لینن اور خواتین کا سوال

|تحریر: سلمیٰ ناظر|

لینن انقلاب روس کا قائد اور معمار تھا۔ اس کی پوری زندگی آج کے انقلابیوں کے لیے مشعل ِراہ ہے۔ لینن نے زندگی بھر جس طرح زار شاہی جبر کے کٹھن حالات میں انقلابی پارٹی تعمیر کی اور کمیونزم کے انقلابی نظریات کا ہر قیمت پر دفاع کیا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ لینن کی زندگی کا مطالعہ جہاں پارٹی کی تعمیر، فلسفہ، تاریخ اور سیاست کا علم اور انقلابی جوش و ولولہ فراہم کرتا ہے وہاں محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ سماج کے تمام مظلوم حصوں تک پارٹی کے پیغام کو پہنچانا اور انہیں انقلابی تحریک میں جوڑنے کا درس دیتا ہے۔ لینن نے جہاں مظلوم قومیتوں، مذہبی اقلیتوں اور دیگر پرتوں کے حوالے سے انقلابی سیاست کا رخ متعین کیا وہاں خواتین کی سماجی غلامی سے نجات کی جدوجہد کے لیے بھی لینن کے نظریات اور اس کا طریقہ کار آج بھی مشعل ِراہ ہیں۔ خاص طور پر روس میں سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کے بعد جس طرح خواتین کو وہاں پر سرمایہ دارانہ دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ حقوق ملے اور وہ مزدور ریاست کی تعمیر اور اس کے دفاع میں پُر جوش انداز میں سرگرم رہیں،وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انقلاب سے پہلے اور بعد میں ہر موقع پر لینن خواتین کی انقلابی کام میں شمولیت پر زور دیتا رہا اور خواتین کے سوال کو جس طرح مذہبی بنیاد پرستوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کے مقابلے میں کمیونسٹ بنیادوں پر پیش کیااور پھر اسے حل کیا وہ آج کی جدوجہد کے لیے انتہائی اہم ہے۔ انقلاب کے بعد لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں قائم ہونے والی کمیونسٹ انٹرنیشنل میں بھی اس سوال پر خصوصی توجہ دی گئی اور اس کا واضح لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ در حقیقت روس کے 1917ء کے انقلاب کی کامیابی کا سب سے بڑا پیمانہ ہی یہ نظر آتا ہے کہ اس کے بعد کیسے عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق ملے اور وہ سماجی زندگی میں بھرپور کردار ادا کرنے کے قابل ہوئیں۔

بالشویک پارٹی اور خواتین

اپنی انقلابی زندگی کی ابتدا ہی سے لینن نے مزدور اور کسان عورتوں کی حالت پر اور انہیں مزدور تحریک میں شامل کرنے پر خاص توجہ دی۔ لینن نے عملی انقلابی کام سینٹ پیٹرزبرگ میں شروع کیا تھا جہاں اس نے سوشل ڈیموکریٹوں کے ایک گروپ کو منظم کیا۔ اپنی عملی سرگرمیوں کے دوران لینن نے عام طور پر محنت کش عورتوں یعنی مزدور اور کسان عورتوں کی نجات کے بارے میں اکثر لکھا اور تقریریں کیں۔ لینن نے فیکٹری کی مزدور عورتوں اور دستکار عورتوں کی زندگی اور محنت کے حالات کا غور سے مطالعہ کیا۔ لینن نے جب اپنی عملی انقلابی زندگی کا آغاز کیا تو اس وقت مزدور تحریک اور انقلابی سیاست میں خواتین کی شمولیت بہت کم تھی اور خواتین کی اکثریت گھریلو غلامی اور دیہی زندگی کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ خواتین کو کام کی بہت کم اجرت ملتی تھی اور ان کے حقوق ا علانیہ طور پر کچلے جاتے تھے۔ لینن نے ان تمام مسائل کا عورتوں کی محنت کے نقطہ ِنظر سے بھی مطالعہ کیا۔ لینن کے مضامین اور تقریروں کے مجموعے پر مشتمل ایک کتاب ”لینن، عورتوں کی نجات“ کے پیش لفظ میں انقلابی جدوجہد میں لینن کی ساتھی اور شریک حیات کامریڈ نادیژدا کروپسکایا لکھتی ہیں:

”اپنی کتاب ’روس میں سرمایہ داری کا ارتقا‘ میں لینن نے بیان کیا ہے کہ مویشیوں کو پالنے والے مالک کس طرح کسان عورتوں کو لوٹتے کھسوٹتے ہیں، تاجر کیسے جھالر بُننے والیوں کی محنت کا استحصال کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ بڑے پیمانے کی صنعت عورتوں کو نجات دلاتی ہے اور کارخانے میں کام کرنے سے ان کے ذہنی افق وسیع ہوتے ہیں، وہ زیادہ مہذب اور آزاد ہو جاتی ہیں اور اس سے انہیں پدرشاہی زندگی کی بیڑیاں توڑنے میں مدد ملتی ہے۔ بڑے پیمانے پر صنعت کی ترقی عورتوں کی مکمل نجات کے لیے بنیاد قائم کرے گی۔“

لینن کا اس حقیقت پر یقین غیر متزلزل تھا کہ عورتوں کی نجات مزدوروں کے نصب العین اور کمیونزم کی پوری جدوجہد کے ساتھ اٹوٹ طور پر جڑی ہوئی ہے۔ کروپسکایا لکھتی ہیں:

”1899ء میں جب لینن جلا وطنی میں تھے تو انہوں نے پارٹی تنظیم (پہلی پارٹی کانگریس 1898ء میں منعقد ہوئی تھی) سے اپنی خط و کتابت میں ان موضوعات کا ذکر کیا جن پر وہ غیر قانونی پریس میں لکھنا چاہتے تھے۔ ان میں یہ کتابچہ بھی شامل تھا ’عورتیں اور مزدوروں کا نصب العین‘، اس کتابچے میں لینن مزدور عورتوں اور کسان عورتوں کی حالت بیان کرنا چاہتے تھے اور یہ دکھانا چاہتے تھے کہ عورتوں کی نجات کا واحد راستہ انقلابی تحریک میں ان کی شرکت ہے اور صرف مزدور طبقے کی فتح کے بعد ہی مزدور اور کسان عورتیں نجات حاصل کر سکتی ہیں۔“ (ایضاً)

1901ء میں اوبوخوف دفاع (8 مئی 1901ء کو سینٹ پیٹرزبرگ میں اوبوخوف نامی کارخانے کے مزدوروں نے پولیس اور فوج کے خلاف اپنے مطالبات کے لیے بہت بہادری سے جدوجہد کی۔ مزدوروں کو اس لڑائی میں انہیں فیکٹری مالکان اور زار شاہی کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ اوبوخوف دفاع کی روس کی مزدور تحریک میں بڑی اہمیت ہے۔ اسی سے مزدور طبقے کی سیاسی جدوجہد کی ابتداء ہوئی) میں عورتوں کی شرکت کے سلسلے میں اور عدالت میں نوجوان مزدور عورت مارفا یاکوفلیوا کی تقریر کے متعلق لینن نے لکھا:

”ہمارے ان بہادر رفیقوں کی یاد، جنہیں اذیتیں دے کر جیل میں قتل کیا گیا، نئے مجاہدوں کی قوت میں کئی گنا اضافہ کرے گی اور ان کی حمایت میں ہزاروں لوگوں کو متحد ہونے پر ابھارے گی اور اٹھارہ سالہ مارفا یاکوفیلوا کی طرح وہ علی الاعلان کہیں گے: ”ہم اپنے بھائیوں کے ساتھ ہیں!“۔ مظاہروں میں حصہ لینے والوں کے خلاف پولیس اور فوج کی انتقامی کاروائی کے علاوہ حکومت بغاوت میں شرکت کرنے کے سلسلے میں ان پر مقدمہ چلانا چاہتی ہے۔ ہم اپنی تمام انقلابی قوتیں جمع کر کے اور ان تمام لوگوں کو اپنا حامی بنا کر، جو زار شاہی کے ظلم کا شکار ہیں، تمام عوام کی مسلح بغاوت کی باقاعدہ تیاری کر کے اس کا جواب دیں گے۔“ (لینن کے مضمون ”قید بامشقت کے ضوابط اور قید بامشقت کی عدالتی سزا“ سے اقتباس)

لینن کو ہم محنت کش طبقے کے رہنما، بالشویک پارٹی اور سوویت حکومت کے معمار اور سوشلسٹ انقلاب کے لیڈر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ ہر مزدور عورت کو اور ہر کسان عورت کو صرف اس علم تک محدود نہیں رہنا چاہیے کہ لینن نے محنت کش عورتوں کی حیثیت اور ان کی نجات کے متعلق کیا کہا، بلکہ لینن نے جو سب کچھ کیا، اس کے کام کے ہر پہلو کے بارے میں اسے جاننے کی ضرورت ہے کیونکہ مزدور طبقے کی پوری جدوجہد اور عورتوں کی حالت بہتر کرنے کے درمیان انتہائی قریبی تعلق ہے۔

سوشلسٹ انقلاب کے بعد خواتین

کمیونسٹ انٹرنیشنل کی دوسری کانگریس کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے لینن نے بتایا کہ:

”یہ کانگریس عورتوں کی کمیونسٹ تحریک کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط کرے گی۔“

2دسمبر 1920ء کو منعقد ہونے والی کل روسی کانگریس سے (جس میں لینن شرکت نہیں کر سکے تھے) سے بذریعہ فون خطاب کرتے ہوئے کہا:

”رفیقو! مجھے انتہائی افسوس ہے کہ میں آپ کی کانگریس میں شریک نہیں ہو سکتا۔ مہربانی فرما کر میری جانب سے حصہ لینے والی تمام عورتوں اور مردوں کو پُر خلوص تہنیت اور کامیابی کی بہترین تمنائیں پہنچائیے۔ اب جب جنگ ختم ہو گئی ہے اور پُر امن تنظیمی کام، مجھے امید ہے کہ طویل مدت تک کے لیے، ہمارے سامنے ہے۔ پارٹی اور حکومت کے کام میں عورتوں کی شرکت نے زبردست اہمیت اختیار کر لی ہے۔ اس کام میں عورتوں کو رہنمائی کا کردار ادا کرنا چاہیے اور وہ یقینی طور پر ادا کریں گی۔“

اکتوبر 1932ء میں سوویت اقتدار کی پندرہویں سالگرہ منائی گئی اور تمام محاذوں پر سوویت اقتدار کی حاصلات کا خلاصہ پیش کیا گیا، جن میں عورتوں کی نجات کا محاذ بھی شامل تھا۔ عورتوں کی نمائندہ کانفرنسیں معاشرتی کام کے سکول کی حیثیت اختیار کر چکی تھیں۔ 10 سالوں میں تقریباً ایک کروڑ نمائندہ عورتوں نے اس سکول سے تربیت حاصل کی۔ اکتوبر انقلاب کی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر دیہی سوویتوں، ضلعی کمیٹیوں اور شہری سوویتوں کے ارکان میں 20 سے 25 فیصد عورتیں شامل تھیں۔ کل روسی مرکزی انتظامیہ کمیٹی اور مرکزی انتظامیہ کمیٹی کی 186 عورتیں ممبر تھیں۔ اس کام میں ان کی سطح بلند تر ہو چکی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت میں بھی عورتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی۔ 1922ء میں جب لینن زندہ تھا، ان کی تعداد صرف 40 ہزار تھی اور اکتوبر 1932ء میں یہ تعداد 5 لاکھ سے بھی بڑھ چکی تھی۔

کامریڈ کلارا لینن کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں ان الفاظ میں بالشویک پارٹی کا ذکر کرتی ہیں:

”جہاں تک بالشویک پارٹی میں عورتوں کے رتبے اور سرگرمیوں کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ ایک مثالی پارٹی ہے۔ در حقیقت مثالی پارٹی۔ اسی نے عورتوں کی بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کو قیمتی، تربیت یافتہ اور تجربہ کار قوتیں فراہم کیں اور تاریخ کے لیے عظیم مثال پیش کی۔“

کمیونسٹ پارٹی میں خواتین سوویتوں، انتظامی کمیٹیوں اور عوامی دفاتر میں اہم ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھیں۔ ان میں اکثر دن رات پارٹی میں، کسانوں، مزدوروں یا سرخ فوج میں کام کر رہی تھیں۔ یہ تمام دنیا کی عورتوں کے لیے، جو روس کے انقلاب کو دیکھ رہی تھیں، بہت اہم تھا، کیونکہ اس سے عورتوں کی صلاحیتوں اور معاشرے کے لیے جو کام وہ کر رہی تھیں اس کا ثبوت مل رہا تھا۔ بالشویک پارٹی پہلی ایسی پارٹی تھی جس نے صحیح معنوں میں عورتوں کی مکمل معاشرتی مساوات کے لیے راہ ہموار کر دی تھی۔ ایک عورت جو کمیونسٹ تھی اسی طرح پارٹی کی ممبر تھی جس طرح ایک مرد کمیونسٹ ممبر تھا۔ ان کے حقوق اور فرائض یکساں تھے۔ لینن نے پارٹی میں کام کے گروپ، کمیشن، کمیٹیاں، شعبے، یا جو بھی انہیں نام دیا جائے، کے مخصوص ادارے تشکیل دینے پر زور دیا۔ ان اداروں کا مقصد عام عورتوں کو بیدار کرنا، انہیں پارٹی کے قریب لانا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے لینن نے باقاعدہ خواتین میں کام کرنے کی تلقین کی۔ لینن نے کہا:

”ہمیں بیدار عورتوں کو تعلیم دینا ہو گی، کمیونسٹ پارٹی کی زیر قیادت پرولتاری طبقاتی جدوجہد کا حامی بنانا ہو گا اور اس کے لیے انہیں تیار کرنا پڑے گا۔ جب میں یہ کہتا ہوں تو میرے ذہن میں صرف پرولتاری عورتیں نہیں ہوتیں خواہ وہ کارخانوں میں کام کرتی ہوں یا خاندان کے لیے کھانا پکاتی ہوں۔ میرے ذہن میں کسان عورتیں بھی ہوتی ہیں اور وہ عورتیں بھی جن کا تعلق نچلے درمیانے طبقے کے مختلف حصوں سے ہے۔ وہ سرمایہ داری کا شکار ہیں اور جنگ شروع ہونے کے بعد سے تو اور بھی زیادہ۔ عام عورتوں کی سیاست میں عدم دلچسپی اور ان کی معاشرت دشمن اور پسماندہ ذہنیت، ان کی سرگرمیوں کا محدود دائرہ اور ان کی زندگی کا پورا ڈھب، ناقابلِ انکار حقائق ہیں۔ انہیں نظر انداز کرنا حماقت ہو گی، سراسر حماقت۔ ان میں کام کرنے کے لیے ہمارے گروپ ہونے چاہییں، ایجی ٹیشن کے خاص طریقے اور تنظیم کی خاص شکلیں۔ یہ بورژوا ”تحریک نسواں“ نہیں ہے۔ یہ عملی انقلابی ضرورت ہے۔“

لینن نے کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کے تعلق کو واضح کیا کہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کا تعلق ہمارے خاص مقصد سے ہونا چاہیے، یعنی اقتدار کے حصول اور پرولتاریہ کی آمریت کے قیام سے۔ یہ واضح ہے، بالکل واضح! لینن نے وضاحت کی کہ اگر ہم صرف ریاستی اقتدار کی رٹ لگاتے رہے تو عام محنت کش عورتیں اس کی جدوجہد میں شریک ہونے کی خواہش محسوس نہیں کریں گی۔ ہمیں عام عورتوں کے شعور میں ان کے مصائب، ضروریات اور خواہشات کو اپنی سیاسی اپیل سے جوڑنا ہو گا۔ خواتین شعوری طور پر اس کا ادراک حاصل کریں کہ مردوں کے ساتھ حقوق کی مکمل مساوات قانونی اور عملی دونوں لحاظ سے، خاندان میں، ریاست میں، معاشرے میں اور بورژوا نظام کے خاتمے کے لحاظ سے پرولتاریہ کی آمریت ان کے لیے کیا ہو گی۔ عام عورتوں کو تیار کرنے کا کام، جو اصولوں کی واضح سوجھ بوجھ کی روشنی میں اور مضبوط تنظیمی بنیاد پر ہو، کمیونسٹ پارٹیوں کے وجود اور ان کی کامیابیوں کے لیے بنیادی سوال ہے۔

عورتوں میں ہمارے کمیونسٹ کام اور عام طور پر ہمارے سیاسی کام کا مطلب مردوں میں کافی تعلیمی کام بھی ہے۔ یہ ہمارا سیاسی فریضہ ہے، اس اشد ضروری فریضے کی طرح جیسے کہ مردوں اور عورتوں پر مشتمل ایک ہیڈ کوارٹر کی تشکیل جنہیں محنت کش عورتوں میں پارٹی کے کام کے لیے کافی نظریاتی اور عملی کام کی تربیت حاصل ہو۔

کمیونزم کی کونپلیں

روسی انقلاب کے نتیجے میں جو حاصلات ہوئیں انہوں نے بنی نوع انسان کو اور روس کے معاشرے کو ایک ایسی زندگی دی جس کا اس سے پہلے پوری انسانی معاشرتی تاریخ میں تجربہ نہیں کیا گیا تھا۔ ہر انسان کے لیے صحت، تعلیم، روزگار، رہائش اور انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات کی ہر سطح پر مفت اور معیاری فراہمی مزدور ریاست کی ذمہ داری تھی۔ تمام قدرتی وسائل، بڑی صنعتیں، بینکاری اور مالیاتی اثاثے محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لے کے مٹھی بھر اشرافیہ کی منافع خوری کی بجائے عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جانے لگے تھے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود محض 30 سالوں میں روس ایک پسماندہ اور رجعتی ترین سماج سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور فوجی طاقت بن چکا تھا۔ 50 سالوں میں روس کا GDP نو گنا تک بڑھ گیا تھا۔ 1979ء تک یہ امریکہ کے GDP کے 58 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔

حاملہ خاتون کو تین ماہ تک پوری اجرت کے ساتھ اور تین سال تک آدھی اجرت کے ساتھ زچگی کی چھٹیاں دی جاتی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ حاملہ خاتون یا جس نے حال ہی میں بچے کو جنم دیا ہو، اس کے لیے رات کے وقت کام کرنے کی ممانعت تھی۔ اوقات کار، جو پہلے زار شاہی میں 18 گھنٹوں کے دورانیے پر مشتمل تھے، کو کم کر کے آٹھ گھنٹے کر دیا گیا۔ اس میں ایک اہم امر یہ بھی ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے بعد صنفی تفریق کا خاتمہ کر کے خواتین کو بھی ان کے کام کی مردوں کے برابر اجرت دی جانے لگی اور صنفی جبر کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے جنسی جبر کا بھی مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ انقلاب کے بعد روس میں خواتین کا گھریلو بوجھ ختم کرنے کے لیے گھریلو کام کو سماجی کام کی حیثیت میں بدل دیا گیا۔ اس کے لیے کامن کچن بنائے گئے، کپڑے دھونے کے لیے کامن لانڈریاں بنائی گئیں، بچوں کی نگہداشت کے لیے نرسریاں اور ڈے کیئر سنٹر تعمیر کیے گئے۔ 1927ء سے 1932ء تک ان نرسریوں کی تعداد 2155 سے 19611 تک پہنچ گئی تھی جو 1960ء تک مزید بڑھ کر 4 لاکھ کی تعداد تک پہنچ گئی اور 1976ء تک یہ تعداد 12 لاکھ ہو چکی تھی۔ جب کوئی لڑکا یا لڑکی اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ جاتے تو انہیں بلا صنفی تفریق حکومت کی جانب سے رہنے کے لیے گھر دے دیا جاتا جہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکتے تھے۔ انقلاب کے بعد روس میں خواتین کی اوسط عمر 1970ء تک 74 سال کی عمر تک پہنچ چکی تھی جبکہ زار شاہی کے دور میں اس کی شرح 30 سال کی عمر تک محدود تھی۔ بچوں کی شرح اموات میں نوے فیصد تک کمی ہوئی تھی۔ اگر تعلیم کے شعبے کی بات کریں تو اس میں بھی قلیل وقت میں ہی حیران کن حد تک ترقی حاصل کی گئی تھی۔ سب سے پہلے تو تمام نجی تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کیا گیا اور ہر کسی کے لیے ہر سطح پر تعلیم کا حصول بالکل مفت قرار پایا اور سکول جانے والے بچوں کے لیے حکومت کی جانب سے وظیفے مقرر کیے گئے کیونکہ تعلیم فراہم کرنا مزدور حکومت کی ذمہ داری تھی۔ سیکنڈری سطح پر سکولوں کی بات کی جائے تو یہ 1926ء میں 10 فیصد سے 1939ء میں 65 فیصد اور 1958ء میں 97 فیصد تک پہنچ چکے تھے۔ اعلیٰ سطح کی تعلیم میں خواتین کی شرکت 1927ء میں 28 فیصد سے بڑھ کر 1960ء میں 43 فیصد اور 1970ء میں 49 فیصد بڑھ گئی تھی۔ جبکہ امریکہ، سویڈن، فرانس اور فن لینڈ میں اس وقت اعلیٰ تعلیم میں خواتین کی شرح 40 فیصد تھی۔

1950ء میں روس میں 600 خواتین سائنس کے شعبے میں کام کر رہی تھیں اور 1984ء تک یہ تعداد 5600 تک تجاوز کر چکی تھی۔ اسی طرح بہت سی خواتین تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی تھیں۔ خواتین کی بڑی تعداد ریسرچ اور انڈسٹریل انجینئرنگ کے شعبے سے بھی منسلک تھی۔ 1959ء میں ایک تہائی خواتین امتیازی شعبوں میں کام کر رہی تھیں جبکہ 1970ء میں یہ اعداد و شمار 55 فیصد تک پہنچ گئے تھے۔ اس کے ساتھ 98 فیصد نرسیں خواتین تھیں، 75 فیصد اساتذہ تھیں، 95 فیصد لائبریرین تھیں اور 75 فیصد ڈاکٹر تھیں۔ دنیا میں سب سے پہلے خلا میں جانے والی خاتون ویلنٹینا کا تعلق بھی روس سے ہی تھا جو 16 جون 1963ء کو خلا میں داخل ہوئی۔ انقلاب کے بعد روس دنیا کے ان چند ممالک میں شامل تھا جہاں خواتین کو ووٹ کا حق حاصل تھا۔ خواتین کی سیاسی اور معاشی میدان میں تربیت کی گئی تاکہ وہ سماج کو چلانے میں اپنا کردار بخوبی طور پر نبھا سکیں۔ روس میں سوویتوں میں بھی خواتین بڑی تعداد میں اہم ذمہ داریاں نبھا رہی تھیں۔

خواتین کی صورتحال کو کسی بھی سماج کے ثقافتی ارتقا سے ماپا جاتا ہے۔ جس طرح کامریڈ لینن لکھتے ہیں کہ: ”یہ کہا جاتا ہے کہ ثقافتی سطح کا بہترین معیار عورتوں کا قانونی درجہ ہے۔ اس مقولے میں جامع صداقت کا ایک پہلو ہے۔ ان معنوں میں صرف پرولتاریہ کی آمریت، صرف اشتراکی ریاست بلند ترین ثقافتی سطح تک پہنچ سکتی ہے اور وہ پہنچ گئی ہے۔“ کیونکہ سوشلسٹ انقلاب کی بدولت ایسا پہلی بار ممکن ہوا تھا کہ خواتین سیاست، ثقافت، تعلیم الغرض زندگی کے ہر شعبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں اور معاشرے کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔ لینن نے ان تمام حاصلات کو ”کمیونزم کی کونپلیں“ قرار دیا ہے۔

جبکہ باقی انتہائی ترقی پسند سرمایہ دارانہ ممالک میں کئی دہائیوں میں اس کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کیا گیا تھا جو سوویت حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی سال میں حاصل کر لیا تھا۔ خواتین کو گھریلو غلامی کی ذلالت اور محکومی سے نجات ملی، اس سے پہلے وہ باورچی خانے اور بچوں کے کمرے کے ابدی بے سود کام کی ذہن سُن کرنے والی غلامی میں جکڑی ہوئی تھیں۔ لینن نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ عورت کی سچی نجات اور اصلی کمیونزم صرف اس وقت اور وہاں شروع ہو گا جب اس گھٹیا گھریلو معیشت کے خلاف تمام محاذ پر جدوجہد شروع کی جائے گی یا جب یہ معیشت مکمل طور پر وسیع پیمانے پر بڑی اشتراکی معیشت میں بدلنا شروع ہو جائے گی۔ اس مقصد کے لیے لینن نے کمیونزم کی کونپلوں کی پرورش کرنے، ان کی حفاظت کرنے کی خاطر انہیں وسیع اور بلند سطح پر پھیلانے اور ان کی تشہیر کرنے پر زور دیا۔ لینن نے اس ضمن میں کہا:

”مثالی پیداوار، ہر سیر اناج کے حصول اور تقسیم میں مثالی فکر اور مثالی طعام خانوں، فلاں مزدور کے گھر یا بستی کی مثالی صفائی پر ہماری اخباروں اور مزدوروں اور کسانوں کی ہر تنظیم میں بھی اس سے دس گنا زیادہ توجہ دینی چاہیے جتنی کہ اس وقت دی جا رہی ہے۔ یہ سب کمیونزم کی کونپلیں ہیں اور انہیں پروان چڑھانا ہمارا مشترکہ اور اولین فریضہ ہے۔“

”سرمایہ دار طبقے کو دیکھیے۔ جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے اس کا اشتہار نکالنا وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں! ان کے اخبار لاکھوں کی تعداد میں ان کاروباری اداروں کی تعریف میں آسمان اور زمین کے قلابے ملاتے ہیں جنہیں سرمایہ دار ”مثالی“ تصور کرتے ہیں اور کس طرح کسی ”مثالی“ بورژوا ادارے کو قومی وقار کا موضوع بنایا جاتا ہے! ہمارا پریس (کمیونسٹ سبوتنک) کبھی یہ تکلیف گوارا نہیں کرتا، یا مشکل سے کبھی کبھار بہترین طعام خانوں یا نرسریوں کی بابت لکھتا ہے کہ ہر روز دہرانے سے ان میں سے چند اپنے قسم کی مثالیں بن جائیں۔ ہمارے پریس میں ان کی کافی تشہیر نہیں کی جاتی، نہ تفصیل سے یہ بتایا جاتا ہے کہ انسانی محنت کی کفایت کس طرح کی جا رہی ہے، صارفوں کو کیا آسانیاں فراہم ہیں، غذائی اشیا میں کیسے بچت ہو رہی ہے، عورتیں گھریلو غلامی سے کس طرح نجات پا رہی ہیں، صفائی کے حالات کیسے بہتر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب مثالی حاصلات کمیونسٹ کام کے ذریعے ہو رہی ہیں اور جو حاصل ہو سکتا ہے اس کا اطلاق تمام معاشرے پر، تمام محنت کش لوگوں پر ہونا چاہیے۔ اس عام پس ِمنظر میں اور پرولتاری ریاست کی امداد سے کمیونزم کی کونپلیں نہیں مرجھائیں گی، وہ مکمل کمیونزم کی شکل میں پروان چڑھیں گی اور بہار پر آئیں گی۔“ اور اس کا انجام کمیونزم کی مکمل کامرانی پر ہو گا۔

خواتین اور سیاست

”ہمارا فریضہ ہے کہ ہر محنت کش عورت کی پہنچ سیاست تک ہو۔“ (لینن)

عورت کی سیاسی حیثیت کے سوال کو شروع دن سے ہی لینن نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ بورژوا قوانین نے عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم حیثیت دی ہے۔ لینن نے وضاحت کی کہ جہاں بھی سرمایہ داری ہے، جہاں کہیں بھی زمین کی نجی ملکیت اور فیکٹریوں کی نجی ملکیت ہے، جہاں بھی سرمائے کی طاقت ہے، وہاں مردوں کی مراعات برقرار رہتی ہیں اور عورت کی کمزور حیثیت سے فائدہ اٹھا کر اس کو نیچا اور ذلیل کیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے کا یہ تقاضا ہے کہ سیاست میں حصہ لینے کے لیے آدمی خاص طور پر تربیت یافتہ ہو، اسی لیے انتہائی ترقی یافتہ اور سرمایہ دار ملکوں میں بھی عورتوں کو ایسی نیچی حیثیت میں رکھا جاتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں سیاست میں ان کی شرکت بہت ہی حقیر ہوتی ہے۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے محنت کشوں کا اقتدار قائم کرنا ضروری ہے۔ 23 ستمبر 1919ء کو مزدور عورتوں کی منعقد ہونے والی ماسکو کی چوتھی شہری غیر پارٹی کانفرنس میں لینن نے خطاب کرتے ہوئے کہا:

”پرانے بورژوا معاشرے میں سیاسی سرگرمیوں کے لیے شدید پیچیدہ تربیت کی ضرورت تھی اور اس تربیت تک عورتوں کی پہنچ نہیں تھی۔ لیکن سوویت رپبلک کی سیاسی سرگرمی کا مقصد زمینداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد اور استحصال ختم کرنے کے لیے لڑنا ہے۔ اس سے سوویت رپبلک کی محنت کش عورتوں کے لیے سیاسی سرگرمی کا میدان کھل جاتا ہے جو اس پر مشتمل ہو گی کہ عورتیں اپنی تنظیمی قابلیت کو مردوں کی مدد کے لیے استعمال کریں۔“

لینن سمجھتا تھا کہ سماجی کام حکومت کا فن سکھاتے ہیں۔ 1916ء سے 1917ء کے عرصے میں جب لینن نے محسوس کیا کہ پارٹی کی تعمیر میں خواتین کے کام میں مزید بہتری آنی چاہیے تو اس نے عورتوں کو معاشرتی کام میں شامل کرنے اور انہیں معاشرے کے مجموعی مفاد میں کام کرنے کے قابل بنانے کی ضرورت پر خاص طور پر زور دیا۔ لینن نے اُس دور میں جو مضامین لکھے، ان میں سے آٹھ اس موضوع سے بحث کرتے ہیں جسے اس نے اشتراکیت میں نئے خطوط پر معاشرتی زندگی کو منظم کرنے کی ضرورت سے مربوط کیا ہے۔ لینن سمجھتا تھا کہ انتہائی پسماندہ پرتوں میں موجود عورتوں کو ملک کی حکمرانی میں شرکت کرانے اور معاشرتی کام کے حقیقی عمل کے دوران عوام کی از سر نو تعلیم کی ضرورت کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔

محنت کش عورتوں کے عالمی دن کے موقع پہ اپنی تقریر میں عورتوں کو سیاست میں شامل کرنے کی اہمیت و ضرورت پر بات کرتے ہوئے لینن نے کہا:

”عوام کو اس وقت تک سیاست میں شامل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ عورتوں کو بھی اس میں شریک نہ کیا جائے، کیونکہ انسانوں کی یہ آدھی آبادی یعنی عورتیں تو سرمایہ داری میں دوہرے ظلم کا شکار ہوتی ہیں۔ محنت کش اور کسان عورت سرمایہ کے بوجھ تلے پستی ہے اور اس سے بڑھ کر اوّل یہ کہ سب سے زیادہ جمہوری بورژوا رپبلکوں میں بھی انہیں پورے حقوق نہیں ملتے کیونکہ قانون انہیں مردوں کے برابر حقوق نہیں دیتا۔ پھر دوسرا ظلم یہ ہے اور یہی خاص ظلم ہے کہ عورتیں ”گھریلو غلامی“ میں ”گھر کی غلام“ بن کر رہتی ہیں۔ باورچی خانے میں اور الگ تھلگ گھر داری کی سب سے غلیظ اور کمر توڑ مشقت، نکمے بوجھ تلے وہ دبی رہتی ہیں۔“

گھر کے کام کاج سے بندھے ہونے کے سبب عورتوں کی حیثیت کم تر رہتی ہے۔ عورتوں کی مکمل آزادی کے حصول اور ان کو مردوں کے مساوی بنانے کے لیے لینن نے گھریلو کام کو معاشرتی خدمات بنانے اور عورتوں کو عام پیداواری محنت میں شامل کرنے پر زور دیا ہے۔ یہ اور صرف یہی ایک ایسا قدم ہے جو عورت ذات کی مکمل اور نتیجہ خیز نجات کی راہ کھولتا ہے۔ کیونکہ اس کی بدولت عورت ”گھر کی غلامی“ سے نجات پاتی ہے اور یہ چھوٹے گھٹیا قسم کے انفرادی گھریلو دھندوں کی جگہ بڑے پیمانے کی معاشرتی معیشت میں عبور کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔

انقلاب کو بچانے میں خواتین کا کردار

”بورژوا ملک جتنا ”زیادہ آزاد“ ہونے کا دعوی کرتا ہے، وہ جتنا زیادہ ”جمہوری“ بنتا ہے اتنی ہی زیادہ شدت سے سرمایہ داروں کا ٹولہ مزدوروں کے انقلاب کے خلاف آپے سے باہر ہوتا ہے۔“ (لینن)

انقلاب کے بعد سوویت حکومت جہاں ایک طرف کار ہائے نمایاں سر انجام دے رہی تھی، تو دوسری جانب یہ مشکلات سے بھی دوچار تھی۔ کیونکہ روس کے سوشلسٹ انقلاب کے شعلے دوسرے کئی ملکوں میں بھڑکنے لگے تھے اور سوشلسٹ انقلاب کی جانب اُن ملکوں کے محنت کشوں کے فیصلہ کن اقدام لینے کے سبب تمام ملکوں کی سامراجی طاقتیں سوویت حکومت سے نفرت کر رہی تھیں اور اس پر حملے کی تیاری کر رہی تھیں۔ جرمنی میں اس انقلاب کے اثرات بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہوئے، ڈنمارک کے محنت کش اپنی حکومت کے خلاف لڑ رہے تھے، ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈ میں انقلابی تحریک مضبوطی پکڑ رہی تھی۔ ان ملکوں کے حکمرانوں سمیت باقی ممالک کے حکمران بھی اس انقلاب سے خوفزدہ تھے۔ لہٰذا روس انقلاب کو زائل کرنے اور اس کی حاصلات کا خاتمہ کرنے کے لیے اکیس سرمایہ دار ملکوں کی فوجیں سوویت حکومت پر حملہ آور ہوئیں۔

اس صورتحال میں جہاں روس کا محنت کش طبقہ مجموعی طور پر اپنے انقلاب کے تحفظ میں سر گرم تھا، وہیں محنت کش خواتین مردوں سے پیچھے نہیں کھڑی تھیں۔ بلکہ وہ اس جنگ میں اگلی صفوں میں موجود تھیں اور محنت کرنے میں بڑے کس بل اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ انقلاب کی حفاظت کے لیے وہ خود کو سرخ فوج میں منظم کر رہی تھیں، کسانوں کی کمیٹیوں اور مزدوروں کی کمیٹیوں میں بھی، جو شہروں اور دیہاتوں کی سطح تک سرایت کر چکی تھیں تاکہ اشتراکیت کو مضبوط کیا جا سکے۔ اس ضمن میں لینن لکھتا ہے:

”آزادی کی تمام تحریکوں کا تجربہ ثابت کرتا ہے کہ انقلاب کی کامیابی کا انحصار اس میں عورتوں کی تعداد کی شرکت پر ہوتا ہے۔ سوویت حکومت اپنے بس میں وہ سب کچھ کر رہی ہے تاکہ عورتوں کو آزاد پرولتاریہ اشتراکی کام کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔“

اُس وقت ایک یہ سوال بھی سر اٹھا رہا تھا کہ کیا بالشویک ریاستی اقتدار برقرار رکھ سکتے ہیں؟ کیونکہ بالشویک پارٹی کے ممبران کی تعداد اس وقت 2 لاکھ 40 ہزار تھی تو بورژوا ریاست کے نمائندے یہ کہہ رہے تھے کہ اتنی کم تعداد میں بالشویک غریبوں کے مفاد میں اور امیروں کے خلاف روس کا انتظام نہیں چلا سکیں گے۔ لینن نے اپنی فہم و فراست سے انہیں بہت مدلل اور کرارا جواب دیا۔ لینن نے کہا:

”چنانچہ ہمارے پاس 10 لاکھ لوگوں پر مشتمل ”ریاستی مشینری“ موجود ہے جو ہر ماہ 20 تاریخ کو موٹی رقمیں حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ بلند نصب العین کی خاطر اشتراکی ریاست کے وفادار ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ”جادو“ سے ایک اشارے پر فوراً اپنی ریاستی مشینری کو دس گنا بڑھا سکتے ہیں، ایسا طریقہ نہ تو کسی سرمایہ دارانہ ریاست کے پاس تھا اور نہ ہو سکتا ہے۔ جادو یہ ہے کہ محنت کش عوام کو، غریب لوگوں کو ریاستی نظم و نسق کے روز مرہ کے کام میں شریک کیا جائے۔“

لینن نے واضح کیا کہ ہم مارکس وادی خیالی پلاؤ پکانے والے نہیں ہیں۔ لینن بخوبی واقف تھا کہ غیر ہنر مند مزدور یا باورچی ریاستی انتظام کا کام فوراً انجام نہیں دے سکتے اس لیے اس نے مطالبہ کیا کہ طبقاتی شعور رکھنے والے مزدور اور سپاہی ریاستی انتظامیہ کے کام کی تربیت دیں اور یہ تربیت فوراً شروع کی جائے یعنی اس کام کے لیے تمام محنت کش عوام کو، تمام غریب لوگوں کو تربیت دینے کی فوراً ابتدا کی جائے۔ صرف بالشویک ہی تھے جو ایک ایسی مشینری کی تخلیق کر سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس ایسے طبقاتی شعور رکھنے والے مزدور تھے جنہیں طویل سرمایہ دارانہ ”تربیت“ نے ڈسپلن کا پابند بنا دیا تھا اور جو مزدوروں کی ملیشیا قائم کرنے، اسے بتدریج توسیع دینے اور کُل عوام پر مشتمل ملیشیا میں تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ اس طریقے سے یہ متعصبانہ بورژوا دانشورانہ تصور ترک کیا گیا کہ صرف مخصوص حکام ہی ریاست کا انتظام چلا سکتے ہیں جن کے معاشی رتبے کا سارا انحصار سرمائے پر ہوتا ہے۔ لینن نے وضاحت کی کہ:

”نظم و نسق کے کام کو پرولتاری اور نیم پرولتاری لوگوں کے ہاتھ میں سپرد کرنے کے با اصول، جری اور عام اقدام سے عوام میں تاریخی لحاظ سے بے نظیر ایسا انقلابی جوش و خروش پیدا ہو گا اور یہ لوگوں میں مصیبتوں کے خلاف لڑنے کی قوت اتنی بڑھا دے گا کہ وہ جو ہمارے تنگ نظر، دقیانوسی نوکر شاہی کی قوتوں کو نا ممکن نظر آتا ہے، کروڑوں کی قوتوں کے لیے ممکن ہو جائے گا۔ جو سرمایہ داروں، اشرافیہ اور حکام کے لیے نہیں اور نہ ہی سزا کے خوف سے بلکہ اپنے لیے کام شروع کریں گے۔“

انقلاب کے تحفظ کے لیے ٹراٹسکی نے سرخ فوج بنائی۔ یہ سرخ فوج عوامی ملیشیا کی بنیاد پر تعمیر کی گئی۔ پولیس کی جگہ عوامی ملیشیا ایک ایسی اصطلاح تھی جو انقلاب کے پورے ارتقا کا نتیجہ تھی، جسے انقلاب کے بعد روس کے زیادہ تر علاقوں میں نافذ کیا جا رہا تھا۔ لینن نے عوام کو یہ سمجھانے پر زور دیا کہ عام قسم کے بورژوا انقلابوں میں یہ اصلاح انتہائی قلیل مدت تک جاری رہی اور بورژوازی، یہاں تک کہ انتہائی جمہوریت پسند اور رپبلک پورژوازی نے بھی زار شاہی کی پولیس کی قسم کی پرانی پولیس کو ہی بحال کیا، ایسی پولیس جو عوام سے بیگانہ تھی، جس کی کمان پورژوازی کے ہاتھ میں تھی اور جو عوام پر ہر قسم کا ظلم کر سکتی تھی۔

لینن نے وضاحت کی کہ بورژوا طبقے کی پولیس کی بحالی کو روکنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ عوامی ملیشیا قائم کی جائے اور اسے فوج میں ضم کر دیا جائے یعنی مستقل فوج کی بجائے تمام عوام کو مسلح کیا جائے۔ لینن نے ان عوامی ملیشا میں خواتین کی شمولیت پر بھی زور دیا۔ لینن نے کہا کہ:

”اس ملیشیا میں بلا استثنا 15 سے 65 برس تک کی عمر والے دونوں جنسوں کے شہری کام کر سکتے ہیں۔ جب تک عورتیں عام طور پر نہ صرف سیاسی زندگی میں آزادانہ حصہ نہیں لیتیں بلکہ روز مرہ کی عام خدمات میں بھی شریک نہیں ہوتیں تو اشتراکیت تو کجا، مکمل اور مستحکم جمہوریت کی بات تک نہیں کی جا سکتی اور ”پولیس“ کے ایسے فرائض جیسے کہ بیماروں اور بے گھر بچوں کی دیکھ بھال، غذا کا معائنہ وغیرہ کبھی اطمینان بخش طریقے سے انجام نہیں دیے جا سکتے جب تک کہ عورتیں صرف نام کو نہیں بلکہ حقیقت میں مردوں کے برابر درجہ حاصل نہیں کرتیں۔“

لینن نے اس بارے میں مزید وضاحت کی کہ:

”انقلاب کے تحفظ، استحکام اور فروغ کے لیے پرولتاریہ کو عوام کے سامنے یہ فرض پیش کرنا چاہیے کہ پولیس کی بحالی کو روکا جائے اور عوامی ملیشیا کے قیام میں تمام عوام کی تنظیمی قوتوں کو شامل کیا جائے۔“

لینن نے عورتوں کو نہ صرف لاکھوں عوام کو منظم کرنے کے تنظیمی کام میں بلکہ چھوٹے پیمانے کے تنظیمی کام میں بھی شامل کرنے پر زور دیا۔ اس کے لیے لینن نے نہ صرف پارٹی کی عورتوں بلکہ پارٹی سے باہر کی عورتوں کو بھی، جو انقلاب کی ہمدرد تھیں، تنظیمی کاموں اور سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بنانے کو اہمیت دی۔ جنگی حالات میں بھی عورتیں فوج کو مدد دینے اور فوجیوں کی ایجی ٹیشن کا کام کر رہی تھیں، وہ غذا کی فراہمی کے شعبے میں کام کر رہی تھیں، غذا کو تقسیم کر رہی تھیں، غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے انتظام کو بہتر بنا رہی تھیں اور بڑے پیمانے پر طعام خانے قائم کر رہی تھیں۔ عورتوں کی ایک بڑی تعداد تجرباتی فارموں کے قیام اور انتظام میں حصہ لے رہی تھی، جس سے یہ کام صرف مردوں کے کرنے کا نہیں رہ گیا تھا۔ یہ کام انقلاب کے تحفظ اور اشتراکی معاشرے کو مضبوط بنانے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ سوویت حکومت نے جو کام کیا تھا وہ صرف اسی صورت میں انجام پا سکتا تھا جب روس کی سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں عورتیں اس میں شریک ہوتیں۔ اشتراکی انقلاب کو مضبوط کرنے کی یہی ایک ضمانت تھی۔ محنت کش طبقے نے یہ دکھا دیا تھا کہ وہ زمینداروں اور سرمایہ داروں کے بغیر گزر بسر کر سکتے ہیں اور ریاست کو چلا سکتے ہیں۔ اس طریقے سے اشتراکی تعمیر کی بنیاد روس میں تعمیر ہوئی اور سوویت حکومت کے لیے بیرونی اور اندرونی دشمن سے نمٹنا ممکن ہوا۔

کامریڈ کلارا تسیٹکن کے ساتھ اپنے ایک انٹر ویو میں لینن انقلاب کے تحفظ میں روس کی محنت کش خواتین کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:

”پیٹروگراڈ میں اور یہاں ماسکو اور دوسرے شہروں میں صنعتی مرکزوں میں پرولتاری عورتوں نے انقلاب کے دوران بڑی شان دکھائی۔ ہم ان کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے تھے، یا مشکل سے کامیاب ہوتے۔ یہ میری رائے ہے۔ انہوں نے اتنی جرات دکھائی اور اب بھی وہ کتنی ہمت سے کام لے رہی ہیں۔ جو مصیبتیں اور تکالیف وہ برداشت کر رہی ہیں ذرا ان پر غور کیجیے۔ وہ اس لیے ڈٹی ہوئی ہیں کہ وہ سوویتوں کی مدافعت کرنا چاہتی ہیں، وہ آزادی اور کمیونزم کی خواہاں ہیں۔ جی ہاں، ہماری محنت کش عورتیں شاندار طبقاتی مجاہد ہیں۔ وہ تعریف اور محبت کی مستحق ہیں۔“

خانہ جنگی کے دوران عورتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جن میں بہت سی خواتین کو انقلابی کام نے اور بہت سوں کو جنگ نے فولاد بنا دیا۔ بعض عورتوں کو خانہ جنگی کے دوران سوویتوں کی جدوجہد میں سرگرم شرکت پر سرخ پرچم کا ایوارڈ عطا کیا گیا۔ کئی سابقہ چھاپہ مار عورتیں اب سوویتوں میں اہم عہدے سنبھالے ہوئے تھیں۔ عورتوں نے معاشرتی کام سیکھنے میں ثابت قدمی کا ثبوت دیا۔ ایسا اس لیے بھی تھا کہ اب محنت ایسی چیز نہیں رہی تھی جس کی عورتیں عادی نہ ہو گئی ہوں۔ پرانے نظام میں عورتوں کی زندگیاں مسلسل، نہ ختم ہونے والی محنت کرنے میں گزرتی تھی۔ وہ محنت ایسی تھی جو حقیر سمجھی جاتی تھی اور اُس پر غلامی کی چھاپ تھی۔ اب محنت کی تربیت اور اس میں ثابت قدمی نے عورتوں کو اشتراکیت کی تعمیر کرنے والوں کی پہلی صف میں اور محنت کے سورماؤں میں شامل کر دیا تھا۔ اسی سبب سے، جیسا کہ لینن کو یقین تھا، دنیا کے تمام ملکوں میں محنت کشوں کی ہمدردیاں، مظلوموں اور استحصال کیے جانے والوں کی ہمدردیاں روس کے انقلاب کے ساتھ تھیں۔ سوویت حکومت کے پرولتاریہ نے یہ دکھا دیا تھا کہ وہ قحط، سخت سردی، سامراج کے جارحانہ حملے سے پیدا ہونے والے تمام مصائب کے باوجود انقلاب کے تحفظ کے لیے ہر چیز کرنے کو تیار ہے اور ہر چیز کر رہا ہے، فتح کی جدوجہد کے لیے، پرانی عدم مساوات کے خلاف، عورتوں کی پرانی بورژوا ذلت کے خلاف لڑنے کے لیے!

1921ء میں محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر لینن اپنی ایک تحریر میں لکھتا ہے کہ:

”چنانچہ محنت کش عورتوں کے عالمی بین الاقوامی دن پر، جب دنیا کے تمام ملکوں میں مزدور عورتوں کے بے شمار جلسے ہوں گے، سوویت روس کو ہر طرف سے مبارک باد کے پیغام پہنچیں گے جس نے بے نظیر، قیاس سے بھی بڑھ کر ایسے مشکل کام کا بیڑا اٹھایا ہے جو صحیح معنوں میں گلو خلاصی، نجات اور آزادی کا واقعی بڑا عظیم کارنامہ ہے۔ پُر جوش اپیلیں گونجیں گی کہ ہم بورژوا رجعت پرستی کے طومار کے سامنے، جو اکثر درندہ صفت بھی ہوتی ہے، ہمت نہ ہاریں۔ مزدور عوام بیدار ہو چکے ہیں۔ سامراجی جنگ نے سوتے ہوئے، نیم بیدار اور بے حرکت عوام کو امریکہ، یورپ اور پسماندہ ایشیا تک میں بیدار کر دیا ہے۔ دنیا کے تمام کونوں میں برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے۔ سامراج کے جوئے سے اقوام کی گلو خلاصی اور سرمائے کی زنجیروں سے محنت کش مردوں اور عورتوں کی آزادی کے اس سیلاب کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ اس مقصد کو کارخانوں اور کھلیانوں میں ہزاروں، لاکھوں بلکہ کروڑوں محنت کش مرد اور عورتیں عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ سرمائے کے جوئے سے محنت کی نجات تمام دنیا میں کامرانی حاصل کرے گی۔“

بالشویک اور بورژوا جمہوریت

بورژوا ممالک میں، چاہے وہ کتنے بھی ”جمہوری“ کیوں نہ ہوں، عورتوں کو کبھی بھی مساوی حقوق نہیں ملے، حتیٰ کہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسا نہیں ہوا۔ لفظوں میں تو بورژوا جمہوریت مساوات اور آزادی کا وعدہ کرتی ہے لیکن عمل میں کسی ایک بورژوا ریاست نے بھی عورتوں کو مردوں کے ساتھ مکمل مساوات نہیں دی اور ان کے مظالم سے نجات نہیں دلائی۔ لینن نے وضاحت کی کہ بورژوا حکومت طمطراق کے جملوں، رسمی الفاظ، لمبے چوڑے زبانی وعدوں اور آزادی اور مساوات کے متعلق بلند بانگ نعرے کی جمہوریت ہے۔ لیکن عمل میں یہ ایک پردہ پوشی ہے، عورتوں کے آزادی اور مساوات سے محروم ہونے کی، یہ پردہ پوشی ہے محنت کشوں اور استحصال کیے جانے والے لوگوں کے آزادی اور مساوات سے محروم ہونے کی۔

جہاں تک جھوٹوں اور ریاکاروں کا تعلق ہے، احمقوں اور اندھوں، بورژوا اور ان کے حامیوں کا تعلق ہے تو وہ لوگوں کو عام آزادی، عام مساوات اور عام جمہوریت کی باتیں بنا کر دھوکا دیتے ہیں۔ لینن نے ایسے ریاکاروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، ”ایسے سفید جھوٹ پر لعنت!“، لینن نے ان کے لیے یہ الفاظ برتے ہیں۔ ظالم اور مظلوم کے درمیان، استحصال کرنے والے اور استحصال کیے جانے والے کے درمیان نہ تو ”برابری یا مساوات“ ہے، نہ ہو گی اور نہ ہو سکتی ہے۔ جب تک کہ عورتیں ایسی قانونی مراعات سے دبی ہوئی ہیں جن سے مردوں کا فائدہ ہوتا ہے، جب تک کہ مزدوروں کو سرمائے کے جوئے سے نجات نہیں ملتی، جب تک کہ محنت کش، کسان کو سرمایہ دار، جاگیردار اور بیوپاری کے پھندے سے گلو خلاصی نہیں ملتی۔ لینن نے بورژوا جمہوریت کے حامی حکمران ٹولے کے سامنے یہ سوال رکھا، لینن کہتا ہے:

”ہم مزدوروں اور کسانوں سے کہتے ہیں: تم ان جھوٹے فریبوں کا پردہ فاش کرو، اندھوں کی آنکھیں کھول دو، اور ان سے پوچھو؛ کیا دونوں جنسوں کے درمیان مساوات موجود ہے؟

جو کوئی سیاست بگھارتا ہے اور ان سوالوں کو اولیت دیے بغیر، انہیں پیش کیے بغیر جمہوریت، آزادی، مساوات اور اشتراکیت کی باتیں بناتا ہے، جو کوئی ان سوالوں کو ٹال جانے، ان کی پردہ پوشی کرنے یا ان کی دھار کند کرنے کے خلاف جہاد نہیں کرتا، وہ محنت کشوں کا بد ترین دشمن ہے، بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا ہے، وہ مزدوروں اور کسانوں کا کٹر مخالف ہے، جاگیرداروں، زار شاہی اور سرمایہ داروں کا پٹھو ہے۔“

روس انقلاب کے بعد بوروژا جمہوریت پسندوں، لبرلوں اور پیٹی بورژوا جمہوریت پسندوں نے سوویت حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ الزام لگایا کہ بالشویکوں نے جمہوریت کی خلاف ورزی کی ہے اور آئین ساز اسمبلی کو برخاست کر دیا ہے۔ لینن نے اس تنقید اور الزام کا بہت واضح اور درست جواب دیا کہ وہ جمہوریت اور آئین ساز اسمبلی جو زمین کی نجی ملکیت کے نظام کے تحت وجود میں آئی تھی، جب لوگ مساوی نہیں تھے، جب سرمایہ دار مالک تھے اور باقی لوگ جو ان کے لیے کام کرتے تھے اجرت کے غلام تھے، ایسی جمہوریت ہمارے لیے کسی کام کی نہیں۔ انتہائی ترقی یافتہ ریاستوں میں بھی ایسی جمہوریت غلامی کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ ہم اشتراکی لوگ جمہوریت کے صرف اسی حد تک حامی ہیں جس حد تک وہ محنت کش اور مظلوم لوگوں کے حالات بہتر بناتی ہے، ہم اس جمہوریت کی واقعی قدر کرتے ہیں جو استحصال کے شکار لوگوں، حقوق سے محروم لوگوں کی خدمت کرتی ہے۔ اگر ایسے لوگوں کو ووٹ کے حق سے محروم کیا جاتا ہے جو کام نہیں کرتے تو لوگوں کے درمیان یہ حقیقی مساوات ہے۔ جو کام نہیں کرتا اس کو کھانا بھی نہیں چاہیے۔

لینن نے اس نقطے کو مزید واضح کیا کہ بورژوا ممالک میں جمہوریت پر عمل کیسے ہوتا ہے؟ تمام جمہوری ملکوں میں جمہوریت کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن شہری قوانین میں وہ قوانین جن کا تعلق خاندان میں عورت اور طلاق سے ہے، ہمیں عورت کی عدم مساوات اور ذلت ہر قدم پر دکھائی دیتی ہے۔ یہ حقیقی جمہوریت کی خلاف ورزی ہے اور اس کا رخ خاص طور پر مظلوم اور پسی ہوئی پرتوں کی طرف ہے۔ سوویت اقتدار کی دوسری سالگرہ کے موقع پر لکھے جانے والے اپنے ایک مضمون ”سوویت اقتدار اور عورتوں کا درجہ“ میں لینن لکھتا ہے:

”بورژوا طبقہ اور اس کے حامی ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہم نے جمہوریت کی خلاف ورزی کی۔ اس کے برعکس ہم کہتے ہیں کہ سوویت انقلاب نے وسعت اور گہرائی کے لحاظ سے جمہوریت کے فروغ کو بے مثال توانائی بخشی ہے۔ جمہوریت سے ہماری مراد وہ جمہوریت ہے جو محنت کش عوام کے لیے ہو جنہیں سرمایہ داری نے کچل رکھا تھا، جو عوام کی زبردست اکثریت کے واسطے ہو۔ یہ جمہوریت بورژوا جمہوریت سے مختلف ہے (جو استحصال کرنے والوں، سرمایہ داروں اور دولت مندوں کے لیے ہوتی ہے)۔“

مدتوں سے تمام بورژوا ممالک اور خاص طور پر مغربی یورپ ممالک میں چلنے والی آزادی کی تمام تحریکوں کا یہ مطالبہ رہا ہے، دسیوں برسوں سے نہیں بلکہ صدیوں سے کہ ان فرسودہ قوانین کو منسوخ کیا جائے اور مردوں اور عورتوں کے درمیان قانون کے مطابق مساوات قائم کی جائے۔ لیکن پوری دنیا کے ”ترقی یافتہ“، ”روشن خیال“ اور ”جمہوری ممالک“ میں اسے حاصل نہیں کیا گیا۔ روس میں اس کے حصول کے لیے محض اس لیے کامیابی ہوئی کہ وہاں لینن اور ٹراٹسکی کی بنائی ہوئی بالشویک پارٹی کی قیادت میں 1917ء میں مزدوروں کا اقتدار قائم ہوا۔ ابتدا ہی سے سوویت حکومت نے استحصال کی تمام شکلوں کو ختم کرنے کا مقصد اپنے سامنے رکھا، یہ ایک ایسا مقصد تھا جس کے تحت روس سے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے طبقات اور نجی ملکیت کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ بالشویک انقلاب اس سے پہلے ہونے والے بورژوا انقلابوں کی بڑی تعداد کے باوجود، جنہوں نے اپنے آپ کو جمہوری کہا تھا، پہلا اور واحد انقلاب تھا جس نے اس سلسلے میں رجعت پرستی اور جاگیرداری کے خلاف اور حکمرانوں اور صاحبِ ملکیت طبقات کی حسب معمول ریاکاری دونوں کے خلاف مستقل مزاجی سے جدوجہد کی۔ اس انقلاب نے محنت کش طبقے کے اقتدار کی نمائندگی کرتے ہوئے ان قوانین میں مکمل انقلابی تبدیلی کی جن کا تعلق عورتوں سے تھا۔

لینن وضاحت کرتا ہے کہ: ”سرمائے کا جوا، ”مقدس نجی ملکیت“ کا جوا، کمینہ خصلت کوڑھ مغزی کا جبر اور چھوٹے چھوٹے صاحبِ جائداد لوگوں کی حرص، یہ ہیں وہ چیزیں جنھوں نے بورژوازی کی سب سے زیادہ جمہوریت پسند ریاستوں تک کو بھی ایسے بے ہودہ اور گندے قوانین کو منسوخ کرنے سے روکے رکھا اور یہ سفلے پیٹی بورژوا جمہوریت پسند ان کے بارے میں آٹھ مہینے تک باتیں ہی کرتے رہے۔“ سوویت حکومت نے ایسے تمام قوانین کا ایک جنبش میں صفایا کر دیا اور بورژوازی کے مکر و فریب کے بت کدے میں ایک مورتی کو بھی باقی نہیں رہنے دیا۔ لینن وضاحت کرتا ہے کہ ہمارا نعرہ یہ نہیں کہ سب کے لیے آزادی ہو، سب کو مساوات ملے، بلکہ ہمارا نعرہ ہے ظالموں اور استحصال کرنے والوں کے خلاف جدوجہد کرو، ظلم اور استحصال کی جڑ ہی کاٹ ڈالو۔ مظلوم جنس کی آزادی اور مساوات! مزدوروں اور محنت کش کسانوں کے لیے آزادی اور مساوات! ظالموں کے خلاف، سرمایہ داروں کے خلاف، دولتمند کاشتکار منافع خوروں کے خلاف جدوجہد! یہ ہیں ہماری جدوجہد کے نعرے۔ یہ ہے ہماری پرولتاریہ صداقت۔ سرمائے کے خلاف جنگ کی صداقت۔

بالشویزم اور سوویت اقتدار کا اصل جوہر بورژوا جمہوریت کے جھوٹ فریب کا پردہ چاک کر کے زمین، کارخانوں اور ملوں سے نجی ملکیت کو مٹا کر اور تمام ریاستی اقتدار کو محنت کشوں، جن کا استحصال کیا جاتا ہے، کے ہاتھوں میں مرکوز کر دینا تھا۔ عوام خود سیاست کو اپنے ہاتھوں میں لینے لگے تھے، یعنی نئے معاشرے کی تعمیر کا کام سنبھال رہے تھے۔ سرمایہ داری میں رسمی مساوات کے ساتھ ساتھ معاشی اور اس کے نتیجے میں معاشرتی عدم مساوات جنم لیتی ہے۔ یہ سرمایہ داری کی ایک بنیادی امتیازی خصوصیت ہے جسے جان بوجھ کر بورژوازی کے حامی، اعتدال پسند نہیں سمجھتے۔ اس غیر استقامت پن کا ایک واضح مظاہرہ عورتوں اور مردوں کے درمیان عدم مساوات ہے۔ انتہائی ترقی پسند ریپبلک اور جمہوری بورژوا ریاستوں تک نے اس ضمن میں مکمل مساوات عطا نہیں کی۔ اس کے مقابلے میں روس کی سوویت رپبلک نے بلا استثنا عورتوں کی عدم مساوات کے تمام قانونی نشانات تک فوراً مٹا ڈالے اور قانون کی نظر میں فوراً ان کی مکمل مساوات کی ضمانت دی۔ لینن اسے پرولتاری مساوات کہتا ہے۔

مقدس نجی ملکیت

روس میں رونما ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کا سب سے بڑاقدم یہ ہے کہ زمین، کارخانوں اور ملوں سے نجی ملکیت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ یہ اور صرف یہی ایک ایسا قدم ہے جو عورت ذات کی مکمل اور نتیجہ خیز نجات کی راہ کھولتا ہے کیونکہ اس کی بدولت عورت ”گھر کی غلامی“ سے نجات پاتی ہے اور یہ چھوٹے گھٹیا قسم کے انفرادی گھریلو دھندوں کی جگہ بڑے پیمانے کی معاشرتی معیشت میں عبور کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اسے ہم عورت کی پوری گلو خلاصی اور آزادی کی جانب صرف پہلا قدم سمجھتے ہیں۔ لیکن بورژوا ملکوں میں ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے، یہاں تک کہ جو سب سے زیادہ جمہوری ہیں، ان کو بھی یہ پہلا قدم تک اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ کیوں؟ اس لیے کہ انہیں ”مقدس نجی ملکیت“ سے ڈر لگتا ہے۔

بالشویزم اور روس کے اکتوبر انقلاب کا لب لباب یہ ہے کہ اس نے سیاست میں ان لوگوں کو کھینچ لیا جنہوں نے سرمایہ داری نظام میں سب سے بڑھ کر مصائب سہے تھے اور سختیاں برداشت کی تھیں۔ بادشاہت کے زمانے میں بھی اور جمہوری بورژوا رپبلکوں میں بھی سرمایہ داروں نے انہیں کچلا تھا، فریب دیے تھے اور ان کی غارت گری کی تھی۔ لوگوں کی محنت کا سرمایہ داروں کے ہاتھوں یوں ذلیل و خوار ہونا، یوں کچلا جانا، فریب کھانا اور لٹنا اس وقت تک لازمی بات تھی جب تک زمین، کارخانے اور ملیں نجی ملکیت بنے رہے۔

ڈیڑھ سو اور سو سال قبل اس (بورژوا جمہوری انقلاب) کے ترقی پسند قائدین نے (یا ان انقلابوں کے رہنماؤں نے، اگر ہم ہر قومی انقلاب کو عام انقلاب کی ایک قسم سمجھیں) یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ انسانیت کو ازمنہئ وسطیٰ کی مراعات، عورتوں کی عدم مساوات، خاص مراعات رکھنے والے کسی سرکاری مذہب (یا کلیسائی خیالات یا عام طور پر کلیسائیت) اور قومی عدم مساوات سے نجات دلائیں گے۔ انہوں نے وعدہ تو کر لیا لیکن اس کو پورا نہیں کیا۔ وہ ایسا اس لیے نہیں کر سکے کہ ان کو ”نجی ملکیت کے مقدس حق“ کے ”احترام“ نے روک دیا۔ ہمارا پرولتاری انقلاب ہزار بار ازمنہئ وسطی کی باقیات اور ”نجی ملکیت کے مقدس حق“ کے منحوس ”احترام“ میں مبتلا نہیں تھا۔

خاندان اور شادی سے متعلق بورژوا قوانین کا جبر شر کو اور بھی بڑھا دیتا ہے اور تصادموں میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ جبر ہے ”مقدس نجی ملکیت“ کا۔ یہ ضمیر فروشی، کمینگی اور غلاظت کے جواز میں فتویٰ دیتا ہے۔ ”معزز“ بورژوا معاشرے کی روایاتی ریاکاری باقی باتیں پوری کر دیتی ہے۔

لینن نے تلقین کی کہ ”سوشلسٹ مقالوں میں اس پر اچھی طرح زور دینا چاہیے کہ کمیونزم کے ذریعے کے علاوہ عورتوں کی اصلی نجات ممکن نہیں۔ آپ عورتوں کی انسانی اور معاشرتی حالت اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے درمیان اٹوٹ تعلق پر زور دیں۔ اس سے ”عورتوں کی نجات“ کی بورژوا تحریک کے خلاف مضبوط اور ناقابل استیصال حدِ فاصل قائم ہو جائے گی۔ اس سے ہمیں بھی وہ بنیاد ملے گی جس کے ذریعے ہم عورتوں کے سوال پر معاشرتی مزدور طبقے کے سوال کے ایک حصے کی طرح بحث کر سکیں گے اور اسے پرولتاری طبقاتی جدوجہد اور انقلاب کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ دیں گے۔“

جہاں تک زراعت کے ساتھ منسلک کسان خواتین کی آزادی کا سوال ہے تو لینن نے ابتدا ہی سے زراعت کی اجتماعیت کو سوشلسٹ بنیادوں پر منظم کرنے پر زور دیا۔ 1894ء میں لکھی جانے والی اپنی کتاب ”عوام کے دوست کون ہیں“ میں لینن نے مارکس کے الفاظ نقل کرتے ہوئے لکھا کہ:

”غاصبوں کی ملکیت کی زبردستی ضبطی“ کے بعد، یعنی زمینداروں کو ان کی جاگیروں اور سرمایہ داروں کو ان کے کارخانوں سے محروم کرنے کے بعد، آزاد مزدور کوآپریٹیو میں متحد ہو جائیں گے اور زمین اور ذرائع پیداوار کی ملکیت جسے وہ پیدا کرتے ہیں، پنچائتی (یعنی اجتماعی) ہو جائے گی۔“

اکتوبر انقلاب کے بعد سوویت حکومت نے ”غاصبوں کی ملکیت کی زبردستی ضبطی“ کی ابتدا اور اشتراکیت کو منظم کرنے کا سوال پیش کیا۔ 1918ء اور 1919ء میں ہی سوویت حکومت نے اس پر خاص توجہ دی اور کئی سال گزرنے کے بعد اجتماعیت وسیع پیمانے پر پھیلی اور اس کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ اجتماعی کسانوں کی کانگریس میں زمین کی اجتماعی کاشتکاری کی کامیابیوں کے ثبوت کی رپورٹ پیش کی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کاشتکاری کو اجتماعی بنیادوں پر منظم کرنے سے پہلے صرف 6ہزار فارم تھے، جبکہ اجتماعی بنیادوں پر منظم کرنے کے بعد چند سالوں میں ان کی تعداد 2 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس کانگریس میں اجتماعی فارموں میں کام کو بہترین طور سے منظم کرنے کے سوال پر غور کیا گیا۔ نمائندوں میں بڑی تعداد میں کسان عورتیں بھی شامل تھیں۔

چھوٹے پیمانے کی اور درمیانی سطح پر کاشتکاری عورت کے پیروں میں بیڑیاں ڈالتی تھی، انہیں انفرادی گھرانے سے باندھ دیتی تھی اور ان کے نقطہ نظر کو محدود کر دیتی تھی۔ در حقیقت عورت اپنے خاوند کی غلام ہوتی تھی جو اکثر بے رحمی سے اسے پیٹا بھی کرتا تھا۔ لینن نے وضاحت کی کہ چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری سے کلیسا کے ہاتھ مضبوط ہوتے تھے۔ کسان کہا کرتے تھے، ”ہر ایک اپنے لیے اور خدا سب کے لیے۔“ یہ بات چھوٹی سطح پر صاحبِ ملکیت کو بخوبی ظاہر کرتی ہے۔ جبکہ کاشت کے اجتماعی ہونے سے چھوٹی سطح پر صاحبِ ملکیت کی حیثیت ختم ہو کر اجتماعی حیثیت اختیار کر گئی، کلیسا کا اثر ختم ہوا اور عورت آزاد ہوئی۔ کامریڈ کروپسکایا لکھتی ہیں:

”کلیسا کا اثر ختم ہو رہا ہے۔ اب اجتماعی کاشت کی خواتین کتب خانے آتی ہیں تو کہتی ہیں کہ تم ہمیشہ مجھے ایسی کتاب دیتی ہو جس میں لکھا ہوتا ہے کہ کلیسا کوئی چیز نہیں۔ یہ بات میں کتابیں پڑھے بغیر جانتی ہوں۔ مجھے ایسی کتاب دو جو مجھے یہ بتائے کہ کلیسا کیوں ظہور میں آیا اور اس کا اثر کیسے ختم ہو گا۔“

لینن نے کہا تھا کہ صرف اشتراکیت ہی عورتوں کو نجات عطا کرتی ہے۔ جب عورت اجتماعی کاشت کی ترقی میں حصہ لیتی ہے تو اس کا رتبہ بلند ہو جاتا ہے، وہ انتظام کرنا اور طبقاتی دشمن کے خلاف مصمم ارادے سے جدوجہد کرنا سیکھتی ہے۔ اجتماعیت کی بدولت کسانوں، مردوں اور عورتوں کے درمیان تعصبات کا خاتمہ ہو گا اور عورتوں کی حقوق سے محرومی ماضی کا قصہ بن جائے گی۔ لینن کے یہ الفاظ بعد میں سچ ثابت ہوئے۔

خواتین اور عوامی تحریک

کلارا تسیٹکن لینن کے ایک انٹرویو کا آغاز ان الفاظ میں کرتی ہیں:

”کامریڈ لینن اکثر میرے ساتھ عورتوں کے حقوق کے بارے میں تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ عورتوں کی تحریک کو بڑی اہمیت دیتے تھے جو ان کے خیال میں عوامی تحریک کا ایک لازمی حصہ ہے اور جو بعض حالات میں فیصلہ کن ہو سکتی ہے۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ عورتوں کی مکمل معاشرتی مساوات کو ایک ایسا اصول تسلیم کرتے تھے جس پر کوئی بھی کمیونسٹ شک و شبہ نہیں کر سکتا۔“

ہم کہتے ہیں کہ مزدوروں کی آزادی خود مزدوروں کا فریضہ ہونا چاہیے، اسی طرح محنت کش عورتوں کی نجات کا فریضہ بھی خود محنت کش عورتوں کا ہی فریضہ ہونا چاہیے۔ اس میدان میں ان کی سرگرمیاں انہیں وہ حیثیت عطا کرتی ہیں جو اس سے قبل سرمایہ دارانہ معاشرے میں ان کی حیثیت سے مختلف ہو گی۔ عورتوں کی کمیونسٹ تحریک کو عوامی تحریک ہونا چاہیے، عام عوامی تحریک کا حصہ، نہ صرف پرولتاریوں کی بلکہ استحصال کی جانے والیوں، مظلوموں کی، سرمایہ داری یا حاکم طبقے کی تمام شکار عورتوں کی تحریک۔ پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد اور اس کے تاریخی نصب العین یعنی کمیونسٹ معاشرے کی تخلیق کے لیے بھی عورتوں کی تحریک کی اہمیت اسی میں مضمر ہے۔ ہمیں اپنی جدوجہد کے لیے اور خاص طور پر معاشرے کی از سر نو تعمیر کے واسطے شہروں اور دیہات میں کروڑوں محنت کش عورتوں کو اپنا حامی بنانا ہے۔ عورتوں کے بغیر کوئی بھی حقیقی عوامی تحریک نہیں بن سکتی۔

لینن نے بین الاقوامی سطح پر عورتوں کی تحریک کی حمایت کی، وہ سمجھتے تھے کہ اس کے بغیر انٹرنیشنل اور اس کی پارٹیوں کا کام ادھورا رہ جائے گا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ آزادی کی تمام تحریکوں کا تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ انقلاب کی کامیابی کا انحصار اس میں عورتوں کی تعداد کی شرکت پر ہوتا ہے۔ کوئی بھی اشتراکی انقلاب اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ محنت کش عورتوں کی بڑی تعدد اس میں حصہ نہ لے۔

اسقاط حمل اور طلاق کا حق

سرمایہ داری میں طلاق کا حق بھی باقی تمام دوسرے جمہوری حقوق کی طرح مشروط، محدود اور رسمی ہوتا ہے اور عملاً اسے حاصل کرنا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ مظلوم معاشی لحاظ سے غلام ہے۔ سرمایہ داری میں جمہوریت خواہ کتنی بھی وسیع ہو، عورت ”گھریلو غلام“ ہے، ایسی غلام جو خواب گاہ، بچوں کے کمرے اور باورچی خانے میں مقفل رہتی ہے۔ سرمایہ داری میں ”اپنے“ عوامی منصف، حکام اور استادوں وغیرہ کو منتخب کرنے کا حق بھی اکثر و بیشتر صورتوں میں ناقابلِ عمل رہتا ہے کیونکہ مزدور اور کسان معاشی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہتے ہیں۔ کوئی بھی شخص اس وقت تک جمہوریت پسند اور اشتراکی نہیں ہو سکتا جب تک وہ طلاق کی مکمل آزادی کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ آزادی کا یہ فقدان مظلوم جنس پر ایک انتہائی ظلم ہے۔ اب کوئی بھی سوشل ڈیموکریٹ یا بورژوا جمہوریت کا حامی سرمایہ داری میں عورت کے طلاق کے حق کی مخالفت نہیں کر سکتا، بلکہ اس کی حمایت کرنا بذاتِ خود بورژوا جمہوریت کے لیے ایک مجبوری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری ”جمہوریت“ ”حقوق“ کے اعلان اور ان پر عمل در آمد پر مشتمل ہوتی ہے جو سرمایہ داری میں بہت کم حد تک حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن کمیونسٹ یہ جانتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت طبقاتی ظلم کو ختم نہیں کر سکتی۔ وہ طبقاتی جدوجہد کو زیادہ براہ راست، وسیع اور زیادہ کھلی اور واضح بناتی ہے۔ لینن اس بات کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ:

”طلاق کا حق جتنا زیادہ مکمل ہو گا اتنی ہی زیادہ وضاحت سے عورتیں دیکھیں گی کہ ان کی ”گھریلو غلامی“ کی جڑ سرمایہ داری ہے، نہ کہ حقوق کی کمی۔ حکومت میں نظام جتنا زیادہ جمہوری ہو گا اتنی ہی وضاحت سے مزدور دیکھیں گے کہ شر کا سرچشمہ سرمایہ داری ہے، نہ کہ حقوق کی کمی۔ قومی مساوات جتنی زیادہ مکمل ہو گی (اور علیحدگی کی آزادی کے بغیر یہ مکمل نہیں ہو سکتی) مظلوم قوموں کے مزدور اتنی ہی وضاحت سے دیکھیں گے کہ ان پر ظلم کا سبب سرمایہ داری ہے، نہ کہ حقوق کی کمی۔“

آج بھی سرمایہ داری میں تعلیم، ثقافت، تہذیب اور آزادی کے بلند و بانگ الفاظ بورژوا ریاستوں کی بد دیانتی، فریب کاری اور بے رحمی کی حد تک اسے سخت قوانین کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جو شادی اور طلاق کے معاملے میں عورت کو غیر مساوی، بغیر شادی کے بچے کو ”قانونی طور پر پیدا ہونے والے“ بچے کے مقابلے میں غیر مساوی بناتے ہیں، جو مردوں کو مراعات بخشتے ہیں اور عورت کی تذلیل کرتے ہیں۔ جبکہ سوویت حکومت نے شادی بیاہ اور خاندان کے متعلق قوانین میں جو قابلِ نفرت، ذلیل اور ریاکارانہ مساوات اور بچوں کے سلسلے میں جو نا برابری تھی، اسے جڑ سے اکھاڑ دیا۔ لینن لکھتا ہے:

”ظاہر ہے منشویک، اشتراکی انقلابی، نراجیوں کا ایک حصہ اور مغربی یورپ میں اسی قماش کی پارٹیاں جمہوریت کا راگ الاپنے سے اور واویلا کرنے سے باز نہیں آتیں کہ بالشویک اس کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شادی، طلاق اور بغیر شادی کے بچوں جیسے سوالات کے تعلق سے بالشویک انقلاب واحد ثابت قدم جمہوری انقلاب ہے۔ اور یہ ایک ایسا سوال ہے جو کسی بھی ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کے مفادات کو انتہائی براہِ راست متاثر کرتا ہے۔ بالشویک انقلاب اس سے پہلے ہونے والے بورژوا انقلابوں کی بڑی تعداد کے باوجود جنہوں نے اپنے آپ کو جمہوری کہا تھا، پہلا اور واحد انقلاب تھا جس نے اس سلسلے میں رجعت پرستی اور جاگیرداری کے خلاف اور حکمرانوں اور صاحب ملکیت طبقات کی حسب معمول ریاکاری دونوں کے خلاف مستقل مزاجی سے جدوجہد کی۔“

سرمایہ دارانہ معاشرہ ایک ایسا بحر ظلمات ہے جہاں غربت اور ظلمت کے بے شمار واقعات فوراً نظر نہیں آتے۔ محنت کشوں کے بکھرے ہوئے خاندان ناقابل بیان طور پر غربت میں دھنسے ہوئے ہوتے ہیں اور ”بہترین“ زمانے میں بھی بمشکل ہی اپنی ضروریات پوری کر پاتے ہیں۔ ان خاندانوں میں خواتین اپنے خاندان کو کھلانے پلانے اور لباس پہنانے کے لیے ہمہ تن مصروف رہتی ہیں، وہ ہر چیز میں کفایت شعاری برت سکتی ہیں سوائے اپنی محنت کے۔ سرمایہ دار ایسی ہی عورتوں کو انتہائی قلیل اجرت پر کام پہ رکھتے ہیں اور انہیں، جس طرح غلام داری میں غلاموں کے آقا اور جاگیر داری میں جاگیردار کرتے تھے، سرمایہ دار انتہائی ”مناسب“ داموں پر اپنی داشتہ کے طور پر منتخب کرتے ہیں۔ عصمت فروشی کے
خلاف سرمایہ دار طبقہ خواہ کتنی بھی ”اخلاقی خفگی“ کا اظہار کرے لیکن عورتوں کے جسموں کی تجارت میں یہ پیش پیش رہتا ہے۔ کیونکہ جب تک اجرتی غلامی باقی ہے، عصمت فروشی کا باقی رہنا ناگزیر ہے۔ انسانی معاشرے کی پوری تاریخ میں تمام مظلوم اور استحصال کیے جانے والے طبقات ہمیشہ مجبور کیے گئے ہیں کہ وہ ظالموں کو پہلے اپنی غیر ادا شدہ محنت حوالے کریں اور دوسرے اپنی عورتیں بھی، ”آقاؤں“ کی داشتہ بننے کے لیے۔ اس لحاظ سے غلامی، جاگیرداری اور سرمایہ داری یکساں ہیں۔ یہ استحصال کی صرف شکل بدلتی ہیں لیکن استحصال جاری رہتا ہے۔

1913ء میں لندن میں عصمت فروشی کے خلاف بین الاقوامی کانگریس منعقد ہوئی، جس کا عنوان تھا ”عصمت فروشی اور پیشہ ور لڑکیوں کی تجارت کے انسداد سے متعلق پانچویں بین الاقوامی کانگریس“۔ اپنی ایک تحریر میں لینن اس کانگریس میں عصمت فروشی کے سدباب کے لیے مجوزہ اقدامات کا حوالہ دیتا ہے۔ لینن لکھتا ہے:

”شستہ بورژوا نمائندوں نے (عصمت فروشی کے خلاف) جدوجہد کے بنیادی طور پر دو ذرائع تجویز کیے؛ مذہب اور پولیس۔ ایک نمائندے نے بڑے طمطراق سے کہا کہ اس نے پارلیمنٹ میں ایک مسودہئ قانون پیش کیا ہے جس کے تحت دلالوں کو جسمانی سزا دی جائے۔ عصمت فروشی کے خلاف جدوجہد کے اس جدید ”مہذب“ سورما کو ملاحظہ فرمائیے! جب آسٹریا کے نمائندے گارٹنر نے عصمت فروشی کے معاشرتی اسباب کے سوال کو مزدور طبقے کے خاندانوں کی احتیاج اور غربت کو، بچوں کی محنت کے استحصال کو، ناقابل برداشت رہائشی حالات وغیرہ کو چھیڑنا چاہا تو مخالف چیخوں میں ان کی آواز ڈوب گئی! لیکن اعلیٰ و ارفع شخصیتوں، جو نمائندوں میں بھی موجود تھیں، کے متعلق جو باتیں کہی گئیں وہ سبق آموز تھیں اور بلند و برتر بھی۔ مثلاً یہ بتایا گیا کہ جب جرمن ملکہ معظمہ برلن میں زچگی کے ہسپتال کا معائنہ کرتی ہیں تو ”حرامی“ بچوں کی ماؤں کی انگلیوں میں شادی کی انگوٹھیاں پہنا دی جاتی ہیں تاکہ اس جلیل القدر ہستی کو غیر شادی شدہ مائیں دیکھ کر صدمہ نہ پہنچے!“

لینن کی دی ہوئی اس مثال سے ہمیں نفرت انگیز بورژوا ریاکاری کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ بنی نوع انسان کی ہمدردی کے میدان میں کرتب باز اور احتیاج اور غربت کا تمسخر اڑانے والے، ”عصمت فروشی کے خلاف جدوجہد“ کرنے والے بورژوا اور اشرافیہ حقیقت میں عصمت فروشی کے سب سے بڑے سہولت کار اور حامی ہوتے ہیں۔ عصمت فروشی کی شکار خواتین بورژوا معاشرے کی دوہری شکار ہیں۔ پہلے نجی ملکیت کے بدبخت نظام کی اور دوسرا اس نظام کی بدبخت اخلاقی ریاکاری کی۔ اس لعنت کی شکار خواتین کی آزادی کے لیے لینن نے انہیں معاشرتی معیشت کی ترقی میں شامل کرنے پر زور دیا۔ انقلاب کے بعد جسم فروشی جیسی لعنت پر سخت پابندی عائد کر کے اس کا خاتمہ کیا گیا اور جسم فروشی کے اڈوں کا خاتمہ کیا گیا اور جسم فروشی کروانے والوں کو سخت سزا دی گئی۔ جسم فروشی کے کام میں مبتلا خواتین کو بھی صنعتی و پیداواری عمل میں شریک کرتے ہوئے انہیں سماج کے لیے کار آمد رکن بنایا گیا اور جسم فروشی کی غلاظت سے انہیں نجات دلائی گئی۔

آج لینن کو ہم سے جدا ہوئے ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ایک انقلابی مشن جس کی ابتدا لینن نے اپنی زندگی میں کی تھی وہ روس سمیت ساری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنا اور روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے ساتھ ساتھ اس پرولتاری انقلاب کو پوری دنیا کے محنت کش طبقے تک لے جانا ہے۔ لینن کا مشن جرأت مند تھا۔ اس نے محنت کش طبقے کی خواتین اور مجموعی طور پر محنت کش طبقے کی نجات کا انقلابی نظریہ اور راستہ پوری دنیا کے انقلابیوں کے سامنے رکھا ہے۔ پاکستان میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی اور پوری دنیا میں انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل لینن کے اسی مشن کو، جو ادھورا رہ گیا تھا، پورا کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے اور سرمایہ داری کے پوری دنیا سے خاتمے کی عظیم جدوجہد میں کمیونسٹوں اور محنت کش طبقے کی منظم کر رہی ہے، سرمایہ دارای کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر رہی ہے۔

Comments are closed.