حکمران طبقے کی جانب سے مہنگائی، بے روزگاری اور ٹیکسوں میں اضافے کے تاریخ کے بد ترین حملے جاری ہیں جس کے نتیجے میں پورا سماج تیزی سے تباہی اور بربادی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ آبادی کی وسیع ترین اکثریت دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے لیکن حکمران طبقے کی لوٹ مار اور پر تعیش زندگیوں کو جاری رکھنے والے نظام کو قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ محنت کش عوام کو جہاں ایک طرف تاریخ کی سب سے بڑی غربت، ذلت اور محرومی میں دھکیلا جا رہا ہے وہاں انہیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر بھی بد ترین جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اجرتوں میں اضافے، روزگار کے حصول اور دیگر ایسے بنیادی نوعیت کے مطالبات کے لیے احتجاج کرنے کی یہاں پر کوئی اجازت نہیں اور ریاستی ادارے اپنی تمام تر طاقت استعمال کرتے ہوئے ایسی کسی بھی کوشش کو پوری قوت سے کچلنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ حکمران طبقے اور اس کے نظام کو تحفظ دیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے آئین، قانون، عدلیہ اور انتظامیہ سمیت تمام ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ کوئی بھی حقیقی تحریک ابھرنے سے روکی جا سکے۔ اس دوران محنت کش طبقے کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے بھی اپنی ہی آلہ کار سیاسی پارٹیاں میدان میں اپوزیشن کے نام پر اتار دی جاتی ہیں جو حکمران طبقے کی باہمی لڑائیوں اور چپقلشوں کی جانب توجہ مبذول کروانے کی پوری کوشش کرتی ہیں اور تمام تر معاشی بحران کی ذمہ داری چند افراد پر ڈال کر پورے نظام کو بچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے انتخابات کا ناٹک بھی بہت دفعہ استعمال کیا گیا ہے اور جمہوریت کا لالی پاپ بھی اکثر حکمران طبقے کی جانب سے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ کبھی مارشل لا کے ذریعے اسی نظام کی رکھوالی کرنے والے وردی پوش اقتدار میں آ جاتے ہیں۔ امیر اور غریب پر مبنی اس نظام میں حقیقی جمہوریت ممکن ہی نہیں جہاں حکمرانی در حقیقت سرمایہ دار طبقے کے کنٹرول میں ہے اور اسی کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام تر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور اسی طبقے کی تمام تر ملکیت، منافعوں اور جائیدادوں کے تحفظ کے لیے یہاں تمام ریاستی اداروں کو قائم کیا گیا ہے۔
دوسری جانب مزدور طبقے کو اپنے حقوق کے لیے سیاسی طور پر منظم ہونے سے روکا جاتا ہے اور اسے قومی، لسانی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور دوسرے تعصبات میں تقسیم کر کے حکمران طبقے کی سیاست کی پیروی کرنے پر ہی مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن اب اس تمام تر ناٹک کا پردہ چاک ہوتا جا رہا ہے اور پورا سماج جس بربادی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے وہاں سے حکمران طبقے کے تمام تر ظالمانہ ہتھکنڈے محنت کش طبقے پر واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ اس تمام تر عمل میں سوشلسٹ نظریات کو محنت کش طبقے کی تحریکوں میں لے کر جانا انتہائی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے اور نجی ملکیت اور منافع خوری پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت پر نظریاتی بحثوں کو محنت کشوں میں اتارنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سرمایہ دار طبقے کی تمام تر دولت محنت کش طبقے کی مرہون منت ہے۔ یہ پورا سماج اور اس کے ہر حصے کو مزدور کی محنت کے بغیر چلایا ہی نہیں جا سکتا اور نہ ہی محنت کے بغیر کوئی سرمایہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جو اس کرۂ ارض پر تمام تر دولت پیدا کرتے ہیں وہ خود محرومی اور ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ اس محنت کااستحصال کرنے والے دنیا کی ہر نعمت سے مالامال ہیں اور ان کی زندگی کی رونقیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔
ان حالات میں سوشلسٹ نظریات پر بحثوں کا فروغ اور ان نظریات پر مبنی ایک منظم نظریاتی قوت کی تعمیر کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ اس حوالے سے آج سے 104سال قبل روس میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کی میراث کو یاد رکھنا اور اسے مزدور طبقے کی وسیع اکثریت تک لے کر جانا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس انقلاب کی بنیاد مزدوروں کی بنائی ہوئی خود رو سوویتوں نے رکھی تھی۔ سوویتوں کا آغاز صنعتی شہروں میں موجود فیکٹریوں کے اندر مزدوروں کی کمیٹیوں کے بننے سے ہوا تھا جہاں مزدور جمہوری انداز میں اپنے مسائل پر بحث کرتے تھے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ یہ کمیٹیاں پھیلتی گئیں اور فیکٹری کا کنٹرول سنبھالنے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے کے انتظامی امور کو بھی سنبھالتی گئیں کیونکہ اس وقت موجود زار کی پرانی ریاست اپنی بوسیدگی اور نااہلی کے باعث انتظامی امور سر انجام نہیں دے رہی تھی۔ یہ کمیٹیاں انقلابی حالات میں پورے شہر کا کنٹرول بھی سنبھالنے لگیں۔ جب پرانی ریاست دم توڑ کر ٹوٹ رہی تھی اور ان سوویتوں یا مزدوروں کی کمیٹیوں کاایک متبادل ریاست کے طور پر کھل کر اظہار شروع ہوا جس میں عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ جیسے تمام اداروں کا کردار انتہائی جمہوری انداز میں سوویتوں نے ادا کرنا شروع کر دیا۔ یہ درحقیقت ایک نئے سماجی معاشی نظام اور ایک نئے سماج کے بیج تھے جو تیزی سے پورے ملک میں پھیل گئے اور 1917ء کے انقلابی حالات میں ان کا انقلابی کردار مزید واضح ہو کر سامنے آیا۔ اس صورتحال میں بالشویک پارٹی کی قیادت میں لینن اور ٹراٹسکی نے واضح طور پر ایک سیاسی پروگرام دیا کہ پرانے ریاستی ڈھانچے کو فیصلہ کن انداز میں ختم کرتے ہوئے ان سوویتوں کو باضابطہ ریاست کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے انہیں اقتدار منتقل کیا جائے۔ اس مطالبے کو جمہوری انداز میں نہ صرف تمام سوویتوں نے اکثریت رائے سے قبول کیا بلکہ ملک کی وسیع اکثریت نے بھی اس کی حمایت کی اور ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کی جانب فیصلہ کن پیش رفت ہوئی۔
اس انقلاب کے بعد نجی ملکیت پر مبنی سرمایہ دار طبقے کی حاکمیت کے نظام کا خاتمہ ہوا اور مزدور طبقے کے راج کا آغاز ہوا۔ ملک کی تمام تر دولت اور ذرائع پیداوار مزدور ریاست کے جمہوری کنٹرول میں آگئے اور منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہر شخص کو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کیا گیا جبکہ تعلیم اور علاج ہر شخص کے لیے مفت قرار دیا گیا۔ انتہائی کم وقت میں دنیا کا ایک پسماندہ ترین ملک دنیا کی سپر پاور بنا اور سائنس وٹیکنالوجی میں اتنی ترقی حاصل کی کہ خلا میں پہلا شخص بھیجنے میں کامیاب ہوا۔ اس دوران پورے ملک سے بھوک، بیماری، غربت اور نا خواندگی کا خاتمہ کیا گیا اورایک جدید سماج کی تشکیل کی گئی۔خواتین کو گھریلو تشدد اور جبر سے نجات ملی اور ان کو دنیا میں پہلی دفعہ ووٹ کا حق ملنے سمیت تمام جمہوری حقوق ان کی دہلیز پر فراہم کیے گئے جبکہ گھریلو کاموں سے نجات کے لیے ریاست کی جانب سے کھانا پکانے، کپڑے دھونے اور بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داریوں کے لیے اقدامات کیے گئے جس کے باعث انہیں گھریلو غلامی سے نجات ملی۔مزدور ریاست میں منصوبہ بند معیشت کے باعث عالمی منڈی میں ہونے والی مہنگائی، قیمتوں میں اضافے یا عالمی مالیاتی بحرانوں کے اثرات سے پورا ملک محفوظ رہا اور تعمیر و ترقی کی نئی منزلیں طے کرتا رہا۔قومی جبر اور محرومی کا بھی مکمل طور پر خاتمہ ہوا اور ایک رضاکارانہ فیڈریشن کے قیام کے بعد مظلوم قومیتوں کو بھی ترقی اور خوشحالی کے اس سفر میں شریک کر لیا گیا۔ سٹالنزم کی زوال پذیری اور نظریاتی غداریوں کے باوجود جب تک یہ منصوبہ بند معیشت قائم رہی مزدور طبقہ سرمایہ داروں کے استحصال اور جبر سے محفوظ رہا۔ لیکن جب مزدور طبقے کی قیادت نے مارکسزم کے بنیادی نظریات کو چھوڑ دیا تو اس معیشت کی زوال پذیری اور انہدام نوشتہ دیوار بن گیا جس کی جانب لینن اور ٹراٹسکی نے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔
آج ضروت اس امر کی ہے کہ محنت کش طبقے کے احتجاجوں اور تحریکوں میں ان نظریات کو پہنچایا جائے اور ان بنیادوں پر ایک ایسی انقلابی پارٹی کی تیزی سے تعمیر کی جائے جو صرف چہروں کی تبدیلی یا انتخابات میں وقتی کامیابی کے حصول کے لیے کوشش نہ کرے بلکہ اس پورے سماجی معاشی نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کرے جو تمام تر تباہی اور بربادی کی بنیاد ہے۔آج صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی نجات کا واحد رستہ ہے۔