|تحریر: وی آئی لینن|
ایک ایسے عظیم فنکار کو انقلاب سے منسلک کر نا جسے یقینی طور پر اس نے نہیں سمجھا اور جس سے وہ دور ہی رہا، سرسری نظر میں عجیب اور مصنوعی بات معلوم ہو سکتی ہے۔ ایسا آئینہ جو چیزوں کی صحیح طور پر عکاسی نہیں کر تا اسے آئینہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ لیکن ہمارا انقلاب انتہا ئی پیچید ہ ہے۔ انقلا ب میں جو لوگ براہ راست حصہ لے رہے ہیں اور اس کے خالق ہیں، ان میں ایسے کئی سماجی عناصر بھی ہیں جو یہ نہیں جا نتے کہ ہو کیا رہا ہے اور ان حقیقی تاریخی فرائض سے الگ تھلگ کھڑ ے ہیں جن سے واقعات کی رونے انھیں دو چار کر دیا ہے اس لئے اگر ہمارے ہاں واقعی ایک عظیم فنکار ہے تو اسے اپنی تخلیقات میں انقلاب کے بنیادی پہلو ؤں کی ضرور عکاسی کرنی چاہئے۔
ٹالسٹائی کی80 ویں سالگرہ کے موقع پر قانونی روسی اخبارات اور رسالوں کے صفحات مضامین، خطوط اور تبصروں سے بھر ے پڑے ہیں۔ لیکن ان میں کسی نے بھی روسی انقلا ب کے کردار اور اس کی محرک قوتوں کے نقطہ نظر سے ٹالسٹائی کی تخلیقات کے تجزئیے پر قلم نہیں اٹھا یا۔ اس پریس کی گمبھیر ریاکاری سے گھن آتی ہے، اور یہ ریاکاری دو قسم کی ہے، سرکاری اور اعتدال پسند۔ پہلی ان بھاڑے کے ٹٹوؤں کی بھونڈی ریاکاری ہے جن کو کل یہ حکم ملا تھا کہ وہ لیو ٹالسٹائی کا تعاقب کریں اور آج یہ حکم ملا ہے کہ وہ ٹالسٹائی میں حب الوطنی تلاش کر یں اور یورپ کی نظروں میں شائستگی کا پابند دکھانے کی کوشش کریں۔ یہ حقیقت کہ اس قماش کے بھاڑے کے ٹٹوؤں کی اپنی طویل بکواس کے عوض جیبیں گرم کر دی گئی تھیں، سب کو معلوم ہے، اس سلسلے میں وہ کسی کو دھو کہ نہیں دے سکتے۔ لیکن اعتدال پسندوں کی ریا کا ری چونکہ کہیں زیا دہ نستعلیق ہے اس لئے کہیں زیا دہ مضر اور خطرنا ک بھی ہے۔ کیڈیٹوں کے اخبا ر ’’ریچ‘‘ کے باتونیوں کو سنئے توخیال ہو تا ہے کہ ٹالسٹائی کے ساتھ ان کی ہمدردی میں رتی بھرکمی نہیں اور وہ انتہائی پرجوش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’خداکے عظیم متلاشی‘‘ کے متعلق ان کے جذباتی بیان اور طمطراق کے جملے شروع سے آخر تک مصنوعی ہیں اس لئے کہ کوئی بھی روسی اعتدال پسند ٹالسٹائی کے خد ا کو نہیں مانتا اور نہ موجودہ سماج پر ٹالسٹائی کی تنقید سے اسے ہمدردی ہے۔ وہ ایک مقبول عام شخصیت سے اپنے آپ کو مربوط کر رہا ہے کہ اپنا سیاسی سرمایہ بڑھائے اور اپنی ذات کو ملک بھر کے حزب مخالف کا لیڈر ظاہر کرے۔ وہ اپنے جملوں کے شور اور گھن گرج میں اس سوال کے راست اور واضح جو اب کے مطالبے کو ڈبونا چاہتا ہے۔ ’’ٹالسٹائی ازم‘‘ میں جو نمایاں تضاد ہیں ان کی وجہ کیا ہے، وہ ہمارے انقلاب کی کون سی خامیاں اور کمزوریا ں ظاہر کرتے ہیں؟
ٹالسٹائی کی تصانیف، خیالات، اصولوں میں اور ان کے مکتبۂ خیال میں تضاد واقعی بہت نمایاں ہیں۔ ایک طرف ہمارے سامنے ایک ایسا عظیم فنکار ہے جس نے نہ صرف روسی زندگی کی بے نظیرتصویر کشی کی ہے بلکہ عالمی ادب کے خزانے میں بیش بہا اضا فہ بھی کیا ہے۔ دوسری طرف ہمارے سامنے ایک ایسا زمیندار ہے جس پر حضرت عیسیٰ کا وہم مسلط ہے۔ ایک جانب قابل تعریف، سخت، کھرے پن سے، صدق دل سے سماجی فریب اور ریاکا ری کے خلاف احتجاج ہے اور دوسری جانب ٹالسٹائی کا پژمردہ، جنونی ٹسوے بہانے والا چیلا ہے جس کو دوسرے الفاظ میں روسی دانشور کہتے ہیں، جو برسرعام سینہ کوبی کرتا ہے اور رو رو کر کہتا ہے؛ ’’میں پاجی ہوں، میں گنہگار ہوں لیکن اپنے اخلاق کو مکمل کرنے کی مشق کر رہا ہوں۔ اب میں گوشت بالکل نہیں کھاتا، بس دال چاول کی کھچڑی پر گزر کرتا ہوں۔‘‘ ایک طرف سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کی بے رحمی سے تنقید ہے، حکومت کی دست درازیوں، عدالتی ناٹکوں، ریاستی نظم ونسق کی پردہ داری ہے، دولت کی افزائش، تہذیب کی حاصلات اور غربت میں اضا فے، محنت کش لوگوں کی پستی اور بد حالی کے درمیان گہرے تضادات کا فاش کرنا ہے۔ دوسری طرف تشدد کے ذریعہ ’’بدی سے مزاحمت نہ کرنے‘‘ کا احمقا نہ وعظ بھی موجود ہے۔ ایک جانب انتہائی سنجیدہ حقیقت پسندی ہے، تمام اور ہر قسم کے نقاب نوچ ڈالے گئے ہیں، دوسری جانب دنیا میں ایک سب سے نفرت انگیز چیز یعنی کلیسائی مذ ہب کا وعظ دیا گیا ہے، یعنی سرکاری مقررشدہ پادریوں کی جگہ ایسے پادریوں کو رکھنے کی کو شش کی گئی ہے جو اپنے اخلاقی عقیدے کی بنیاد پر کام کریں، یعنی انتہائی شائستہ اور اس لئے خاص طور پر کریہہ کلیسائیت پیدا کرنے کی کوشش۔ تو اس کا مطلب واقعی یہ ہوا:
تو مفلس ہے پھر بھی مالا مال ہے
تو طاقتور ہے پھر بھی بے بس ہے
اے مادر وطن روس !
یہ حقیقت کہ ان تضادات کے سبب ٹالسٹائی مزدور تحریک اور اشتراکیت کی جدوجہد میں اس کے رول کو یا روسی انقلاب کو نہیں سمجھ سکے بالکل واضح ہے۔ لیکن ٹالسٹائی کے خیالات اور اصولوں میں تضاد اتفاقی نہیں ہیں، وہ انیسویں صدی کی آخری تہائی میں روسی زندگی کے متضاد حالات کا اظہار کرتے ہیں۔ پدرشاہی کا دیہا ت جسے ابھی ابھی کسان غلامی سے نجات ملی تھی، حقیقی معنوں میں سرمایہ لگانے کے لئے اور غارت گری کرنے کے لئے سرمایہ داروں اور ٹیکس جمع کرنے والوں کے حوالے کر دیا گیا۔ کسان معیشت اور کسان زندگی کی قدیم بنیادیں جو صدیوں سے قائم تھیں انتہا ئی تیزی سے منہدم ہوگئیں۔ اس لئے ٹالسٹائی کے خیالات کا جائزہ موجودہ مزدور تحریک اور موجودہ اشتراکیت (ایسا جائزہ ضروری تو ہے لیکن کافی نہیں ہے) کے نقطہ نظر سے نہیں لینا چاہئے بلکہ اس احتجا ج کے نقطہ نظر سے لینا چاہئے جو بڑھتی ہوئی سرمایہ داری کے خلاف تھا، ان تباہ ہونے والے لوگوں کی طرف سے احتجاج تھا جو زمین سے محروم کئے جارہے تھے، یہ احتجاج پدرشاہی کے روسی دیہات سے بلند ہو رہا تھا۔ ٹالسٹائی ایک ایسے پیغمبر کی حیثیت سے جس نے انسانیت کی نجات کے لئے کوئی نیا نسخہ دریافت کر لیا ہو مہمل نظر آتے ہیں۔ اس لئے غیر ملکی اور روسی ’’ٹالسٹائی کے چیلے‘‘ جو ٹالسٹائی کے نظریا ت کے سب سے کمزور پہلو کو عقیدے میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے بارے میں کچھ لکھنا وقت کا ضیاع ہے۔ ٹالسٹائی کی عظمت تب نظر آتی ہے جب وہ اس زمانے کے کروڑوں کسانوں کے خیالات اورجذبات کے نقیب بنتے ہیں جس وقت بورژوا انقلاب روس کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ ٹالسٹائی میں انو کھاپن اس لئے ہے کہ مجموعی طور پر ان کے خیالات بحیثیت کسان بورژوا انقلاب ہمارے انقلاب کی ممتاز خصوصیات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے ٹالسٹائی کے خیالات میں تضاد واقعی ان متضاد حالات کی آئینہ داری کرتے ہیں جن کے اندر رہ کر کسانوں کو ہمارے انقلاب میں تاریخی رول ادا کرنا تھا۔ ایک طرف تو صدیوں کی کسان غلامی کے ظلم وستم نے اور بعد از اصلاحات چند ہی دہائیوں میں تیزی سے بربادی نے کسانوں کے دل نفرت، ناراضگی اور بے دھڑک عزم سے بھر دئیے۔ یہ تمنا کہ سرکاری گرجا صفحۂ ہستی سے مٹ جائے اور اس کے ساتھ ہی زمیندار اور زمینداروں کی حکومت بھی، زمین کی ملکیت کی تمام پرانی شکلیں اور طریقے ختم ہوجائیں، زمین صاف ستھری ہو، پولیس والی طبقاتی ریاست کی جگہ آزاد اور مساوی چھوٹے کسانوں کی برادری قائم ہو، یہ تمنا کسانوں کے ہر اس تاریخی قدم کا بنیادی تصور ہے جسے کسان ہمارے انقلاب کی جانب بڑھاتے ہیں۔ چنانچہ خشک ’’عیسائی انارکزم‘‘ کے مقابلے میں جسے غلطی سے ٹالسٹائی کے خیالات کا ’’نظام‘‘ سمجھا جاتاہے، ان کی تصانیف کا نظریاتی مافیہ کسانوں کی اس تمناسے کہیں زیادہ مطابقت رکھتاہے۔
دوسری طرف کسان جو ایک نئی زندگی کی تمنا کر رہے تھے، نئی زندگی حاصل کرنے کی جدوجہد کے متعلق، اس جدوجہد کے رہنماؤں کے بورژوا دانشوروں کے رویے کے متعلق، زمینداری ختم کرنے کے لئے زارشاہی حکمرانی کا بذریعہ طاقت تختہ الٹنے کے بارے میں ان کا تصور بہت ہی غیرپختہ، پدرشاہی والا اور مضحکہ خیز تھا۔ کسانوں کو ان کے ماضی کی تمام زندگی نے زمینداروں اور سرکاری حکام سے نفرت کرنا تو سکھا دیا، لیکن یہ نہیں سکھایا، اورسکھا بھی نہیں سکتی تھی، کہ ان تمام سوالات کا جواب کہاں سے حاصل کیا جائے۔ ہمارے انقلاب میں کسانوں کا ایک چھوٹا سا حصہ جدوجہد کے مقصد کے پیش نظر کسی حد تک واقعی منظم ہو کر لڑا اور کسانوں کے ایک اور سب سے چھوٹے حصے نے اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کے لئے زار کے ملازموں اور زمینداروں کے محافظو ں کو تباہ کرنے کے لئے ہتھیار اٹھائے۔ لیکن کسانوں کی اکثریت آنسوبہاتی رہی اور دعائیں مانگتی رہی، سوچ بچار کرتی رہی اور خواب دیکھتی رہی، اس نے عرضیاں پیش کیں اور ’’سائل‘‘ بھیجے۔ ۔ ۔ اور یہ سب ٹالسٹائی کے خیالات کے مطابق تھا! جیسا کہ ہمیشہ ایسے معاملات میں ہوتا ہے، سیاست سے اس ٹالسٹایانہ پرہیز کا، سیاست سے اس ٹالسٹایانہ دست برداری کا، سیاست سے غیردلچسپی اور اسے نہ سمجھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف کسانوں کی اقلیت نے طبقاتی شعور رکھنے والے انقلابی پرولتاریہ کی رہنمائی قبول کی لیکن اکثریت بے اصولے، غلامانہ ذہنیت رکھنے والے بورژوا دانشوروں کا شکار ہو گئی۔ اور ان بورژوا دانشوروں کا بس کام یہ تھا کہ کیڈیٹوں کے نام سے ترودوویکوں کے جلسے سے بھاگ کر اسٹولی پن کے پیش کمرے میں آجائیں، وہاں گڑگڑائیں، سودے بازی کریں، مصالحت کریں اور مصالحت کرنے کا وعدہ کریں۔ ۔ ۔ اور آخر میں سپاہی کی لات انہیں باہر نکال دے۔ ٹالسٹائی کے خیالات ہماری کسان بغاوت کی کمزوری اور خامی کا آئینہ ہیں، وہ پدر شاہی والے دیہات کے عدم استقلال اور ’’کفایت شعار کسان‘‘ کی تنگ نظر بزدلی کی عکاسی کرتے ہیں۔
1905-06ء کی سپاہیوں کی بغاوت کو لیجئے۔ سماجی ساخت کے لحاظ سے جو لوگ اس انقلاب میں لڑے ان کا ایک حصہ کسان تھا اور دوسرا حصہ پرولتاری، پرولتاریہ اقلیت میں تھا۔ اس لئے سپاہیوں میں قومی پیمانے پر اتنی یکجہتی، اتنا پارٹی شعور اس کے قریب قریب بھی نظر نہیں آیا جس کا مظاہرہ پرولتاریہ نے کیا، جس نے جیسا کہ محض ہاتھ کے اشارے سے سوشل ڈیموکریسی قبول کرلی۔ اس خیال سے زیادہ اور کوئی بات غلط نہیں ہے کہ سپاہیوں کی بغاوت اس لئے ناکام رہی کہ افسروں نے ان کی رہنمائی نہیں کی۔ اس کے برعکس ’’نرودنایا وولیا‘‘ کے دور کے بعد اگر انقلاب نے زبردست ترقی کی تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ’’خاکی غول‘‘ اپنے افسروں کے خلاف ہتھیار لے کر اٹھ کھڑا ہوا، اور اس کی آزادئ عمل تھی جس نے اعتدال پسند زمینداروں اور اعتدال پسند افسروں کے حواس اڑا دئیے۔ کسانوں کے مقصد سے عام سپاہی کی پوری ہمدردی تھی، زمین کا لفظ سن کر ہی اس کی آنکھیں چمکنے لگتی تھیں۔ اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں جب مسلح افواج میں اختیارات سپاہیوں کے ہاتھ میں آگئے لیکن اختیارات کا فیصلہ کن استعمال مشکل ہی سے کیا گیا، سپاہی تذبذب میں رہے، دو دن کے بعد اور بعض وقت چند گھنٹوں کے اندر ہی کسی قابل نفرت افسر کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد باقی گرفتار شدہ افسران کو رہا کر دیا، حکام سے گفت و شنید شروع کی اور پھر فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا ہونا پڑا، یا کوڑوں کے لئے اپنی پیٹھیں ننگی کر دیں، یا دوبارہ طوق پہن لیا۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ ٹالسٹا ئی کے خیالات کے مطابق ہوا!
ٹالسٹائی نے کسانوں میں نفرت کی آگ، بہتر زندگی کی پختہ تمناؤں اور ماضی سے آزاد ہونے خواہش پید ا کی اور ساتھ ہی ان کے غیر پختہ خوابوں، سیا سی ناتجربے کاری اور انقلاب میں ڈھیلے پن کی عکاسی بھی کی۔ عوام کی انقلابی جدوجہد کی ناگزیر ابتدا اور ساتھ ہی جدوجہد کے لئے ان کی عدم تیاری، ٹالسٹائی کے رنگ میں بدی کی عدم مزاحمت جو پہلے انقلابی تحریک کی ناکامی کا ایک سب سے اہم ترین سبب تھا، ان دونوں پہلوؤں کی وضاحت تاریخی اور معاشی حالات کرتے ہیں۔
مثل مشہور ہے کہ ہاری ہوئی فوجیں اچھی طرح سیکھتی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ بہت محدود معنوں میں ہی انقلابی طبقوں کا فوجوں سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ہرلمحے سرمایہ داری کا ارتقا ان حالا ت کو بد ل رہا ہے اور ان میں شدت پید ا کر رہا ہے، جنھوں نے کروڑوں کسانوں کو، جو جاگیردارانہ زمینداروں اور ان کی حکو مت کے خلاف نفر ت کا جذبہ رکھتے ہیں، انقلابی جمہوری جدوجہد کے واسطے بیدار کیا۔ خود کسانوں میں تبادلے، منڈی کے تسلط اور زر کی قوت بڑھنے کے سبب پدرشاہی کی دقیانوسیت اور پدرشاہی کے ٹالسٹایانہ نظریات کا اثر مسلسل کم ہوتا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انقلاب کے پہلے برسوں سے، عوام کی انقلابی جدوجہد میں پہلی ناکامیابیوں سے ایک فائدہ بھی ہوا ہے؛ انہوں نے عوام کی پچھلی نرمی اور ڈھیلے پن پرکاری ضرب لگائی ہے۔ حد بندی کے خطوط اب زیا دہ واضح ہو گئے ہیں۔ طبقات اور پارٹیوں کی حدود کا تعین ہو گیا ہے۔ اسٹولی پن کے سکھا ئے ہو ئے اسباق کے تازیانوں سے اور انقلابی سوشل ڈیمو کریٹوں کے ثابت قدم اور سر گرم پر چار سے نہ صرف اشتراکی پرولتاریہ بلکہ جمہوری کسان بھی اپنی صفوں سے ناگزیر طور پر زیا دہ سے زیا دہ ایسے پختہ کار مجاہد پید ا کر یں گے جو ہمارے ٹالسٹائی ازم کے تاریخی گناہ کے کم مرتکب ہوں گے۔
(’’پر ولتاری‘‘ شمارہ 35، 11ستمبر 1908 ء، لینن کا مجموعہ تصانیف، پانچواں روسی ایڈیشن جلد، صفحات 206-213)