|تحریر: مارکَس کٹرینیئک، ترجمہ: یار یوسفزئی|
آکسفیم کی ایک نئی رپورٹ بعنوان ’امیر ترین لوگوں کی بقا‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عالمی غربت اور نا برابری میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ امیر اور غریب کے بیچ خلیج اتنی گہری ہو گئی ہے کہ آکسفیم کے سی ای او نے اپنی تقریر میں خبردار کیا کہ ”پورا سرمایہ دارانہ نظام خطرے سے دوچار ہے“۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ ڈیٹا ثبوتوں کے اس دیوہیکل ڈھیر کا ایک اور جز ہے کہ سرمایہ داری ایک کرپٹ نظام ہے جو محنت کش لوگوں کی قربانی دے کر امیروں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ جیسا کہ کارل مارکس نے 150 برس قبل لکھا تھا، ”سماج کے ایک حصے میں دولت کے ارتکاز کا مطلب سماج کے دوسرے حصے میں اذیت، سخت محنت کی تکلیف، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پستی کا ارتکاز ہوتا ہے“۔ بد قسمتی سے، یہ اقتباس آج پہلے سے کہیں زیادہ موزوں ہے۔
کارپوریٹ منافعے اور سرمایہ داری کا بحران
پچھلی دہائی میں پیدا ہونے والی نئی دولت کے نصف حصے پر امیر ترین ایک فیصد لوگ قابض ہوئے ہیں، جبکہ بقیہ نصف 99 فیصد میں تقسیم ہوا ہے۔ البتہ، اس خلیج میں حالیہ طور پر بڑا اضافہ ہوا ہے۔ 2020ء، یعنی کرونا وبا کے آغاز سے اوپری ایک فیصد نے پیدا ہونے والی نئی دولت کے دو تہائی پر قبضہ کیا ہے، جنہوں نے اس مختصر عرصے میں اپنے منافعے دگنے کر دیے ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں 42 ہزار ارب ڈالر کی دولت پیدا کی گئی، جس میں سے 26 ہزار ارب ڈالر کی دولت 1 فیصد کے پاس چلی گئی ہے، جبکہ محض 16 ہزار ارب ڈالر باقی انسانوں کو ملے ہیں۔
دنیا کے ارب پتی تاریخی منافعے کما رہے ہیں۔ پچھلی دہائی میں، ارب پتیوں کی تعداد اور ان کی دولت میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ 2020ء سے، ارب پتیوں کے منافعوں میں ہر دن 2.7 ارب ڈالر کا اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اعداد و شمار کو مزید دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ سماج کے نچلے 90 فیصد میں سے کسی شخص کے 1 ڈالر کمانے کے مقابلے میں ایک ارب پتی نے 17 لاکھ ڈالر کمائے ہیں۔
ایک طرف امیر تاریخی بلند ترین سطح کے منافعے کما رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب تمام ممالک کے محنت کش لوگوں کے حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق عالمی معیشت کا ایک تہائی اگلے سال کساد بازاری سے متاثر ہوگا۔ معیشت میں بدحالی آنے کے ساتھ ہر کہیں پر سرمایہ دارانہ حکومتیں محنت کشوں اور غریبوں کے اوپر بوجھ ڈالنے کے سب طریقے اپنائیں گی۔ آکسفیم کے مطابق ساری حکومتوں کا تین چوتھائی اگلے پانچ سالوں میں سماجی تحفظ کے اخراجات میں کمی کرے گا، جس دوران کٹوتیاں 7.8 ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہیں۔
دنیا بھر کے محنت کش طبقے کے معیارِ زندگی میں پہلے ہی بڑے پیمانے پر کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ، اقوامِ متحدہ کا ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) مسلسل دو سالوں میں گر گیا ہے۔ در حقیقت، ایچ ڈی آئی ہر 10 میں سے 9 ممالک کے اندر گر رہا ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ افراطِ زر ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق، عالمی افراطِ زر 2022ء میں 8.8 فیصد تک پہنچ گیا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ 6.6 فیصد تک گر جائے گا، مگر یہ بھی کرونا سے پہلے والوں سالوں کی نسبت تقریباً دگنا ہوگا۔ دنیا بھر میں 1.7 ارب محنت کشوں کی اجرتیں افراطِ زر سے مناسبت نہیں رکھتیں۔
ہر حوالے سے، زندہ رہنے کے اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔ خوراک کی قیمتوں میں تاریخی اضافے دیکھنے کو ملے ہیں۔ ایف اے او فوڈ انڈیکس، جو کئی مشترکہ خوراکوں کی عالمی قیمتوں کو ریکارڈ اور ان کا موازنہ کرتا ہے، کے مطابق خوراک کی قیمتوں میں اوسط 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا فوڈ پرائز انڈیکس، جو 1961ء سے فعال ہے، نے اپنے بلند ترین اضافے ریکارڈ کیے۔
کئی بنیادی خوراکوں کی قیمتیوں میں اگلے سال مزید اضافہ متوقع ہے۔ مثال کے طور پر، 2022ء کے دوران گندم کی قیمت میں کئی دفعہ ریکارڈ اضافہ ہوا۔ چاول، جو دنیا بھر میں اربوں لوگوں کے لیے بنیادی خوراک ہے، کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور مزید اضافے کے امکانات ہیں۔
اسی طرح، توانائی کی قیمتیں، جس میں کچھ حد تک کمی ہوئی ہے، اب بھی پچھلے 5 سالوں کی اوسط سے 75 فیصد زیادہ رہنا متوقع ہے، اور یہ اندازہ بھی موجودہ سال کی قیمتوں کے حوالے سے لگایا گیا ہے جن میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی ای اے) کے مطابق حالیہ طور پر بجلی تک رسائی حاصل کرنے والے 7 کروڑ 50 لاکھ افراد اخراجات برداشت نہ کرنے کے باعث اس سے محروم ہو جائیں گے۔ ایسا ہونے کی صورت میں 2023ء وہ پہلا سال بن جائے گا جس میں آئی ای اے نے بجلی سے محروم افراد کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔
دنیا بھر کے کروڑوں افراد اپنے گھروں کو گرم رکھنے، بجلی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے بیچ کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکہ میں، ایک چوتھائی گھرانے توانائی کے بل ادا کرنے کے لیے خوراک اور ادویات میں کمی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ برطانیہ، جہاں قیمتوں میں 65 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے، میں 30 لاکھ سے زائد گھرانے اس سردی میں گرمائش کی سہولت کے اخراجات بالکل بھی برداشت نہیں کر پائے ہیں۔
اس دوران، سرمایہ دار اس بحران سے منافعے کما رہے ہیں۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق خوراک اور توانائی کی سب سے بڑی 95 کمپنیوں کے منافعوں میں پچھلے سال دگنے سے زائد اضافہ ہوا۔ ان صنعتوں کی 306 ارب ڈالر کی ناقابلِ یقین آمدنی رہی، جس میں سے 257 ارب ڈالر امیر شیئر ہولڈرز کے بیچ تقسیم ہوئے۔
بالخصوص توانائی کی کمپنیاں غیر معمولی منافعے کما رہی ہیں۔ تیل کی امریکی کمپنی ایگزون نے پچھلے سال 56 ارب ڈالر کمائے، یعنی فی گھنٹہ 60 لاکھ ڈالر، جو کسی تیل کی کمپنی کے لیے تاریخ کا سب سے منافع بخش سال بن گیا۔ اس کے ہم وطن حریف شیورون کے منافعوں میں دگنا اضافہ ہوا، اور برطانوی کمپنی بی پی کے لیے بھی یہ کمپنی کی تاریخ کا سب سے منافع بخش سال رہا۔
سوشلزم یا بربریت
ایک دفعہ پھر، سرمایہ داری نے اپنا دیوالیہ پن ثابت کر دیا ہے۔ نا برابری اس نظام کا فطری خاصہ ہے۔ جب معیشت کا ایک دیوہیکل حصہ چھوٹی سی اقلیت کے قبضے میں ہو، ناگزیر طور پر دولت کی تقسیم بھی انتہائی نا برابری کے ساتھ ہوتی ہے۔ بحران کے بد تر ہونے اور عالمی معیشت کی گراوٹ جاری رہنے کے ساتھ، اس تقسیم میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔ سرمایہ دار ہمیشہ اپنے منافعوں کا دفاع کریں گے اور بحران کے عرصے میں محنت کشوں کے اوپر بوجھ ڈالنے کے راستے تلاش کریں گے۔
آکسفیم واحد ’حل‘ یہ پیش کرتا ہے کہ نئے ٹیکس متعارف کیے جائیں۔ مگر موجودہ حالات میں ایسا کرنا کسی ڈوبتی ہوئی کشتی پر پٹی لگا کر اسے بچانے کی کوشش کرنے کے مترداف ہوگا۔ اصلاح کے ذریعے ایک ایسے نظام سے لالچ ختم نہیں کی جا سکتی جس کی بنیاد ہی لالچ پر ہو۔
اس بحران سے نجات کا ایک ہی حل ہے: سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کا قیام۔ سرمایہ داری اپنی تہہ تک گل سڑ چکی ہے؛ اس کا تختہ الٹ کر اس کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا ہوگا۔ سوشلزم کے تحت، معیشت اجتماعی ملکیت میں ہوگی اور اس کا استعمال اوپر بیٹھے چند خونخواروں کے تنگ نظر مفادات کی بجائے سماج کی ضروریات پورا کرنے کے لیے کیا جائے گا۔ محض اسی بنیاد پر ہم ایک ایسا نظام قائم کر سکتے ہیں جو ہر کسی کی ضروریات پورا کرتے ہوئے انہیں با وقار زندگی فراہم کرے۔