپنے ربط ملانے والے رول کو نہیں چھوڑا۔ بلکہ اس کے بر خلاف یہ کہنا چاہیے کہ مزدور طبقے کی تحریک کے بین الاقوامی رہنما ؤں کی حیثیت سے ان کی اہمیت برابر بڑھتی ہی گئی کیونکہ خود یہ تحریک بھی لگا تار آگے بڑھتی رہی۔ مارکس کے مرنے کے بعد اکیلا اینگلز ہی یورپی اشتراکیوں کے صلاح کار اور رہنما کی حیثیت سے کام چلاتا رہا۔ جرمن اشتراکی جن کی طاقت گورنمنٹ کے ظلم اور زیادتی کے باوجود تیزی سے اور ایک جما ؤ کے ساتھ آگے جارہی تھی اور پسماندہ ملکوں مثلاًسپین، رومانیہ اور روس کے نما ئندے جنہیں اگلا قدم اٹھانے سے پہلے کافی سوچ بچار اور ناپ تول کرنی پڑتی تھی، ان سب کو یکساں طور پر اینگلز کے مشورے اور ہدایت کی ضرورت پیش آتی تھی۔ بڑھاپے میں اینگلز کے علم اورتجربے کا بھر پور خزانہ ان سب کے کام آتاتھا۔
مارکس اور اینگلز دونوں روسی زبان جانتے تھے، روسی کتابیں پڑھتے تھے۔ اس ملک سے دلچسپی برقرار رکھتے تھے، روسی انقلابی تحریک پر ہمدردی کی نظر رکھتے تھے اور روس کے انقلابیوں سے ان کا ربط ضبط رہتا تھا۔ وہ اول جمہوریت پسند تھے، پھر اشتراکی ہو ئے۔ سیاسی جبر اور من مانی کے نظام سے نفرت کا جمہوری جذبہ ان میں ہمیشہ بہت سخت رہا۔ یہ سیدھا سیاسی جذبہ، پھر گہر انظریا تی علم اس بات کا کہ سیاسی جبر اور من مانی کارروائی کا معاشی لوٹ سے تعلق ہے، اوپر کی زندگی کا تجربہ، ان سب باتوں نے مارکس اور اینگلز کو سیاسی طور سے غیر معمولی حساس بنادیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب مٹھی بھر انقلابی روسیوں نے شہنشاہ روس کی زبر دست حکومت کے مقابلے پر جاں بازانہ جدوجہد چھیڑی تو ان دونوں آزمودہ کار انقلابیوں کے سینے اس کی ہمدردی سے گونجنے لگے۔ اور یہ رحجان، کہ روسی اشتراکیوں کا جو فوری اور نہایت اہم فریضہ ہے کہ سیاسی آزادی چھین کرحاصل کی جا ئے، اس فریضے سے صرف دکھاوے کے معاشی فا ئدوں کی خاطرمنہ موڑ لیا جا ے اس رحجان کو مارکس اور اینگلز نے شک و شبہ کی نظر سے دیکھا۔ یہا ں تک کہ اسے انہوں نے سماجی انقلاب سے کھلم کھلا غداری قرار دے دیا۔ ان دونوں کی مستقل ہدایت تھی کہ ’’مزدوروں کے سر کا بوجھ اترنا خود مزدور طبقے کے عمل سے ہونا چاہیے ‘‘۔ لیکن اپنی معاشی نجات کی خاطر صف آرائی کرنے کے لئے پرولتاریہ کو کچھ سیاسی حق حاصل کرنے ضروری ہیں۔ مزید یہ کہ مارکس اور اینگلز نے صاف دیکھ لیاکہ روس میں سیاسی انقلاب برپا ہو نا مغربی یورپ کے مزدور طبقے کی تحریک کے لئے بے انتہا کار گر ثابت ہو گا۔ شخصی بادشاہی کا روس ہمیشہ سے یورپی رجعت پرستی کی آماجگاہ رہاہے۔ 1870ء کی جنگ کے نتیجے میں، جو جرمنی اور فرانس کے درمیان ایک زمانے تک نفرت کے بیج بو گئی، روس کو ایسی غیرمعمو لی ا ورمفید بین ا لاقوامی پوزیشن ہاتھ آ ئی کہ اس کی بدولت، بہرحال روسی زار شاہی کی کما ن چڑ ھ گئی اور رجعت پرستانہ طاقت کی حیثیت سے اس نے اور زیادہ اہمیت اختیار کر لی۔ صرف آزاد روس، ایساروس جسے پولینڈ، فن لینڈ، جرمنیِ، آرمینیا والوں کو اور دوسری چھوٹی چھوٹی قوموں کو دبا ئے رکھنے کی ضرورت نہ ہو، جو برابر اس تاک میں نہ لگارہے کہ جرمنی اور فرانس ایک دوسرے سے ٹکر لیں، وہی روس موجودہ یورپ کو، جو جنگ کے بوجھ سے ہلکا ہوچکا ہو، امن چین کے سانس لینے میں مدد گار ثابت ہوگا، وہی روس یورپ میں رجعت پرستی کے تمام عناصر کو کمزور کرے گا، یورپ کے مزدور طبقے کو مضبوطی دے گا۔ اسی غرض سے اینگلز نے روس میں سیاسی آزادی قا ئم کرنے پر پورا زور دیا کہ اس کی بدولت مغرب میں مزدور طبقے کی تحریک بھی بڑھاوا ملے گا۔ وہ کیا سدھارا کہ روسی انقلابیوں کا بہترین دوست دنیا سے اٹھ گیا۔
آ ئیے، فریڈرک اینگلز کی یاد میں سر جھکا یں، وہ جو پرولتاریہ کا استاد اور زبردست جانباز تھا۔
(1895ء کی برسات میں لکھا گیا۔ پہلی بار 1896ء میں ربوتنک نامی مجموعے کے پہلے اور دوسرے شماروں میں شائع ہوا۔ لینن کا مجموعۂ تصانیف۔ پانچواں روسی ایڈیشن۔ جلد 2)