|تحریر: یولا کپچیک، ترجمہ: آفتاب اشرف|
یہ خیال کہ بائیں بازو کو ایک بہتر ”بیانیے“ اور اسی سے منسلک ”بائیں بازو کے پاپولزم“ کی ضرورت ہے، یورپ اور پوری دنیا میں بائیں بازو کی پارٹیوں اور تنظیموں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی کی لیفٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری جارج شنڈلر لکھتا ہے کہ، ”ماحولیاتی تحریک کی ہر اول پرت میں ہونے کے لیے، اور ہمیں ہر اول پرت میں ہی ہونا چاہیے، ہمارے پاس ایک متاثر کن بائیں بازو کا بیانیہ ہو نا چاہیے۔“
کاتیا کپنگ، جو اسی پارٹی کی چیئر پرسن ہے، وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہے، ”میرے خیال میں یہ بتانے کے لیے کہ متبادل موجود ہیں، ہمیں بائیں بازو کے پاپولزم کی ضرورت ہے۔ اور ہمیں متبادل وضاحتوں کو توانا کرتے ہوئے (جرمن چانسلر اینجلا مرکل کے) بیانیے کا مقابلہ ایک مختلف بیانیے سے کرنے کی ضرورت ہے۔“
اسی طرح 2019ء میں آسٹریا کے شہرویانا میں ”یورپ کو بدل ڈالو“ کے نام سے ایک تقریب منعقد ہوئی تھی جس کا انعقاد یونان کی سائیریزا، جرمنی کی لیفٹ پارٹی، اطالوی ری فاؤنڈڈ کمیونسٹ پارٹی، پرتگیزی لیفٹ بلاک ا و دیگر یورپی بائیں بازو کی پارٹیوں نے کیا تھا اور اس میں ینگ لیفٹ، آسٹرین کمیونسٹ پارٹی اور دیگر نے بھی شرکت کی تھی۔ دو گھنٹے تک جاری رہنے والی اس بحث میں ”بائیں بازو کا بیانیہ“ نامی اصطلاح کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ یہ سب ابھی محض چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ خیالات مختلف ممالک کے بائیں بازو میں کتنی جڑ پکڑ چکے ہیں۔
”بائیں بازو کا بیانیہ“ جیسے خیالات یونیورسٹیوں میں تو کافی عرصے سے گردش کر رہے تھے مگر ان کی عمومی مقبولیت کا آغازیونان میں سائیریزا اور سپین میں پوڈیموس جیسی نیو لیفٹ پارٹیوں کے تیز ابھار کے ساتھ منسلک ہے، جو عالمی سطح پر بائیں بازو کی ایک اکثریت کے لیے پوائنٹ آف ریفرنس بن گئیں۔ ان دونوں پارٹیوں کے قائدین کی تقاریر میں آپ کو ان خیالات کی بھرمار نظر آتی ہے۔ اور یقینی طور پر ان خیالات کی تشکیل و ترویج کرنے والے ”نظریہ دان“ بھی موجود ہیں جن میں سے ایک نمایاں نام بیلجئیم سے تعلق رکھنے والی اکیڈیمک چینٹل موفے کا ہے۔
اپنے آنجہانی پارٹنر ارنسٹو لیکلاؤ کے ساتھ مل کر موفے نے بیانیے پر مشتمل ”بائیں بازو کے پاپولزم“ کی ایک تھیوری تشکیل دینے کی کوشش کی تھی۔ اپنی کتاب ”بائیں بازو کے پاپولزم کے لیے“ میں موفے، انیگو ایروخون (پوڈیموس) اور میلاشون (لا فرانس انسومی) کے ساتھ ہونے والے تبادلہئ خیال پر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
”بیانیے“ کے پیچھے کیا ہے؟
”بائیں بازو کے نئے بیانیوں“ پر مشتمل ”بائیں بازو کے پاپولزم“ کی تعمیر پر مبنی موفے کی تھیوری کے پیچھے بنیادی خیال یہ ہے کہ حقیقت بیانیوں، یعنی کہ کہانیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس تصور کے مطابق اگر سیاستدان ایک متاثر کن شکل میں لوگوں کے تجربات کو بیان کرنے، یعنی بیانیے کی تشکیل میں، کامیاب ہو جائیں تو اس کے ذریعے لوگوں کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہوئے حقیقت کوتشکیل دیا جا سکتا ہے۔
یعنی حقیقت کوئی معروضی ومادی وجود نہیں رکھتی جو ہمارے خیالات کی بنیاد بنتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس، یہ ہمارے خیالات ہیں جو دنیا کی ترتیب و تشکیل کرتے ہیں۔ لہٰذا سرمایہ داری کوئی معاشی نظام نہیں جس سے سرمایہ دار طبقے اورمحنت کش طبقے کا جنم ہوا ہے، بلکہ یہ محض ایک بیانیہ ہے۔ موفے اپنی نظریاتی اپروچ کو ”جوہر مخالف“ قرار دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موفے کے مطابق ہمارے خیالات سے مطابقت رکھنے والی کوئی حقیقی و معروضی دنیا (جسے وہ ”جوہر“ کہتی ہے) وجود نہیں رکھتی۔ وہ سمجھتی ہے کہ ”سماج ہمیشہ منقسم ہوتا ہے اور اس کی تشکیل غالبانہ (Hegemonic) طریقوں سے بننے والے بیانیوں کے ذریعے ہوتی ہے“، اور مزید یہ کہ”یہ کبھی بھی کسی گہری معروضی حقیقت کا اظہار نہیں ہوتا“۔
اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ سماج میں کوئی حقیقی طبقات وجود نہیں رکھتے۔ محنت کش طبقہ بھی بیانیوں اور لسانیات کے ذریعے تشکیل پانے والی بہت سی شناختوں میں سے ایک ہے، ”اجتماعی سیاسی عناصر نمائندگی کے ذریعے تخلیق ہوتے ہیں، وہ پہلے سے وجود نہیں رکھتے۔“
لہٰذا بائیں بازو کے بیانیے اور پاپولزم کا مقصدیہ ہے کہ لوگوں کو ان کے مشترکہ مفادات اور ”خواص“ کی ان کے ساتھ مخاصمت کے متعلق بتا کرایک اجتماعی شناخت کو تشکیل دیا جائے۔ یہ ”بیانیوں پر مشتمل اسٹریٹیجی ہے جس کا مقصد سماج کو سیاسی طور پر دو کیمپوں میں تقسیم کرتے ہوئے ”محروموں“ کو ”طاقتوروں“ کے خلاف حرکت میں لانا ہے۔“
حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب ”گہرا سرخ اور ریڈیکلی رنگا رنگ؛ لیفٹ کے ایک نئے بیانیے کے لیے“ کی مصنف جولیافریتشے ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے بیانیے کو، ”سب سے پہلے لوگوں کے روز مرہ کے تجربات کے ساتھ ایک تعلق استوار کرنا ہو گا۔ لگنا یہ چاہیے کہ بیانیہ مشترکہ تجربات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یہ چیز اہمیت نہیں رکھتی کہ کیا واقعی وہ ان تجربات سے گزرے ہیں۔“
لہٰذا یہ حیران کن نہیں کہ جب بھی بائیں بازو کے بیانیوں کے پیروکار سماج کی تبدیلی یا کسی عملی اقدام کی بات کرتے ہیں توان کی گفتگو میں طبقاتی جدوجہد کا ذکر یا تو ہوتا ہی نہیں یا اگر ہوتا بھی ہے تو صرف ایک ایسی فالتو چیز کے طور پر جس پر ”کم وبیش“ اتفاق کیا جا سکتا ہے۔
اسی پس منظر میں ہم آسٹرین سوشل ڈیموکریسی سے تعلق رکھنے وا لے میکس لرچرکے مؤقف کا تجزیہ کرتے ہیں جو کہ ان تمام خیالات کا شدید حامی ہے۔ لرچر کا ماننا یہ ہے کہ پارٹی کو تازہ دم کرنے کے لئے سوشل ڈیموکریسی کو ایک نئی تاسیسی کانگریس کی ضرورت ہے۔ وہ لکھتا ہے:
”ایک چیک صنعتی مزدور اور ایک سٹائیرین کانکن میں کیا مشترک ہے؟ یا ایک وینس سے تعلق رکھنے والے سماجی اصلاح پسند اور ایک ہنگرین ریڈیکل سوشلسٹ میں؟ حتمی تجزئیے میں ہم سب مختلف ہیں اور ہمارا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے۔ اور یہ ایک اچھی بات ہے۔ مگر ہائین فیلڈ میں (وہ مقام جہاں 1888ء میں آسٹرین سوشل ڈیموکریٹک ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی) ہم چند مرکزی و مشترکہ خیالات پر متفق ہوئے تھے اور ان خیالات کا اظہار کرنے والی ایک پارٹی تخلیق ہوئی تھی۔
”نئے محنت کش طبقے میں وہ سب شامل ہیں جن کو خوشحالی تک ایک منصفانہ رسائی حاصل نہیں۔ اس میں چھوٹے اور درمیانے حجم کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ یہاں ہم لڑائی کے لئے ایک نئی حدِ فاصل کھینچ سکتے ہیں۔“
ذرا نوٹ کیجیے کہ سب سے پہلے تو لرچرکے نزدیک محنت کشوں کے اتحاد کی بنیاد مشترکہ طبقاتی مفادات نہیں بلکہ خیالات ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ اس کے لیے سماج میں ٹکراؤ کی حدِ فاصل معروضی طور پر وجود نہیں رکھتی بلکہ اس کا تعین موضوعی طور پر کیا جاتا ہے، لہٰذا چھوٹے اور درمیانے سرمایہ دار وں کو بھی اچانک سے محنت کش طبقے کا حصہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
مارکسی نقطہ نظر کے مطابق تو ایک چیک اور سٹائیرین ورکر میں بہت کچھ مشترک ہے۔ دونوں اجرت کے عوض اپنی قوتِ محنت بیچتے ہیں، سرمایہ دار طبقہ دونوں کا استحصال کرتا ہے، اس لیے یہ دونوں معروضی طور پر محنت کش طبقے کا حصہ ہیں۔ لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری شناخت کا تعین متاثر کن جذباتی کہانیوں سے ہوتا ہے تو پھر اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ سرمایہ داری کا خاتمہ سرمایہ دار طبقے کے خلاف طبقاتی جدوجہد کے ذریعے نہیں بلکہ نئی کہانیاں لکھنے سے ہی ہو سکتا ہے۔
یہ کہانیاں پھر لوگوں کے ذہنوں میں جڑ پکڑ جاتی ہیں یا دوسرے الفاظ میں ’غلبہ‘ حاصل کر لیتی ہیں، جیسا کہ موفے لکھتی ہے،
”ہر رائج الوقت نظام کو غلبے کو رد کرنے والے عمل سے اندیشہ لاحق ہوتا ہے۔ ایسا عمل جو اسے (رائج الوقت بیانیے کو) تہس نہس کرتے ہوئے ایک نئی قسم کا غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔“
مزید برآں فرتشے لکھتی ہے،
”بیانیے موجودہ دور کے مشکل حالات سے نجات پانے کا تیز ترین طریقہ نہیں ہوں گے۔۔۔بائیں بازو کے ایک نئے بیانیے میں خامیاں اور کمزوریاں بھی ہوں گی، مگر ایک لمبے عرصے میں یہی موجودہ جبر سے نجات کا واحد ذریعہ ہیں۔“
درحقیقت اس تمام لفاظی کا اصل مطلب انقلاب کا انکار اور حاکم نظام کو مکمل طور پر رد کرنے سے انکار ہے۔ لرچر وغیرہ جیسے بائیں بازو کے بیانیوں کے پرستار شعوری یا لاشعوری طور پر ایک انتہائی غیر مارکسی مؤقف رکھتے ہیں۔ موفے تو شعوری طور پر مارکسزم کی دشمن ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ ”کمیونزم کے فسانے سے۔۔جان چھڑانی ہو گی“، کیونکہ اس کے مطابق یہ پہلے ہی اپنی طبقاتی تخفیف پسندی کی وجہ سے عملی طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ یہاں طبقاتی تخفیف پسندی سے موفے کی مراد یہ ہے کہ مارکسزم صرف طبقاتی جدوجہد کو ہی حتمی سمجھتا ہے اور دیگر ہر جدوجہد کو طبقاتی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے جبکہ موفے اور اس کے ساتھیوں کے نزدیک مزدور تحریک بھی محض حقوقِ نسواں، ماحولیات اور ایل جی بی ٹی حقوق کے گرد سماج میں چلنے والے دیگر تحریکوں جیسی ہی ایک تحریک ہے۔
موفے مزید لکھتی ہے، ”سماج میں ہمیشہ تضادات اور جدوجہد موجود رہیں گے۔“ یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ طبقاتی تفاوت، جبر واستحصال ناگزیر ہیں اور ان کا کبھی بھی مکمل طور پر خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور ان مایوس کن بنیادوں پر وہ اپنی ”غلبے کو رد کرنے والے عمل“ کی تھیوری پروان چڑھاتی ہے۔ وہ اسے کمیونزم کے متبادل کے طور پر پیش کرتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ یہ، ”کبھی بھی ایک مکمل طور پر آزاد سماج تخلیق نہیں کر سکے گی اور (مکمل) نجات کا خواب دیکھنا اتنا ہی بیکار ہے جتنا کہ ریاست کے خاتمے کی بات کرنا۔“
اپنی تھیوری میں وہ برملا اظہار کرتی ہے کہ اس کا طریقہ کار، ”طاقت اور تقسیم سے مبرا ایک سماج کے امکان کو رد کرتا ہے۔“ قصہ مختصر یہ کہ پیچیدہ اور بظاہر ریڈیکل دکھنے والی لفاظی کے پردے میں وہ درحقیقت انقلاب کو رد کرتی ہے اور اصلاح پسندی کے گڑھے میں جا گرتی ہے۔ حقوقِ نسواں اور ایل جی بی ٹی حقوق کی تحریکوں کو طبقاتی جدوجہد کے برابر لا کھڑا کرنا درحقیقت طبقاتی مفاہمت پسندی کا نقطہ نظر ہے۔ یعنی سرمایہ داری کی ایک ”منصفانہ“ قسم کے لیے بورژوا اور درمیانے طبقے کے مختلف حصوں کے ساتھ اتحاد بنا کر مشترکہ جدوجہد کی جائے۔
”بائیں بازو کے بیانیے“ کے حامیوں میں موجود کوئی نسبتاً دلیر لوگ سرمایہ داری پر کڑی تنقید تو کر سکتے ہیں مگر اس کے خاتمے کے متعلق سوچنا بھی ان کے لیے ناممکن ہے۔ ”سرمایہ داری پر پر مغز تنقید تو ہونی چاہیے، بلکہ ہمیں ایسا کرنا ہو گا“، لرچر اپنے ایک انٹر ویو میں کہتا ہے مگر اسی نشست میں آگے چل کر وہ اپنے خیالات کی مزید وضاحت کرتا ہے، ”ہمیں محنت کی ایک ایسی منڈی کی ضرورت ہے جہاں جزوی طور پر ریاست کی مداخلت ہو، جو منڈی کے اصولوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو لیکن منافع سے بالاتر ہو۔“
سرمایہ داری اور اسے کنٹرول میں رکھنے کے لئے نیم دلانہ ریاستی اقدامات کا یہ کنفیوژڈ ملغوبہ ایسے ہی ہے جیسے کسی چیتے کو سبزی خور بنانے کی کوشش کی جائے۔ درحقیقت یہ محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں موجود ایک منصوبہ بند معیشت کے سوشلسٹ تصور کے مقابلے میں کہیں زیادہ یوٹوپیائی ہے۔
یہاں ہم یہ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ان تمام خیالات کی فلسفیانہ بنیادوں سے ناگزیر طور پر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سرمایہ داری کا خاتمہ ناممکن ہے لہٰذا اسے بحیثیت نظام نہ ہی چھیڑا جائے۔ اسی لیے مارکس وادیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مضبوط فلسفیانہ بنیادوں پر کھڑے ہوتے ہوئے اس اصلاح پسندی کا پردہ چاک کریں اور ان تمام لغویات کا ایک سیر حاصل انقلابی جواب دیں۔
”ریاست بننا۔۔“
نام نہاد ”بائیں بازو کے بیانیے“ کے حامیوں کی زیادہ تر توجہ طبقاتی جدوجہد کی طرف نہیں بلکہ جمہوری مانگوں کی جانب ہوتی ہے۔ ”ہمیں مزید جمہوریت کے لیے جرات پیدا کرنی ہو گی۔“ لرچر اپنے ”ہمیں آج سوشل ڈیموکریسی کیوں چاہیے؟“ نامی آرٹیکل میں رقم طراز ہے۔ اسی طرح آسٹرین ینگ سوشلسٹس کی چئیر پرسن جولیا ہر کا کہنا ہے کہ،
”1970ء کی دہائی میں سوشل ڈیموکریسی نے معاشی نظام کو جمہوریت پسند بنانے اور دولت کی تقسیم کو منصفانہ بنانے کے لیے جدوجہد کی۔ اور پھر کسی مقام پر، کسی کارن ہم اپنا اعتماد کھو بیٹھے۔“
جرمن لیفٹ پارٹی کے ساتھ منسلک ماڈرن سالیڈیریٹی انسٹیٹیوٹ (ISM) نامی تھنک ٹینک سماجی سوال کی یوں وضاحت کرتا ہے، ”اسے جمہوریت کے سوال کے طور پر، ریڈیکلی پیش کرنا ضروری ہے۔“ آئی ایس ایم کے نظریہ دان اور لیفٹ پارٹی کی روزا لکسمبرگ فاؤنڈیشن کے بورڈ ممبر تھامس سائبرٹ کے مطابق اصل لڑائی تو ”حقیقی“ جمہوریت کے لیے ہے۔
موفے لکھتی ہے،
”ہماری نظر میں جدید جمہوری معاشروں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ”آزادی اور برابری“ جیسے بنیادی اصولوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔۔۔ہم جس ’ریڈیکل اور کثیر الجہتی جمہوریت‘ کی بات کرتے ہیں، اسے موجودہ جمہوری اداروں کی ریڈیکلائزیشن کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔۔۔“
یہاں پیش کیا جانے والا تمام تر تناظر ”سٹیٹس کو“ کا تناظر ہے۔ ہمیں بار بار یہ بتایا جا رہا ہے کہ ”جمہوری“ اداروں پر مشتمل سماج کے بالائی ڈھانچے، جسے تاریخ نے بے شمار بار حکمران طبقے کا اوزار ثابت کیا ہے، میں محض کچھ ”بہتری“ ممکن ہے نہ کہ اس کا خاتمہ۔ مزید برآں، طبقاتی تفاوت، عدم مساوات اور جبر واستحصال کی اصل وجہ یعنی سرمایہ داری کا تو نام تک نہیں لیا جاتا۔
یہاں پر ایک اور اہم لکیر ہے جو ہمیں ان لوگوں سے جدا کرتی ہے اور وہ ہے ریاست اور اس کے نام نہاد جمہوری اداروں کے متعلق ہمارا تصور۔ انقلابیوں کے لیے ریاست کے سوال پر بالکل واضح ہونا نہایت اہم ہے۔ ایک انقلابی تحریک کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر میں کہ ایک انقلاب کے ذریعے (بورژوا) ریاست کا خاتمہ کر دینا چاہیے اور اس نقطہ نظر میں کہ ریاست کواصلاحات کے ذریعے محکوم و مظلوم طبقات کا خیر خواہ بنایا جا سکتا ہے، زمین آسمان کا فرق ہے۔ دوسرا نقطہ نظر رکھنے کا نتیجہ ناگزیر طور پرموجودہ ریاست اور اس کی پشت پر موجود طبقاتی مفادات کے ساتھ مفاہمت کی صورت میں نکلتا ہے۔
آئیے ہم ذرا ریاست کے متعلق مارکسی نقطہ نظر اور ”بائیں بازو کے بیانیوں“ کے حامیوں کے نقطہ نگاہ کے مابین فرق کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔ موفے اور اس کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ ریاست:
”۔۔طاقتوں کے توازن کا اظہار اور جدوجہد کا میدان ہوتی ہے۔۔یہ ایک ایسا اکھاڑہ ہے جہاں مناسب مداخلتوں کے ذریعے، اہم جمہوری حاصلات کے لیے جگہ بنائی جا سکتی ہے۔ اسی لیے غلبہ حاصل کرنے کے لیے بنائی جانے والی کسی بھی اسٹریٹیجی میں یہ ضروری ہے کہ مختلف ریاستی اداروں کے ساتھ رابطے میں رہا جائے تا کہ ان کی اصلاح کرتے ہوئے ریاست کو سماج کی جمہوری مانگوں کا آئینہ دار بنایا جا سکے۔۔۔ایک مخصوص زاویے سے انقلابی طرز کی سیاست اور غلبہ حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی سیاست، دونوں کو ’ریڈیکل‘ کہا جا سکتا ہے کیونکہ دونوں موجودہ غلبے کے خلاف ہیں۔ مگر یہ مخالفت ایک جیسی نہیں ہے لہٰذا یہ نامناسب ہو گا کہ انہیں ’انتہا پسند بائیں بازو‘ کی ایک ہی کیٹیگری میں ڈال دیا جائے، جیسا کہ اکثر کیا جاتا ہے۔ عمومی غلط فہمی کے برعکس لیفٹ پاپولسٹ اسٹریٹیجی ’انتہا پسند بائیں بازو‘ کا چربہ نہیں ہے بلکہ نیو لبرلزم کی مخالفت کا ایک مختلف طریقہ کار ہے جو جمہوریت کی ریڈیکلائزیشن پر یقین رکھتا ہے۔“
جیسا کہ ظاہر ہے کہ موفے اپنے ”غلبہ حاصل کرنے“ کے طریقہ کار اور ”انقلابی‘‘ طریقہ کار میں واضح طور پر تفریق کرتی ہے۔ اس کے لیے ریاست محض مختلف اداروں اور ”ذمہ داریوں“ کا ایک نیٹ ورک ہے جو کسی مشترکہ (طبقاتی) مفاد سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لہٰذا لیفٹ پاپولزم کے پاس گنجائش ہے کہ وہ اس پر اثر انداز ہوتے ہوئے اس کو تبدیل کر دے۔
مگر اس کے برعکس مارکس وادیوں کے لیے بورژوا ریاست جدوجہد کا کوئی نیوٹرل اکھاڑہ نہیں بلکہ حکمران طبقے کا ایک اوزار ہے جسے (انقلاب کے ذریعے) مسمار کرتے ہوئے ایک مزدور ریاست سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ داری کے خاتمے اور ایک غیر طبقاتی کمیونسٹ سماج کے لیے راہ ہموارکرنے کے بعد جیسے جیسے سماج میں طبقات کا خاتمہ ہو گا، ویسے ہی یہ مزدور ریاست مرجھا کر ختم ہوتی جائے گی۔ موفے جیسے پوسٹ ماڈرنسٹ نظریہ دان اس مارکسی نقطہ نظر کو ”انتہائی سادہ“ قرار دیتے ہوئے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ریاست کے تاریخی ارتقا اور جس مقصد کے لیے یہ ظہور پذیر ہوئی، کا تفصیلی جائزہ لیں تو بھر پور اعتماد کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کی مارکسی تعریف اس ادارے کے جوہر کو بالکل درست طور پر بیان کرتی ہے۔
مارکس اور اینگلز نے یہ وضاحت کی تھی کہ کس طرح تاریخی طور پر ریاست کا جنم بھی طبقاتی سماج کے ساتھ ہی ہوا ہے۔ طبقاتی سماج کا جنم تب ہوا تھا جب نوعِ انسان کی پیداواری قوتیں اتنی ترقی کر گئیں کہ انسان بقا کی فوری ضروریات سے ذائد پیدا کرنے کے قابل ہو گیا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ سماج کا ایک چھوٹا سا مراعات یافتہ حصہ فوری بقا کے لیے محنت و مشقت کرنے کی ضرورت سے آزاد ہو گیا۔ مگر پیداوار ابھی اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی کہ پورا سماج اس آسائش سے مستفید ہو سکتا۔ اس امر نے طبقات کی تخلیق کے لیے راہ ہموار کی۔ ایک طرف ذرائع پیداوار کی ملکیت رکھنے والے حکمران طبقات کا جنم ہوا تو دوسری طرف استحصال زدہ محکوم و مظلوم طبقات وجود میں آئے جن کی پیدا کردہ دولت حکمران طبقہ ہتھیا لیتا ہے۔
مگر ضرورت اس امر کی تھی کہ ان متحارب طبقاتی مفادات کو قابو میں رکھا جائے۔ لازمی تھا کہ استحصال زدہ اکثریت کو یہ یقین دلایا جاتا کہ موجودہ نظام ازلی و ابدی اور ناقابلِ تغیر ہے اور جو کوئی بھی اس کے متعلق سوال اٹھائے، وہ سزا کا مستحق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے کی داخلی لڑائیوں کو بھی قابو میں رکھنا ضروری تھا تا کہ کہیں وہ پورے اسٹیٹس کو کے لیے ہی خطرہ نہ بن جائیں۔ انہی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ریاست کا جنم ہوا تھا۔ اینگلز نے وضاحت کی تھی:
”مگر اس واسطے کہ یہ تضادات، متحارب معاشی مفادات رکھنے والے طبقات، خود کو اور سماج کو ایک اندھی لڑائی میں بھسم نہ کر دیں، بظاہر سماج سے بالاکھڑی ایک طاقت کی موجودگی ناگزیر ہو گئی تھی جو لڑائی کو قابو میں لاتے ہوئے اسے ’نظم وضبط‘ کے دائرے میں رکھے؛ اور یہ طاقت جس کا جنم سماج سے ہی ہوا ہے، لیکن یہ اس سے بالا کھڑی ہے اور اس سے بیگانہ ہوتی جاتی ہے، ریاست ہے۔“
لہٰذا حتمی تجزئیے میں ریاست جبر کا ادارہ ہے جو مسلح افراد کے جتھوں (فوج اور پولیس)، جیل خانہ جات، عدلیہ وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے، جو بظاہر تو سماج سے بالا کھڑا ہوتا ہے لیکن بنیادی طور پر یہ اسی معاشی نظام کا دفاع کرتا ہے جس نے اسے جنم دیا ہوتا ہے۔ بالادست طبقے کے طور پر بورژوازی کے ظہور اور عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کی برتری کے ساتھ ساتھ بورژوا ریاست کا جنم بھی ہوا۔
جس ”لبرل جمہوریت“ کا موفے بڑے زور و شور سے دفاع کرتی ہے، وہ بھی ان انقلابات کی ہی دین ہے جو بورژوا طبقے کے مفادات کے نمائندہ تھے۔ یہ سمجھنا، جیسا کہ موفے اور اس کے ساتھی سمجھتے ہیں، کہ ریاست کی یہ مخصوص شکل حتمی، ابدی اور بہترین ہے لہٰذا اسے نہیں چھیڑنا چاہیے، ایک انتہائی غیر تاریخی نقطہ نظر ہے۔ دوسری طرف اس کا مطلب موجودہ حکمران طبقے یعنی سرمایہ داروں کے طبقاتی اوزار کا دفاع بھی ہے۔
یقینا، یہ حقیقت کہ ریاست حکمران طبقے کے ہاتھ میں جبر کا ایک اوزار ہوتی ہے، ہمیشہ واضح طور پر نہیں دکھتی۔ سرمایہ دار طبقہ شعوری طور پر ریاست کے حقیقی کردار پر پردہ ڈال کر رکھتا ہے۔ سرمایہ دار طبقے کے لیے محض ننگے جبر کے سہارے حکمرانی کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ استحصال زدگان سماج کی ایک بڑی اکثریت ہوتے ہیں۔ اور اگر ان کی اکثریت کو حقائق کا ادراک ہو جائے تو سرمایہ داری بچ نہیں سکتی۔
عام وقتوں میں حکمران طبقہ، جہاں تک ممکن ہو، انصاف، ”یکساں مواقع“ وغیرہ کا ڈرامہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عمومی طور پر سرمایہ داروں کی ترجیح ایسی ریاستیں ہوتی ہیں جہاں انتخابات ہوتے ہوں، پریس کو کسی حد تک آزادی حاصل ہو، بہت ساری سیاسی پارٹیاں ہوں وغیرہ وغیرہ۔ یعنی ایسی ریاستیں جہاں کچھ نہ کچھ آزادیاں میسر ہوں۔ مگر کبھی بھی سرمایہ دار طبقہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ اس کی نجی ملکیت کو چیلنج کیا جائے۔ اور ریاست کا بنیادی فریضہ اسی نجی ملکیت کی حفاظت ہے۔
یہ کوئی حادثہ نہیں کہ اقوام متحدہ کے ”یونیورسل ڈیکلئیریشن آف ہیومن رائٹس“ میں صرف ایک ہی ایسا حق ہے جسے نہ صرف یہ کہ پامال نہیں کیا جاتا بلکہ قانون کی پوری طاقت کے ساتھ اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ یہ حق آرٹیکل 17 میں درج ہے: ”ہر ایک کو ملکیت رکھنے کا حق حاصل ہے“ اور ”کسی کو بھی من مرضی کے مطابق اس کی ملکیت سے محروم نہیں کیا جاسکتا“۔ حتمی تجزئیے میں ریاست، اس کے قوانین اور عدالتی نظام کا مقصد بھی یہی ہے۔ اسی لیے مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ بورژوا ریاست کو انقلاب کے ذریعے تہس نہس کرنا ضروری ہے۔ یہ مؤقف بورژوازی اور بطور حکمران طبقہ اس کے کردار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
مارکسی نقطہ نظر کے مطابق (بورژوا) جمہوریت ایک سیاسی طریقہ کار ہے، یعنی ایک سیاسی بالائی ڈھانچہ جو سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ سرمایہ داری میں مختلف سیاسی طریقہ کار رائج ہو سکتے ہیں: بورژوا جمہوری بھی اور آمرانہ بھی۔ مگر یہ سب بورژوا ریاست کی ہی مختلف شکلیں ہیں جوہر صورت میں ہزاروں تانوں بانوں سے سرمایہ دار طبقے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ آخر کوئی ٹھوس وجہ تھی تو مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا:
”ایک جدید ریاست کی ایگزیکٹو محض بورژوا طبقے کے مشترکہ معاملات کی دیکھ بھال کرنے والی ایک کمیٹی ہوتی ہے۔“
یقینا ریاست میں رائج سیاسی طریقہ کار، جس کے ذریعے ریاست اپنا ٹھوس عملی اظہار کرتی ہے، عوام کو میسر آزادیوں اور حقوق پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”ایک شخص، ایک ووٹ“ جیسی جمہوری مانگوں کے لیے کی جانے والی جدوجہد نے انقلابی تحریک کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مارکس وادی مستقل مزاجی کے ساتھ ایسی جمہوری مانگوں کی حمایت کرتے ہیں جن کے ذریعے جبرو استحصال کا شکار لوگوں میں اتحاد پیدا کرتے ہوئے سماج کی ایک وسیع اکثریت کو حکمران طبقے کے خلاف صف آرا کیا جا سکتا ہے اور نتیجتاً طبقاتی جدوجہد کی بڑھوتری کے لیے موافق حالات پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
مزید برآں، مارکس وادی جمہوری انتخابات کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ انتخابات نہ صرف سماج کے عمومی موڈ اور اس میں پنپنے والے رجحانات کی بڑی حد تک عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان میں شرکت طبقاتی جدوجہد کو بڑھاوا دینے کا ایک ذریعہ بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے سب سے بنیادی تضادات، یعنی سرمائے کے ہاتھوں محنت کا استحصال، مستقل بحرانات اور جنگیں وغیرہ، ہر قسم کی بورژوا ریاست کے تحت قائم رہتے ہیں چاہے وہ کتنی ہی جمہوری کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ”سب کے لیے آزادی اور مساوات“ کے نعرے کا اطلاق سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے نہیں کیا جا سکتا۔
انقلابیوں کے نزدیک انتخابات اور پارلیمانی سیاست کو انقلابی نظریات کو عوام کی وسیع تر پرتوں تک پہنچانے کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، اسے سرمایہ دار طبقے اور ریاست کی منافقت کا پردہ چاک کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پارلیمنٹ میں موجود انقلابی یہ مطالبہ کریں کہ سماج میں غربت اور بڑھتے طبقاتی تفاوت کا خاتمہ کرنے کے لیے بڑی نجی صنعتوں اور بینکوں کو ریاستی ملکیت میں لیا جائے تو پوری اسٹیبلشمنٹ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس مطالبے کی مخالفت کرے گی اور اسی عمل میں ننگی بھی ہو جائے گی۔
ضرورت پڑنے پر سرمایہ دار طبقہ اپنے نظام اور ملکیت کو بچانے کی خاطر ”جمہوریت“، پارلیمانی اکثریت اور ”آزادی“ جیسی لفاظیوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائے گا۔ لیکن اگر انقلابی بھی یہیں پر ہی رُک جائیں اور اپنے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہیں کہ، ”ہم اس کے متعلق کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ ابھی ہم نے ریاستی ڈھانچے میں غلبہ حاصل کرنے کی لڑائی نہیں جیتی ہے“، تو پھر وہ انقلابی کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ ایسے لوگ اصلاح پسند کہلاتے ہیں۔ مگر یہ بالکل وہی ہے جو ”بائیں بازو کے بیانیے“ کے حامی تجویز کرتے ہیں۔ خود کو سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے سیاسی بالائی ڈھانچے (بورژوا جمہوریت) کی حدود و قیود میں محدود کر کے وہ اس سے آگے سوچنے کی صلاحیت ہی کھو دیتے ہیں۔
لیکن اس کے بر عکس انقلابیوں کے نزدیک عوامی تحرک ان حدود وقیود کو پھلانگنے اور سماج کی حقیقی تبدیلی کی قوتِ محرکہ ہوتا ہے۔ پارلیمانی سیاست اور انتخابات اس تحرک کو بڑھاوا دینے والے بہت سے ذرائع میں سے ایک ہے۔ لینن نے نشاندہی کی تھی کہ، ”اگر تمام نہیں تو بہت سے انقلابات“، ”ایک رجعتی پارلیمنٹ کے باہر موجود عوامی تحرک اور پارلیمنٹ میں موجود انقلاب کی ہمدرد (یا حامی) اپوزیشن کے تال میل“ کی زبردست افادیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی وہ یہ وضاحت بھی کرتا ہے کہ، ”عوامی تحرک، جیسے کہ ایک بڑی ہڑتال، صرف ایک انقلاب یا انقلابی صورتحال میں ہی نہیں بلکہ کسی بھی وقت میں پارلیمانی کاروائیوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔“
ریاست کے متعلق مارکسی نقطہ نظر کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے: یہ حکمران طبقے کے جبر کا اوزار ہے۔ اس کا انقلاب کے ذریعے خاتمہ اور اس کی جگہ ایک مزدور ریاست کا قیام ضروری ہے۔ جیسے جیسے عالمی سطح پر سوشلسٹ سماج کی تعمیر آگے بڑھے گی، طبقات اور قلت کا خاتمہ ہو گا، تو مزدور ریاست بھی مرجھا کر ختم ہوتی جائے گی اور ایک وقت آنے پر مکمل طور پر سماج میں تحلیل ہو جائے گی۔ مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم فوری جمہوری مانگوں اور آزادیوں کی جدوجہد کو بیکار سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم ان آزادیوں کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور اسے طبقاتی جدوجہد کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ہم یہ بھی واضح بھی کرتے ہیں کہ جمہوریت جبر واستحصال، طبقاتی تفریق اور غربت سمیت کسی بھی بنیادی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ان سب مسائل کا خاتمہ صرف سرمایہ داری کے خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
”بائیں بازو کے بیانیے“ کے حامی نظریہ دان ریاست پر مارکسی نقطہ نظر کو واضح طور پر رد کرتے ہیں اور اپنی ساری توجہ جمہوریت کے سوال پر مرکوز رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق، ”یہ واضح ہے کہ سرمایہ داری اور لبر ل جمہوریت کے مابین کوئی لازمی رشتہ نہیں۔ یہ ایک بد قسمتی ہے کہ مارکسزم نے اس کنفیوژن کو پھیلانے میں بھر پور کردار ادا کیا ہے کہ لبرل جمہوریت سرمایہ داری کا بالائی ڈھانچہ ہے۔“
مگر درحقیقت یہ زبان دانی اور بیانیوں کے حامی نام نہاد فلسفی ہیں جو اس سوال پر مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ان کے مطابق ریاستیں محض بیانیوں کی پیداوار ہیں اور انہیں ”نئے بیانیوں“ کے ذریعے بدلا بھی جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک ریاست ”جدوجہد کا اکھاڑہ“ ہے۔ اور طبقات سے بالاتر، اس نیوٹرل ”اکھاڑے“ کے غالب بیانیے کو بدلنے کے لیے اس کا حصہ بننا ضروری ہے۔ یہ خواتین و حضرات ہمیں بتاتے ہیں کہ،”مقصد ریاستی طاقت پر قبضہ کرنا نہیں، بلکہ خود ریاست بننا ہے۔“
یہاں پر یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ آخر یہ تھیوری اصلاح پسندوں میں اتنی مقبول کیوں ہے۔ عوام کی مداخلت سے دور، ریاستی ڈھانچے کا حصہ بنتے ہوئے ”تبدیلی“ لانا، یقینا، اصلاح پسندوں کے لیے ایک پر کشش خیال ہے۔ ریاست نامی اس ”جدوجہد کے اکھاڑے“ کا حصہ بننے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سرمایہ داروں کے ساتھ برابری کی سطح پر آتے ہوئے عام ووٹروں کی بہتری کے لیے ان کے ساتھ اتفاق رائے قائم کیا جا سکے۔
میکس لرچر اس کی وضاحت کچھ یوں کرتا ہے، ”سوشل ڈیموکریسی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرمائے اور منڈی کو اس کی حد میں رکھے۔۔میرے ذہن میں ایک سماجی فلاحی ریاست کا خاکہ ہے جہاں خوشحالی کی منصفانہ تقسیم اور سمجھوتوں کی گنجائش ہو گی۔“
مگر خبر دار! طبقاتی دشمن (اگرچہ یہ لوگ اس اصطلاح کا استعمال نہیں کرتے) کے ساتھ مدبھیڑ میں یہ ضروری ہے کہ، ”جب لڑائی ہو تو یہ ایک ’دشمنی‘ کا روپ نہ دھار لے“، بلکہ، ”مخالف کو ایسے دشمن کے طور پر نہ لیا جائے جسے تباہ کرنا مقصود ہوبلکہ ایسے مخالف کے طور پر دیکھا جائے جس کا وجود جائز ہے۔“
یہ ساری کی ساری طبقاتی مفاہمت کی پالیسی ہے جسے بس ”پروفیسرانہ“ زبان میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اگر واقعی میں ”صبر اور امن کے ساتھ نئے پراجیکٹ“پر کام کرتے ہوئے مستقل اصلاحات اور بہتری ممکن ہوتی تو محنت کش طبقے کی ایک بڑی اکثریت کو اس کے ساتھ کوئی اختلاف نہ ہوتا۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ داری اپنے داخلی تضادات کے تحت بار بار بحران کا شکار ہوتی ہے۔ ”شیطانی“ نیو لبرلز کی جانب سے کی جانے والی وحشیانہ کٹوتیاں ان کی کسی انسان دشمن جبلت کا نتیجہ نہیں ہوتیں۔ بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے دباؤ کا نتیجہ ہوتی ہیں جس میں منافعوں میں اضافہ محنت کش طبقے پر حملوں کی شدت بڑھائے بغیر ممکن نہیں۔
ایسا نہیں ہے، جیسا کہ جولیا ہر کہتی ہے کہ، سوشل ڈیموکریسی 1970ء کی دہائی کے بعد اچانک ہی اپنا ”اعتماد“ کھو بیٹھی۔ درحقیقت، اصلاح پسندی کا سرمایہ داری کی معروضی حدود کے ساتھ ٹکراؤ شروع ہو گیا تھا۔ آج سرمایہ داری میں کوئی دیرپا اور قابلِ ذکر اصلاحات کرنے کی گنجائش ہی ختم ہو چکی ہے۔
قیادت کی ذمہ داری
یونانی عوام کو پہلے ہی ایک تکلیف دہ تجربے سے اصلاح پسندی کی محدودیت کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے۔ ملک کو جکڑ لینے والے شدید معاشی بحران کے خلاف محنت کش عوام نے کئی سالوں تک دلیرانہ جدوجہد کی تھی۔ پہلے پہل مشہور چوراہوں پر بڑے عوامی دھرنے دیے گئے۔ پھر محنت کش طبقہ کھل کر میدان میں آیا اوربے شمار ملک گیر عام ہڑتالیں ہوئیں۔ جب یہ سب کچھ ناکام گیا (خصوصاً ٹریڈ یونین قیادت کی نااہلی کے کارن) تو یونانی عوام نے اپنے غصے کا اظہار انتخابات میں سائیریزا نامی لیفٹ پارٹی کو ووٹ ڈال کر کیا جو کہ ایک کٹوتی مخالف پروگرام رکھتی تھی۔
مگر مختصر عرصے میں ہی سائیریزا کے لیڈر الیکسس سپراس نے یورپی یونین اور آئی ایم ایف کی طرف سے مسلط کردہ خوفناک کٹوتیوں کے پروگرام کو تسلیم کر لیا۔ یہ جولائی 2015ء میں منعقد ہونے والے عوامی ریفرنڈم کے نتائج کی کھلی خلاف ورزی تھی جس میں 61 فیصد ووٹرز نے ٹرائیکا کی جانب سے بیل آؤٹ کے لیے رکھی جانے والے سخت شرائط کومسترد کر دیا تھا۔ سائیریزا قیادت کی اس غداری کے نتیجے میں یونانی عوام کا معیارِ زندگی بالکل برباد ہو کر رہ گیا۔ یونانی عوام کی مرضی کے خلاف سرمایہ داری اور یورپی یونین میں بیٹھے اس کے وفادار نمائندے اپنا ایجنڈا نافذ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
بائیں بازو کے پاپولسٹ اس شکست کے متعلق کیا مؤقف رکھتے ہیں؟
”سائیریزا کو شکست اس لیے ہوئی کیونکہ صرف یورو زون کے اہم ممالک میں ایک قابل ذکر مزاحمت ہی سائیریزا کے مؤقف کو سہارا دے سکتی تھی۔ صرف اسی طرح ہی وہ (سائیریزا) ایک بریک تھرو حاصل کرتے ہوئے یونان کے معاشی و سیاسی بحران کو پوری یورپی یونین کے بحران میں بدل سکتی تھی۔“
اور
”بدقسمتی سے سائیریزا یورپی یونین کے سفاکانہ ’مالیاتی کُو‘، جس نے پارٹی کو ٹرائیکا کے احکامات ماننے پر مجبور کر دیا تھا، کے کارن اپنا کٹوتی مخالف پروگرام نافذ نہ کر سکی۔“
مگر یورپی یونین کے ’سفاکانہ مالیاتی کو‘ سے حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ہر صحیح العقل شخص جانتا تھا کہ ان کا جواب ایسا ہی ہو گا۔ مگر پھر بھی سپراس کئی ماہ تک پوپ اور یورپ کے دیگر حکمرانوں سے ملاقاتیں کر کے انہیں اپنے ”بیانیے“ کے زور پر جیتنے کی بیکار کوششیں کرتا رہا۔ اور جب وہ انہیں ”قائل“ کرنے میں ناکام رہا، تو اس نے ٹرائیکا کے سامنے گھٹنے ٹیک کریونانی عوام کی امیدوں کا خون کر دیا جو سائیریزا کے کٹوتی مخالف پروگرام کی حمایت میں متحرک ہو رہے تھے۔ آئی ایم ٹی کے یونانی کامریڈز، جو سائیریزا کی سنٹرل کمیٹی کا حصہ بھی تھے، نے انتخابات کے فوری بعد لکھا تھا:
”یورپی سرمائے اور اس کے اداروں کے ساتھ مذاکرات کے متعلق کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے! ہمارے اصل دشمن مقامی اور بیرونی سرمایہ دارانہ مفادات ہیں جو ٹرائیکا کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، نہ کہ اس کے ٹیکنوکریٹ ملازم۔ ہمارا واحد حقیقی اتحادی یورپ کا محنت کش طبقہ ہے! سائیریزا کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر عوامی مزاحمت کا ایک یورپی سطح کا پروگرام پیش کرے تا کہ پورے یورپ کو ایک وسیع ’پیورٹا ڈی سول‘ بنایا جا سکے! (سپین میں 2011-12ء میں ابھرنے والی انڈیگناڈوز تحریک کی طرف اشارہ ہے)۔“
ہمارے کامریڈز نے ریاستی قرضوں کی منسوخی سے لے کر نجی بینکوں کی نیشنلائزیزیشن تک بے شمار ایسے اقدامات تجویز کیے جو سیدھا معاملے کو اس کی جڑ سے پکڑتے تھے: سرمایہ داری کا خاتمہ یا پھر ٹرائیکا کی اطاعت۔
یہ دعویٰ کہ سائیریزا کی ناکامی کی ذمہ دار قیادت نہیں بلکہ بہت سے دیگر ”غیر موافق“ عوامل تھے، درحقیقت ایک گھسا پٹا اصلاح پسندانہ دعویٰ ہے۔ کسی بھی غیر معمولی سیاسی صورتحال میں قیادت کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ عوام قیادت کی بات سنتے ہیں اور ان کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ درست بنیادوں پر اگلا لائحہ عمل تشکیل دیں۔ کسی بھی عوامی تحریک کی شکست کے بعد یہ لازمی ہے کہ اس کی قیادت کے کردار کا تجزیہ کیا جائے۔ کیا قیادت کے پاس درست نظریات تھے؟ انہوں نے درست اقدامات کرنے کی جرات کیوں نہیں کی؟ اگر ہم ان سوالوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم صرف بری قیادت پر پردہ ڈال کر شکست میں ان کے کردار کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ شکست کا سارا ملبہ لڑاکا عوام پر ڈالنے کی صورت میں نکلتا ہے۔
فرتشے نہ صرف فرانس کی ”پیلی جیکٹ“ اور امریکہ کی ”آکوپائی“ تحریک بلکہ عرب بہار کی ناکامی کے متعلق بھی درج ذیل رائے رکھتی ہے:
”وہ ناکام ہوئیں کیونکہ لوگوں کے خیال میں وہ بہت زیادہ دانشورانہ تھیں، یا شاید ان کے خیمے تو خوبصورت تھے مگر بہر حال سرمایہ داری ان سے بہتر تھی۔ کیونکہ چوراہوں پر قابض لوگوں نے ہمت ہار دی کیونکہ وہ اپنی نوکریوں پر واپس جانا چاہتے تھے، یا شاید انہوں نے ایسی جگہوں پر قبضہ کیا تھا جہاں سے وہ کسی کو بھی تنگ نہیں کر پا رہے تھے۔ اور اس لیے بھی کہ جہاں کہیں وہ سماجی خلل کا باعث بنتے، تو پولیس اور فوج آ کر انہیں چوراہوں سے بے دخل کر دیتی، انہیں مارتی اور قید میں ڈال دیتی۔“
یہ محض بدترین سنکی پن ہے۔ مصر اور تیونس جیسے ممالک میں عوام نے بے دریغ اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دیں، فرقہ وارانہ تعصبات کو پیروں تلے روند ڈالا اور ہر قسم کی قربانی دی تا کہ آزادی حاصل کر سکیں۔ ہم یہ بھی یاد دلاتے جائیں کہ پیلی جیکٹ تحریک نے نہ صرف میکرون کی طرف سے نافذ کردہ رجعتی فیول ٹیکس کے خاتمے پر مبنی اپنا فوری مقصد حاصل کیا بلکہ اس تحریک میں محنت کشوں اور نوجوانوں نے بورژوا جمہوریت اور ریاست کے متعلق وہ اسباق بھی حاصل کیے جو وہ ”بائیں بازوکے بیانیوں“ پر لکھی جانے والی تمام کتابوں کے مطالعے سے بھی حاصل نہ کر پاتے۔ فرتشے کا مؤقف ان سیاستدانوں کے لیے نہایت موزوں ہے جو سرمایہ داروں کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتے۔ یہ ان کے لئے نہایت تسکین بخش ہے جو ”سماج میں (لیفٹ بیانیے) کے غلبے کی عدم موجودگی“ کو اپنی غدارانہ بے عملی اور جھجک کے جواز کے طور پرپیش کرنا چاہتے ہیں۔
انقلابی عمل
بائیں بازو کے بیانیے کی تھیوری فلسفے اور سیاسی عمل کے مابین تعلق کی ایک شاندار مثال ہے۔ یہاں ہم نے جن خواتین و حضرات کا ذکر کیا ہے ان کا بظاہر ”ریڈیکل“ نظر آنے والا بیانیہ درحقیقت پردے میں لپٹی اصلاح پسند سیاست کے سوا کچھ نہیں جو سرمایہ داری کو کہیں سے بھی خطرے میں نہیں ڈالتی۔ چونکہ اس تھیوری کے مطابق کہانیوں سے باہر کوئی حقیقت نہیں ہے لہٰذا یہ ”لیفٹ بیانیے“ صرف بہت سی گفت وشنید کو ہی جنم دیتے ہیں۔
اس تھیوری کے حامی جبر واستحصال کا شکار لوگوں کے مسائل کے متعلق ”گفتگو“ کرنا چاہتے ہیں، تا کہ اصلاح پسند پارٹیوں کے لئے ووٹ جیتے جا سکیں مگر ان کے پاس ٹھوس تجاویز اور مطالبات کی شدید کمی ہوتی ہے۔ جو چند ایک مطالبات وہ اٹھاتے بھی ہیں، وہ یا تو جمہوری سوالات سے متعلق ہوتے ہیں یا پھر ایسے مطالبات جن کا لب لباب فلاحی ریاست کے قیام کی خوش فہمیوں پر مبنی ہوتا ہے۔ لازمی نہیں کہ ایسے مطالبات اپنے آپ میں غلط ہی ہوں، مگر یہ لوگ ان کے حصول کے لیے سرمایہ داروں کے خلاف طبقاتی جدوجہد کی ضرورت پر کوئی زور نہیں دیتے۔ اور جب مہذب لفاظی میں ملفوف یہ ڈھیلے ڈھالے مطالبات حکمران طبقے کی حقیقی مخالفت کے نتیجے میں مسمار ہو جاتے ہیں، جیسا کہ ہم نے سائیریزا کی مثال میں دیکھا، تو یا تو ساری ذمہ داری عوام کے کندھوں پر ڈال دی جاتی ہے یا پھر ”نیو لبرلزم کے غلبے“ کو الزام دے دیا جاتا ہے۔
چاہے ”بائیں بازو کے بیانیے“ کے حامیوں نے اس تھیوری کو شعوری طور پر اختیار کیا ہو (موفے کی طرح) یا پھر اپنی بے عملی چھپانے کے لیے لاشعوری طور پر، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ انقلابیوں کا فریضہ ہے کہ وہ ایسے نظریات اور ان سے جنم لینے والی سیاست کا پردہ فاش کریں، اورسرمایہ داری کے جبر واستحصال سے چھٹکارے کے لیے ایک حقیقی حل پیش کریں۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس وادی فلسفے کے سوالات پر اتنی توجہ دیتے ہیں۔
حتمی تجزئیے میں نظریات سماج میں موجود طبقاتی مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں اور عمل کے لیے راستہ دکھاتے ہیں۔ ہمیں لازمی یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ: کیابعض نظریات حکمران طبقے کی مدد کرتے ہیں، کیا وہ محنت کشوں اور بائیں بازو کے کارکنان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام کرتے ہیں؟ یا کیا وہ واقعی سماج کو بدلنے میں ہمارے مددگار ہیں؟
لازمی ہے کہ ہم حقیقت کا کھلی آنکھوں کے ساتھ سامنا کریں۔ آئیے! جبرو استحصال سے پاک دنیا کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ آئیے! انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کے خاتمے کی لڑائی لڑتے ہیں۔