نقیب اللہ محسود کے ریاستی غنڈے ایس ایس پی راؤ انوار کے ہاتھوں جعلی پولیس مقابلے میں قتل کے خلاف اور انصاف کے حصول کے لئے پختونخوا اور فاٹاسے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کل سے اسلام آباد میں دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔ ان میں بچے، بوڑھے اور جوان شامل ہیں جو طویل مسافت طے کر کے اسلام آباد پہنچے ہیں۔ اس لانگ مارچ کے دیگر مطالبات میں قبائلی علاقوں میں جاری فوج کشی، دہشت گردی کے خلاف جاری نام نہاد آپریشن، پختون پروفائلنگ اور ریاستی و قومی جبر کا خاتمہ شامل ہیں۔ عالمی مارکسی رجحان کا پاکستان سیکشن’لال سلام‘ ریاستی اداروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے نقیب سمیت ہزاروں معصوم افراد کے قتل کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ان میں ملوث سرکاری اور غیر سرکاری غنڈوں کو پھانسی دی جائے۔ قبائلی علاقوں میں جاری نام نہاد آپریشن اور ان آپریشنوں کی آڑ میں وہاں کے عوام پر کیا جانے والا ریاستی جبر فی الفور بند کیا جائے۔ دہشت گردوں کی ریاستی پشت پناہی بند کی جائے۔ پختون پروفائلنگ کے ذریعے محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کی زہریلی ریاستی کوششیں مردہ باد!
نقیب اللہ محسود کو 13جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک جعلی پولیس مقابلے میں بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا، اس وقت نقیب کی عمر محض 24سال تھی۔ نقیب اپنے آبائی علاقے سے کاروبار کی غرض سے کراچی منتقل ہوا تھا لیکن وہ اس ریاست اور اس کے اداروں کی وحشت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس قتل کو بھی ماورائے عدالت قتل کے بے شمار واقعات کی طرح دہشت گردی کیخلاف کاروائی بنا کر اور مقتول کو دہشت گرد بنا کر چھپانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن عوام میں ابلنے والے غصے کی وجہ سے سربازار کیا جانے والا یہ قتل رسوا نہ کیا جا سکا اور معاملہ کھلا تو یہ واضح ہو گیا کہ یہ بھتہ دینے سے انکار پر کیا جانے والا بہیمانہ قتل تھا۔
تفتیشی عمل میں ثابت ہوا کہ یہ قتل ایس ایس پی راؤ انوار نے کیا اور یہ کوئی پہلا قتل نہیں تھا بلکہ اس طرح کے 444واقعات میں راؤ انوار ملوث ہے۔ اور یہ صرف ایک شہر کا ایک ایس ایس پی راؤ انوار ہے اور پاکستان کی ہر گلی، ہر شہر میں راؤ انوار جیسے سینکڑوں ریاستی غنڈے اور ان کے غیر سرکاری کرائم پارٹنر موجود ہیں جو بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کے اس گھناؤنے کھیل میں شامل ہیں۔ اس طرح کے واقعات میں شامل کسی بھی فرد کے لئے کسی بھی قسم کی معافی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کے باوجود راؤ انوار ریاستی اداروں کی ناک کی نیچے سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا اور ابھی تک ریاستی ادارے اسے گرفتار نہیں کر سکے۔اس سے ہمیں ریاستی اداروں کی اپنے ’’وردی پوش پیٹی بھائی‘‘کے ساتھ ہمدردی کا بھی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
نقیب کا قتل اس ناکام ریاست کے عمومی کردار کو واضح کرتا ہے کہ یہ ریاست اور اس کے ادارے کس حد تک گل سڑ چکے ہیں۔اس واقعے نے واضح کر دیا کہ ریاست کے ادارے بری طرح کھوکھلے ہو چکے ہیں اور اس عمل میں سماج میں شدید غلاظت پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ پولیس کا ادارہ مکمل طور پر ایک سرکاری مافیا کا روپ دھار چکا ہے اور کرائے پر قتل، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، سمگلنگ، منشیات فروشی اور اسی طرح کی تمام تر سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ کسی بھی جگہ ہونے والے جرائم کا تعلق کسی نہ کسی طرح پولیس کے ساتھ جا نکلتا ہے۔ یہ کہانی محض ایک پولیس کے ادارے کی ہی نہیں بلکہ دیگر ادارے، فوج، عدلیہ،رینجرز اور پارلیمنٹ وغیرہ کا کردار بھی ایسا ہی غلیظ ہے۔
اس قتل نے جہاں ایک طرف ریاست کے جرائم پر سے پردہ اٹھایا ہے، وہیں ریاستی جبر کے خلاف عوام میں طویل عرصے سے پنپنے والے شدید غصے اور نفرت کو بھی اظہار کا موقع دیا ہے۔ ایک طویل وقت سے ریاست جس دھوکا دہی اور فریب کے ساتھ عوام کے بیچ قومی ولسانی نفرتوں کے بیج بو رہی تھی وہ بھی سب کے سامنے آشکار ہو گئے۔ اسی عمل میں جہاں ایک طرف فاٹا کے عوام کو غیر انسانی ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا تھا، وہیں دوسری طرف دہشت گردی کے نام پر باقی ملک کے عوام کو مستقل خوف میں مبتلا کیے رکھا گیا۔ اسی دوران دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ میں پختون عوام کو تاراج بھی کیا جا رہا تھا۔ ان کے گھر بار، زمینیں، فصلیں، کاروبار برباد کر دیئے گئے، لاکھوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا گیا۔ نہ صرف پختونخوا میں بلکہ باقی پاکستان میں بھی پختونوں کو سیکیورٹی کے نام پر زدوکوب کیا گیا اور عوام کے بیچ قومی نفرتوں کو ہوا دی گئی ۔ ریاست کا یہ گھناؤنا عمل ابھی بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے۔
دہشت گردی اس ریاست کی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔ جہاں ایک طرف محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں کو کچلنے کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے تو دوسری طرف حکمران طبقے اور ریاست کے مختلف دھڑے اپنی لوٹ مار کی لڑائی میں بھی اپنے ان ’سٹریٹجک اثاثوں‘ کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ وار آن ٹیرر کے نام پر اربوں امریکی ڈالر اس حکمران طبقے نے بٹورے اور اس خطے کو آگ اور خون میں نہلا دیا گیا۔ ایک طرف ڈالروں کے لالچ میں امریکی سامراج کی کاسہ لیسی جاری رکھی تو دوسری جانب مزید مال کے حصول اور خطے میں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے انہی دہشت گردوں کی آبیاری کی گئی۔ افغانستان کو تاراج کرنے میں پاکستانی ریاست کا غلیظ سامراجی کردار سب پر عیاں ہے۔ پہلے ڈالر جہاد اور پھر وار آن ٹیرر میں یہاں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔ مال پانی کی لڑائی جب شدت اختیار کر گئی تو اپنے ہی جہادی اثاثوں کے خلاف رنگ برنگ’آپریشن‘ بھی کئے گئے۔ مگر ان آپریشنوں کا خمیازہ بھی یہاں کی غریب عوام کو بھگتنا پڑا۔
قومی بنیادوں پر محنت کش عوام کے مابین نفرت پھیلانے کی ریاستی پالیسی اب کھل کر عیاں ہوتی جا رہی ہے۔ ریاست کی عوام دشمن پالیسیاں، اس کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کے خلاف ابھرنے والی نفرت اور اس نفرت کے نتیجے میں عوام کی کسی ممکنہ تحریک سے بچنے کے لئے ریاست مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ہے۔ اس سے قبل مذہب کے نام پر عوام کو طویل عرصے تک کاٹا جاتا رہا ہے لیکن مذہب کے حد سے زیادہ استعمال نے عوام میں اس عمل سے شدید بیگانگی کو جنم دیا ہے جس کے بعد ریاست کا ہتھکنڈہ قومی اور لسانی بنیادوں پر عوام کو کاٹنا ہے۔ پختونوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کرنا، بلوچوں کو بیرونی ایجنٹ اور ایسے ہی باقی محروم قومیتوں کے حوالے سے مختلف غلیظ آراء استوار کرنے کی ریاستی کوششیں اسی عمل کا حصہ ہیں۔دوسری طرف محکوم قومیتوں کے امرا اوردرمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے تنگ نظر اور رجعتی قوم پرستوں کی غلیظ نسل پرستانہ سیاست، ریاست کی ان گھناؤنی سازشوں کو تقویت دینے کا سبب بن رہی ہے۔ جہاں ایک طرف سرمایہ دار حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے لئے اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لئے محنت کش عوام کو قومی بنیادوں پر منقسم رکھنا ضروری ہے وہیں دوسری طرف ان قوم پرستوں کی سیاسی دکانداری اور لوٹ مار بھی انہی نفرتوں کو بڑھاوا دینے پر منحصر ہے۔ یہ دونوں پورے ملک کے تمام محنت کش عوام کے دشمن ہیں۔
پاکستانی ریاست کی بقا کااب کوئی بھی جواز موجود نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست کے ان اوچھے ہتھکنڈوں کیخلاف لڑائی کا واحد راستہ طبقاتی بنیادوں پر محنت کش عوام کی جڑت ہے۔ کسی بھی دیگر بنیاد پر لڑائی کے ذریعے غم و غصہ تو نکالا جا سکتا ہے لیکن اس بوسیدہ ریاست اور اس کو جنم دینے والے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر نہیں پھینکا جا سکتا۔ پاکستانی ریاست کو اکھاڑ پھینک کر اس کی جگہ ایک سوشلسٹ مزدورریاست کی تعمیر کے علاوہ ان تمام تر مسائل کا کوئی حل ممکن نہیں۔ غیر طبقاتی بنیادوں پر لڑی جانے والی مختلف قسم کی لڑائیاں پھر کسی نہ کسی شکل میں اس ریاست کو بقا کا جواز ہی مہیا کرتی ہیں۔ اب کے ہمیں ریاست کے ان تمام تر اوچھے ہتھکنڈوں کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر جواب دینا ہو گا تاکہ نسلوں کی محرومیوں، ذلتوں، رسوائیوں اور استحصال کا مشترکہ حساب لیا جا سکے۔
وحشی ریاست کی بربریت۔۔۔ مردہ باد!
قومی جنگ نہ مذہبی جنگ۔۔۔ طبقاتی جنگ، طبقاتی جنگ!
آگے بڑھو۔۔۔ محنت کشوں کی انقلابی پارٹی کے قیام کے لئے!
طبقاتی و قومی محرومی سے نجات کا واحد راستہ۔۔۔سوشلسٹ انقلاب!