|منجانب: لال سلام|
کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں گزشتہ جمعہ کی شب سینکڑوں افراد کے ہجوم نے تین نوجوانوں کو بے دردی سے مارا پیٹا جس میں ایک بلال نامی نوجوان جاں بحق اور دو شدید زخمی ہوئے۔ نہتے نوجوانوں پر مبینہ طور پر خواتین کی ویڈیو بنانے کا الزام لگایا گیا جبکہ ایک زخمی نیاز محمد نے ہسپتال میں پولیس کو بیان دیتے ہوئے خواتین کی ویڈیو بنانے کی بات کو رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ حجام کی دکان پر اپنے پیسے وصول کرنے گیا تھا جس پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دل خراش واقعہ نے پورے شہر کی فضا کو سوگوار کردیا اور عوام کی جانب سے اس بربریت کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس افسوسناک واقعے کی ویڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد انتظامیہ اور پولیس کے خلاف بھی شدید غصے کا اظہار کیا جارہا ہے جنہوں نے اس پورے واقعے میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے مجرموں کو موقع واردات سے فرار ہونے دیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق پولیس نے بارہ افراد کو گرفتار اور پانچ اہلکاروں کو غفلت برتنے پر معطل کردیا ہے۔ گرفتار افراد میں واقعے کے مرکزی ملزم جواد نامی حجام بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ اس واقعے میں قتل ہونے والے بلال نورزئی کی لاش کو رکھ کر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ سے کامیاب مذاکرات کے بعد احتجاجی دھرنا ختم ہوگیا، جب کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا ہے۔
ہزارہ ٹاؤن کے واقعہ کے پس منظر میں سوشل میڈیا پر چلنے والی بحثوں میں ریاست کے پے رول پر کام کرنے والے بعض عناصر اس کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاھتے تھے جس میں انہیں مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ دوسری طرف بعض قوم پرستوں نے اس اندوہناک واقعے کو نسل پرستی کا شاخسانہ قرار دے کر اس کی ذمہ داری پوری ہزارہ قوم پر ڈال دی اور مجموعی طور پر ہزارہ برادری کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ ہم قوم پرستوں کے اس موقف کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں مختلف قومیتیں زبانیں اور ثقافتیں تاریخی طور پر یگانگی کے ساتھ رہتی ہیں اور ان قومیتوں کے سماجی ارتقاء اور سماجی ساخت میں کبھی بھی فرقہ وایت اور نسل پرستی نہیں رہی ہے۔ نسل پرستی اور فرقہ واریت بلوچستان کے داخلی معاشرتی ارتقاء کی پیداوار نہیں بلکہ یہ بلوچستان پر اوپر سے مسلط کیے گئے رجحانات ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے ریاست نے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو مسخ کرنے کیلئے فرقہ وارانہ فسادات کو متعارف کروایا اور اس آگ کیلئے مظلوم ہزارہ عوام کو ایندھن بنایا گیا۔ پوری ہزارہ آبادی کو کوئٹہ اور بلوچستان سے کاٹ کر ان کو بیس سال سے اپنے گھروں میں محصور کیا گیا اور ان کے علاقوں کو نو گو ایریاز بنا کر ان کو کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور کیا گیا۔ اسی طرح، ریاست کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ بلوچستان میں قومیتوں اور نسلوں کے درمیان نفرت کے بیج بوکر اپنے سامراجی تسلط کو مضبوط کیا جائے اور اس عمل میں وہ تمام لوگ شریک ہیں جو قومیتوں کے درمیان نفرت کے زہر پر پلتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے موجودہ حالات میں جو لوگ کسی مخصوص قومیت یا زبان سے نفرت کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ اور ریاست کے ایجنڈے کو تقویت دے رہے ہیں۔
ہزارہ ٹاؤن میں ہونے والا واقعہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہوئے ہیں جس میں ریاستی اداروں کی غفلت یا در پردہ حمایت کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اسی طرح کے مشتعل ہجوم کی جانب سے 14 اپریل 2017ء کو عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کے قتل کا اندوہناک واقعہ پیش آیا تھا مگر تین سال گزرنے کے بعد بھی واقعے میں ملوث ان تمام مجرمان کو سزا دینا تو درکنار بلکہ ان تمام تر مجرمان کو جیل سے رہا ہونے کے بعد نسل پرستوں اور فرقہ پرستوں نے خاصا پروٹوکول دیا۔ اگرچہ ان دونوں واقعات کا پس منظر یکسر مختلف ہے مگر حکومت اور ریاستی اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے مشال خان کے قتل کو ایک کیس سٹڈی کے طور پر زیربحث لایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے دوران ہزارہ برادری کو فرقہ واریت کا نشانہ بنایا گیا اور ان تمام تر قتل عام میں ریاستی ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے ان تمام تر دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ اور اس تمام تر فرقہ واریت کی آڑ میں بلوچستان میں جاری سیاسی مزاحمت کو زائل کیا گیا اور یہ ایران اور سعودی عرب کے سامراجی عزائم اور آپسی تضادات کا برملا اظہار بھی تھا۔
سانحہ ہزارہ ٹاؤن کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مواد کے ذریعے یہ شعوری کوشش کی جارہی تھی کہ بلوچستان میں نسلی اور فرقہ وارانہ تضادات کو ہوا دی جائے۔ مگر اس تمام تر واقعے میں چند ایک شر پسند عناصر کو نکال کر باقی تمام تر محنت کش عوام نے اس کوشش کو مسترد کردیا اور صوبے میں آباد تمام برادر اقوام کے درمیان رواداری اور امن سے رہنے کی تلقین پر زور دیا۔ اس وقت کرونا وبا کے بعد نہ صرف بلوچستان یا پاکستان بلکہ پوری دنیا کے اندر اس ظالم نظام کے دلال حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے خلاف محنت کش عوام کے غصے کا لاوا پھٹنے کو ہے، جس کا اظہار ہم ملکی و عالمی سطح پر محنت کش طبقے کی چھوٹی بڑی احتجاجی تحریکوں کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ اورمحنت کش طبقے کے اتحاد کو توڑنے کے لئے دنیا بھر کے دلال حکمران اور سرمایہ دار اس طرح کے حربوں کے استعمال سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ کیونکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں ان کے پاس محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں بچا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سانحہ ہزارہ ٹاؤن حادثاتی طور پر پیش آنے والا ایک سانحہ ہے، اس واقعے کو نسلی، مذہبی اور فرقہ واریت کی بنیاد پر رنگ دینا ریاستی بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ ہم واقعے میں قتل ہونے والے بلال نورزئی سمیت زخمی ہونیوالے افراد کے خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں، اور حکومت وقت سے یہ پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ میں ملوث ان تمام تر عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں بلا تاخیر عملی کاروائی کریں۔ اور مجرمان کو ایسی سزا دیں تاکہ آئندہ ایسے واقعات کے رونما ہونے کا سدباب کیا جاسکے۔ اس واقعے کے پس منظر میں بہت سے پشتون اور ہزارہ نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر نسل پرستی اور فرقہ واریت کو رد کرتے ہوئے اقوام کے درمیان اتحاد پر زور دیا جو انتہائی قابل تحسین اقدام ہے اور ان کے بلند شعور کی غمازی ہے لیکن صرف اقوام کے درمیان اتحاد اور یگانگت کی اپیلیں کافی نہیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں ایک انقلابی نظریات سے لیس ایسی سیاسی قوت کی تشکیل کیلئے جدوجہد کی جائے جو اپنے سیاسی او انقلابی پروگرام میں تمام قومیتوں کے محنت کشوں اور عوام کیلئے قابل قبول ہو اور اس سیاسی قوت کا دامن اتنا وسیع ہو جس میں تمام قومیتوں،ثقافتوں اور زبانوں کے محنت کش و مظلوم عوام متحد ہو کر ان تفریقوں کو تقویت اور ان پلنے والے سرمایہ دارانہ نظام کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کر سکیں۔