|تحریر: ایلن و وڈز؛ ترجمہ: ولید خان|
چند دن پہلے لبنانی دارالحکومت میں ایک دیو ہیکل دھماکے نے پورے شہر کو تباہی اور خونریزی میں ڈبو دیا۔ یہ افسوسناک تباہی ناگزیر تھی اور اب سماج پر قابض کرپٹ ٹولہ عوامی غیض و غضب کا شکار ہو گا۔ ایلن ووڈز کے مطابق صرف محنت کش طبقے کی جدوجہد ہی اس اندوہناک صورتحال سے نجات کا واحد راستہ ہے۔
آج بیروت میں عوام کو ایک خوفناک تباہی کا سامنا ہوا جب ایک دیو ہیکل دھماکے نے لبنانی دارالحکومت کا مرکز تباہ و برباد کرتے ہوئے عمارات گرا دیں، گاڑیاں الٹا دیں اور وسیع پیمانے پر کھڑکیاں چکنا چور ہو گئیں۔
دہائیوں میں لبنان کو کئی ہولناک تباہیوں کا سامنا رہا ہے لیکن ایسے واقعے کی پہلے مثال نہیں ملتی۔
لوگوں نے اپنے موبائل فونز پر ویڈیوز بنائی ہیں جن میں دھوئیں کے گہرے بادل ہیں جس کے فوری بعد ایک دھماکہ ہوتا ہے جس کا جھٹکا میلوں دور تک محسوس کیا گیا۔ پہلے دھماکے کے بعد دوسرا اور زیادہ بڑا دھماکہ ہوا جس کی بازگشت قریبی ملک قبرص تک سنائی دی۔
جوہری دھماکے سے مماثلت رکھنے والا ایک دیو ہیکل بادل پورے شہر پر چھا گیا۔ زمین بوس ہوتی عمارتوں اور لاتعداد شیشوں کی بارش میں عوام گویا قیامت میں گھری تھی۔
کئی سو اوسان خطا اور خون میں لت پت لوگ سڑکوں پر امداد کی تلاش میں پھر رہے تھے۔ لیکن بیروت کے ہسپتال جو پہلے ہی کورونا وباء کی وجہ سے کھچا کھچ بھرے تھے، اس نئی آفت کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئے۔ اس پروقار شہر کا مرکز ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے اور کئی افراد ابھی بھی منوں وزنی پتھر وں اور کنکریٹ میں دبے پڑے ہوں گے۔
ابھی تک نہیں معلوم کہ کتنے لوگ مر چکے ہیں لیکن ان کی تعداد ”درجنوں“ کی ابتدائی رپورٹ سے کہیں زیادہ ہو گی۔ یہ دن کا وہ وقت تھا جب لوگ عام طور پر شدید گرم پہر کے اختتام پر سڑکوں پر چہل قدمی کر تے ہیں۔ یہ بندرگاہ کا علاقہ تھا جہاں شراب خانوں اور ریستوران پر رش لگا ہوتا ہے۔
لبنانی ریڈ کراس کے سربراہ کے مطابق 4 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہیں جن میں سے کچھ کی حالت تشویش ناک ہے اور اموات 100 تک ہو سکتی ہیں (حالیہ ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق زخمیوں کی تعداد 6 ہزار اور 160 اموات ہو چکی ہیں)۔ جس سطح کی تباہی ہوئی ہے یہ اعدادوشمار بھی خوش فہم ہیں۔
کئی افراد ابھی بھی گمشدہ ہیں۔ کچھ افراد ملبوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ امدادی کارکن تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں اور خود ان کی اپنی جان کو خطرہ لاحق ہے کیونکہ کئی تباہ و برباد عمارات کی خطرناک حالت ہے اور وہ کسی وقت بھی منہدم ہو سکتی ہیں۔
دھماکے نے بندرگاہ پر موجود انتہائی اہم اناج کے ذخائر برباد کر دیے ہیں۔ ملک میں 80 فیصداناج درآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن اب کچھ عرصہ بیروت کی بندرگاہ ناکارہ رہے گی۔
واقعی یہ انسانی المیہ ایک قیامت خیز واقعہ ہے۔ اس کے لبنان پر انتہائی سنجیدہ اثرات مرتب ہوں گے۔
لبنان میں بحران
اس خوفناک دھماکے نے لبنانی سماج کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت رونما ہوا ہے جب پورے ملک کا شیرازہ معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانات میں بکھر رہا ہے۔
معاشی بحران کی وجہ سے زیادہ تر عوام غربت میں ڈوب چکی ہے۔ لبنانی محنت کشوں کو منہدم کرنسی، بے قابو افراطِ زر اور تباہ کن بیروزگاری کی ہولناک صورتحال کا سامنا ہے۔ مزدور اپنی دو وقت کی روٹی پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
گھبرائے ہوئے سیاست دان غم و غصے میں بپھری عوام سے خوفزدہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے اپنی مجروح حاکمیت کو دوبارہ قائم کر سکیں جو پہلے ہی برباد ہو چکی ہے۔ اب وہ ہر قسم کے وعدے کر رہے ہیں یعنی مجرموں کو سزا، گھروں کی تعمیر نو، 10 لاکھ یا اس سے زائد چکنا چور کھڑکیوں کی مرمت وغیرہ اور یہ سب کام حکومتی اخراجات سے ہوں گے۔
لبنانی وزیرِ اعظم حسان دیاب نے وعدہ کیا ہے کہ بیروت بندرگاہ پر ہونے والے دیو ہیکل دھماکے کے مجرموں کو ”قرار واقعی سزا دی جائے گی“۔ اس نے آج کی تباہی کا ذمہ دار 2700 ٹن امونیم نائٹریٹ کوقرار دیا ہے جس سے کھاد اور دھماکہ خیز مواد بنایا جاتا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے لئے اپنی برباد ساکھ بحال کرنے سے زیادہ آسان وعدہ کردہ معجزات پورے کرنا ہو گا۔ کسی کو بھی حکومت پر رتی برابر اعتبار نہیں۔ اب وہ اس ہولناک سانحے کی وضاحت مانگ رہے ہیں۔
کون ذمہ دار ہے؟
کئی لوگوں کو سب سے پہلا گمان یہ ہوا کہ یہ ایک دہشت گرد کاروائی ہے۔ خطے کی انتہائی پر انتشار صورتحال اور لبنان کی خاص طور پر دگرگوں حالت کے پیشِ نظر اس امکان کو ر د نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ابھی یہ وضاحت قابلِ غور نہیں۔
ایک اور امکان یہ تھا کہ یہ کسی بیرونی قوت کی کارستانی ہے۔ لبنان میں عرصہ دراز سے ہر رنگ نسل کی بیرونی قوتیں مداخلت کر رہی ہیں، اس لئے یہ مفروضہ بھی درست ہو سکتا تھا۔ واشنگٹن پر انگلی اٹھائی جا سکتی تھی جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے حوالے سے جارحانہ پالیسی کے نتیجے میں لبنان ایک آسان ہدف ہو سکتا تھا۔
لیکن دنیا کے اس پر انتشار خطے میں امریکیوں نے کافی سخت اور تلخ تجربات سے یہ سیکھا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ضرورت سے زیادہ مداخلت کرنا کتنا خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ اگر وہ اس دیو ہیکل پیمانے کی دہشت گردی کا کوئی پلان بناتے تو یقیناً اپنے دوست اسرائیل کی اس معاملے میں خدمات ضرور حاصل کرتے۔
حالیہ عرصے میں لبنان اور اسرائیل کے تعلقات اور بھی زیادہ کشیدہ ہو چکے ہیں اور سرحدوں پر پر تشدد جھڑپیں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ شام میں ایک اسرائیلی حملے کے نتیجے میں لبنانی حزب اللہ کا ایک سپاہی مارا گیا اور تنظیم نے بدلہ لینے کی قسم بھی اٹھائی۔ تو کیا اسرائیلی ذمہ دار ہیں؟
اسرائیلیوں نے فوری طور پر بیروت دھماکے کی تمام تر ذمہ داری سے انکار کر دیا۔ اس طرح کا سرکاری ردِ عمل ظاہر ہے جھوٹا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں وہ شاید درست ہیں۔
سب سے بڑھ کر اس طرح کا واضح انکار اسرائیل کے روایتی طریقہ کار سے یکسر مختلف ہے جو عام طور پر کسی بھی الزام کی نہ تجدید کرتے ہیں نہ تردید۔ اس روایتی طریقہ کار سے پیچھے ہٹ جانا انتہائی معنی خیز ہے جس کی وجہ سے کم از کم اس معاملے تو ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔
اس دھمکاے کی اصل وجوہات کا تو نہیں پتا البتہ یہ بات واضح ہے کہ اس کا تعلق کرپٹ اور تعفن زدہ لبنانی حکمران سرمایہ دار طبقے سے ہے۔
لبنانی حکومت کا ردِ عمل زیادہ دلچسپ تھا۔ اندرونی سیکورٹی چیف کا کہنا ہے کہ دھماکہ ایک ایسے علاقے میں ہوا جہاں انتہائی آتش گیر مادہ ذخیرہ تھا۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ تفصیل کچھ بھی بیان نہیں کرتی۔
اگرچہ ابھی تک دھماکے کی حقیقی وجوہات واضح نہیں ہیں لیکن یہ ضرور واضح ہے کہ یہ واقعہ کبھی رونما نہ ہوتا اگر اس کا تعلق اس غلیظ اور دائمی کرپشن سے نہ ہوتا جو دہائیوں سے لبنان کو لوٹنے والے سرمایہ دار حکمران طبقے کا خاصہ ہے۔ اس ہولناک واقعے کے بعد ہی اکثریت لبنانیوں کو پتہ چلا ہے کہ 2700 ٹن امونیم نائٹریٹ شہر کی بندرگاہ کے ایک گودام میں پچھلے چھ سالوں سے پڑا ہوا تھا۔
لیکن عوامی ریکارڈز اور دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ سینیئر لبنانی اہلکاروں کو پتہ تھا کہ یہ امونیم نائٹریٹ یہاں موجود ہے اور انہیں پتہ بھی تھا کہ اس کے کیا خطرات ہیں۔
تباہی و بربادی تیار تھی
الجزیرہ چینل نے اس خوفناک سامان کے حوالے سے کچھ روشنی ڈالی ہے۔
”امونیم نائٹریٹ ستمبر 2013ء میں مولڈووا کے جھنڈے تلے ایک روسی سامان بردار بحری جہاز کے ذریعے لبنان پہنچا۔ بحری جہازوں کی ٹریکنگ ویب سائٹ فلیٹ مون کے مطابق، دی روہسس جارجیا سے افریقی ملک موزمبیق جا رہا تھا۔ جہاز کریو کے نمائندہ وکیلوں کے مطابق دورانِ سفر کچھ تکنیکی مسائل کی وجہ سے جہاز کو مجبوراً بیروت میں لنگر انداز ہونا پڑا۔ لیکن لبنانی اہلکاروں نے جہاز کو سفر سے روک دیا اوربالآخر اسے مالکان اورعملے دونوں نے ترک کر دیا۔ اس حوالے سے فلیٹ مون سے بھی کچھ معلومات ملی ہیں۔
بحری جہاز کا خطرناک سامان بیروت بندرگاہ کے ایک بڑے سرمئی رنگ کے گودام نمبر 12 میں سٹور کیا گیا جو ملک کی مرکزی جنوب شمال شاہراہ پر دارالحکومت کے مرکزی داخلی راستے پر واقع ہے۔
آن لائن دستاویز کے مطابق کئی مہینوں بعد 27 جون 2014ء میں اس وقت لبنانی کسٹمز کے ڈائریکٹر شفیق میرہی نے ایک گمنام ’انتہائی اہم امور کے جج‘ کے نام ایک خط لکھا جس میں اس سامان کے حوالے سے رہنمائی کا کہا گیا۔
اگلے تین سالوں میں کسٹمز اہلکاروں نے پانچ خطوط ارسال کئے۔۔ 5 دسمبر 2014ء، 6 مئی 2015ء، 20 مئی 2016ء، 13 اکتوبر 2016ء اور 27 اکتوبر 2017ء جن میں رہنمائی مانگی گئی۔ ان خطوط میں تین آپشن پیش کیے گئے یعنی امونیم نائٹریٹ برآمد کر دیا جائے، لبنانی فوج کو دے دیا جائے یا پھر نجی لبنانی کمپنی لبنانی ایکسپلوزیوز کمپنی کو بیچ دیا جائے۔
2016ء میں بھیجے گئے ایک خط میں پچھلی درخواستوں پر ججوں کی طرف سے ’عدم جواب‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں درخواست کی گئی ہے کہ ’غیر موزوں ماحولیاتی حالات میں گودام میں اس سنجیدہ خطرات سے بھرپور مواد کو رکھنے کے پیشِ نظر ہم ایک بار پھر درخواست کر رہے ہیں کہ مہربانی کر کے میرین ایجنسی کو درخواست کی جائے کہ اس سامان کو فوری طور پر پر بر آمد کر دیا جائے تاکہ بندرگاہ اور اس میں کام کرنے والوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے یا پھر اس تمام سامان کو لبنانی ایکسپلوزیوز کمپنی کو بیچ دیا جائے‘۔ایک بار پھر کوئی جواب نہیں آیا۔ ایک سال بعد نئے لبنانی کسٹمز ایڈمنسٹریشن ڈائریکٹر بدری داہر نے ایک جج کو پھر ایک نیا خط لکھا۔ 23 اکتوبر 2017ء میں لکھے گئے خط میں داہر جج سے درخواست کرتا ہے کہ ’سامان کو اسی جگہ رکھے رہنے پر جگہ اور کام کرنے والوں کو لاحق خطرات کے پیشِ نظر‘ جلد فیصلہ کیا جائے۔ تقریباً تین سال کا عرصہ گزرنے کے بعد امونیم نائٹریٹ اسی گودام میں موجود تھا“۔
ایک کرپٹ سرمایہ دار ریاست
غیر ملکی صحافی اور مبصر جو یا تو بہت ہی بھولے ہیں یا حد سے زیادہ بیوقوف ہیں، یہ سوال کرتے پھر رہے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ آتش گیر مادے کی اتنی بھاری تعداد طویل عرصے سے (2014ء سے) ملک کے دارالحکومت کے عین وسط میں انتہائی گنجان آبادعلاقے میں موجود رہا؟
ان کے لیے یہ معاملات حیران کن ہوتے ہیں۔ وہ اور بھی زیادہ پریشان ہیں کہ اس حوالے سے کبھی کسی نے کوئی سوال ہی نہیں کیا۔ کوئی معائنہ نہیں کیا گیا۔ اور اگر کیا بھی گیا تو کبھی کوئی رپورٹ نہیں دی گئی، کوئی گرفتاریاں نہیں ہوئیں اور اس دیو ہیکل آتش گیر مادے کو تنہا چھوڑ دیا گیا حتیٰ کہ اس نے بیروت بندرگاہ کو دھماکے میں ریزہ ریزہ کر دیا۔
لیکن لبنان میں کسی کو یہ سوالات کرنے کی جرات نہیں کیونکہ سب کو اس کا جواب پتا ہے۔ لبنان میں سرکاری کام ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جب تک یہ غلیظ نظام رہے گا ایسا ہوتا رہے گا۔
لبنانیوں کی اکثریت کو واضح طور پر پتا ہے کہ بنیادی مسائل کیا ہیں، یعنی ایک ایسی ریاست جس پر انتظامی امور میں، ناکارہ ہڈیوں کے گودے تک، کرپٹ سرمایہ دارسیاسی طبقہ قابض ہے۔ عوام نے بیروت بندرگاہ کا نام ”علی بابا اور چالیس چور“ رکھا ہوا ہے۔ ایک ایسی جگہ جو ریاست کے دیو ہیکل خردبرد فنڈز کا ٹھکانہ ہے اور جہاں اہلکاروں کو ہوشرباء رشوت دی جاتی ہے تاکہ محصولات کی ادائیگی سے بچا جائے۔
دہائیوں سے سیاست دان اور بیوروکریٹ عوام کے ساتھ یہ کھلواڑ کر رہے ہیں۔ لیکن ہر چیز کی حد ہوتی ہے۔ اور اب لبنانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ کل کا دھماکہ اونٹ کی کمر پر وہ آخری تنکا تھا جس نے اونٹ کی کمر توڑ ڈالی۔
الجزیرہ نے ایک لبنانی ماہرِ سوشیالوجسٹ اور سیاسی کارکن ریما ماجد کے الفاظ رپورٹ کیے کہ
”بیروت ختم ہو چکا ہے اور اس پر پر دہائیوں سے قابض حکمران اب نہیں بچیں گے۔ وہ مجرم ہیں اور یہ شاید (تمام جرائم میں) ان کا سب بڑا جرم ہے“۔
معاشی تباہی و بربادی
ملک پر قابض چوروں نے بے مثال معاشی تباہی و بربادی کے دوران حکمرانی کی ہے۔ یہ لوگ اپنی ہڈیوں کے گودے تک کرپٹ ہیں۔ لبنانی پونڈ ختم ہو چکا ہے۔ لیرا کی قیمت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
سرکاری طور پر ایک ڈالر کا ریٹ 1500 لبنانی لیرا ہے لیکن بلیک مارکیٹ میں یہ ریٹ 4300 ہے۔ امراء کرنسی میں سٹہ بازی کر کے بے تحاشہ پیسہ کما رہے ہیں۔ وہ امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ بے قابو افرطِ زر نے غرباء کی کمر توڑ دی ہے اور متوسط طبقے کی عمر بھر کی جمع پونجی ختم کر دی ہے۔
مٹھی بھر اقلیت دھوکے بازی، چوری اور کرپشن کر کے دولت کے ہوشرباء انبار ذخیرہ کر چکی ہے۔ وہ عوامی پیسوں کو لوٹ کھسوٹ کر امیر ہوئے ہیں جبکہ عوامی قرضہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ناگزیر طور پر اس سال مارچ میں لبنانی حکومت دیوالیہ ہو گئی۔ درحقیقت انہوں نے اپنا ملک دیوا لیہ کر دیا ہے۔
حکومت IMF اور دیگر مالیاتی قرضوں سے امید لگائے بیٹھی ہے۔ لیکن عالمی حکمران طبقہ بیروت میں بیٹھے لٹیروں کو پیسوں کی اتنی بھاری مقدار دینے کو تیار نہیں۔
ان کے لئے کرپشن مسئلہ نہیں ہے لیکن وہ درست طور پر خوفزدہ ہیں کہ اگر بیروت کے لٹیرے جیبیں بھر لیں گے اور قرضوں کے نئے پہاڑ کھڑے کر دیں گے تو پھر پیسے کیسے واپس ہوں گے۔
اس لیے وہ لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ لیکن اس وقت ایک ایسا انسانی المیہ ہو چکا ہے کہ انہیں مجبوراً کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ ایک بار پھر ان کے لئے انسانی ہمدردی کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ انہیں خوف یہ ہے کہ اگر لبنان مکمل طور پر برباد ہو گیا تو پورے خطے پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
لیکن نام نہاد بیرونی امداد سے لبنان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ قرضوں میں مزید اضافہ کر کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو گا اور آخر کار پھر سے لبنان کی عوام پر ہی ان قرضوں کا سارا بوجھ ڈال دیا جائے گا۔
کورونا وائرس وباء کے لبنان پر دیگر ممالک سے زیادہ خوفناک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ محنت کشوں کے پاس دو ہی راستے بچے ہیں کہ یا تو وہ گھروں میں بھوکے مر جائیں یا پھر وائرس کے ہاتھوں مر جائیں۔
سب کو باہر نکالو!
جب تک لبنان کا کنٹرول مٹھی بھر حریص ارب پتیوں اور ان کے کرپٹ کٹھ پتلی سیاسی نمائندوں کے ہا تھوں میں رہے گا، تب تک کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔
حزب اللہ غریبوں کے حقوق کے تحفظ کی دعوے دار ہے اور 2018ء کے انتخابات کے بعد سے ایک قومی اتحادی حکومت چلا رہی ہے۔ لیکن اس نے غریبوں اور محنت کشوں کے لئے آج تک کیا کیا ہے؟ اس نے جبری کٹوتیوں کی پالیسی اسی عوام پر مسلط کر رکھی ہے جو اسے ووٹ دے کر حکومت میں لائی تھی۔
حسن دیاب کی سربراہی میں نئی لبنانی حکومت ملک کو درپیش ایک مسئلہ حل نہیں کر سکی۔ یہ بات حیران کن نہیں کیونکہ یہ کبھی اس حکومت کا ہدف ہی نہیں تھا۔ حکومت کی حمایت حزب اللہ، امل تحریک (Amal Movement) اور فری پیٹریاٹک تحریک (Free Patriotic Movement) کر رہے ہیں۔ یہ وہی پارٹیاں اور سیاست دان ہیں جو پچھلی حکومت میں بھی شامل تھے جس کا دورانیہ دو سال سے ذائد تھا۔ یہ تبدیلی کی حکومت نہیں بلکہ سٹیٹس کو کی حکومت ہے جس نے آج لبنان کو ایک بند گلی میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اب مزید حاکم سیاست دانوں کے بددل اقدامات پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ان سب کو ہٹانا پڑے گا۔ عوام صرف اپنی قوتوں پر ہی اعتماد کر سکتی ہے۔
بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت
پچھلے سال پورا ملک عوامی احتجاجوں سے گونج اٹھا تھا، استحصال زدہ عوام کے تمام حصے مذہبی اور دیگر فرقہ پرستی سے بالاتر حکومت کے خلاف متحد تھے۔ 60 لاکھ آبادی کے ملک میں 20 لاکھ افراد نے سڑکوں پر آ کر حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر دیا۔ پورے مشرقِ وسطیٰ اور دنیا بھر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے لئے یہ انتہائی حوصلہ افزا واقعہ تھا۔ کورونا وائرس وباء بھی انقلاب کا راستہ نہیں روک سکی۔ 28 اپریل کو عوام ایک مرتبہ پھر لبنان کی سڑکوں پر حکومت کے خلاف باہر نکل آئی۔
لبنان کے نوجوانو اور محنت کشو! اب وقت آ گیا ہے کہ اس ناقابلِ برداشت صورتحال سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
اصلاحات سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔۔ صرف ایک بنیادی تبدیلی ایک انقلاب ہی واحد راستہ ہے۔
تمہارے ہاتھوں میں بے پناہ طاقت ہے۔ محنت کش طبقے کی اجازت کے بغیر ایک بلب نہیں جل سکتا، ایک پہیا نہیں گھوم سکتا، ایک ٹیلی فون نہیں بج سکتا۔
لبنانی عوام نے پچھلے سال اپنا انقلابی پوٹینشل دکھایا تھا۔ انکی یہ جدوجہد جاری رہنی چاہیئے اور اس گلے سڑے نظام کے خاتمے کی جانب بڑھنی چاہیئے۔
اس بے پناہ قوت کو متحرک کرتے ہوئے اس ظالم، کرپٹ اور غیر منصف حکومت کو اکھاڑ پھینکو جس نے تمہارے ملک کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔
ان کی بات ہر گز نہ سنو جو تمہیں سڑکیں چھوڑنے، اچھے وقت کا انتظار کرنے اور انہی افراد پر اعتماد کرنے کا کہہ رہے ہیں جو تمہاری تباہی و بربادی کی حقیقی وجہ ہیں۔
یہ جھوٹ ہے، فریب ہے۔۔ اسی جھوٹ اور فریب کی طرح جو برسوں تم پر مسلط کیا گیا ہے۔
تم اس حکومت پر اعتماد نہیں کر سکتے اور ان قائدین اور پارٹیوں پر بھی اعتماد نہیں کر سکتے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اس حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔
خاص طور پر وہ قوتیں خطرناک اور ردِ انقلابی ہیں جو تمہیں مذہبی اور دیگر فرقہ پرستیوں میں توڑ دینا چاہتے ہیں۔ محنت کشوں کی حقیقی قوت اس کا اتحاد ہے۔ ہم کسی کو اس اتحاد کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے!
عیسائی اور مسلمان، سنی اور شیعہ، مرد اور خواتین، بوڑھے اور نوجوان۔۔ سماج کی تمام استحصال زدہ اور پسی ہوئی پرتوں کو مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہونا پڑے گا۔ متحد ہیں تو طاقتور ہیں، علیحدہ علیحدہ ہوں گے تو کمزور ہوں گے! یہی لبنانی سوشلسٹ انقلاب کا حقیقی نعرہ ہے!
عوام صرف اپنی قوتوں پر اعتماد کر سکتی ہے۔ ایک مرتبہ یہ قوتیں سماج کی تبدیلی کے لئے متحرک ہو گئیں، تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں شکست نہیں دے سکتی!