|تحریر: لینن، 11 مارچ 1914 |
|ترجمہ: صبغت وائیں، ستمبر 2020 |
لبرل پروفیسر مسٹر تُگان بارانوفسکی سوشلزم کے خلاف جنگ میں مورچہ کھولے بیٹھے ہیں۔ اس دفعہ وہ جس سوال پر پہنچے ہیں وہ نہ تو سیاسی نوعیت کا ہے اور نہ ہی معیشتی نوعیت کا، بلکہ یہ مساوات پر بالکل ایک تجریدی بحث پر مبنی ہے (ہو سکتا ہے کہ پروفیسر صاحب یہ مان کر چل رہے ہوں کہ جن مذہبی اور فلسفیانہ مجالس سے وہ مخاطب ہیں ان کے لیے یہی تجریدی مباحث ہی مناسب ترین ہیں؟)۔
”اگر ہم سوشلزم کو ایک معیشتی نظریے کی بجائے ایک زندہ مثال کے طور پر لیں“ مسٹر تُگان اعلان فرماتے ہیں، ”تو بغیر کسی شبہے کے اس کا تعلق سیدھے سے مساوات کے خیال سے جا جڑتا ہے، لیکن مساوات ایک تصور ہے۔۔۔جو کہ تجربے اور تعقل سے ہرگز برآمد نہیں کیا جا سکتا۔“
یہ ایک لبرل سکالر کا استدلال ہے جو کہ ناقابلِ یقین حد تک فرسودہ اور دقیانوسی دلیل کی رٹ لگائے بیٹھا ہے کہ تجربے اور تعقل سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ انسان ہرگز برابر نہیں ہیں، جب کہ سوشلزم اپنے تصور کی بنیاد ہی مساوات پر رکھتا ہے۔ لہٰذا، سوشلزم، معذرت کے ساتھ، ایک ایسی خرافات ہے جو کہ تجربے اور تعقل اور اسی طرح ]کے دیگر حقائق[ کے بالکل متضاد ہے!
مسٹر تُگان نے دوبارہ سے وہی پرانا رجعت پرستوں کا پٹا ہوا شعبدہ دکھایا ہے؛ پہلے تو نہایت چالاکی سے سوشلزم کی غلط تعبیر کرتے ہوئے اس کو ایک لا یعنی تصور ٹھہرا دیا، اس کے بعد فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے اس لایعنی خیال کو باطل کر دیا! جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تجربہ اور تعقل یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسان برابر نہیں ہیں، تو اس برابری سے ہماری مراد صلاحیتوں میں برابری یا جسمانی قوت اورذہنی قابلیت میں مماثلت ہوتی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ اس حوالے سے انسان برابر نہیں ہیں۔ کوئی بھی معقول انسان اور کوئی سوشلسٹ یہ بات کبھی نہیں بھول سکتا۔ مگر اس طرح کی برابری کا سوشلزم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر مسٹر تُگان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر عاری بھی ہیں تو بھی کم از کم ان کو پڑھ پانے کے قابل تو بہرحال ہونا ہی چاہیے؛ انہیں چاہیے کہ وہ سائنسی سوشلزم کے بانیوں میں سے ایک، فریڈرک اینگلس کی ایک معروف تحریر کو جو کہ انہوں نے ڈوہرنگ کے خلاف لکھی تھی، دیکھیں، وہاں ان کو ایک سپیشل سیکشن اسی بات کی وضاحت میں ملے گا کہ معاشی برابری کا مطلب طبقات کے خاتمے کے علاوہ کچھ بھی اور تصور کرنا نری واہیاتی ہے۔ لیکن یہ پروفیسر لوگ جب سوشلزم کو رد کرنے پر تُل جاتے ہیں تو کسی کو یہ سمجھ نہیں آ سکتی کہ وہ کس بات پر زیادہ حیران ہو۔۔ان کے احمقانہ پن پر، ان کی جہالت پر، یا پھر ان کی موُشگافیوں پر۔
اب جب کہ ہمارا پالا مسٹر تُگان سے پڑ ہی گیا ہے تو ہمیں کچھ ابتدائی اصول طے کر کے شروعات کرنا ہو گی۔
سیاسی برابری سے سوشل ڈیموکریٹس کی مراد مساوی حقوق ہوتی ہے، اور معاشی برابری سے، جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں ان کی مراد طبقات کا خاتمہ ہے۔ انسانوں کے مابین مساوات قائم کرتے وقت برابری کو طاقت اور صلاحیتوں (جسمانی اور ذہنی) میں برابری کے مفہوم میں لینا۔۔۔سوشلسٹ اس قسم کی چیزوں کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔
سیاسی برابری ایک ایسے ملک کے ہر شہری کے لیے برابر کے سیاسی حقوق کی ایک مانگ ہے جو کہ ایک مخصوص عمر گزار چکا ہو اور جو عام یا لبرل پیشہ ورانہ ضعف دماغی کا شکار نہ ہو۔ یہ مانگ سب سے پہلے سوشلسٹوں نے نہیں کی تھی، نہ ہی پرولتاریوں نے، بلکہ بورژوازی نے سب سے پہلے ایسا کیا تھا۔ یہ ایک ایسا جانا مانا تاریخی تجربہ ہے جس پر دنیا کے تمام ممالک مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں، اور مسٹر تُگان اس بات کا کھوج باآسانی لگا سکتے تھے، اگر وہ اس چیز کو ”تجربہ“ نہیں کہتے جو ایک تنہا مشاہدہ کرنے والا طلبہ اور محنت کشوں کو دھوکا دینے کے لیے اور ان طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے کرتا ہے جو کہ سوشلزم کو ”نابود کرنا“ چاہتی ہیں۔
بورژوازی نے عہدِ وسطیٰ، جاگیر داری، کھیت غلام کے مالکان اور ذات پات کی مراعات کے خلاف جدوجہد میں ہر شہری کے لیے برابری کے حقوق کی مانگ کے لیے آواز اٹھائی تھی۔ مثال کے طور پر روس میں، امریکہ، سوئتزرلینڈ اور دیگر ممالک کے برخلاف خاندانی امیر ہونے کی مراعات نے آج تک ساری سیاسی زندگی کو گھیر رکھا ہے، ان میں سٹیٹ کونسل کے الیکشن ہیں، ڈوما کے الیکشن، میونسپل ایڈمنسٹریٹر کے یا ٹیکس کے معاملات ہیں اور اسی طرح کی متعدد دیگر چیزیں ہیں۔
ایک احمق ترین اور جاہل انسان بھی اس حقیقت کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے کہ یہ رئیس زادے نہ تو انفرادی طور پر جسمانی قوت اور ذہنی صلاحیتوں میں ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں اور نہ ہی ان لوگوں سے برتر ہوتے ہیں جو کہ ”ٹیکس ادا کرنے والے“، ”کمی کمین“، ”نیچ ذات کے“ یا پھر ”غیر مراعات یافتہ“ کسان طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن حقوق میں تمام شرفا برابر ہیں، بالکل اسی طرح جیسے تمام کسان اپنے محرومئی حقوق کے حساب سے برابر ہیں۔
کیا اب ہمارے فاضل لبرل پروفیسر تُگان صاحب کو یہ سمجھ آ گئی ہے کہ برابری جو کہ برابر کے حقوق کے معنوں میں ہے، اس برابری سے مختلف ہے جو کہ طاقت اور صلاحیتوں کی برابری کے معنوں میں ہے؟
اب ہم معاشی برابری کی جانب آتے ہیں۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں عہدِ وسطیٰ کی مراعات کا کہیں وجود نہیں ہے۔ تمام شہری اپنے سیاسی حقوق کے لحاظ سے برابر ہیں۔ لیکن کیا وہ سماجی پیداوار میں اپنے رتبے کے لحاظ سے بھی برابر ہیں؟
نہیں، مسٹر تُگان، یہ لوگ برابر نہیں ہیں۔ کچھ کے پاس اراضی ہے، فیکٹریاں اور سرمایہ ہے اور وہ محنت کشوں کی عدم ادا شدہ محنت پر زندگی گزارتے ہیں؛ یہ چیز ان کو ایک نظر میں نہ آنے والی اقلیت بنا دیتی ہے۔ باقی ماندہ، یعنی کہ، جو آبادی کا سوادِ اعظم ہیں، ان کے پاس پیداوار کے کسی بھی ذریعے کی ملکیت نہیں ہے اور وہ اپنی قوتِ محنت کو بیچ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؛ یہ پرولتاریہ ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں کسی بھی قسم کی کوئی اشرافیہ کا وجود نہیں ہے، اور بورژوا اور پرولتاری برابر کے سیاسی حقوق سے مستفیض ہوتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ اپنی طبقاتی حیثیت میں ہرگز برابر نہیں ہیں؛ ایک طبقہ، سرمایہ دار، ذرائع پیداوار کا مالک ہے اور محنت کشوں کی غیر ادا شدہ محنت پر عیش کرتا ہے۔ جب کہ دوسرا طبقہ، جو کہ تنخواہ پر ملازم ہے، یعنی پرولتاری، کسی بھی قسم کے ذرائع پیداوار کی ملکیت سے محروم ہے، اور اپنی زندگی کی گاڑی کو منڈی میں جا کر اپنی قوتِ محنت بیچ کر کھینچنے پر مجبور ہے۔
طبقوں کو ختم کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ ذرائع پیداوار سماج کو ایک کُلیت [1] مانتے ہوئے سماج کی ملکیت میں ہوں جس کی بنا پر تمام شہریوں کے پاس ]روزگار کے حصول کے[ برابر کا موقع ہو۔ اس کا مطلب تمام شہریوں کو عوامی ملکیت کے ذرائع پیداوار، عوامی ملکیت کی زمین، عوامی ملکیت کی فیکٹریوں وغیرہ پر کام کرنے کے برابر کے مواقع فراہم کرنا ہے۔
ہمارے فاضل لبرل پروفیسر مسٹر تُگان کے دماغ کو منور کرنے کے لیے سوشلزم کی یہ تشریح کافی ہے، جو اگر محنت کریں تو اب اس حقیقت کو پا سکتے ہیں کہ ایک سوشلسٹ معاشرے میں طاقت اور صلاحیتوں میں برابری کی توقعات کرنا کتنی لاحاصل بات ہو گی۔
مختصر یہ کہ جب سوشلسٹ برابری کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد ہمیشہ سماجی برابری یا سماجی حیثیت میں برابری ہوتی ہے، اور کسی بھی طرح سے اس سے مراد افراد کی طاقت اور ذہنی صلاحیتوں میں برابری نہیں ہے۔
اس گورکھ دھندے میں الجھا ہوا قاری پوچھ سکتا ہے؛ ایک پڑھا لکھا لبرل پروفیسر سوشلزم کے یہ بنیادی اصول نہ جاننے کی غلطی کیسے کر سکتا ہے جن کو ہر وہ بندہ بخوبی جانتا ہے جس نے سوشلزم کے تصور پر کوئی بھی تشریح پڑھ رکھی ہو؟ تو اس کا جواب بالکل سادہ ہے؛ آج کے دور کے پروفیسروں کی ذاتی صلاحیتیں ایسی ہیں جیسی کہ ہمیں صرف تُگان جیسے انتہا کے احمق لوگوں میں نظر آتی ہیں۔ لیکن بورژوا سماج میں ان پروفیسروں کی سماجی حیثیت یہ ہے کہ یہاں یہ ان عہدوں پر صرف انہی کو بٹھایا جاتا ہے جو کہ سرمائے کے مفادات کی خدمت کرنے کے لیے سائنس کو فروخت کر سکیں، اور اس بات پر راضی ہوں کہ وہ سوشلسٹوں کے خلاف گدھے پن کی حد تک بے معنی، انتہا درجے کی بے اصول بکواس اور مہمل ترین ہرزہ سرائی کر سکیں۔ بورژوازی ان پروفیسروں کی ان تمام حرکتوں کو اس وقت تک معاف کرتی رہے گی جب تک وہ سوشلزم کے ”خاتمے“ کے لیے سرگرم ہیں۔
[1] یہاں لینن نے فلسفے کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ جس میں کلیت یا کُل سے مراد ایسا وجود ہے جس کے کئی اجزا ہوں؛ اور ان اجزا میں سے ہر جزو اہم ترین ہوتا ہے، لازمی ہوتا ہے، ایک جیسا یا برابر ہوتا ہے۔ انسان کے جسم میں ہر جزو بطور جزو کے ایک جیسا ہے، اور اس لحاظ سے برابر ہے کہ ان میں سے کسی ایک کی کمی بھی اس انسان کو ”نسلِ انسانی کا نمائندہ“ نہیں رہنے دیتی۔ مترجم