|تحریر: آدم پال|
پاکستان کی کوئی بھی سیاسی پارٹی آئی ایم ایف کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات کی کبھی حکم عدولی کرتی ہے۔ مارشل لاء ہو یا نام نہاد جمہوریت، تمام تر معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارے ہی بناتے ہیں۔ ان ہی پالیسیوں کے تحت اس ملک کی تمام تر دولت کو لوٹنے کا منصوبہ تیار ہوتا ہے اور کروڑوں محنت کشوں کی پیدا کردہ اربوں ڈالر کی دولت کا بڑا حصہ سامراجی ممالک کی تجوریوں میں چلا جاتا ہے جبکہ کچھ حصہ یہاں کے حکمرانوں کو کمیشن کے طور پر دے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح محنت کش عوام کو غلام رکھنے کے لیے اور ان کی تمام تر ظلم کے خلاف ابھرنے والی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے ریاستی اداروں کو بھی مضبوط کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی پارٹیاں اس خونی چکر کا حصہ ہیں اور ان پارٹیوں کی قیادتیں اپنی حکمرانی کے دوران عوام کا خون نچوڑنے کے عمل میں شریک رہی ہیں اور سامراجی طاقتوں کی غلامی کرتی رہی ہیں۔
کسی بھی ٹی وی ٹاک شو، کالم یا سیاسی تجزیے میں آئی ایم ایف کی مخالفت نظر نہیں آتی اور نہ ہی کبھی کوئی معاشی تجزیہ نگار، پروفیسر یا معیشت دان آئی ایم ایف اور سامراجی مالیاتی اداروں کی مذمت کرتا ہوا اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا نسخہ بتاتا نظر آتاہے۔ ایسا واضح نظرآتاہے کہ ایک دوسرے کے مخالف نظر آنے والے سیاستدان، معیشت دان اور دانشور اس ایک نکتے پر مکمل اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ آئی ایم ایف ہی تمام معاشی مسائل کا حل ہے اور اس کے احکامات کی بجا آوری ان کے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ چینی سرمایہ کاری کے گُن گانے والے بھی اب خاموش ہو چکے ہیں کیونکہ چین کی یہاں پر تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری سے بھی معاشی بربادی میں اضافہ ہی ہوا ہے اورمعیشت کا دیوالیہ پن انتہا تک پہنچ گیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں ابھرنے والی مزدور تحریک میں بھی اب سب سے سے زیادہ نعرے بازی مقامی حکمرانوں کی بجائے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے خلاف ہو رہی ہے اور تمام مسائل کی جڑ انہیں سامراجی مالیاتی اداروں اور ان کی لوٹ مار کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ محنت کش طبقہ جا ن چکا ہے کہ ان کے حقیقی حکمران یہی سامراجی مالیاتی ادارے ہیں اور مقامی حکمران صرف کمیشن ایجنٹ اور گماشتے کا کردار ہی ادا کرتے آئے ہیں۔
اسی طرح آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو جس طرح تمام تر سیاست سے الگ صرف مالیاتی یا معاشی پالیسیوں تک محدود سمجھا جاتا ہے وہ بھی سراسر غلط ہے اور ان سامراجی مالیاتی اداروں کی تمام تر معاشی پالیسیاں ان کو چلانے والے سامراجی ممالک کی سیاسی اور سٹریٹجک پالیسیوں کے تابع ہوتی ہیں۔ اگر ان سامراجی طاقتوں کے کسی خطے یا ملک میں خاص مفادات ہوں اور انہیں اس گماشتہ ملک کے حکمرانوں کی اپنے مفادات کے حصول کے لیے خدمات درکار ہوں تو ان مالیاتی اداروں کے ذریعے انہیں معاشی طور پر نوازا جاتا ہے تاکہ اپنے گماشتوں کو عیش و عشرت کا موقع فراہم کر کے وہاں کے عوام کا خون اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ لیکن جب سامراجی ممالک کو اپنے گماشتے کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو تو پھر مالیاتی شکنجہ بھی زیادہ کس دیا جاتا ہے اور حکمرانوں کو پہلے کی نسبت کم تنخواہ پر گزارا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
یہی کچھ گزشتہ سات دہائیوں میں یہاں بھی ہور ہاہے اور پاکستان میں رہنے والے کروڑوں عوام امریکی سامرج کے مفادات کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں یہاں پیدا ہونے والی دولت یہ مالیاتی ادارے لوٹ کر اپنے ممالک میں لے جاتے ہیں اور یہاں بھوک، بیماری، بے روزگاری، لاعلاجی اور موت چھوڑ جاتے ہیں۔ اس عمل میں یہاں کے حکمرانوں کو مقامی جیلر کے فرائض کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان حکمرانوں کی اپنی جائیدادیں اور بچے بھی بیرون ملک ہی رہتے ہیں اور یہ یہاں صرف عوام پر کوڑے برسانے کی ڈیوٹی سر انجام دیتے رہتے ہیں۔ اس عمل میں عوام کی سیاسی اُمنگوں اور خواہشات کو اس نظام کی حدود میں قید رکھنے کے لیے مختلف سیاسی پارٹیاں بھی موجود ہیں جو سامراجی طاقتوں کے گماشتے کا کردار ہی ادا کرتی ہیں۔ فوجی جرنیلوں کے اقتدار پر قبضے کے دوران بھی یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف جیلر کی وردی بدلی ہے لیکن کردار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اورجنرل ایوب خان سے لے کر مشرف اور موجودہ دور تک آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کا تسلسل ہی جاری ہے۔ ان پالیسیوں کو ملک کی معیشت کے لیے بہتری کا نسخہ قرار دینے والوں کی کمی نہیں لیکن دنیا میں آئی ایم ایف کے سب سے زیادہ امدادی پیکج لینے والے ملک کی حالت آج دنیا میں سب سے بدتر ہے اور کروڑوں محنت کش بھوک اور بیماری کے ہاتھوں موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس آنے کے بعد دو کروڑ سات لاکھ افراد کا روزگار ختم ہوا ہے جو ملک کی کل لیبر فورس کا 37 فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح 67 لاکھ محنت کشوں کی اجرتوں میں 2020ء کے لاک ڈاؤن کے دوران کمی ہوئی ہے۔ یعنی ان کے کام کے اوقات کار اتنے ہی رہے ہیں یا ان میں اضافہ ہوا ہے لیکن ان کی اجرتیں کم ادا کی گئی ہیں۔ دوسرے معنوں میں سرمایہ داروں نے ان کی محنت کو پہلے سے زیادہ لوٹا ہے۔ بے روزگار ہونے والوں کے اعداد و شمار بھی حقیقت سے کم لگتے ہیں لیکن اگر ان کو بھی درست مان لیا جائے تو بھی ایک اندازہ ہوتا ہے کہ بربادی کا حجم کس بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ کرونا سے پہلے کے دو سالوں میں بھی معاشی بحران کے باعث تقریباًاتنے ہی افراد بے روزگار ہو چکے تھے اور پورے سماج میں بربادی پھیلتی جارہی تھی۔ اس حوالے سے گزشتہ تین سالوں میں بے روزگار ہونے والوں کی تعداد چار کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اس دوران خلیجی ممالک میں معاشی بحران اور کرونا لاک ڈاؤن کے باعث بے روزگار ہو کر واپس آنے والے محنت کشوں کی تعداد بھی دس سے بیس لاکھ کے درمیان بنتی ہے۔ ان تمام محنت کشوں کی آمدن صرف ذاتی استعمال کے لیے نہیں ہوتی بلکہ خاندان کے اوسطاً پانچ سے چھ افراد اس آمدن پر انحصار کرتے ہیں۔ بے روزگار ہونے والا شخص اپنا اور اپنے خاندان کا علاج اور تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتا۔ مکان کا کرایہ نہیں دے سکتا اور نہ ہی بنیادی ضرورتوں پر اخراجات کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اشیائے خورد ونوش کی خریداری اس کے لیے مشکل ہو جاتی ہے۔ اس کا اظہار بنیادی اجناس کی فروخت میں کمی سے بھی ہوا ہے۔ جس میں سب سے بنیادی ضرورت آٹے کی قیمت میں ہوشربا اضافے کے باعث اس کی خریداری پہلے کی نسبت کم ہوئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں فاقے کرنے والے محنت کشوں کی تعداد کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ ورلڈبینک کی اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا کے دوران ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا جن کی خوراک کی فراہمی غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے۔ معاشی اصطلاح میں اسے Food Insecure کہا جاتا ہے لیکن عام طور پر یہ ایسے لوگ ہیں جو کئی دن فاقے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ تعداد آبادی کے تین فیصد سے بڑھ کر دس فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ یعنی بائیس کروڑ کے ملک میں یہ تعداد دو کروڑ بیس لاکھ بنتی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو لوگ پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے ان کی غربت میں بھی شدت اور گہرائی آئی ہے۔ اس عمل کو سمجھنا درمیانے طبقے کے بہت سے افراد کے لیے شاید مشکل ہو، کہ جو لوگ پہلے ہی غریب ہیں ان کو مزید کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کا واضح مطلب سب سے پہلے تو یہ ہے کہ وہ جو پہلے دن میں ایک دفعہ کھانا کھا سکتے تھے اب شاید دو یا تین دن تک کھانا نہیں کھا سکتے۔ پہلے جو اپنا تن ڈھانپنے کے لیے یا سر پر کوئی خیمہ لگانے کے لیے کوئی کپڑا لے سکتے تھے وہ اس سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ یعنی ان کی زندگی پہلے کی نسبت اب زیادہ موت کے قریب ہو چکی ہے۔ یہ عمل صرف سماج کی سب سے نچلی پرت تک محدود نہیں بلکہ تمام تر درمیانہ طبقہ بھی اسی عمل سے دوچار ہے اور اس کا سفر مسلسل نیچے کی جانب بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ علاج اور تعلیم کی سہولت آبادی کے مزید بڑے حصے کے لیے ایک خواب بنتی جا رہی ہے۔ کرونا وبا کے دوران ظالم حکمرانوں نے ہسپتالوں کو نجکاری کی بھینٹ چڑھا دیا اور لاکھوں افراد کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ ادویات کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح مہنگائی اور بے روزگاری کے حملے بھی شدت کے ساتھ جاری ہیں اور چھوٹے اور درمیانے کاروبار ختم ہو رہے ہیں جبکہ حکمرانوں کی عیاشیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ان کے لیے اربوں روپے کی سبسڈی، خصوصی پیکج اور مراعات کے اعلانوں کا سلسلہ جاری ہے تاکہ ان کی دولت میں تیز ترین اضافہ جاری رہے۔
محنت کشوں کو موجودہ حالت پر قناعت کرنا بھی مہنگا پڑے گا کیونکہ آئندہ مہینوں میں مزید بڑے حملوں کی تیاری کی جارہی ہے اور ان کا گوشت نوچنے اور ہڈیاں چبانے کے لیے حکمرانوں نے دانت تیز کر لیے ہیں۔ آئی ایم ایف سے کیے جانے والے معاہدے کے مطابق آئندہ تین ماہ میں بجلی کی قیمت میں پانچ روپے فی یونٹ تک کا اضافہ کیا جائے گا۔ اسی طرح اضافے کا یہ سلسلہ آئندہ مالی سالوں میں بھی جاری رہے گا اور اسی رفتار سے بجلی کی قیمت بڑھتی رہے گی۔ اس کا مقصد حکومت کے ٹیکس آمدن کے ٹارگٹ کو پوراکرنا اور ان سرمایہ دار مگر مچھوں کا پیٹ بھرنا ہے جنہوں نے نجی پاور کمپنیوں (IPPs) کے نام پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اب سرکلرڈیٹ کے نام پر لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان سرمایہ داروں میں حکمران طبقے کے بہت سے افراد بھی شامل ہیں۔ حکومت اپنی آمدن سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں پر ٹیکس لگا کر بھی پورا کر سکتی ہے اور اسی طرح دفاعی بجٹ سمیت حکمرانوں کی عیاشیوں پر ہونے والے اخراجات میں کٹوتی سے بھی آمدن بڑھ سکتی ہے لیکن سرمایہ داروں کو تو اربوں روپے سبسڈی میں دیے جاتے ہیں اور ان پر ٹیکس کا سوچنا بھی حکمرانوں کے نزدیگ گناہِ عظیم ہے۔ اس لیے ٹیکس کا تمام تر بوجھ محنت کشوں پر ہی ڈالا جاتا ہے۔ اسی عمل کو جاری رکھتے ہوئے اگلے مالی سال میں ٹیکس کی حصولی کا ہدف چھ ہزار ارب روپے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جو موجودہ مالی سال کے ٹارگٹ سے 27 فیصد زیادہ ہے۔ اس سال کا 47 سو ارب روپے ٹیکس کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا گیا ہے اور پھر بھی یہ ٹارگٹ پورا ہوتا ددکھائی نہیں دیتا۔ اس حوالے سے اگلے سال کے منصوبے تاریخ کے سب سے بڑے حملے بن چکے ہیں۔
اگلے مالی سال میں جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ یعنی اسے 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کیا جا سکتا ہے جس سے ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی اشیا، جیسے موبائل فون، جنہیں خصوصی حیثیت دے کر اس جی ایس ٹی کے نیٹ ورک سے دور رکھا گیا ہے انہیں بھی اس میں شامل کیا جائے گاتا کہ حکومت ٹیکس کا یہ تاریخی ٹارگٹ پورا کر سکے۔ پٹرول پر ٹیکس لگا کر اس سال حکومت 511 ارب روپے اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ آئی ایم ایف سے لے کر آئی ہے جس کے لیے ابھی پٹرول کی قیمت میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ لیکن اگلے مالی سال کے لیے آئی ایم ایف نے حکومت کو اس مد میں 607 ارب روپے اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ دیا ہے۔ دوسری طرف ترقیاتی اخراجات میں کمی کی جائے گی اور انفراسٹرکچر کے بہت سے منصوبے ختم کیے جائیں گے جبکہ پہلے سے موجود ڈھانچے کے لیے درکار مرمتوں اور تعمیرات کے لیے فنڈ موجود نہیں ہوں گے۔ صوبوں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اخراجات میں کٹوتی کر کے وفاقی حکومت کومزید رقوم بھیجیں تاکہ آمدن پوری کی جا سکے۔ اسی طرح درمیانے طبقے پر انکم ٹیکس میں بھی اضافہ ہوگا بلکہ نچلے طبقے کے افراد سے انکم ٹیکس وصول کرنے کی کوششیں کی جائیں گی اور ان پر بھی بالواسطہ ٹیکسوں کی بوچھاڑ کے بعد براہ راست ٹیکس بھی وصول کیے جائیں گے تاکہ ان کی جیب میں جو چند روپے بچ گئے ہیں وہ بھی سود خور حکمران لوٹ کر لے جائیں۔
اس تمام عمل سے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے امکانات بالکل بھی موجود نہیں بلکہ بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا اور بہت سی مقامی صنعتیں بند ہوں گی۔ سرمایہ دار پہلے ہی کسی قسم کا ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں اور ان پر اگر کوئی ٹیکس لگانے کی کوشش کی جائے تو وہ اپنا کاروبار کسی دوسرے ملک میں منتقل کر دیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک سافٹ وئیر ٹیکنالوجی کی کمپنی نے اپنا کاروبار پاکستان سے فلپائن میں منتقل کر دیا ہے کیونکہ وہ ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں تھی اور یہاں سے سالانہ لاکھوں ڈالر منافع کما رہی تھی۔ اسی طرح دفاعی بجٹ میں بھی کمی کاکوئی امکان نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوگا کیونکہ اس ملک میں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانی زیادہ ضروری ہیں چاہے لاکھوں لوگ کرونا اور دوسری بیماریوں اور بھوک سے ہلاک ہو جائیں۔ دفاع کے بجٹ کے اضافے کے لیے جو حربے استعمال کیے جاتے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے، بیرونی و اندرونی دشمن کاخوف، سیکورٹی کی مخدوش صورتحال اور ملک کی نازک صورتحال کا واویلا معمول بن چکا ہے۔ لیکن اس بجٹ کا استعمال جرنیلوں کے پھیلتے ہوئے کاروباروں میں واضح نظر آتا ہے یہاں تک کہ اب کرونا کے لیے ملنے والے فنڈ میں بھی خورد برد کا انکشا ف ہوا ہے جس کی سربراہی ایک جنرل کر رہا تھا۔ معیشت کی ڈوبتی ہوئی کشتی میں سے اس کو چلانے والے تیز ترین لوٹ مار میں مگن ہیں تاکہ جب معیشت دیوالیہ ہو تو وہ دیگر ممالک میں پر سکون زندگی گزارنے کی تیاری کر چکے ہوں۔ بیرون ملک پیزے کے کاروباروں سے لے کر رئیل اسٹیٹ تک میں پاکستانی حکمرانوں کی سرمایہ کاری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور پیسے کا انخلا بلندیوں کو چھو چکا ہے جبکہ یہاں پر آنے والی بیرونی سرمایہ کاری پہلے کی نسبت کم ترین سطح، جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم تک پہنچ چکی ہے جو معیشت کے بحران کی غمازی کرتا ہے۔
ورلڈ بینک کے اندازے کے مطابق موجودہ مالی سال میں پاکستانی معیشت کی شرحِ نمو 1.3 فیصد تک رہے گی جو اس معاشی بحران کی حقیقت کو واضح کرتا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ اس سے بھی کم ہو سکتی ہے، پہلے ہی پاکستان نے چند ماہ قبل آئی ایم ایف کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ ماضی میں غلط اعدادو شمار پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ اتنے کم شرحِ نمو کے باوجود افراطِ زر دس فیصد کی انتہائی بلند سطح پر ہے جبکہ اشیائے خورد ونوش پر یہ شرح کہیں زیادہ ہے۔ آٹے اور چینی کی قیمتوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جبکہ گھی، خوردنی تیل، بجلی، پٹرول اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتیں بھی تیز رفتار ی سے بڑھی ہیں۔ اس حوالے سے حقیقی افراطِ زر دس فیصد کی سرکاری رپورٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ صورتحال کسی بھی معیشت کی بیماری کی شدت بتانے کے لیے کافی ہے۔ ایک طرف صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور معیشت سکڑ رہی ہے جبکہ دوسری طرف افراط ِزر بڑھ رہا ہے اور عوام کی اکثریت غربت کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔
اس صورتحال سے باہر نکلنے کے لیے انقلاب سے کم کوئی راستہ نہیں۔ کچھ معیشت دان اور اپوزیشن کے سیاستدان یہ حل پیش کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے سامنے صحیح بھیک نہیں مانگی گئی اس لیے اتنی سخت شرائط عائد ہوئی ہیں۔ اگر گڑگڑا کر بھیک مانگی جاتی، غریب عوام کے واسطے دیے جاتے اور آقاؤں کے سامنے صحیح طرح ناک رگڑی جاتی اور فرشی سلام کیے جاتے تو غلامی کی شرطوں میں کمی ہو سکتی تھی۔ لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ غلاموں کے پاس حکم عدولی کی آپشن نہیں ہوتی اور انہیں ہر حال میں آقا کے احکامات تسلیم ہی کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے نتیجے میں ہونے والی بربادی کے اثرات یہاں کے حکمرانوں کی زندگیوں پر نہیں پڑتے۔ ان کی جائیدادیں اور دولت تو بیرون ملک محفوظ ہیں اور یہاں پر بھی ان کی زندگیاں کسی بادشاہ اور شہزادے سے کم نہیں۔ اس لیے اگر ان پالیسیوں کے اطلاق سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوجاتے ہیں، بھوکے مر جاتے ہیں، تعلیم اور علاج سے محروم ہو جاتے ہیں یا پھر ان سے روٹی، کپڑا اور مکان چھن جاتا ہے تو حکمرانوں کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔ ان کی پر تعیش زندگیوں کی رونق تو پہلے ہی بڑھتی جا رہی ہے اور وہ عوام کو یہ بھاشن دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ سکون تو صرف قبر میں ہے۔ لیکن خود اس سکون کے حصول کے لیے جدید ترین علاج سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں اور عوام کو مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
اس حکمران طبقے میں تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادتیں شامل ہیں اور اس کے علاوہ ریاستی اداروں پر براجمان اہلکار بھی شامل ہیں۔ ان تمام افراد کو زندگی کی ہر آسائش حاصل ہے اور ان کی اولادیں بھی دنیا کی ہر نعمت سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ سامراجی آقاؤں کی گماشگتی کرنے والے یہ افراد پالیسیاں بناتے وقت بھی سب سے پہلے اپنے طبقے کے مفادات کا ہی سوچتے ہیں اور ان کے منافعوں میں کسی بھی قسم کی کمی آئے تو اسے سبسڈیوں یا دیگر طریقوں سے پورا کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح آئین اور قانون میں بھی اسی طبقے کو تحفظ دیا جاتا ہے اور ان کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کوقانون اور آئین میں جرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہاں موجود تمام ریاستی اداروں کا مقصد اسی طبقے کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ایک طرف ان اداروں میں محنت کش ساری زندگی ایک چھوٹے سے مسئلے کے لیے ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں جبکہ حکمران طبقے کے افراد کے لیے قانون اور ریاستی ادارے ہاتھ باندھے لونڈی کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔
ایسے میں موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے عوام کے لیے کسی بھی قسم کے معاشی ریلیف کا امکان موجود نہیں۔ محنت کش طبقے کو متحد ہو کر اس سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا تب ہی وہ اپنی زندگی جینے کا حق حاصل کر سکتے ہیں۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اور چین سمیت تمام اداروں اور ملکوں کے قرضے ادا کرنے سے انکار کیا جا سکتا ہے اور عالمی سطح پر موجود سامراجی جونکوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان سامراجی طاقتوں نے جتنا قرضہ یہاں دیا ہے اس سے کہیں زیادہ سود کی مد میں واپس وصول کر لیا ہے۔ اس لیے یہاں کا محنت کش طبقہ جب اقتدار میں آئے گا تو یہ تمام قرضے دینے سے مکمل انکار کر دے گا۔ اسی طرح مقامی حکمرانوں کی بھی تمام تر جائیدادیں اور دولت ضبط کر لی جائیں گی اور بیرون ملک موجود ان کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا آغاز کیا جائے گا۔
اسی طرح یہاں موجود تمام ملٹی نیشنل اور مقامی صنعتیں مزدوروں کے اجتماعی کنٹرول میں لے کر جمہوری انداز میں مزدوروں کی اجتماعی ملکیت میں چلائی جائیں گی۔ تمام نجی بینکوں کا خاتمہ کر کے مزدور ریاست کا اپنابینک بنایا جائے گا جو کسی بھی سامراجی مداخلت سے پاک ہوگا۔ موجودہ سٹیٹ بینک آغاز سے ہی سامراجی طاقتوں کے اشارے پر چلایا جاتا رہا ہے لیکن اب اس کو مزید قدغنوں کا سامنا ہے اور سامراجی طاقتیں مقامی حکمرانوں سے نوٹ چھاپنے کی سہولت واپس لے رہی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست کی بنیاد کو ہی مقامی حکمرانوں سے واپس لیا جارہا ہے اور سامراجی طاقتیں اسے اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہ رہی ہیں۔ عمومی طور پر اسے ایک معاشی مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ یہ ایک سیاسی اور ریاستی معاملہ ہے اور جب اسٹیٹ بینک کے حوالے سے نیا بل پاس ہو جائے گا تو ملکی سالمیت مقامی حکمرانوں کے ہاتھوح سے نکل کر اصل آقاؤں کے پاس چلی جائے گی۔ اس کے بعد پاکستان کے حکمران اپنی مرضی سے نوٹ نہیں چھاپ سکیں گے اور ان کے پاس ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے بھی نہیں ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ریاست اور معیشت دیوالیہ پن کی نئی انتہاؤں کو چھوئے گی جو اس سے پہلے شاید انہی ممالک میں ہوا ہے جنہیں کسی بڑی جنگ میں شکست فاش ہوئی ہو۔
اس کا حل بھی صرف ایک انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ انقلاب محنت کش طبقہ ہی کر سکتا ہے اور اسے مقامی اور عالمی حکمرانوں کے خلاف اکٹھا ہو کر لڑائی میں اترنا پڑے گا۔ پہلے ہی مزدوروں اور کسانوں کی تحریکیں پورے ملک میں پھیل رہی ہیں اور ان کے حجم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ تحریکیں معاشی مطالبات سے سیاسی مطالبات کی جانب بڑھیں گی جو عمومی مزدور تحریک کے حوالے سے آگے کی جانب ایک فیصلہ کن قدم ہو گا۔ اس عمل میں مزدور طبقے کی اپنی سیاسی پارٹی کی تشکیل کا عمل بتدریج آگے بڑھے گا اور حکمران طبقے کی موجودہ تمام سیاسی پارٹیوں کے خلاف مزدوروں کی اپنی ایک فیصلہ کن سیاسی قوت کی تشکیل کا عمل شروع ہوگا۔ مزدور طبقے کی اپنی سیاسی پارٹی کی کمی اس وقت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے اور پورے ملک میں مختلف احتجاجی تحریکوں میں اس حوالے سے بحثیں بھی موجود ہیں۔ پہلے سے موجود عوام دشمن سیاسی پارٹیوں کے بارے میں محنت کشوں میں کسی قسم کا ابہام بھی موجود نہیں رہا اور یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہ پارٹیاں سامراجی طاقتوں کی دلال اور مقامی سرمایہ داروں کی نمائندہ ہیں۔ اسی طرح یہاں کے قانون، آئین اور دیگر ریاستی اداروں کے کردار کے حوالے سے بھی ابہام دور ہو چکے ہیں اور یہ واضح ہے کہ ان ریاستی اداروں کا بنیادی فریضہ مزدور دشمن کاروائیوں کو تحفظ دینا ہے۔
اسی لیے یہاں پر سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کا عمل تیز ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف انقلاب کے لیے بھی حالات پک رہے ہیں۔ اس نظام کو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے۔ اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے یا موجود ہ مالیاتی ڈھانچے، نجی ملکیت کے قوانین اور بینکوں و دیگر مالیاتی اداروں کو برقرار رکھتے ہوئے کوئی بہتری اور اصلاح ممکن نہیں۔
محنت کش طبقے کو معیشت کے تمام کلیدی شعبے اجتماعی ملکیت میں لینے ہوں گے، امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا، سرمایہ داروں کی تمام دولت ضبط کرنا ہو گی اور مزدور جمہوریت کے ذریعے ایک نئی مزدور ریاست تعمیر کرنا ہو گی۔ اس میں انگریزوں کا بنایا ہوا ریاستی ڈھانچہ ختم کر کے جمہوری بنیادوں پر منتخب مزدوروں پر مشتمل مزدور ریاست کے نئے ادارے تعمیر کیے جائیں گے۔ جہاں کوئی کسی پر ظلم نہیں کر سکے گا اور استحصال کا خاتمہ ہو گا۔ ہر شخص کو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہو گی اور جدید علاج، تعلیم اور تمام بنیادی سہولیات ہر شخص کو ریاست کی جانب سے مفت فراہم کی جائیں گی۔ سوشلسٹ انقلاب صدیوں کے مظالم کا انت کرے گا اور پوری دنیاسے سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد کا آغاز کرے گا۔ یہی سوشلسٹ انقلاب یہاں پر موجود ہر دکھ اور درد کا مداوا کرے گا اور مزدوروں کے آنگن خوشیوں سے بھر دے گا۔ اس کے علاوہ آگے بڑھنے کا کوئی بھی دوسرا راستہ موجود نہیں!